شمارہ 34 اور 35، جنوری / فروری 2015
ربیع الاول و ربیع الثانی 1436ھ
درس آگہی (اداریہ)
ایک اور 16 دسمبر ……………
محمد تنزیل الصدیقی الحسینی
سانحہ پشاور تاریخ پاکستان کے عظیم سانحات میں سے ایک ہے۔ دنیا کے لیے تو یہ محض ایک سانحہ ہے مگر جس قوم نے اپنے معصوم شاہینوں کو درندگی کی بھینٹ چڑھتے دیکھا ہو ، اس کے لیے یہ محض ایک سانحہ نہیں ہو سکتا کہ جس کی مذمت کر کے فرض سے سبکدوش ہوا جا سکے۔
ہمارا دشمن مختلف نقابوں کے پیچھے چھپا ہے۔ ہمیں اسے بے نقاب کرنا ہوگا۔ حتیٰ کہ طالبان بھی محض ایک نقاب ہے جب تک ان جعلی طالبان کی مدد کرنے والے بیرونی عناصر کی نشاندہی نہیں کر دی جاتی ، ہم یہ جنگ نہیں جیت سکتے۔
آنے والے دنوں میں ہمیں ہر طور پر پاکستان سے دہشت گردی کو اس کی بنیادوں سے اکھاڑ پھینکنا ہوگا۔ دہشت گرد خواہ کوئی بھی ہو اس کی کسی بھی بنیادوں پر تفریق نہیں کی جا سکتی اگر کی گئی تو یہ بھی پاکستان کے مستقبل کے ساتھ دھوکہ ہوگا۔
ہمیں بالعموم اور ہمارے ارباب اقتدار کو بالخصوص یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ ہم اپنی اندرونی جنگ اس وقت تک نہیں جیت سکتے جب تک کہ ہم ان عالمی سازش کاروں کو نہ پہچان لیں جنہوں نے سرزمین پاکستان میں جنگ و دہشت کی یہ آگ لگائی ہے۔
آنے والے دنوں میں پاکستانی قوم کو سخت آزمائش کے لیے تیار رہنا پڑے گا ، 65 سالوں سے قوم ہی تمام آزمائشوں کو جھیل رہی ہے ، ارباب اقتدار کی طرف تو آزمائشوں کا رُخ کم ہی ہوتا ہے۔ لیکن اگر ان آزمائشوں کے عوض ہمارے ارباب اقتدار دہشت گردی کو اس کی بنیادوں سے ختم کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو قوم کے لیے یہ سودا مہنگا نہیں۔
اگر بیرونی فنڈنگ ہی پاکستان میں دہشت گردی کو زندگی فراہم کر رہی ہے تو سارا نزلہ صرف سعودی عرب اور ایران پر ہی کیوں ؟ ملک میں فنڈنگ تو امریکا ، بھارت ، برطانیا اور اسرائیل سے بھی ہو رہی ہے۔ ان کے لیے دو حرف کہنے کی جرات کیوں نہیں کی جاتی ؟ کونسا خوف ہے جو زبانوں کو گنگ کر دیتا ہے ؟
اگر سعودی عرب اور ایران اپنی نظریاتی وابستگی رکھنے والے افراد کو مالی امداد فراہم بھی کرتے ہیں تو یہ کوئی جرم نہیں ، جرم تو اس وقت ہوگا جب یہ ادارے دہشت گرد کارروائیوں میں ملوث ثابت ہوں۔ حکومت کو چاہیئے کہ وہ ان 10 فیصد مدارس کی نشاندہی کرے جو دہشت گردی کو پروان چڑھا رہے ہیں کیونکہ یہ وقت اب حقیقتوں کے بے نقاب ہونے کا وقت ہے۔ بے شمار قربانیاں دینے کے بعد اب عوام اس کا مکمل استحقاق رکھتے ہیں کہ انہیں ان کے دشمنوں سے آگاہ کیا جائے۔ کون ہے جو ان کے معصوم بچوں کا قاتل ہے ؟ کون ہے جو جوان عورتوں کا وقت سے پہلے بیوگی کا کفن پہناتا ہے ؟ کون ہے جو معصوم بچوں کو داغِ یتیمی سے آشنا کرتا ہے ؟ اور کون ہے جو بوڑھے والدین سے ان کے سہارے چھینتا ہے ؟
کیا آرمی پبلک اسکول میں شہید ہونے والے بچوں کے والدین اور اس پوری پاکستانی قوم کو جنہوں نے ان بچوں کا درد اپنے سینوں میں محسوس کیا یہ جاننے کا حق نہیں کہ کون کون اس دردناک المیوں کے ذمہ دار ہے ؟
—- —- —-
انتہا پسندی کی یقیناً ایک مذموم احساس ہے۔ تعصب کی گراوٹ بلاشبہ انسان کو صم ( گونگا ) ، بکم ( بہرا ) اور عمی ( اندھا ) بنا دیتی ہے۔ زبانیں حق گوئی سے قاصر ہو جاتی ہیں ، کان سچ سننے کے لیے تیار نہیں ہوتے اور نگاہیں پر حجابِ غفلت کی دبیز تہہ چڑھ جاتی ہے جو روشن حقیقتوں پر بھی پردے ڈال دیتی ہے۔
انتہا پسندی اور دہشت گردی صرف جارحانہ عملی مسئلہ نہیں بلکہ اس کی نظریاتی اساس بھی ہے۔ ہمیں اگر اس جنگ کو جیتنا ہے تو اس کی نظریاتی اساس پر بھی ضرب کاری لگانا پڑے گی۔ مگر یہ کون طے کرے گا کہ انتہا پسندی کیا ہے اور انتہا پسندوں کی نظریاتی اساس کیا ہے ؟ کیا ہمارے چینلی قسم علماء ، عالم آن لائن ٹائپ کے مفتیانِ کرام اور نابالغ دانشوران اس قضیے کو حل کریں گے ؟ جو آج تک اپنی نظریاتی اساس ہی کو نہ سمجھ سکے ہوں وہ دہشت گردوں کی نظریاتی اساس کس طرح منہدم کر سکتے ہیں ؟
یہ بات بخوبی سمجھ لینی چاہیے کہ دہشت گردوں کا کوئی مذہب و مسلک نہیں ہوتا۔ صوفی اسلام صحیح ہے یا سلفی اسلام۔ اس کا فیصلہ خود مسلمان کریں گے۔ اگر یہ فیصلہ عالمی طاقتوں نے کیا تو اس کا نتیجہ یقیناً خطرناک نکلے گا۔ ہمارے ارباب اقتدار کو بھی یہ بات سمجھنی چاہیے عالمی طاقتوں کے اشاروں پر کیے گئے فیصلوں کا نتیجہ اپنے ہی گلشن میں آگ لگانے کے مترادف ہوگا۔ ہماری میڈیا قوم کو مذہبی لحاظ سے تقسیم کرنے پر تلی ہے۔ اس وقت شیعہ اور بریلوی ایک طرف ہیں اور دوسری طرف دیوبندی اور اہلِ حدیث ہیں۔ یہ تقسیم ابھی عوام الناس کے ذہنوں میں راسخ نہیں ہوئی ہے لیکن ہمارے فاضل دانشوران اگر میڈیا پر مسلسل اپنے خیالات عالیہ سے مستفید فرماتے رہے تو اس ” رسوخ ” میں زیادہ وقت بھی نہیں لگے گا۔
جب کہ حقیقت اس کے بالکل بر عکس ہے اوّلاً تو دہشت گردوں کا کوئی مسلک نہیں اور ثانیاً جو اس دہشت گردی کا شکار ہیں وہ مذکورہ چاروں مسالک سے تعلق رکھتے ہیں۔
اتنی عَیاں حقیقت بھی افسوس ہے کہ نگاہوں سے مستور ہے۔ سچ ہے :
لَا تَعۡمَى ٱلۡأَبۡصَٰرُ وَلَٰكِن تَعۡمَى ٱلۡقُلُوبُ ٱلَّتِي فِي ٱلصُّدُورِ ٤٦ ( الحج : 46 )
” آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ دل اندھے ہو جاتے ہیں جو سینوں میں ہیں ۔”
—- —- —-
دنیا تو یہ چاہتی ہے کہ ہم اپنے دین سے ہی بیگانہ ہو جائیں۔ جس ملک میں شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ جیسے بزرگوں کی کتاب بھی انتہا پسندی کے زمرے میں داخل ہو اور جہاں مفتی تقی عثمانی جیسے عالم بھی ایک صحابی رسول کی تائید میں کتاب لکھنے پر انتہا پسند قرار پائیں اور ان کی کتابیں قابلِ ضبطی ہوں۔ وہاں آزادی ِ اظہار کا مطلب کیا ہے ؟ صرف ان مثالوں سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہمارے یہاں انتہا پسندی کو کس حد تک سمجھا گیا ہے اور ارباب اقتدار کس درجہ سنجیدہ ہیں۔
—- —- —-
گزشتہ دنوں سعودی فرماں رَوا شاہ عبد اللہ کی وفات ہوئی ان کی وفات کے ساتھ ہی پاکستان اپنے ایک اہم دوست سے محروم ہو گیا۔ شاہ عبد اللہ انتہائی اہم وقت میں مملکت سعودی عرب کے فرماں روا بنے۔ ان کے پُر آشوب عہد میں دنیا میں کئی اہم تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ بعض موقعوں پر وہ امریکی پالیسیوں پر تنقید کرتے بھی نظر آئے۔ لیکن بحیثیت مجموعی وہ عالم اسلام کی جرات مندانہ قیادت سے اسی طرح قاصر رہے جس طرح پاکستانی قیادت قاصر رہی ہے۔ بات قیادت کی چل نکلی ہے تو کہہ لینے دیجیے کہ
افسوس کز قبیلہ مجنوں کسے نماند
شاہ عبد اللہ نے اپنے ملک اور اپنی عوام کے لیے بہت سے اہم ترقیاتی کام کیے۔ پاکستان کے لیے عربوں کی جو روایتی محبت ہے اسے برقرار رکھا۔ زلزلہ زدگان ہوں یا سیلاب زدگان ، ان کی مدد میں بھرپور حصہ لیا۔ پاکستان جب بھی قدرتی آفات میں مبتلا ہوا تو سعودی امداد نے کبھی بخل سے کام نہیں لیا اور کہا جا سکتا ہے کہ ایسی بے لوث مدد میں کوئی دوسرا ملک سعودی عرب کا ثانی نہیں۔
شاہ عبد اللہ کی وفات سے تاریخ کے ایک باب کا خاتمہ ہوگیا۔
—- —- —-
اس وقت پاکستان ہو یا سعودی عرب ، دونوں ہی اپنی تاریخ کے مشکل ترین دور سے گزر رہے ہیں۔ دونوں ہی ملکوں کو تقریباً ایک ہی قسم کی مشکل کا سامنا ہے[1]۔ شاید اس کی ایک اہم وجہ یہ رہی ہو کہ دونوں ہی امریکی محبت کے اسیر رہے ہیں ، اور جہاں تک ” امریکی محبت ” کا تعلق ہے تو اہلِ معرفت کا کہنا یہی ہے
مجھ کو اپنا بنا کے چھوڑ گیا وہ شخص
کیا اسیری ہے ، کیا رہائی ہے
[1] ممکن ہے کہ ظاہر بیں نگاہیں اس یکسانیت کو نہ پا سکیں ، تاہم اہلِ نظر کے لیے غور و فکر کی یہ ایک اہم جہت ہے۔ ان شاء اللہ پھر کبھی اس پر تفصیلی نگاہ ڈالی جائے گی۔