حضرت علی رضی اللہ عنہ : افراط و تفریط کے درمیان


الواقعۃ شمارہ : 76 – 77 رمضان المبارک و شوال المکرم 1439ھ

اشاعت خاص : سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ

از قلم : محمد تنزیل الصدیقی الحسینی

زبان رسالتِ مآب ﷺ نے اپنے بعض اصحابِ کرام کو بعض جزوی وصف کی بنا پر بعض گزشتہ انبیاء سے تشبیہ دی۔ سیدنا صدیق اکبر سے متعلق فرمایا کہ یہ سیدنا ابراہیم کے مشابہ ہیں۔ فاروقِ اعظم کی جلالی طبیعت کے پیش نظر ان کے جلال کو جلالِ موسوی سے تشبیہ دی (1) اور سیدنا علی المرتضیٰ سے متعلق خود انھیں مخاطب کر کے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا

"فيك مثل من عيسى أبغضته اليهود حتى بهتوا أمه وأحبته النصارى حتى أنزلوه بالمنزلة التي ليست له۔ ” (رواه أحمد)

یعنی : "تم میں عیسیٰ سے ایک طرح کی مشابہت ہے یہودیوں نے ان (عیسیٰ ) سے بغض رکھا تو اتنا زیادہ رکھا کہ ان کی ماں (مریم ) پر (زنا کا ) بہتان باندھا اور عیسائیوں نے ان سے محبت و وابستگی قائم کی تو اتنی (زیادہ اور غلو کے ساتھ قائم کی) کہ ان کو اس مرتبہ و مقام پر پہنچا دیا جو ان کے لیے ثابت نہیں ہے (یعنی ان کو ” اللہ ” یا ابن اللہ ” قرار دے ڈالا)۔”

گو یہ روایت اسناداً ضعیف ہے تاہم معنوی اعتبار سے بالکل درست۔ خود سیدنا علی المرتضیٰ فرماتے ہیں

"لیحبنی قوم حتی یدخلوا النار فی و لیبغضنی قوم حتی یدخلوا النار فی بغضی۔” (کتاب السنۃ لابن ابی عاصم، قال الالبانی : اسنادہ صحیح علیٰ شرط الشیخین، کتاب السنۃ معھا ظلال الجنۃ، ج ۲، ص ۴۷۶)

یعنی: "ایک قوم کی محبت مجھ سے اس حد تک بڑھے گی کہ وہ محبت اسے جہنم میں داخل کر دے اور ایک قوم کی نفرت مجھ سے اس حد تک بڑھے گی کہ وہ نفرت انھیں جہنم میں داخل کر دے گی۔”

اس کی شرح میں بھی خود ہی فرماتے ہیں

"یھلک فیّ رجلان مفرط فی حبی و مفرط فی بغضی۔” (ایضاً، قال الالبانی : اسنادہ حسن رجالہ ثقات)

یعنی : "دو شخص یعنی دو گروہ اس طرح ہلاک (گمراہ) ہوں گے کہ ان میں سے ایک جو مجھ سے محبت رکھنے والا ہوگا اور اس محبت میں حد سے متجاوز ہوگا،اور ایک جو مجھ سے بغض و عناد رکھنے والا ہوگا، اور میری دشمنی میں حد سے تجاوز کرے گا۔”

یہ پیش گوئی حرف بحرف پوری ہوئی۔ ایک گروہ نے انھیں اس قدر بلند کیا کہ مرتبہ الوہیت پر فائز کر دیا، تو دوسرے نے اس قدر گرایا کہ انھیں قاتلین عثمان کی صف میں شامل کر دیا۔ یہ دونوں ہی گروہ ضلالت اور گمراہی پر منتج ہوئے۔ تاہم اس ضلالت گمراہی کے بھی مختلف مراتب ہیں حب علی نے مطلقاً منزلِ الوہیت کو نہیں چھوا بلکہ اس سفرِ ضلالت کی بھی کئی منزلیں ہیں۔ کہیں ان کے فضائل و مناقب میں موضوع روایتیں تیار کی گئیں، کہیں  انھیں شیخین کریمین پر مطلقاً فضیلت دی گئی اور ان کی محبت کے نام پر کبار اصحاب رسولﷺ کی توہین کا ارتکاب کیا گیا تو کہیں انبیائے عظام سے افضل قرار دیا گیا تآنکہ ایک منزل ایسی آئی کہ ان کی ذات میں جزوی اور کلی طور پر جلوہ الوہیت کی کار فرمائی دیکھی جانے لگی۔

دوسری طرف حسادِ علی کا بھی سفرِ ضلالت یکدم اس مقام پر نہیں پہنچا۔ حضرت علی کے جائز مقام و منصب کا انکار کیا گیا، مختلف انداز سے ان کی کسر شان کی سعی کی گئی، انھیں سیدنا عثمان کا قاتل باور کرایا گیا اور خوارج نے انھیں مطلقاً کافر قرار دیا۔

یہ دونوں ہی طبقات اپنے آغاز سے انجام تک ہلاکت و بربادی کی راہ میں گامزن رہے۔

اسلام میں محبت و عقیدت وہی مستحسن اور مطلوب ہے جو حد سے متجاوز نہ ہو اور عقل و شریعت کے مسلمہ اصولوں کے عین مطابق ہو، محبت اور نفرت کا اصل پیمانہ محبت الٰہی ہے۔ الحب للہ و البغض فی اللہ۔ ارشادِ نبوی ہے

"من أحب لله وأبغض لله وأعطى لله ومنع لله فقد استكمل الإيمان۔” (رواہ ابو دادو)

یعنی : "جو اللہ کے لیے محبت رکھے، اللہ ہی کے لیے نفرت کرے، اللہ کے لیے دے، اور اللہ کی خاطر رک جائے بلاشبہ اس کا ایمان کامل ہو گیا۔”

موالات ہو یا معادات، الٰہی پیمانوں کے مطابق ہی ہوں گے۔ ایسی محبت و عقیدت جو حد سے متجاوز ہو اور مسلمہ اسلامی تعلیمات سے متصادم وہ اصلاً گمراہی ہے، خواہ کتنی ہی خوشنما نظر آئے، اور اپنے غیر معتدل ہونے کے سبب راہ مستقیم سے باہر کر دیتی ہے۔ فضائل و مناقب کے باب میں بھی حدود شریعت کی پیروی لازم ہے۔ حتیٰ کہ غلو اگر انبیائے کرام کی ذات میں بھی کی جائے تو وہ بھی غیر مستحسن ہے اور بعض اوقات باعثِ کفر بھی۔ چنانچہ عیسائی حضرت عیسیٰ کی ذات میں غلو کا شکار ہوئے اور نعوذ باللہ انھیں اللہ رب العزت کا فرزند قرار دینے لگے جس کے باعث قرآنِ کریم نے انھیں "الضالین” قرار دیا۔ یہی وجہ تھی رسول اللہ ﷺ نے اپنی امت کو بطورِ خاص یہ تعلیم دی

"لا تطروني كما أطرت النصارى ابن مريم، إنما أنا عبد فقولوا عبد الله ورسوله.” (رواہ البخاری)

"مجھے حد سے آگے نہ بڑھانا جیسا کہ نصاریٰ نے ابن مریم کو بڑھایا، سوائے اس کے نہیں کہ میں ایک بندہ ہوں۔ پس مجھے اللہ کا بندہ اور اس کا رسول کہو۔”

اسی طرح کسی سے نفرت بھی اللہ ہی کی خاطر کی جائے گی۔ ایک مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ کسی دوسرے مسلمان بھائی سے تین دن سے زیادہ ناراض ہو چہ جائیکہ وہ کسی صحابی رسول سے بغض رکھے۔ ارشاد نبوی ہے

”اللہ اللہ فی أصحابی۔ اللہ اللہ فی أصحابی لا تتخذوھم غرضا من بعدی فمن أحبہم فبحبی أحبہم و من أبغضھم فببغضی أبغضھم و من آذاھم فقد آذانی ومن آذانی فقد آذی اللہ و من آذی اللہ فیوشک أن یأخذہ۔” (رواہ ترمذی)

یعنی : "اللہ سے ڈرو، اللہ سے ڈرو میرے صحابہ کے معاملہ میں، مکرر کہتا ہوں، اللہ سے ڈرو، اللہ سے ڈرو، میرے صحابہ کے معاملہ میں، ان کو میرے بعد ہدف تنقید نہ بنانا۔ کیوں کہ جس نے ان سے محبت کی تو میری محبت کی بنا پر، اور جس نے ان سے بغض رکھا تو مجھ سے بغض کی بنا پر، جس نے ان کو ایذا دی اس نے مجھے ایذا دی اور جس نے مجھے ایذا دی اس نے اللہ کو ایذا دی۔ اور جس نے اللہ کو ایذا دی تو قریب ہے کہ اللہ اسے پکڑ لے۔”

نبی کریم ﷺ کے کسی صحابی کی تکفیر و تضلیل کرنے والا خود مستحق ہے کہ اس کی تکفیر و تضلیل کی جائے۔
اہل سنت والجماعت کا عقیدہ باب الفضائل و المناقب میں نصوص کی پیروی، فرق مراتب کا ملحوظ رکھنا اور اعتدال و توازن ہے کہ وہ افراط اور تفریط دونوں سے بری ہیں۔ سیّد میاں نذیر حسین محدث دہلوی فرماتے ہیں

"محدثین اہل بیت کی خدمت کو سرمایہ آخرت و اعزاز جانتے ہیں اور صحابہ کرام کو اپنا سرتاج مانتے ہیں۔ ہر ایک بزرگان کا مرتبہ ملحوظ رکھنا چاہیے، افراط تفریط بہت بری بات ہے۔” (مکاتیب نذیریہ، ص: ۷۳، مطبع محبوب المطابع دہلی)

ذیل میں افراط و تفریط کی انھیں دشوار گزار گھاٹیوں سے گزرتے ہوئے حب علی کا مسلک اعتدال پیش کیا جائے گا۔ و بیدہ التوفیق

فضائل و مناقب کی کثرت

اس امر میں کچھ شبہ نہیں کہ سیدنا علی کے فضائل و مناقب احادیث میں بکثرت بیان ہوئے ہیں جن کا احصاء نا ممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ پھر بعض مناقب احادیث و آثار میں غور و تعمق کے بعد واضح ہوتے ہیں ان مناقب کا احصاء تو نا ممکن ہی ہے۔ امام احمد بن حنبل، اسماعیل القاضی، امام نسائی اور ابو علی نیشا پوریs کا قول معروف ہے کہ

"لم یرد فی حق احد من الصحابۃ بالاسانید الجیاد اکثر ما جاء فی علی۔” (فتح الباری، ج ۷، ص ۹۱۔ تحفۃ الاحوذی، ج ۱۰، ص ۲۰۹)

یعنی : "صحابہ میں سے کسی کے حق میں جید اسانید کے ساتھ حضرت علی سے زیادہ روایات وارد نہیں ہوئیں۔”

و اللہ اعلم بالصواب کے اس قول کا انتساب ان بزرگوں کی طرف کس حد تک درست ہے۔ تاہم حافظ ابن حجر العسقلانی نے اس قول کو نقل کرکے اس کے اسباب و وجوہ پر بھی روشنی ڈالی ہے اور نہایت عمدگی سے مباحث قلمبند کیے ہیں۔ حیرت ہے صاحب تحفہ علامہ عبد الرحمن مبارک پوری نے اس قول پر کوئی وضاحت پیش نہیں کی اور اسے یونہی نقل کر دیا۔

اگر اسناد سے قطع نظر محض روایت اور فضائل کا شمار مقصود ہو تو یہ قول بلاشبہ درست ہے۔ لیکن اگر استناد (صحیح و حسن) کو پیش نظر رکھا جائے تو کتب احادیث میں جس قدر فضیلت سیدنا صدیق اکبررضی اللہ عنہ کی بیان ہوئی ہے اس قدر احادیث و آثار کسی صحابی کی فضیلت میں وارد نہیں ہوئے۔ اس کی نہایت واضح دلیل اہل سنت و الجماعت کی معتبر کتب احادیث ہیں۔ مثلاً

1- صحیح بخاری، کتاب المناقب میں سیدنا ابوبکر صدیق کے فضائل میں 24 حدیثیں، سیدنا عمر فاروق کے فضائل میں 14 حدیثیں، سیدنا عثمان غنی کے فضائل میں 8 حدیثیں، اور سیدنا علی المرتضیٰ کے فضائل میں 9 حدیثیں ہیں۔

2- صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابۃ میں سیدنا ابوبکر صدیق کے فضائل میں 13 حدیثیں، سیدنا عمر فاروق کے فضائل میں 12 حدیثیں، سیدنا عثمان غنی کے فضائل میں 4 حدیثیں، اور سیدنا علی المرتضیٰ کے فضائل میں 9 حدیثیں ہیں۔

3- سنن ترمذی میں ابواب المناقب میں سیدنا ابوبکر صدیق کے فضائل میں 24 حدیثیں، سیدنا عمر فاروق کے فضائل میں 14 حدیثیں، سیدنا عثمان غنی کے فضائل میں 14 حدیثیں، اور سیدنا علی المرتضیٰ کے فضائل میں 23 حدیثیں ہیں۔

4- سنن ابن ماجہ، مقدمۃ الکتاب، باب فی فضائل اصحاب رسول اللہ ﷺ میں سیدنا ابوبکر صدیق  کے فضائل میں 9 حدیثیں، سیدنا عمر فاروق کے فضائل میں 7 حدیثیں، سیدنا عثمان غنی کے فضائل میں 5 حدیثیں، اور سیدنا علی المرتضیٰ کے فضائل میں 8 حدیثیں ہیں۔ (2)۔

سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے فضائل میں روایت کرنے کے کئی اسباب ہیں اور کئی گروہ ہیں جنھوں نے فضائل علی کو بیان کیا۔ لیکن میزانِ عدل پر صرف اہل سنت و الجماعت کی روایت کردہ احادیث ہی درست اور معتبر ہیں۔ (تفصیل کے خواہشمند فتح الباری، ج ۷، ص ۹۱،۹۲ ملاحظہ کریں)

ملا علی قاری حنفی (م ۱۰۱۳ھ) لکھتے ہیں

"واما ما وضعہ الرافضۃ فی فضائل علی فاکثر من ان یعد۔ قال الحافظ ابو یعلی : قال الخلیلی فی کتاب الارشاد : وضعت الرافضۃ فی فضائل علی و اھل البیت نحو ثلاثمائۃ الف حدیث۔ ولا تستبعد ھذا فانک لو تتبعت ما عندھم من ذلک لوجدت الامر کما قال۔” (الموضوعات الکبریٰ، ص: ۳۴۳، مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی)

یعنی : "اور جو رافضیوں نے فضائل علی رضی اللہ عنہ میں روایات وضع کی ہیں وہ حد شمار سے باہر ہیں۔ حافظ ابو یعلیٰ فرماتے ہیں کہ خلیلی نے اپنی کتاب "الارشاد” میں لکھا ہے : "رافضیوں نے فضائل علی و اہل بیت میں تقریباً تین لاکھ احادیث وضع کی ہیں۔” اس (بات کو) بعید نہ جاننا چاہیے کیونکہ اگر تم اس مواد کا تتبع اور جستجو کرو جو ان لوگوں کے پاس ہے تو تم اس معاملے کو اسی طرح پاؤ گے جیسا کہ (ابو یعلیٰ الخلیلی) نے کہا ہے۔”

اسی طرح علماء نے یہ بھی لکھا ہے کہ جس قدر جھوٹے اقوال سیدنا علی سے منسوب کیے گئے ہیں اس قدر کسی سے نہیں کیے گئے۔ امام ذھبی نے ابو عمرو عامر الشعبی تابعی کا قول نقل کیا ہے

"ما کذب علی احد من ھذہ الامة ما کذب علیٰ علیؓ۔” ( تذکرۃ الحفاظ للذھبی، ج ۱، ص ۸۲، تحت ذکر ابو عمر و عامر الشعبی)

یعنی : "اس امت میں کسی پر اتنا جھوٹ نہیں  گھڑا گیا جتنا حضرت علی پر۔”

کرم اللہ وجہہ

حضرت علی کے اسم گرامی کے ساتھ "کرم اللہ وجہہ” لکھا اور کہا جاتا ہے، بلاشبہ وہ اس کے مستحق ہیں کہ ان کے نام نامی کے ساتھ ایسا لکھا اور کہا جائے۔ اس کا پس منظر بیان کرتے ہوئے مولانا رشید احمد گنگوہی لکھتے ہیں

"چونکہ حضرت علی کو خوارج بلفظ سوّد اللہ وجہہ اپنی خباثت سے یاد کرتے ہیں اس واسطے اہل سنت نے کرم اللہ وجہہ مقرر کیا۔” (فتاویٰ رشیدیہ، ص: ۱۰۹، مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی۱۹۸۸ء)

مولود کعبہ

ایک دعویٰ بڑے شد و مد کے ساتھ کیا جاتا ہے کہ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی ولادت خانہ کعبہ میں  ہوئی۔ باب الفضائل و المناقب میں جذباتیت سے قطع نظر اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہماری مقدس ہستیاں اپنے فضائل و مناقب کے لیے وضعی روایات کی سطح سے کہیں بلند ہیں۔ کعبۃ اللہ میں ولادت اگر کائنات کا سب سے بڑا فخر اور شرف قطعی ہے تو یقیناً اللہ رب العزت اس کا مستحق رسول اللہ ﷺ کو بناتا، مگر اس پر اتفاق ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ رہی بات سیدنا علی المرتضیٰ کے فضائل کی تو قیامت تک سیدنا علی اہل ایمان قلوب میں محبت کی روشنی بن کر جگمگاتے رہیں گے۔

امام مسلم، سیدنا حکیم بن حزام سے روایت کرنے کے بعد فرماتے ہیں

"ولد حکیم بن حزام فی جوف الکعبۃ، وعاش مائۃ و عشرین سنۃ۔” (صحیح مسلم، کتاب البیوع، باب الصدق فی البیع و البیان)

یعنی: "حکیم بن حزام کعبۃ اللہ میں پیدا ہوئے اور انھوں نے ۱۲۰ برس کی عمر پائی۔”

امام یحیٰ بن شرف النووی (م۶۷۶ھ) نے بطور خاص تصریح کی ہے کہ صرف یہی ہیں جو کعبہ میں پیدا ہوئے۔ فرماتے ہیں

"ولد حکیم فی جوف الکعبۃ ولا یعرف احد ولد فیھا غیرہ۔” (تہذیب الاسماء و الصفات، ج ۱، ص: ۱۶۶، ادارۃ الطباعۃ المنیریۃ بمصر)

یعنی : "حکیم بن حزام کعبہ میں پیدا ہوئے اور ان کے سوا کوئی بھی کعبہ میں پیدا نہیں ہوا۔”

ابو عبد اللہ مصعب بن عبد اللہ الزبیری القرشی جو فن انساب، سیر و تاریخ کے امام ہیں انھوں نے بھی صرف حکیم بن حزام کی ولادتِ کعبہ کی تصریح فرمائی ہے جس کو امام حاکم نے امام مصعب الزبیری کا وہم قرار دیا اور لکھا ہے

"فقد تواترت الاخبار ان فاطمۃ بنت اسد ولدت امیر المؤمنین علی بن ابی طالب کرم اللہ وجھہ فی جوف الکعبۃ۔” (المستدرک علی الصحیحین، کتاب معرفۃ الصحابۃ، ذکر مناقب حکیم بن حزام القرشی رضی اللہ عنہ)

یعنی : "بلاشبہ تواتر اخبار سے ثابت ہے کہ فاطمہ بنت اسد سے امیر المومنین علی بن ابی طالب کعبہ میں پیدا ہوئے۔”

اہل سنت و الجماعت میں جو لوگ حضرت علی کے مولود کعبہ ہونے کو تسلیم کرتے ہیں ان کا بنیادی انحصار امام حاکم کے اسی قول پر ہے۔ لیکن خود امام حاکم کی المستدرک ان روایات سے خالی ہے۔ معلوم نہیں تواتر کا دعویٰ کس بنیاد پر کیا ہے۔ امام حاکم کا تساہل اہل علم میں معروف ہے۔ بعض محققین جو امام حاکم کو متساہل نہیں کہتے انھیں بھی تسلیم ہے کہ مستدرک میں بہت سی ضعیف بلکہ موضوع روایات بھی موجود ہیں، امام حاکم آخر عمر میں سوء حفظ کا شکار تھے، اور مستدرک ان کی آخری زمانہ کی تصنیف ہے۔ مولانا شاہ محمد جعفر پھلواروی جنھوں نے حاکم کی کتاب "معرفۃ علوم الحدیث” کا اردو ترجمہ کیا ہے اور جو امام حاکم سے تمام اتہامات کو دور کرتے ہیں وہ بھی لکھتے ہیں

"مستدرک میں بہت سی احادیث ایسی بھی ہیں  جو شروط صحت پر پوری نہیں اترتیں بلکہ ان میں  موضوع اور مجہول احادیث بھی ہیں۔ اس کے لیے یہ عذر پیش کیا جاتا ہے کہ حاکم نے اسے اس وقت تصنیف کیا تھا جب ان کی عمر کا آخری حصہ تھا اور ان پر غفلت (یادداشت کی کمزوری) طاری ہو چکی تھی۔ اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ انھوں نے اپنی "کتاب الضعفا” میں ایک گروہ کا ذکر کرتے ہوئے ان کی روایتیں ترک کرنے پر زور دیا ہے اور ان کو نا قابلِ حجت ٹھہرایا ہے۔ اس کے باوجود ان میں سے بعض کی روایتوں کو مستدرک میں درج کر دیا ہے اور انھیں بھی صحیح قرار دیا ہے۔ مثلاً عبد الرحمن بن زید بن اسلم کا ذکر ضعفا میں کیا ہے اور ان کے بارے میں یہاں تک کہہ گئے ہیں کہ یہ اپنے والد سے موضوع روایات بیان کرتے ہیں۔ اس کے باوجود حاکم ان کی ایک روایت مستدرک میں نقل کرتے ہیں۔ خود حاکم کے ایک بیان سے بھی واضح ہوتا ہے کہ آخری عمر میں ان کے حالات بدل گئے تھے اور یادداشت کمزور ہو گئی تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ جب میں کسی باب میں کسی بات کا ذکر کروں تو اسے اصل کتاب میں  دیکھ لینا ضروری ہے کیونکہ میں بوڑھا ہو گیا ہوں۔ حافظ ابن حجر کا کہنا ہے کہ حاکم سے یہ تساہل اس لیے ہوا کہ انھوں نے کتاب (مستدرک) کا مسودہ تیار کر لیا تھا۔ نظر ثانی کرنا چاہتے تھے، لیکن انھیں اس کا موقع نہ ملا کیونکہ موت جلد ہی آ گئی۔” (معارف حدیث ترجمہ معرفۃ علوم الحدیث، ص: ۱۴، ۱۵، ادارہ ثقافتِ اسلامیہ لاہور ۱۹۷۰ء)

یہی وجہ ہے کہ حاکم کے اس بے دلیل دعوے کو محقق علماء نے قبول نہیں کیا۔ خود ابن ابی الحدید شارح نہج البلاغۃ نے لکھا ہے

"واختلف فی مولد علی این کان ؟ فکثیر من الشیعۃ یزعمون انہ ولد فی الکعبۃ، والمحدثون لا یعترفون بذلک، و یزعمون ان المولود فی الکعبۃ حکیم بن حزام بن خویلد بن اسد بن عبد العزی بن قصی۔” (شرح نھج البلاغۃ، ج ۱، ص: ۹، دار الکتاب العربی بیروت)

یعنی : "سیدنا علی کی جائے ولادت سے متعلق اختلاف ہے کہ کہاں ہوئی ؟ اکثر شیعوں کا یہ دعویٰ ہے کہ ان کی پیدائش اندرونِ کعبہ میں ہوئی۔ جبکہ محدثین اس کو تسلیم نہیں کرتے، ان کا دعویٰ ہے کہ جو کعبہ میں پیدا ہوئے وہ حکیم بن حزام بن خویلد بن اسد بن عبد العزیٰ بن قصی ہیں۔”

سیدنا علی کی ولادت رسول اللہ ﷺ کی جائے ولادت سے قریب ہی شعب بنی ہاشم میں ہوئی، اور یہ مقام صدیوں تک معروف رہا۔ علامہ تقی الدین احمد بن محمد الحسنی الفاسی المالکی (م ۸۳۲ھ) جو محدث، فقیہ اور مؤرخ تھے۔ اپنی کتاب "شفاء الغرام باخبار البلد الحرام” میں لکھتے ہیں

"ومنها: الموضع الذي يقال له: مولد علي بن أبي طالب رضي اللہ عنه قريبا من مولد النبي ﷺ من أعلاه مما يلي الجبل، وهو مشهور عند أهل مكة بذلك لا اختلاف بينهم فيه، ولم يذكره الأزرقي، وذكره ابن جبير (رحلۃ ابن جبیر، ص: ۱۴۱) وعلى بابه مكتوب: هذا مولد أمير المؤمنين علي بن أبي طالب رضوان الله عليه وفيه ربي رسول الله ﷺ، أمر بعمله سيدنا ومولانا الإمام أبو العباس أحمد بن الناصر لدين الله أمير المؤمنين في سنة ثمان وستمائة۔” (شفاء الغرام، ج ۱، ص ۳۵۸، دار الکتب العلمیۃ بیروت ۱۴۲۱ھ)

یعنی : "اور ان میں سے ایک مقام ہے جسے مولد علی بن ابی طالب کہا جاتا ہے اور جو نبی ﷺ کی ولادت گاہ سے قریب ہی آنے والے پہاڑ کی اوپری جانب ہے، اور یہ بات اہل مکہ کے نزدیک مشہور ہے، جس میں ان کے مابین کوئی اختلاف نہیں۔ ازرقی نے اس کا ذکر نہیں کیا لیکن ابن جبیر نے اس کا ذکر کیا ہے اور اس کے دروازے پر لکھا ہے کہ یہ امیر المومنین علی بن ابی طالب کی ولادت گاہ ہے اور جس میں رسول اللہ ﷺ کی پرورش ہوئی، اور ایسا (عباسی خلیفہ) امیر المومنین احمد بن محمد ناصر لدین اللہ کے حکم سے ۷۰۸ھ میں لکھا گیا۔”

یہ آٹھویں و نویں صدی ہجری کے ایک مؤرخ کی گواہی ہے جو خود بھی حضرت علی سے نسبی تعلق رکھتے ہیں۔ (3)۔

اوّلیت اسلام کی بحث

بعض لوگوں کی جانب سے ایک غیر ضروری بحث چھیڑی جاتی ہے کہ سب سے پہلے کس نے اسلام قبول کیا۔ مولانا شاہ محمد جعفر پھلواروی نے اس موضوع سے متعلق بڑی عمدہ بحث کی ہے، ہم مناسب سمجھتے ہیں کہ اسے ہی یہاں نقل کر دیا جائے۔ اوّلیت اسلام کی غیر ضروری بحث کے زیر عنوان وہ لکھتے ہیں

"یہاں اہل اسلام میں ایک غیر ضروری بحث یہ چھڑ جاتی ہے کہ ان چاروں میں سب سے پہلے کون ایمان لایا؟ جناب خدیجہ کی اوّلیت ایمان تو تقریباً سب کے نزدیک مسلم ہے لیکن ان کے بعد مذہبی جانبداری کا جذبہ رکھنے والوں میں  ایک گروہ جناب ابوبکررضی اللہ عنہ کو اول المومنین کہتا ہے اور دوسرا جناب علی رضی اللہ عنہ کو اول مومن قرار دیتا ہے۔ ابو حنیفہ کی طرف یہ تطبیق منسوب کی جاتی ہے کہ عورتوں میں سب سے پہلے خدیجہ رضی اللہ عنہا ایمان لائیں، مردوں میں ابوبکررضی اللہ عنہ، بچوں میں علی رضی اللہ عنہ اور غلاموں میں زید رضی اللہ عنہ۔ یہ توجیہ دلچسپی سے خالی نہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ دو چار گھنٹے یا چند دن کی تقدیم و تاخیر میں کون سا فرق پڑ جاتا ہے ؟ اس معمولی سے تقدم و تاخر کی کیا قدر و قیمت ہے ؟ اس سے کسی کی سیرت کے کس پہلو پر اثر پڑتا ہے اور کس بات کے فیصلے کا اس پر دارو مدار ہے ؟ اگر یہ ہوتا کہ جو ایک گھنٹہ یا ایک دن پہلے اسلام لائے وہ تو شدید امتحان میں پڑ جاتا ہے اور جو ایک ساعت یا ایک دن کی تاخیر سے مسلمان ہو تو اس کی کوئی آزمائش نہیں  ہوتی۔ اگر واقعی یہ بات ہوتی تو چند گھنٹوں کے تقدم و تاخر کو کوئی اہمیت بھی دیتے لیکن جب دونوں ایمان و عمل اور ثابت قدمی و ایثار کا یکساں ثبوت بہم پہنچاتے ہیں تو یہ چند ساعت کا فرق کون سی اہمیت کا حامل ہو سکتا ہے ؟” (پیغمبر انسانیت، ص: ۸۱، ۸۲، ادارہ ثقافتِ اسلامیہ لاہور طبع اوّل)

"اوّل المومنین” کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں

"ہمارے نزدیک اوّل المومنین کا یہ مطلب ہی نہیں کہ جو دس بجے ایمان لائے وہ اوّل المومنین ہے اور جو گیارہ بجے مومن ہو وہ آخر المومنین ہے۔ اوّلیت کا اصلی فیصلہ وہ وقفہ کرتا ہے جو پیغام نبوت پہنچ چکنے کے بعد اسلام و کفر کے درمیان حائل ہوتا ہے۔ ایک شخص آج صبح پیغام سنتا ہے اور آج ہی شام کو ایمان لے آتا ہے اور دوسرا ایک ہفتے کے بعد پیغام سنتا ہے اور اسی وقت ایمان لے آتا ہے تو بہ ظاہر زمانی لحاظ سے پہلا شخص اول المومنین نظر آئے گا لیکن در حقیقت اول المومنین دوسرا شخص ہے کیونکہ پہلے شخص کے کفر و اسلام میں چند گھنٹوں کا وقفہ حائل ہے اور دوسرے شخص نے اپنے کفر و اسلام میں کسی توقف کو حائل ہونے کا موقع نہ دیا۔ یہی وہ حقیقت ہے جسے حضورﷺ نے یوں فرمایا کہ : "میں نے جس پر بھی اسلام پیش کیا اسے کچھ نہ کچھ ہچکچاہٹ پیدا ہوئی لیکن ابوبکر نے کوئی توقف نہ کیا۔” یہ عدم توقف بڑی چیز ہے لیکن اس سے اوروں کے اول المومنین ہونے پر کوئی قابل ذکر اثر نہیں پڑتا۔ قرآن پاک نے اس نا قابلِ اعتنا فرق کو کوئی اہمیت نہیں دی ہے۔ وہ ان تمام لوگوں کو ایک ہی گروپ میں شمار کرتا ہے جو تھوڑے بہت فرق سے آگے پیچھے ایمان لائے ارشاد قرآنی یہ ہے کہ : وَالسَّابِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهَاجِرِيْنَ وَالْاَنْصَارِ (۹: ۱۰۰) قرآن نے کسی ایک دو فرد کی بجائے پورے گروپ ہی کو سابقون اولون قرار دیا ہے۔ اس لیے ان چاروں – خدیجہ، ابوبکر، علی اور زید – میں ہر فرد ہی اول المومنین ہے بلکہ دوسرے ابتدائی مسلمان بھی مل کر سابقون اولون کا ایک گروپ بنتے ہیں۔” (پیغمبر انسانیت، ص: ۸۲، ۸۳)

واقعہ غدیر خم

رسول اللہ ﷺ اپنے اصحاب کے ساتھ حجۃ الوداع سے واپسی میں مکہ مکرمہ اور مدینہ طیبہ کے درمیان جُحفہ سے دو میل پر واقع ایک مقام غدیر خُم پر قیام پذیر تھے۔ اس موقع پر بعض اصحاب رسول نے رسول اللہ ﷺ سے حضرت علی کے حوالے سے بعض شکایات کیں جن کا ذکر روایات میں موجود ہے، ان شکایات کے ازالے کے طور پر رسول اللہ ﷺ نے ایک خطبہ دیا جس سے ان شکایات کا ازالہ بھی فرما دیا اور سیدنا علی کی قدر و منزلت سے امت کو آگاہ کیا۔ اس ضمن میں روایات میں  بہت سے الفاظ ملتے ہیں جن پر محدثین نے کلام کیا ہے اور اضافی الفاظ کو درست تسلیم نہیں کیا۔ تاہم حضرت علی کے شرف میں

"من کنت مولاہ فعلی مولاہ۔”

یعنی : "جس کا میں مولا (دوست) ہوں پس اس کے علی مولا (دوست) ہیں۔”

کے الفاظ کو علامہ ناصر الدین البانی نے مختلف طرق کی بنا پر صحیح قرار دیا ہے۔

موقع کی مناسبت اور فضائل علی کے باب میں اس حدیث کے مفہوم میں کوئی اشتباہ نہ تھا لیکن ایک گروہ کا خیال ہے کہ ان الفاظ کے ساتھ سیدنا علی کو خلافت کی واضح بشارت دی گئی ہے۔ جہاں تک اس موقع کی دیگر عبارتوں کا تعلق ہے جو اس گروہ کی جانب سے پیش کی جاتی ہیں تو اہل سنت و الجماعت اس کے ذمہ دار نہیں کیونکہ وہ ہمارے نزدیک ثابت نہیں۔ جہاں تک "من کنت مولاہ فعلی مولاہ” کا تعلق ہے تو ادنیٰ فہم رکھنے والا شخص بھی بخوبی جان سکتا ہے کہ اس میں نصِ خلافت کی طرف معمولی اشارہ بھی نہیں۔ یہی وجہ تھی کہ سیدنا علی نے کسی مقام پر واقعہ غدیر خم کو اپنی خلافت کے اثبات میں پیش نہیں کیا۔

یہاں یہ بھی عرض کر دیں کہ "مولیٰ” کا لفظ نبی کریم ﷺ نے صرف سیدنا علی کے لیے استعمال نہیں کیا بلکہ یہ لفظ سیدنا زید کے لیے بھی استعمال ہوا۔ بخاری میں سیدنا براء کی روایت کردہ طویل حدیث کا ٹکڑا ہے جسے امام بخاری نے مناقب زید بن حارثہ کے باب میں نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا

"انت اخونا و مولانا۔” (بخاری، کتاب فضائل اصحاب النبیﷺ، باب مناقب زید بن حارثہ)

یہ روایت تفصیل کے ساتھ صحيح البخاري، كتاب المغازي، باب عمرة القضاء ذكره أنس عن النبي ﷺ میں موجود ہے۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ ۷ھ میں  عمرۃ القضاء کے موقع پر جب رسول اللہ ﷺ ادائیگی عمرہ کے بعد مدینہ طیبہ روانہ ہونے لگے تو سیدنا حمزہ کی صاحبزادی جو اس وقت کمسن تھیں آپ ﷺ کے پیچھے پیچھے چچا چچا کہتے ہوئے آئیں۔ سیدنا علی نے انھیں لے لیا اور ہاتھ پکڑ کر سیدہ فاطمہ کے پاس لائے۔ لیکن ان کی کفالت کے معاملے میں حضرت علی، جعفر اور زید میں  اختلاف ہوگیا۔ حضرت علی فرماتے تھے کہ میں اسے ساتھ لایا ہوں اور یہ میرے چچا کی بیٹی ہے۔ حضرت جعفر کا دعویٰ تھا کہ یہ میرے چچا کی لڑکی ہے اور اس کی خالہ میرے حبالہ عقد میں  ہے۔ جب کہ حضرت زید کہتے تھے کہ یہ میرے بھائی کی بیٹی ہے۔ (4) رسول اللہ ﷺ نے اس موقع پر حضرت جعفر کے حق میں فیصلہ دیا، اور تینوں دعویداروں سے ایک ایک جملہ ارشاد فرمایا جو ان کے کمال فضل پر دلالت کرتا ہے۔

حضرت علی سے فرمایا

"انت منی وانا منک۔”

یعنی : "تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں۔”

حضرت جعفر سے فرمایا

"اشبھت خَلْقی و خُلُقی۔”

یعنی : "صورت و سیرت میں تم میرے مشابہ ہو۔”

حضرت زید سے فرمایا

"انت اخونا ومولانا۔”

یعنی : "تم میرے بھائی اور مولا (دوست) ہو۔”

چونکہ حضرت زید نبی ﷺ کے قبل از اسلام آزاد کردہ غلام بھی تھے۔ اس لیے بعض شارحین نے مولا کا ترجمہ آزاد کردہ غلام بھی کیا ہے۔ لیکن یہ موقع تالیف قلب کا ہے، حضرت زید جو نبی ﷺ کے چچا سیدنا حمزہ کی بیٹی کی کفالت کے خواہشمند تھے، جنھیں خود نبی کریم ﷺ نے سیدنا حمزہ کا بھائی بنایا تھا۔ انھیں اس موقع پر یہ کہنا تم میرے آزاد کردہ غلام ہو۔ نبی کریم ﷺ کے حسن خلق سے نہایت بعید ہے کہ ایک شخص ازراہِ محبت رسول اللہ ﷺ کے چچا اور اپنے دینی بھائی کی بیٹی کو اپنے زیرِ کفالت لینا چاہتا ہو اسے نبی کریم ﷺ یہ کہیں کہ تم میرے آزاد کردہ غلام ہو۔ یہاں لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ سیدنا زید رسول اللہ ﷺ کے قبل از اسلام منہ بولے بیٹے تھے، جس کی زمانہ جاہلیت میں بڑی قدر تھی، اگر اسلام نے یہ رشتہ ختم نہ کر دیا ہوتا تو سیدنا زید کا کیا مقام ہوتا؟ اہل نظر بخوبی سمجھ سکتے ہیں۔ پھر بے شک اسلام نے اس قسم کے فرضی رشتوں کا خاتمہ کر دیا۔ لیکن کیا احساسات و جذباتِ محبت کا بھی خاتمہ ہو سکتا ہے ؟ سیدنا زید کو نبی کریم ﷺ نے اپنے بچوں کی طرح پالا تھا۔ رفاقت کا ایک طویل عرصہ ہے کیا اسے یک قلم سے فراموش کیا جا سکتا ہے ؟

بلاغت کے اعتبار سے یہ بھی یہ معنی بعید ہے جب گزشتہ دو اصحاب کے فضائل بیان کیے گئے ہیں  تو یقیناً یہاں سیدنا زید کے بھی فضائل ہی بیان کیے ہیں۔ اخونا کا مترادف مولانا بمعنی دوست ہی ہو سکتا ہے، بمعنی غلام نہیں۔ یہی وجہ تھی کہ اسے باب مناقب میں پیش کیا گیا۔ مزید برآں لغتِ عرب سے اس کی گنجائش بھی ہے۔ لہٰذا جو معنی "من کنت مولاہ فعلی مولاہ” میں "مولا” کے ہیں وہی "انت اخونا ومولانا” میں "مولا” کے ہیں۔

سیدنا ابوبکر صدیق کی بیعت

سیدنا ابوبکر صدیق کی بیعت کے حوالے سے حضرت علی کا کیا روّیہ رہا۔ اس سے متعلق کتبِ حدیث و تاریخ میں تین طرح کی روایتیں  موجود ہیں۔

1- سیدنا علی نے برضا و رغبت اگلے ہی دن مجمع عام میں بیعت کرلی تھی۔
2- انھوں نے کچھ پس و پیش کیا تآنکہ سیدہ فاطمہ کی وفات کے بعد سیدنا ابوبکر کی بیعت کرلی۔
3- جبکہ تیسری قسم کی روایات مطابق سیدنا علی خود خلیفہ بننا چاہتے تھے۔ اسی وجہ سے انھوں نے بیعت سے صاف انکار کر دیا، جس پر ان کے گھر پر حملہ کیا گیا اور حضرت علی کو بیعت کرنے پر مجبور کر دیا گیا۔ اس کے بعد حضرت علی تینوں خلفاء راشدین کے زمانے میں خفیہ سازشوں میں مصروف رہے اور ان کا تختہ الٹنے کی کوشش کرتے رہے۔

یہ آخری بات تو اس قدر واہیات ہے کہ ہم اس کی تردید بھی ضروری نہیں سمجھتے۔ نہ ہی سیدنا ابوبکر  و سیدنا عمر نے حضرت علی کے گھر پر کوئی حملہ کیا یا کروایا اور نہ ہی کسی بھی طرح سیدنا علی کو مجبور کیا گیا۔ ان روایات سے صحابہ کرام کی معاشرت کا بالکل غیر مناسب تآثر ابھرتا ہے جو نہ صرف سیدنا ابوبکر و سیدنا عمر بلکہ سیدنا علی کے لیے بھی منفی ہے، اور سرے سے لائق اعتنا ہی نہیں۔ یہاں یہ بھی عرض کر دیں کہ یہ روایات نا قابل اعتماد قسم کے کذاب راویوں کی سند سے حاصل ہوئی ہیں۔ کوئی بھی محقق کبھی بھی ان روایات کو اسناد کی کسوٹی پر پرکھ کر درست ثابت نہیں  کر سکتا۔

صحیح بخاری و مسلم کی روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ سیدنا علی نے حضرت ابوبکر کی بیعت چھ ماہ بعد سیدہ فاطمہ کی وفات کے بعد کی۔ لیکن بعض دوسری رویات سے جو سنن بیہقی، مستدرک حاکم، مصنف ابن ابی شیبہ وغیرہا میں مروی ہیں  ثابت ہوتا ہے کہ حضرت علی نے سیدنا ابوبکر کی بیعت اگلے ہی دن مجمع عام میں کرلی تھی۔ گو ان روایات پر سنداً کچھ کلام بھی ہے لیکن بحیثیت مجموعی علمائے اہل سنت اسے قبول کرتے ہیں کیونکہ یہی سیدنا علی کے مجموعی کردار کے مطابق ہے۔ امام حاکم نے تو اپنی پیش کردہ روایت کو شیخین (امام بخاری ومسلم) کی شرط کے مطابق قرار دیا ہے۔

حاصل روایات جو اصحاب کرام کے پُر تقدس کردار کے عین مطابق ہے اس کا خلاصہ ہم ذیل میں پیش کر رہے ہیں

سقیفہ بنی ساعدہ کے اگلے دن سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ مسجد نبوی میں تشریف لائے مجمع عام سے خطاب کیا۔ انھوں نے مجمع پر نگاہ ڈالی، دیکھا کہ سیدنا علی نہیں ہیں انھیں بلوایا۔ سیدنا علی کو جب گھر میں  اطلاع میں ملی تو سیدنا ابوبکر کی بیعت کرنے کی غرض سے فوراً گھر سے نکل پڑے۔

ابن جریر طبری نے حبیب بن ابی ثابت سے روایت کیا ہے کہ حضرت علی اپنے گھر میں بیٹھے تھے کہ کسی نے انھیں بتایا کہ مسجد میں حضرت ابوبکر بیعت لے رہے ہیں۔ اس وقت حضرت علی نے محض ایک طویل کرتا پہنا ہوا تھا اور تہمد نہ باندھ رکھا تھا۔ آپ دیر ہو جانے کے خوف سے اٹھے اور بغیر تہمد باندھے بھاگم بھاگ مسجد میں پہنچے اور بیعت کر کے صدیق اکبر کے پاس بیٹھ گئے۔ اس کے بعد آپ نے گھر سے بقیہ لباس منگوا کر پہنا۔

علامہ أحمد بن يحيى بن جابر بن داود البلاذري (م ۲۷۹ھ) روایت کرتے ہیں

"لما بویع ابوبکر و بایعہ الناس، قام ینادی ثلاثا : ایھا الناس قد اقلتکم بیعتکم۔ فقال علی : واللہ لا نقیلک ولا نستقیلک، قدمک رسول اللہ ﷺ فی الصلاۃ، فمن ذا یؤخرک؟” (انساب الاشراف، ج ۲، ص: ۲۷۰، دار الفکر بیروت ۱۹۹۶ء)

یعنی : "جب ابو بکر رضی اللہ عنہ کی لوگوں نے بیعت کر لی تو آپ نے کھڑے ہو کر تین بار اعلان کیا : "اے لوگو! (اگر آپ چاہیں) تو میری بیعت کو ختم کر سکتے ہیں۔” علی رضی اللہ عنہ نے کہا : "اللہ کی قسم، ہم نہ تو آپ کی بیعت کو ختم کریں گے اور نہ ہی آپ کو استعفی دینے دیں گے۔ جب رسول اللہ ﷺنے نماز میں آپ کو امام بنایا تھا تو پھر کون ہے جو آپ کو پیچھے کرے۔”

رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد سیدہ فاطمہ بیمار رہنے لگی تھیں۔ سیدہ کی تیمار داری کے خیال سے سیدنا علی نے لوگوں سے کنارہ کشی اختیار کی اور ان کی معاشرتی زندگی بہت محدود ہو گئی۔ جس کی وجہ سے بعض لوگوں کو گمان ہوا کہ سیدنا علی حضرت ابوبکر کی بیعت سے خوش نہیں۔ ایک روایت کے مطابق سیدنا علی نے رسول اللہ ﷺ کے بعد قرآن کریم کو نزولی ترتیب کے اعتبار سے مرتب کرنا شروع کر دیا تھا اور اس کام میں اس درجہ منہمک ہوئے کہ ان کی معاشرتی زندگی بہت محدود ہو گئی۔ واللہ اعلم وجوہات خواہ کچھ ہی رہے ہوں لیکن حضرت علی نے یہی مناسب سمجھا کہ جو خیالات بعض لوگوں کے دلوں میں آگئے ہیں ان کا ازالہ کر دیا جائے اسی لیے دوسری بیعت بھی کی تاکہ لوگوں کے شکوک و شبہات دور ہو جائیں۔ ان روایات کی یہی تطبیق ہے جو علماء نے کی ہے جو عقل و درایت کے عین مطابق ہے۔

حضرت ابوبکر کی بیعت رسول اللہ ﷺ کے واضح ارشادات کی روشنی میں ہوئی، جب صحابہ نے جان لیا کہ یہی اللہ اور اس کے رسول کی منشا ہے تو وہ سیدنا ابوبکر کی بیعت کےلیے سبقت کرنے لگے۔ رسول اللہ کا ارشادِ گرامی ہے

"و یأبی اللّٰه و المومِنون اِلا ابا بکر۔” (صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل ابی بکر الصدیق رضی اللّٰه عنه)

یعنی : "اللہ اور مومنین ابوبکر کے سوا کسی پر راضی نہ ہوں گے۔”

سیدنا علی تو یکے از ائمہ اہل ایمان ہیں وہ کیونکر سیدنا ابوبکر سے راضی نہ ہوتے ؟

امام ابن تیمیہ لکھتے ہیں

"وقد علم بالتواتر أنه لم يتخلف عن بيعته إلا سعد بن عبادة وأما علي وبنو هاشم فكلهم بايعه باتفاق الناس لم يمت أحد منهم إلا وهو مبايع له لكن قيل علي تأخرت بيعته ستة أشهر وقيل بل بايعه ثاني يوم وبكل حال فقد بايعوه من غير إكراه۔” (منہاج السنۃ، ج ۸، ص ۲۳۲، موسسۃ القرطبۃ قاہرہ)

یعنی : "بلاشبہ تواتر سے علم ہوتا ہے کہ کوئی بھی حضرت ابوبکر کی بیعت سے پیچھے نہیں رہا، سوائے سعد بن عبادہ کے۔ جب کہ سیدنا علی اور تمام بنو ہاشم نے بیعت کی۔ لوگوں کا اس پر اتفاق ہے کہ ان میں سے کوئی ایسا نہیں جس نے اس حالت میں وفات پائی ہو کہ اس نے حضرت ابوبکر کی بیعت نہ کی ہو۔ لیکن کہا گیا ہے کہ سیدنا علی نے چھ ماہ کی تاخیر سے بیعت کی، اور یہ بھی کہا گیا کہ انھوں نے دوسرے ہی دن بیعت کرلی تھی۔ بہر حال ان سب نے بلا اکراہ بیعت کی۔”

امام ابن کثیر لکھتے ہیں

"و قد اتفق الصحابۃ رضی اللہ عنھم علی بیعۃ الصدیق فی ذٰلک الوقت، حتی علی بن ابی طالب و الزبیر بن العوام رضی اللہ عنھما۔” (البدایۃ والنھایۃ، ص : ۱۰۰۶، بیت الافکار الدولیۃ لبنان)

یعنی : "بلاشبہ تمام صحابہ نے بیعت صدیق  پر اسی وقت اتفاق کیا، حتیٰ کہ علی بن ابی طالب اور زبیر بن عوام نے بھی۔”

رسول اللہ ﷺ کا ترکہ

صحیح بخاری میں سیدہ عائشہ صدیقہ سے روایت ہے

"أن فاطمة والعباس أتیا أبابکر یلتمسان میراثهما من رسول الله ﷺ وهما یومئذ یطلبان أرضیهما من فدك وسهمه من خیبر فقال لهما أبوبکر سمعت رسول الله ﷺ یقول: لا نورث ما ترکنا صدقة، إنما یأکل آل محمد من هذا المال قال أبوبکر: والله لا أدع أمرا رأیت رسول الله ﷺ یصنعه إلا صنعتُه. قال: فهجرته فاطمة فلم تكلمه في ذلك حتي ماتت۔” (صحیح البخاري، کتاب الفرائض، باب قول النبي ﷺ لا نورث ما ترکنا صدقة۔ صحیح مسلم، کتاب الجهاد، باب حکم الفيء)

"حضرت فاطمہ اور حضرت عباس  دونوں (رسول اللہﷺ کی وفات کے بعد) ابوبکر صدیق کے پاس آئے آپﷺ کا ترکہ مانگتے تھے۔ یعنی جو زمین آپ کی فدک میں تھی اور جو حصہ خیبر کی اَراضی میں تھا، وہ طلب کر رہے تھے۔ حضرت ابوبکر نے جواب دیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ ﷺ نے فرمایا: ہم (انبیاء) جو کچھ چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے۔ البتہ بات یہ ہے کہ محمد ﷺ کی آل اس مال سے کھاتی پیتی رہے گی۔ ابوبکر نے یہ بھی فرمایا: اللہ کی قسم میں نے رسول اللہ ﷺ کو جو کام کرتے دیکھا، میں اسے ضرور کروں گا، اُسے کبھی نہیں چھوڑوں گا۔ سیدہ عائشہ فرماتی ہیں: اس کے بعد سیدہ فاطمہ چلی گئی اور پھر اس پر بات نہیں کی یہاں تک کہ ان کی وفات ہوگئی۔”

رسول اللہ ﷺ کا ترکہ صدقہ ہوگا یہ محض سیدنا ابوبکر کی روایت نہیں ہے۔ اسے صحابہ کرام  کی ایک جماعت نے روایت کیا ہے جن میں  ام المومنین عائشہ صدیقہ، سیدنا عمر، سیدنا عثمان، سیدنا علی، حضرت عبد الرحمن بن عوف، حضرت زبیر بن عوام، حضرت سعد بن ابی وقاص، حضرت ابو ہریرہ، حضرت حذیفہ اور حضرت عباس رضی اللہ عنھم شامل ہیں۔ چند روایات ملاحظہ ہوں

1- سیدنا مالک بن اوس بیان کرتے ہیں
"حَتَّى دَخَلْتُ عَلَيْهِ فَسَأَلْتُهُ فَقَالَ: انْطَلَقْتُ حَتَّى أَدْخُلَ عَلَى عُمَرَ، فَأَتَاهُ حَاجِبُهُ يَرْفَأُ فَقَالَ: هَلْ لَكَ فِي عُثْمَانَ، وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ، وَالزُّبَيْرِ، وَسَعْدٍ؟ قَالَ: نَعَمْ، فَأَذِنَ لَهُمْ، ثُمَّ قَالَ: هَلْ لَكَ فِي عَلِيٍّ، وَعَبَّاسٍ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ عَبَّاسٌ: يَا أَمِيرَ المُؤْمِنِينَ اقْضِ بَيْنِي وَبَيْنَ هَذَا، قَالَ أَنْشُدُكُمْ بِاللہ الَّذِي بِإِذْنِهِ تَقُومُ السَّمَاءُ وَالأَرْضُ، هَلْ تَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ االلہ ﷺ قَالَ: لاَ نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ. يُرِيدُ رَسُولُ اللہ ﷺ نَفْسَهُ، فَقَالَ الرَّهْطُ: قَدْ قَالَ ذَلِكَ، فَأَقْبَلَ عَلَى عَلِيٍّ وَعَبَّاسٍ، فَقَالَ: هَلْ تَعْلَمَانِ أَنَّ رَسُولَ اللہ ﷺ قَالَ ذَلِكَ؟ قَالاَ: قَدْ قَالَ ذَلِكَ. (صحیح البخاری، کتاب الفرائض، باب :قَوْلِ النَّبِيِّ ﷺ "لاَ نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَة”)

یعنی : "میں حضرت عمر کی خدمت میں  حاضر ہوا۔ ان کا دربان یرفا ان کے پاس آیا اور کہا : حضرت عثمان، حضرت عبد الرحمن، حضرت زبیر اور حضرت سعد آپ کے پاس آنا چاہتے ہیں کیا بھیج دوں ؟ سیدنا عمر : ہاں انھیں آنے دو۔ چنانچہ انھیں اندر آنے کی اجازت دی گئی۔ ان کے دربان نے پھر کہا کہ کیا حضرت علی اور حضرت عباس کے لیے بھی یہی حکم ہے ؟ فرمایا : ہاں۔ (جب سب تشریف لے آئے تو) حضرت عباس نے کہا : امیر المومنین ! میرے اور اس (سیدنا علی) کے درمیان فیصلہ کر دیجیے ؟ سیدنا عمر نے فرمایا : میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں جس کے حکم سے آسمان و زمین قائم ہے۔ کیا تمہیں معلوم ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہماری وراثت تقسیم نہیں ہوتی، جو کچھ ہم چھوڑیں وہ سب اللہ کی راہ میں صدقہ ہوتا ہے۔ اس سے مراد خود رسول اللہ ﷺ کی ذات گرامی تھی۔ وہاں موجود تمام حضرات نے کہا : ہاں، رسول اللہ ﷺ نے ایسا ہی کہا ہے۔پھر سیدنا عمر، حضرت علی اور حضرت عباس کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا : کیا تمہیں علم کے کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ فرمایا تھا ؟ انھوں نے کہا : آپ ﷺ نے ضرور ایسا فرمایا تھا۔”

2- سیدنا ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
"لاَ يَقْتَسِمُ وَرَثَتِي دِينَارًا، مَا تَرَكْتُ بَعْدَ نَفَقَةِ نِسَائِي وَمَئُونَةِ عَامِلِي فَهُوَ صَدَقَةٌ۔” (صحیح البخاری، کتاب الفرائض، باب :قَوْلِ النَّبِيِّ ﷺ "لاَ نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَة”)

یعنی : "میرے وارث کوئی دینار تقسیم نہ کریں میں نے اپنی بیویوں کے خرچے اور عاملین کی تنخواہوں کے بعد جو چھوڑا ہے وہ صدقہ ہے۔”

3- ام المومنین عائشہ صدیقہ بیان کرتی ہیں
"أَنَّ أَزْوَاجَ النَّبِيِّ ﷺحِينَ تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺَ، أَرَدْنَ أَنْ يَبْعَثْنَ عُثْمَانَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ يَسْأَلْنَهُ مِيرَاثَهُنَّ، فَقَالَتْ عَائِشَةُ: أَلَيْسَ قَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺَ: "لاَ نُورَثُ، مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ.” (صحیح البخاری، کتاب الفرائض، باب :قَوْلِ النَّبِيِّ ﷺ "لاَ نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَة”)

یعنی : "جب رسول اللہ ﷺ وفات پا گئے تو آپ کی ازواجِ مطہرات نے ارادہ کیا کہ سیدنا عثمان کو سیدنا ابوبکر کے پاس بھیجیں تاکہ ان سے اپنی وراثت کا مطالبہ کریں۔ (اس وقت) ام المومنین عائشہ نے (انھیں یاد دلاتے ہوئے) فرمایا: کیا رسول اللہ ﷺ نے یہ نہیں فرمایا تھا : ہماری وراثت تقسیم نہیں ہوتی، ہم جو کچھ چھوڑیں وہ صدقہ ہوتا ہے۔”

بات بالکل واضح ہے سیدہ فاطمہ امیر المومنین سیدنا ابوبکر کی خدمت میں حاضر ہوئیں۔ اپنی وراثت مطالبہ کیا سیدنا ابوبکر نے انھیں رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی سنایا جسے سن کر وہ واپس تشریف لے آئیں اور پھر کبھی اس موضوع پر سیدنا ابوبکر سے کوئی بات نہیں کی۔ رسول اللہ ﷺ کے ارشاد گرامی کے بعد ایک عام مسلمان کے لیے بھی یہی حکم ہے اور اس کا یہی رویہ ہونا چاہیے اور بالکل ایسا ہی سیدہ فاطمہ نے کیا۔ لیکن بعض افسانہ طراز طبیعتیں اس پر قانع نہ رہ سکیں۔ فلم تکلمہ کا مطلب انھوں نے یہ تراشا کہ سیدہ فاطمہ حضرت ابوبکر سے ناراض ہوگئیں اور پھر زندگی بھر ان سے بات نہ کی۔

جب کہ امر واقعہ یہ ہے کہ جناب سیدہ امیر المومنین کی خدمت میں حاضر ہوئیں اپنا مدعا بیان کیا۔ سیدنا ابوبکر نے انھیں رسول اللہ ﷺ کا فرمان سنایا۔ جس پر وہ مطمئن ہوگئیں اور پھر کبھی اس موضوع پر گفتگو نہیں کی اور اس لیے کہ اس کی ضرورت ہی باقی نہیں رہی تھی۔

الزام لگانے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے وارثوں میں صدیقہ بنت صدیق بھی تھیں۔ حضرت ابوبکر نے رسول اللہ ﷺ کے ارشاد کی تعمیل کرتے ہوئے خود اپنی صاحبزادی پر بھی رسول اللہ ﷺ کی وراثت تقسیم نہیں کی۔

اس بات کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ سیدنا ابوبکر رسول اللہ ﷺ کے قبل از اسلام سے گہرے دوست تھے۔ عہدِ نبوت میں روزِ اوّل سے ان کی تصدیق کرنے والے تھے۔ قرآنی اصطلاح میں یار غار تھے اور اس اعتبار سے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے لیے بمنزلہ چچا تھے۔ سیدنا ابوبکر، سیدہ فاطمہ کی والدہ ماجدہ سیدہ عائشہ کے والد تھے اور اس اعتبار سے سیدہ فاطمہ کے لیے بمنزلہ نانا تھے۔ بایں ہمہ دنیا کا کوئی ذی ہوش اس بات سے انکار نہیں کر سکتا سیدنا ابوبکر اور سیدہ فاطمہ کے مابین احترام اور شفقت کا رشتہ تھا۔ ایسے قریبی رشتوں کی لاج تو عام اخلاق کے لوگ بھی نبھا لیتے ہیں۔ سیدہ فاطمہ کا مقام تو بہت بلند ہے۔ ایک شیعی روایت کے مطابق سیدنا ابوبکر نے اپنی تمام جائیداد بنت رسول کے سامنے رکھ دی کہ جو چاہیں لے لیں۔ (حق الیقین بحوالہ نصیحۃ الشیعہ از قاضی احتشام الدین مراد آبادی، ج ۱، ص: ۱۰۳)

جناب سیدہ جب بیمار پڑیں تو زوجہ صدیق اسماء بنت عمیس نے ان کی تیمار داری کی اور جب جناب سیدہ نے وفات پائی تو سیدنا ابوبکر نے ان کا جنازہ پڑھایا۔

بایں ہمہ جو منفی افسانے تراشے گئے ان کی بنا پر یہ دعویٰ کیا گیا کہ سیدنا علی نے بھی حضرت فاطمہ کی زندگی میں حضرت ابوبکر کی بیعت نہیں کی اور ان کی مجلس سے دور رہے۔ لیکن جیسا کہ ذکر کیا جا چکا ہے حضرت علی نے دوسرے ہی دن مجمع عام میں بخوشی سیدنا ابوبکر کی بیعت کی تھی۔ رسول اللہ ﷺ کے ترکے کے مسئلے پر حضرت ابوبکر کے اس فیصلے کی صداقت کا اندازہ اس امر سے بھی بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ سیدنا علی نے اپنے عہدِ خلافت میں بھی اسی طریقے کی پیروی کی جو سیدنا ابوبکر و عمر نے ان کے لیے چھوڑا تھا۔

سیدنا علی المرتضیٰ کے پڑ پوتے اور سیدنا حسین کے پوتے امام زید بن علی بن حسین بن علی (م ۱۰۱ھ) فرماتے ہیں

” أَمَّا أَنَا فَلَوْ كُنْتُ مَكَانَ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ لَحَكَمْتُ بِمِثْلِ مَا حَكَمَ بِهِ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ فِي فَدَكٍ "(سنن البیہقی، کتاب قسم الفئ والغنیمۃ، باب : بَابُ بَيَانِ مَصْرِفِ أَرْبَعَةِ أَخْمَاسِ الْفَيْءِ بَعْدَ رَسُولِ اللهِ ﷺ)

یعنی : "اگر میں ابوبکر کی جگہ ہوتا تو فدک کے معاملے میں وہی فیصلہ دیتا جو ابوبکر نے دیا تھا۔”

شہادت عثمان رضی اللہ عنہ

سیدنا عثمان غنی کی شہادت تاریخ کے المناک ترین سانحات میں سے ایک ہے۔ سیدنا عثمان خلیفہ بنے اور حضرت علی ان کے قریب ترین مشیر۔ خلفائے ثلاثہ میں حضرت عثمان کے ساتھ حضرت علی کا سب سے قریبی رشتہ تھا۔ دونوں کو دامادِ رسول ہونے کا شرف حاصل تھا۔ دونوں کی باہمی الفت و محبت پر مبنی متعدد روایات کتب تاریخ کا حصہ ہیں۔

جب سیدنا عثمان کے آخری برسوں میں ان کے خلاف سازشوں کا دور دورہ تھا تو سیدنا علی  ہی ان کے اہم ترین معاون تھے۔ جب پہلی بار باغی سیدنا عثمان کے خلاف مدینہ طیبہ میں  مظاہرہ کرنے ارادے سے آئے تو حضرت عثمان نے حضرت علی کو اپنا وکیل بنا کر بھیجا۔ مولانا سید ابو الحسن علی ندوی لکھتے ہیں

"حضرت عثمان نے حضرت علی سے کہا کہ وہ مدینہ سے باہر جا کر ان لوگوں سے ملیں اور ان کے مدینہ منورہ میں داخل ہونے سے پہلے ہی ان کے اپنے ملک کو واپس کر دیں، اور کہا جاتا ہے کہ حضرت عثمان نے لوگوں کو اس کام کے لیے آمادہ کیا تو حضرت علی (بطور خود) اس مہم کے لیے تیار ہو گئے، حضرت عثمان نے ان کو اس کے لیے مقرر کیا، ان کے ساتھ معززین کی ایک جماعت بھی روانہ ہو گئی۔ حضرت علی نے حُجفہ کے مقام پر ان لوگوں کو پا لیا، یہ لوگ حضرت علی  کا بڑا احترام کرتے تھے، اور ان کے معاملہ میں کچھ مبالغہ سے کام لیتے تھے، حضرت علی نے ان کو سخت سست کہا اور لوٹا دیا، وہ لوگ آپس میں  آپ اپنے اوپر ملامت کرنے لگے، اور حضرت علی  کی طرف اشارہ کر کے کہا یہی ہیں، جن کی خاطر ہم امیر کے خلاف جنگ کرنے پر آمادہ ہیں، اور ان کے بارے میں دلائل پیش کرتے ہیں ؟ حضرت علی نے دریافت کیا کہ تم لوگوں کو حضرت عثمان بن عفان سے کیا شکایت ہے، ان لوگوں نے اپنے اعتراضات بیان کیے، حضرت علی نے ان کا جواب دیا اور حضرت عثمان کی طرف سے ان باتوں کی تاویل کی اور اسباب بتائے، اور ان کو کسی طرح لوٹا دیا۔ وہ لوگ اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہو سکے اور ناکام اپنے ملک واپس گئے۔ حضرت علی، حضرت عثمان کے پاس واپس آئے اور ان کو بتایا کہ وہ لوگ واپس گئے، اس موقع پر حضرت علی نے مصلحت کے تقاضوں کے مطابق مشورے بھی دیئے، حضرت عثمان نے ان کے مشوروں کو توجہ سے سنا اور ان کا خیر مقدم کیا۔” (المرتضیٰ، ص : ۲۱۳-۲۱۴)

جو لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ سیدنا علی سیدنا عثمان کے خلاف ہونے والی بغاوتوں میں بطور سازش کار شریک تھے وہ بلا شبہ بہت بھاری دعویٰ ہے جو کرتے ہیں اور ایک بہتانِ عظیم ہے جو زبان رسالت مآب سے جنتی قرار پانے والے صحابی رسول پر لگاتے ہیں۔ قاضی ابوبکر ابن العربی لکھتے ہیں

"اب جاہل اور مردود لوگ یہ بھی کہنے لگے ہیں کہ تمام اکابر صحابہ بلوائیوں کو بھڑکانے اور جمع کرنے میں شامل تھے اور جو کچھ حضرت عثمان پر گزری اس پر خوش تھے اور اس پر کتابیں لکھی گئیں جن میں اس چیز کی وضاحت ہے اور حضرت عثمان کے (خلاف) خطوط لکھے گئے ہیں اور حضرت علی کی طرف منسوب کیا گیا ہے اور یہ سب مصنوعی چیزیں ہیں اور ان کا مقصد صرف یہ ہے کہ خلفائے راشدین اور سلف صالحین کے متعلق مسلمانوںکے دلوں کو گرم کریں۔” (العواصم من القواصم، اردو ترجمہ : مولانا محمد سلیمان کیلانی، ص ۲۳۴- ۲۳۵)

جب باغیوں نے سیدنا عثمان کے گھر کا محاصرہ کر لیا تو حضرت علی نے بار بار حضرت عثمان سے باغیوں کا مقابلہ کرنے کی اجازت مانگی۔ لیکن سیدنا عثمان نے نہ صرف حضرت علی بلکہ تمام افراد کو مدافعت سے روک دیا۔ سیدنا عثمان نے واشگاف الفاظ میں فرمایا

"میں ہر اس آدمی کو اللہ کی قسم دے کر حکم دیتا ہوں جو میری اطاعت کو اپنے اوپر لازم سمجھتا ہے کہ وہ اپنے ہاتھوں اور اسلحہ کو روک لے۔” (العواصم من القواصم، ص : ۲۳۶)

جب باغیوں نے حملہ کیا تو حضرت حسن ان سے لڑتے ہوئے سخت زخمی ہوئے۔ (انساب الاشراف، ج ۶، ص : ۲۱۷، دار الفکر بیروت ۱۹۹۶ء)

آخر کار سیدنا عثمان شہید کر دیئے گئے، مدینہ منورہ پانچ دن تک باغیوں کے زیر تسلط رہا۔ ایسے میں لوگ اس خلیفہ کی تلاش میں تھے جو امت کو اس بحران سے نکالے اور اس کا شیرازہ منتشر ہونے سے بچائے۔ قاضی ابوبکر باقلانی لکھتے ہیں

"وعرض هذا الأمر على علي رضی اللہ عنہ والتمس منه وآثره المصريون فامتنع عليهم وأعظم قتل عثمان وأنشأ يقول:
ولو أن قومي طاوعتني سراتهم
أمرتهم أمرا يديخ الأعاديا
ولزم بيته.” (تمھید الاوئل وتلخیص الدلائل، ص: ۵۴۸، بیروت ۱۹۸۷ء)

یعنی: "اہلِ فتنہ نے علی کے سامنے خلافت پیش کی ان سے عاجزا نہ درخواست کی، بلکہ مصریوں نے تو ان پر دبائو تک ڈالا، مگر وہ اس سے باز رہے، انکار کر دیا اور قتلِ عثمان کو مصیبتِ عظمیٰ قرار دے کر فرمایا
ولو أن قومي طاوعتني سراتهم
أمرتهم أمرا يديخ الأعاديا
"کاش میری قوم کے سرات نے میری بات مان لی ہوتی تو میں نے ان کو ایسی بات بتائی تھی جو دشمنوں کو جڑ سے اکھاڑ کے پھینک دیتی۔”
اور یہ کہہ کر وہ اپنے گھر کے اندر بند ہو گئے۔”

قاضی ابوبکر ابن العربی لکھتے ہیں

"پھر جب اللہ کا لکھا پورا ہو گیا اور خدا کی تقدیر نافذ ہو گئی تو سب کو معلوم ہونے لگا کہ لوگوں کو بے امام نہیں چھوڑا جا سکتا۔ اب خلقت کسی ایسے خلیفہ کی محتاج ہے جس کی نظر دور رس ہو اور وہ اس کی اطاعت کریں اور پھر تین خلیفوں کے بعد چوتھے خلیفہ جیسا قدر و منزلت، دین اور پرہیز گاری میں  اور کوئی نہ تھا۔ چنانچہ ان کے ہاتھ پر بیعت ہوئی اور اگر حضرت علی کی بیعت جلدی سے نہ کر لی جاتی تو اوباش لوگ اتنا بگاڑ پیدا کر دیتے جس کو درست نہ کیا جا سکتا اور اس قدر پھاڑ دیتے جس کو سیا نہ جا سکتا۔ پھر مہاجرین اور انصار نے حضرت علی کو مجبور کیا اور کہا کہ اس وقت امت کو سنبھالنا آپ پر فرض ہے تو مجبوراً حضرت علی رضا مند ہو گئے۔” (العواصم من القواصم، ص: ۲۳۸-۲۳۹)

سیدنا علی پر ایک نہایت کریہہ الزام یہ عائد کیا جاتا ہے کہ وہ قتل عثمان میں شریک تھے۔ ہمارے لیے تو یہی کہہ دینا کافی ہے کہ ھذا افک مبین۔ ہماری ایمانی غیرت ایک لمحہ کے لیے بھی یہ تصور نہیں کر سکتی کہ سیدنا علی، سیدنا عثمان کے واقعہ شہادت میں کسی بھی نوع سے شریک ہو سکتے ہیں اور نہ ہی اصحاب رسول نے کبھی سیدنا علی  پر ایسا کوئی الزام عائد کیا۔ امام ابن سیرین فرماتے ہیں

"لقد قتل عثمان یوم قتل وما احد یتھم علیا فی قتلہ۔” (الانساب الاشراف، ج ۶، ص: ۲۲۳)

یعنی: "حضرت عثمان قتل کیے گئے، قتل والے دن، اور کسی نے بھی سیدنا علی پر ان کے قتل کا الزام عائد نہیں کیا۔”

خود سیدنا علی فرماتے ہیں

"اللھم العن قتلۃ عثمان فی البر و البحر۔” (تمہید الاوائل و تلخیص الدلائل، ص: ۵۵۵)

یعنی: "اے اللہ ! بر و بحر میں قاتلین عثمان پر لعنت ہو۔”

شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے "ازالۃ الخفاء” میں لکھا ہے

"حسن نے کہا کہ میں علی کے پاس جنگِ جمل کے دن موجود تھا۔ وہ ایسا کہہ رہے تھے۔ یا اللہ میں آپ کے سامنے عثمان کے خون سے اپنی براءت کا اظہار کرتا ہوں اور جس دن عثمان قتل ہوئے میری عقل بیکار ہو گئی اور میرا نفس متغیر ہو گیا تھا اور لوگوں نے مجھ سے بیعت کا ارادہ کیا تو میں نے کہا کہ خدا کی قسم مجھے اللہ سے حیا آتی ہے کہ میں اس قوم سے بیعت لوں جس نے اس شخص کو قتل کیا جس کے حق میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا کہ میں اس سے شرم نہ کروں جس سے ملائکہ بھی شرم کرتے ہیں تو مجھے بھی اللہ سے حیا آتی ہے کہ میں لوگوں سے بیعت لوں اور عثمان زمین پر مقتول پڑے ہوئے ہوں، ابھی دفن بھی نہ ہوئے ہوں تو لوگ واپس ہو گئے۔” (ازالۃ الخفاء عن خلافۃ الخلفاء، اردو، ص: ۳۵۵-۳۵۶، قدیمی کتب خانہ کراچی)

بیعت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ

شہادت عثمان ایک المیہ تھا جس کا ازالہ نہ کیا جا سکتا تھا، اور نہ انسانی طاقت کے دائرہ اختیار ہی میں تھا کہ اس کا ازالہ کر سکے۔ ایک ایسا درد تھا جس کی کسک لازوال تھی۔ لیکن امت کو باغیوں کے سپرد نہیں کیا جا سکتا تھا۔ شہادت عثمان کے بعد حضرت علی بالاتفاق امت کے افضل ترین فرد تھے۔ اصولی طور پر سب سے پہلے ان ہی کی جانب نگاہِ امید کا اٹھنا یقینی تھا۔ حضرت عثمان کی خلافت کے انعقاد کے وقت ان کے بعد حضرت علی ہی امت کے متفقہ امیدوارِ خلافت تھے۔ رسول اللہ ﷺ جب غزوئہ تبوک کے موقع پر اپنے کبار اصحاب کے ساتھ تشریف لے گئے تو اپنے پیچھے مدینہ میں حضرت علی کو جانشین بنا گئے۔ سیدنا عمر جب ذمیوں سے معاہدے کی غرض سے فلسطین تشریف لے گئے تو انھوں نے سیدنا علی کو مدینہ میں اپنا جانشین بنایا۔ اپنی زندگی کے آخری ایام میں جن چھے افراد کو سیدنا عمر نے خلافت کے لیے نامزد کیا ان میں سیدنا علی بھی شامل تھے۔ یہ وہ امور تھے جو اصحاب کرام سے پوشیدہ نہ تھے۔ سیدنا عثمان غنی کی شہادت کے بعد خلافت کے لیے لوگوں کی پہلی نظر حضرت علی پر ہی اٹھی اس کے بعد حضرت طلحہ و حضرت زبیر سے قبولِ خلافت کی استدعا کی گئی۔ ایک روایت میں حضرت سعد بن ابی وقاص سے بھی قبول خلافت کی درخواست کا ذکر ملتا ہے اور یہ چاروں وہ افراد ہیں جو عشرہ مبشرہ کے رکن اور حضرت عمر کے نامزد کردہ ہیں۔ گویا امر خلافت اس وقت کے امت کے بہترین افراد ہی میں محصور سمجھی گئی لہٰذا یہ کیسے تصور کیا جا سکتا ہے کہ حضرت علی کی خلافت منعقد نہیں ہوئی ؟

بعض لوگوں نے تحقیق کے نام پر سیدنا علی کے انعقادِ خلافت ہی سے انکار کر دیا۔ یہ ایک تفریط ہے جو ان کے حوالے سے کیا جاتا ہے۔ علامہ باقلانی نے "تمہید الاوائل و تلخیص الدلائل” میں اس پر نفیس کلام کیا ہے (5)۔

جنگ جمل و صفین

حضرت علی کے عہدِ خلافت میں جو المناک حادثے رونما ہوئے ان میں جنگ جمل و صفین کا شمار نمایاں طور پر کیا جاتا ہے جس میں صحابہ کرام کے باہمی مشاجرات ہوئے اور جس کے نتیجے میں  کبار صحابہ کی شہادت واقع ہوئی۔ لیکن ان مشاجرات کو اس کے صحیح پسِ منظر میں دیکھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس عہد کے تناظر میں مختلف گروہوں کی تخریبی کارروائیوں اور ان کے اغراض و مقاصد کا جائزہ لیا جائے۔

رسول اللہ ﷺ کے وفات کے بعد فتنہ ارتداد بپا ہوا حضرت ابوبکر نے اسے سختی سے کچل دیا۔ سیدنا عمر نے رسول اللہ ﷺ کی وصیت کے مطابق یہودیوں کو جزیرہ عرب سے نکال باہر کیا، جس کا موقع سیدنا ابوبکر کو نہیں مل سکا تھا۔ حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنھما تاریخ کی طاقت ور ترین شخصیتیں تھیں ان کی موجودگی میں کوئی فتنہ سر نہ اٹھا سکا اور جس نے سر اٹھایا اسے انھوں نے اپنی جرات ایمانی کی بدولت سختی سے کچل کر رکھ دیا۔ حضرت عمر  کی شہادت کے بعد ہی فتنوں کا وہ دروازہ کھلا جسے بند نہیں کیا جا سکا۔ سیدنا صدیق اکبر نے رومی سلطنت سے ٹکر لی اور اس کا خاتمہ کر دیا جب کہ عہد فاروقی میں ایران کی مجوسی حکومت کا شیرازہ منتشر کر دیا گیا۔ یہ دونوں وقت کی بڑی طاقتیں تھیں جو اسلام کے سامنے سرنگوں ہو گئیں۔ شہادت فاروقِ اعظم کے بعد ہی مرتدینِ عرب کی باقیات، یہود و نصاریٰ اور مجوسی اتحاد اسلام کے خلاف عمل میں آیا۔ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف یہ سب متحد ہو گئے۔ ڈاکٹر عبد الصبور مرزوق اپنی کتاب "الغزو الفکری، اھدافہ و وسائلہ” میں لکھتے ہیں

"تاریخی طور پر جو باتیں ثابت ہیں ان میں ایک یہ بھی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد ہی جزیرے کے جنوب میں جو ارتداد کی حرکت ظہور میں آئی تھی اسی کی شکست خوردہ ٹکڑیاں کوفے کی جانب بھاگ نکلی تھیں اور وہاں جا کر مقیم ہوگئی تھیں جہاں وہ اپنی نئی حرکتوں اور فتنہ انگیزیوں کے طریقے تلاش کرتی رہیں اور پھر کوفہ بہت سے نئے واقعات و حوادث کا اکھاڑہ بن گیا۔ اور یہ معلوم ہے کہ بعض وہ لوگ جو علی رضی اللہ عنہ کے لیے اپنے شدید جوش و خروش اور شجاعت و حماست کا اظہار کرتے رہتے تھے انھوں نے ان حوادث کو بڑھانے اور ان کے الٹ پھیر میں حصہ لیا جو "یوم صفین” کے واقعات تک پہنچے اور یہی لوگ تھے جنھوں نے حضرت علی کو وہ کچھ قبول کرنے پر مجبور کیا جو کسی طرح قبول کرنے کی چیز نہ تھی۔ یعقوبی نے اپنی تاریخ میں واقعہ جمل کا تذکرہ کیا ہے تو یہ بھی بیان کیا ہے کہ” نصاریٰ نے بھی حضرت علی کی طرف سے قتال کیا تھا۔” (6)۔

اور یہ بھی ثابت ہے جیسا کہ شہرستانی نےاپنی کتاب "الملل و النحل” میں کہا ہے کہ” عبد اللہ بن سبا کا کردار تخریبی تھا اور جو مظاہرہ اس نے کیا ہے اسی دلیل سے یہ ثابت ہے کہ وہ اس کا اپنا وضع کردہ تھا مگر اس کے بعد بھی اس کی جماعت "السبئیہ” نے حضرت علی کی حمایت میں جوش و خروش کی وہی شدت، اس گمان میں دکھائی کہ وہ الہ ہیں۔ ایک مرتبہ خود ابن سبا نے حضرت علی سے کہا تھا کہ "انت انت” (آپ تو آپ ہی ہیں) یعنی آپ الہ ہیں۔ جس پر حضرت علی نے اس کو نکال دیا تھا، مدائن کی طرف جلا وطن کر دیا تھا۔”
پھر علی رضی اللہ عنہ نے جب اس دنیا سے کوچ کیا تو ابن سبا نے یہ اعلان کیا کہ وہ زندہ ہیں مرے نہیں ہیں ، ان کے اندر جو الوہیت کا پہلو ہے اس کو موت نہیں ہے۔ اور وہی ہیں جو بدلیوں کے اندر آتے ہیں اور یہ جو کڑکا یا گرج ہے وہ انھیں کی آواز ہے اور یہ جو برق کی چمک ہے وہ ان کا تبسم ہے، وہ عنقریب زمین پر اتریں گے اور اسی قدر اس کو عدل سے بھر دیں گے جس قدر وہ جَور سے بھر دی گئی ہے …..اور اسی طرح کی مزید بے بنیاد باتیں۔
ابن سبا اور اس کے جیسوں کے بارے میں جو کچھ ابن جریر الطبری نے اپنی تاریخ میں بیان کیا ہے وہ بھی ان باتوں میں سے ہے جن سے با خبر رہنا واجب ہے۔ طبری نے لکھا ہے کہ "عبد اللہ بن سبا یہودی تھا اور صنعائے یمن کے لوگوں میں سے تھا۔ حضرت عثمان کے زمانے میں اسلام لایا۔ پھر بلادِ مسلمین میں گھومتا پھرا اور ان کو گمراہ کرنے کی تدبیریں کرتا رہا۔ اس نے حجاز کے شہروں سے ابتدا کی، پھر بصرہ چلا گیا پھر شام پہنچا لیکن جو کچھ وہ کرنا چاہتا تھا اس کے کرنے پر وہ شام میں قادر نہ ہوا۔ اہلِ شام نے اس کو نکال باہر کیا تو مصر چلا گیا، وہاں اہلِ مصر سے اس نے کہا کہ تعجب ہے کہ لوگ یہ تو مانتے ہیں کہ عیسیٰ واپس آئیں گے مگر یہ نہیں  مانتے بلکہ جھٹلاتے ہیں کہ محمدﷺ واپس آئیں گے حالانکہ اللہ عز و جل نے فرمایا ہے کہ اِنَّ الَّـذِىْ فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْاٰنَ لَرَآدُّكَ اِلٰى مَعَادٍ ۚ (القصص: ۵۵، جس خدا نے آپ پر قرآن مجید کا پڑھنا اور اس کی تبلیغ کرنا فرض کیا ہے وہ یقیناً آپ کو لَوٹنے کی جگہ لوٹا لے جانے والا ہے)۔”
پھر اس کے بعد اس نے لوگوں سے کہا اور یہ بھی طبری کا بیان ہے کہ "عثمان نے حق کے بغیر ہی خلافت پر قبضہ کر لیا اور رسول اللہﷺ کا وصی یونہی بیٹھا ہے – یعنی حضرت علی – لہٰذا اٹھو اس معاملے میں اور اسے حرکت میں لائو، اپنے امراء پر طعن کرکے علی رضی اللہ عنہ کی تائید کرو اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا اظہار کرو تاکہ لوگوں کو مائل کر سکو۔”
یہ تدبیر کامیاب ہوئی اور جیسا کہ معلوم ہے یہ کارروائی خلیفہ راشد ذی النورین کی شہادت تک کھینچ لے گئی اور اس سے بھی قبل اس نے فتنہ کبریٰ کی وہ آگ بھرکائی جس کے آثار کا سامنا ہمیں آج تک برابر ہوتا رہا ہے۔
پھر غالی شیعوں میں سے ایک فرقہ کاملیہ سامنے آیا، جو تمام صحابہ کی تکفیر کرتا رہا (نعوذ باللہ) اور اس بنیاد پر کہ اس کے گمان کے مطابق ان لوگوں نے علی کی بیعت نہیں کی تھی ؟ پھر اس کے بعد یہ لوگ خود علی کی تکفیر اس بنا پر کرنے لگے کہ ان کے گمان میں حضرت علی نے اپنا حق خلافت چھوڑ دیا اور الگ بیٹھے رہے۔
ظاہر ہے کہ ان تمام معاملات کا اصرار اس پر تھا کہ مسلمانوں کے اندر فتنہ برپا ہو، اور مزید اصرار اس پر تھا کہ یہ فتنہ موروثی ہو کر آگے بڑھتا رہے اور اس کو مذہب اور عقیدے کی صورت حاصل ہو جائے خواہ اس مذہب مزعوم کو مستحکم کرنے میں وہ اس حال کو پہنچ جائیں کہ رسول اللہ ﷺ کے بارے میں  جھوٹ تک بولیں اور وہ باتیں تک حضورﷺ کی جانب منسوب کریں جو حضورﷺ نے نہیں کہی تھیں یہ سب کچھ اس لیے تھا کہ ان کا تخریبی منصوبہ کسی طرح اپنی غایت کو پہنچے۔
تو کیا کسی عقلمند کی عقل ایسی موجود ہے جو اس کو قبول کرے کہ اس قسم کی حرکات کی پشت میں جو جذبہ تھا وہ سچ مچ عرفانِ حق اور نِشدانِ حقیقت کا جذبہ تھا ؟ نا ممکن ، محال۔
یہ ساری حرکتیں اسلام کے خلاف تلخ ترین حقد و حسد اور عداوت کا نتیجہ تھیں۔
اس حقد و حسد نے اور بغض و عناد نے عرب کی مشہور عصبیتوں کو، یہودِ خیبر کی باقیات کو اور یوم احزاب کی اولاد کو باہم ملا جلا کر ایک اشتراک پیدا کر دیا تھا جس میں ان حکومتوں کے بچے کھچے افراد بھی شامل ہو گئے جن کی بنیادیں اسلام کی وجہ سے متزلزل بلکہ مسمار ہوگئی تھیں اور ان کی آتشِ فروزاں سرد ہو گئی تھی۔ یہی لوگ تھے جو مل جل کر، ایک دوسرے   ۔سے مربوط و منسلک ہوکر، انتقام کی غرض سے اٹھے اور اٹھتے رہے (7)۔

اس پس منظر سے یہ بخوبی سمجھا جا سکتا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف ہمہ جہت تخریبی کارروائیاں کی گئیں ان کے دشمنوں کے مختلف چہرے تھے جو مختلف نقاب کے پردوں میں مستور تھے جنھیں پہچاننا آسان نہ تھا۔

جنگِ جمل کے بارے میں تو ہمیں یقین ہے کہ یہ سیدنا علی المرتضیٰ اور ام المومنین عائشہ و حضرات طلحہ و زبیررضی اللہ عنھم کے مابین کوئی جنگ ہی نہیں تھی، بلکہ باغیانِ خلافت اسلامیہ کی بھڑکائی ہوئی آگ تھی جس نے کتنے ہی پاکیزہ نفوس کو جھلسا دیا۔ سیدہ عائشہ اور حضرات طلحہ و زبیر جنگ کے ارادے سے نہیں آئے تھے ان کا مطالبہ محض قصاص عثمان کا تھا۔ ظاہر ہے حضرت علی بھی باغیانِ خلافت سے نپٹنا چاہتے تھے اس لیے ام المومنین اور خلیفۃ المسلمین کے مابین تمام معاملات طے پا گئے اور قصاص لینے پر اتفاق ہو گیا۔ باغیوں کے لیے یہ گویا موت کی خبر تھی۔ چنانچہ رات کی تاریکی میں انھوں نے جنگ کی آگ بھڑکا دی۔ جب تک اس سازش کا ادراک ہوا ایک بڑی تعداد جام شہادت نوش کر چکی تھی جن میں بعض کبار صحابہ بھی شامل تھے۔ عشرہ مبشرہ کے دو رکن حضرات طلحہ و زبیر بھی اسی سازش کا شکار ہوئے اور مرتبہ شہادت کو پہنچے۔

جنگ جمل کے بعد سازشی گروہوں نے افواہ سازی کا میدان گرم کیا۔ جن لوگوں نے حضرت عثمان، حضرت علی اور ام المومنین عائشہ صدیقہ کے نام سے جھوٹے خطوط لکھے ان کے لیے جنگ جمل کے جھوٹے افسانے تراشنا کون سے بڑی بات تھی۔ جنگ جمل کے بعد جنگ صفین ہوئی۔ بقول مولانا ابو الحسن علی ندوی

"جنگ جمل کی مثال ایک ایسے پانی کی ہے جس میں اُبال آیا اور ختم ہو گیا لیکن جو جنگ حضرت علی اور حضرت معاویہ کے درمیان تھی، وہ دو متوازی اصول کی جنگ تھی، دو عظیم لشکروں اور جنگی طاقتوں کا ٹکرائو تھا۔” (المرتضیٰ، ص: ۲۴۶-۲۴۷)

شہادت عثمان سے جنگ صفین تک اپنی بھڑکائی ہوئی آگ کو لے جانا ان سازشی عناصر – جن کی نشاندہی گزشتہ سطور میں کی گئی – کی غیر معمولی کامیابی تھی۔ جنگ صفین کے نتیجے میں تحکیم ہوئی اور واقعہ تحکیم کے نتیجے میں فرقہ خوارج کا ظہور ہوا جن کی زبانیں تکفیر کے حکم میں بے لگام تھیں، اور اسی خارجی فتنے کے ایک پروردہ ابن ملجم نے سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کو شہید کیا۔

مشاجرات صحابہ کے بارے میں اہل سنت و الجماعت کا موقف یہی ہے کہ یہ سب حق پر تھے، ان کے خلاف زبان طعن کو دراز کرنا جائز نہیں۔ علامہ ابن خلدون لکھتے ہیں

"اگر تم نگاہِ انصاف سے دیکھو تو تمہیں حضرت عثمان کے بارے میں اور آپ کے بعد صحابہ میں جو اختلافات پیدا ہوئے ان میں صحابہ  کو مجبور ہی ماننا پڑے گا اور یقین کرنا پڑے گا کہ ایک ایسا فتنہ جس سے اللہ نے اس امت کو آزمایا تھا اور اس وقت ابھرا تھا جب اللہ نے مسلمانوں کے ہاتھوں ان کے دشمنوں کا استیصال فرما دیا تھا اور دشمنوں کے علاقے ان کے قبضے میں دے دیئے تھے۔” (مقدمہ ابن خلدون، ج ۲، ص: ۲۸، اردو ترجمہ : مولانا راغب رحمانی، نفیس اکیڈمی کراچی ۱۹۸۶ء)

حرف آخر

افراط و تفریط سے گریز کرتے ہوئے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں اعتدال کے ساتھ عقیدہ رکھنا ہی اہل سنت و الجماعت کا اجماعی مؤقف ہے۔ سیدنا علی سے بد گمان ہونا یا ان کی شخصیت میں غلو کرنا دونوں ہی ضلالت و گمراہی کا سبب ہیں۔ سیدنا علی المرتضیٰ کی ذات گرامی سے وابستہ عقیدہ حق و باطل میں خط امتیاز کھینچتا ہے۔

یہ تمام اصحابِ رسول بارگاہِ رسالت کے فیض یافتہ تھے اور سب ہی اپنی مثال آپ تھے اور آپس میں رحماء بینھم کی عملی تفسیر تھے۔ جو شخص ان کے مابین مشاجرات کے پہلوئوں کو تلاش کرتا اور ان میں سے کسی ایک سے بھی بغض و حسد رکھتا ہے در حقیقت وہ ضلالت و گمراہی کا متلاشی ہے اور اپنے ایمان کو کفر کے بدلے بیچنے والا ہے۔ سلف کا مؤقف یہی تھا کہ اس امر میں خاموشی اختیار کی جائے۔

علامہ ابن حجر مکی مشاجرات صحابہ سے متعلق امام ابو حنیفہ کا مؤقف پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں

"سئل عن علی و معاویہ و قتلی صفین فقال اخاف علی اللہ عن اقدم بشئ یسئلنی عنه ولو سکت لم اسئل عنه بل عن ما کلفت به فالاشتغال به اولی.” (الخیرات الحسان فی مناقب الامام الاعظم ابی حنیفۃ النعمان، ص ۶۴، مطبع السعادۃ مصر)

"امام ابو حنیفہ سے حضرت علی اور حضرت معاویہ اور جنگ صفین کے مقتولین کے بارہ میں پوچھا گیا تو انھوں نے جواب دیا میں تو اللہ سے ڈرتا ہوں کہ اس معاملے میں کوئی ایسی بات کہہ دوں جس کے متعلق اللہ تعالی مجھ سے پوچھے اور اگر میں خاموش رہوں تو مجھ سے ان کے متعلق پوچھا نہیں جائے گا۔ مجھ سے صرف ان ہی ذمہ داریوں سے متعلق پوچھا جائے گا جن کا میں مکلف کیا گیا ہوں۔ لہٰذا مجھے اپنے ان ہی اعمال میں مشغول رہنا بہتر ہے۔”

حواشی

(1) ابن قیم لکھتے ہیں: "آپ ﷺ نے بھی ابوبکررضی اللہ عنہ کو ابراہیم علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام سے تشبیہ دی اور عمر رضی اللہ عنہ کو حضرت نوح علیہ السلام اور موسیٰ سے مشابہ بتایا۔” (زاد المعاد، ج۲، ص ۷۳۹، مترجمہ رئیس احمد جعفری، نفیس اکیڈمی کراچی)

(2) یہ ایک سرسری نظر سے ڈالاگیا عمومی جائزہ ہے۔ روایات کی تعداد میں مزید تعمق کیا جائے تو معمولی سا فرق ممکن ہے تاہم تناسب وہی ہے جو ہم نے پیش کیا۔

(3) "مولود کعبہ کون؟” کے عنوان سے ایک کتاب ہمارے معاصر بریلوی عالم قاری محمد لقمان نے لکھی ہے جس میں دلائل و نصوص کی روشنی میں واضح کیا ہے کہ صرف حکیم بن حزام ہی مولود کعبہ ہیں۔

(4) حضرت زید نے سیدنا حمزہ کو اپنا بھائی کہا کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں میں دو بار مواخات قائم کی تھی ایک بار قبل از ہجرت مہاجرین کے درمیان اور دوسری بار بعد ہجرت مہاجرین و انصار کے مابین۔ قبل از ہجرت مواخات میں سیدنا حمزہ کو سیدنا زید کا حق و مواسات کی بنیاد پر بھائی قرار دیا تھا۔ حضرت زید کا اشارہ اسی رشتے کی طرف تھا۔(زاد المعاد، ج ۲، ص ۸۷۱، ۸۷۲ مترجمہ رئیس احمد جعفری، نفیس اکیڈمی کراچی)

(5) خلافتِ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے حوالے سے علامہ باقلانی کی اس تحریر کا اردو ترجمہ مولانا حسن مثنیٰ ندوی نے کیا تھا جو ہنوز غیر مطبوعہ تھا، پہلی بار اس کی طباعت اسی اشاعتِ خاص میں کی جا رہی ہے ، تکرار کے خیال سے یہاں تفصیلی بحث نہیں کی گئی قارئین مذکورہ مضمون کی طرف رجوع کریں۔

(6) تاریخ الیعقوبی جلد دوم ص ۲۱۳ مطبوعہ یورپ، اور "حرکات الشیعہ المتطرفین” از ڈاکٹر جابر الحسینی، مطبوعہ دار المعرفہ مصر ص ۲۱۔

(7) ڈاکٹر عبد الصبور مرزوق نے یہ مقالہ "رابطہ عالمی اسلامی” کے اجلاس بمقام مکہ مکرمہ ۹۳-۱۳۹۲ھ میں پڑھا تھا، بعد ازاں یہ کتابی شکل میں بھی طبع ہوا۔ اس گراں قدر مقالے کا اردو ترجمہ مولانا حسن مثنیٰ ندوی نے کیا ہے جو ہنوز غیر مطبوعہ ہے، یہاں یہ اقتباس اسی سے ماخوذ ہے۔ ان شاء اللہ العزیز جلد ہی اس اردو ترجمہ کی طباعت کی جائے گی۔

 

1 thoughts on “حضرت علی رضی اللہ عنہ : افراط و تفریط کے درمیان

Please Leave a Reply

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.