محرم و صفر 1436ھ
نومبر، دسمبر 2014ء شمارہ 32 اور 33
گوشہ خاص
سانحہ عظیم—- کیا ہم دوبارہ اسی سوراخ سے نہیں ڈسے جا رہے؟
ابو عمار سلیم
16 دسمبر کا ایک اور دن آیا اور گذر گیا۔ اس دن بھی سورج نکلا ہوگا اور اپنے مقررہ راستوں سے گزرتا ہوا اپنے وقت پر غروب بھی ہو گیا ہوگا۔ لوگ صبح صبح اُٹھ کر اپنے روزمرہ کے کاموں میں مصروف ہو گئے ہونگے۔ کہیں اخباروں میں اس دن کے حوالہ سے کوئی روکھی پھیکی خبر بھی شائد لگائی گئی ہوگی ، کسی روزنامہ کے کسی اندرونی صفحہ پر کوئی چھوٹی سی تحریر چھپی ہوگی ، کہیں کسی غیراہم اجتماع میں شائد کوئی مقالہ پڑھا گیا ہوگا۔ کسی سیاسی شخصیت نے شائد کوئی بیان بھی دے دیا ہوگا۔ ہماری طرح کسی اور درد مند دل نے بھی اُس دن اِس عظیم حادثہ کو شائد یاد کیا ہوگا۔ کوئی دل کڑھا بھی ہوگا۔ اِکا دُکا آنکھ نے کچھ آنسو بھی گرائے ہونگے۔ کچھ متاثرہ لوگوں نے اپنے بچھڑے ہوؤں کو یاد بھی کیا ہوگا جو اس دن کے حوالے سے صفحہ ہستی سے مٹا دئیے گئے۔ یہ سب کچھ شائد ہوا ہوگا مگر جس شدت کا حادثہ اس دن رونما ہوا تھا اور جس طرح اس قوم کو دو لخت کیا گیا تھا اس شدت سے اس کو شائد کم لوگوں نے ہی محسوس کیا ہوگا۔ جس قدر دکھ اور تکلیف سے یہ قوم گذری تھی ، جس طرح لوگ خون کے آنسو روئے تھے ، بین الاقوامی سطح پر قوم کو جس قسم کی شرمندگی اُٹھانی پڑی تھی ، کس طرح گھر کے گھر اُجڑ گئے تھے ، کس طرح لوگ بے سرو سامانی کے عالم میں اپنی جان بچا کر بھاگے تھے یہ سب کچھ اس قوم نے شائد بھلا دیا ہے۔ وقت کا پہیہ تیزی سے گھومتا جا رہا ہے اور رفتہ رفتہ وہ تمام زخم مندمل ہوتے جا رہے ہیں۔ اس وقت جو دکھ ہوا تھا ، جو تڑپ دل میں اٹھی تھی ، جو چوٹ پڑی تھی اور جتنا نقصان ہوا تھا ، وقت گزرنے کے ساتھ اس کی شدت میں اب کافی کمی آ گئی ہے۔ واقعی وقت بہت بڑا مرہم ہے۔ یادداشت بھی کمزور پڑ جاتی ہے۔ قدرت کا نظام بھی یہی ہے۔ وگرنہ زخم اگر ہمیشہ تازہ رہے اور اس کے مندمل ہونے اور بھرنے کی کوئی صورت موجود نہ رہے تو زندگی یقیناً عذاب بن جاتی۔ یہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا احسان عظیم ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ صبر بھی آ ہی جاتا ہے۔ زندگی کسی طور بھی یکلخت نہ خاموش ہوتی ہے نہ اس کی روانی میں کوئی کمی آتی ہے مگر یہ بھی قدرت کے نظام کا حصہ ہے کہ لوگ ٹھوکر کھا کر سنبھلتے بھی ہیں اور آئندہ کے لیے کسی ایسے ہی حادثہ سے دوچار ہونے کے امکانات کم کرنے کے لیے احتیاطی تدابیر بھی اختیار کرتے ہیں۔ کوئی بھی ذی ہوش شخص ایسا نہ ہوگا جو حالات کو اسی ڈگر پر چھوڑ دے اور دوبارہ پھر ٹھوکر کھائے۔ ہمارے آقا و مولا سیّد المرسلین خاتم النبین ﷺ نے اسی چیز کی طرف اشارہ کیا تھا اور فرمایا تھا کہ مومن ایک ہی سوراخ سے دوبارہ نہیں ڈسا جاتا۔
سانحہ مشرقی پاکستان رو پذیر ہوا اور اس کے بعد اس سانحہ کی روداد ، تفاصیل ، اس کی وجوہات اور حکومت وقت اور سیاسی پارٹیوں کی غلط روش ، منصفانہ اقدامات کو پس پشت ڈال دینا ، فوجی بڑوں کی نا اہلی اور ڈرپوکی کے اوپر بہت کچھ کہا گیا ، لکھا گیا اور کافی اوراق سیاہ کیے گئے۔ کوئی کمیشن بھی بنا جس نے اپنی رپورٹ میں بہت سی باتوں کی نشاندہی کی ، بڑے اہم اور دور رس نتائج پر مبنی اقدامات کے لیے اپنی گذارشات بھی پیش کیں ، مشورے بھی دئیے۔ کھلم کھلا بعض لوگوں کو مورد الزام بھی ٹھہرایا گیا ، ان کے خلاف مقدمات کی سفارشات بھی مندرج ہوئیں۔ مگر ہم سب جانتے ہیں کہ ہوا کچھ بھی نہیں۔ دانشوروں نے جن کو مجرم گردانا وہ دندناتے بھی پھرے اور آج بھی انتہائی ڈھٹائی سے نہ صرف یہ کہ حکومتوں میں شامل ہیں بلکہ لوگوں کی طرف سے عزت و وقار کے حامل بھی گردانے جاتے ہیں۔ میرا اس وقت ان باتوں کو چھیڑنے کا مقصد یہ نہیں کہ میں کوئی نئی بات کہہ دوں یا بہت دور کی کوڑی لاؤں۔ میں تو ایک محب وطن پاکستانی ہونے کی حیثیت سے اس دکھ کا اظہار کرنا چاہتا ہوں جو اس دن کے حوالے سے میں محسوس کر رہا ہوں۔
میں اپنی کم علمی اور انتہائی سطحی سوچ کے باوجود کچھ گذارشات پیش کرنا چاہوں گا۔ شائد ان میں کوئی دانشورانہ سوچ نہ ہو ، کوئی بہت اونچی پرواز بھی نہ ہو ، مگر اس میں دکھی دل کی آواز ضرور ہوگی۔ جو ہو گیا اس پر تاسف کا اظہار بھی ہوگا اور جو ہونے جا رہا ہے اس کے خوف سے جو ڈر اور تڑپ پیدا ہو رہی ہے اس کا بھی کچھ تذکرہ ہوگا۔ سب سے پہلی بات تو یہ کہ یہ ملک بنا ہی صرف اس لیے تھا کہ مسلمانوں کو اپنی مذہبی آزادی ہو اور اپنی شریعت مطہرہ کے مطابق اپنے معاملات کو چلانے کا موقعہ ملے۔ وہ کلمہ طیبہ جو ہمارا شعار تھا ہماری پہچان تھا اور ہمیں ایک جان بنائے رکھنے کے لیے سب سے بڑا سہارا تھا اس کو پاکستان بننے کے فوراً بعد ہم نے بھلا دیا۔ وہ کلمہ جس کے سہارے اتنی بڑی کامیابی مسلمانان ہند کے ہاتھ آئی تھی آخر کیوں آناً فاناً ذہن سے نکل گیا۔ کیوں اس کلمہ نے ہمیں یک جان بنا کر نہیں رکھا۔ اس کلمہ کے زیر اثر ہم صرف مسلمان کلمہ گو کیوں نہیں رہے اور گروہوں میں ، ٹکروں میں ، عصبیتوں میں کیسے تبدیل ہو گئے۔ تاریخ شاہد ہے کہ ملک بنتے ہی ہمارے یہاں جوتیوں میں دال بٹنے لگی۔ ہمارے دشمنوں نے بغلیں بجانی شروع کر دیں۔ ایک نئی قوم ، پاکستانی قوم کی حیثیت سے وجود میں آئی تھی اور اپنی پیدائش کے فوراً بعد جو قوم کو کرنا چاہیے تھا وہ نہیں کیا گیا۔ ہم نے اپنی پہچان کھونے میں دو دن بھی نہیں لگائے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا ارشاد ہے :
ذَٰلِكَ بِأَنَّ ٱللَّهَ لَمۡ يَكُ مُغَيِّرٗا نِّعۡمَةً أَنۡعَمَهَا عَلَىٰ قَوۡمٍ حَتَّىٰ يُغَيِّرُواْ مَا بِأَنفُسِهِمۡ وَأَنَّ ٱللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٞ ٥٣ ( الانفال : 53 )
” یہ اس لیے کہ بے شک اللہ اس انعام کو جو وہ کسی قوم پر کرتا ہے اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک کہ وہ خود اپنے آپ کو نہ بدل ڈالیں ، بے شک اللہ سننے والا ، جاننے والا ہے۔”
اللہ نے برصغیر کے مسلمانوں کو ایک نعمت عطا کی تھی جب ہم نے اس کی قدر نہ کی تو اسی آیت کی رو سے اللہ نے بھی ہماری مدد نہیں کی۔ اگر ہم نے اس نعمت کی حفاظت کی ہوتی اور دنیا میں اپنی قومی حیثیت کو منوانا چاہا ہوتا تو اسی آیت کی رو سے ہماری حالت بھی تبدیل ہوتی۔ سورة النجم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا :
وَ أَن لَّيۡسَ لِلۡإِنسَٰنِ إِلَّا مَا سَعَىٰ ٣٩ ( آیت نمبر 39 )
” اور بے شک انسان کے لیے وہی ہے جس کی اس نے کوشش کی ۔”
ہم نے کوشش کی ہوتی تو ہمیں ہی فائدہ ہوا ہوتا۔ ہم نے اللہ کی بتائی ہوئی باتوں پر عمل ہی نہیں کیا۔ اللہ کا حکم تھا :
وَأَطِيعُواْ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُۥ وَلَا تَنَٰزَعُواْ فَتَفۡشَلُواْ وَتَذۡهَبَ رِيحُكُمۡۖ وَٱصۡبِرُوٓاْۚ إِنَّ ٱللَّهَ مَعَ ٱلصَّٰبِرِينَ ٤٦ (سورة انفال : 46 )
” اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو ، آپس میں اختلاف مت کرو کہ پست ہمت ہو جاؤ اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے ، اور صبر کرو بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔”
اس آیت کی انتہائی خلاف ورزی کرتے ہوئے ہم نے آپس میں اختلاف کیا۔ اپنے ذاتی اور گروہی فوائد کو سامنے رکھا : أَرَءَيۡتَ
مَنِ ٱتَّخَذَ إِلَٰهَهُۥ هَوَىٰهُ أَفَأَنتَ تَكُونُ عَلَيۡهِ وَكِيلًا ٤٣ ( الفرقان : 43 ) اور اپنی خواہش نفس کو اپنا سب سے بڑا کام سمجھا۔ تو پھر وہی ہوا جو اللہ کی سنت ہے کہ ہماری ہوا اکھڑ گئی۔ متحد اور متفق تو ہم شروع ہی سے نہ تھے اسی لیے شائد ہماری جڑیں کٹنی شروع ہو گئیں اور پھر پوری عمارت دھڑام سے زمین بوس ہو گئی۔ اللہ نے تو اس قوم کو اس لیے بنایا تھا : ٱلَّذِينَ إِن مَّكَّنَّٰهُمۡ فِي ٱلۡأَرۡضِ أَقَامُواْ ٱلصَّلَوٰةَ وَءَاتَوُاْ ٱلزَّكَوٰةَ وَأَمَرُواْ بِٱلۡمَعۡرُوفِ وَنَهَوۡاْ عَنِ ٱلۡمُنكَرِۗ وَلِلَّهِ عَٰقِبَةُ ٱلۡأُمُورِ ٤١ ( الحج : 41 ) مگر ہمیں زمین پردسترس ملی تو نماز قائم کرنے اور زکوٰة ادا کرنے اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی بجائے اپنی خواہشات کو اپنا خدا بنا لیا۔ تو جب ہم نے وہ نہ کیا جو اللہ تعالیٰ چاہتے تھے تو اللہ وہ کیوں کرتا جو ہم چاہ رہے تھے۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا تھا کہ باہم جُڑ کر رہو۔ ایک مومن کو تکلیف ہو تو تمام لوگوں کو تکلیف ہو۔ مگر کیا ہم ایک ہو کر رہے؟
سب سے زیادہ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ہم نہ کل متحد تھے نہ آج ہیں۔ ہم کلمہ گو کل بھی تھے اور آج بھی ہیں مگر شائد ہم مسلمان نہ کل تھے نہ آج ہیں۔ ہم بس نام کے مسلمان ہیں۔ زبانی جمع خرچ اور بس۔ نہ ہمیں اسلامی احکام سے کوئی غرض ہے نہ اس کو اپنی زندگی میں شامل کرنے سے کوئی دلچسپی ہے۔ ہم اپنی ہوائے نفس کے پیچھے بھاگے چلے جا رہے ہیں۔ ہمارے علماء اپنے کام سے اعراض برت رہے ہیں۔ سچی بات بولتے ہوئے ، نہی عن المنکر کرتے ہوئے اس قدر ڈر رہے ہیں کہ ان کی گھگھی بندھی ہوئی ہے۔ دانشور عقل و دانش سے بہت دور ہیں۔ مضحکہ خیز باتیں ڈنکے کی چوٹ پر بولے چلے جا رہے ہیں۔ نہ قوم کی دینی احکام کی پرواہ ہے نہ شعائر اسلامی کی۔ نہ ملک کی ترقی میں حکام کو دلچسپی ہے اور نہ ہی عام آدمی کو اس کا شعور ہے کہ یہ حکام ہمیں کس طرح ہمارے دشمنوں کے چنگلوں میں پھنسائے چلے جا رہے ہیں۔ سود جس کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے جنگ کے برابر قرار دیا گیا ہے ، شروع دن سے اس قوم کے پلے باندھ دیا گیا ہے۔ سود در سود کا ایسا چکر چلایا گیا ہے اور اس کو اس قدر خوش نما بنا کر پیش کیا گیا ہے کہ آج ایک عام آدمی یہ کہتا ہے کہ اس کے بغیر تو معیشت کا چلنا ہی محال ہے۔ معاذ اللہ۔ اللہ کی ناراضگی کی ہمیں کیا فکر۔ استغفراللہ۔
اتحاد کی یہ صورت حال ہے کہ ہم ہر اس صورت میں گروہ در گروہ ہیں جو امکان میں ہے۔ علاقائی بنیادوں پر بھی ، لسانی بنیادوں پر بھی۔ قومیت اور ذات برادری کی شکل میں بھی اورصوبے اور ڈسٹرکٹ کی سطح پر بھی الگ الگ اتحاد ہے۔ بعض لوگ تو ایسے ہیں کہ جن کا مختلف گروہوں کے ساتھ اتحاد ہے اور جس طرف فائدہ ملنے کا امکان ہو ، اس اتحاد کا ساتھ دیتے ذرا دیر نہیں لگتی۔ من حیث القوم ہم ایک قوم کی طرح نہ رہتے ہیں اور نہ ہی ایک قوم کی طرح کا ہمارا رویہ ہے۔ دنیا بھر میں امت مسلمہ کا حال بہت پتلا ہے مگر جو حال پاکستانی قوم کا ہے وہ تو انتہائی دگرگوں ہے۔ سوچنے والا ذہن یہ سوچتا ہے کہ نہ ہمارے اندر غیرت قومی ہے اور نہ ہی حمیت دینی۔ کسی بچے سے بھی پوچھیں تو وہ یہی کہے گا کہ ہم کل کی نسبت آج زیادہ پرا گندہ اور بکھرے ہوئے ہیں اور اگر یہ واقعی حقیقت ہے تو ایسے میں ہمارا انجام کیا ہونے والا ہے۔ کیا ہم پھر اس روش پر نہیں چلے جا رہے ہیں جس نے ہمیں دولخت کر دیا تھا۔ ہمارہ شیرازہ بکھیر دیا تھا۔ کیا آج ہم نے پھر وہی ماحول نہیں بنا دیا ہے جہاں ہم نے اپنے دشمنوں کو کھلی چھٹی دے رکھی ہے کہ وہ ہمارا تیا پانچا کر دیں۔ ہمیں توڑ پھوڑ کر ہمارا شیرازہ بکھیر دیں اور ہمیں ایک دفع پھر اسی طرح ٹکرے ٹکرے کر دیں جیسے پہلے کیا تھا۔ بلکہ پہلے تو دو ٹکرے کیا تھا اب پچیسیوں حصوں میں توڑ دیں۔ کیا ہم دوبارہ اسی سوراخ سے نہیں ڈسے جا رہے جس سے ایک دفعہ پہلے بھی ڈسے گئے ہیں۔
یا ہم پھر اسی قسم کے سانحہ سے دوچار ہونے والے ہیں جو اب سے کچھ عشرہ پہلے رو پزیر ہوا تھا۔ اگر واقعی ایسا ہی ہے تو یقین جانیے اب جو ٹوٹ پھوٹ ہوئے تو میرے منہ میں خاک پاکستان کا نام و نشان بھی باقی نہ رہے گا۔ ہنود و یہود کی آنکھ کا کانٹا نکل جائے گا۔ العیاذ باللہ۔