سیّد علی مطہر نقوی سے فکر انگیز گفتگو


جریدہ "الواقۃ” کراچی، شمارہ  7  ذوالحجہ 1433ھ/ اکتوبر ، نومبر 2012

ابو موحد عبید الرحمن

سیّد علی مطہر نقوی سے  فکر  انگیز  گفتگو

سیّد علی مطہر نقوی موجودہ امیر جماعت اسلامی پاکستان سیّد منور حسن کے خسر ہیں ۔ وہ خود بڑے متحرک و فعال شخصیت کے حامل رہے ہیں ۔ انہوں نے کئی اہم کتابیں شائع کی ہیں ۔ پاکستان میں پہلے پہل مولانا عبد الشکور فاروقی لکھنؤی اور مولانا عامر عثمانی کے افکار و نظریات کی اشاعت بھی انہیں کا حصہ ہے ۔ انہیں اپنے عہد کے کبار علماء کی ہم نشینی و ہم جلیسی کا شرف حاصل رہا ہے ۔ اس اعتبار سے ان کا سینہ قیمتی معلومات کا مخزن ہے ۔ اسی اہمیت کے پیش نظر ادارہ ” الواقعة ” نے ان کے ساتھ ایک فکری نشست کا اہتمام کیا ۔ اس دوران ان سے مختلف موضوعات پر گفتگو رہی ۔


الواقعة:اپنی ابتدائی زندگی اور خاندانی پسِ منظر سے متعلق آگاہ فرمائیے ؟
سیّد علی مطہر نقوی : میری پیدائش ١٩٢٣ء میں امروہہ کے نقوی سادات خاندان میں ہوئی ۔ میرے تایا سید علی متقی امروہہ کے مشہور و معروف اصحاب میں سے تھے ۔ وہ امروہہ مسلم لیگ کے تا حیات صدر رہے ۔ انہیں اپنے زمانے میں سیاسی اعتبار سے نمایاں مقام حاصل تھا ۔ مولانا شوکت علی اور دوسرے سیاسی رہنما ان سے ملنے امروہہ تشریف لایا کرتے تھے ۔

الواقعة:آپ اپنی تعلیمی زندگی میں کن اساتذہ سے متاثر ہوئے ؟
سیّد علی مطہر نقوی : میری تعلیمی زندگی تو کوئی خاص نہیں تاہم مولانا انوار الحق صاحب شفیق استاد تھے ۔

الواقعة:اپنی علمی زندگی میں آپ کن اشخاص سے متاثر ہوئے ؟
سیّد علی مطہر نقوی: میں پہلے نمبر پر امام اہل سنت علامہ عبد الشکور فاروقی لکھنؤی سے بے انتہا متاثر رہا ہوں اور خود کو ان کا نیاز مند سمجھتا ہوں اور دوسرے نمبر پر مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی علیہ الرحمة سے متاثر ہوں ۔

الواقعة:مولانا عبد الشکور لکھنؤی سے اپنے اس خاص ارتباطِ قلبی اور نیاز مندانہ تعلقات کی تفصیل بیان فرمائیے ؟
سیّد علی مطہر نقوی: علامہ لکھنؤی تو اپنے دور کے ممتاز علماء میں سر فہرست ہیں اور یقینا وہ صحیح معنوں میں امام اہل سنّت تھے بلکہ علامہ یوسف بنوری بھی انہیں ” امام اہل سنت ” کے لقب سے یاد فرمایا کرتے تھے ۔ مفتی اعظم مفتی کفایت اللہ صاحب انہیں ” جامع معقول ومنقول ” بتلاتے تھے ۔علی میاں انہیں نہ صرف ” عمیق النظر فقیہ ”لکھتے ہیں بلکہ اپنے دور کا ” مجدد” بھی قرار دیتے تھے ۔ مجھے اور میرے بڑے بھائی یعنی قاری علی تجمل نقوی امروہوی کو علامہ لکھنؤی سے خاص قلبی انس تھا ۔ خود علامہ لکھنؤی بھی ہم سے محبت رکھتے تھے بلکہ آپ کی جب پاکستان آمد ہوئی دو بار ، تو دونوں بار تمہیدی گفتگو کے فوراً بعد اپنے مخصوص لہجہ میں بھائی کے متعلق دریافت فرماتے کہ تجمل کا کیا حال ہے ۔

الواقعة:مولانا سیّد ابو الاعلیٰ مودودی سے کب اور کس طرح متعارف ہوئے ؟
سیّد علی مطہر نقوی: فکرِمودودی سے میری پہلی آشنائی بذریعہ ترجمان القرآن ہوئی ۔ یہ ١٩٣٢ء کی بات ہے جب میں نے ” اشارات ” کا مطالعہ کیا اور پورے یقین کے ساتھ اس نتیجہ پر پہنچا کہ یہ شخص ( یعنی سید مودودی ) صحیح اسلامی فکر کا حامل ہے اور اس کی دلیل نہ صرف سید صاحب کی کتابیں ہیں بلکہ ان کی کتاب زندگی بھی اسی پر شاہد ہے ۔ ان کی کتابیں اور کتاب زندگی میں آپ عین مطابقت پائیں گے ، یہی معاملہ ان کی صورت و سیرت کا ہے کہ وہاں بھی اس ناچیز نے فطرت کی جھلک کو واضح طور پر محسوس کیا ۔ میری سید صاحب سے خود ان کے گھر پر ملاقاتیں رہتی تھیں ، میرا قلبی تاثر ان کے متعلق یہی کچھ تھا جو میں نے آپ سے بلا تکلف بیان کیا ۔

الواقعة:آپ نے امّت مسلمہ کے دو بڑے اصحاب علم و فضل یعنی مولانا لکھنؤی و مولانا مودودی کا ذکر خیر کیا ۔ آپ کی اس قلبی محبت نے کیا ان دونوں شخصیتوں کے مابین کوئی نکتۂ اشتراک بھی دریافت کیا؟
سیّد علی مطہر نقوی:  جی ! بڑا عمدہ سوال ہے ، یقینا ہم ان دونوں اکابرین کے مابین نکتۂ اشتراک پاتے ہیں اور یہ نکتۂ اشتراک دونوں اکابرین کے مابین محبت و قدر دانی کا ہے ۔ دونوں ہی اکابرین ایک دوسرے کی جلالت علمیہ کے معترف تھے ۔ چنانچہ میں آپ کو بتاتا ہوں کہ سیّد صاحب کے انتقال پر جب جانا ہوا تو جہاز میں میری ساتھ والی نشست پر محترم مولانا ملک غلام علی مرحوم ( مؤ لف ” خلافت و ملوکیت پر اعتراضات کا تجزیہ ” ) بھی تشریف فرما تھے ۔ انہوں نے اس موقع پر سیّد صاحب کے یہ الفاظ علامہ لکھنؤی کے بارے میں روایت کیے کہ” میں علامہ عبد الشکور لکھنؤی کے علم و فضل و تدین کا تہہ دل سے معترف ہوں ۔” اور ادھر خود مولانا عبد الشکور صاحب بھی سید صاحب کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے ۔ چنانچہ جس دور میں سید صاحب کے خلاف فتوے بازی کی مہم جاری تھی کچھ مخالفین آپ کے پاس فتویٰ لینے آئے ، آپ نے اس وقت فتویٰ دینے سے انکار کردیا اور کہا کہ جب تک خود اصل مآخذ کا مشاہدہ نہ کرلوں ، فتویٰ نہ دوں گا ۔چنانچہ آپ کوسید صاحب کی اصل کتب بھجوائی گئیں ۔ جب آپ نے ان کا مطالعہ کیا تو واضح الفاظ میں یہ خلاصۂ تحقیق بیان فرمایا کہ ” لوگ جو باتیں کرتے ہیں مجھے تو ان کا شائبہ بھی نظر نہیں آتا ، زیادہ سے زیادہ اگر کچھ کہا جا سکتاہے تو وہ عدم احتیاط ہے ۔” آپ دیکھیے کہ کس قدر معتدل و محتاط لوگ ہیں اور مولانا لکھنؤی کے یہاں احتیاط کا عالم یہی تھا کہ اصل مآخذ پڑھے بغیر تبصرہ نہ فرماتے تھے ۔ ایک بار میں آپ سے ملنے بنوری ٹائون گیا تو آپ کی میز پر ” خلافت معاویہ و یزید ” رکھی تھی فرمانے لگے محمود عباسی صاحب آئے تھے ، تقریظ لکھوانا چاہ رہے تھے میں نے کہہ دیا ہے کہ بغیر پڑھے تقریظ نہ کروں گا ، گو تقریظ تو آپ نے بعد میں بھی نہ لکھی اور بھلا آپ کیسے کسی ناصبی کی تائید کرسکتے تھے لیکن اصل مآخذ پڑھے بغیر آپ کوئی تبصرہ نہیں کرتے تھے ۔

الواقعة:آپ نے فتنہ ناصبیت کی بات کی اور اس سلسلہ میں آپ نے اس فتنہ کا علمی محاسبہ بھی اپنی تالیف ” محمود احمد عباسی اپنے عقائد و نظریات کی آئینے میں ” کیا ہے ،اس حوالے سے تحریک کیونکر بیدار ہوئی ؟
سیّد علی مطہر نقوی: میں دراصل خود بھی اس قسم کے علمی موضوعات سے شغف رکھتا ہوں ۔ میں یہ دیکھ رہا تھا کہ ایک منظم تحریک جو شیعیت کے مقابلہ میں میدان میں آئی ہے وہ حدود سے تجاوز کر رہی ہے اور اپنی اصل منزل کی طرف گامزن ہونے کی بجائے خانوادئہ اہل بیت پر تبرا کر رہی ہے اور یوں ناصبیت کا شکار ہو رہی ہے ۔ اس لیے ضروری ہوگیا تھا کہ ان کی اصلاح کی جاتی تاکہ اہل سنت کی توانائیاں غلط سمت میں استعمال نہ ہو پائیں ۔ باقی سیاسیات کے باب میں بھی یہ فطری سوال جنم لے رہا تھا کہ اگر عمر فاروق بھی خلیفہ راشد ہیں اور یزید بھی خلیفہ راشد ہے تو پھر مسلمانوں کا تصور خلافت آخر ہے کیا اور رہ کیا جاتا ہے ؟؟

الواقعة:آپ کے بڑے بھائی محترم قاری علی تجمل نقوی امروہوی ایک مشہور ادبی شخصیت رہے ہیں ، ان کے متعلق بھی ہمیں آگاہ فرمائیے ؟
سیّد علی مطہر نقوی: میرے بھائی قاری علی تجمل نقوی بڑی اعلیٰ صلاحیتوں کے حامل تھے ۔ وہ فارسی زبان میں ید طولیٰ رکھتے تھے ۔ لکھنؤ ریڈیو اسٹیشن سے بھی منسلک رہے ۔ میں عنقریب ان کا فارسی دیوان بھی شائع کرنے والا ہوں ۔ جس میں انہوں نے علامہ لکھنؤی و علامہ مودودی پر بھی قصائد سپرد قلم کیے ہیں ۔ بھائی کی شیعہ شعراء کے ساتھ امروہہ میں نوک جھونک چلتی رہتی تھی ۔ ایک بار بھائی کے ایک قصیدے کا جواب رئیس امروہوی صاحب نے اپنے تئیں دینے کی کوشش بھی کی لیکن جب یہ قصیدہ خود اہل تشیع مکتبہ فکر کی مجلس میں پیش کیا گیا تو قابلِ رد قرار دیا گیا کہ اس میں فارسی ادبیت کی وہ چاشنی نہ تھی جو بھائی کے قصیدہ میں ملحوظِ خاطر رکھی گئی تھی ۔ بھائی کو مولانا لکھنؤی ، مولانا مودودی ، علامہ اقبال اور جگر مرادآبادی سے بے حد عشق و تعلق تھا ۔

الواقعة:آپ کے بھائی علامہ موسیٰ جار اللہ سے بھی متعلق رہے ، اس حوالے سے بھی کچھ فرمائیے؟
سیّد علی مطہر نقوی: آپ کو معلوم کہ علامہ موسیٰ جار اللہ کا شمار کبار روسی علماء میں ہوتا ہے ۔ بھائی کے ان سے برادرانہ تعلقات تھے ۔ علامہ موسیٰ جار اللہ مجاہد آدمی تھے ۔ اسٹالن ان سے بہت خائف رہتا تھا ۔ اسٹالن اپنے مخالفوں کو ایک لمحہ برداشت نہ کرتا تھا اور انہیں موت کے گھاٹ اتار دیتا تھا ۔ اس نے علامہ سے بھی کہاکہ مزاحمت و تنقید کرنا چھوڑ دو ورنہ موت کے لیے تیار ہوجائو ۔ اس پر علامہ موسیٰ جار اللہ نے فرمایا کہ اسی باب شہادت کا تو میں منتظر ہوں ۔ تاہم اسٹالن اپنی اس سرکشی سے باز رہا لیکن پھر انہیں جلا وطن کردیا۔ پھر وہ وہاںسے ہندوستان چلے آئے ۔ یہاں وہ پشاور کے ہوٹل میں مقیم تھے ۔ میرے بھائی وہاں ان سے ملنے گئے اور پھر متعدد بار ملے یوں ان سے خوشگوار تعلقات استوار ہوئے ۔ کچھ عرصہ بعد وہ تھوڑی تھوڑی اردو سمجھنے بھی لگے تھے ۔ تاہم روانی سے گفتگو نہیں کرسکتے تھے ۔ بھائی نے ان کو سید مودودی کی کتاب ” الجہاد فی الاسلام ” اور دیگر کتب پیش کیں ۔ ” الجہاد فی الاسلام ” پر علامہ نے تین علمی نوعیت کے نقد کیے جن میں سے ایک سید صاحب نے تسلیم بھی کرلیا تھا ۔ پرویزیوں اور منکرینِ حدیث کا لٹریچر بھی علامہ صاحب تک کسی نے پہنچادیا تھا جس کو پڑھ کر وہ کافی اشتعال میں آگئے تھے ۔ بھائی نے یہ صورتحال دیکھی تو علامہ صاحب کو ” تفہیمات ” لا کر دی ۔ اس کو پڑھ کر آپ کا دل ٹھنڈا ہوا اور فرمانے لگے میں تو پرویز صاحب کا جواب لکھنے کی تیاری کرچکا تھا لیکن استاذ مودودی کے قوت استدلال نے مجھے اس سے مستغنی کردیا ۔ بھائی علامہ صاحب کا تذکرہ کرتے ہوئے بعض دفعہ آبدیدہ ہوجاتے تھے اور پھر ان سے اپنی ملاقاتوں کا منظر کھینچتے تھے کہ میں جب جاتا وہ بے حد خوش ہوتے ، بڑی گرم جوشی سے ملتے ، خود اٹھ کر دودھ گرم کرتے اور گلاس میں لا کر دیتے ، یہ تواضع ان کا روزانہ کا معمول تھا ۔ 

الواقعة:آپ افکار عامرعثمانی کے بھی ناشر ہیں ، اس حوالے سے آپ ہمیں علامہ عامر عثمانی کے گفتار و افکار کے بارے میں بھی بتائیے؟
سیّد علی مطہر نقوی:  علامہ عامر عثمانی حق و اہل حق کے وکیل تھے اور ہمیشہ حق بات ہی کی وکالت کرتے تھے ۔ چاہے انہیں اپنے اساتذہ ہی سے کیوں نہ مخالفت کرنی پڑے ۔ آپ جانتے ہیں کہ وہ اپنا ایک مخصوص علمی پسِ منظررکھتے تھے اور دیوبندی مدرسہائے فکر میں ان کا خانوادہ منصبِ امامت و علمیت پر فائز ہے ۔ شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی ان کے چچا تھے ۔مفتی عزیز الرحمن ( مولف ” فتاویٰ دارالعلوم دیوبند ” ) و مفتی حبیب الرحمن تایا تھے ۔ اس کے علاوہ مشہور پیر طریقت علامہ مطلوب الرحمن ان کے والد محترم تھے جبکہ مولانا فضل الرحمن صاحب ( جن کا شمار دارالعلوم دیوبند کے بانیوں میں ہوتا ہے ) دادا تھے ۔ خود مولانا عثمانی ، مولانا حسین احمد مدنی کے تلامذہ میں سے تھے ۔ جب مولانا حسین احمد مدنی نے ” مودودی دستور و عقائد ” میں سید مودودی پر تنقید لکھی تو مولانا عثمانی نے پورے ادب و احترام کے ساتھ اس کا جواب لکھا ۔ مولانا محمد میاں صاحب نے خلافت و ملوکیت کے رد میں ” شواہد تقدیس ” لکھی تو اس کا جواب ” تجلیات صحابہ ” کے نام سے دیا جو میں نے شائع کردیا ہے ۔ اسی طرح مولانا احمد رضا بجنوری اور مولانا انظر شاہ صاحب سے مولانا کا تحریری مناظرہ ہوا جو ” تفہیم القرآن پر اعتراضات کی علمی کمزوریاں ” کے نام سے شائع شدہ موجود ہے ۔ مولانا مودودی کی حمایت ہی کی پاداش میں ان کے مکتبہ کو دو بار آگ لگائی گئی مگر ان کی طبیعت میں ذرا سی مصالحت و مفاہمت دیکھنے میں نہ آئی وہ جب علمی محاسبہ کرتے تو مخالف کی دھجیاں اڑا دیتے تھے ۔ ان کے زورِ قلم کا تو ایک زمانہ قائل ہے ۔

الواقعة:مولانا عثمانی آپ کے نزدیک عالم بڑے ہیں یا ادیب؟
سیّد علی مطہر نقوی:گو ادیب تو وہ بڑے ہیں لیکن ان کے ادب میں چاشنی و ثقاہت ان کے علم کی وجہ سے ہے اور ان کے علمی مقالوں میں ادبیت خود ان کے ادب کی وجہ سے ہے ۔

الواقعة:کیاعثمانی صاحب کے ماہنامہ ” تجلی ” دیوبند کی ساری فائلیں آپ کے پاس ہیں اور کیا ان کے خانوادے میں کوئی ایسا صاحبِ جستجو بھی ہے جو مولاناعثمانی کے علمی پروجیکٹ کو آگے بڑھانے کا متمنی ہو؟
سیّد علی مطہر نقوی: جہاں تک بات ہے ”تجلی ”کی تمام فائلوں کی تو اس کی صرف دعا ہی کی جاسکتی ہے ۔ عثمانی صاحب کی اہلیہ پاکستان دو بار آئیں تھیں ، میں نے ان کی آمد پر ان کی دعوت بھی کی تھی ، ان کو یہ افسوس تھا کہ عثمانی صاحب کے بعد ان کے بچوں میں وہ علمی ذوق منتقل نہ ہوسکا جس کے خود مولانا عثمانی نمائندہ تھے ۔

الواقعة:”اکابر صحابہ اور شہدائے کربلا پر افترا” مولانا عبد الرشید نعمانی کی تصنیف ہے اس پر آپ کا پیشِ لفظ موجود ہے ۔ کیا مولانا نعمانی مرحوم سے بھی آپ کے علمی روابط رہے ہیں ۔ آگاہ فرمائیے ؟
سیّد علی مطہر نقوی: میںخود کو مولانا عبد الرشید نعمانی کا کف بردار و ادنیٰ شاگرد سمجھتا ہوں اور ان کی حیات میں میری یہ کوشش رہتی تھی کہ میں زیادہ سے زیادہ وقت ان کے ساتھ گزاروں ۔ ردّ ناصبیت کی وجہ سے وہ اور میں ہم ذوق واقع ہوئے تھے ۔ مولانا اسحاق سندیلوی جو مائل بہ ناصبیت تھے ، ان کے افکار سے علامہ نعمانی حد درجہ بیزار تھے ۔ چنانچہ انہوں نے مجھے مولانا عبد الماجد دریا آبادی کے جریدے ” صدقِ جدید ” کی قدیم فائلیں سپرد کیں ۔ اسی میں اسحاق صاحب کا وہ تحسینی خط بھی تھا جو انہوں نے محمود احمدعباسی صاحب کی کتاب ” خلافت معاویہ و یزید ” کے متعلق تحریر کیا تھا ۔ یہ خط میں نے علامہ نعمانی کو بتا کر شائع کردیا تھا جو ان کے جامعہ بنوریہ سے اخراج کے اہم اسباب میں سے ایک سبب تھا۔

الواقعة:حضرت محدث بنوری اور مفتی ولی حسن صاحب سے اپنے علمی روابط کے حوالے سے آگاہ فرمائیے ؟
سیّد علی مطہر نقوی:  علامہ یوسف بنوری صاحب سے تو میرے قریبی روابط رہے ۔ علامہ بنوری کی ” معارف السنن ” کی تین جلدیں میں نے ہی الحجاز پرنٹنگ پریس سے چھپوائی تھیں ۔ مفتی ولی حسن صاحب سے بھی قریبی تعلقات رہے ہیں ۔ میری کتاب ” محمود احمد عباسی اپنے عقائد و نظریات کے آئینے میں ” کے حوالے سے جو کچھ انہوں نے لکھا ہے وہ شائع شدہ موجود ہے ۔

الواقعة:مولانا حسین احمد مدنی سے آپ کے خانوادے کے روابط رہے ہیں ۔ اس حوالے سے بھی ذرا روشنی ڈالیے ؟
سیّد علی مطہر نقوی: ان رو ابط کی نوعیت اصلاحی تھی ۔ میری اہلیہ ، بہن ، بھائی اور بھاوج ان سے اصلاحی تعلق رکھتے تھے اور ان سے بیعت تھے۔

الواقعة:امروہہ میں رفض کی اشاعت کے پیچھے کیا عوامل کار فرما رہے ہیں ؟
سیّد علی مطہر نقوی:  اصل سبب تو خود وہاں کے حکمراں تھے جیسا کہ ” تاریخ امروہہ ” میں تصریح ہے کہ آصف الدولہ خود رافضی تھا ۔ جو شخص اس دور میں رافضی ہوجاتا اس کو جائیداد ملتی ۔ اس حوالے سے خود ہمارے اجداد کو آفر ہوئی لیکن انہوں نے ڈٹ کر مقابلہ کیا ۔

الواقعة:علامہ تمنا عمادی سے متعلق آپ کی کیا رائے ہے ؟
سیّد علی مطہر نقوی:  میرا ان سے کوئی خاص تعلق نہیں رہا تاہم سنا ہے کہ وہ لائق اور ذہین آدمی تھے ۔

الواقعة:مولانا محمد چراغ ، مولانا معین الدین خٹک اور مفتی محمد یوسف بونیری سے آپ کے روابط رہے ہیں ، تفصیل بیان فرمائیے ؟
سیّد علی مطہر نقوی: مفتی محمد یوسف مرحوم سے ملاقات کی خواہش تو رہی لیکن ہو نہ سکی البتہ مولانا محمد چراغ سے ملاقات رہی ہے ۔ مولانا معین الدین خٹک تو نہایت ہی قابل و فاضل محقق تھے ۔ میں جب بھی کوہاٹ جاتا تھا انہی کے یہاں قیام کرتا ، ان دنوں وہ کوہاٹ کے امیر جماعت ہوا کرتے تھے انہوں نے اس ناچیز کی پُر تکلف دعوت بھی کی ۔
الواقعة:مولانا مسعود عالم ندوی سے متعلق آپ کی کیا رائے ہے ؟
سیّد علی مطہر نقوی: یقینا  مولانا مسعود عالم ندوی نے سید صاحب کی فکر کی اشاعت میں جو حصہ لیا ہے اس کی مثال نہیں ملتی ۔ وہ بڑے ذہین و قابل فرد تھے ۔ ان کی کتاب  ” محمد بن عبد الوہاب -ایک مظلوم و بدنام مصلح ” عمدہ تالیف ہے اور اہم تاریخی حقائق کا اس میں بیان ہے ۔

الواقعة:پاکستان کے تین اہم مسالک دیوبندی ، بریلوی اور اہل حدیث کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں اور کیا ان کے مابین اتحاد کی کوئی سبیل یا نکتہ اشتراک ہے ؟
سیّد علی مطہر نقوی:میں خود دیوبندی فکر سے وابستہ ہوں اور اسے مبنی بر صواب قرار دیتا ہوں ۔ اہل حدیث فکر کوبھی درست سمجھتا ہوں ۔ بریلوی مسلک کو بدعات سے متعلق جاننے کے باوجود اہل سنت و الجماعت سے خارج نہیں سمجھتا ۔ میرے خیال میں یہ تینوں ہی اہل سنت و الجماعت کا حصہ ہیں ۔

الواقعة:اپنی زندگی کا کوئی خوشگوار لمحہ؟
سیّد علی مطہر نقوی:  (مسکراتے ہوئے ) کوئی خاص نہیں فی الحال تو یہی ہے کہ آپ جیسے صاحبِ ذوق سے محو گفتگو ہوں ۔

الواقعة:ادارہ الواقعة کے توسط سے امت مسلمہ کو کوئی پیغام دینا چاہیں گے ؟
سیّد علی مطہر نقوی: پیغام تو یہی ہے کہ دنیا و آخرت کی فلاح دین ہی سے وابستہ ہے ، لہٰذا دین پر ثابت قدمی و تصلب اختیار کیا جائے ، انسان کی زندگی کس قدر محدود ہے اس کا اندازہ بہر کیف ہر کسی کو جلد ہی ہونے والا ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے امان میں رکھے ۔

علامہ راغب احسن


جریدہ "الواقۃ” کراچی، شمارہ  7  ذوالحجہ 1433ھ/ اکتوبر ، نومبر 2012

سید محمد رضی ابدالی

علامہ راغب احسن

علامہ راغب احسن ایک عالم ، فاضل ، صحافی اور اپنے عہد کی کئی تحاریک میں حصہ لینے کے حوالے سے بے حد مشہور شخصیت ہیں ۔ علّامہ تحریکِ پاکستان میں شروع سے پیش پیش رہے اور اپنی پوری زندگی مسلمانوں کی فلاح و بہبود اور انہیں اقوام عالم میں صحیح مقام دلانے میں صرف کی ۔

علّامہ راغب احسن کا آبائی وطن ضلع گیا ، صوبہ بہار ( بھارت ) تھا ۔ آپ ایک غریب گھرانے میں ١٩٠٥ء میں پیدا ہوئے ۔ آپ کے والد ریاض الدین احمد ، کلکتہ میں محکمۂ ڈاک میں ملازم تھے ۔ راغب احسن نے کلکتہ میں تعلیم پائی اور اپنی سیاسی زندگی کا آغاز خلافت کمیٹی میں شمولیت سے کیا اور اسی سلسلہ میں جیل بھی گئے ۔ علی پور جیل میں ان کی ملاقات کلکتہ کارپوریشن کے اس وقت کے میئر محمد عثمان سے ہوئی ۔ وہاں ان دونوں نے عہد کیا کہ وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کریں گے اور انگریز کی ملازمت کرنے کے بجائے اس کے خلاف جہاد کریں گے چنانچہ انہوں نے جیل سے رہائی کے بعد ایم -اے کیا اور اس کے بعد صحافت کا پیشہ اختیار کرتے ہوئے ” اسٹار آف انڈیا ” کے عملہ میں شامل ہوگئے ۔
مولانا محمد علی جوہرکے اخبار ” کامریڈ ” کے اعزازی مدیر بھی تھے ۔ مولانا محمد علی جوہر کی صحبت نے علامہ راغب احسن میں ایسا زورِ قلم پیدا کیا کہ محمد علی جوہر کے انتقال کے بعد سارا ہندوستان آپ کو محمد علی ثانی کہنے لگا۔
علّامہ راغب احسن نے ١٩٣١ء میں ” آل انڈیا یوتھ لیگ ” کی بنیاد رکھی اور اسی دوران ” میثاق فکر اسلامیت و استقلال ملّت ” کے نام سے ایک فکر انگیز دستاویز مسلمانوں کے حقوق کے لیے مرتب کی ۔ ١٩٣٦ء میں راغب احسن نے کلکتہ مسلم لیگ کی بنیاد رکھی اور اس کی تنظیم سازی میں نہایت سرگرمی سے حصہ لیا ۔ حسین شہید سہروردی ( جو بعد میں متحدہ پاکستان کے وزیراعظم بنے) کو اس کا صدر اورسید محمد عثمان (سابق میئر کلکتہ ) کو جنرل سکرٹری مقرر کیا ۔
ہندوستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ جس مسئلہ کو ہندوئوں اور مسلمانوں کے درمیان متنازع فیہ تسلیم کیا گیا وہ طرزِ انتخاب کا مسئلہ تھا ۔ ہندوستان کے بڑے بڑے مسلم رہنما مثلاً حکیم اجمل خاں ، سر علی امام ، حسن امام ، بیرسٹر مظہر الحق ، محمد علی جناح ، حسرت موہانی ، ڈاکٹر انصاری ، مولانا ظفر علی خان ، چودھری خلیق الزماں ، مولانا شوکت علی اور مولانا محمد علی جوہر وغیرہم متحدہ طرزِ انتخاب کو ہندوستان کے سیاسی نظام کے لیے بہتر سمجھتے تھے جبکہ مسلم کانفرنس کے اراکین و عہدیداران ہمیشہ جداگانہ طرزِ انتخاب کے حامی رہے مثلاً سر محمد شفیع ، سر علامہ محمد اقبال ، محمد شفیع داودی اور علامہ راغب احسن اس ضمن میں قابلِ ذکر ہیں ۔ جداگانہ طرزِ انتخاب پر جس قدر تحریر علامہ راغب احسن کی ہے ، کسی اور کی نہیں ۔ موصوف کی سیاست میں استحکام تھا ۔ ان کا نام نظریات کے تبدیل کرنے والوں میں نہیں لیا جا سکتا ۔
علامہ راغب احسن کی شخصیت کی اہمیت کا اندازہ اس واقعہ سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ جب قائد اعظم محمد علی جناح ١٩٣٥ء میں برطانیہ سے ہندوستان تشریف لائے تو دلی کی سرز مین پر تین اہم شخصیتوں محمد علی جناح ، علامہ محمد اقبال اور  علامہ راغب احسن نے ایک کمرے میں بیٹھ کر گھنٹوں ہندوستان کے مسلمانوں کی حالت زار اور عالمی حالات و واقعات پر باتیں کیں ۔ اسی اجتماع میں علامہ اقبال نے علامہ راغب احسن سے درخواست کی کہ وہ مسٹر جناح کا ساتھ دین اور ان کے ہاتھ مضبوط کریں ۔ چنانچہ راغب احسن نے علامہ اقبال کی درخواست قبول کرتے ہوئے آل انڈیا مسلم لیگ کی تنظیم میں بھر پور حصہ لیا اور اسے نہایت مستحکم تنظیم بنادیا ۔
علامہ راغب احسن کی عظمت ، فہم و فراست اور ذہنی بالیدگی کا اندازہ اس حقیقت سے بھی ہوتا ہے کہ وہ مولانا محمد علی جوہر کے جتنے چہیتے تھے اتنے ہی قائد اعظم محمد علی جناح کے بھی پیارے تھے حالانکہ محمد علی جناح اور محمد علی جوہر میں اصولی طور پر سیاسی اختلافات بھی قائم رہے ۔
٤٦١٩٤٥ء کے انتخابات میں مسلم لیگ کی شاندار کامیابی کے بعد اپریل ١٩٤٦ء میں منتخب نمائندوں کا کنونشن دہلی میں منعقد ہوا تھا ۔ اس اجلاس میں قائد اعظم محمد علی جناح نے علامہ راغب احسن کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ

” کروڑوں ہیں جو میرے اندھے مقلد ہیں ، لاکھوں ہیں جو میری تائید کرتے ہیں اور لاکھوں ہیں جو میرے لیے سرگرمی سے کام کرتے ہیں لیکن ہندوستان کے طول و عرض میں مسلم لیگیوں میں صرف ایک راغب احسن ہیں جو اسلام اور پاکستان کے اصول کی محبت میں مجھ پر بے باکی کے ساتھ تنقید کی جرأت کرتے ہیں ۔ پاکستان کے نصب العین کی خاطر وہ مجھ پر سخت ترین گرفت کرنے سے بھی نہیں چوکتے ۔وہ مجھ کو چاہتے ہیں لیکن مجھ سے زیادہ اسلام اور پاکستان کو چاہتے ہیں ۔ راغب احسن لیگ اور تحریکِ پاکستان کے زندہ ضمیر ہیں اور راغب احسن پر مجھے فخر ہے ۔ "

١٩٣٣ء میں علامہ اقبال نے اپنے ایک خط میں علامہ راغب احسن کے متعلق لکھا کہ

"مولانا راغب احسن کی قابلیت و صلاحیت کی تصدیق کرتے ہوئے مجھے بے حد مسرت ہوئی ہے ۔ یہ ان گنتی کے چند قابل ترین اور انتہائی ہونہار نوجوانوں میں سے ہیں جن سے مجھے ملنے کا موقع ملا ہے ۔ مجھے کامل یقین ہے کہ وہ اسلام اور ہندوستان کے لیے ایک قیمتی سرمایہ ثابت ہوں گے ۔ "

علامہ راغب احسن نے بنگال میں آل انڈیا مسلم لیگ کی تنظیم بہ کمالِ محنت و مشقت کی تھی ، اسی لیے وہ سارے ہندوستان کی جان قرار پاگئی تھی ۔ ہر گائوں اور ہر محلہ مسلم لیگ کی تنظیم سے منسلک تھا ۔ جب آل انڈیا مسلم لیگ نے یوم رسات اقدام منانے کا اعلان کیا تو لاکھوں افراد کا مجمع کلکتہ میدان میں جمع ہونے لگا ، جس پر ہندوئوں نے منظم سازش کے ذریعے حملہ کردیا ۔ کلکتہ کے نقصانات کو وائسرائے ہند لارڈ ویول نے بہ چشم خود دیکھا ۔ وہ اس حادثہ پر انتہائی مضطرب ہوا اور ساتھ ہی مسلم قوم کی جانبازی اور سرفروشی کو بھی پرکھ لیا ۔ وائسرائے ہند نے مسلمانوں کی جانب سے یوم راست اقدام منانے کی حیثیت اور اہمیت کو سمجھ لیا اور اس کے بعد ہی اس نے عارضی حکومت میں آل انڈیا مسلم لیگ کو پانچ وزارتیں دینے کی پیش کش کی جبکہ اس سے چند ہفتہ قبل عارضی حکومت میں آل انڈیا مسلم لیگ کی شمولیت کو ناقابل قبول قرار دیا تھا ۔ عارضی حکومت میں آل انڈیا مسلم لیگ کی شمولیت ، تنہا کلکتہ مسلم لیگ کے عزمِ بلند کی مرہونِ منّت ہے ۔ کلکتہ کے فسادات میں مسلمانوں نے جو شہادت پیش کی اور جس طرح جرأت و ہمت کا مظاہرہ کیا ، در حقیقت اسی کے پیشِ نظر آل انڈیا مسلم لیگ کے پانچ ممبرانِ اسمبلی لیاقت علی خاں ، راجہ غضنفر علی خاں ، سردار عبد الرب نشتر ، آئی آئی چندریگر اور منڈل ہندوستان کی عارضی حکومت میں شامل ہوئے ۔ اس عارضی حکومت میں لیاقت علی خان کو وزیر خزانہ مقرر کیا گیا تھا ۔ یہ انتہائی بدقسمتی کی بات ہے کہ علامہ راغب احسن جو کہ ہندوستان کی مرکزی اسمبلی کے رکن بھی تھے اور قائد اعظم کے ساتھ مل کر جدو جہدِ آزادی میں نمایاں حصہ لیا ، اس کے باوجود علامہ راغب احسن کو نہ ہی ہندوستان کی عارضی حکومت میں شامل کیا گیا اور نہ ہی ان سے حکومت کے نظم و نسق کے لیے کسی قسم کا صلاح و مشورہ کیا گیا ۔ تاریخ کے اوراق میں حقائق پھیلے ہوئے ہیں کہ پاکستان کو تعمیر کرنے میں راغب احسن نے کیا کردار ادا کیا لیکن قیام پاکستان کے بعد بھی حکومت کے دروازے ان پر بند کردیئے گئے ۔
آل انڈیا مسلم لیگ کی تحریک کی جب ابتدا ہوئی تو اسے بہت سی دشواریوں سے دوچار ہونا پڑا ۔ علامہ راغب احسن پر یہ حقیقت واضح طور پر سامنے آئی کہ جب تک علماء کے حلقے اور خانقاہوں کی گدی نشینوں کو مسلم لیگ کا ہم خیال نہیں بنایاجائے گا اس وقت تک مسلم لیگ کی تحریک کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکتی ۔ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ کانگریس کے شکار مذہبی حلقوں کا زور توڑ دیا جائے چنانچہ علامہ راغب احسن نے جمعیت علمائے اسلام کے قیام اور اس کی کامیابی میں بھرپور حصہ لیا ۔علامہ راغب احسن اپنے ایک مضمون جو اخبار ” زمیندار ” کی اشاعت مورخہ ١٩ جنوری ١٩٤٩ء میں شائع ہوا ، لکھتے ہیں :

"جمعیت علمائے اسلام کی تاسیس و تنظیم راقم الحروف نے سالہا سال کی کوشش و کاوش کے ساتھ ١١ جولائی ١٩٤٥ء کو کلکتہ میں کی تھی ۔” (بحوالہ حیات شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی : ٨٧)

 جمعیت علمائے اسلام کی وجہ سے آل انڈیا مسلم لیگ کو ١٩٤٦ء کے عام انتخابات میں بے مثال کامیابی ملی اور پاکستان کا قیام عمل میں آیا ۔
علّامہ شبیر احمد عثمانی نے علامہ راغب احسن کو ” سیف الملّت ” کا لقب دیا تھا جبکہ حسین شہید سہرورودی نے ” پاکستان کا ٹینک فورس ” کا خطاب دیا تھا ۔
علامہ راغب احسن کی کتابوں میں حسبِ ذیل کتابوں کا ذکر ملتا ہے ۔
* What Muslims want in India
*Principles of Islamic Economics
* The Political Case of Musalim India
* History of Making of Muslim Nationalism in India.
علامہ راغب احسن ١٩٥٧ء میں اسلامی لاء کمیشن کے رکن مقرر ہوئے ۔سینٹرل اقبال کمیٹی کے نائب صدر اور سلیمان ندوی کمیٹی آف اسلام ( کراچی ) کے رکن تھے ۔ ١٩٦٥ء کے عام انتخابات میں مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کے حق میں اور اس وقت کے صدر پاکستان محمد ایوب خان کے خلاف مشرقی پاکستان میں بے حد کام کیا تھا ۔
قیام پاکستان کے بعد علامہ راغب احسن پاکستان ہجرت کرتے ہوئے سابق مشرقی پاکستان کے شہر ڈھاکہ میں مستقل سکونت پذیر ہوئے اور پھر بنگلہ دیش کے قیام کے بعد ایک دفعہ پھر ڈھاکہ سے ہجرتے کرکے کراچی تشریف لے آئے ۔ علامہ راغب احسن کا انتقال ٢٧ نومبر ١٩٧٥ء کو کراچی میں ہوا اور وہ سخی حسن قبرستان میں مدفون ہوئے ۔ ١٩٩٠ء میں حکومت پنجاب نے آپ کی خدمات کے اعتراف میں ” تحریکِ پاکستان کا گولڈ میڈل ” دیا تھا ۔

مآخذ:

١-انسائیکلوپیڈیا پاکستانیکا از سیّد قاسم محمود
٢-انسائیکلو پیڈیا تحریکِ پاکستان از اس سلیم شیخ
٣-وفیات ناموران پاکستان از ڈاکٹر محمد منیر احمد سلیچ
٤-شائق و عثمان و راغب از محمد انیس الرحمان انیس
٥-رہبران پاکستان از سیّد محمد رضی ابدالی
٦-حیات شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی از فیض الانبالوی و شفیق صدیقی
7-Allama Raghib Ahsan — Quaid-i-Azam Correspondence (1936-1947) by Syed Umar Hayat

کیا امّت مسلمہ کی بے حسی برقرار رہے گی؟؟؟


جریدہ "”الواقۃ” کراچی، شمارہ  7  ذوالحجہ 1433ھ/ اکتوبر ، نومبر 2012

 محمد اسماعیل شیرازی

کیا امّت مسلمہ کی بے حسی برقرار رہے گی؟؟؟

یہ کچھ زیادہ دنوں کا قصہ نہیں برما ( میانمار)میں مسلمانوں پر زمین تنگ کردی گئی ۔عراق پر امریکی اور اس کے اتحادی افواج کا سلسلۂ ظلم و ستم جاری ہے ۔ افغانستان پر استعمار قابض ہے ۔ افریقہ کے مسلم ممالک عالمی طاقتوں کے ہاتھوں بے بس ہیں ۔ لیبیا کی حکومت کا تختہ الٹا جا چکا ہے ۔ نائجیریا ، مالی ، تیونس ، سوڈان ، مصر ، مراکش وغیرہا سازشوں کے نرغے میں ہیں ۔ یمن میں بد امنی ہے اور خود ہمارا اپنا ملک پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں دہشت گردی کا شکار ہو رہا ہے ۔ بے شمار ڈرون حملے ، آئے دن کے بم دھماکے اور مسلسل جاری ٹارگٹ کلنگ ہمارا نصابِ زندگی بن گئے ہیں ۔ ان تمام تر سانحات سے بھی بڑا سانحہ یہ ہے کہ مسلم امہ پھر بھی بیدار ہونے کے لیے تیار نہیں ۔


ہر سال اللہ کے لاکھوں بندے فریضۂ حج کی ادائیگی کرتے ہیں ۔ کروڑوں افراد سنّت ابراہیمی انجام دیتے ہیں ۔ لیکن اس کے باوجود نہ ہمارے اندر ایثار وقربانی کے جذبات پیدا ہوتے ہیں اور نہ ہی ہمارے اندر عملِ صالح کی کوئی تحریک پیدا ہوتی ہے ۔ 
ہمارے لیے کس قدر آسان ہوتا ہے کہ ہم اپنی ہر غفلت کا الزام عالمی طاقتوں پر ڈال دیتے ہیں ۔ اپنی ہر برائی کا سبب امریکا کو قرار دیتے ہیں اور اپنے یہاں ہونے والی ہر آفت کے پیچھے یہودی سازش کا انکشاف کردیتے ہیں ۔ لیکن ہم خود اپنے عیوب و نقائص نہیں دیکھتے ۔ اسلام دشمن عناصر اگر اپنی دشمنی نبھارہے ہیں تو ان سے شکوہ کیسا ؟وہ اگر اپنے رہنما ابلیس کے احکام پر عمل کر رہے ہیں تو ان سے کس طرح گلہ کیا جا سکتا ہے ؟ جواب دہی تو ہم سے ہے کہ کیا ہم اپنے ربّ واحد کے احکامات پر عمل کر رہے ہیں ؟ اپنے پیغمبر کی اطاعت کا فریضہ انجام دے رہے ہیں ؟ ہم اللہ کو تو ایک مانتے ہیں مگر اس کی ایک نہیں مانتے ۔
اللہ تعالیٰ کو ایک ماننے کا تقاضا کیا ہے ؟ ہمیں چاہیئے کہ ہم اس حقیقی معبود کی عبودیت کو تسلیم کریں ۔ اس کے احکامات کو رسم و رواج سمجھنے کی بجائے اسے اپنی زندگی میں شامل کریں اور اسی کے مطابق اپنی زندگیوں کو بسر کریں ۔ ہم دوسروں سے تبدیلی کا تقاضا کرنے کی بجائے خود اپنے اندر سے تبدیلی کا آغاز کریں ۔
ہم غیروں سے شکوہ کرتے ہیں کہ وہ اسلام اور پیغمبر اسلام کا مذاق اڑاتے ہیں ۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ ہم ان سے بڑے گستاخِ رسول ہیں جو ہر روز اپنے نبی کے احکامات سے استہزاء کرتے ہیں ۔
قرآن عمل کی کتاب تھی اسے ہم نے مردے بخشوانے کی کتاب بنادیا ۔ اس کی آیات کو تعویذ بنا کر بازئوں میں باندھنے اور بندھوانے کا کاروبار شروع کردیا ۔ ہمارے ملک کے اخبارات اپنے اوّلین صفحات پر آیات قرآنی درج کرتے ہیں اور یہی اخبارات سڑکوں پر گرے ملتے ہیں اور کسی کو توفیق نہیں ہوتی کہ قرآنی آیات کا حترام کرتے ہوئے انہیں اٹھالے الّا ماشاء اللہ۔
ہم نے جو اس توہین کے اسباب پیدا کر رکھے ہیں کیا ہمیں اس کی سزا نہیں ملے گی ۔ سود جس کی لعنت قرآنِ حکیم اور احادیثِ مبارکہ سے ثابت ہے ۔ کیا پوری امت مسلمہ بحیثیت مجموعی اس لعنت کا شکار نہیں اور اگر ہے ، یقینا ہے تو کیا ہم اس کی سزا سے بچ سکتے ہیں ؟ اللہ تبارک و تعالیٰ نے سودی کاروبار کرنے والوں کو جنگ کے لیے خبردار کیا ہے اور کیا ہم اللہ ربّ العزت سے جنگ کرکے جیت سکتے ہیں ؟ الامان الحفیظ ۔
ہم امریکا اور اسرائیل کے کایا پلٹ دینا چاہتے ہیں مگر خود ہمارے نفس نے ہماری کایا پلٹ رکھی ہے مگر ہم اس پر توجہ نہیں دیتے ۔
یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے فضل و کرم کی انتہا ہے کہ اس نے ہمارے لیے آج بھی اسباب کامیابی مہیا کر رکھے ہیں ۔ امت مسلمہ بحیثیت مجموعی عذاب الٰہی میں گرفتار نہیں ۔ جس قدر وسائل اللہ نے امت مسلمہ کو دیئے ہیں اس قدر وسائل اور کسی کے پاس نہیں ۔ بس ہمارے پاس ایک ہی چیز نہیں ہے اور وہ ہے جرأت ایمانی ۔ ہمارا ایمان ہمارے پست اعمال کے سامنے شکست خوردہ ہوگیا ہے ۔ بقول محمد تنزیل الصدیقی الحسینی :
"جہاں تک ہمارے جذبۂ ایمان کا تعلق ہے تو ہمارے اعمال کی سطحیت نے اسے سخت مجروح کرکے رکھ دیا ہے ۔ ہم دینی تقاضے بھی غیر دینی طریقوں سے نبھاتے ہیں ۔ہم جانتے ہیں کہ "کوکاکولا” کا "لوگو” اسلام دشمنی پر مبنی ہے اور "پیپسی” کی کمائی اسلام دشمنی پر صرف ہوتی ہے لیکن کیا ہمارے بازاروں میں یہ بکنا بند ہوگئے ؟ کیا ہم نے اسے پینا ترک کردیا ؟ جب ہم لذت کام و دہن کی انتہائی ادنیٰ سی قربانی نہیں دے سکتے تو کیا توقع کی جاسکتی ہے کہ ہم اپنا سر دے کر بازی جیتنا کا حوصلہ رکھتے ہیں ۔ ” (مجلہ "الواقعة ” کراچی شمارہ نمبر ٥،٦)
ہمیں بخوبی جان لینا چاہئیے کہ ایمان اور عملِ صالح لازم و ملزوم ہیں ۔ ہمارا عمل ہی ہمارے ایمان کا آئینہ دار ہے ۔ جب تک امت مسلمہ ایک جسدِ واحد کی طرح اپنے دکھ سکھ میں شراکت نہیں کرتی تب تک ہم اغیار کی سازشوں کا ایسے ہی شکار ہوتے رہیں گے اور ہماری فلاح و کامرانی بھی ہم سے دور رہے گی ۔

اسماء الحسنیٰ اور قرآنی سورات و آیات کے فضائل


تبصرہ کتب 7

اسماء الحسنیٰ اور قرآنی سورات و آیات کے فضائل

مؤلف :محمد صدیق صدیقی

قیمت : مؤلف اور اس کے متعلقین و مرحومین کے لیے دعائے مغفرت
تاریخ طباعت:رمضان المبارک ١٤٣٣ھ
مطبع: قریشی آرٹ پریس، ناطم آباد نمبر 2

مبصر: ابو عمار سلیم

اسماء الحسنیٰ اور قرانی سورات اور آیات کے فضائل یا عرف عام میں ” اسمائے حسنیٰ ”  جو کہ کتاب کے سرورق پر درج ہے ، جناب محمد صدیق صدیقی صاحب کی تیسری کاوش ہے جو منظر عام پر آئی ہے۔ اس سے قبل آپ کی پہلی کتاب  ” آئیے نمازادا کریں ” اور پھردوسری کوشش ” آئیے قیامت کے احوال سے عبرت حاصل کریں ” منظر عام پر آچکی ہیں۔ جناب صدیقی صاحب کی پیش نظر کتاب پر کچھ کہنے سے پہلے یہ بتانا انتہائی ضروری ہے کہ آپ کسی مذہبی درسگاہ کے فارغ التحصیل نہیں ہیں بلکہ پیشے کے لحاظ سے ایک انجینئر ہیں اور پاکستان اور غیر ممالک میں کئی بیش قیمت اور قابل قدر پراجیکٹ پر کام کر چکے ہیں۔

گو کہ آپ کو ہمیشہ سے مطالعہ  اور تصنیف و تالیف سے شغف رہا ہے مگر نوکری سے فراغت کے بعد آپ نے اپنے آپ کو دین کی خدمت کی طرف بڑی شدومد سے راغب کرلیاہے۔ آپ کے دل میں امت محمدی علیٰ صاحب سلام و تسلیم کی بھلائی کا جذبہ موجزن ہے ۔ امت مرحومہ کی بھلائی اور مسلمانوں کے اعمال کی درستگی اور آخرت کی تیاری کے سلسلہ میں کافی تشویش میں مبتلا رہتے ہیں اور خلوص دل سے چاہتے ہیں کہ عام مسلمان اپنے اعمال درست کرلیں اور اپنے عقائد اور عبادات کے اہم اور ناگزیر گوشوں سے اچھی طرح واقفیت حاصل کریں تاکہ اس کی محنت قابل قبول ہو اور وہ اللہ کی نظروں میں مخلص و موحد اور اطاعت گزار بن جائے اور اس کی عاقبت سنور جائے۔ اس سلسلہ میں آپ کافی تحقیق کرتے ہیں اور پھر اپنی کاوشوں کو اپنی جمع پونجی لگا کر طبع کرواتے ہیں اور فی سبیل اللہ تقسیم کرتے ہیں۔ان کی یہ سوچ اور ان کی تمام محنت یقینا قابل ستائش ہے اور ہماری دعا ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ ان کی ان کوششوں کو نہ صرف یہ کہ قبول کریں بلکہ ان کتابوں کو پڑھنے والوں کے لیے سود مند کردیں بلکہ خودان کے لیے توشئہ آخرت بنا دیں ۔ آمین ثم آمین۔

 

 

 

 

اسمائے رب ذوالجلال و الاکرام کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ پوری اسلامی تاریخ میں کئی ایک احباب علم و فضل نے ان کی طرف خصوصی توجہ کی ہے اور ان اسمائے مبارک کے فیوض و برکات سے عامۃ المسلمین کو آگاہ کیا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ  ایک عام مسلمان کے لیے اللہ جل جلالہ کے ننانوے نام اور ان کی صفات سے متعلق کوئی اشتباہ ہے اور نہ ہی کوئی اشکال۔ کسی کو اللہ کے تمام کے تمام بابرکت اسماء یاد ہونگے اور کسی کو چند ایک کے علاوہ زیادہ سے واقفیت نہیں ہوگی مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ ہر مسلمان قرآنی حکم کے مطابق اللہ باری تعالیٰ کے حضور میں اپنی تمام التجائیں ان ہی مبارک اور با برکت اسماء کے ذریعہ سے ہی درخواست گذار ہوتا ہے۔ ان مبارک ناموں کی فضیلت اور ان کے برکات ہی ہیں کہ اللہ نے اعلان کیا کہ تمام اچھے نام اسی کے ہیں اور اللہ کو اس کے ناموں کے ساتھ پکارو۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنے ناموں کا تذکرہ قرآن مجید میں بھی کیا ہے اور پھر ان کی تعلیم سید المرسلین خاتم النبین علیٰ صاحب سلام و التسلیم نے بھی فرمائی ہے۔ بزرگوں نے ان تمام ناموں کو اکٹھا بھی کیا ہے اور ان مختلف فضائل اور ان کے ورد کی مختلف شکلیں اور ان کے فیوض و برکات بھی درج کر دی ہیں۔اللہ رب العزت کے ان صفاتی ناموںکو بزرگوں نے یکجا بھی کیا ہے اور ان پر مختلف انداز سے بحث بھی کی ہے۔ مگر زیر نظر کتاب آج کے دور کی کتاب ہے جس کا اسلوب تحریر تحقیق اور ریسرچ پر منحصر ہے۔ اللہ جل شانہ کے اسماء پر صرف طائرانہ نظر نہیں ڈالی گئی ہے بلکہ کمال خلوص اور انتہائی لگن کے ساتھ ان اسماء کی مختلف شکلوں کو بھی  کھنگالا گیا ہے۔ قرآن مجید میں کون سے اسماء کس انداز میں اللہ نے بیان کیے ہیں۔ کون سا بابرکت نام کن سورتوں میں اور کن آیات میں کتنی بار آیا ہے۔ ہر ایک اسم باری تعالیٰ کو الگ الگ بیان کیا گیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ان کے معانی ، ان کی خصوصیات کے ساتھ ان کے ورد کرنے کے روحانی اور جسمانی فوائد بھی درج کر دئیے گئے ہیں ۔ اور ان تمام اوراد و وظائف کے حوالے بھی لکھ دئیے گئے ہیں تاکہ کسی اشکال کی صورت میں ان کی طرف رجوع کیا جاسکے۔  میرے نزدیک یہ عمل ہی مولف کی نیک نیتی کی ضمانت ہے کیونکہ وہ خود اس میدان کے آدمی نہیں ہیں اور ان کے علم کی کل اساس مطالعہ پر مبنی ہے۔یہ کام صدیق صدیقی صاحب نے بڑی عرق ریزی سے کیا ہے اور یقینی طور پر ان کا یہ کام نہ صرف یہ کہ عام قاری کو پسند آئے گا بلکہ خصوصی طور پر ریسرچ اور تحقیق کرنے والوں کے لے بھی ایک اچھا مآ خذ بن جائے گا۔

 

مشعر باصطلاح صوفیہ و معارج و مدارج اہل سلوک


جریدہ "الواقۃ” کراچی، شمارہ  (5 / 6 )  شوال، ذیقعد  1433ھ/   ستمبر، اکتوبر 2012

شیخ الکل سیّد نذیر حسین محدث دہلوی رحمة اللہ علیہترجمہ : مولانا عبد العزیز صمدن فرخ آبادی

مشعر باصطلاح صوفیہو معارج و مدارج اہل سلوک

شیخ الکل سیّد نذیر حسین محدث دہلوی رحمة اللہ علیہکا ایک ایمان افروز مکتوب

نحمدہ و نستعینھ و نصلی و نسلم عاجز سیّد نذیر حسین بخدمت شریف میرے مفتخر و محبوب مولوی سیّد عبد العزیز صمدنی سلمہ ربّہ۔
بعد السلام علیکم و رحمة اللہ و برکاتہ ۔ واضح ہو کہ آپ کا خط پہنچ کر خوشی و خرمی حاصل ہوئی ۔ انبساط (کشادگی ) و انشراحِ قلب کی حالت تحریر کرکے میرے ناسور کہنہ کو تازہ کردیا ۔
اے عزیز ! تراخی و توقف شانِ باری تعالیٰ ہے ، جو چیز دیر سے حاصل ہوتی ہے ، وہ دیرپا ہوتی ہے ۔ سلطان الاذکار قرآن مجید ہے ۔ جو مجھ سے سیکھا ہے اس سے کام لیں ۔ ” فنا فی الشیخ ” میرے حضرات کا طریقہ نہیں ہے بلکہ شیخ اس لیے ہے کہ قرآن و حدیث سے ان کو جو کچھ معلوم ہوا ہے یا بزرگانِ طریقتِ صادقہ نے ان کو عطا فرمایا ہے ، وہ طالب کو پہنچادیں ۔ شیخ اس بات پر قادر نہیں ہے کہ اپنا قدم حلقۂ شریعت سے باہر رکھے جو کوئی میرا حال دریافت کرے اس کو میری طرف سے کہہ دو۔

بلبل از گل نگزرد گر در چمن بیند مرا
بت پرستی کے کند گر برہمن بیند مرا
در سخن پنہاں شدم مانند بو در برگ گل
ہر کہ دیدن میل دارد در سخن بیند مرا
میری باتیں صرف اللہ اور اس کے رسول کا قول ہے ۔صحاح ستہ میں باب رقاق کو دیکھا اور پڑھا ہے ، وہ سب تصوف و درویشی ہے ۔ درویشوں نے کہاں سے حاصل کیا ہے اسی فصل رقاق سے میرے شیخ علیہ الرحمة (١)  برابر فرمایا کرتے تھے کہ ”میرے فعل سے آنکھیں بند کرلو ، میری باتوں پر کان رکھو اور اپنے دل میں جگہ دو ۔ ” یاد ہوگا کہ فقیر نے آپ سے بیان کیا تھا کہ اگر تہجد کے وقت خلوصِ دلی میسر ہو اور کسی طرف توجہ نہیں ہو تو یہ خلوص ہزار چلّوں کے برابر ہے ۔ اربعین ( چلّہ کشی ) یہ نہیں ہے کہ قبر پر بیٹھیں ، یہ فعل رسول سے منقول نہیں ہے اور نہ اس کا اجر مذکور ہے ۔ خدا رسیدگی کا مقام مسجد ہے نہ کہ قبر ۔ مسجد سے جو کوئی بھاگے اور مزار پر بیٹھے وہ خدا سے بھاگتا ہے ، اس کی تقدیر میں خدا رسیدگی نہ ہوگی ۔ کشفِ قبور کے رمز کو واضح طریق آپ سے کہہ چکا ہوں ان باتوں کو خدا رسیدگی سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ اگر کوئی شخص کہے کہ میرے پیر پانی پر چلتے ہیں یا وہ آسمان پر اُڑ جاتے ہیں ہرگز اس کے اڑنے اور آسمان پر جانے کا یقین نہ کرو کیونکہ درویشی میں ایسی شعبدہ بازی یعنی ” بر آب رفتن و بر آسمان پریدن ”سے کیا تعلق بلکہ
چشم بند و گوش بند و لب بہ بند
گر نہ بینی سرّ حق بر ما بخند
اے عزیز ! ایسی چلّہ کشی سے کیا حاصل ، جو آج کل کے لوگ ( ارباب ریاست ) قبر پرستی کو آئینِ درویشی خیال کرتے ہیں ۔ حالانکہ قرآن و حدیث اس کے خلاف ندا کر رہا ہے ۔ بزرگانِ طریقت ( اللہ تعالیٰ ان کی دلیل کو روشن کرے ) وہ اس قبر پرستی سے ہمیشہ بیزار تھے اور بیزار رہے ۔ ” لطائفِ خمسہ ” ( نمازِ پنجگانہ ) حل مشکلات کی کفیل ہوکر نورانیت کے نزول کا باعث ہوتی ہے ۔ گو یا نماز اسمِ اعظم ہے ۔ ہمیشہ اپنی حالت پر نظر ڈالنا چاہیئے اور دوسرے کی عیب جوئی سے پرہیز کرنا چاہیئے ، یہ بات مشکلوں کے حل کرنے والی ہے ۔ سمجھو اور غور کرو آفات نازلہ پر صبر کرنا آلِ عباد و صالحین کا طریقہ ہے اور صبر پر ثابت قدم رہنا صوفیا کا شعار ہے ۔ جو کچھ پہنچتا ہے وہ اللہ کی طرف سے ہے اور جو کچھ جاتا ہے وہ اس کے حکم سے باہر نہیں ہے ۔ فی زمانہ کے صوفیا کا ذکر آپ نے کیا یہ سب مکرو فریب سے گدائی کرتے اور پیٹ پالتے ہیں اور دنیا و آخرت کی رُو سیاہی حاصل کرتے ہیں ۔ ان مکار دیو سیرت سے پرہیز کرنا دانشمندوں کا کام ہے ۔ حضرت سیّد السالکین (٢)قدس سرہ صادق پور (٣) میں فرماتے تھے کہ” فقیروں کی نظر میں اللہ تعالیٰ نے تاثیر دی ہے اگر طالب صادق ہے تو ایک نگاہ میں مراتبِ اعلیٰ کو پہنچادیتے ہیں ۔” وہ مراتب کیا ہیں ؟ خدا کو پہچاننا اور اپنے آپ کو خدا کا بندہ جاننا ۔ یہی تعلیم درویشی کا اصل اصول ہے ۔
 حلقہ قائم کرنا ، ہو حق کرنا ، شور و غل مچانا اور اہلِ محلہ کو پریشانی میں ڈالنا سوتے ہوؤں کو جگانا یہ سب باتیں حصولِ زر کے لیے ہیں ، ورنہ خدا سے مخفی کلامِ الٰہی ناطق ہے ۔ حضرت قدسی سیرة شاہ محمد آفاق صاحب  فرماتے تھے کہ ” مینڈک کی طرح شور مچانا شانِ درویشی نہیں ہے خدا تعالیٰ سویا ہوا نہیں ہے کہ اس کو جگائیں ۔”بلکہ حرکاتِ بیہودہ کو وہ عملِ غیر صالح تصور کرتے ہیں۔ حضرت رسولِ خدا نے فرمایا کہ ” میں عبادت بھی کرتا ہوں ، نکاح بھی کرتا ہوں اور غذا بھی کھاتا ہوں لیکن میں شور و غل نہیں کرتا ہوں اور عاجزی و انکساری نبیوں کی شان ہے ۔ ”
اے عزیز ! شرک و بدعت سے الگ رہنا اور اپنے اعمال کا محاسبہ کرنا صوفیائِ کرام کا بہترین طریقہ ہے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ آپ نے چند اعمال کو دریافت کیا ہے ، یہاں آئیے اور سنیے اور چپ رہیے کیونکہ
خموشی معنی دارد کہ در گفتن نمے آید
و اللہ اعلم بحقیقة الحال ۔ و السلام خیر الختام
حواشی
(١)          شیخ سے مراد شاہ محمد اسحاق محدث دہلوی رحمہ اللہ ( ١١٩٢ھ -١٢٦٢ھ )ہیں ۔
(٢)         سیّد السالکین سے مراد حضرت سیّد احمد شہید رائے بریلوی رحمہ اللہ ( ١٢٠٠ھ -١٢٤٦ھ ) ہیں ۔
(٣)         صادق پور ، عظیم آباد پٹنہ کا مشہورِ انام محلہ ، جو انگریزی استبداد کے زمانے میں اندرونِ ہند مجاہدین کا مرکزِ اوّل تھا ۔

وحی متلو اور غیر متلو قرآنی تقسیم ہے


جریدہ "الواقۃ” کراچی، شمارہ  (5 / 6 )  شوال، ذیقعد  1433ھ/   ستمبر، اکتوبر 2012
علّامہ تمنا عمادی مجیبی پھلواروی

وحی متلو اور غیر متلو قرآنی تقسیم ہے 3

حقیقی و اصلی اتباع

حقیقی و اصلی اتباع تو قرآن مجید ہی کا ہے وحی متلو کو بھی قرآنی آیات ہی کے مطابق دیکھ کرواجب الاتباع سمجھتے ہیں ۔ اسی لیے فرمایا گیا ہے :
( وَ اتَّبِعُوْا اَحْسَنَ مَاْ اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ مِّنْ رَّبِّکُمْ )
” تمہارے رب کی طرف سے جو کچھ تمہاری طرف نازل کیا گیا ہے اس میں سے بہترین چیز کا اتباع کرو ۔”
( احسن ما انزل ) سے یہ مراد لینا بھی صحیح ہے کہ جتنی کتابیں جتنے صحیفے اگلے انبیاء علیہم السلام پر اُترے تھے سب سے احسن جو کتاب اب اتری ہے اس کی اتباع کرو گویا اس کی مخاطبت اہل کتاب کی طرف ہے یہ مفہوم بھی ضرور صحیح ہے مگر اہل کتاب کی طرف مخاطبت نہ اس آیت سے پہلے ہے نہ اس آیت کے بعد البتہ عام مخاطبت ہے ۔ لیکن یہ مفہوم زیادہ قرین قیاس معلوم ہوتا ہے کہ جس مسئلے میں وحی قرآنی اور وحی غیر قرآنی دونوں متفقہ فتویٰ دیں وہی ( احسن ما انزل ) ہے ۔ بخلاف اس کے کہ اس متفقہ فتویٰ کو چھوڑ کر اسی مسئلے میں صرف آیت سے ایک نیا مفہوم نکالا جائے جو وحی غیر قرآنی سے مختلف یا اس کے خلاف ہو جہاں تک ہوسکے ہر مسئلے میں وحی قرآنی کے ساتھ وحی غیر قرآنی کا اتباع بھی پیشِ نظر رہے مگر یہ روش بڑی غلط ہوگی وحی غیر قرآنی کے اتباع کے لیے قرآنی آیات کو کھینچ تان کرکے اس وحی غیر قرآنی کے تابع رکھنے کی کوشش کی جائے ۔ وحی قرآنی محفوظ بحفاظت خیر الحافظین تبارک و تعالیٰ ہے اور وحی غیر قرآنی کی حفاظت امت نے کی ہے ظاہر ہے کہ امت کی حفاظت اللہ کی حفاظت کی برابری نہیں کرسکتی ۔

اتباع و اطاعت

آج کل عموماً اچھے اچھے مدعیانِ قرآن فہمی اتباع و اطاعت کا فرق نہیں سمجھتے اور اطاعت قانون اور اطاعت احکام وغیرہ برابر الفاظ استعمال کرتے رہتے ہیں حالانکہ اطاعت کسی شخص اور کسی ذات کی ہوتی ہے ۔ احکام و قانون کا اتباع ہوتا ہے ۔ اتباع کسی شخص کا بھی ہوسکتا ہے ۔
” اطاعت ” باب افعال کا مصدر ہے اس کا مادہ طوع ہے جس کے معنیٰ ہیں پسند ۔ جس کی ضد ہے کرھ یعنی مجبوری و ناپسندیدگی اور دباؤ میں رہنا ۔ طوعاً و کرھاً اردو میں بھی پڑھے لکھے لوگ بولتے ہیں ۔ واؤ بمعنی او ہے بمعنی طوعاً و کرھاً یعنی پسند سے خوشدلی سے یا مجبوری سے دباؤ سے ۔
سورة توبہ میں ہے :
( قُلْ اَنْفِقُوْا طَوْعًا اَوْ کَرْھًا لَّنْ یُّتَقَبَّلَ مِنْکُمْ )
 ” ( اے رسول ) منافقین سے کہہ دو کہ تم ( کسی کارِ خیر میں ) خوشی سے خرچ کرو یا ناخوشی سے تم سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا ۔”
باب افعال کا ایک خاصہ سلب مآخذ کا بھی ہے یعنی اصل مآخذ مادہ کے جو معنی تھے ۔ وہ باب افعال پر لانے سے اس مفہوم کے سلب کرلینے کے معنیٰ پیدا ہوجاتے ہیں تو اطاعت کے معنی ہوئے اپنی پسند اور اپنی خوشی کا سلب کرلینا اس کی پسند اس کی خوشی کے مقابل جس کی اطاعت کی جائے ۔ ( اطیعوا اللّٰہ ) کے معنیٰ ہیں اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مقابل اپنی خواہش اپنی رضا اپنی پسند کو دل سے نکال پھینکو ۔
( اطیعوا الرسول ) کے معنیٰ ہیں اپنی پسند کو رسول کی پسند میں فنا کردو ۔ تویہ اطاعت کسی ذات ، کسی شخص ، کسی حاکم ، صاحبِ اقتدار و اختیار ہی کے ساتھ ہوسکتی ہے ۔ غیر ذوی العقول ، غیر صاحب اقتدار و قوت کی اطاعت نہیں ہوسکتی ۔ جن کی کوئی اپنی پسند نہ ہو بلکہ غیر ذی روح محض اقوال وہ بھی تحریری قوانین ہوں ان کی اپنی کوئی مرضی اور اپنی کوئی پسند تو ہے نہیں کہ ان کی اطاعت کی جائے گی البتہ جس کا نافذ کردہ قانون ہے جس کے احکام ہیں اس کی اطاعت ہوگی ۔
اگر کوئی یہ کہے کہ مجازاً قانون کی اطاعت کہی جاتی ہے مقصود صاحبِ قانون ہی کی اطاعت ہے تو یہ ویسا ہی ہے کہ کوئی دینے والے کا شکر ادا نہ کرے ۔ روپے کا شکر ادا کرے کہ اس کا کام روپے سے نکلا ہے ۔ پھر یہ کہ گفتگو عربی استعمال سے متعلق ہورہی ہے نہ کہ اردو میں زبان و استعمال سے متعلق ۔ اس سلسلے میں مدعیانِ قرآن فہمی ایک بڑے مغالطے سے کام لیتے ہیں وہ یہ کہ اطاعت ذات اور شخص ہی کی ہوتی ہے اور اسے ” بالمشافہ ” ہی ہونا چاہئے لہٰذا آج جبکہ رسول اللہ دنیا میں تشریف فرما نہیں ہیں تو ان کی اطاعت کے کیا معنی ؟ اس بنا پر یہ حضرات بزعمِ خود یہ ثابت کرتے ہیں کہ قرآن میں واردشدہ اطاعت رسول سے مراد ہے ہر دور کے مرکزِ ملت کی اطاعت ۔
یہ بات وہی شخص کہہ سکتا ہے جو رسول اورمنصب رسالت سے بالکل نابلد ہو اور اپنے مزعومہ مرکزِ ملت کو مقام رسالت پر بٹھانا چاہتا ہو ۔ یقینا اطاعت ذات اور شخص کی ہوتی ہے لیکن ان حضرات کو معلوم ہونا چاہئے کہ محمد بن عبد اللہ کی وفات ہوئی ہے نہ کہ محمد رسول اللہ کی اور اگر ایسا نہیں ہے تو حلقہ بگوشِ اسلام ہونے کے لیے قیامت تک لا الٰہ الا اللہ کے ساتھ محمد رسول اللہ پر بھی ایمان کوئی معنی نہ رکھے گا ۔ لہٰذا اطاعتِ رسول کا مطلب یہ ہے کہ احکام رسول کی اتباع کرتے ہوئے رسول اللہ کی اطاعت کی جائے یعنی رسول کی پسند کے مقابل اپنی پسند کو سلب کرلیا جائے ۔ رہا ان حضرات کا یہ کہنا کہ اطاعت ” بالمشافہ ” ہی ہوتی ہے تو یہ ایک بلا دلیل بات ہے ، دوسرے یہ کہ پھر تو اللہ کی اطاعت کا بھی سوال پیدا نہیں ہوتا کیونکہ اللہ ” بالمشافہ ” نہیں ہے یعنی وہ ہماری نظروں کے سامنے نہیں ہے لہٰذا جس طرح اللہ کے ” بالمشافہ ” نہ ہونے کے باوجود اس کی مرضی اور پسند معلوم کی جاسکتی ہے اور اس کی مرضی اور پسند کے مقابل اپنی مرضی اور پسند کو سلب کیا جاسکتا ہے ، اسی طرح آج بھی رسول اللہ کی پسند معلوم کی جاسکتی ہے اور حضور کی پسند کے مقابل اپنی پسند کو سلب کرکے اطاعتِ رسول کی جاسکتی ہے اور کرنی چاہئے کہ اطاعتِ رسول ہر دور میں قیامت تک کے لیے منصوص ہے ۔
یاد رکھئے
کہ اطاعت بغیر محبت کے نہیں ہوسکتی ۔ قانون جس کے منشاء کے خلاف ہو وہ کبھی خوشدلی سے اس قانون کو قبول نہیں کرسکتا جب تک صاحبِ قانون سے محبت نہ ہو ۔ قانون بھی پیارا ہوگا اگر صاحبِ قانون پیارا ہے ۔
اتباع حکم کا اور قانون کا بھی ہوسکتا ہے اور کسی راہنما کا بھی اسی لیے قرآن مجید میں وحی کے اتباع کا بھی حکم ہے اور رسول کے اتباع کا بھی مہاجرین و انصار کے اتباع پر دوسروں کے لیے رضائے الٰہی موقوف ہے ۔
اتباع وحی و تلاوت وحی
قرآن مجید میں اتباعِ وحی کا حکم انہی پانچ مذکورہ سورتوں میں اور ان کی مذکورہ انہی پانچ آیتوں میں ہے مگر ہر آیت میں عام وحی اور ہر قسم کی وحی کے لیے حکم اتباع ماننا پڑے گا عموم لفظ کی بلا دلیل تخصیص جائز نہیں ۔ جب یہ ثابت ہوگیا کہ حضور پر ہر قسم کی وحی آتی رہتی تھی جیسا کہ اگلے انبیاء علیہم السلام پر اُترتی رہی اور بلا تخصیص عام وحی کے اتباع کا حکم ہے تو یقینا کسی قسم کی وحی بھی حکم اتباع سے مستثنیٰ نہیں ہوسکتی ۔
اور تلاوت وحی کا حکم پورے قرآن مجید میں دو ہی جگہ ہے ایک اکیسویں پارے کی پہلی آیت کریمہ میں جو سورہ عنکبوت کی پینتالیسویں آیت ہے جس میں صاف طور سے فرمایا گیا ہے : (اُتْلُ مَآ اُوْحِيَ اِلَيْكَ مِنَ الْكِتٰبِ  ) تلاوت کرو اس وحی کی جو وحی اس کتاب سے تمہاری طرف نازل کی گئی ہے ۔
کس قدر صاف لفظوں میں وحی کتابی ہی کی تلاوت کا حکم ہے عام وحی کی تلاوت کا حکم نہیں ۔ اسی طرح دوسری آیت کریمہ میں ہے : ( وَ اتْلُ مَآ اُوْحِیَ اِلَیْکَ مِنَ ْکِتَابِ رَبِّکَ )اور تلاوت کرو اس وحی کی ( اے رسول ) جو تمہارے رب کی کتاب ( قرآن ) سے تمہاری طرف نازل کی گئی ہے ۔ ( کہف :٣٧) یہاں بھی صراحت و وضاحت کے ساتھ تلاوت کا حکم ہے اس وحی کے لیے جو ( من کتاب ربک ) تمہارے رب کی نازل کردہ کتاب سے ہو ۔
صرف دو ہی آیتوں میں تلاوت وحی کا حکم ہے اور دونوں جگہ صاف اور واضح طور سے وحی کتابی کی قید موجود ہے اس لیے وحی کی دو قسمیں متلو اور غیر متلو ۔ قرآن مبین نے صراحتاً خود کردی ہیں ۔ علمائِ سلف کا اختراع نہیں ہے ۔
وحی غیر متلو کو ” غیر قرآنی ” کہہ کر رد کرنا اور قبول نہ کرنا اور اس کے اتباع سے انکار کرنا در حقیقت قرآن مجید کا انکار ہے ۔ ( اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْکِتٰبِ وَ تَکْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ
روایت
وحی غیر متلو جس کو مدعیانِ قرآن فہمی وحی تو تسلیم ہی نہیں کرتے ، ” غیر قرآنی ” باتیں کہہ کر رد کردیتے ہیں ان میں بہت سی تو ایسی ہیں جن کا ذکر کسی نہ کسی طرح قرآن مجید میں کردیا گیا ہے مگر اس فرقے والوں کو ان آیات سے کیا بحث ؟ ان کو ایسی آیتوں کی تلاش رہتی ہے جن سے وہ آج کل کے الحاد زدہ نوجوانوں کو مطمئن کرسکیں اور دنیا میں انسانوں کو خودساختہ نظام معیشت قائم کرسکیں اور بزعم خود سرمایہ داری کا استیصال کرسکیں ۔ ڈارون کی تھیوری کو قرآنی آیتوں سے ثابت کرسکیں ۔ غرض ان کا حاصل یہ ہے :
(اَلَّذِيْنَ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَهُمْ يَحْسَبُوْنَ اَنَّهُمْ يُحْسِنُوْنَ صُنْعًا ١٠4؁ )
” ان کی ساری جدو جہد دنیاوی ہی زندگی کے مفاد میں کھو گئی ( خرچ ہوگئی ہے ) اور وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ ہم بہت اچھا کام کر رہے ہیں ۔” ( کہف : ١٠٤ )
اس لیے وہ کبھی اس پر غور ہی نہیں کرتے کہ ( اِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوةِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَةِ )سے نمازِ جمعہ کا ثبوت تو مل رہا ہے مگر نمازِ جمعہ کب فرض ہوئی تھی ؟ اور کس آیت کے ذریعے فرض ہوئی تھی ؟
پھر” نداء للصلوٰة ”  یعنی اذان کا ذکر قرآن مجید میں کئی جگہ ہے اذان کا حکم اور اذان کے کلمات کی تعلیم کس آیت سے ثابت ہوتی ہے ؟ ان باتوں پر غور کرنے کا ان کے پاس وقت کہاں ؟ ا س لیے یہ ان وحی ہائے غیر متلو سے بالکل بے خبر ہیں جو قرآ ن مجیدمیں صراحتاً مذکور نہیں اور جو قرآن مجید میں صراحتہً مذکور نہیں ان کو غیر قرآنی اور روایتی کہہ کر ٹھکرا دیتے ہیں حالانکہ قرآن مجید ان کی صداقت کی گواہی دے رہا ہے ۔

قرآن مجید اور روایت

قرآن مجید نے روایت کو رد کرنے یا قبول کرنے کے متعلق بہترین اصول خود بتادیا ہے ۔ ارشاد ہے :
( اِنْ جَاۗءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَيَّنُوْٓا) (حجرات :٧ )
” ( اے ایمان والو! ) اگر کوئی فاسق کوئی خبر لائے تو اس کی تحقیقات کرو ۔ ”
یہ حکم دنیاوی امور ، جنگ ، صلح ، حملہ ، دشمن وغیرہ کے متعلق ہے کہ کوئی فاسق بھی کوئی خبر لائے تو محض اس کے فسق کی وجہ سے اس کی خبر دہی کو چھوٹتے ہی غلط اور جھوٹ قرار دے کر اس سے بے پروائی نہ برتو ممکن ہے کہ تحقیقات سے خبر صحیح ثابت ہوجائے ۔ اور نہ اس پر فوراً اعتماد کرلو ۔ ممکن ہے خبر غلط ہو اور تم کو خواہ مخواہ کی پریشانی اٹھانی پڑے غرض یہ حکم نہیں ہوا کہ چونکہ خبر لانے والا فاسق ہے اس لیے اس کو جھٹلادو ۔
حدیثیں جن میں وحی غیر متلو ، وحی غیر قرآنی کا بھی کچھ حصہ ضرور ہے جن اقوال و افعال کی نسبت رسول اللہ کی طرف کرکے راوی روایت کررہا ہو ۔ بغیر راوی کی وثاقت و عدم وثاقت کا پتہ لگائے ، بغیر اس کو قرآنی درایت کی میزان پر تولے ہوئے صرف روایت روایت کا شور مچاکر رد کردینا تو دراصل قرآن مجید کی اس آیتِ کریمہ کی کھلی ہوئی مخالفت ہے اور اس کے ساتھ نسبت الی الرسول کی توہین بھی ۔ کسی قول منسوب الی الرسول کی نسبتِ صحت سے انکار اور بات ہے اور عام طور سے ہر حدیث قولی و فعلی کا انکار اور بات ہے ۔کسی ایک یا چند یا بہت سی حدیثوں کا عدم قبول اور باقی کا اقرار کرنے والے کو کہا جاسکتا ہے کہ اس کا عدم قبول مبنی بر دیانت ہے جس طرح موضوعات پر کتابیں لکھنے والوں نے کافی تعداد میں حدیثوں کو موضوع قرار دیا ہے ۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ان میں بعض حدیثیں صحیح ہوں اور جن حدیثوں کو صحیح قرار دیا ہے ان میں کچھ موضوع حدیثیں بھی ہوں ۔ بہ ہر حال جن حدیثوں کو کتاب الموضوعات لکھنے والوں نے موضوع قرار دیا ہے ان کے پاس حدیثوں کے پرکھنے کا معیار ہے اپنے معیار کے مطابق موضوعات الگ کرکے جن حدیثوں کو صحیح سمجھا ان کو وہ دین میں حجت سمجھتے ہیں یہاں ایک بلا دلیل یہ خیال قائم کرلیا کہ قرآن مجید کے سواکوئی وحی آنحضرت کی طرف بھیجی نہیں گئی ۔ حضور کو کبھی کسی بات کا الہام ہوا ہی نہیں ۔ جبریل قرآن مجید کے سوا اور کوئی بات پہنچاتے ہی نہ تھے ۔ اور اس تنکے پر انکار کا پہاڑ اٹھائے ہوئے ہیں ۔
محکم دلیل
کتاب اللہ کے ساتھ ، سنت کا نام لینے والوں کے سامنے بزعم خود گویا ایک پہاڑ لا کر رکھ دیا جاتا ہے یہ کہہ کر کہ سنت کہاں ہے ؟ کس کتاب میں ہے ؟ کوئی ایسی کتاب دکھاؤ جس میں سارے اسلامی فرقوں کی متفق علیہ حدیثیں ہوں جس پر سارے فرقوں کا یکساں عملدرآمد ہو ، دکھاؤ ایسی کتاب ؟ ایسا کہنا قرآن فہمی نہیں بلکہ دراصل قرآن سے بے خبری کی شہادت ہے میں نے ان مدعیانِ قرآن فہمی کی اس پہاڑ ایسی دلیل کو کالعہن المنفوشدکھانے کے لیے ایک مستقل رسالہ ” السنّہ ” کے نام سے لکھا ہے ، اس بنا پر یہاں اس بحث کی تفصیلات سے صرفِ نظر کرتے ہوئے چند بنیادی اور اہم باتوں پر اکتفا کرتا ہوں ۔
رسول اللہ   کو تلقینِ ایمان کس وحی کے ذریعہ ہوئی ؟
” منجانب اللہ وحی ” کے عنوان کے تحت کچھ پہلے سورۂ شوریٰ کے آخر کی تین آیتیں لکھ کر وحی کے تین اقسام میں نے قرآن مجید کی ان آیتوں سے ثابت کیے ہیں ۔ ان تین آیتوں میں سے دوسری آیت یعنی سورۂ شوریٰ کی آخری آیت سے پہلے جو آیت ہے اس میں رسول اللہ کو مخاطب کرکے فرمایا گیا ہے کہ( مَا كُنْتَ تَدْرِيْ مَا الْكِتٰبُ وَلَا الْاِيْمَانُ  ) ”(اے رسول ) تم تو جانتے بھی نہ تھے کہ الکتاب ( کتاب اللہ ) کیسی ہوتی ہے بلکہ ایمان (١)کی حقیقت سے بھی واقف نہ تھے ۔ ”
حیرت ہے کہ اس بات پر غور کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی کہ حضرت موسیٰ جب وادی مقدس ” طویٰ ” میں پہنچتے ہیں ۔ تو حسبِ صراحت قرآنی سب سے پہلے اللہ تعالیٰ ان سے فرماتا ہے کہ میں تمہارا رب ہوں( اِنِّیْ اَنَا رَبُّکَ) گویا اللہ اپنا تعارف کراتا ہے ۔ پھر انہیں بتاتا ہے کہ وہ کس مقدس جگہ کھڑے ہیں ( اِنَّکَ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًی ) پھر ان کو منصبِ رسالت پر فائز کرنے کی وحی کرتا ہے (وَ اَنَا اخْتَرْتُکَ)  پھر اس کے بعد دوبارہ گویا اپنا تعارف اس طرح کراتا ہے کہ ( اِنَّنِیْ اَنَا اللّٰھُ لَآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنَا ) ( بے شک میں ہی اللہ ہوں میرے سوا کوئی الہٰ نہیں ) پھر انہیں حکم دیتا ہے کہ ( فَاعْبُدْنِیْ ) ( لہٰذا میری ہی عبادت کیا کرو ) پھر اس عبادت کے سلسلے میں حکم دیتا ہے کہ ( وَ اَقِمِ الصَّلٰوةَ لِذِکْرِیْ)( میری یاد کے لیے نماز کی پابندی رکھو ) پھر حضرت موسیٰ اور اللہ کے کے درمیان کچھ اور گفتگو ہوتی ہے اس کے بعد اللہ تعالیٰ ان کو” ایک کارِ خاص ” پر مامور فرماتا ہے ۔ ( اِذْھَبْ اِلٰی فِرْعُوْنَ اِنَّہ طَغٰی ) ( فرعون کے پاس جاؤ ، کہ وہ سرکش ہورہا ہے )۔

لیکن رسول اللہ کے پاس حضرت جبریل آتے ہیں تو نہ اپنا تعارف کراتے ہیں نہ ایمان کی تلقین کرتے ہیں ۔ باوجودیکہ رسول اللہ ایمان کی حقیقت سے واقف نہ تھے (٢) ۔ ( مَا کُنْتَ تَدْرِیْ مَا الْکِتٰبُ وَ لَا الْاِیْمَانُ ) اور نہ وہ رسول اللہ کو یہ بتاتے ہیں کہ اللہ نے آپ کو منصبِ رسالت پر فائز کردیا ہے ، پس اچانک وہ نمودار ہوتے ہیں اور آتے ہی سورۂ علق کی ابتدائی چند آیات پڑھوادیتے ہیں !!

یقینا منصبِ نبوت عطا کرنے سے پہلے آپ کو تلقینِ ایمان کی گئی ہوگی ، تاکہ آپ اوّل المومنین ہوں ، مگر نبوت کا آغاز کس طرح ہوا ؟ تلقینِ ایمان کس طرح ہوئی ؟ قرآن مجید اس کو بیان نہیں فرماتا ۔ روایتیں جو آغازِ وحی کی ہیں ان میں کہیں تلقینِ ایمان کا ذکر نہیں ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے غشی سے افاقے کے بعدفرمایا ( اَنَا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِیْنَ ) مگر رسول اللہ کے لیے قرآن مجید میں اوّ ل المومنین کا لفظ کہیں نہیں ہے اور اس کے ذکر کی ضرورت بھی نہ تھی کیونکہ حضور کا اوّل المومنین ہونا قطعی و یقینی ہے ۔ عیاں را چہ بیاں۔
سورۂ بقرہ کے آخری رکوع آیت ٢٨٥ کے شروع میں ہے :
(  اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْهِ مِنْ رَّبِّهٖ وَالْمُؤْمِنُوْنَ ۭ كُلٌّ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَمَلٰۗىِٕكَتِهٖ وَكُتُبِهٖ وَرُسُلِهٖ  )
” یہ رسول ایمان لائے ان سب وحیوں پر جو ان کے رب کی طرف سے ان پر اتاری گئیں اور سارے مومنین ایمان لائے ۔ سب کے سب ایمان لائے اللہ تعالیٰ پر ، اس کے فرشتوں پر ، اس کی کتابوں پر ، اس کے رسولوں پر ۔ ”
تو یہ خبر وہی ہے سب کے ایمان لانے کی ۔ سب کے سب بیک وقت بیک روز تو ایمان نہیں لائے تھے ۔ مومنین نے تو جب رسول سے دعویٰ نبوت و رسالت سنا قرآن مجید کی آیتیں سنیں تب رسول پر ایمان لاتے گئے ۔ خود رسول اللہ کب ایمان لائے ؟ کس دن کس وقت ؟ اور کس حکم سے ایمان لائے اور کس کی تلقین سے ایمان لائے یقینا کوہِ حرا میں حضرت جبریل حضور کے پاس آئے تو پہلے انہوں نے اپنا تعارف کرایا ہوگا اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے تلقینِ ایمان کی وحی پیش کی ہوگی کیونکہ آپ ایمان کی حقیقت اور تفصیل سے ناواقف تھے ( جیسا کہ قرآن کی مذکورہ آیت میں بتصریح مذکور ہے )۔اللہ تعالیٰ پر اگرچہ فطری ایمان ہوگا مگر فرشتوں پر کتابوں پر اگلے رسولوں پر اور قیامت پر ایمان کی تفصیل کا علم نہ ہوگا ۔ تلقینِ ایمان کے بعد جب آپ اوّل المومنین ہوگئے تو پہلے آپ کو آپ کے منصب نبوت و رسالت کی حقیقت سے مطلع کیا ہوگا اور اس کی بھی وحی ہی لے کر آئے ہوں گے ، اس کے بعد سب سے پہلی وحی جو حضور کے سامنے پیش ہوئی وہ بسم اللہ الرحمان الرحیم کی ، پھر اس کے بعد پوری سورۂ فاتحہ کی وحی ہوئی (٣)۔ تو وحی قرآنی سے پہلے حضرت جبریل نے اپنے ذاتی تعارف کی وحی غیر متلو پیش کی پھر تلقینِ ایمان کی وحی غیر متلو پیش کی پھر منصبِ نبوت و رسالت کی حقیقت سے آگاہ کرنے کی وحی غیر متلو پیش کی ، تین وحی غیر متلو کے بعد پھر پہلے بسم اللہ الرحمان الرحیم کی وحی کتابی پیش کی ۔ پھر سورۂ فاتحہ کی وحی کتابی پیش کی ، تو تین وحی غیر متلو کے بعد دو وحی متلو پیش کیں۔ سورة فاتحہ میں ( اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْن ) کا اقرار تھا ( ایّاک نستعین) میں تو طلبِ اعانت کا اقرار ہے اور طلب کا تعلق قلب سے ہے وہ تو آسان بات تھی مگر( ایاک نعبد ) کا تعلق صرف قلب سے نہیں ہے بلکہ جوارح یعنی دست وپا اور سر و جبین سے بھی ہے لہٰذا کس طرح اس قلبی اقرار کا عملی ثبوت دیا جائے اس کی تعلیم یقینا ضروری تھی ۔ ضرور حضرت جبریل نے حضور کو نماز پڑھانے کے طریقے کی وحی بھی دی بلکہ بہت زیادہ قرینِ عقل و قرینِ قیاس ہے کہ حضرت جبریل نے خود دو رکعت نماز پڑھ کر بتا دیا ہو اور حضور نے اسی جگہ تعلیمِ جبریل کے مطابق دو رکعت نماز پڑھی ہو ۔
غرض ، پہلے تین وحی غیرمتلو ، پھر دو وحی متلو ، ان کے بعد پھر تعلیم صلوٰة کی دو وحی غیر متلو ، زبانی اذکار کی اور عملی ہئیات صلوٰة کی بالواسطہ اور بالتوسط پہونچائی ، اس کے بعد سورہ علق کی پانچ ابتدائی آیتوں کی بسم اللہ الرحمان الرحیم کے ساتھ وحی متلو پیش ہوئی ۔
وحی بالواسطہ اور وحی بالتوسط
سورۂ الشوریٰ کی آیت ٥٢ میں ہے :
( اَوْ یُرْسِلَ رَسُوْلًا فَیُوْحِیَ بِاِذْنِہ مَا یَشَآئُ )
”اللہ تعالیٰ کسی فرشتے کو اپنے نبی کے پاس بھیجتا ہے تو جو کچھ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے اس کے حکم کے مطابق فرشتہ وحی پیش کرتا ہے ۔”
تو اللہ تعالیٰ مرسل یعنی وحی بھیجنے والا اور نبی مرسل الیہ یعنی جس کی طرف وحی بھیجی گئی اور فرشتہ اللہ تعالیٰ اور اس کے درمیان واسطہ ہوا ۔ اگر فرشتے کی حیثیت محض ایک امین کی ہے کہ وحی جس طرح اللہ تعالیٰ نے فرشتے کو دی فرشتے نے بالکل اسی طرح اس کو نبی تک پہنچا دیا فرشتے کا بذات خود اس وحی سے کسی طرح کا کوئی تعلق نہیں تو وہ وحی بالواسطہ ہے اور اگر فرشتے کا بھی فی الجملہ کوئی تعلق قولی یا عملی اس وحی سے ہو تو وہ وحی بالتوسط ہوئی ۔
چونکہ ( اُتْلُ مَآ اُوْحِیَ اِلَیْکَ مِنَ الْکِتٰبِ ) فرما کر اللہ تعالیٰ نے کتابی وحی کی تلاوت کا حکم دیا ہے ۔ اس لیے ایسی وحی جو بالفاظ بطور امانت اللہ تعالیٰ کی طرف سے غیر مشروط طور پر بالکل امانت کی حیثیت سے فرشتے نے آنحضرت کے پاس پہنچائی وہ وحی بالواسطہ وحی متلو ہوئی اور وہی کتابی وحی ہے ۔
دوسری وہ وحی کلامی جو اللہ تعالیٰ نے فرشتے کی طرف فرمائی اور حکم یہ فرمایا کہ انہیں الفاظ میں اس وحی کو تم اپنی طرف سے ہمارے نبی سے کہیو یہ بھی کتابی وحی رہے گی تاکہ ہر تلاوت کرنے والا قیامت تک اس وحی کے مضمون سے آگاہ رہے ۔
جیسے سورة مریم کی دو آیتیں ٦٤، ٦٥ ہیں :
(وَمَا نَتَنَزَّلُ اِلَّا بِاَمْرِ رَبِّكَ ۚ  لَهٗ مَا بَيْنَ اَيْدِيْــنَا وَمَا خَلْفَنَا وَمَا بَيْنَ ذٰلِكَ ۚ وَمَا كَانَ رَبُّكَ نَسِـيًّا        64؀ۚ
رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا فَاعْبُدْهُ وَاصْطَبِرْ لِعِبَادَتِهٖ ۭ هَلْ تَعْلَمُ لَهٗ سَمِيًّا        65؀ۧ
”(اے نبی ) ہم تمہارے رب کے حکم کے بغیر نہیں اترسکتے جو کچھ ہمارے آگے ہے اور جو کچھ ہمارے پیچھے ہے اور جو کچھ اس کے درمیان ہے سب کا مالک وہی ہے اور تمہارا رب بھولنے (٤)  والا نہیں ہے اور وہ سارے آسمانوں کا اور ساری زمین کا اور ان کے درمیان جو کچھ ہے سب کا رب ہے تو پھر تم اسی کی بندگی کا حق ادا کرو اور اسی کی بندگی پر ثابت قدمی کے ساتھ جمے رہو ( اس کی ) ذات و صفات و اختیارات کا شریک تو کوئی کیا ہوگا )تم اس کے نام کا شریک بھی کیا کسی کو پاتے ہو ؟”
یہ وحی ہے تو کلامی اور بالفاظ اور امانت ہی کی حیثیت سے لفظاً لفظاً پہونچائی گئی مگر اس میں فرشتے کا ذاتی تعلق بھی ہے۔ فرشتے کو حکم ہے کہ اس قول کو تم اپنی طرف سے کہو تو دوہری وساطت ہوئی کلام پہنچانا اور اپنی طرف سے پہنچانا اس لیے میں نے اس قسم کی وحی کا نام وحی بالتوسط رکھا ہے مگر اس قسم کی وحی بالتوسط متلو ان دو آیتوں کے سوا تو کوئی تیسری آیت میرے ذہن میں نہیں ہے ممکن ہے دو ایک اور بھی کہیں ہوں ۔ و اللہ اعلم

وحی بالمفہوم

غرض وحی کلامی بالفاظہ تعالیٰ صرف وحی کتابی ہی ہے اور وحی بالواسطہ ہی ہے بجز مذکورہ دو آیتوں کے جو وحی متلو کتابی بالتوسط نازل ہوئیں یا شاید کوئی اور آیت بھی اس طرح کی ہو البتہ اللہ تعالیٰ نے فرشتے پر مفہوم القاء فرمایا اور فرشتے نے اس مفہوم کو اپنے الفاظ میں نبی تک پہنچایا تو یہ وحی بالتوسط ہے اگر اللہ تعالیٰ کی جانب سے فرشتے نے پہنچایا ہے تو وہ حدیثِ قدسی ہے اور اگر حسبِ حکم ربانی فرشتے نے اپنی طرف سے کہا ہے تو وہ حدیث جبریل ہے اگر حضرت جبریل ہی اس وحی کو پہنچانے والے ہیں ورنہ جو فرشتہ بھی ہو اس کی طرف وہ حدیث منسوب ہوگی ۔
حواشی
(١)           ولا ایمان پر واو اضراب کے لیے آیا ہے یعنی ” بلکہ ” کے معنی میں ہے ۔
(٢)           یعنی ایمان اور اعمال ایمانیہ کی یہ تفاصیل جو بذریعہ وحی معلوم ہوئیں ” پہلے سے کہاں معلوم تھیں ” گو رسول اللہ نفسِ ایمان کے ساتھ ہمیشہ متصف تھے ۔( مولانا شبیر احمد عثمانی )
(٣)          بعض روایتوں میں مذکور ہے کہ سب سے پہلے سورۂ فاتحہ نازل ہوئی اور میرے خیال میں یہی قرینِ عقل و صواب ہے اور علّامہ زفخشری کی تحقیق کے مطابق تو اکثر مفسرین کی رائے میں سب سے پہلے نازل ہونے والی سورة الفاتحہ ہے ۔
(٤)          یعنی تم کو بھول نہیں گیا تھا وہ کسی بات کو کسی شخص کو بھی بھولتا نہیں ہے ۔

توہین رسالت اور مغرب کا اندازِ فکر


جریدہ "الواقۃ” کراچی، شمارہ  (5 / 6 )  شوال، ذیقعد  1433ھ/   ستمبر، اکتوبر 2012

محمد تنزیل الصدیقی الحسینی

توہین رسالت ﷺ اور مغرب کا اندازِ فکر (1)

رسالتمآب کی توہین و تنقیص کا جو سلسلہ مغرب یا عیسائی دنیا کی جانب سے جاری ہے ، اس اندازِ فکر کا تاریخی تجزیہ کرنا نہایت ضروری ہے ۔ اس دریدہ ذہنی کے مختلف عوامل ہیں ۔ مسلمانوں کے مقابل میدانِ جنگ میں شکست کی ذلت ، اسلام کی غیر معمولی نشر و اشاعت کے سامنے اپنی بے بسی ،مسلمانوں کی اخلاقی وسعت کے سامنے اپنی برہنہ تہذیب کا احساس اور ان سب سے بڑھ کر سیرتِ محمدی کی حیرت انگیز روحانی تاثیر ۔ یہ وہ عوامل ہیں جو ان کی طبیعتوں پر اسلام کے حوالے سے جھنجھلاہٹ ، ہٹ دھرمی اور عامیانہ پن پیدا کردیتے ہیں ۔

مغرب میں توہینِ رسالت کا مختصر تاریخی جائزہ

مغربی دنیا نے ابتدا میں مسلمانوں کے مقابل مسلسل ناکامی پر اپنی بے بسی کا اظہار مسلمانوں کے لیے بدنما القاب رکھ کر کیا ۔ چنانچہ مسلمانوں کو بت پرست Pagan، ملحد Saracen / Infidel وغیرہا القاب سے نوازا گیا ۔ آخری اصطلاح سے متعلق بعض مستشرقین نے بڑی دلچسپ حاشیہ آرائیاں کی ہیں جن سے ان کی ” وسعتِ ظرف و اخلاق ” کابخوبی احساس ہوتا ہے ۔ مسلمانوں کے خلاف کلیسا کے شدت پسندانہ پروپیگنڈا کا اندازہ اس مقولے سے لگایا جا سکتا ہے :

The only good Saracen is a dead Saracen.”

اس تحریکِ منافرت ہی کے نتیجے میں مسلمانوں کو زوالِ اسپین کا صدمہ برداشت کرنا پڑا ۔ مغرب میں انتہائی وسیع پیمانے پر مسلمانوں کو شہید کیا گیا ۔ عیسائی دنیا کے جذبات بھڑکانے کے لیے بے شمار پادریوں کو فرضی داستانوں میں مسلمانوں کی تلوار سے قتل کروایا گیا ۔ لطف یہ ہے کہ آرڈر بلیو سدرن R.W.Southern نے اوتو آف فریزنگ کے حوالے سے لکھا ہے :

” آرچ بشپ تھیمو کو مسلمانوں نے اس لیے قتل کر ڈالا کہ اس نے قاہرہ میں ان کے بتوں کو توڑ ڈالا تھا۔” (بحوالہ اسلام ، پیغمبر اسلام اور مستشرقینِ مغرب کا اندازِ فکر : ١٨٣)

کجا مسلمان ، کجا اصنام پرستی !

معاندانہ جذبات سے مغلوب ہوکر علوم اسلامیہ کا جائزہ لینے کے لیے تحریکِ استشراق کا آغاز کیا گیا ، جس کا مقصدِ اوّلین پیغمبر اسلام پر دشنام طرازی کے لیے ” نئی علمی و تاریخی راہوں ” کی تلاش تھا ۔

پہلے پہل جس مسیحی عالم نے اسلامی علوم و فنون کو اپنا مرکز توجہ ٹھہرایا ۔ وہ یوحنّا دمشقی تھا ۔وہ شام کے ایک عرب عیسائی گھرانے میں ٦٧٦ء کو پیدا ہوا ، اس نے مدارسِ اسلامیہ میں تعلیم کے مراحل طے کیے ۔ اسے عربی زبان پر مکمل عبور حاصل تھا اور اسلامی تہذیب و ثقافت سے وہ بخوبی آشنا تھا ۔ اسلام کے خلاف اس کی کتاب Cocerning Heresy Haireseon کا دسواں باب ہے ۔ اس زمانے میں مسلمانوں کو حضرت اسماعیل علیہ السلام کی طرف نسبت دیتے ہوئے عیسائی حضرات اسماعیلی کہتے تھے ۔ چنانچہ اس کی کتاب میں مسلمان کی بجائے اسماعیلی کی اصطلاح ملے گی ۔ اس کا انتقال ٧٤٩ء کو بیت المقدس کے اطراف میں واقع ایک مقام بارسبا میں ہوا ۔ اگرچہ اس کا تعلق شام سے تھا مگر بقول ڈاکٹر محمود احمد غازی :

"اس کی تحقیقات کا استشراق میں بڑا اہم مقام حاصل ہے ۔ اس نے اسلام کے بارے میں جو کچھ لکھا ، قرآن مجید کے بارے میں جو کچھ لکھا اور حضور علیہ الصلوةٰ و السلام کی ذات گرامی کے بارے میں جو کچھ لکھا وہ ایک طویل عرصے تک مغربی ماہرین اور مغربی اہلِ علم کے لیے بہت بڑا مآخذ و مصدر رہا ۔ اس کی تحریروں کا لاطینی زبان میں ترجمہ بھی ہوا ۔ لاطینی زبان سے دوسری مغربی زبانوں میں اس کے خلاصے ہوئے اور جو تصورات اس نے قائم کیے تھے ، جن خیالات کا اس نے اظہار کیا تھا ، انہوں نے ایک طویل عرصے تک مغرب کے اہلِ علم کو متاثر کیا ۔ اور وہ غلط فہمیاں یا شکوک و شبہات جو یوحنا دمشقی نے پیدا کیے تھے ، طویل عرصے تک دُہرائے جاتے رہے ۔ ” (خطبات کراچی : ٢٥٠)

مغربی دنیا یوحنا دمشقی کے پھیلائی ہوئی غلط فہمیوں سے بری طرح متاثر ہوئی اور اسلام ، عقائدِ اسلام اور پیغمبر اسلام کے خلاف ان کے زاویۂ فکر و نگاہ میں مزید ابتری آئی ۔ صلیبی جنگوں نے یورپ کو اسلام کے خلاف مزید متعصب بنا دیا ۔ ایسے ایسے شرمناک الزامات انہوں نے نبی کریم کی ذات اقدس پر عائد کیے کہ جس کا ذکر بھی انسانیت کے لیے باعثِ تذلیل ہے ۔ یہ تعصب و عناد صرف عوامی سطح تک محدود نہیں تھا بلکہ تعلیم یافتہ اور اعلیٰ دماغ کے افراد بھی اسلام اور پیغمبر اسلام کے لیے یکساں مزاج رکھتے تھے ۔

اطالوی زبان کا سب سے بڑا شاعر دانتے الیگری Dante Alighieri ( ١٢٦٥ء -١٣٢١ء ) عالمی ادبیات میں نمایاں مقام کا حامل تھا ۔ مگر نبی کریم کے بارے میں اس کے خیالات نہایت عامیانہ تھے ۔ اس کی مشہورِ زمانہ کتاب Divine Comedy ( طربیہ خداوندی ) مختلف زبانوں میں منتقل ہوچکی ہے ۔ اردو میں بھی اس کا ترجمہ ہوا ہے ۔ اس کتاب میں اس نے اپنے ایک روحانی سفرنامے کا تذکرہ کیا ہے ۔ یہ خیال بھی اس کا اپنا نہیں بلکہ مسلمانوں سے اخذ کردہ ہے ۔ نبی کریم کے سفرِ معراج سے وہ واقف تھا ۔ اسی طرح شیخ ابن عربی نے بھی ایک روحانی سفرنامہ لکھا ہے ۔ ابن عربی کا تعلق اسپین سے تھا ۔ ان کی تحریروں سے مغربی مفکرین واقف اور آگاہ تھے ۔ الغرض دانتے کا یہ ” عظیم شاہکار ” بھی مسلمانوں ہی کے علمی ورثے کا نتیجہ ہے ۔ لیکن مسلمانوں سے اس کی نفرت و عداوت ملاحظہ ہو ۔ اس تخیلاتی سفر میں وہ جنت بھی گیا اور دوزخ بھی۔ وہاں اس نے نبی کریم کو بھی دیکھا اور جو کچھ خرافات اس کے دماغ میں تھے وہ سب اس نے نبی کریم کی ذات گرامی سے منسوب کیا ۔

مارٹن لوتھر Matin Luther ( ١٤٨٣ء -١٥٤٦ء ) کو اگرعیسائی مغرب کا سب سے بڑا مصلح قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہوگا ۔ یہ عیسائیوں کے مشہور فرقے پروٹسٹنٹ Protestant کا بانی تھا ۔ عیسائی مذہب میں اصلاحِ مذہب کی تاریخ مارٹن لوتھر سے شروع ہوتی ہے ۔ اس نے جو اصلاحات کیں ۔ وہ سب اسلام ہی سے اخذ کردہ ہیں ۔ مثلاً اللہ اور بندے کے درمیان کوئی واسطہ نہیں ، اللہ براہِ راست اپنے بندے کی سنتا ہے ۔ آسمانی کتابوں میں تبدیلی کا حق کسی کو حاصل نہیں ۔تمام انسان پیدائشی اعتبار سے برابر ہیں ، کسی کو کوئی وجۂ امتیاز حاصل نہیں۔ پوپ اللہ اور بندے کے درمیان وسیلہ نہیں ہے ۔ یہ وہ تعلیمات ہیں جو سب سے پہلے اسلام نے پیش کیں ۔ لیکن اپنے دور کی نفرت انگیز ماحول سے وہ انگیز فقرے کستا تھا ۔ اس کی بانسری سے وہی ساز نکلتا تھا جو عرصہ سے مغربی علماء و مفکرین نکال رہے تھے ۔

ولیم شیکسپیئر William Shakespeare      ( ١٥٦٤ء -١٦١٦ء ) جسے مغربی دنیا ، دنیا کا سب سے ڈرامہ نگار قرار دیتی ہے ۔ جس کی ادبیات انگریزی ادب کی جان ہیں ۔ وہ بھی اسلام کے بارے میں اپنے عہد و ماحول کے تصورات سے مغلوب رہا ۔ اس کے ایک ڈرامے میں Mohamet کے نام سے ایک کردار ہے جسے اس نے تمسخر کا نشانہ بنایا ہے ۔

مشہور فرانسیسی شاعر ، ادیب ، فلسفی اور ڈرامہ نگار والٹیئر Francois Marie Arouet Voltaire ( ١٦٩٤ء – ١٧٧٨ء ) نے ایک ڈرامہ لکھا "Fanaticism or Mohamet”  فیناٹک ازم کا مطلب ہے پاگل پن ، دیوانگی ۔ اس ڈرامے پر اس دور کے پوپ نے والٹیئر کو مبارکباد کا خط لکھا ۔ اس سے اندازہ لگائیے کہ اٹھارویں صدی میں یورپ کی علمی و مذہبی زندگی کا کیا حال تھا ۔

بایں ہَمہ یہ چھ سات سو سالہ دور ہے جسے خود اہل یورپ تسلیم کرتے ہیں کہ یہ جہل و تاریکی کا دور ہے ، تحقیق و مطالعے پر مبنی نہیں ۔ لیکن جب یورپ میں زمانۂ تحقیق شروع ہوا تو علم و تحقیق کے نام پر تعصب و عناد کی ملمع کاری کی گئی ۔ اٹھارویں صدی ہی میں خیال غالب ہوا کہ مضحکہ خیز اعتراضات سے گریز کرنا چاہیئے ۔ مثلاً پالتو کبوتر کے ذریعے نبی کریم کی وحی رَسانی کی کوششیں ، مسلمانوں کی بت پرستی کا فسانہ وغیرہا۔

مغرب میں عظمتِ محمدی کا اعتراف

اٹھارویں صدی کا عظیم جرمن شاعر گوئٹے Johann Wolfgang von Goethe (١٧٤٩ء -١٨٣٢ئٍ)پہلا مغربی فرد ہے جس نے عظمتِ محمدی کا بَرملا اعتراف کیا ۔

گاڈ فرے  ہیگن Godfrey Higgins (١٧٧٢ئ-١٨٣٣ء ) اپنے دور کا سماجی رہنما ، ادیب اور ماہر آثار قدیمہ تھا ۔ اس نے نبی کریم پر عائد کردہ مغربی الزامات کی تردید میں "An Apology for The Life and Character of the Celebrated Prophet of Arabia, called Mohamed or The Illustrious” لکھی ۔ یہ کتاب لندن سے ١٨٢٩ء میں شائع ہوئی ۔ اس میں اس نے متعدد غلط فہمیوں کو دور کیا ۔ مثلاً

"It is a very great mistake to suppose that the Mohamedan religion was propagated by the sword alone.” )page:53 (

” یہ بہت بڑی غلطی ہے کہ یہ سمجھا جائے کہ محمڈن مذہب ( اسلام ) صرف تلوار کے زور سے پھیلا ہے ۔”

سرسیّد احمد خان نے بھی ” خطبات احمدیہ” میں گاڈ فرے  ہیگن کی اس کتاب کی تعریف کی ہے ۔

 تھامس کارلائل Thomas Carlyle ( ١٧٩٥ء – ١٨٨١ء ) وہ پہلامغربی فلسفی ہے جس نے نہایت قوت کے ساتھ اپنے لیکچرز میں نبی کریم پر عائد کردہ بعض مغربی الزامات کی تردید کی ، اس نے بَرملا کہا :

"حضرت محمد ( ) کے متعلق ہمارا موجودہ قیاس بالکل بے بنیاد ہے کہ آپ ( ) دغا باز اور کذبِ مجسم تھے اور آپ کا مذہب محض فریب و نادانی کا ایک مجموعہ ہے ، کذب و افترا کا وہ انبارِ عظیم جو ہم نے اپنے مذہب کی حمایت میں اس ہستی کے خلاف کھڑا کیا خود ہمارے لیے شرم ناک ہے ۔”

جب پوکاک نے گروٹی بس سے پوچھا :

"ہمارے اس قصے کے متعلق کیا ثبوت ہے کہ محمد ( ) نے ایک کبوتر سدھا رکھا تھا ، جو ان کے کانوں سے مٹر کے دانے چنا کرتا اور جسے وہ کہتے کہ فرشتہ وحی لایا ہے ؟”

 تو گروٹی بس نے جواب دیا :

"اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے ۔ ”اب دراصل وہ وقت آ پہنچا ہے کہ اس قسم کی مہمل باتیں چھوڑ دی جائیں، اس شخص (   کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ آج بارہ سو برس سے اٹھارہ کروڑ انسانوں کے حق میں شمع ہدایت کا کام دے رہے ہیں ، یہ اٹھارہ کروڑ انسان بھی ہماری طرح خدائے تعالیٰ کے دست قدرت کا نمونہ تھے ۔ بندگانِ خدا کی بیشتر تعداد آج بھی کسی اور شخص کے بہ نسبت محمد  ) کے اقوال پر اعتماد رکھتی ہے ، کیا ہم کسی طرح اسے تسلیم کرسکتے ہیں کہ یہ سب روحانی بازی گری کا ایک ادنیٰ کرشمہ تھا جس پر اتنے بندگانِ خدا ایمان لائے اور گزر گئے ؟ اپنی حد تک تو میں ایسا قیاس نہیں قائم کرسکتا ، اسے ماننے سے پہلے میں بہت سی بعید از قیاس باتوں کوتسلیم کرلوں گا ، اگر اس دنیا میں مکر و فریب اس قدر فروغ پا سکتا ہے تو سمجھ میں نہیں آتا کہ ایسی دنیا کے متعلق کیا رائے قائم کی جائے ۔” (سیّد الانبیاء ( تھامس کارلائل کی کتاب ” ہیروز اینڈ ہیرو ورشپ ” کے دوسرے لیکچر کا اردو ترجمہ از قلم محمد اعظم خاں ) ص : ٢٣-٢٥، مطبوعہ کاروانِ ادب کراچی ١٩٥١ء)”


امریکی مصنف جان ڈیون پارٹ John Davenport(١٧٨٩ء -١٨٧٤ء) نے
 "An Apology for Mohammed and The Koran"
 لکھی۔ یہ کتاب لندن سے ١٨٦٩ء میں شائع ہوئی ۔ یہ کتاب چار ابواب پر مشتمل ہے ۔
1. Mohammed   : A Biography.
2.  The Koran and its Morality.
3.  Charges against Mohammed Refuted.
4.  Beauties of The Koran.
کتاب کی ابتدا ہی میں اس نے عظمتِ محمدی کی ایک بڑی خوبصورت دلیل پیش کی ہے ۔ اس نے لکھا ہے :

"what the Arabs were before Mohammed’s appearance and what they became after it.”

” محمد ( ﷺ)) سے پہلے عرب کیا تھے اور ان کے بعد کیا ہوگئے ۔”

ماضیِ قریب میں اعترافِ عظمتِ محمدی کی ایک انتہائی جاندار کوشش ہمیں امریکی مصنف مائیکل ہارٹ Michael H.Hart ( ولادت ١٩٣٢ء ) کی کتاب
 "The 100, A Ranking of the most Influential Persons in Histrory
میں نظر آتی ہے ۔ جس میں اس نے دنیا کی ١٠٠ اثر آفریں شخصیات میں محمد کو پہلے نمبر پر شمار کیا ہے ۔ یہ کتاب ١٩٧٨ء میں نیویارک سے منظرِ شہود پر آئی ۔ ایک عیسائی ہونے کے باوجود سے اس نے دنیا کی بڑی شخصیات میں نبی کریم کو عیسیٰ علیہ السلام سے بھی بلند مقام دیا ۔ اس کی وجہ بتاتے ہوئے وہ لکھتا ہے :

"My choice of Mohammad to lead the list of the world’s most influential persons may surprise some readers and may be questioned by others, but he was the only man in history who was supremely successful on both the religious and secular levels……..Today, thirteen centuries after his death, his influence is still powerful and pervasive.” ( page:33 (

”دنیا کے انتہائی با ثر افراد کی فہرست کی قیادت کے لیے میرا انتخاب محمد ( ) ہیں ۔ممکن ہے میرا انتخاب بعض قارئین کو ورطۂ حیرت میں ڈال دے اور بعض سوال کرنے پر مجبور کردے ۔ لیکن یہ تاریخ کی واحد شخصیت ہیں جو دونوں سطحوں یعنی مذہبی اور سیکولر اعتبار سے انتہائی کامیاب رہے ۔ ……. آج جبکہ ان کی وفات کو ١٣ صدیاں بیت چکی ہیں ۔ ان کا اثر آج بھی طاقتور اور وسیع ہے ۔ ”

ان مغربی اہلِ علم کی روشن ضمیری اپنی جگہ ان کے بعد گو ساز وہی رہے ، تاہم سروں میں فرق آگیا، چنانچہ یہ روش اختیار کی گئی کہ نبی کریم کی بعض خوبیوں کا اعتراف کیا جائے اور ساتھ اس اعتراف کو غیر مؤثر بنانے کے لیے کچھ ایسی غیر حقیقی توجیہ بھی کردی جائے جو پڑھنے والوں پر فضیلتِ محمدی عَیاں نہ ہونے دے ، مثال کے طور پر آر ،اے ،نکلسن Reynold Alleyne Nicholson (١٨٦٨ء -١٩٤٥ئ) نے پامر Edward Henry Palmer (١٨٤٠ئ-١٨٨٢ئ)کے ترجمہ قرآن پر جو دیباچہ لکھا ہے اس میں جناب رسولِ کریم کے خلوص کو تسلیم کیا ہے ، تاہم یہ کہنے سے بھی بازنہ رہ سکا :

” جب حالات کے جبر کے تحت پیغمبر  ) ایک حکمراں اور قانون ساز میں ڈھل گئے ، تو بھی یہ ایک نفسیاتی ضرورت تھی کہ وہ خود کو الہامی پیغامات کا منتخب ذریعہ سمجھتے رہیں ۔ ”   (بحوالہ اسلام ، پیغمبر اسلام اور مستشرقینِ مغرب کا اندازِ فکر : ١٦٤)

جاری ہے 

اسرائیل. وجۂ تسمیہ اور تاریخ.


جریدہ "الواقۃ” کراچی، شمارہ  (5 / 6 )  شوال، ذیقعد  1433ھ/   ستمبر، اکتوبر 2012
مولانا ابو الجلال ندوی

اسرائیل — وجۂ  تسمیہ اور تاریخ (2)

موسیٰ علیہ السلام کی پیش گوئی
حضرت موسیٰ کے ہمراہ جو لوگ نکلے اور جو بعد میں آکر اُن کے ساتھ ہوگئے، وہ سب کے سب دین ِ موسیٰ پر نہ تھے’ ان کے ایک بڑے گروہ نے باربار حضرت موسیٰ سے بغاوت کی،جس کے تذکرہ سے بائیبل اور قرآن بھرا پڑا ہے۔ حضرت موسیٰ  ان لوگوں کو مصر سے اِس لیے نکال لائے تھے کہ اِس قوم کو ارضِ کنعان میں آباد کریں۔آپ نے قوم سے اِ س علاقہ میں داخل ہونے کے لیے فرمایا تو ان لوگوں نے کہا کہ اِس سرزمین میں ایک جبا ر قوم ہے، اِس لیے ہم داخل نہ ہوں گے،
”جا تو جا اور تیرا رب جائے،تم دونوں جاکر لڑو،ہم لوگ یہیں بیٹھے (تماشا دیکھتے) ہیں” ۔ اِ س لیے خدا نے فرمایا:
(قَالَ فَاِنَّهَا مُحَرَّمَةٌ عَلَيْهِمْ اَرْبَعِيْنَ سَـنَةً ۚ يَتِيْھُوْنَ فِي الْاَرْضِ ۭ )(المآئدة:٢٦)
”تو اب یہ علاقہ ان پر ٤٠ برسوں کے لیے حرام قرار دیا گیا، یہ لوگ زمین میں سرگرداں پھرتے رہیں گے۔”
بائیبل کے بیان کے مطابق خدا نے فرمایا تھا کہ کالب بن جفنہ اور یوشع بن نون کے سوا’اس وقت جن لوگوں کی عمر ٢٠ برس تک یا زیادہ کی ہے اس سرزمین میں داخل نہیں ہوں گے۔
سن ٣٨ خروج میں (استثنا،٢:١٤)، حضرت موسیٰ نے خدا سے درخواست کی کہ اب تو ہم کو اس زمین میں داخلہ کی اجازت ہو،لیکن یہ درخواست منظور نہ ہوئی البتہ آپ کو ایک پہاڑ پر چڑھ کو وہ علاقہ دیکھنے کی اجازت ملی ۔ (استثنا، ٣:٢٤ تا ٢٧) تب حضرت موسیٰ نے لوگوں کو جمع کیا اور وعظ کہتے ہوئے فرمایا:
”اَنَوکِی مَیِت بِاَرص ھَزَات اّینَنِی عُبِرْ ھَیَردَن وَاَتِّم عُبَریم ویرشتم اِتَ ھَاَرص ھَطُبَہ ھزات”( استثنا ٤:٢٢)
”ھِشْمَرو لکِم فِنْ تشکحو ات بریت یھوہ الوھیکم اشر بَرَت عِمْکِم و عَشَیْتِم لَکِم فِسِل تَمُونَتَہ کل اَشِرصوِّک یھوہ الوھیک” (استثنا ٤:٢٣)
”کی یھوہ الوھیک ایش اکلہ ھُوَا ایل قنّا”( استثنا ٤:٢٤)
”کی تولید بنیم و بنی بنیم ونوشتم بارص وَھِشْحَتِّم وعشیتم فسل تمونہ کل وَعَشَیتم ھرع بعینی یھوہ الوھیک لھکعیسو”(استثنا ٤:٢٥)
”ھَعِیدتِی بَکِم ھیوم ات ہشمیم و ات ھارص کی اَبُدْتابدون مہر مِعَلْ ھارص اشر اتم عُبِریم ات ھیردن شَمّہ بِرِشْتَہ لا تارِئکیون یومیم عَلیہ کی ھِشمَد تشمدون ” (استثا ٤:٢٦)
”وَھَفِیص یہوہ اِتکم بعَمٰیم وَنِشِارتم مِتی مسفر بجویم اشر ینھج یھوہ اتکم شمہ’‘ (استثنا ٤:٢٧)
”وَعَبَد تِم(شم) الوہیم معشہ یدی ادم عص واِبن اشر لایَراُون وَلایشمعون ولایاکلون ولایریحون” (استثنا ٤:٢٨)
” وَبَقشتم مِشّم ات یھوہ الوھیک ومصات کی تدرشنو بکل لِگِّی ولکل نفشک ” (استثنا ٤:٢٩)
”بِصر لک ومصاوک کل ھدبریم ھالّہ باحریتِ ھبومیم وسَبَتَّ عد یھوہ الوھیک وسمعت بقولو” (استثنا ٤:٣٠)
”کی ایل رحوم یھوہ اِلّوھیک لا یَرفکَ ولا یشحیتک ولا یشکح ات بریت ابوتیک اشر نِشبَع لھم” (استثنا٤:٣١)
”میں تو اِس زمین میں مر جاؤں گا۔میں اردن پار نہ جا سکوں گا۔تم لوگ پار جاؤگے اور اِس پاکیزہ زمین کے وَارِث بنوگے۔ پاسبانی کرو تم لوگ اپنی، نہ  کہ تم اﷲ اپنے معبود کے میثاق کوبھول جاؤ جو اُس نے تم سے لیا ہے ۔اور بناؤ اپنے لیے تراشی مورت کسی چیز کی جس سے اﷲتیرے معبود نے منع کیا ہے۔ کیوں کہ اﷲ تیرا معبود کھا لینے والی آگ ہے، غیرت مند خداوند ہے۔کیونکہ پیدا ہوں گے تم سے اور بیٹوں کے بیٹے اور زمین میں تم آباد ہو چکے ہوگے اور تم خراب ہوجاؤگے اور بناؤگے ہر چیز کی تراشی مورت اور اﷲ اپنے معبود کی آنکھوں کے سامنے اسے ناراض کرنے کو برائی عمل میں لاؤگے۔آج کے دِن میں تمہارے خلاف آسمانوں اور زمین کو گواہ بناتا ہوں کہ اِس زمین پر سے جہاں تم اردن پار جاؤگے اُس کے وَارِث ہونے کو،جلد تباہ ہوجاؤگے تباہ۔اس پر دِنوں کو دراز نہ کروگے بلکہ تم اُکھیڑ ہی دیے جاؤگے اور تم کو قوموں کے درمیان جہاں تم کو خدا لے جائے گا ،شمار میں تھوڑے ہونے اور انسانی ہاتھوں کے بنائے ہوئے دیوتاؤں کو لکڑی اور پتھر کو پوجوگے جو نہ دیکھتے ہیں،سنتے نہیں،کھاتے نہیں،سونگھتے نہیں۔ اور تلاش کروگے تم وہاں سے اﷲ اپنے خدا کو اور پائے گا تو کیو ں کہ ڈھونڈے گاتو اُسے اپنے سارے دِل سے اور اپنی ساری جان سے۔ جب تو دُکھ میں پڑے گا اور یہ سب حادثے تجھ پر پڑیں گے دِنوں کے آخر میں اور تو اﷲ اپنے خداکی طرف پھرے گا اور اس کا قول سنے گا چونکہ اﷲ تیرا خدا رحیم خدا ہے، اِس لیے وہ تجھے چھوڑ نہ دے گا،تجھے ہلاک نہ کرے گا ،تیرے بزرگوں کے ساتھ کیے ہوئے عہد کو مسترد نہ کرے گا۔”  (سفر استثنا ٤:٢٢تا٣١)
اِس تقریر کے کچھ عرصہ بعد آپ نے دو تحریریں لکھیں، ایک لعنت نامہ تھی اور ایک برکت نامہ تھی اور حکم دیا کہ یہ دونوں تحریریں دو پتھروں پر کندہ کی جائیں ،اردن پار کرنے کے بعد برکت نامہ کو ”جرزیم” نام کے پہاڑ پر اور لعنت نامہ کو ”عباریم” (عیبال ) پہاڑ پر نصب کیا جائے اور فلاں فلاں قبائل کے سردار ‘ اِن نوشتوں کو سنائیں۔ حضرت یوشع کے زمانے میں اِس وصیت کی تعمیل ہوئی۔ (استثنا ١١:٢٦،٢٩،و ٢٧:١ تا ٢٦،یشوع ٨:٣٠تا ٣١)۔  پھر نہیں معلوم یہ دونوں پتھر کیا ہوگئے؟ لعنت نامہ میں وہ مصائب بیان کیے گئے تھے جو شریعت کے خلاف ورزی کی صورت میں خداوندِ عالم نازل فرمانے والا تھا۔ لعنت نامہ میں یہ بھی فرمایا تھا کہ اگر تم لوگ احکام کی سختی سے پابندی نہ کروگے اور مناہی کی خلاف ورزی کروگے تو:
”یولک یہوہ اتک وَ اَت مَلِکَک اَشر نقیم علیک ال جوی اشر لا یدعت اتہ وابوتیک وعبدت شم الوہیم اشریم عِص وابن”(استثنا ٢٨:٣٦)
”خداوند تجھے اور تیرے بادشاہ کو جسے تو اپنے اوپر قائم کرے گا ایسی قوموں تک لے جائے گا جن کو نہ تو جانتا ہے اور (نہ) تیرے آبا (جانتے تھے) اور وہاں تو کاٹھ اور پتھر کے اجنبی دیوتا پوجے گا۔”
”بنیم و بنوت تلید و اَل ھَیوُ لکَ کی یلکو بشبی” (استثنا ٢٨:٤١)
”تو بیٹے اور بیٹیاں جنے گا اور تیرے نہونگے کیوں کہ قید ہو کر جائیں گے۔”
”ھجیر اشر بقربک بعلہ علیک معلہ معلہ واتہ ترد مَطّہ مطّہ” (استثنا ٢٨:٤٣)
”پڑوسی جو تیرے درمیان ہوگا وہ تجھ سے اونچا ہوگا، اونچا اونچا اور تو کرے گا نیچا نیچا”
”ھو یَلوک وانہ لا یَلوکو ھو الھیہ لراش واتہ تھیہ لزنب” (استثنا ٢٨:٤٤)
”وہ قرض دے گا اور تو اُسے قرض نہ دے گا،وہ سر کی بجائے ہوگا اور تو دم کی بجائے ہوگا۔”
”وعبدت ات اوبیک اشریشلحنو یھوہ بک برعب وبصما و بعیرم و بشر کل و نتن عول و برزل عل صوارک عد ھشمیدو اوتک ” (استثنا ٢٨:٤٨)
”اور تو چاکری کرے گا اپنے اِن دُشمنوں کی جن کو خدا تجھ پر بھیجے گا اور بھوک اور پیاس اور عریانی اور چیز کی حاجت کے سبب۔اور وہ تیری گردنوں میں لوہے کے طوق ڈالے گا یہاں تک کہ تجھے وہ تباہ کردیں گے۔”
”یشا یھوہ علیک جوی مرحق مقصہ ھارص کاشریداہ ھُنشِر جوی اشر لا تشمع لشونو” (استثنا ٢٨:٤٩)
”خداوند تیرے خلاف دور سے ِزمین کے سرے ایک گروہ کو برانگیختہ کرے جیسے کہ گدھ دکھائی دیتاہے،ایسی قوم جس کی بولی تو نے نہیں سنی۔”
”وحصر لک بکل شعریک عد ردت حمد تیک ھجبہت وھبصوردت اشراتہ بطح بھن بکل اَرصک وحصر لک بکل شعریک بکل ارصک اشر نتن یھوہ الوھیک لک” (استثنا ٢٨:٥٢)
”اور محاصرہ کرے گا تیرا،تیرے تمام پھاٹکوں میں یہاں تک کہ ڈھے جائیں گی تیری بلند اور مستحکم فصیلیں جن پر تیری تمام سرزمین میں تیرا بھروسا ہوگا اور محاصرہ کرے گا تیرا تیرے ہر پھاٹک میں تیری ساری سرزمین میں جو اﷲ نے تجھے دی ہوگی۔”
”وَ ھَفِیصک یھوہ بکل ہعمیم مِِقِصَّہ ھارص عدقصہ ھارص۔۔۔۔” (استثنا ٢٨:٦٤)
”اور پراگندہ کرے گا تجھے اﷲ تمام قوموں کے درمیان اقصائے زمین سے اقصائے زمین تک۔۔۔”
”وبجویم ھھم لاترجیع ونتن ولا یھیہ منوح لکف رجلک ونتن  یہوہ لک شم لب رجز و کلیون عینیم ودابون نفش” (استثنا ٢٨:٦٥)
”اور ان قوموں کے درمیان تو چین نہ پا ئے گا اور تیرے پاؤں کے تلوے کو قرار نہوگا اور دے گا تجھے وہاں دِل کی دھڑکن اور آنکھوں کی تیرگی اور جی کی غم ناکی۔”
”وَھشیبک یھوہ مصریم بانیوت بدرک اشر امرتی لک لاتسیف عود لِرَاُوتہَ وھتمکر تم شم لا وبیک لعبدیم ولشفجوت وابن قُنِہ”(استثنا ٢٨:٦٨)
”اور لوٹائے گا تجھے خداوند مصر میں کشتیوں پر اُس راہ سے جس کی بابت میں نے تجھے حکم دیا ہے کہ پھر تو اُسے کبھی نہ دیکھے۔اور ہو جاؤگے اپنے دشمنوں کے ہاتھ غلاموں اور لونڈیوں کی طرح او ر نہوگا کوئی خریدار۔”
”وَھَیَہ کی یباو(علیک) کل ھد بریم ھَاِلِّہ ھَبَرَکہ وَھَقَلَلَہ اشر نََتَتّی لفنیک وَھشبت اِل لِبَبِکَ بکل ھجویم اشر ھد یحک یھوہ الوہیک شمہ” (استثنا ٣٠:١)
”وَشبتَ عد یہوہ الوھیک وشمِعتَ بقولو ککل اشر انوکی مصَوک ھیوم اتَہ وبنیک بکل لِببک وبکل نفشک”(استثنا ٣٠:٢)
”وَشٰبْ یھوہ الوھیک ات شبوتک و رحمک وشب وقیصک مکل ھعمیم اشر ھفیصک یھوہ الوھیک شمہ (بقّعک)”(استثنا ٣٠:٣)
”وھَبیْاک یھوہ الوھیک ال ھارص اشر یرشو ابوتک وبرِشْتَہْ َو ھَیطبک وَھَرَبَک مابوتیک” (استثنا ٣٠:٥)
”ونتن یھوہ الوھیک اِت کل ھَاِلوت ھَاِلّہ وعل شونئیک اشر ردفوک ” (استثنا ٣٠:٧)
”اور ایسا ہوگا کہ یہ ساری باتیں آئیں گی۔برکت اور لعنت بھی،جنھیں میں نے تیرے آگے رکھا ہے اور تو اپنے دِل میں دُہرائے گاان تمام قوموںکے درمیان جہاں خداوند تیرا خدا تجھے بھگائے ہوگا۔اور تو خداوند اپنے خدا کے پاس پلٹے گا اور اس کے قول کواِن سب باتوں کے مطابق جو میں نے تجھے آج بتائیں،تو اور تیرے سے سنیں گے اپنے سارے دِل اور ساری جان سے۔اور لوٹائے گاخداوند تیرا خدا تیری اسیری کو اور رحم کرے گا تجھ پر اور پھیرے گا اور اکٹھے کرے گا تجھے اُن تمام قوموں سے جن کے درمیان خداوند تیرا خدا تجھے پراگندہ کیے ہوگااور وہاں سے واپس لائے گا۔اور لوٹا لائے گا تجھے خداوند تیرا خدا اس ملک میں جس کے وارِث تھے تیرے اسلاف اور تو اس کا وارِث ہوگا اور تیرے ساتھ وہ بھلائی کرے اور تیرے باپوں سے تجھے زیادہ کرے گا۔اور ڈالے گا اﷲ تیرا معبود ان سب نکبتوں کو تجھ سے نفرت کرنے والوں پر،تیرے دشمنوں پر جنھوں نے تجھے ستایا ہوگا۔”
یہ تقریر آپ نے سن ٤٠ خروج کے آغاز میں کی تھی ۔اسی سال کے آخر میں حضرت موسیٰ  نے ١٢٠ برس کی عمر میں وفات پائی۔وفات سے پیشتر آپ پر وحی نازل ہوئی:
”۔۔۔ ھنک شکب عِمْ ابوتیک وقام ھعم ھزہ وزنہ احری الوھی نکر ھارص اشر ھوا باء شمہ بقربو   وعزبنی وھِفیرات بریتی اشرکرتی اِتُو۔(استثنا ٣١:١٦)وحٰرہ اَفِّی بوبیوم ھھو وعزبتیم وھسترتی گنی مھم۔۔۔(استثنا ٣١:١٧)
”دیکھ تو اپنے باپ دادا کے ساتھ سورہے گا اور یہ قوم کھڑی ہوگی اور جس سرزمین میں بسنے کو جاسکی وہاں کے مکروہ دیوتاؤں کے پیچھے بدچلن ہوجائے گی اور مجھے چھوڑ دے گی اور جو میثاق میں نے اس سے کیا ہے اسے توڑ دے گی اور اُس دِن میرا غُصّہ اس پر بھڑکے گا اور میں ان کو چھوڑ دوں گا اور اس سے اپنے منہ کو چھپاؤں گا۔”
اِس خبر کے ساتھ حضرت موسیٰ کو ایک نظم لکھنے کا حکم دیا۔اِس نظم کے چند اشعار ذیل میں ہم نقل کرتے ہیں۔
” یَعْرُف ْ کَمَطَرْ لِقْحِی تُزل کَطَلْ اِمْرَتِی کشعِیرَمْ عَلٰی دِشِہ وکَرْبِیْبِیم عَلٰی عِشِب” (استثنا ٣٢:٢)
”بارِش کی طرح برسے گا میرا کلام، اُوس کی طرح ٹپکے گی میری بات۔جیسے ہریالی پر قطرے،اورجیسے گھاس پر شبنم۔”
”کی شِم یَہُوہ اَقْراَ ھَبو جُدِل لاِلُوھِینو۔” (استثنا ٣٢:٣)
”کیونکہ میں خدا کا نام جپوں گا،بزرگی دو ہمارے معبود کو۔”
”ھَصُورتَمِیمْ فَعلُو کی کَل درکَیُو مِشفَط اِیل اِمْنَہ وَاَینَ عَوِل صَدّیق و یَشٰرھوا۔” (استثنا ٣٢:٤)
”اُس کا فعل کامل چٹان ہے کیونکہ اُس کی ہر رَوِش عادِلانہ ہے۔اچھا خدا ہے بُرا نہیں ہے۔وہ سچا ہے راست کار ہے۔”
” شحِت لو لابَبَیّو مومم دُور عقش وفتلتل۔”  (استثنا ٣٢:٥)
”ناراض کیا اُسے نا خلفوں نے ان کا عہد (یہ ہے کہ وہ) کج رو اور سرکش نسل ہیں۔”
اِن اشعار کے بعد خدا کے احسانوں کو جو بنی اِسرائیل پر تھے گنانے کے بعد فرمایا:
”۔۔۔ وَدَم عِنَبْ تَشْتِہ حَمَر ْ”(استثنا : ٣٢:١٤)
”اور انگور کا سرخ لہو پیا۔”                 
”وشمن یشورون ویَبْعَط شَمنت عَبِیتَ کشِیْتَ ویَطَشْ ابُوہَ عَشٰھُو وینبل صُورَیَشُو عتو”(استثنا ٣٢:١٥)
” اوریشورون موٹا اور بدراہ ہوگیا۔تو موٹا ہوا،بوجھل ہوا، (چربی) پہنی تو نے اور اپنے خالق معبود کو چھوڑ دیا۔اور حقیر کیا اپنی نجات کی چٹان کو۔”
”و یَقْنَاُ وھوُ بِزٰرِیم۔۔۔۔”(استثنا ٣٢:١٦)
”اور غیرت دِلائی اُسے باطل معبودوں کے ذریعہ۔”
”وَیامر اَستِیرہَ فِنی مھِم اَرْاَہ مَہ احریتٰم۔۔۔۔”  (استثنا ٣٢:٢٠)
”اور فرمایا اُس نے کہ اُن سے اپنا منہ چھپاؤں گا، دیکھوں گا اُن کا انجام کیا ہوتا ہے۔”
” ھَمَہ قَناُونی بلا ایل کَعَسُوننی بحَبلِیھِم وَاِنی اَقنیام بلا عم بجوی نَبَل اَکعیسام”(استثنا ٣٢:٢١)
”اور میں غیرت دِلاؤں گا اُن کو غیر قوم کے ذریعہ۔ بے خرد قوم کے ذریعہ ان کو غصّہ دِلاؤں گا۔”
” اِمْ شَنُّوتِی بِرق حَرْبی وَتَاحُز لِمِشْفَط یدِی اُشِیب نٰقٰمْ بَصٰرٰی ولِمْشَناِی اِشَلِّمْ”(استثنا ٣٢:٤١)
”جب میں اپنی تلوار کی چمک چمکاؤں گا اور میرا ہاتھ انصاف کو پکڑے گا تو دُہراؤں گا انتقام کو اپنے دُشمنوں پر اور اپنے اعدا ء کو سزا دوں گا۔”
” ھرنینو جویم عِمُّو  کی دم عِبٰدو یَقّیم(یقوم) ونقم یشوب(یشیب) لصاریو وکفَّر ادمتو عَمُّو۔” (استثنا ٣٢:٤٣)
”اے لوگو اُس کے ساتھ ترانے گاؤ کیوں کہ وہ اپنے بندوں کے خون کا انتقام لے گا۔اپنے دُشمنوں پر انتقام دہرائے گا اپنی زمین (اور)           اپنی قوم کاکفارہ لے گا۔”
یہ نظم لکھ کر آپ نے کاہنوں کو دیا کہ عہد کے صندوق کے پاس رکھی جائے اور لوگوں کو جمع کر کے نظم سنائی اور ایک تقریر فرمائی اور فرمایا کہ میں خوب جانتا ہوں کہ تم لوگ میرے مرنے کے بعد اپنے آپ کو خراب کروگے کیوں کہ تم نے میرے جیتے جی خدا سے بارہا  بغاوت کی ہے۔

عہد قضاة

اِس تقریر کے بعد چند ہی دِن گزرے تھے کہ حضرت موسیٰ نے وفات پائی۔ آپ کی وفات کے بعد پانچویں برس حضرت یوشع نے سرزمین ِ موعود کو فتح کیا۔ وفاتِ موسیٰ کے بعد جناب طالوت کے بادشاہ ہونے سے پیشتر جو زمانہ گزرا ، اُس کو عہدِ قضاة کہتے ہیں۔یہ عہد جیسا کہ سفرِ قضاة سے ظاہر ہے باربار ارتداد وتوبہ کا زمانہ تھا۔ جب جب قوم پر کسی مشرک فرمان روا کا تسلّط ہوتا ،لوگ شرک کرنے لگتے تھے لیکن جب کوئی اِسرائیلی قاضی مشرک فرمان روا سے نجات دِلاتا تو یہ لوگ تائب ہوجایا کرتے۔ یہ دور سنہ  خروج مطابق سنہ   ق۔م۔پر ختم ہوگیا۔

عصرِ داؤد 

قضاة کے عہد کے بعد یکے بعد دیگرے جناب طالوت’ حضرت داؤد  اور حضرت سلیمان  نے حکومت کی، اِن بزرگوں کے اسما قرآن میں وارِد ہیں اور اُن کے قصّے بھی ۔سورہ بنی اِسرائیل کی پہلی آیت میں دو مسجدوں کا ذِکر ہے۔اُن میں سے ایک کی تعمیر حضرت سلیمان  نے ٤٨٠ خروج مطابق ١٠١٧ ق۔م۔ میں کی تھی۔یہ اُن کی حکومت کا چوتھا سال تھا۔ حضرت سلیمان  نے دراصل حضرت موسیٰ کی وصیّت کی (استثنا ١٢:١١) کی تعمیل کی تھی۔(١)

عصرِ فساد

حضرت موسیٰ نے جس فساد کی پیش گوئی فرمائی تھی، اُس کا آغاز تو عہدِ قضاة ہی سے ہو گیا تھا۔حضرت داؤد کے زمانے تک میں بنو اِسرائیل کا ایک طبقہ ایسا تھا جس پر حضرت داؤد نے لعنت فرمائی تھی۔ لیکن یہ طبقہ اُن دِنوں دَبا ہوا تھا، لیکن حضرت سلیمان  کے انتقال کے عین بعد دس قبائل مرتد ہوگئے اور انھوں نے عہدِ موسیٰ کے دین ِ سامری کو اپنایا اور حضرت سلیمان  کے ایک باغی جس کا عرفی نام یرب عام (قوم سے لڑتا ہے) تھا اپنا بادشاہ بنایا ۔صرف دو قبائل بنو یہوداہ (خاندانِ داؤد ) اور بنو لاوی (خاندانِ موسیٰ ) نے آلِ سلیمان کی حکومت تسلیم کی۔ دورِ فساد کے بادشاہوں کی فہرست حسبِ ذیل ہے:

شمار
باغیان سلیمان
سنہ خروج
سنہ قبل مسیح
1
یربعام
٥١٧
٩٨٠
٢
ندب
٥٣٧
٩٦٠
٣
بعشا
٥٣٨
٩٥٩
٤
ایلاہ
٥٦١
٩٣٦
٥
عمری
٥٦٦
٩٣١
٦
اخی اب
٥٧٣
٩٢٤
٧
اخزیاہ
٥٩٢
٩٠٥
٨
یہورام
٥٩٣
٩٠٤


بنوسلیمان
سنہ خروج
سنہ قبل
رحبعام بن سلیمان
٥١٧
٩٨٠
ابیاہ
٥٣٤
٩٦٣
آسا
٥٣٦
٩٦١
یہو سفط
٥٧٦
٩٢١
یہورام بن یہوسفط
٥٩٧
٩٠٠

یربعام اور اُس کے تمام جانشین مشرک تھے۔یربعام نے سونے کے بچھوے کی مورتیں پوجوائی تھیں۔اخی اب نے اس پر بعل کی پرستش کا اِضافہ کیا۔اُس کے زمانہ میں حضرت الیاس مبعوث ہوئے تھے، جن کے خلیفہ حضرت الیسع تھے۔ یہ دونوں پیغمبر رجالِ قرآن میں سے ہیں ،اِن کا تذکرہ اِ س جگہ ضروری نہیں۔ حضرت سلیمان کے جانشین بھی گمراہی سے محفوظ نہ رہے۔رحبعام،آسا اور یہو سفط تو موحد تھے،لیکن ابیاہ مشرک تھا،کیونکہ جناب رحبعام نے ایک مشرکہ سے نکاح کیا تھا، جس کے  بطن سے ابیاہ پیدا ہوا’اور وہ اپنی ماں کے دِین پر تھا (اول ملوک:،باب:١٥)۔ یہورام بن یہوسفط نے اخی اب کی بیٹی سے نکاح کیا، اِس لیے وہ اخی اب کے دِین پر تھا۔حضرت الیسع نے جیسا اُ ن کے تذکرہ میں بتایا جائے گا،اخی اب کے گھرانے کے خلاف بڑی سخت کارروائیاں کیں،ان کارروائیوں میں سے ایک یہ تھی، انھوں نے یاہو نام کے ایک شخص کو اِس گھرانے سے حکومت چھین لینے پر آمادہ کیا ،یاھو نے اخی اب کے گھرانے کو قتل کردیا اور خود حکومت حاصل کرلی۔ اِ س کے بعد حسبِ ذیل بادشاہوں نے بنو اِسرائیل پر حکومت کی:

شمار
باغیان سلیمان
سنہ خروج
سنہ قبل مسیح
9
یاھو
604
893
10
یہواخز
626
872
11
یہوابین
647
851
12
یربعام
663
835
13
زکریا
725
773



بنو سلیمان
سنہ خروج
سنہ قبل مسیح
اخزیاہ بن یہورام
604
893
یہواس بن اخزیاہ
610
887
امصیاہ بن یہواس
648
849
عزریاہ بن امصیاہ
688
809


سفرملوک کے بیان کے مطابق یاہو اور اُس کے جانشین بعل پرست تو نہ تھے لیکن یربعام اول کے دِین پر تھے۔چونکہ یاہو کو حضرت الیسع کی تائید حاصل تھی اِس لیے غالباً اُس کی بابت الزام غلط ہے لیکن یربعام دوم کا نام بتاتا ہے کہ واقعی وہ دین ِ یربعام پر تھا۔اخزیاہ بن یہورام اپنے باپ اور اپنی ماں کے دِین پر تھا۔خاندانِ اخی اب میں داخل ہونے کی وجہ سے یاہونے اُسے بھی قتل کردیا لیکن یہواس نابالغ ہونے کی وجہ سے بچ رہا،چھ برس تک روپوش رہااور ایک موحد بزرگ یہو یدع کی تربیت میں زندگی گزاری۔امصیاہ اور عزریاہ بھی موحد تھے۔

ایام قہر

یربعام دوم کے وقت سے اﷲ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ  کی پیش گوئی کے مطابق اِس قوم پر عذاب نازل کرنا شروع کیا۔ایامِ قہر میں حسبِ ذیل ملوک گزرے:
نمبر شمار
باغیان سلیمان
سنہ خروج
سنہ قبل مسیح
١٤
سلوم
٧٢٧
٧٧١
١٥
مناحم
٧٢٧
٧٧١
١٦
فقحیاہ
٧٣٨
٧٦٠
١٧
نیقح
٧٤٠
٧٥٨
١٨
ہوسیع
٧٦٧
٧٣١

بنو سلیمان
سنہ خروج
سنہ قبل مسیح
یوتام بن عزریاہ
٧٤٣
٧٥٥
آخز بن یوتام
٧٥٦
٧٤٢

سورہ بنی اِسرائیل میں خدا نے جو باتیں فرمائی ہیں ‘اُن میں ایک یہ ہے کہ:
”ہم عذاب دینے والے نہ تھے،یہاں تک کہ ایک نہ ایک رسول نہ بھیج دیتے۔” (بنی اسرائیل:١٥) ۔
 بنو اِسرائیل پر جب عذاب نازل کرنا چاہا تو خدا نے تنبیہ کے لیے کئی انبیا مبعوث کیے۔ یربعام دوم کے زمانے میں مبعوث ہونے والوں میں سے ایک بزرگ جناب عموس تھے۔اُن کی معرفت خدا نے آس پاس کی مختلف اقوام کی آنے والے قہر سے ڈرایا لیکن ہم کو صرف بنو اِسرائیل سے بحث ہے۔ اُن دِنوں شاہی شہریربعام  کا  بیت ایل تھا۔انہوں نے یہیں آکر خدا کے آنے والے قہر سے لوگوں کو آگاہ کرنا شروع کیا۔امصیاہ نام یہاں کے بتکدہ کا بڑا پجاری تھا،اُس نے کہا:
”بھاگ، اے غیب گو،یہوداہ کی سرزمین سے بھاگ جا،وہاں جاکر روٹی کھا اور نبوت کر۔بیت ایل میں نبوت      نہ کر۔کیونکہ یہ بادشاہ کا مقدس اور اُس کا دارالسلطنت ہے ۔”  (عموس ٧:١٢)
”اِسرائیل کے خلاف نبوت نہ کر، اسحاق کے گھرانے کے خلاف بات نہ کر۔” (عموس ٧:١٦)
حضرت عموس نے اُ س کا کہا نہ مانا تو اُ س نے بادشاہ یعنی یربعام کے پاس اِس کا شکوہ کہلا بھیجا،کیونکہ یہ بت پرستی سے منع کرتے تھے۔لوگوں کو بیت ایل، جلجال اور بیر شیع کی حاضری سے منع کرتے تھے اور خدا کی طرف سے پیغام سناتے تھے کہ
” میں یعقوب کی حشمت سے نفرت رکھتا ہوں ۔” (عموس:١٦:٨)
”اِسحاق کے اونچے مکان اُجاڑ ہوں گے اور اِسرائیل کے مقدس ویران ہوں گے۔” (عموس ١٧:٩)
”تم نے جن مکانوں کو تراشے ہوئے پتھروں سے بنایا ہے اُن میں نہ بسو گے۔” (عموس ٥:١١)
”ایک دشمن اِ س سرزمین کو گھیر لے گا۔”(عموس ٣:١١)
”تم پر ایک گروہ کو چڑھا لاؤں گا، وہ تم کو حماة کے مدخل سے بیابان کی نہر تک ستائیں گے ۔”(عموس ٦:١٤)
”میں تم کو اسیر کر کے دمشق لے جائوں گا۔” (عموس ٥:٢٧)
یہ خوفناک پیش گوئی دراصل حضرت موسیٰ کی پیش گوئی کا اعادہ تھی، لیکن جس کتاب میں یہ پیش گوئی تھی وہ اُن دِنوں گم تھی،اِس لیے مشرکین اِ س پیش گوئی کو اَن ہونی سمجھتے تھے۔ ایسی نبو ت کرنے سے امصیاہ نے منع کیا تھا۔حضرت عموس نے اسے خبر دی کہ جس یربعام پر تیرا ناز ہے،وہ تلوار سے مارا جائے گا (عموس ٧:٩،١١) ۔اِسرائیل ضرور اسیر ہوں گے اور وطن سے بے وطن ہوجائیں گے (عموس ٧:١١) ۔امصیاہ کو بتایا کہ تو بھی اسیر ہو کر ناپاک سرزمین میں جا کر مرے گا، تیرے بیٹے مارے جائیں گے اور تیری جورو شہرمیں کسبی کا پیشہ کرے گی (عموس ٧:١٧)۔
پیش گوئی کے مطابق یربعام ماراگیا،اُس کی جگہ اُس کا بیٹا زکریاہ بادشاہ ہوا، صرف ٦ ماہ حکومت کرنے پایا تھا کہ اُسے سلوم نے قتل کر کے حکومت حاصل کی، ایک ماہ حکومت کرنے پایا تھا ،اُسے قتل کر کے مناحم نے گدی پر قبضہ کر لیا۔ اُس کے زمانہ میں شاہِ اشور نے جس کا نام پول تھا اس کے اوپر حملہ کردیا،مناحم نے لوگوں سے فی کس ٥٠ مثقال چاندی لے کر ایک ایک ہزارقنطار چاندی پول کو نذر دے کر اِس بات پر صلح کر لی ،پول اس کی دست گیری کرے اور سلطنت اِسرائیل کی اُسی کے ہاتھ میں رہنے دے۔مناحم کے مرنے کے بعد اس کا بیٹا فقحیاہ بادشاہ ہوا،جس کو قتل کر کے فقح بن ایلیاہ نے حکومت حاصل کی۔مناحم چونکہ شاہِ اشور کی طرف سے نائب کی حیثیت سے حکومت کرتا تھا، اِس لیے فقحیاہ بن مناحم کے خون کا بدلا لینا شاہ اشور پر لازم تھا، اس لیے پول کے جانشین تغلات پلاسر نے اِسرائیل پر چڑھائی کردی اور عیون ، بیت محکہ ینوحہ، قادس، حصور،جلعاد،جلیل اور نفتالی کے سارے علاقہ پر قبضہ کر لیا (دوم ملوک ١٥:٢٩)۔پو ل اور تغلات پلاسر، بنو روبن، بنو جد اور بنو منسّی کے نصف لوگوں کو اسیر کر کے اشور لے گیا اور خابور،ہارہ اور جوزان کے پاس اُن کو بکھیر کر آباد کیا (اول ایام ٥:٢٦)۔انہیں دِنوںمیں خدا نے ایک اور منذر کو مبعوث کیا جن کا نام ہوشیع ہے، انہوں نے بھی جناب عموس کی طرح لوگوں کو بتایا کہ تمام بنو اسرائیل کو اشوری گرفتار کر لے جائیں گے۔فقح بن ایلیاہ جب بادشاہ ہوا تو چند دِنوں اُس نے شاہِ اشور کی بالادستی تسلیم کی،لیکن پھر فرعون مصر سے خط و کتابت شروع کی تو شاہِ اشور سلمانسر نے اُس پر چڑھائی کردی،  نتیجہ یہ ہوا کہ ہوشیع زندہ گرفتار ہوا اور سارے بنی اسرائیل جو خاندانِ سلیمان کے ماتحت تھے کچھ تو مارے گئے اور جو باقی بچے ،زن وفرزند سمیت اسیر ہوئے اور اُن سب کو لے جاکر ایران وغیرہ مختلف مقامات میں ان کو بکھیر کر آباد کیا اور اُن کی جگہ اُس کے جانشین” اے سرحدون” نے دوسری قوموں کو لابسایا اور اِس طرح دس قبائل کے حق میں حضرت موسیٰ  کی پیش گوئی ٧٧٥  (٧٢٣ قبل مسیح )خروج میں پوری ہوگئی۔

بنو سلیمان

اب اِ س دَیار میں صرف وہ بنو اِسرائیل رہ گئے تھے جو شاہانِ بنو سلیمان کے ماتحت تھے۔اِس خاندان اور اس کے ماتحت بنو یعقوب کو اُن دِنوں یہودا ‘اور باقی لوگوں کو اِسرائیل کہا جا تا تھا۔اسرائیل کہلانے والے سب مشرک تھے لیکن یہوداہ کہلانے والوں میں مشرکین بھی تھے ، موحدین بھی تھے۔ ہوشیع بن ایلہ کا معاصر بادشاہ یہوداہ یعنی آخز بن بوتام مشرک تھا۔عوام کی اکثریت مشرک تھی مگر ان میں موحدین بھی تھے۔بنو سلیما ن کی حکومت اِس واقعہ کے بعد ١٣٥ برسوں تک قائم رہی۔ ملوک کی فہرست حسبِ ذیل ہے:
شمار
نام
سنہ خروج
سنہ قبل مسیح
١
حزقیاہ بن آخز
٧٧٣
٧٢٥
٢
منسی بن حزقیاہ
٨٠١
٦٩٧
٣
امون بن منسی
٨٥٦
٦٤٢
٤
یوشیاہ بن امون
٨٥٨
٦٤٠
٥
یہوآخز بن یوشیاہ
٨٨٩
٦٠٩
٦
یہو یقیم بن یوشیاہ
٨٨٩
٦٠٩
٧
نکوسیاہ بن یہو یقیم
٩٠٠
٥٩٨
٨
صدقیاہ بن یوشیاہ
٩٠٠ تا ٩١٠
٥٩٨تا٥٨٨

اِن بادشاہوں میں سے حزقیاہ اور یوشیاہ کے علاوہ باقی سب مشرک تھے۔جب بادشاہوں کا یہ حال تھا تو عوام کے متعلق خیال کیا جا سکتا ہے کہ اُن کا کیا حال ہوگا۔لیکن چونکہ یہوداہ کہلانے والوں میں موحدین بھی تھے ،اِس لیے اﷲ تعالیٰ نے اِ س گھرانے کو ١٣٥ برس مزید مہلت دی۔ ہوشیع بن ایلہ کے زمانے میں خدا نے اسی کے ہم نام ایک اِسرائیلی ہوشیع بن بیری کو نبوت سے نوازا۔اُن کی معرفت بنی اِسرائیل کو اُن کے انجام سے خبردار کرتے ہوئے خدا نے فرمایا:
”۔۔۔لَا اُوسف عود ارحم ات بیت یشرایل کی نشا اشا لھم ” (ہوشیع ١:٦)
”وات بیت یہودہ ارحم وھو شعتیم بیھوہ الوھیھم ولَا اوشیعٰم بقشت وبحرب وبملحمہ بسوسیم ولفرسم”(ہوشیع ١:٧)
”وریب لیھوہ عم یھودہ (٢) ولفقد (٣) عل یعقوب کد رکیو کمعللیو یشوب(٤)  لو” (ہوشیع ١٢:٢)
”بَبَطَن عقب (٥)ات احیو وَباَونو (٦) شرہ ات الوھیم (٧) (ہوشیع ١٢:٣)
” ویَشر ال ملاک (٨)ویوکل (٩) بکہ و یتھنن لو بیت ایل یمسانو وشم یدبر عانو” (ہوشیع ١٢:٤)
”یھوہ الوھی ھصباد یھوہ زکرو” (ھوشیع ١٢:٥)
”واتہ بالوھیک تشوب حدو مشفط شمر وقوہ ال الوھیک تمید” (ھوشیع ١٢:٦)
”اسرائیل کے گھرانے پر پھر زیادہ رحم نہ کروں گا’ہانکنا ہانکوں گااُن کے لیے مگر یہوداہ کے گھرانے پر رحم کردیا جاوے گا۔اُن کو ان کے معبود یہوہ کے زور سے اور نہ بچاوے گا ان کو کمانوں،تلواروں ،جنگوں، گھوڑوں اور سواروں کے زور سے۔اور ایک حجت ہے خدا کی یہوداہ کے پاس اور مہربانی کی اور یعقوب پر اس کی رَوِشوں کے مطابق اس کے کام کے مطابق اس کے لیے پھر پکا دل سے برا جانا اپنے بھائی کو اور اپنے دکھ میں زور مارا خدا کے ساتھ اور زور مارا رسول کے پاس اورتوانائی پائی۔”
اِن آیات کے مطلب کو نصرانی مترجموں نے نہایت پھوہڑ بنادیا ہے۔ خدا نے یہ بتایا ہے کہ چونکہ یہوداہ نے اپنے دکھ اور شدید غم کے حال میں خدا کے سامنے عاجزی کی ، رویا، گڑگڑایا،مناجات کی اور پیغمبر کی سفارش کرائی ہے، اِس لیے یہوداہ کو تو رہائی ملے گی مگر اِسرائیل کو نہیں۔ یہوداہ اپنے دُشمن پر غالب ہوگا مگر فوجی طاقت سے نہیں بلکہ خداوند قدوس کا نامرئی ہاتھ اُس کی مدد کرے گا۔
واقعہ یہ ہوا کہ شلمانسر کے بعد شاہِ اشور ”سنحرب”نے بزمانہ حزقیاہ حملہ کیا تاکہ جس طرح شاہانِ اِسرائیل سے اُن کا ملک چھین لیا گیا اور بنو اِسرائیل کے دس  قبیلوں کو اسیر کرلیا گیا تھا،اسی طرح شاہانِ یہوداہ کا علاقہ بھی حاصل کر کے باقی ماندہ بنو اِسرائیل کو غلام او ر لونڈی بنانے کے لیے اسیر کرلیا جائے۔
جناب حزقیاہ اس کا مقابلہ کرنے سے عاجز تھے اِس لیے انہوں نے خانہ خدا میں جاکر خدا کے حضور گریہ و زاری کی اور حضرت یشعیاہ نے دعا کی،پھر بذریعہ الہام دعا کے مقبول ہونے کی خبر دی۔ پھر ایسا ہوا کہ خدا نے اشوریوں کی فوج میں ایک وبا بھیجی۔سنحرب کے لشکر کا بڑا حصہ مرگیا ،پھر اسے خبر ملی کہ شاہِ مصر نے اُ س کے ملک پر حملہ کر دیا ہے، تو محاصرہ چھوڑ کر نینویٰ کو واپس گیا۔ وہاں پہنچتے ہی اس کو قتل کر دیا گیا اور اس کی جگہ ”ای سرحدون” نے لی۔

انجام اشور

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اِن حوادث کی پیش گوئی فرماکر جو٩٨٠ قبل مسیح سے لے کر ٧٢٢ قبل مسیح تک بنی اسرائیل کے دس قبیلوں پر گزرے۔یہ بھی فرمایا تھا کہ پھر جب تم لوگ توبہ و استغفار کروگے تو خدا تم پر رحم کرے گا،” اور ڈالے گا اﷲ تیرا معبود ان سب نکبتوں کو تجھ سے نفرت کرنے والوں پر، تیرے دشمنوں پر جنھوں نے تجھے ستایا ہوگا”  (سفر استثنا ٣٠:٧)، اشور کے حق میں ١١٠ برس بعد ٦١٢ قبل مسیح میں یہ پیش گوئی ایرانی فرماں روا کیخسرو کے ہاتھوں پوری ہوئی۔ ہوشیع بن ایلہ کے گرفتار ہونے اور بنی اسرائیل کے دس  قبیلوں سے اِ س سرزمین کے پاک ہوجانے کے بعد،اُن دِنوں کے پیغمبروں نے بھی حضرت موسیٰ  کی اِس پیش گوئی کے مطابق جدید پیش گوئیاں فرمائیں۔       

حواشی و تعلیقات

(١)           عہد نامہ قدیم کے عربی ترجمے میںسِفْرِ استثنا (تثنیة)کی آیت ١٢:١١ اِس طرح درج ہے: ”فَالْمَکَانُ الَّذِ یَخْتَارُہُ الرَّبُّ اِلٰہُکُمْ لِیُحِلَّاسْمَمُ فِیہِ تَحْمِلُونَ اِلَیہِ کُلَّ مَا أَنَا أُوصِیکُمْ بِہِ مُحْرَفَانِکُمْ                 وَذَبَائِھِکُمْ وَعُشُرَکُمْ وَرَفَائِع۔ أَیْدِیکُمْ وَکُلَّ خِیَارِ نُذُورِکُم۔ الَّتِ تَنْذُرُنَہَا لِلرَّبِّ۔” ص:٢٩٩، الکتاب المقدس ، طبع ”دار الکتب المقدس فی شرق الأوسط” سال اشاعت:١٩٩٢ء (رفعت)
(٢)           متداوِل ترجمہ ”اور خداوندکا یہوداہ کے ساتھ بھی ایک جھگڑا ہے”۔ بالکل غلط ترجمہ ہے۔ ”ریب” کے معنے بحث اور حجت کے ہیں مگر معذرت پر بھی یہ دلالت ہے۔ یہوداہ’ اور یعقوب ‘اِن آیتوں میں اشخاص کے نہیں بلکہ نسل کے نام ہیں،جس طرح سفر تکوین ٦: ٨، ٧:٩ میں اسحاق یعقوب اور اِسرائیل ایک ہی نسل کے تین ناموں کی حیثیت سے وارِد ہیں۔
(٣)          متداوِل ترجمہ ”سزا دوں گا” غلط ہے۔ یہ دو لفظوں کا مجموعہ ہے: ”ل” حرفِ توجیہ،”فقد” کے کئی معنی ہیں۔ من جملہ ان کے ایک مہربانی ہے۔”یھوہ فقدت ات سارہ”(سفر تکوین ٢١:١)”خدا نے سارہ پر عنایت کی۔””فقد یہوہ ات حنہ”(سفر١سموئیل٢:٢١)،”خدا نے حنا پر مہربانی کی۔” ”فقد” کا ایک مطلب فیصلہ بھی ہے۔ ”شمرتی فقود لک”(زبور ١٦٦) ”میں نے تیرے فیصلوں کو حفظ کیا۔”
(٤)          اِس عبارت میں ”تشوب” لا ترجمہ آگے چل کر ”پھر” "turn"کیا گیا ہے لیکن یہاں لاوے گا ترجمہ کیا گیا ہے وہ غلط ہے۔
(٥)          متداوِل ترجمہ: ”رحم میں اپنے بھائی کی ایڑی پکڑی۔”  یہ ترجمہ دو خیالو ں پر مبنی ہے ،ایک یہ یعقوب سے مراد حضرت یعقوب  ہیں جن کی بابت روایت تھی کہ اپنے بھائی کی ایڑی پکڑے ہوئے پیدا ہوئے۔ دوسرا خیال یہ کہ حضرت یعقوب  کا یہ ایک گناہ تھا جس کی وجہ سے وہ سزاکے مستحق تھے۔ ”ببطن” کا ترجمہ ”دِل سے” بھی ہو سکتا ہے۔”عاقب” ، ”سزا دی،برا جانا۔” اپنے بھائی کو یعنی مشرک بنی اِسرائیل کو۔
(٦)           متداوِل ترجمہ: ”اپنے زور میں”، غلط ہے۔ ”اون” کے معنی شدت اور شدت غم کے ساتھ دکھ کے ہیں۔
(٧)          متداوِل ترجمہ: ”خدا سے کشتی لڑی” کافرانہ ہے۔ صحیح ترجمہ ہوگا:”خدا کے ساتھ زور مارا،یعنی پُر زور فریاد کی۔”
(٨)          متداوِل ترجمہ : ”فرشتے سے کشتی لڑی” ناممکن تصور ہے۔”ملاک” کا ترجمہ” رسول” بھی ہوسکتا ہے۔
(٩)           متداوِل ترجمہ: ”اور غالب ہوا”۔اِس تصور پر مبنی ہے کہ حضرت یعقوب  نے نعوذ باﷲ خدا اور فرشتے سے کشتی لڑی اور خدا کو اور فرشتے کو دونوںکو پچھاڑ دیا۔ ”یکل”، ”یوکل” کے معنی ہیں ”شکست پائی”۔

خیر القرون کی اصطلاح کا مطلب کیا ہے؟


جریدہ "الواقۃ” کراچی، شمارہ  (5 / 6 )  شوال، ذیقعد  1433ھ/   ستمبر، اکتوبر 2012

خیر القرون کی اصطلاح کا مطلب کیا ہے؟

سیّد خالد جامعی  ( کراچی یونی ورسٹی ،کراچی )

قسط  نمبر 1 قسط  نمبر 2

جامع ترمذی میں روایت ہے ابن عباس کہتے ہیں کہ آپ نے مجھے اپنے سینۂ مبارک سے چمٹالیااور دعا فرمائی ” اللّٰھم علمھ الحکمة ” ( جامع ترمذی،ج٢،ص٢٢٣و صحیح بخاری باب ذکر ابن عباس) ان کی کم عمری کے باوجود حضرت عباس کے تفقہ فی الدین کو تمام صحابہ کرام اہمیت دیتے۔ حفظ مراتب میں عمر نہیں علم اور عمل مراتب کا تعین کرتے ہیں۔
حضرت عمر فرماتے تھے” ذلک فتی الکھول نہ لسان سنول وقلب عقول” ( سیر اعلام النبلاء ،ج٣،ص٣٤٥) ”یہ ایسے نوجوان ہیں جنھیں پختہ عمر لوگوں کا فہم و بصیرت حاصل ہے۔ ان کی زبان علم کی جو یا اور قلب عقل کی محافظ ہے ۔” حضرت سعد بن ابی وقاص  فرماتے ہیں کہ میں نے ان سے زیادہ حاضر دماغ ، عقل مند ، صاحب علم ، حلیم و بردبار شخص نہیں دیکھا۔ حضرت عمر مشکل مسائل کو حل کرنے کے لیے حضرت عباس کو بلاتے اور کہتے ایک مشکل مسئلہ پیش آچکا ہے پھر ان کے قول کے مطابق ہی عمل کرتے حالانکہ ان کی مجلس میں بدری صحابہ بھی موجود ہوتے تھے۔” فیقول قد جاء ت معضلة ثم لا یجاوز قولہ و ان حولہ لاھل بدر” ( سیر اعلام النبلاء ،ج٣،ص٣٤٧)  لہٰذا حضرت عباس کو کم عمری کے باوجود حضرت عمر اکابر صحابہ ، بدری صحابہ کے ساتھ بٹھاتے تھے

یہ مقام ابن عباس کو دین کے لیے محنت سے ملا اور محنت کا طریقہ کیا تھا حضرت عباس کی زبان مبارک سے ان کے الفاظ میں سنیئے کہ:

"میں نے خود اکابر صحابہ کرام کے پاس جا جاکر رسول اللہ کی احادیث اور دین کا علم حاصل کرنا شروع کردیا کبھی ایسا بھی ہوا کہ مجھے معلوم ہوا کہ رسول اللہ کی ایک حدیث فلاں صحابی کے پاس ہے ان کے گھر پہنچا تو معلوم ہوا کہ وہ قیلولہ کررہے ہیں۔ یہ سن کر میں نے چادر بچھائی اور ان کے دروازے کی چوکھٹ پر سر رکھ کر لیٹ گیا ، ہواؤں نے میرے سر اور جسم پرگردو غبار لاکر ڈال دیا ، اتنے میں وہ صحابی نکل آئے اور مجھے اس حال میں دیکھ کر کہا آپ رسول اللہ کے بھائی ہیں آپ مجھے بلالیتے میں حاضر ہوجاتا ۔ آپ نے کیوں زحمت فرمائی میں نے کہا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ کے پاس رسول اللہ کی ایک حدیث ہے میں وہ حدیث آپ سے حاصل کرنے آیا ہوں اور اس کام کے لیے میرا آنا ہی زیادہ مناسب ہے”۔

 اس جدوجہد ، دلچسپی، کوشش، خشوع و خضوع اور احترام علم و اکرام حدیث کا نتیجہ یہ نکلا کہ اکابر صحابہ کی رحلت کے بعد لوگ طلب علم کے لیے حضرت عباس کے پاس آنے لگے۔ ( مجمع الزوائد ، ج٩،ص٢٧٧، وتذکرہ الحفاظ ج١،ص٤٣) فرماتے تھے کہ میں ایک حدیث یا ایک مسئلے کو تیس تیس صحابہ کرام سے معلوم کرتا تھا۔ ان کنت لاسئال عن الامر الواحد ثلثین من اصحاب النبی (سیر اعلام النبلاء ،ج٣،ص٣٤٤) 
علم دین عہد رسالت میں کیسے حاصل کیا جاتا تھا اور اس طریقے سے حاصل کرنے والوں کو کن کن شدید آزمائش سے گزرنا پڑتا تھا کن اصولوں کی پاسداری کرنی ہوتی تھی اور پھر ان اہل علم کا مرتبہ امت میں کیا ہوتا تھا اس کے لیے حضرت ابو ہریرہ  کی زندگی دیکھیے۔ رسالت مآب نے مسجد نبوی میں ایک چھپڑ ڈالواکر علم دین سیکھنے والوں کے لیے مخصوص کردیا تھا۔ یہ اصحاب صفہ تھے یہی ان کی رہائش گاہ درس گاہ تھی جس کے معلم رسالت مآب تھے ۔ علم الٰہی علم دین اور علم نبوی کے حاملین ان طالبان کی کفالت اہلِ مدینہ کے ذمہ تھی، ان کو کسی سے سوال کرنے کی قطعاً اجازت نہ تھی ۔ خواہ کچھ بھی گزرجائے اور کیا کیا زمانے ان پر نہیں گزرے ، بھوک ، نقاہت، غربت،فقروفاقہ،افلاس، غربت اور فاقے کے باعث یہ اصحاب نماز میں کھڑے ہوتے تو گرجاتے، رسالت مآب نماز سے فارغ ہوکر فرماتے تم لوگوں کو اگر معلوم ہوجائے کہ تمہارے لیے ان فاقوں کے بدلے اللہ کے یہاں کیا کیا اجرو ثواب ہے تو تم خواہش کرو کہ ان فاقوںمیں مزید اضافہ ہو۔ (جامع ترمذی باب ما جاء فی معیشة اصحاب النبی)عصر حاضر کے ذہن کے لیے اس زندگی کا تصور بھی ممکن نہیں کیونکہ وہ اپنے زماں و مکاں میں مقید محصور اور مسرور ہے۔ تعقل غالب اس طرز زندگی سے ہم آہنگ ہے لہٰذا یہ قابل قبول نہیں۔ صفہ میں بہت سے طالبان دین تھے۔ حضرت ابو ہریرہ بھی انہی میں سے ایک طالب علم تھے اکثر بھوک سے بے ہوش ہوکر گرجاتے صحابہ سمجھتے کہ مرگی کا دورہ ہے حالانکہ یہ حالت بھوک کی وجہ سے ہوتی تھی۔ (جامع ترمذی ، مسحولہ بالا) اس فقروفاقہ قربانی کا صلہ یہ نکلا کہ آپ نے سب سے زیادہ احادیث روایت کیں ان کی تعداد٥٣٧٤ہے۔ (اصابہ ،ج٧،ص٢٠١) حضرت ابو ہریرہ ٧ ہجری میں اسلام لائے مگر اس کثرت سے آپ کی احادیث کے دو اسباب ہیں ۔ وہ خود بیان فرماتے ہیں کہ (١):
"میں ہمیشہ رسول کے ساتھ رہتا تھا نہ اچھا کھانا کھاتا تھا اور نہ اچھا کپڑا پہنتا تھا اور نہ کسی سے خدمت لیتا تھا، بھوک کے باعث کبھی کبھی مجھے اپنے پیٹ کے بل زمین پر لیٹ جانا پڑتا تھا کبھی فرماتے کنت رجلا مسکیناََ اخدم رسول اللّٰھ علیٰ مل بطنی وکان المھاجرون یتغلھم ایفام علیٰ اموالھم(صحیح مسلم باب فضائل ابوہریرہ) میں ایک مسکین شخص تھا رسول اللہ کی خدمت کرتا تھا اور در دولت ہی سے کچھ کھانے کو مل جاتا تھا حضرات مہاجرین تجارت میں مشغول رہتے اور انصاری صحابہ اپنے باغات میں (اس لیے مجھے آپ کی احادیث و اقوال محفوظ کرلینے کا زیادہ موقع میسر آیا) دوسری وجہ حضرت ابی بن کعب  یہ بتلاتے ہیں کہ ابو ہریرہ رسول اللہ سے ایسے سوالات کرلیا کرتے تھے جن کی ہمت ہم میں سے کوئی نہیں کرسکتا تھا۔(اصابہ ،ج٧،ص٢٠٢) علم دین جو اصل علم ”العلم” ہے حضرت ابو ہریرہ  اس کے اس قدر حریص تھے کہ دنیا کی ساری نعمتیں ان کے نزدیک اس علم کے سامنے ہیج تھیں۔ ایک بار رسول اللہ نے ان کی غربت ،خستہ حالی،مسکینی ، فقر و فاقہ کشی کے پیش نظر بلایا اور فرمایا : التسالنی عن ھذہ الغنائم ابو ہریرہ غنیمت کے ان مالوں میں سے کچھ مانگو۔ حضرت ابو ہریرہ  نے اس غربت و افلاس کے عالم میں جواب دیا اسئلک ان تعلمنی مما علمک اللّٰھاللہ کے رسول مجھے وہ علم عنایت فرمادیجیے جو اللہ نے آپ کو عنایت فرمایاہے۔(اصابہ،ج٧،ص٢٠٤) رسالت مآب نے آپ کے ذوق و شوق کے پیش نظر آپ کے لیے دعائیں بھی کیں اس لیے آپ کا حافظہ غضب کا تھا ۔ محدثین آپ کو احفط اصحاب محمد اور احفظ من روی الحدیث فی عصرہ کہتے ہیں۔ ایک بار حضرت ابو ہریرہ نے رسالت مآب سے بھول جانے کی شکایت کی کہ آپ سے بہت سی باتیں سنتا ہوں لیکن یاد نہیں رہتیں۔تو آپ نے فرمایا اپنی چادر پھیلاؤ میں نے چادر پھیلادی اس پر آپ نے کچھ پڑھا پھر آپ کے حکم سے میں نے اسی چادر کو سمیٹ کر اپنے سینے سے لگالیا اس دن کے بعدسے میں کبھی آپ کی کوئی بات نہیں بھولا (صحیح مسلم و جامع ترمذی ابوا ب المناقب و الفضائل) حضرت ابو ہریرہ کی رائے تھی کہ صحابہ کرام میں سے کوئی شخص بھی رسول اللہ سے اس کثرت سے روایتیں نقل نہیں کرتاجس کثرت سے میں نقل کرتا ہوں البتہ عبداللہ بن عمروبن العاص مجھ سے زیادہ روایات نقل کرتے ہیں اس لیے وہ لکھتے ہیں اور میں نہیں لکھتا ہوں فانہ کان یکتب ولا اکتب (صحیح بخاری باب کتابةالعلم) حیرت ہے کہ حضرت ابو ہریرہ کی حفظ کردہ روایات کی تعداد حضرت عبداللہ بن عمربن العاص سے بہت زیادہ ہیں۔

حضرت طلحہ بن عبید اللہ سے کسی نے کہا کہ کیا ابو ہریرہ نے واقعی آپ لوگوں سے زیادہ احادیث رسول اللہسے سنی ہیں یا یوں ہی روایت نقل کرتے ہیں ۔ حضرت طلحہ نے جواب دیا انھوں نے واقعی وہ روایات آپ سے سنی ہیں جو ہم لوگوں نے نہیں سنی ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ مسکین شخص تھے مال و دولت ان کے پاس نہ تھا ۔ وہ رسول اللہ کے مہمان تھے ۔ آپ ہی کے ساتھ کھاتے پیتے تھے ، اور ہمہ وقت آپ کے ساتھ رہتے تھے اور ہم لوگ اہل و عیال اور مال و متاع والے تھے ۔ ہماری حاضری صرف صبح ، شام ہوئی تھی اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جو روایات وہ بیان کرتے ہیں انھوں نے رسول اللہ سے ہی سنی ہیں اور ہم اپنے مشاغل کی وجہ سے ان سے محروم رہ گئے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر نے بھی ایک موقع پر کہا ابو ہریرہ ہم لوگوں کے مقابلے میں رسول اللہ کی صحبت میں زیادہ رہتے تھے اور آپ کی احادیث زیادہ محفوظ رکھتے تھے (جامع ترمذی مناقب ابی ہریرہ)۔اسلامی تہذیب و تاریخ میں علم دین اگر مال و دولت کی حرص اور دنیا طلبی کی ادنیٰ سی آرزو کے بغیر اس مجاہدانہ درویشانہ طریقے سے حاصل ہوتو پوری امت کے لیے خیروبرکت کا ذریعہ بنتا ہے لیکن جب دین کے عالم اور معلم دین کو دنیاکمانے کے لیے استعمال کریں بڑے علماء ان مدارس میں کام کرنا پسند کریں جہاںتنخواہ زیادہ ملتی ہو اور علماء مدارس میں تدریس ترک کرکے اسلامی بینکوں کی ملازمت اختیار کرلیں کہ مدارس میں تنخواہ بہت کم ہوتی ہے اور طلباء ان مدرسوں کا انتخاب کریں جہاں وظیفے زیادہ ہوں رہائش کی سہولتیں عمدہ ہوں اور کھانے پینے کا اعلیٰ معیار ہو اور مدارس طلباء کو راغب کرنے کے لیے اشتہارات شائع کریں اور اپنے اشتہارات میں طلباء کو دعوت دیں کہ ان کے یہاں بھاری وظیفہ ملتا ہے ایئر کنڈیشنڈ درسگاہیں ہیں کھیل کے میدان ، سوئمنگ پول اور باغات ہیں اور علم دین بھی ہے تو ان رویوں کے نتیجے میں جو علم دین حاصل ہوگا وہ روح سے خالی اور دنیا کی لذتوں ، دلچسپیوں سے معمور علم ہوگا۔ یہ علم نہ فرد کی آخرت بدل سکتا ہے نہ امت کی تقدیر۔ ایسے علم سے پناہ مانگنے کی ضرورت ہے جس کا تقاضہ دنیا کے لیے ہو اور جو صرف دنیا سے تمتع کو سہل ترین بنادیتا ہو صرف علم سے کچھ حاصل نہیں ہوتا اس کے ساتھ ساتھ خشیت خشوع و خضوع درکار ہے۔ انہی حضرت ابوہریرة کے بارے میں ابو عثمان الہندی تابعی کہتے ہیں کہ میں ایک بار سات دن تک حضرت ابو ہریرہ کے یہاں مہمان رہا مجھے معلوم ہوا کہ انھوں نے ان کی اہلیہ اور خادم نے رات کے تین حصے کرلیے ہیں باری باری ایک ایک شخص اپنے حصۂ شب میں جاگتا ہے اور یہ ان لوگوں کا مستقل معمول ہے۔ (اصابہ ، ج٧،ص٢٠٦) حضرت عمر نے انھیں بحرین کا عامل بنادیا تھا لیکن جلدہی آپ نے ان خدمات سے سبکدوشی حاصل کرلی دوبارہ حضرت عمر نے عامل بنانا چاہا تو انکار کردیا دنیا سے اس قدر لاتعلقی کے باوجود وفات سے پہلے آپ رونے لگے کسی نے وجہ پوچھی تو فرمایا من فلة الزادر وندة المفازةسفر سخت ہے اور زاد راہ کم ہے یہ خوف آخرت تھا ور نہ ان کے پاس زاد راہ کم نہ تھا اگر ان کے پاس کم تھا تو پھر کس کے پاس زیادہ ہوگا۔ کیا امت مسلمہ کے پاس ایسے شیخ الحدیث موجود ہیں اگر نہیں ہیں تو یہ امت زوال کے اندھیرے سے کبھی نہیں نکل سکتی۔ آج کے دین دار امراء اور لوگوں کے خدام ایسے ہوں گے کہ وہ رات کو عبادت کے لیے تیار ہوں ؟ ان امراء کا خدام کے ساتھ رویہ کیا ہے کسی کو کچھ بتانے کی ضرورت نہیں۔ اسی لیے امراء کے گھروں میں ڈکیتیاں، چوریاں، قتل وخون اغواء کی وارداتیں انہی خدام کے ذریعے ممکن بنائی جاتی ہے جن کے ساتھ غلاموں سے بدتر سلوک کیا جاتاہے ۔ اگر یہ امراء اخوت اسلامی کو ملحوظ رکھتے تو یہی خدام ان کے جان و مال و آبرو کی حفاظت کرتے لیکن اخوت اسلامی صرف لفظ کی سطح پر ہے عملی زندگی اخوت کے اس روحانی تصور سے خالی ہے جو ”مواخات” کے ذریعے تاریخ کے صفحات میں قیامت تک کے لیے محفوظ ہوگیا ہے۔ ظاہر ہے اس سطح کی مواخات تو ممکن نہیں عصر حاضر میں امراء کی جانب سے ہمدردی ، محبت اور انفاق کی ادنیٰ سے ادنیٰ سطح بھی گھروں کے خدام کے لیے روا نہیں رکھی جاتی ۔ ہماری معاشرت سرے سے اسلامی ہی نہیں ہے۔
حضرت زید بن حارثہ رسالت مآب کے خادم اور غلام تھے ان کے والد اور چچا کو ان کا سراغ ملا تو وہ مکہ آئے اور فدیہ کے لیے زر کثیر رسالت مآب کو پیش کیا ۔ آپ نے حضرت زید کو بلایا اور فرمایا ان لوگوں کو پہچانتے ہو اپنے والد اور چچا کو انھوں نے پہچان لیا آپ نے ان سے کہا کہ اپنا مال اپنے پاس رکھو یہ زید ہیں اگر یہ تم لوگوں کے ساتھ جانا چاہیں انھیں اختیار ہے ۔ رسالت مآب نے زید کی گردن سے غلامی کا طوق اتار دیا مگر حضرت زید نے رسالت مآب کی محبت کا طوق غلامی دوبارہ گلے میں ڈال لیا اور اپنے باپ و چچا کے ساتھ جانے سے انکار کردیا ۔ حضرت زید کی اس محبت کے باعث رسالت مآب نے حرم شریف میں قریش کو گواہ بناکر انھیں اپنا بیٹا قرار دیا وہ زیدبن محمد کہلانے لگے ۔ کیا عہدِ حاضر کے دین داروں کے لیے خدام و غلام سے برتاؤ کے اس واقعے میں کوئی سبق ہے رسالت مآب نے اس غلام اور خادم کو بیٹا بنانے کے بعد ان کی ایسی تربیت فرمائی کہ غزوۂ موتہ کا جو لشکر جو آٹھ ہجری میں روانہ ہوا اس کے امیر آپ ہی تھے ۔ آپ کی شادی اپنی پھوپھی زاد بہن حضرت زینب سے فرمائی پھر طلاق کے بعد آپ نے والد کی باندی سے ان کا نکاح فرمایا جن سے حضرت اسامہ بن زید پیدا ہوئے ۔ اس غلام اور خادم سے رسول اللہ کی محبت کا حال یہ تھا کہاایک بار وہ کہیں باہر سے مدینہ طیبہ آئے حضرت عائشہ روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہمیرے گھر میں تشریف رکھتے تھے ۔ زید نے دروازہ کھٹکھٹایا آپ اتنی سرعت کے ساتھ ان کے استقبال کے لیے نکلے کہ آپ کی چادر جسم مبارک کے نیچے کھسک گئی اور آپ اسے گھسیٹتے ہوئے ہی باہر نکل گئے۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ میں نے کبھی بھی آپ کو اس حالت میں باہر نکلتے ہوئے نہیں دیکھا آپ نے ان کو گلے لگایا اور بوسہ دیا۔ ان کی بہادری اور قائدانہ صلاحیت کے باعث جس غزوہ میں حضرت زید تشریف لے جاتے لشکر کا امیر انہی کو بنایا جاتا جب رسالت مآب خود غزوہ میں جاتے تو مدینہ میں اپنا خلیفہ زید کو بناکر جاتے۔(جامع ترمذی،باب ماجاء فی المعانقہ والقبلة، فتح الباری، ج٧، ص٨٧، بحوالہ سنن نسائی)

کیا عہد حاضر کی کوئی دینی شخصیت اپنے خادم سے یہ تعلق محبت، قرابت، الفت ظاہر کرسکتی ہے؟ ایک غلام حضرت زید اور ان کی اہلیہ ایک باندی ام ایمن کے  بطن سے حضرت اسامہ بن زید پیدا ہوئے ۔ آپ کی پرورش رسالت مآب نے پوتے کی طرح کی۔ پندرہ سال کی عمر میں غزوۂ خندق میں شرکت کی اجازت ملی، کئی غزوات میں شریک ہوئے اور کئی میں امیر بناکر بھیجے گئے۔ رسالت مآب نے وفات سے پہلے آپ کو بیس سال کی عمر میں امیر لشکر مقرر کیا، اس لشکر میں حضرت ابوبکر، عمر،سعد بن ابی وقاص اور حضرت ابو عبیدہ الجراح جیسے جلیل القدر سپاہی حضرت زید کی قیادت میں شریک تھے ۔ بعض حضرات کو اس پر اشکال ہوا تو آپ نے فرمایا زید بھی امارت کے اہل تھے اور واللہ مجھے انتہائی محبوب بھی تھے۔ اسی طرح یہ اسامہ بھی واللہ امارت کے اہل ہیں اور مجھے انتہائی محبوب بھی ہیں۔لقد کان خلیفاََ  للامارة واہم اللّٰہ ان کان من احب الناس الیٰ واہم اللّٰہ ان ھذا لخلیق لھا وان ھذا لمن احب الناس الیٰ (صحیح مسلم با ب فضا ئل زید بن حارثہ وابنہ اسامہ و صحیح بخاری باب غزونہ زید بن حارثہ و باب بعث النبی وجامع ترمذی مناجت زید بن حارثہ ) صحیح مسلم کی ایک روایت میں آتا ہے میں تم لوگوں کو اسامہ کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے کی وصیت کرتا ہوں اس لیے کہ وہ تم لوگوں کے صالحین میں سے ہیں۔ فاوصیکم بہ فانہ من صالحیکم۔

حضرت اسامہ یعنی ایک غلام باپ اور ایک باندی ماں کے صاحب زادے سے رسالت مآب کی محبت کا یہ عالم تھا کہ ان کو اپنی گود میں لیتے ایک بار ان کی ناک صاف کرنے کے لیے ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ حضرت عائشہ نے عرض کیا آپ رہنے دیجیے میں صاف کیے دیتی ہوں آپ نے فرمایا عائشہ احبیہ فانی ا حبہعائشہ یہ مجھے محبوب ہے تم بھی اس سے محبت کیا کرو ( جامع ترمذی مناقب اسامہ بن زید) رسالت مآب کے انتقال کے بعد بعض اصحاب کی رائے تھی کہ لشکر حضرت اسامہ  کی قیادت میں نہ بھیجا جائے اور کسی سن رسیدہ ، شخص کو امیر بنایا جائے لیکن حضرت ابوبکر نے اس لشکر کے بارے میں کسی تبدیلی کی رائے کو قبول نہیں کیا۔ یہ لشکر صحیح سالم فتح یاب لوٹا کیا عہد حاضر کے مسلمانوں کے لیے یہ طریقہ قابل قبول ہوسکتا ہے ؟ کیا وہ حضرت ابن عباس  اور حضرت اسامہ بن زید جیسے کم عمروں کی علمیت اور قیادت کو بخوشی قبول کرلیں گے؟ ایک کمسن نوجوان کی قیادت میں جہاد کے لیے ایک سپاہی کے طور پر شریک ہونے میں حضرت ابوبکر،حضرت عمر جیسے کسی بدری صحابی کو کوئی تردد نہ تھا انا ، خود پرستی، خود نمائی، برتری ،عظمت کے تمام تصورات اتباع رسالت نے ختم کردیئے تھے دین کو یہ عاجزی ، یہ سادگی، یہ رویہ، یہ ایمان، یہ اسلوب مطلوب ہے لیکن یہاں تو معاصرانہ رقابتیں ختم ہونے کا نام نہیں لیتیں ، اگر دعوت نامے میں نام آگے پیچھے کردیا جائے تقریر میں تقدیم و تاخیر ہو تو تعلقات ختم کردیئے جاتے ہیں اس کا نام عصرو حاضر میں دینی حمیت ہوگیا ہے ۔ عقلیت کے مارے ہوئے جدید ذہن اس فکر و نظر سے محروم ہیں جو خیر القرون کا طرۂ امتیازتھا۔ حضرت عبداللہ بن عمر کے لیے رسالت مآب نے ارشاد کیا :” انعم الرجل عبداللّٰہ لو کان یصلی من اللیل” عبداللہ بہترین شخص میں کیا ہی اچھا ہو وہ تہجد بھی پڑھنے لگیں اس ارشاد کے بعد حضرت عبداللہ کا حال یہ تھا کہ ” بعد ذالک لابنام من اللیل الا قلیلا”حضرت عبد اللہ رات کو بس برائے نام ہی سوتے تھے ۔(صحیح بخاری و صحیح مسلم فی المناقب) رسالت مآب نے ایک بار حضرت عبد اللہ بن عمر کا کندھا پکڑ کر فرمایا ” کن فی الدنیا کانک غریب اور عابر سیل وعد نفسک من اھل القبور”( جامع ترمذی باب ما جاء فی قصر الامل) یعنی دنیا میں ایسے رہو جیسے کہ تم پردیسی ہو یا مسافر اور اپنے کو اہل قبور یعنی مردوں میں شمار کرو اس ارشاد کی تعمیل میں حضرت عبداللہ بن عمر نے بے زارانہ زندگی گزار دی دنیا سے کوئی تعلق نہ رکھا ۔ شہادت عثمان کے بعد بعض صحابہ نے آپ سے بیعت کرنا چاہی لیکن آپ نے منع فرمادیا ۔ حضرت علی و حضرت معاویہ کے مابین شدید اختلافات ہوئے تب بھی بعض صحابہ نے کہا کہ آپ کے نام پر تقریباً سب متفق ہی ہوجائیں گے لیکن وہ پھر بھی راضی نہ ہوئے کیونکہ حضرت عمر نے بھی وصیت کی تھی کہ خلافت کے لیے مشورے میں میرے بیٹے عبداللہ کو بھی شامل کریں لیکن خلافت کے لیے ان کا انتخاب نہ کریں۔ (البدایہ والنھایہ،ج٧،ص١٤٥) حضرت عثمان نے انھیں قاضی بنانا چاہا تو آپ راضی نہ ہوئے (طبقات ابن سعد،ج٤، ص ١٤٦ ) دنیا سے اس قدر گریز کے باوجود انفاق میں بے مثال تھے راہِ خدا میں کثرت سے مال و دولت خرچ کرتے تھے ۔غلام باندی کو آزاد کردیتے آپ کے غلام نافع کے لیے ایک ہزار دینار کی پیش کش ہوئی لیکن آپ نے لوجہ اللہ آزاد کردیا ۔یہ غلام آپ کے شاگرد خاص تھے ۔ فیاضی سخاوت انفاق کا یہ عالم اس وقت تھا جب دنیا سے مکمل گریز بھی تھا ۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود کی شہادت ہے ان املک شباب قریش لنفسہ عن الدنیا عبد اللّٰہ بن عمر”(اصابہ ،ج٤،ص١٠٧) ترجمہ:” قریش کے نوجوانوں میں دنیا کے معاملے میں اپنے نفس پر سب سے زیادہ قابو رکھنے والے عبد اللہ بن عمر  ہیں۔ ” ان کے مقام کا اندازہ صرف اس بات سے کیجیے کہ خلافت کی پیش کش ہورہی ہے مگر آپ قبول نہیں فرمارہے۔ عہدۂ قضا کو رد کررہے ہیں اور ایک عہد حاضر کے دنیا دار اور اہل دین ہیں جو خلافت، حکومت،سلطنت کے لیے ہر وہ کام کررہے ہیں جس کی شریعت میں اجازت نہیں ہے اقتدار کی غلام گردشوں میں گردش کرنے کا شوق انھیں کس کس وادی میں لیے پھرتا ہے سب پر عیاں ہے جس کو یہ عہدے نہیں مل رہے وہ اسے طلب کرنے میں مصروف ہے خود اپنے لیے خطابات ایجاد کرلیتا ہے کوئی عہدہ نہ ملے تو اپنے اپنے علاقوں اور جماعتوں میں خلیفہ بن کر قیادت فرمارہے ہیں اور اپنی جماعت کے لوگوں سے اسی اطاعت اور نظم و ضبط کا مطالبہ کررہے ہیں جو صرف ”الجماعت ” کے امیر کے لیے مطلوب ہے۔ ہر شخص کو امت کی قیادت رہنمائی کا شوق ہے نہ اس کے پاس زہد ہے نہ علم نہ خدا کا وہ خوف جو تمام معاملات کو درست کردیتا ہے ۔ ایسی قیادت امت کی تقدیر کیسے بدل سکتی ہے؟ حضرت سلمان فارسی کو حضرت عمر نے مدائن کا حاکم بنایا اور پانچ ہزار درہم وظیفہ مقرر کیا تھا لیکن وہ سب راہ خدا میں خرچ کرتے اور خود اپنے ہاتھ کی کمائی سے کھاتے تھے ( کتاب ذکر اھل اصبھان) کیا یہ کردار ہمیں عہد حاضر کی اسلامی ریاستوں کے انقلابی رہنماؤں اور دینی قیادت کے رویوں میں نظر آرہا ہے۔ ان کے تو اخراجات ہی پورے نہیں ہوتے ضروریات زندگی تعیشات زندگی سے بدل گئی ہیں اس پر فخر بھی ہے ہر تعیش کو یہ ضرورت قرار دیتے ہیں اور اسلام کی عظمت اس سے وابستہ کردیتے ہیں۔
حضرت عبد اللہ بن عمر کے صاحب زادے سالم کی روایت ہے کہ ان کی دعوت ولیمہ میں حضرت ابو ایوب انصاری میزبان رسول بھی مدعو تھے ۔ جب وہ تشریف لائے تو انھوں نے دیکھا کہ میرے مکان کی دیواروں پر کپڑے کے پردے لٹکے ہوئے ہیں جنھیں دیکھ کر حضرت ابو ایوب نے سخت ناگواری کا اظہار فرمایا اور کہا دیواروں کو کپڑے پہناتے ہو۔ حضرت ابن عمر  نے کہا عورتیں غالب آگئیں حضرت ابو ایوب  ناراض ہوئے اور کھانا کھائے بغیر چلے گئے اور کہا ” حسن حثیت ان لغلبہ النساء فلم اخش ان یغلینک لا ادخل لکم بینا ولا اکل لکم طعاما ” ( صحیح بخاری ھل یرجع اذا رای منکر فی الدعوة) خیر القرون کا ہر فرد ایمان ، یقین، عمل میں ایک سے بڑھ کر ایک تھا۔ ایک دوسرے کا محاسب ، نگران، خیر خواہ ناصح اور خلاف سنت عمل پر فوری گرفت کرنے والا اور جس کی گرفت کی جارہی ہے اس کا تقویٰ دیکھیے کہ وہ اپنے عمل کی کوئی تادیل توجیح پیش نہیں کررہے اس کو حیلے بہانے سے شرعی ثابت کرنے پر تیار نہیں دیانتداری اور ایمانداری کا عالم یہ ہے کہ حضرت ابن عمر جیسے زاہد عابد شخص کے بارے میں میزبان رسول کا سخت نقد چھپایا نہیں جارہا بلکہ ابن عمر کے صاحب زادے حضرت سالم اس واقعے کو امت سے چھپانے کے بجائے اس کو روایت کرکے امت کے لیے محفوظ کررہے ہیں کہ مومنین ایک دوسرے کے اعمال کے کیسے نگراں ہوتے ہیں اور حق کے اظہار پر کسی کو ناگواری نہیں ہوتی سورۂ عصر کی آیت (  و تواصوا بالحق و تواصوا بالصبر)کی بہترین تفسیر یہی واقعہ ہے ۔کیا یہ صورت حال عہد حاضر میں ممکن ہے؟ عہد حاضر میں یہ صورت درپیش ہو تو سب سے پہلے اس واقعے کی روایت ہی نہیں کی جائے گی اور اگر ایسا واقعہ علم میں آگیا تو فوری طور پر کہہ دیا جائے گا کہ طبیعت میں بہت تشدد ہے یہ ٹھیک نہیں ہے سب چلتا ہے۔ حضرت عمار بن یاسر کا کان کسی غزوہ میں کٹ گیا اس کے کٹنے پر عمار نے خوشی بلکہ فخر کا اظہار کیا فرماتے تھے جو کان کٹ گیا وہ زیادہ بہتر تھا اس کان سے جو بچ گیا اس لیے کہ وہ اللہ کے راستے میں کام آگیا ۔ عصر حاضر میں یہ مرحلہ درپیش ہو تو سب سے پہلے پلاسٹک سرجن کے مطب آباد ہوں گے۔ اسی ایمان کے باعث رسالت مآب نے فرمایا تھا ” دم عمار ولحمہ حرام علی النار ان لغطیمہ ”( فتح الباری ،ج٧،ص٩١) جہنم کی آگ کے لیے حرام ہے کہ وہ عمار کے خون اور گوشت کو کھائے۔ حضرت سیدنا معاویہ ملک شام کے حاکم ہوئے، حضرت عبادہ بن صامت وہیں قیام پذیر تھے۔ ایک دن ایک خطیب نے خطبے میں حضرت معاویہ کی موجودگی میں ان کی تعریف شروع کر دی۔ حضرت عبادہ نے زمین سے خاک اٹھائی اور خطیب کے منہ پر مار دی حضرت معاویہ نے جب اس عمل پر گرفت کی تو فرمایا ہمیں رسول اللہ نے یہی حکم دیا ہے کہ منہ پر تعریف کرنے والوں کے منہ پر خاک ڈال دیں (سیر اعلام النبلائ، ج٣، ص١٠) قیام شام میں آپ نے حضرت معاویہ کے بعض امور پر نکیر فرمائی اور حضرت معاویہ نے اسے تسلیم بھی کیا لیکن کیا عہد حاضر کی علمیت و تعقل کے لیے یہ طریقہ قابل قبول ہے جہاں بڑے بڑے دین دار لوگ اپنے رسائل و جرائد اور اداروں میں اپنے لیے بڑے بڑے القابات درج کرنے پر اپنی شان میں قصیدے پڑھے جانے پر کوئی اعتراض نہیں کرتے ان قصائد کو پڑھ کر دنیا دنگ ہوتی ہے۔ دینی جماعتیں اور دینی تحریکیں ہر سال کسی خاص تقریب میں یا خاص موقع پر اپنے قصائد خود دنیا کے سامنے پیش کرتی ہیں اور اسے کسی سطح پر بھی بدعت تصور نہیں کیا جاتا۔

غیر مسلم ممالک میں سکونت ۔ایک تحقیقی و تنقیدی جائزہ


جریدہ "الواقۃ” کراچی، شمارہ  (5 / 6 )  شوال، ذیقعد  1433ھ/   ستمبر، اکتوبر 2012

غیر مسلم ممالک میں سکونت ۔ایک  تحقیقی  و  تنقیدی  جائزہ

ابو موحد عبید الرحمن


قسط  نمبر 1 قسط  نمبر 2 قسط  نمبر 3 قسط  نمبر 4

١٠)  علّامہ انور شاہ کشمیری فرماتے ہیں :
 ” پھر یہ بات بھی قابلِ وضاحت ہے کہ اگر مسلمانوں کا کسی ملک میں داخلہ و قیام اور اظہار احکام اسلام غلبہ کی صورت میں نہ ہو تو وہ بدستور دارِ حرب ہی رہے گا ۔ ”(انوار الباری :١٨/١٨٦)
١١) فضیلة الشیخ محمد بن صالح العثیمین فرماتے ہیں :
 ” وہ احباب جو ( یورپ ) سے واپس آئے تو بعض فاسق اور بعض تو بالکل ہی لامذہب ہوکر لوٹے اس حال میں کے وہ دین کا مذاق اڑا رہے تھے ۔ ”  (فتاویٰ و رسائل الشیخ : ٣/ ٢٥١)
١٢ ) مفسر قرآن علّامہ محمد ادریس کاندھلوی رقمطراز ہیں :
 ”آج کل امریکا اور برطانیہ میں رہنے والے مسلمان حکومت کی اجازت سے احکام اسلام بجا لاتے ہیں بغیر ان کی اجازت کے احکام اسلام بجا لانے پر قادر نہیں تو امریکا اور برطانیہ کی حکومت دارا لحرب ہوگی ۔” (عقائد اسلام :٢٣٨)
١٣)مولانا سیّد احمد رضا بجنوری رقمطراز ہیں :
” موجودہ دور میں جبکہ دنیا کے ڈیڑھ سو ملکوں میں سے تقریباً ایک تہائی اسلامی ممالک ہیں باقی سب دیار کفر ہیں ، الکفر ملة واحدة ۔”(انوار الباری :١٨/٢٥٥)
١٤) علامہ سیّد رشید رضا مصری نے بھی فرانسیسی شہریت کی حرمت پر تفصیلی فتویٰ جاری کیا ہے ۔(نواقض الاسلام القولیة و الملیة :٣٦٧)
١٥) علّامہ سیّد مہر علی شاہ صاحب فرماتے ہیں :
”یہود و مشرکین کی عداوت قرآن شریف میں صراحتاً مذکور ہے ۔ پس ترک موالات ہندو اور انگریز اور یہود سب سے ہونی چاہیئے ۔ ” (مہر منیر :٢٧٤)
١٦) فضیلة الشیخ داکٹر صالح الفوزان فرماتے ہیں :
” کفار کے علاقوں میں مستقل اقامت اختیار کرنا اور مسلمانوں کے علاقوں میں سکونت پذیر ہونے سے گریز کرنا بھی ان سے محبت کی دلیل ہے ( جوکہ حرام ہے ) ۔ ”(ماہنامہ ” محدث ‘ ( لاہور ) : نومبر ٢٠١١ء ص ٤٥)
١٧) علامہ نعیم الدین مراد آبادی رقمطراز ہیں :
” کفار کے ساتھ ایسی مجالست و مساحبت ، مواکلت و مشاربت ، تناصر و تعاون بھی ممنوع ہے ، انہیں رازدار بنانا اپنے امور ان کے ہاتھ میں دینا بھی ناجائز ہے ۔”(حیات صدرا لافاضل :٢/١٣٣)
١٨) فضیلة الشیخ علامہ یوسف دجوی المصری بھی ان ممالک کی نیشنلٹی (Nationality)کو اسلام سے متعارض قرار دیتے ہیں ۔(نواقض الاسلام : ٣٦٧)
١٩)  علّامہ سیّد ابو الاعلیٰ مودودی رقمطراز ہیں :
”اسلام نہ اس حکومت کو تسلیم کرتا ہے جو اصل مالک الملک یعنی اللہ سے بے تعلق ہوکر آزادانہ خود مختار قائم ہوئی ہو نہ اس قانون کو تسلیم کرتا ہے جو کسی انسان یا انسانوں کی کسی جماعت نے بطور خود بنالیا ہو، نہ اس عدالت کے حقِ سماعت و فصلِ خصومات کو تسلیم کرتا ہے جو اصل مالک و فرمانروا کے ملک میں اس کی اجازت (Sanction)کے بغیر اس کے باغیوں نے قائم کرلی ہو ۔ اسلامی نقطۂ نظر سے ایسی عدالتوں کی حیثیت وہی ہے جو انگریزی قانون کی رُو سے ان عدالتوں کی قرار پاتی ہے جو برطانوی سلطنت کی حدود میں تاج کی اجازت کے بغیر قائم کی جائیں۔ ان عدالتوں کے جج ، ان کے کارندے اور وکیل اور ان سے فیصلے کرنے والے جس طرح انگریزی قانون کی نگاہ میں باغی ومجرم اور بجائے خود مستلزم سزا ہیں ، اسی طرح اسلامی قانون کی نگاہ میں وہ پورا عدالتی نظام مجرمانہ و باغیانہ ہے ۔ ” (ماہنامہ ” ترجمان القرآن ”: اگست ١٩٤٥ء )
٢٠)مفتی محمد تقی عثمانی فرماتے ہیں :
”فقہاء فرماتے ہیں کہ صرف ملازمت کی غرض سے کسی مسلمان کا دار الحرب میں رہائش اختیار کرنا اور ان کی تعداد میں اضافہ کا سبب بننا ایسا فعل ہے جس سے اس کی عدالت مجروح ہوجاتی ہے ۔ ” (سلسلہ فقہی مقالات : ٥ /١٣)
٢١)علّامہ شیخ احمد شاکر محدث ( قاضی القضاة سلطنت عثمانیہ مصر ) رقمطراز ہیں :
” انگریزوں اور اہلِ فرانس کی اور ان کے حلیفوں اور ہمدردوں کی کسی بھی نوعیت کی مدد کا ارتکاب ( اگر کوئی مسلمان ) کرے گا ، تو اگر اس کے بعد وہ نماز پڑھے گا تو اس کی نماز قبول نہیں ہوگی ، وہ وضو ، غسل یا تیمم کرکے پاک ہونا چاہے گا تو اس کا یہ عمل قابلِ قبول نہیں ٹھہرے گا ۔ اس کی کسی قسم کی بھی عبادت لائقِ قبولیت نہیں ہوگی ۔ ”  (کلمۂ حق : ١٢٦)
 ٢٢) علامہ شبیر احمد عثمانی رقمطراز ہیں :
” بعضے مسلمان ایسے بھی ہیں کہ دل سے تو سچے مسلمان ہیں ، مگر کافروں کی حکومت میں ہیں اور ان سے مغلوب ہیں اور کافروں کے خوف سے اسلامی باتوں کو کھل کر نہیں کر سکتے نہ حکم جہاد کی تعمیل کر سکتے ہیں ، سوان پر فرض ہے کہ وہاں سے ہجرت کریں ۔ ” (تفسیر عثمانی ، مطبوعہ مملکت سعودیہ :١٢٣)
٢٣ ) علامہ سیّد بدر عالم میرٹھی لکھتے ہیں :
”ہجرت کی روح ترکِ وطن نہیں بلکہ شرک اور مشرک سے علیحدہ رہنا ہے ، جہاں شرک کا اقتدار ہو وہاں اسلامی حیات ہرگز نشو و نما نہیں پاسکتی، اس حالت میں اسلام کی حفاظت صرف ہجرت سے ہو سکتی ہے ۔ ” (ترجمان السنة ، باب : نھی المومن عن تکثیر سواد المشرکین : ٢ /٣٧١)
٢٤) علّامہ عبد الحی فرنگی محلی علیہ الرحمہ کے سامنے یہ استفتاء پیش ہوا کہ کچھ لوگ سرکارِ انگریز میں باعزت و وقار ہیں اور انہوں نے خلافِ شرع قانون وضع کیا ہے اور اسے قبول کیاہے ، ایسے لوگوں کا کیا حکم ہے ؟ علامہ فرنگی محلہ فرماتے ہیں :
” حق جل شانہ کلام پاک میں ارشاد فرماتا ہے : ( و من لم یحکم بما انزل اللّٰہ فاولٰئک ھم الکافرون ) پس ایسا قانون ، جو خلافِ شرع کے ہو ، قبول کرنا اس کا اہلِ اسلام پر حرام ہے اور جو اس کے موافق عمل کرے گناہ اس کا مقنن قانون کی گردن پر ہوگا اور کرنے والے نے اگر قانون شرعی کو برا سمجھا اور اس کے ساتھ راضی اور ان کو خلاف مصلحت و غیر کافی تصور کیا تو وہ کافر ہوگئے …….. اور اگر انہوں نے قانونِ شریعت کو برا نہ سمجھا تو اگرچہ کافر نہیں ہوئے مگر بہت بڑے فاسق ہوئے ۔ ”  (مجموعۂ فتاویٰ ، مطبوعہ یوسفی :٢/٤٨ )
٢٥) علامہ شاہ عبد القادر دہلوی رقمطراز ہیں :
” معلوم ہوا کہ جس ملک میں مسلمان کھلانہ رہ سکے ( یعنی اظہارِ دین و اولا البرء ) وہاں سے ہجرت فرض ہے ۔ ” (موضح القرآن : ١٧٧)
٢٦) جمہور علمائے امت دارالکفر و دارالحرب کی حرمت و شناعت کے بارے میں کس قدر حساس واقع ہوئے ہیں ، اس کا اندازہ ہم ماضیِ قریب میں رونما ہونے والے ایک سانحہ سے لگا سکتے ہیں ۔ یہ سانحہ برصغیر ہندوستان میں انگریزوں کادر آنا تھاگو یہ امرِ واقعہ تھا کہ انگریزوں کے دور میں مسلمانانِ برصغیر کو آج کے یورپی مسلمانوں سے بڑھ کر مذہبی آزادی حاصل تھی ، پھر ان کو بعض حلقوں میں سیاسی تسلط بھی حاصل تھا ۔ ان کی تعداد بھی ان گورے چمڑی والوں سے کہیں زیادہ تھی ۔ اسی طرح بعض علاقہ جات میں اسلامی قضاة و عدالتوں کا شعبہ بھی بحال تھا مگر ان تمام مثبت عوامل کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے ان جلیل القدر محققانِ علم و رشد نے ہندوستان کے دارا لحرب و دارالکفر ہونے کا فتاویٰ جاری کیا ۔ چنانچہ علامہ شاہ عبد العزیز نے ہندوستان کے دارالحرب ہونے کی حسبِ ذیل وجہ بتلاتے ہیں :
” اس شہر میں مسلمانوں کے امام کا حکم بالکل جاری نہیں ہے ،بلکہ نصاریٰ کے سرداروں اور افسروں کا حکم جاری ہے ۔ ہاں اگر بعض اسلامی احکام مثلاً جمعہ اور عیدین اور گاؤ کشی وغیرہ سے یہ لوگ تعریض نہیں کرتے ہیں ، تو بھلے نہ کریں مگر ان احکام کی اصل الاصول ان کے نزدیک بالکل ہیچ اور ضائع ہیں ۔ ” (فتاویٰ عزیزی : ١ /١٧٧)
٢٧ ) علامہ قاسم نانوتوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں :
” اگرچہ راجح نزد ہیچمدان کہ ہندوستان دارالحرب است ۔”
” اگرچہ اس عاجز کے نزدیک راجح یہی قرار پایا کہ ہندوستان دارالحرب ہے ۔ ” (قاسم العلوم ، مطبع مجتبائی : ١٧٧)

نکسنیات سے دجالیات تک۔ پاکستان کس رُخ پر


جریدہ "الواقۃ” کراچی، شمارہ  (5 / 6 )  شوال، ذیقعد  1433ھ/   ستمبر، اکتوبر 2012
نکسنیات سے دجالیات تک۔ پاکستان کس رُخ پر ؟
محمد احمد

قسط نمبر 2 قسط نمبر 1
اس جنگ کی شروعات سے قبل مارشل اسٹالن نے روس کے باشندے مسلمانوں سے مذہبی اور سیاسی آزادی دینے کے بڑے وعدے کیے تھے ۔ مگر اپنی مطلب براری کے بعد سب کچھ طاقِ نسیاں ہوگیا اور حالات کا جبر اسی نہج پر رہا ۔ سرد جنگ کے دوران سوویت یونین فولادی پردون کے پیچھے روپوش رہتے ہوئے چور دروازوں سے اشتراکی نظریات کے جراثیم برآمد کرتا رہا ۔ مسلم ممالک میں منافق ٹولہ ایسے اثرات قبول کر لیتا ہے ۔ اس ٹولہ کو پہلے خفیہ طور سے اسلحہ کی کھیپ پہنچائی جاتی ہے ۔ اس طریقۂ کار کو گن رننگ (Gunrunning) سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔افغانستان میں کچھ تبدیلی کے بعد گن رننگ کروائی ۔ بعد میں ظاہر شاہ (کی جائزحکومت ) ” کو ” (Coup) سے بدل دی ۔ اس سے بھی روسی ریچھ کا دل مطمئن نہ ہوا تو طوفانی فوجی یلغار سے سارا نظامِ افغانستان تہہ و بالا ہوگیا۔ ” ماڈرن ” زمانہ میں سوویت یونین نے اپنے اس اقدام کا نیا نام برزنیف حکمت عملی (Brezenev Doctrine) رکھ دیا ۔
جیسا کہ پہلے ( پیرا نمبر ٧ ) بتایا جا چکا ہے کہ عالم اسلام سے جوشیلے مسلمان نوجوان جمع ہونے لگے اور افغانستان میں عالمی اسلامی جہاد کی بنیاد پڑ گئی ۔ لاکھوں لُٹے پٹے افغان مہاجرین ، جن میں عورتیں ، بچے اور بوڑھے شامل تھے ، نے ہمسایہ ملک پاکستان میں پناہ لی۔ ان لاکھوں افراد کی برسہا برس پاکستان نے اپنے وسائل سے مہمان نوازی کی ۔ بہر حال مجاہدین کی بہت بڑی تعداد نے برضا و رغبت خلعتِ شہادت پہنتے ہوئے سوویت فوجوں کو ایسی عبرتناک شکست دی جو تاریخ میں معتبر ترین شکست مانی جائے گی ۔ ایک حیثیت میں مجاہدین نے اپنے روسی مسلمان بھائیوں کا بدلہ بھی اس انداز میں لیا کہ سوویت یونین ہی تحلیل ہوکر رہ گیا ۔ مجاہدین اپنا مقصد حاصل کرچکے تھے ۔ صورتحال کا تقاضا تھا کہ افغانستان کے حکمران وہ خود بنتے اور ان قیدیوں کا ٹرائل کرتے مگر ان اللہ کے نیک بندوں نے اپنے خون کے پیاسوں کو اس طرح معاف کیا جس طرح حضور اکرم نے مکہ کے مشرکوں کو حرم کعبہ میں معاف کیا : لَا تَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ  ۭ يَغْفِرُ اللّٰهُ لَكُمْ ۡ وَهُوَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِيْنَ      92؁ ) (سورہ یوسف : ٩٢) ” آج تم پر کوئی گرفت نہیں ، اللہ تمہیں معاف کرے ۔ وہ سب سے بڑھ کر رحم فرمانے والا ہے ۔”
سابق سوویت یونین کے گرفتار فوجیوں کو بلا کسی گزند اور تکلیف کے دریائے آمو (River Oxus) سے پار کرادیا گیا ۔ اب روس سوویٹ یونین سے رشین فیڈریشن بن چکا ہے یعنی کل کا دیو ( سوویٹ یونین ) آج کا بونا بن گیا ۔

١٤-رچرڈ نکسن کا اسلام فوبیا کا بیج برگ و بار لاتے ہوئے ایک تناور درخت بن جاتا ہے ۔ بالفاظِ دیگر نکسن کی دور رَس حکمت عملی بروئے کار آجاتی ہے اور امریکاشدید اسلاموفوبیا کے مرض ( جو اب بڑے مرض (Pandemic) کی شکل اختیار کرلیتا ہے ) میں مبتلا ہوتے ہی دنیائے اسلام سے تصادم کی راہ پر لگ جاتا ہے۔ افغانستان میں بونی روسی ریاست ( شمالی اتحاد کے گاڈ فادر کی شکل میں ) اور امریکا ( ١١/٩کے انتقام کے لیے ) افغانستان میں بھیانک خون کی ہولی کھیلنے کے لیے کود پڑتے ہیں ۔ برطانیہ بھی امریکا کا وار آن ٹیررکا ساتھی بن جاتا ہے ۔ پوری دنیا اس ظلم اور بربریت پر چیخ پڑتی ہے اور بش اور اس کے بلیئر(Blair) سے اس خونیں ” ڈرامہ ” کو بند کرانے کے لیے بیشتر ممالک میں مظاہرے شروع ہو جاتے ہیں ۔ اس ظلمِ عظیم کی حدت اور شدت کے تناظر میں سانحہ ١١/٩ ، جسے کسنجر نے جنگِ عظیم دوم کے واقعہ پرل ہاربر میں امریکی بڑے جنگی جہازوں کی بڑی تعداد میں جاپانی ہوائی حملہ سے غرقابی سے تشبیہ دی تھی ، کا امپیکٹ (Impact) بودا و جعلی محسوس ہونے لگتا ہے ۔ اس لیے ببانگِ دہل کہنے میں کوئی باک نہیں کہ نکسن نے جنگ کی چتا بالآخر اپنے منفی عزائم کے تحت جلا ہی ڈالی اور یہود نے اس آگ کو اپنی ازلی اسلام دشمنی اور منفی سرشت پر گامزن رہتے ہوئے خوب بھڑکائی اور اب یہ آگ اس نہج تک جا پہنچی کہ جس کے لیے عراق کے مرحوم صدر صدام حسین نے اپنی زندگی میں ” امّ المحارب ” ( جنگوں کی ماں ) کا نام تجویز کیا تھا ۔ انہوں نے جارج ڈبلیو بش کو دعوت مبارزت بھی دی ( جو اس نے قبول نہ کی ) اور وہ اسے میدانِ مکافاتِ عمل میں تنہا چھوڑتے ہوئے مزید مشتعل کرگئے تاکہ وہ اپنی منفی میلانِ طبع کو اور مہمیز دے ۔ شروع میں بش ایک (Secular) لادینی جنگجو رہنمانظر آتے تھے بعد میں وہ اس حد تک مشتعل کر دیئے گئے کہ وہ اس جنگ کو کرئہ ارض کی آخری جنگ (ARMAGEDDON) کے ہدف تک لے جانے کے شدید آرزو مند ہوگئے ۔ یہ نکسن کی ثلث صدی کی سوچ ، تحاریر اور منفی جذباتیت کا شاخسانہ ہے کہ جسکے ڈانڈے قرب قیامت کی بڑی نشانی -ظہور الدجال – سے مل جاتے ہیں ۔ مغرب نکسن کی پیدا کردہ اس اتھاہ منفی سوچ -اسلامو فوبیا- میں اس قدر ڈوب چکا ہے کہ اسے اب اس حالت استغراق سے نکلنا خاصا مشکل بلکہ تقریباً نا ممکن ہوگیا ہے ۔ یعنی مرض ( اسلامو فوبیا ) اور جنگ باہم لازم وملزوم ہوچکے ہیں ۔ دانشورانِ مغرب کے دماغ اتنے کھول چکے ہیں کہ وہ اس جنگی آگ میں جلنے اور جلانے کو اس ” فوبیا ” کا مؤثر علاج گردانتے ہیں ۔
١٥- بش جونیئر نے برطانوی کلیسا کا پیرو کار ہونے کے سبب وار آن ٹیرر کو مذہبی رنگ دیا اور سابق صدرِ امریکا کی حیثیت میں نکسن کے پھیلائے ہوئے اسلامو فوبیا کے فُسوں کے شدید پرچارک کا روپ دھار لیا ۔ نکسن کا شروع میں وہ غیر محسوس طریقہ سے معتقد تھا ۔ مگر ایگزیکیٹو آرڈر (Executive Order 13224) منظور کرتے ہی نکسن کوبہت پیچھے چھوڑ گیا۔اس انتظامی حکم کے تحت بش نے مشرق وسطیٰ کے صدیوں سے قائم غیر سودی مالیاتی نظم کو تہہ و بالا کردیا۔ دنیائے مغرب کا بینکاری نظام ، گو حکومتوں کے ماتحت رہا ، دنیائے اسلام کے حکومتی انتظام سے مبرّا صدیوں پرانے معاشی نظام و انصرام کے سامنے طفلِ مکتب ہی مانا جائے گا ۔ بہت کم لوگوں کو علم ہوگا کہ امریکا نے ١١/٩کے جواب میں دنیا کے انتہائی پسماندہ ملک افغانستان پر نہ صرف اپنی بحری ، برّی اور فضائی طاقت سے بھرپور حملہ کیا بلکہ پورے اسلامک بلاک کے مالیاتی وسائل پر غاصبانہ قبضہ کے لیے آپریشن گرین کویسٹ بھی اپنی وزارت مالیات کے توسط سے شروع کردیا ۔ ایک مشہور امریکی کہاوت ہے : ” امریکا میں دوپہر کا کھاناکبھی مفت نہیں ملتا There is no free lunch in US ”آخر کیوں ؟ دنیا کی واحد سپر پاور ہونے کے ناتے پوری اسلامی دنیا کو بالعموم وہ اپنا غلام بنانے کی قسم بھی کھا تا ہے اور دنیائے اسلام کے منافق حکمرانوں کو بالخصوص حِرص و ہوس کے بندے بنانے کے لیے کروڑوں ڈالرز کا دانہ بھی ڈالتا ہے ۔ اپنے طور و طریق کو بلا شرم و لحاظ وہ چھڑی اور گاجر سے تشبیہ دیتا ہے ۔ چھڑی پر تکیہ کرنا سب کی سمجھ میں فوراً آجاتا ہے ۔ مگر گاجر اپنی جیب سے کھلانا اس کے بس کی بات نہیں ۔ اسی لیے اسلامی دنیا کی منی مارکیٹ (Money Market) کی نقب زنی کے ذریعہ ٹارگٹ کلنگ (Target Killing) کراتے ہوئے بلڈ منی (Blood Money)کی ادائیگی کی جاتی ہے ۔
اگر پاکستان کے حکمرانوں میں خدا خوفی ہوتی تو وہ اپنا ملک سودی دلدل میں نہ دھنساتے بلکہ اپنے سودی قرضوں کے ڈالرز اس عظیم اسلامی مالیاتی منڈی سے خرید کر مغربی ممالک کے سودی مہاجنوں (World Bank & IMF etc) کو فی الفور ادا کرتے ہوئے اس سودی شکنجے  سے نکل آتے ۔ ایسا سودا صرف خوش قسمت افراد کے سَروں میں سماتا ہے اور جنہوں نے اپنی سائیکی میں مال و متاعِ غرور کی لذت و محبت بسا رکھی ہو انہیں باری تعالیٰ نے دنیا کی آخری جنگوں میں تپا کر دجّال کے دستر خوان کی نذر کرنے کا ارادہ فرمالیا ہے ۔ اصحاب الشمال کا بُرا انجام ایسا ہی ہونا چاہیئے ۔
ستّر کی دہائی سے اب تک ( قریباً نصف صدی ) نسل در نسل جوش و جذبہ والے ، عشقِ خداوندی و رسول ہاشمی کے متوالے اور راتوں کے راہب ، دنوں کے شہ سوار ( الرّاہبان باللّیل و الفرسان بالنّھار ) جن کے لیے علّامہ اقبال فرماتے ہیں :
جو ذکرکی گرمی سے شعلے کی طرح روشن
جو فکر کی سرعت میں بجلی سے زیادہ تیز
نوجوانوں نے مغرب کی ہائی ٹیک (High Tech) افواج کو پندرہ سو کلو میٹر طویل کوہستانی سلسلے کے غاروں کو بیس بناتے ہوئے اپنی گوریلا کارروائیوں سے ناکوں چنے چبوا دیئے ہیں ۔ مستقبلِ قریب میں ان کا مطمحِ نظر امام مہدی کے زیرِ کمان لشکر دجّال سے حتمی اور نتیجہ خیز ٹکراؤ ( آپ چاہے اسے End of Time Battlesکہیں یا  Armageddonکے نام سے پکاریں صحیح ہے ) اصحابِ یمین و مقربین انہیں اوصاف سے پہچانے جاتے ہیں ۔
صلائے عام ہے یارانِ نکتہ داں کے لیے

نو مسلموں کا اسلام سے واپس لوٹ جانا۔ ایک لمحہ فکریہ


جریدہ "الواقۃ” کراچی، شمارہ  (5 / 6 )  شوال، ذیقعد  1433ھ/   ستمبر، اکتوبر 2012

نو مسلموں کا اسلام سے واپس لوٹ جانا۔ ایک لمحہ فکریہ

ابو عمار سلیم

سانحہ ١١ ستمبر کے بعد ہمارے میڈیا نے اس خبر کی بہت زیادہ تشہیر کرنی شروع کی کہ مغربی ممالک میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد اسلام میں داخل ہونا شروع ہوگئی ہے۔  پیس ٹی وی کے ڈاکٹر ذاکر نائیک سے لے کر ہمارے ملک کے دو دو صفحوں کے اخبارات تک میں بھی یہ خبریں بڑے جوش و خروش سے پیش کی جانے لگیں۔

اسلام کی حقانیت اور اس کے دل موہ لینے والے اصول و ضوابط بیشک انسان کو اپنی جانب کھینچتے ہیں اور جو کھلے دل کے ساتھ ا ن کو سمجھنا چاہے اس کے لیے اسلام کو قبول کرلینے کے علاوہ کوئی اور راہ باقی نہیں رہتی۔اعدادو شمار کے حوالے سے تو یوں محسوس ہو رہاتھا کہ بس اب کچھ ہی دنوں کی بات ہے کہ جلد ہی پوری انسانیت اسلام کے حلقہ میں داخل ہوجائے گی۔ مگر دراصل ان اعداد و شمار کی کوئی مستند اساس نہیں دی گئی۔ اسلام کا ہر بہی خواہ ان خبروں کو سن کر خوش ہوا اور بہت سے لوگوں کے ایمان میں اضافہ بھی ہوا ۔ مگر کسی مستند حوالہ کی غیر موجودگی میں بہت سے اذہان شک میں بھی مبتلا پائے گئے جو تاریخ سے واقف ہیں انہوں نے دور نبوت کے ان لوگوں کے اسلام کا حوالہ یادکیا جو اسلام کے غلبہ سے پریشان تھے اور دشمن اسلام تھے مگر اپنے بڑوں کے کہنے پر اسلام قبول کرنے کا اعلان کردیا۔ ان کا پلان یہ تھا کہ صبح کو ایمان لے ا ؤ اور شام کو اس سے پھر جاؤ تاکہ لوگوں کو یہ تاثر ملے کہ ان لوگوں کو اسلام میں کوئی خوبی نہیں ملی اس لیے یہ واپس پھر آئے۔اور پھر لوگوں کے ذہنوں میں خلافت راشدہ کے دور کا وہ یہودی منصوبہ بھی جاگ اٹھا جب ان سازشیوں نے اسلام کا لبادہ اوڑھ کر اپنے آپ کو اسلام کا بہی خواہ ہونے کا تاثر دیا مگر در پردہ سازشیں کرتے رہے۔ انکی ریشہ دوانیوں نے اسلام کو جس طرح دو لخت کیا ہے وہ کس کی نظروں سے پوشیدہ ہے ؟ انہوں نے اسلام کوتقسیم کرکے ایسا نقصان پہنچایا ہے کہ ملت اسلامی کا جگر آج بھی خون کے آنسو رو رہا ہے۔

 
 موجودہ دور کے تکنیکی ذرائع کے استعمال کے ساتھ ان صہیونی عیسائی طاقتوں نے تو ہمارے اندر مزید فرقہ واریت بھی پیدا کر دی ہے اور ان اختلافات کو مزید شدید کردیا ہے۔ ان حالات کے پیش نظر ضرورت اس بات کی تھی کہ ہر خبر کو اس کی اصلیت جاننے اور مکمل تحقیق و اطمینان کرلینے کے بعد  شائع کرنا چاہئے تھا۔ یہی قران مجید کا بھی حکم ہے مگر سستی شہرت اور سنسنی پھیلانے کی بھاگ دوڑ میں اصل تک کوئی نہ پہنچا اور جس کو جو خبر ملی وہ اسی کو لے کر دوڑ پڑا۔ میرے کہنے کا یہ مقصد ہر گز نہیں کہ غیر مسلموں کے ایمان لے آنے کی تمام کی تمام خبریں غلط اور جھوٹ کا پلندہ تھیں۔ ایسا ہرگز نہیں تھا۔ یقیناًبہت لوگ اسلام لائے۔ اسلام نے انکے دلوں کو مغلوب کیا اور وہ لوگ جو سچائی کی تلاش میں تھے ،انہوں نے اسلام کی تعلیمات سے متاثر ہو کر اسلام کو قبول بھی کرلیا۔ مگر تازہ خبروں نے اسلام کے تمام درد مند دل رکھنے والوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اب یہ خبریں آنی شروع ہوگئی ہیں کہ نومسلم حضرات اسلام سے نکل کر واپس اپنے پرانے مذہب کو اختیار کر رہے ہیں۔ میں بھی یہ سوچ رہا ہوں اور آپ بھی یقیناً اس فکر میں ہوں گے کہ آخر ان نو مسلموں نے ایسا کیا دیکھ لیا کہ وہ اسلام سے برگشتہ ہوگئے۔ کیا اسلام کی تعلیمات صرف میک اپ اور لیپا پوتی سے مزین ہے کہ اس کے اترتے ہی اس کا اصلی چہرہ سامنے آگیا اور دیکھنے والوں نے اس کی اصلیت دیکھ لی اور بھاگ گئے۔ مسلمانوں کی حالت اور ان کی سرگرمیوں کا جائزہ لیا جائے اوردیکھا جائے کہ ان کی زندگیاں جس طرح اسلام کے بتائے ہوئے اصول و مبادی سے دور ہیں تو کسی کا بھی متنفر ہو جانا بعید از قیاس بھی نہیں۔ مگر ہم اس کی طرف ذرا دیر بعد لوٹیں گے۔ آئے پہلے تازہ ترین خبروں اور بعض نو مسلمانوں کے لوٹ جانے کے بارے میں ان کی اپنی آرا اور انہیں پیش آنے والی مشکلات کا جائزہ لے لیں۔
میرے پیش نظر http://www.solaceuk.org کا ایک مضمون ہے جو اُم ریان کے نام سے ٧ اگست ٢٠١٢ء کو شائع ہوا ہے جو کسی نومسلم خاتون کے خط کے حوالہ سے ان کی مشکلات کے استفسار پر لکھا گیا ہے۔ اس خط کا ایک مختصر اقتباس آپ کے لیے پیش خدمت ہے:

” میرے علم میں نہیں کہ آپ میری کوئی مدد کرسکیں گی یا نہیں۔ میری زندگی فی الوقت ایک عذاب میں مبتلا ہے۔ مجھے اسلام قبول کیے ہوئے پانچ سال ہو چکے ہیں اور ہر رمضان کی آمد پر میرے ایمان میں اضافہ ہونے کی بجائے میں یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتی ہوں کہ کیا میں اپنے اسلام پر قائم رہوں یا واپس پرانا مذہب اپنا لوں۔ اسلام قبول کرنے کے بعدمیں جس تنہائی کا شکار ہوئی ہوں ایسی تنہائی میں نے اسلام میں داخل ہونے سے پہلے کبھی بھی محسوس نہیں کی تھی۔رمضان میں یہ احساس اور بھی شدید ہوجاتا ہے جب مجھے بے تحاشہ ای میل ملتی ہیں جس میں یہ طریقہ بتایا جاتا ہے کہ تیس دنوں میں قران کیسے ختم کیا جائے اور تقویٰ کیسے حاصل کیا جائے۔ مگر میں اپنی ناکام کوششوں کے بعد اور بھی نامراد ہو جا تی ہوں۔آج سے پانچ سال قبل جب میں نے کلمہ شہادت پڑھا تھا تو بے تحاشہ بہنوں نے مجھے گلے لگایااور مجھے اپنا فون نمبر بھی دیالیکن یہ سب شائد دکھلاوا تھا اس لیے کہ چند دنوں کے بعد وہ نہ تو میرے فون کرنے پر فون اٹھاتی ہیں اور نہ میرے ایس ایم ایس اور میل کا جواب دیتی ہیں۔انہوں نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ وہ مجھے نماز پڑھنا بھی سکھائیں گی ۔ مگر اتنے دن گزرنے کے بعد بھی مجھے آج نماز پڑھنی نہیں آتی ہے۔ میں بڑی اذیت میں گرفتار ہوں اور اپنی تنہائی سے پریشان بھی ہوں۔ میں نے کئی ایک کتابوں سے بھی مدد لی اور یو ٹیوب پر بھی سرگرداں رہی مگر ان میں سے کسی سے کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ میں نے اپنی مسجد میں بھی فون کیا۔ جب انہیں معلوم ہوا کہ مجھے اسلام میں داخل ہوئے پانچ سال گزر چکے ہیں اور مجھے ابھی تک نماز پڑھنی نہیں آتی تو میری مدد کرنے کی بجائے انہوں نے میرا مذاق اڑایا۔میری شدید خواہش ہے کہ میں قران مجید کی تلاوت کرسکوں ، دیگر مسلمانوں کی طرح تمام فرائض ادا کروں اورتراویح میں بھی شمولیت کروں۔میں روزہ کھولنے مسجد میں بھی گئی ، لوگوں نے مجھے کھانے پینے کی چیزیں ضرور پیش کیں مگرپھر نماز کے بعد کسی نے بھی مجھے لفٹ نہیں کرائی۔ لوگ اپنے اپنے گروپوں میں بیٹھ کر کھاتے پیتے رہے اور خوش گپیاں کرتے رہے مگر میرے لیے ان کے پاس سوائے دور سے پھینکی ہوئی ایک مسکراہٹ کے علاوہ کچھ نہ تھا۔”

مذکورہ بالا اقتباس کو پڑھنے کے بعد آپ کو یقیناً یہ احساس ہوا ہوگا کہ یہ ایک انتہائی نامناسب رویہ ہے جس کا اس نو مسلم خاتون کو سامنا کرنا پڑا۔ مگر کیا ایسے ہی حالات سے ہر نو مسلم کو گزرنا پڑتا ہے؟ یہ ایک بڑا ہی اہم سوال ہے جس کا ہم مسلمانوں کو سنجیدگی سے نوٹس لینا چاہئے۔ کسی شخص کا مسلمان ہو جانا ایک بڑا ہی خوش آئند قدم ہے مگر کسی مسلمان کا اسلام کو چھوڑ کر واپس اپنی پرانی روش اور دین پرچلا جانا اس سے بھی زیادہ گھمبیر اور قابل فکر معاملہ ہے۔ ایک غیر مسلم شخص جو اسلام کا مطالعہ کرتا ہے وہ اپنی عقل و دانش کو استعمال کرکے اسلام کی سچائی اور اس دین کے انتہائی سادہ اصول اور ہمہ گیر پیغام کو قبول کرتا ہے تو اس کی زندگی میں ایک انقلاب آجاتا ہے۔ اسلام کے قبول کرتے ہی ایک تو یہ کہ وہ اپنے پرانے دین سے منحرف ہوجاتا ہے، اپنے عزیز و رشتہ داروں دوست اور احباب کی نظروں سے گر بھی جاتا ہے اور ان کی نفرتوں کا بھی شکار ہوجاتا ہے۔ وہ سارے لوگ جو اس کی زندگی میں ایک اہم کردار ادا کر رہے تھے اچانک اپنے سے پرائے ہوجاتے ہیں اور اس کی پرانی زندگی کے تمام ابواب یک لخت بند ہو جاتے ہیں۔ اب وہ ایک ایسے دروازے سے ایک ایسے مکان میں داخل ہوجاتا ہے جس کے بارے میں اسے زیادہ معلومات نہیں ہوتی ہیں۔ اس دین کی ابتدائی باتوں کے علاوہ جو اس نے پڑھی یا سنی ہوتی ہیں اس کے علاوہ اس کو اور کچھ معلوم نہیں ہوتاہے۔ ایسے میں اس کا اپنے آپ کو تنہا محسوس کرنا اور اپنے گرد مضبوط اور قابل بھروسہ سہارے کی غیر موجودگی یقیناً ایسے شخص کے لیے انتہائی دشوار اور نا قابل برداشت ہوتی ہوگی۔ وہ تمام نو مسلم مرد اور خواتین جن کو اسلام قبول کرتے ہی ایک انتہائی قابل بھروسہ محبت کرنے والے اور مدد کے لیے ہر دم تیار ساتھی مل جائیں جو اس کو کفر کا لبادہ اتار کر اسلام کی سیدھی سادی پاکیزہ سچائی کو سمجھنے میںمدد دیں تو اس کا کام تو شائد آسان ہوجاتا ہوگا۔ مگر اندازہ کریں ایسے شخص یا خاتون کا جو روشنی کی تلاش میں اسلام میں داخل ہو اور پھر بھی اندھیروں میں بھٹکتا پھرے ۔ظاہر ہے کہ اس کو ابھی اسلام کی تعلیمات کی ضرورت ہے۔ ایک استاد یا رہنما چاہیے جو اس کے ذہن میں اٹھنے والے سوالات کا جوب دے سکے ۔ جو چیزیں اس کی سمجھ سے بالا تر ہورہی ہیں ان کے عقدے کو حل کرے اور اس نئے دین پر چلنے میں اس کی مدد کر سکے تا کہ یہ نو مسلم اسی طرح اپنے آپ کو تمام فرائض ادا کرتا ہوا دیکھے جیسے دیگر مسلمان ادا کر رہے ہیں۔ ہم اور آپ جو پیدائشی مسلمان ہیں ہم نے اسلام کے عقائد اور اس کی تعلیمات کو جب سے آنکھ کھولی ہے سیکھ رہے ہیں او ر بغیرکسی واضح تردد اور کوشش کے تمام ضروری چیزیں ہمارے علم میں آگئی ہیں اور شائد یہی وجہ ہے کہ ہمارے دلوں میں اسلام کے لیے وہ جگہ نہیں ہے جو ان نو مسلموں کے دل و دماغ پر چھائی ہوئی ہے۔ انہوں نے اس دین کو اور اس نئی تہذیب و معاشرے کو جان بوجھ کر اپنا یا ہے کہ یہی حق ہے ۔ وہ غلط راستے پر چل رہے تھے اور اب ضلالت اور گمراہی سے دور ہوکر سیدھے اور سچے راستے پر گامزن ہورہے ہیں۔ ایسے لوگوں کو چند کتابوں کا تحفہ دے دینا یا ان کو کوئی سی ڈی یا اسی جیسی کوئی اور چیز دے دینا اور یہ سمجھنا کہ اب وہ اس دین پر بڑے اطمینان سے رواں ہو جائیں گے، انتہائی غلط ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ لوگ اپنی مصروف زندگیوں میں سے وقت نکال کر ان نو مسلموں کو نہ دے پا رہے ہوں۔ مگر حق تو یہ ہے کہ انہیں اگر بے یارومددگار چھوڑ دیا جائے گا تو یہ لوگ یقیناً واپس اپنے پرانے دین پر چلے جائیں گے اور یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی نو مسلم ایسا بھی ہو جس کواس کے گھر والے گھر سے نکال دیں اور اس کے لیے سر چھپانا وقت کا سب سے بڑا مسئلہ بن جائے۔ کیا وہ کھلے آسمان کے نیچے زندگی گزار کر اپنے اسلام میں مسرور رہ سکتا ہے۔ یقیناً ان تمام مسائل سے آگاہی ہو جانے کے بعد بھی ہم یہ سو چتے رہ جائیں کہ کوئی دوسرا بھائی اس کی مدد کردے گا اور اگر یہ تمام معاملات کسی خاتون کے ساتھ پیش آرہے ہوں تو ان معاملات کی سنگینی میں انتہائی شدید اضافہ ہو جاتا ہے۔ خواتین خواہ مشرق کی ہوں خواہ مغرب کی ، یہ جنس کمزور ہے اور اس کو مرد کی مدد درکار ہوتی ہے۔ ایسے میں معاملات میں ان کو جو دشواریاں پیش آرہی ہوتی ہیں ان کا سدباب مردوں کے مقابلہ میں زیادہ مشکل ہوگا۔ ایسی خبریں بھی آئی ہیں کہ نو مسلم خواتین کے ساتھ بعض سمجھدار حضرات نے ان کی کفالت اور ان کو معاشرہ میں ایک باعزت گھریلو زندگی گزارنے کی سہولت کی فراہمی کی غرض سے ان سے نکاح کرلیا۔ مگر کچھ ہی دنوں کے بعد ان کے اندر اختلافات جنم لینے لگ گئے اور کئی ایک جوڑے ذہنی مطابقت نہ ہونے کی وجہ سے الگ ہوگئے۔ ایسی طلاق شدہ خواتین کی زندگی اور بھی اجیرن ہوگئی اور اطلاعات کے مطابق ایسی خواتین نے واپس اپنا پرانا مذہب اختیار کر لیا۔ شائد کچھ لوگ یہ گمان کریں کہ وہ جو اسلام کو واپس چھوڑ جاتے ہیں ان کے ایمان میں وہ پختگی نہیں ہوتی جو ان کو ان تمام مصائب اور مسائل کے باوجود اسلام کے دامن میں پناہ لیے رکھنے پر مجبور کر سکے۔
 
مگر یہ ایک بہت ہی سطحی نقطہ نظر ہے۔ معاملات اس سے بھی زیادہ پیچیدہ ہیں اور ان کے اوپر ہم تمام مسلمانوں کو نہ صرف یہ کہ غور کرنا چاہئے بلکہ فوری طور پر ایک ضابطہ عمل تیار کر کے اس کو اختیار کرنا چاہئے۔
 
ضرورت اس بات کی ہے کہ ایک ایسا فعال گروپ تیار کیا جائے جو تمام نو مسلم لوگوں کو اپنی نگرانی میں رکھے۔ ان کی تربیت کے لیے اتالیق اور اساتذہ مقرر کرے۔ ان کی تربیت اور دین کے معاملات سمجھانے کے لیے اور اس پر آسانی سے عمل کرانے کے لیے ایسے خواتین اور حضرات کا تعین کرے جو خود بھی ان معاملات میں معلومات رکھتے ہوں۔ایک مکمل پروگرام کے تحت ان کی تربیت کا بندوبست ہو اور ان کی تمام ضروریات کا یہاں تک کہ اگر کسی کو زندگی کا ہم سفر چاہئے ہے تو اس کا بھی بندوبست کیا جا سکے۔عید بقرعید اور دیگر تہواروں کے علاوہ وقتاً فوقتاً آپس میں چھوٹی موٹی تقریبات جو ایک دوسرے سے ملنے اور یگانگت میں اضافہ کا باعث ہوں کا انعقاد ہوا کرے تاکہ یہ نومسلم حضرات اور خواتین تنہائی محسوس کرنے کی بجائے ایک معاشرہ کا حصہ بن جائیں ایک دوسرے میں دلچسپی لیں اور یہ احساس اجاگر ہو جائے کہ اسلام ایک بڑی برادری ہے اور ہر ایک دوسرے کی بہتری اور فائدے کے لیے فکر مند ہے۔

پاکستان بلاؤں میں گرفتار ملک۔ تدارک کی تمنا


جریدہ "الواقۃ” کراچی، شمارہ  (5 / 6 )  شوال، ذیقعد  1433ھ/   ستمبر، اکتوبر 2012

پاکستان بلاؤں میں گرفتار ملک۔ تدارک کی تمنا

محمد احمد

اپنا عزیز از جان وطن بے شمار مسائل کی زد میں ہے۔ ان کی نوعیت اتنی حیران کن ہے بلکہ تباہ کن ہے کہ بے اختیار ان مسائل کو بلاؤں کا خطاب دئیے بغیر بات بنتی نظر نہیں آتی !  فی زمانہ ابلاغ عامہ کے ذرائع کی وسعت پذیری نے کرہ ارض کو ایک ہمہ جہتی بحر و بر پر محیط گاؤں Global Village کا درجہ عطا کردیا ہے ۔ اسی گاؤں کی مناسبت سے ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ دنیا میں چین و سکون اور امن و امان کا دور دورہ ہوتا مگر حالات تیزی سے دوسرا رخ اختیار کر گئے اور فساد فی الارض سے امن امان تہ و بالا ہوگیا۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ اپنی نازل کردہ آخری آسمانی کتاب میں چودہ سو سال قبل اس گاؤں والوں کو متنبہ فرماتے ہیں : 
“ خشکی اور تری میں لوگوں کی بد اعمالیوں کے باعث فساد پھیل گیا۔ اس لیے کہ انہیں ان کے بعض کرتوتوں کا پھل اللہ چکھا دے۔ (بہت) ممکن ہے کہ وہ باز آجائیں۔”(سورة الروم: ٤١)

ہر وہ مہیب جنگ جو ایک مملکتوں کا گروہ دوسرے ممالک سے لڑتا ہے ، اس سے جو کثیر جانی ، مالی اور معاشرتی نقصانات وقوع پذیر ہوتے ہیں ان کا اندازہ اور تخمینہ لگا نا کوئی مشکل امر نہیں ہے۔ مندرجہ بالا قرآنی اصول کا اطلاق ان اقسام کی جنگوں پر بالعموم اور گزشتہ ادوار کی دو جنگ عظیموں پر بالخصوص ہوتا ہے۔ اس ضمن میں دنیا بھر کی لائبریریاں گواہ ہیں ۔ ( یہ صرف ہوش اڑانے والے نقصانات بتانے پر اکتفا کرتی ہیں ۔ کتبِ سماوی کے جاری و ساری اصولوں سے انہیں غرض نہیں)  علاوہ ازیں یہ اصول پروردگار عالم کا تمام لوگوں ،تمام مذاہب کے ماننے والوں ، دہریوں اور مشرکوں پر پوری طرح لاگو ہے۔
من حیث الجماعة امت مسلمہ کا حال زار ذرا پتلا ہے اور دیگر مذاہب کے بالمقابل دگرگوں ہوتا چلا جا رہا ہے۔ایسا لگتا ہے کہ امت میں عقائد ، علم اور اعمال کا بگاڑ بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ دانشوران قوم دن رات بے شمار تجاویز اور حل ابلاغ عامہ کے ذرائع سے پیش کرتے رہتے ہیں مگر بہت کم خدائی احکامات سے رجوع فرمانے کی تگ و دو کرتے ہیں۔ ایک آیت کریمہ مسلمانوں کو توجہ دلاتی ہے : 
“ اے لوگو جو ایمان لائے ہو !  اگر تم میں سے کوئی دین سے پھرتا ہے (تو پھر جائے)، اللہ اور بہت سے لوگ ایسے پیدا کر دے گا جو اللہ کو محبوب ہونگے اور اللہ ان کو محبوب ہوگا۔ جو مومنوں پر نرم اور کفار پر سخت ہونگے۔ جو اللہ کی راہ میں جدوجہد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے۔یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہے وہ اسے عطا کرتا ہے ۔ اللہ وسیع ذرائع کا مالک ہے اور سب کچھ جانتا ہے۔”(سورة المائدة:٥٤)
پتہ چلتا ہے کہ اسلام کی نظر میں اس دور زبوں حالی میں بہترین لوگ ، اولوالعزم اور راسخ العقیدہ اور سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند افراد کار ( ؎  ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی) صدق دل سے اجتماعی توبہ و استغفار کرتے صراط مستقیم کی جانب رواں دواں ہوسکتے ہیں۔ بشرط یہ کہ امت مسلمہ کے ذہین ترین ، بر سر آوردہ اشرافیہ ، سب اقسام کی جنگوں سے زیادہ مہلک ترین جنگ جو ان کے سروں پر مسلط ہے اس کا مدلل اور محقق ادراک فرماتے ہوئے لائحہ عمل تجویز کریں اور اپنا تن من دھن اس جنگ سے نکالنے کے لیے قربان کردیں، تو بات بنے!
مالک الملک غضبناک لہجہ میں الٹی میٹم دے رہے ہیں :
“ اے لوگو،جو ایمان لائے ہو! اللہ سے ڈرو اور جو سود کا بقایا ہے اس کو چھوڑ دو اگر تم ایمان والے ہو ، پس اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کے لیے تیار ہوجاؤ۔” (سورة البقرة:٢٧٩)
ماضی میں جنگ کے اشتہار سے جو مقصود مرادلیا جاتا تھا آج کی حربی اصطلاح میں اسے الٹی میٹم سے ہی تعبیر کریں گے۔اگر کوئی “ مخلوق” ملک یا سلامتی کونسل الٹی میٹم کے نام سے یا یک طرفہ پابندیوں کی شکل میں دھمکیاں دے تو ملک کی انتظامیہ کانپ جاتی ہے اور اس ناگہانی آفت سے نجات حاصل کرنے کے لیے ہر قسم کی دوڑ دھوپ سے جلد مضمحل ہو جاتی ہے۔ کسی صورت چین نصیب ہوتا نظر نہیں آتاہے۔ مگر رب العزت کے مندرجہ بالا احکام سے پہلو تہی پورے ملک کو کس پستی اور ذلت سے متعارف کرا رہی ہے اس کا مکمل اور محقق ادراک ہو نہیں پاتا۔ اس نہ ہونے والے ادراک کا تعلق ( مروجہ قانون کی زبان میں Nexus ) احکم الحاکمین کے حکم کے اس جملے : ”اگر تم ایمان والے ہو” سے ہے۔ مگر اس بات کا کیا کیا جائے بہ حیثیت مجموعی ایمانی حالت ڈانواں ڈول ہے اور اس خدائی جنگ کا خمیازہ پورا ملک بھگت رہا ہے۔

ہمارے اوپر ان بلاؤں کے پے درپے نزول کی واحد  وجہ ہے کہ ہم سود سے ناتہ نہیں توڑ سکے۔ اپنی کمزوری ، کم ہمتی  اور کم علمی کا بھر پور اعتراف کرتے ہوئے ہم اپنے رب علیم و  قدیر سے مدد طلب کرتے ہوئے سود جیسے گناہ کی سنگین نوعیت کا جائزہ قران و سنت کی روشنی میں اپنے آئندہ کے لائحہ عمل کی تشکیل کے لیے لیں گے۔ یاد رہے کہ نہ صرف اسلامی جمہوریہ پاکستان سودی شکنجوں میں جکڑا ہے بلکہ خدائی جنگ کی شدت فزوں تر ہے اور اس جنگ سے پیدا شدہ نقصانات کا تخمینہ ہر اندازے سے کروڑوں گنا زیادہ ہے۔  

کیا ایسا نہیں ہے کہ علی الا علان ملک کی معیشت پر قابض حکمران اپنی دنیا کو خوب سے خوب تر بنانے کی خاطر ، اس ملک کو اس جنگ میں جھونک چکے ہیں؟ کیا اب ہمارا ان بلاؤں سے چھٹکاراچند انتظامی اقدامات سے ہو سکتا ہے؟ کیا یہ ایک اچنبھے کی بات نہیں کہ جس ملک کو لاالہ الا اللہ کے انتہائی عظیم الشان “ با مقصد “ اور دلوں کو نیا جوش اور ولولہ عطا کرنے والے نعرہ لگا لگا کر حاصل کیا گیا تھا ، ہم اپنی لا حاصل اور بے جا خواہشات کی نظر کر دیں گے؟ اللہ اور اس کے رسول  کے بالمقابل حالت جنگ میں ہوتے ہوئے پاکستان مختلف بلاؤں کے نرغہ میں آچکا ہے۔ چشم تصور میں اگر تمام حقائق اجاگر ہوجائیں  Complete Realization    تو ہر پاکستانی کا دن کا چین اور رات کا آرام حرام ہوجائے گا۔

ان بلاؤں میں سے چند کا ذکر کرتے ہیں۔

جنسی جرائم جو ان خطوں میں سننے کو نہیں آتے تھے اب روزانہ کی خبروں کا حصہ ہوتے ہیں۔اطلاعات کی شاہراہ (Information Super Higjhway)  پر جنس و جرائم کی ریڈیائی لہریں ہمارے ہم وطنوں کے اعصاب پر پوری شدت سے حملہ آور ہو رہی ہیں۔گاؤں ہو یا شہر ، میدان ہو یا پہاڑ سب جنسی جرائم کی آماج گاہ بنتی جارہی ہیں۔ پہلے کوئی شخص گینگ ریپ (Gang Rape)  کے فعل بد سے آشنا نہیں تھا۔ اب یہ لفظ میڈیا میں بلا جھجھک استعمال ہوتا ہے۔ شائد پہلے کبھی ان واقعات کے علم میں آنے کے بعد خون کے آنسو بہانا آسان تھا ، فی الوقت حس اور حیرانگی بھی جواب دے گئی ہے۔ہادیِ برحق کے مندرجہ ذیل برحق ارشادات کی روشنی میں “ ایسا کیوں ہورہا ہے “ کے سوال کا جواب دانشوران قوم کو تلاش کرنا پڑے گا۔

 رسول اللہ نے فرمایا کہ:” سود اتنا بڑا گناہ ہے کہ اس کو اگر ستر اجزا ء میں تقسیم کیا جائے تو ہلکے سے ہلکا جزو اس گناہ کے برابر ہوگا کہ آدمی اپنی ماں کے ساتھ زنا کرے۔” (ابن ماجہ)
کیا اس شہوانیت کی سونامی کی وجہ سود کی لعنت و وحشت میں علی وجہ بصیرت نظر نہیں آرہی ؟ کیا کوئی ہوش مند پاکستانی یہ ماننے میں تامل کرسکتا ہے کہ اس فعل بد کا عمل دخل ملک کی معیشت سے فی الفور خارج ہو جانا چاہئے؟ کیا اس قبیح فعل کے نقصانات واضح ہونے کے باوجود حضوراکرم کے ارشاد گرامی کی حقانیت اظہر من الشمس نہیں ہوگئی ؟ قرآن پاک کی آیتِ مبارکہ اور حدیث پاک کی روشنی میں خطرات اور محرکات دونوں پوری طرح آشکار ہو چکے ہیں۔طلب مغفرت اور رجوع الی اللہ دائمی امن وامان کے حصول کا ضامن ہو سکتا ہے صرف چشم بصیرت وا کرنے کی دیر ہے۔
اس ایک بلائے بے درمان یعنی فحاشی کی سونامی کے تعین کے بعدایک اور حدیث پاک کے مطالعہ کے ذریعہ اپنے ارد گرد نظر دوڑاتے ہیں کہ کہیں مزید بلاؤں نے ہمارا محاصرہ کرنے کا تہیہ تو نہیں کر رکھا ہے:
 رسول اللہ نے فرمایا کہ: ” میں نے آج رات دو اشخاص کو دیکھا جو میرے پاس آئے اور مجھے بیت المقدس لے گئے ، پھر ہم آگے چلے تو ایک خون کی نہر دیکھی جس کے اندر ایک آدمی کھڑا ہے اور دوسرا آدمی اس کے کنارے پر کھڑا ہے۔ جب نہر کے اندر والا آدمی باہر آنا چاہتا ہے تو کنارے والا آدمی اس کے منہ پر پتھر مارتا ہے جس کی چوٹ سے بھاگ کر وہ پھر وہیں چلا جاتا ہے جہاں کھڑا تھا۔ وہ پھر نکلنے کا ارادہ کرتا ہے تو پھر کنارے والا آدمی وہی معاملہ کرتا ہے۔ آنحضرت فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے ان دو ساتھیوں سے پوچھا یہ کیا ماجرا ہے جو میں دیکھ رہا ہوں؟ انہوں نے بتلایا کہ خون کی نہر میں قید کیا ہوا آدمی سود کھانے والا ہے (اپنے عمل کی سزا کھا رہا ہے)۔” (صحیح البخاری، کتاب البیوع)
ہمارے ملک میں بڑھتی ہوئی تخریب کاری جس کو روکنے کا اہتمام اب تک ہم نہ کر پائے ایک ایسی بلا ثابت ہوچکی جس نے جگہ جگہ خون کی نہریں بہا دی ہیں۔ یہ خونریزی اگر دو ممالک کی آپس میں دست و گریباں ہونے کی وجہ سے ہو تو کسی کی سمجھ سے بالا تر نہیں ہوسکتی ۔ یہاں البتہ صورت حال عجیب ہے کہ کسی ملک نے ہم پر حملہ بھی نہیں کیا۔ جس ملک سے ہم ماضی میں مسلسل بر سر پیکار رہے وہ ہماری ہنسی اڑاتا ہے کہ ہم نے اس کا کام آسان کردیا ہے۔ کیا یہ خون کی نہر ہم خود نہیں کھود رہے؟ اس نہر کو پاٹنے کی کوشش میں ہم سودی قرضوں سے امن و امان (Law and Order) قائم کرنے میں مدد دینے والے آلات اور گاڑیاں در آمد کرتے ہیں اور ہوتا یہ ہے کہ ہم اپنے اس سودی عمل سے خونی نہر کو اور گہرا کرتے جارہے ہیں۔اور اس طرح اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرنے کے کڑوے ثمرات سے اپنے دامن کو آلودہ کرتے جارہے ہیں۔کبھی نہر کا قیدی (حکومت پاکستان) نہر کے باہر والے پہریدار سے قید سے آزادی کی التجا کرتا ہے جو رد ہو جاتی ہے اور سودی قرضوں کا ایک مہیب پتھر (ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے توسط سے) نہر کے قیدی (حکومت وقت) کے منہ پر مار دیا جاتا ہے۔ قیدی نہر میں مزید غرق ہوجاتاہے۔ اس طرح قومی قرضوں سے نجات حاصل کرنے کے امکانات معدوم سے معدوم ہوتے جارہے ہیں۔

ہمارے وطن میں ایسے سیاسی گروہوں کی بھر مار ہوتی جارہی ہے جن میں اکثر فاشسٹ لبرل ہیں اور انہیں خفیہ (Clandestine)  ذرائع سے ہر قسم کے مہلک ہتھیار مہیا ہو جاتے ہیں۔ یہ لوگ ملک میں نہ صرف خو ف وہراس پھیلانے کا باعث بنتے ہیں بلکہ ملک کے مقتدر اور معزز رہنماؤں کو بے دردی سے قتل بھی کرتے ہیں اور عدلیہ سے اپنی بے گناہی کا پروانہ حاصل کرنے میں دیر بھی نہیں کرتے۔اس طرح ان دو بلاؤں (فحاشی اور تخریب کاری) نے ہمارے ملک کا محاصرہ کیا ہوا ہے اور مکمل حل کی طرف نہ کسی سیاستدان کی رسائی ہے اور نہ ہی کسی دانشور قوم کی کیونکہ اپنی دانست میں وہ سود کو معیشت کا ایک ضروری حصہ سمجھے ہوئے ہیں۔ بد نصیبی کے دھکے ہیں جو پاکستان کے مظلوم عوام کھاتے چلے جارہے ہیں۔

مزید بلائیں جو در پیش ہیں وہ مہنگائی اور کرپشن ہیں۔ اس موضوع پر ذخیرہ احادیث میں سے ایک حدیث مندرجہ ذیل ہے۔:
 رسول اللہ نے فرمایا :”جب کسی قوم میں سود کا لین دین رواج پا جاتا ہے تو اللہ تعالی ان پر ضروریات زندگی کی گرانی مسلط کردیتا ہے اور جب کسی قوم میں رشوت عام ہو جائے تو دشمنوں کا رعب اور غلبہ ان پر ہوجاتا ہے۔”(مسند احمد)
مندرجہ بالا حدیث مبارک میں رشوت اور سود کا تعلق چودہ سو سال قبل بتایا گیا جس کا اسلام نے قلع قمع کردیا تھا۔ البتہ موجودہ دور ببانگ دُہل ان دونوں بلاؤں کا اثبات کر رہا ہے بلکہ ان کا چولی دامن کا ساتھ اظہر من ا لشمس پوری وضاحت کے ساتھ کرہ ارض پر بسیرا کرنے والوںکو اظہار ابلاغ کے تمام ذرائع سے کراتا چلا جارہا ہے۔

فا عتبروا یا اولی الابصار۔
 اب ہم چند مثالوں سے مزید وضاحت کرنا چاہیں گے۔

رشوت خور حکومتی کارکن حکومت سے اپنی کارگزاری (خواہ کیسی ہی ہو)  کا صلہ حکومت سے پوری تنخواہ اور الاؤنس (اصل زر) کی شکل میں حاصل کرتا ہے۔ مگر وہ اپنی ہوس زر کی خاطر عوام الناس سے طلب رشوت (سود کی ایک شکل) کی شدید خواہش بھی رکھتا ہے۔ مثلاً ایک سرکاری وکیل قتل کے ایک ملزم ( مضبوط شواہد کی بنیاد پر بادی النظر (Prima Facie ) میں مجرم ) کی جرح عدالت کے روبرو کرنے کے لیے سرکار سے ایک ہزار روپیہ لیتا ہے۔ چونکہ مؤکل کا مفاد “ہاتھ ہولا رکھنے’ ‘ پر منحصر ہوتا ہے اس لیے وکیل دس ہزار رشوت (بمعنی سود ) سے اپنی ناتواں معیشت کی درستگی پر جٹ جاتا ہے۔ ایسے ہزاروں وکلا اپنے باس کی خوشنودی کی تمنا میں اور ان کے ہم عصر (دیگر محکمات)  کروڑوں اربوں روپے کی ہیر پھیر (Kick Backs and Horse Trading etc) میں ملوث ہوتے ہیں۔ یہ بین ثبوت ہے صادق و مصدوق کے اس قول کا کہ “ اللہ تعالی ان پر ضروریات کی گرانی مسلط کر دیتا ہے “ جو قوم کی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی و شافی ہو جاتا ہے۔

مندرجہ بالا بلا اپنے وطن پر اس طرح مسلط ہوگئی ہے کہ بعض حلقوں میں کہا جاتا ہے کہ پاکستان کرپشن (Corruption) میں دنیا بھر کے ممالک میں اولین درجے پر فائز ہے۔ حدیث پاک کا بقیہ حصہ “ اور جب کسی قوم میں رشوت عام ہوجائے تو دشمن کا رعب و غلبہ ان پر ہوجاتا ہے” پوری طرح اور روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتا ہے۔  جتنا دفاعی سازوسامان سودی قرضوں کے ذریعہ سے لے کر اپنی فوجوں کے حوالہ کیا جائے گا اسی تناسب سے وہ اغیار کے رعب و دبدبہ کا شکار ہوتی رہیں گی۔نہ سودی قرضوں سے نجات ملے گی اور نہ ہی دشمنوں کے چنگل سے۔یہ کیسی دفاعی تیاری ہے ؟ کیا یہ عقلمندی کا فقدان نہیں ہے۔ کیا حکمران قوم کے حالات از خود خسارہ کے سالانہ بجٹ کے ذریعہ گرانی کے سپرد نہیں کررہے؟ سود کی بلا از خود اپنی گردنوں پر سوار کرنے والے سو ائے گرانی کے عذاب ( معیشتاً ضنکاً ) (القرآن) کے سوا اور کس چیز کے مستحق ہو سکتے ہیں ۔ یہ ایک (دائرة السوء )(التوبة) یعنی Vicious Circleہے۔ مکروہ دولت کی گردش ان حکمرانوں ، مرکزی بینک کے عہدہ داروں ، صنعت کاروں ، سیاست دانوں اور جاگیر داروں کے نعرہ “ھل من مزید” کی تکرار ختم ہونے کا نام نہیں لیتی۔ عوام “ کالا نعام “ انتہائی عسرت ( Abject Poverty)  کی زندگی گزارنے پر مجبور کر دئے گئے ہیں۔

کرہ ارض پر رہنے والے نسل در نسل دو واضح طبقات میں بٹ گئے۔ اول الذکر افراد اپنے معیار زندگی ( اقوام متحدہ کے منظور شدہ الفاظ Quality Of Life )  بلند سے بلند کرنے کی دوڑ دھوپ میں مصروف ہوگئے اور اپنے لیے  Havesکا لقب پا گئے۔ عسرت زدہ موخرالذکر Have Nots کی صفت سے مزین ہوئے اور حشرات الارض  کے لیول کے زمرہ میں شمولیت پر مجبور کر دئیے گئے۔ یا حسرةََ  علی العباد۔۔۔

ہائے افسوس متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتارہا

Haves کا طبقہ فساد فی البر و البحر کے فتنہ کی آگ شب و روز بھڑکا رہا ہے ۔ اس کے نتیجہ میں Have Nots  کا طبقہ تعداد میں روز بروز بڑھ رہا ہے اور ساتھ ساتھ ان کی زندگی کی ڈور کا سرا ان کے ہاتھوں سے چھوٹ بھی رہا ہے۔
ایک عقلمند آفاقی دنیا کی مشاہدات سے اور اللہ اور اس کے رسول کی تمثیلات سے اپنی روحانی و اُخروی زندگی کا ڈھب پوری طرح نہ صرف سمجھ سکتا ہے بلکہ اپنے آپ کو اور دیگر برادران اسلام کوان بلاؤں سے تحفظ دلانے کی تدبیر بھی کر سکتا ہے۔
 رسول اللہ ان خوفناک بلاؤں کے شکار لوگوں کی روحانی اور اُخروی زندگی کا ڈھب کیا ہوگا ، بتاتے ہیں :“ جب ہم ساتویں آ سمان پر پہنچے تو میں نے اپنے اوپر رعد و برق کو دیکھااس کے بعد ہم ایسی قوم پر سے گزرے جن کے پیٹ رہائشی مکانات کی طرح پھیلے اور پھولے ہوئے  ہیںاور جن میں سانپ بھرے ہوئے ہیں جو باہر سے نظر آ رہے ہیں۔ میں نے جبرائیل امین سے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں ؟ انہوں نے فرمایا : یہ سود خور ہیں۔”(مسنداحمد)
حسرت زدہ مسلم کے سَلَم (Slum) علاقوں سے الگ تھلگ پوش (Posh)  ماحول میں تعمیر شدہ وسیع و عریض مکانات سودی قرضوں کے طفیل وجود میں آتے ہیں۔ بعد ازاں انکی رجسٹریاں (Sale Deed) رہن رکھ کر Mortgage  بنکوں سے مزید سودی قرضے لیتے ہوئے دکانوں اور مکانوں کی تعمیر کا ایک طویل سلسلہ چل نکلتا ہے۔ پھر کیا تعجب کہ ایسی تعمیر میں مضمر خرابی ایسی ہو جیسی صادق و مصدوق ہمیں بتا گئے ہیں اور قیامت میں سود خوروں کے حرص و آز کے مسکن پیٹ ان دنیاوی ماڈل ( Global Village) کی اسکائی اسکریپر Sky Scraperکے مطابق مگر اُخروی تناسب سے بہت بڑے بنا دئیے جائیں گے۔ اگر سود خور آ سمان چھیلنے کا بے ہودہ نام اپنی تعمیرات کو دیتے ہیں تو آسمان والا جہنم میں یقینا انہیں ابد الاباد دہکتے ہوئے لوہے کے کنگھوں سے چھیلنے کے عذاب سے بھی نوازے گا اور کیا خوب کہ ان محلات پر نصب سیٹیلائٹ رسیورز اور ڈش ائنٹینے ان دوزخی سانپوں کے مشابہ ہوں جس کا تذکرہ حدیث بالا میں آیا ہے۔ یا یہ سانپ ان اینٹیناکے جوڑ ‘ تیزی سے بدلتے ہوئے جدید اور مختلف انواع کے Multimedia   آلات ابلاغ ‘ سے کرتے ہوئے کروڑوں ناظرین و سامعین کے سمع و بصر کے نظام کو زہر آلود کر رہے ہوں۔ اس زہر کے تریاق کی تلاش مفقود ہونے کے سبب گھناؤنے جنسی جرائم پر کمر بستہ شر پسند افراد کی لاٹری نکل آئی اور ملک میں انہوں نے فحاشی اور عریانی کے بے شمار اڈے کھول دئیے اور اندھا دھند غرق دریا ہوگئے۔

 اب ان لا حاصل خواہشات کے بندوں کے بارے  میں ہمارے حضور رسالت مآ ب کیا ارشاد فرما گئے ہیں مطالعہ کیجئے:“ پس قسم اللہ کی میں فقر و افلاس سے تمہارے لیے نہیں ڈرتا بلکہ اس بات سے ڈرتا ہوں کہ دنیا تم پر پھیلائی جائے گی جس طرح  تم سے پہلوں پر پھیلائی گئی اور جس طرح انہوں نے باہم رشک و تنافس کیا ، اسی طرح کہیں تم بھی نہ کرو اور تم بھی غافل نہ ہو جاؤ جس طرح وہ ہوگئے۔” (بخاری)
ایک اور جگہ ارشاد فرمایا :
“ اشرفیوں اور روپوں والے جھالر دار لباس والے سیاہ عبا والے سب گرے اور ہلاک ہوئے۔” (بخاری)
ایک اور جگہ ارشاد فرمایا :
“ اگر آدم کے بیٹے کے پاس مال کی دو وادیاں ہوں تو وہ تیسری کی تلاش میں مصروف ہوگا۔ اور آدم کے بچے کا پیٹ (یا آنکھ)  مٹی کے سوائے کوئی چیز نہیں بھر سکتی۔”(بخاری)
پاک سر زمیں پر غلاظت اور گندگی کے ڈھیر پر انتہائی غریب عوام کے بچوں ، بوڑھوں اور نوجوانوں کے موت کا انتظار کرتے ہوئے لاشے نظر آنے لگے ہیں۔یہ قومی ہیومن ریسورس (Human Resource) کی دولت ہیروئین اور دیگر منشیات کی نذر ہوگئی۔ ان کے بدلے میں ڈرگ مافیہ معاشرہ کی سیاست اور معیشت پر چھا گیا اور وطن کو پنجہ اغیار پھنسا گیا۔
وطن کے ایک پہاڑی درے آدم خیل میں ہتھیار جہاد  فی سبیل اللہ کے لیے ذوق و جذبہ سے بنا کرتے تھے۔ اب قوم کی بد قسمتی ہے کہ شیطان نے اس پاکیزہ صنعت کا رخ تخریب کاری اور ڈکیتی کی طرف موڑدیا۔اب اس سے ایک اور مافیا وجود میں آگیا ہے یعنی ایک بلا دوسری بلا کو جنم دے رہی ہے۔ ان تمام مافیاؤں کی حرام رقومات سودی دلدل کو ہولناک انداز میں گہرا کرتی چلی جارہی ہیں اور اللہ اور اس کے رسول اللہ سے پاکستان کی جنگ نہ صرف شدت اختیار کرتی جارہی ہے بلکہ اس کے ختم ہونے کے آثار معدوم ہوتے جارہے ہیں۔
 ایسی دولت کی بے بضاعتی کا اظہار مالک الملک اس طرح کرتے ہیں :“ یقین رکھو جن لوگوں نے کفر اختیار کیا اور کفر کی ہی حالت میں جان دی ان میں سے کوئی اگر اپنے آپ کوسزا سے بچانے کے لیے روئے زمین بھر کر بھی سونا فدیہ میں تو اسے قبول نہیں کیا جائے گا۔ ایسے لوگوں کے لیے دردناک سزا تیار ہے اور وہ اپنا کوئی مددگار نہ پائیں گے۔”( آل عمران :٩١)
کثیر تعداد میں پیدا ہونے والی بلاؤں کے غول کے غول پوری قوم پر اپنی سودی دولت سے خدائی جنگ کی شدت بڑھانے کی وجہ سے بے شمار مصائب کے بادل چھا گئے اور سود کے عظیم گناہ سے بچنے کا جو داعیہ لوگوں کے دلوں میں وقتاًفوقتاً ان کے ایمان کے تقاضوں کی بنیاد پر پیدا ہوتا رہا ، وائے افسوس ختم ہو چکا ہے۔ ١٩٨٠ کے عشرہ میں ایماندار طبقے نے اربوں روپے اکل حلال کمانے کے ذرائع میں اپنی معیشت کو ترویج دینے کے لیے لگائے۔مگر ملک کے سودی گماشتے گدھوں کی طرح ان پر ٹوٹ پڑے ۔ اب مہذب اور ترقی یافتہ اکیسویں صدی کا دور دورہ ہے۔ بے شمار بوڑھوں ، یتیموں اور بیواؤں کی دنیا اجڑ گئی بلکہ ان اجڑے ہوئے افراد میں سے بیشتر اللہ کو پیارے ہوگئے اور ایک نسل جوان ہوگئی۔ حکمران بشمول عدل و انصاف مہیا کرنے والے ادارے منقار زیر پر رہے۔   ؎            ناطقہ بر سر گریبان ، اسے کیا کہئے

عالمی پیمانے پر سودی گماشتوں کا آپس میں مضبوط گٹھ جوڑ ہوگیا۔ ملکی سطح پر ( جبکہ قدرت خداوندی ٤٠ سال قبل ملک کو بطور سزا دو لخت کر چکی تھی) حرام مال بغیر کسی لیت و لعل کے حلال کردیا گیا۔بالفاظ دگر کالا دھن سفید کرنا۔  ( Money Laundering )۔ اس طرح حرام کاری سے کمایا ہوا روپیہ حلال آمدنی پر غالب آگیا ، بڑھ گیا اور کافی بڑی مقدار میں ملک سے باہر فرار ہوگیا اور ہوتا چلا جارہا ہے۔ غیر ملکیوں کو کھلی آزادی ہے کہ وہ اس سرمایہ کو ملک کے اسٹاک ایکسچینج  سے ایک مرکھنے بیل (Bullish)  کی طرح یا برفانی ریچھ ( Bearish) کی مانند انتظار کرو اور ہڑپ کر جاؤ والی چالوں کے ذریعہ نکالے ہوئے سرمایہ کو ملک سے باہر تحفظ دینے والے جزائر میں ان کا انبار لگا دیں ۔ کیا یہ اپنے ہاتھوں اپنی جڑیں کھودنے کے مترادف نہیں۔ محاورةً کہا جاسکتا ہے کہ   ؎   اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے۔

 برطانوی اصول قانون کی متابعت کرتے ہوئے پاکستانی عدالت عُلیہ و عُظمیٰ نے نہ صرف سودی معاملات کو حلال کر رکھا ہے بلکہ متعلقہ مقدمات کا رخ فوجداری قوانین سے نتھی کرنے کی بجائے دیوانی طریقہ کار کی طرف موڑ دیا۔ شائد عدلیہ حالت تردد میں ہو کہ رب کائنات بہمراہ رسول اللہ نے (بحوالہ آیت ٢٧٩ سورة بقرہ ) صرف الٹی میٹم پر اکتفا کیا ہو اور جنگ نہ چھیڑی ہو۔
 معلوم ہونا چاہئے کہ خدائی افواج کی طاقت کیا ہے:“ اور تیرے رب کے لشکروں کو خود اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ “ (سورة المدثر : ٣١)
یعنی اللہ تعالیٰ نے اس کائنات میں کیسی کیسی مخلوقات پیدا کر رکھیں ہیں اور ان کو کیا کیا طاقتیں بخشی ہیں اور ان سے وہ کیا کیا کام لے رہا ہے ، ان تمام باتوں کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ ایک چھوٹے سے کرہ زمین پر رہنے والا انسان اپنی محدود نظر سے اپنے گرد و پیش کی چھوٹی سی دنیا کو دیکھ کر اگر اس غلط فہمی میں مبتلا ہو جائے کہ خدا کی خدائی میں بس وہی کچھ ہے جو اسے اپنے حواس یا اپنے آلات سے محسوس ہوتا ہے ، تو یہ اس کی اپنی ہی نادانی ہے۔ وگرنہ تو اس خدائی کا کارخانہ تو اتنا وسیع اور عظیم ہے کہ اس کی کسی ایک چیز کا بھی پورا علم حاصل کرلینا انسان کے بس میں نہیں ہے کجا یہ کہ اس کی ساری وسعتوں کا تصور بھی اس کے چھوٹے سے دماغ میں سما سکے۔

آج سے ٣٩ سال قبل پاکستان کے متفقہ آئین میں نہ صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو مقتدر اعلیٰ تسلیم کیا گیا ہو بلکہ ریاست کا دین بھی اسلام کو متعین کیا گیا ہو ، پھر سود سے پیچھا چھڑانے کا جتن تک نہ کرنا اور مالک الملک کے غضب کو بھڑکانا اپنی پوری قوم اور ملک کو جلد از جلد تباہی کے مہیب غار میں دھکیلنے کا موجب نہیں ہے تو اور کیا ہے۔ سب سے پہلا قدم ایک حکمران کے لیے عموما ً اور ایک منصف اعلیٰ کے لیے خصوصاً یہ سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ حلال (قانونی Legal/Judicial ) اور حرام (Void/Abinitio) کے مُطلق اختیارات صرف باری تعالیٰ کے ہیں ۔ قرآنی فیصلہ حسب ذیل ہے:
“ اور یہ جو تمہاری زبانیں جھوٹے احکام لگایا کرتی ہیں کہ یہ حلال ہے اور وہ حرام ، تو اس طرح کے حکم لگا کر اللہ پر جھوٹ نہ باندھا کرو۔ جو لوگ اللہ پر جھوٹے افتر ا باندھتے ہیں وہ ہر گز فلاح نہیں پاتے۔ دنیا کا عیش چند روزہ ہے۔ آخر کار ان کے لیے درد ناک سزا ہے۔”( سورة النحل:١١٦- ١١٧)
مندرجہ بالا آیات صاف تصریح کرتی ہیں کہ اللہ کے سوائے کوئی تحلیل و تحریم کا حق نہیں رکھتا۔ یا بہ الفاظ دیگر ، قانون ساز صرف اللہ ہے۔ دوسرا کوئی بھی ادارہ جو جائز اور نا جائز کا فیصلہ کرے گا وہ اپنی حد سے تجاوز کرے گا الا یہ کہ وہ قانون الٰہی کو سند مان کر اسکے فرامین سے استنباط( Deduce)  کرتے ہوئے یہ کہے فلاں چیز اور فلاں فعل جائز ہے اور فلاں ناجائز۔ ایک خود مختارانہ تحلیل و تحریم کو اللہ پر جھوٹ اور افترا اس لیے فرمایا گیا کہ جو شخص اور ادارہ اس طرح کے احکامات لگاتا ہے اس کا یہ فعل دو حال سے خالی نہیں ہوسکتا۔ اولا ً وہ اس بات کا دعوی کرتا ہے کہ جسے وہ کتاب الٰہی کی سند سے بے نیاز ہو کر جائز یا ناجائز کہ رہا ہے اسے خود اللہ نے جائز اور ناجائز ٹھہرایا ہے۔ ثانیا ً یہ کہ اس کا دعویٰ ہے کہ اللہ نے تحلیل و تحریم کے اختیارا ت سے  ( نعوذ باللہ)  دست بردار ہوکر انسان کو خود اپنی زندگی کی شریعت بنانے کے لیے آزاد چھوڑ دیا ہے۔ان میں سے جو دعویٰ بھی کیا جائے وہ لا محالہ جھوٹ اور اللہ پرافترا ہے۔
((جاری ہے۔۔۔۔۔))