ایک خط، شیخ الکل سیّد نذیر حسین محدث دہلوی رحمة اللہ علیہ کا ایک پُر از معارف مکتوب بنام شاہ محمد سلیمان پھلواروی رحمة اللہ علیہ


جریدہ "الواقۃ” کراچی، شمارہ 12-13، جمادی الاول، جمادی الثانی 1434ھ/ مارچ، اپریل 2013

ایک خط

شیخ الکل سیّد نذیر حسین محدث دہلوی رحمة اللہ علیہ

 کا ایک پُر از معارف مکتوب بنام شاہ محمد سلیمان پھلواروی رحمة اللہ علیہ

3 Aik Khat pdf download link

شیخ الکل سیّد نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللّٰہ ( 1220ھ – 1320ھ ) اپنے عہد کے جلیل القدر و رفیع المرتبت عالم و بزرگ تھے ۔ ان کے فیض علمی نے ایک جہاں کو مستفید کیا ۔ اپنے تلمیذِ رشید شاہ محمد سلیمان پھلواروی ( 1276ھ – 1354ھ ) کے نام ان کا یہ مکتوب گرامی معارف و حقائق سے پُر ہے ۔ اس مکتوب کی کئی بار طباعت ہوچکی ہے ۔  ہفت روزہ ” اہلِ حدیث ” ( امرتسر ) ، ” مکاتیب نذیریہ ”، نقوش ( لاہور ) ” مکاتیب نمبر ” اور ماہنامہ ” مہر نیمروز ” ( کراچی ) میں یہ پُر از معارف مکتوب شائع ہوچکا ہے ۔ تاہم مولانا حسن مثنی ندوی ( 1331ھ –  1418ھ ) نے اپنے ماہنامہ ” مہر نیمروز ” کی فروری 1956ء کی اشاعت میں ایک مختصر نوٹ اور ترجمے کے ساتھ شائع کیا ہے ۔ چنانچہ ذیل میں یہ مکتوب ” مہر نیمروز ” ہی سے شائع کیا جا رہا ہے ۔ ” مہر نیمروز ” میں آیات کے تراجم حاشیے میں تھے تاہم یہاں اسے متن میں بین القوسین کردیا گیا ہے ۔ ( ادارہ الواقعۃ)

تاریخ و ادب میں خطوط کی بڑی اہمیت ہے ،

جس کو لکھا گیا ہو، دونوں تاریخ کی اہم شخصیتیں رہی ہوں تو وہ اور زیادہ گراں قیمت ہو جاتا ہے ۔ یہ خط برعظیم کے مشہور و معروف بزرگ حضرت میاں صاحب مولانا سیّد نذیر حسین محدث کا ہے ۔ 1857ء کی تباہی کے بعد جو چند نادر الوجود عظیم المرتبت شخصیتیں مرکزِ علوم و فنون کی حیثیت سے باقی رہ گئی تھیں ان میں ایک میاں صاحب بھی تھے ۔ 1857ء کا ہنگامہ ختم ہونے کے بعد انگریزوں نے بچے کھچے علماء و زعماء پر کئی مقدمات بغاوت چلائے تھے، پھر ان کو پھانسیاں دیں یا عبور دریائے شور کی سزا دی، تو میاں صاحب بھی ماخوذ ہوئے اور ان پر مقدمہ چلا کوئی جرم تو ثابت نہ ہو سکا لیکن سال بھر تک راولپنڈی جیل خانے میں انہوں نے بھی سزائے قید کاٹی اور رہائی کے بعد ساری عمر اجڑی ہوئی دلی میں اپنی مسندِ علم بچھائے بیٹھے رہے اور ایک عالم کو فیض پہنچاتے رہے۔ کہا جاتا ہے کہ برعظیم کا کوئی گوشہ ایسا نہیں ہے جہاں کچھ شاگرد میاں صاحب کے موجود نہ رہے ہوں۔ اصل وطن ان کا چوارہ ضلع مونگیر ( بہار ) تھا لیکن ایک مدت سے دلی میں رہ پڑے تھے آخر تک وہیں رہے اور وہیں پیوندِ خاک ہوئے۔ یہ خط حضرت مولانا شاہ سلیمان پھلواروی کے نام ہے۔ شاہ صاحب ان کے شاگرد تھے اور اپنے عہد کے مشہور و معروف عالم و خطیب، اسلامی ہند کے مقتدر رہنما اور مصلح۔ کو پڑھنا جاری رکھیں

دور فتن کی چند نشانیاں


جریدہ "الواقۃ” کراچی، شمارہ 12-13، جمادی الاول، جمادی الثانی 1434ھ/ مارچ، اپریل 2013

نور حدیث

بسلسلۂ نادر احادیث فتن

از قلم: محمدتنزیل الصدیقی الحسینی

2 Daur e Fitan ki Chand Nishanian pdf Download Link

حدیث :  عن أبِی ہریرة ، عنِ النبِیِ ﷺ قال : یتقارب
الزمان و ینقص العمل (یقبض العلم) و یلقی الشح و تظہر الفِتن و یکثر الہرج ۔ قالوا
: یا رسول اللّٰہِ ﷺ أیم ہو ۔ قال : القتل القتل.
ترجمہ
:

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: “زمانہ باہم قریب ہوگا ، عمل میں کمی آئے گی ، (علم اٹھالیا جائیگا)، بخل و حرص کی ملاوٹ ہوگی، فتنے ظاہر ہوں گے اور ہرج کی کثرت ہوگی ۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے دریافت کیا : اے اللہ کے رسولﷺ ہرج کیا ہے ؟ فرمایا : قتل ۔”

المغراف فی تفسیر سورۂ ق قسط 10


جریدہ "الواقۃ” کراچی، شمارہ 12-13، جمادی الاول، جمادی الثانی 1434ھ/ مارچ، اپریل 2013

از قلم: مولانا شاہ عین الحق پھلواروی رحمہ اللہ

تسہیل و حواشی :محمد تنزیل الصدیقی الحسینی

اصحاب الرس
ان کا قصہ یوں ہے ۔ مسلم اوردوسرے صحاح میں حضرت صہیب ابن سنان رومی سے روایت ہے کہ ملک شام میں ایک بادشاہ جابر تھا اور اس کا ایک استاد بڑا ساحر تھا ۔ اس کے جادو کے زور سے مملکت پر رُعب رکھتا ، جب وہ ساحر بہت بوڑھا ہوا تو بادشاہ سے کہا کہ میں تو بہت آخر عمر کو پہنچ گیا ہوں کوئی ہوشیار لڑکا منتخب کرکے میری شاگردی میں دیجئے کہ میرے بعد میرا جانشین ہو ۔
کو پڑھنا جاری رکھیں

یہ قومی سانحہ ہے۔ اداریہ


جریدہ "الواقۃ” کراچی، شمارہ 12-13، جمادی الاول، جمادی الثانی 1434ھ/ مارچ، اپریل 2013

 از قلم: محمد تنزیل الصدیقی الحسینی

0 idaria ye qaumi saneha hay pdf

عالمی طاقتوں کے مفادات کی جنگ اب شہرِ کراچی میں لڑی جا رہی ہے۔ دم توڑتی سانسیں اور تڑپتی لاشیں اہلیان کراچی کے لیے اس فتنۂ سامانی کی سوغات ہیں۔ لسانِ رسالت صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم نے ایام فتن میں جس  "ہرج” کی پیش گوئی فرمائی تھی وہ اب شہرِ کراچی میں روازنہ کی بنیادوں پرعملا وقوع پذیر ہو رہی ہے۔
کو پڑھنا جاری رکھیں

کس قیامت کے یہ نامے


14 Kis Qayamat k ye Naamay pdf  جریدہ “الواقۃ” کراچی، شمارہ 11، ربیع الثانی 1433ھ/ فروری، مارچ 2013

از قلم: محمد جاوید اقبال

داغ کوشکوہ تھا:
خط میں لکھے ہوئے رنجش کے پیام آتے ہیں
کس قیامت کے یہ نامے میرے نام آتے ہیں
ہم جو مغرب سے بحث و مباحثے میں محو ہیں کچھ اسی قسم کا شکوہ رکھتے ہیں ۔ مثلاً  Adult Christian Debate   فورم  پر ایک امریکی نے لکھا:
کو پڑھنا جاری رکھیں

کامیابی و ناکامی کا پیمانہ، سورة العصر کی روشنی میں


13 Kamyabi wa Nakami ka paimana pdf
جریدہ “الواقۃ” کراچی، شمارہ 11، ربیع الثانی 1433ھ/ فروری، مارچ 2013

محمد اسماعیل شیرازی

( وَ الْعَصْرِ ۔ ِنَّ الِْنسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ ۔ ِلَّا الَّذِیْنَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَ تَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَ تَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ )
” قسم ہے زمانہ کی بے شک انسان خسارہ میں ہے ماسوا ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور عمل صالح کرتے رہے اور آپس میں حق اور صبر کی تلقین کرتے رہے ۔ ”
کو پڑھنا جاری رکھیں

Das Kapital


جریدہ “الواقۃ” کراچی، شمارہ 11، ربیع الثانی 1433ھ/ فروری، مارچ 2013

 ایم ابراہیم خاں

12 Das Kapital pdf

جن کتابوں نے تاریخ کے دھارے کا رخ موڑنے میں مرکزی کردار ادا کیا ہے ان میں Das Kapital بھی نمایاں ہے۔ کارل مارکس نے جرمن میں Das Kapital لکھی تو معیشت اور سیاست سے متعلق علمی حلقوں میں تہلکہ مچ گیا۔ اور جب اس کا ترجمہ انگریزی اور دیگر زبانوں میں کیا گیا تو گویا انقلاب برپا ہوگیا۔ 1867 میں شائع ہونے والی اس کتاب میں سرمایہ دارانہ نظام کا ناقدانہ جائزہ لیا گیا ہے۔ مارکس کی زندگی میں اس کتاب کی پہلی جلد شائع ہوئی تھی۔ دوسری اور تیسری جلد کا مواد تیار تھا۔ مارکس کے دوست فریڈرک اینجلز نے 1885 اور  1894میں دوسری اور تیسری جلد شائع کی۔ چوتھی جلد کارل کوٹسکی نے 1905-1910 میں شائع کی۔ کارل مارکس نے اس بات کو تصریحا بیان کیا ہے کہ کس طور سرمایہ دارانہ نظام میں معاشی سرگرمیاں جاری رہتی ہیں اور کس طرح اہل سرمایہ معاشرے کے دیگر تمام طبقات کا استحصال کرتے ہیں۔
داس کیپٹال کا بنیادی تصور کو پڑھنا جاری رکھیں

یوم الواقعہ۔ 21 دسمبر 2012ء کے بعد– ایک جائزہ


جریدہ “الواقۃ” کراچی، شمارہ 11، ربیع الثانی 1433ھ/ فروری، مارچ 2013

از قلم: ابو عمار محمد سلیم link

9 Yaum ul Waqia pdf

21 دسمبر 2012ء کا دن آیا اور گزر گیا۔ اس دن کے حوالے سے دنیا کے خاتمے کا جو شور اور ہنگامہ تھا وہ دن گزرنے کے بعد دم توڑ گیا۔ الحمد للہ کہ عالم اسلام میں اس دن کے حوالے سے کوئی خلفشار پیدا نہیں ہوا۔ دنیا کے بیشتر سنجیدہ طبقوں نے بھی اس دن کو کائنات یا نظام شمسی کے خاتمے کے دن کے طور پرجان کر کسی منفی رد عمل کا اظہار نہیں کیا۔ کچھ علاقہ کے لوگوں نے البتہ مختلف النوع حرکات کا مظاہرہ کیا۔ جو لوگ اپنے گرد و پیش پر نظر رکھتے ہیں اور وقوع پذیر ہونے والے واقعات کو گہری نظر سے دیکھتے ہیں اور اس سے پیدا ہونے والے ممکنہ نقصانات کے ازالے کا بندوبست کرتے ہیں انہوں نے نظام کائنات میں تبدیلیوں اور اس کے نتیجے میں ہونے والی زمینی تباہیوں کے پیش نظر اپنے آپ کو تیار کیا اور اپنی جان و مال کی حفاظت کے لیے زمین دوز پناہ گاہیں بھی تیار کیں اور کھانے پینے کی ڈھیروں چیزوں کا انبار بھی اکٹھا کر لیا۔مگر وہ لوگ جو ایمانی تذبذب کا شکار تھے انہوں نے دنیا کے خاتمے کی ان افواہوں پر شدید رد عمل کا اظہار کیا۔ صبح سے شام تک رونے دھونے کا عمل جاری رکھا ۔ کئی دن قبل سے شہروں کو چھوڑ کر ویرانوں میں جا بیٹھے اور بعض لوگوں نے تو قیامت کی اذیت سے اپنے آپ کو بچانے کی خاطر خودکشی تک کر لی ۔ اس پورے ڈرامے کے دوران ایک چالاک طبقہ وہ بھی تھا جس نے اس موقع کا خوب فائدہ اٹھایا اور دونوں ہاتھوں سے خوب کاروبار کیا اور بڑی دولت سمیٹی۔
  کو پڑھنا جاری رکھیں

اسلام اور ہم


جریدہ "الواقۃ” کراچی، شمارہ 11، ربیع الثانی 1433ھ/ فروری، مارچ 2013
از قلم: مولانا حکیم عبد الخبیر جعفری صادق پوری 

8 Islam aur Hum pdf

مولانا حکیم عبد الخبیر جعفری صادق پوری (1300ھ / 1833ء – 1393 ھ / 1973ء) اپنے عہد کے بالغ النظر عالم و رہنما تھے۔ ان کے خاندان نے تحریکِ آزادی کے لیے بے مثال قربانیاں دی ہیں۔ ان کے دادا مولانا احمد اللّٰہ اور نانا مولانا عبد الرحیم کو انگریزوں نے کالے پانی کی سزا دی تھی۔ مولانا عبد الخبیر دینی و دنیاوی تعلیم سے بہرہ ور تھے۔ ان کا شمار ہندوستان کے اہم ترین مسلم زعما میں ہوتا ہے۔ “اسلام اور ہم“ ان کا تحریر کردہ ایک فکر انگیز کتابچہ ہے جو “مدرسہ اصلاح المسلمین“ پٹنہ سے 1355ھ میں شائع ہوا تھا۔ اس کی اہمیت کے پیشِ نظر ”الواقعة“ میں اس کی اشاعت کی جارہی ہے۔ فاضل مولف نے بیشتر مقامات پر آیاتِ قرآنی کے ترجمے نہیں کیے تھے، بین القوسین اس کا ترجمہ کردیا گیا ہے، نیز آیات کی تخریج بھی کردی گئی ہے۔ (ادارہ الواقعۃ)
الحمد للّٰہ نحمدہ و نستعینہ و نستغفرہ و نؤمن بہ و نتوکل علیہ و نعوذ باللّٰہ من شرور انفسنا و من سیئات اعمالنا من یھدہ اللّٰہ فلا مضل لہ و من یضللہ فلا ھادی لہ و نشھد ان لا الہ الا اللّٰہ وحدہ لا شریک لہ و نشھد ان محمدا عبدہ و رسولہ صلّی اللّٰہ علیہ و اٰلہ و اصحابہ وسلم ۔  اما بعد !  بندہ ناچیز اللہ تعالیٰ سے داعی ہے کہ اپنے کلام پاک کا صحیح منشاء ہم لو گوں کو سمجھا دے اور دنیا سے آخرت تک کہ ہر معاملہ میں صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا کرے۔ (آمین) کو پڑھنا جاری رکھیں

جدیدیت کیا ہے، کیا نہیں؟


جریدہ "الواقۃ” کراچی، شمارہ 11، ربیع الثانی 1433ھ/ فروری، مارچ 2013

از قلم: سید خالد جامعی (کراچی یونیورسٹی) 

6 Jadidiat kia hay pdf 2

دنیا کی ٢٣ روایتی، الہامی دینی تہذیبوں میں انسان عبد تھا۔ وہ جو اس نیلی کائنات میں خدا کے آگے سر بسجود ایک ہستی تھا جو اپنی آخرت کی اصلاح کے لیے فکر مند اور مستقبل کی حقیقی زندگی کے لیے کوشاں رہتا تھا۔ لیکن اٹھارہویں صدی میں جدیدیت کی آمد کے بعد یہ عبد جو بندگی کے سانچے میں ڈھلا ہوا تھا یکایک آزاد ہوگیا (Mankind( بندے سے آزاد فرد (Human being( ہوگیا یہ اصطلاح بھی صرف اس کے حیاتیاتی وجود کی علامت تھی لہٰذا اس کے سیاسی وجود کی وضاحت کے لیے Citizen کی اصطلاح استعمال کی گئی جو خود مختار مطلق Soveriegn ہوتا ہے۔ اسی آزاد خود مختار وجود کے لیے ایک ایسی ریاست قائم کی گئی جو Re-public کہلائی۔ ایسی ریاست جہاں عوام کا حکم ارادہ عامہ (General will( کے تحت چلتا ہے۔ اس کے سوا کسی کا حکم چل نہیں سکتا۔ اگر کسی ریاست میں کسی اور کا حکم بہ ظاہر چل رہا ہے تو اس حکم کے چلنے کی اجازت بھی عوام کی اجازت سے ملی ہے اور یہ اجازت مطلق نہیں ہے حاکم حقیقی (عوام( اس اجازت کو جب چاہیں منسوخ کرسکتے ہیں مثلاً پاکستان کے دستور آئین میں اللہ کی حاکمیت کو سب سے بالاترحاکمیت کے طور پر قبول کیا گیا ہے۔
کو پڑھنا جاری رکھیں

اللہ اور اُس کے رسول کے ساتھ صدیق کی معیت


جریدہ "الواقۃ” کراچی، شمارہ 11، ربیع الثانی 1433ھ/ فروری، مارچ 2013

از قلم: محمد تنزیل الصدیقی الحسینی

اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ صدیق کی معیت

چودہ صدی قبل جب گم گشتگانِ راہِ انسانیت کو ( کلمة اللّٰہ ھی العلیا ) کا پیغام سنانے کی پاداش میں دو نمائندگانِ حق کو ہجرت کرنی پڑی تو یہ انسانی تاریخ کی سب سے عظیم ہجرت تھی، جس کا ایک فرد امام الانبیاء اور دوسرا امام الاصدقاء تھا۔ ایک خیر البشر تو دوسرا افضل البشر بعد الانبیاء۔ ایک سیّد الانبیاء و المرسلین تو دوسرا سیّد الاصدقاء و الصالحین۔ روئے زمین پر نہ کسی سفر کے لیے ایسے عظیم مسافر ملے اور نہ ہی ایسے بلند مقاصد۔ انسانی افکار و اذہان اس “سفرِ ہجرت“ کی رفعتوں کا اندازہ صرف اس امر سے لگا سکتے ہیں کہ اللہ نے اس سفر ہجرت کا ذکر اپنے قرآنِ عظیم میں بایں الفاظ کیا:

کو پڑھنا جاری رکھیں