محرم و صفر 1436ھ
نومبر، دسمبر 2014ء شمارہ 32 اور 33
گوشہ خاص
دسمبر دستک دیتا ہے
محمد احسن اللہ عظیم آبادی
پاکستان کی تاریخ میں دسمبر کا مہینہ ہمیشہ یادگار حیثیت رکھتا ہے ، اسی مہینہ میں مسلم لیگ قائم ہوئی ، اسی مہینہ میں قائد اعظم محمد علی جناح کی پیدائش ہوئی اور اسی مہینہ میں عظیم پاکستان دو لخت ہو گیا ۔
جناب وقار الملک ، نواب سر سلیم اللہ خاں ( نواب ڈھاکہ ) ، سر علی امام ، جسٹس امیر علی وغیرہم کی تحریک پر برصغیر کے مسلم رہنما ڈھاکہ میں جمع ہوئے ۔ اس طرح 6 دسمبر 1906ء میں مسلم لیگ قائم ہوئی جو آگے چل کر عظیم مسلم ملک پاکستان کی خالق بنی ۔
مسلم لیگ تو قائم ہو گئی مگر جلد ہی خلفشار میں مبتلا ہو گئی ۔ اس انتشار سے نپٹنے کے لیے دسمبر 1934ء میں لکھنؤ کے کل ہند مسلم لیگ کے اجتماع میں محمد علی جناح کو متفقہ طور سے مسلم ہند کا رہنما تسلیم کر لیا گیا ۔ آپ نے قیادت قبول کرنے کے بعد اپنی ساری زندگی قوم کے لیے وقف کر دی ۔ وہ قوم جو 1857ء سے انتشار ، خوف اور مایوسی میں گرفتار تھی ۔ اپنے قائد کی رہنمائی میں ایک منظم قوم بن گئی ۔ پھر وہ گھڑی آئی جب دلاوران پنجاب کے تاریخی ، ثقافتی اور تمدنی شہر لاہور میں 23 مارچ 1940ء کو صدائے اللہ اکبر کی گونج میں قرار داد پاکستان منظور ہوئی ۔
اس طرح جس اسلامی تحریک کی بنیاد سید احمد شہید نے رکھی تھی ، اور جس اسلامی نظام کا خواب علامہ اقبال نے دیکھا تھا ، اس کی تعبیر 14 اگست 1947ء / 27 رمضان المبارک 1366ھ بروز جمعہ اللہ پاک نے پورا کر دیا۔
دسمبر کی 25 تاریخ ایک ایسے سیاستدان کی پیدائش کا مہینہ ہے جو بقول لارڈ مانٹیگو : ” گفتگو میں منطقی داؤ پیچ کا زبردست ماہر ، اپنی بات کو سولہ آنے منوانے کا مدعی ، اگر اس کی پوری بات نہ مانی جائے تو آدھی بات ماننے پر راضی نہیں۔ میں اس سے باتیں کر کے ہار گیا۔”مسٹر جناح بلند حوصلہ اور عزم صمیم کے مالک اور آزادیِ وطن کے پرستار تھے ۔ مسٹر گوکھلے کا خیال تھا کہ ” ہندوستان کو جب بھی آزادی نصیب ہو گی ، وہ جناح کی بدولت ہوگی۔”
کبھی جناح پکے قوم پرست بھی تھے۔ آج بھی بمبئی میں جناح ہال ان کی قوم پرستی کی جیتی جاگتی یادگار ہے۔
دسمبر کا مہینہ ایک ایسے رہنما کی پیدائش کا مہینہ ہے جس کے ناقابلِ تسخیر جذبہ حریت نے دیکھتے دیکھتے اپنے مد مقابل تمام لیڈروں میں ایک امتیازی مقام حاصل کر لیا۔ یہ اس کی پُرشکوہ شخصیت ہی تھی جس نے علامہ اقبال کو یہ کہنے پر مجبور کیا : ” جو طوفان شمالی ہند بلکہ ملک کے گوشے گوشے سے اٹھنے والا ہے ، اس وقت مسلمان صرف آپ ہی سے رہنمائی کی توقع رکھتے ہیں۔”
اور جب دنیائے سیاست کا ماہر ، پاکستان کا یہ بانی دارِ فانی سے کوچ کر گیا تو اسلام کے عظیم مفکر مولانا مودودی بے اختیار کہہ اٹھے : ” دنیا کے لیے تو مرحوم کی موت محض ایک بڑے انسان کی رحلت ہی ہے مگر ہمارے لیے یہ ایک بہت بڑی قومی مصیبت ہے کیونکہ اس سے ہماری نوخیز مملکت کی طاقت اور ہماری قومی زندگی کو ایسا صدمہ پہنچا ہے جس کی تلافی مشکل ہی سے نظر آتی ہے ، اِلّا یہ کہ اللہ تعالیٰ ہی رحم فرمائیں۔”
ساتھ ہی دسمبر کا مہینہ بڑے ہی دکھ اور درد کا مہینہ ہے ۔ پاکستان کے دروازے پر ایک انقلاب دستک دے رہا تھا ، ایک خونی انقلاب —- پھر ایک دن نفرت ، تعصب اور لا دینیت کا جھنڈا لہراتا ہوا مشرقی پاکستان میں داخل ہو ہی گیا اور اپنے پیچھے لاکھوں مہاجروں کی لاشیں بے گور و کفن چھوڑ گیا ۔ 3 لاکھ بے سہارا مہاجر محصور ہو کر رہ گئے ۔ 16 دسمبر 1971ء کا دن ، پاکستان کی تاریخ کا تاریک ترین دن ہے۔ جب دو قومی نظریہ ختم ہو گیا ۔ مسلمان – ایک قوم کا تصور فنا ہو گیا ۔ لا الٰہ الا اللہ کا نا قابلِ تسخیر رشتہ ٹوٹ گیا ۔
تاریخ کا شرمناک دن — 16 دسمبر۔
آج دسمبر ایک بار پھر دستک دے رہا ۔ تاریخ کی غلطیوں سے سبق لینے کی انتباہی دستک۔ تاریخ کو دوبارہ نہ دہرانے کی دستک ۔ کاش کہ ہمارے ارباب فہم اس دستک پر غور کریں ۔ آج دسمبر بابائے قوم کے جانشینوں ، سیاستدانوں ، صحافیوں ، قانون دانوں ، معماروں اور طالب علموں کو اتحاد ، یقین اور عمل کی دستک دے رہا ہے کہ جو خواب بابائے قوم نے اسلامی فلاحی مملکت کا دیکھا تھا اسے جلد از جلد پورا کیا جائے ۔
آج دسمبر پاکستان کے باسیوں کو دستک دے رہا ہے کہ الیکشن اور جمہوریت کے مغربی طرزِ فکر کو خیر باد کہہ کر ایک ایسا نظام رائج کیا جائے جس کے ہر ہر قدم پر اسلام کی مہر ہو ۔