فرانس، زنیموں کا معاشرہ اور توہینِ رسالت


الواقعۃ شمارہ: 104 – 106، محرم الحرام تا ربیع الاول 1442ھ

از قلم : محمد تنزیل الصدیقی الحسینی

ایک رپورٹ کے مطابق فرانس کی 60 فیصد آبادی مجہول النسب افراد پر مشتمل ہے اور ولد الزنا افراد پر مشتمل آبادی میں فرانس دنیا بھر میں اول نمبر پر ہے۔ قرآنی اصطلاح میں ایسے افراد "زنیم” کہلاتے ہیں۔ فرانس میں تو "زنیموں” کا معاشرہ ہی تشکیل پا چکا ہے۔ کو پڑھنا جاری رکھیں

آرمینیہ کی جنگ سے متعلق کتب حدیث میں کیا ہے ؟


الواقعۃ شمارہ: 104 – 106، محرم الحرام تا ربیع الاول 1442ھ

از قلم : محمد تنزیل الصدیقی الحسینی

روایت:۔

عن أبی الدرداء رضی اللہ عنہ قال: "اذا خیرتم بین الأرضین فلا تختاروا أرمینیۃ فان فیھا قطعۃ من عذاب اللہ تعالیٰ۔”۔

تخریج:۔

۔”المستدرک علی الصحیحین” (کتاب الفتن والملاحم رقم : 8427، بتحقیق: مصطفیٰ عبد القادر عطا، طبع: دار الکتب العلمیۃ بیروت 2002ء)۔

ترجمہ:۔

۔”جب تم دو زمینوں کے مابین انتخاب کرو تو آرمینیہ کو پڑھنا جاری رکھیں

حرمت رسول ﷺ اور ہمارا لائحہ عمل – اداریہ


الواقعۃ شمارہ : 78  – 79 ذیقعد و ذی الحجہ 1439ھ

از قلم : محمد تنزیل الصدیقی الحسینی

مغرب ایک شدید ترین احساس کہتری کے دور سے گزر رہا ہے۔ اس کے پاس اسلام کی عظمت رفتہ کے مقابل پیش کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں، نہ اس کے پاس سیرت محمدی کی رفعتوں کا کوئی جواب ہے۔ ہر چند برسوں میں توہین رسالت کے اقدامات اور توہین آمیز خاکے مغرب کی شکست کا ذلت آمیز اظہار ہے۔ کو پڑھنا جاری رکھیں

حضرت علی رضی اللہ عنہ : افراط و تفریط کے درمیان


الواقعۃ شمارہ : 76 – 77 رمضان المبارک و شوال المکرم 1439ھ

اشاعت خاص : سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ

از قلم : محمد تنزیل الصدیقی الحسینی

زبان رسالتِ مآب ﷺ نے اپنے بعض اصحابِ کرام کو بعض جزوی وصف کی بنا پر بعض گزشتہ انبیاء سے تشبیہ دی۔ سیدنا صدیق اکبر سے متعلق فرمایا کہ یہ سیدنا ابراہیم کے مشابہ ہیں۔ فاروقِ اعظم کی جلالی طبیعت کے پیش نظر ان کے جلال کو جلالِ موسوی کو پڑھنا جاری رکھیں

بے نفع نماز


الواقعۃ شمارہ: 72 – 73 جمادی الاول جمادی الثانی 1439ھ

از قلم : مولانا شاہ محمد جعفر پھلواروی

 حضور اکرم ﷺ کی زبان مبارک سے نکلی ہوئی ایک بہت جامع دعا حضرت انس رضی اللہ عنہ سے یوں مروی ہے
اللّٰھم انّی اعوذبک من صلوٰۃ لا تنفع ( ابو داود
"اے اللہ ! میں ایسی نماز سے تیری پناہ مانگتا جس سے کوئی فائدہ نہ ہو۔” کو پڑھنا جاری رکھیں

جود و سخا کا پیکر عظیم — خلیفہ ثالث حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ


الواقعۃ شمارہ 55 ذی الحجہ 1437ھ

اشاعت خاص : سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ

از قلم : ابو عمار سلیم

اللہ رب العزت نے اپنی زمین کو بنایا اور اسے اپنی بہترین تخلیق یعنی انسان کے سپرد کردیا اور اس پر اسے اپنا نائب بنا کر اتار دیا۔اللہ نے جو تمام علوم کا منبع اور جاننے والا ہے، اپنی خلقت عظیم ،انسان کو خود اپنے علم کا جتنا حصہ چاہا عطا کر دیا۔اور یہ علم حضرت آدم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے بذات خود بغیر کسی واسطہ کے عطا کیا۔اور اسی علم کی بدولت انسان تمام فرشتو ں کا مسجود بنا اور اللہ کے دربار میں شرف حاصل کیا۔ جب انسان زمین پر اتارا گیا تو اس نے اللہ کے ودیعت کردہ کو پڑھنا جاری رکھیں

عربی زبان کی اہمیت


الواقعۃ شمارہ 46 ربیع الاول 1437ھ

از قلم : ابو عمار سلیم

عربی زبان کا شمار دنیا کی بڑی زبانوں میں ہوتا ہے۔ انگریزی اور فرانسیسی زبان کے بعد عربی دنیا کی تیسری بڑی زبان ہے۔ اس زبان کے بولنے اور جاننے والے دنیا کے بہت بڑے حصہ میں پائے جاتے ہیں۔ یہ ستائیس ممالک کی سرکاری زبان ہے اور  دنیا بھر میں اس کے بولنے والے تقریباً 35  کروڑ افراد ہیں اور وہ افراد اس سے مستزاد ہیں جن کی مادری زبان عربی نہیں ہے لیکن وہ عربی ایسے جانتے ہیں جیسے کہ اپنی مادری زبان۔ اور ان سب سے اوپر یہ کہ ،  یہ زبان دنیا بھر کے تقریباً ایک ارب ستر کروڑ کے لگ بھگ مسلمانوں کی مذہبی زبان ہے اور وہ عربی جانتے ہوں یا نہ جانتے ہوں انہیں یہ زبان کس طرح عزیز ہے اس کا اندازہ غیر مسلم لوگ نہیں لگا سکتے۔ ہمارا یہ ایمان ہے کہ یہ آسمانوں کی ، اللہ کی ، اللہ کے فرشتوں کی اور جنت کی زبان ہے۔ قرآن مجید کی تلاوت اور پھر اس کو یاد کرنا اور اپنی نمازوں میں اس کو ہر روز پڑھنا ایک عام معمول ہے۔

عربی زبان اپنی ہئیت اور طریقہ بناوٹ سے آرامی اور عبرانی زبانوں سے بنی ہوئی لگتی ہے یا یہ کہا جائے کہ یہ  تینوں زبانیں ایک دوسرے سے ملتی جلتی ہیں۔ قرآن مجید کی عربی اس زبان کا اصل اصول ہے۔ اور قرآن کی زبان اور اس کے قوائد ہی اس زبان کی بنیاد سمجھے جاتے ہیں۔ قرآن کی عربی  ہی دراصل ادبی عربی ہے۔ اس کو  Classical Arabic کہتے ہیں۔ عام بول چال کی عربی زبان قدرے مختلف ہوتی ہے اور مختلف علاقوں میں اس کا انداز الگ الگ ہے۔ بلکہ بعض اوقات تو ایسا ہوتا ہے کہ کسی ایک علاقہ کی بول چال کی عربی ایک دوسرے علاقے کے رہنے والے کی سمجھ میں آتی ہی

موجودہ دور کی عربی جس میں عام تقریر و تحریر کو جدید عربی کہا جاتا ہے اپنی ترکیب اور ہئیت میں تھوڑا سا مختلف ہے۔ موجودہ دور کی ایجادات ، نئی نئی چیزوں کی آمد اور ان کا استعمال اور ان کے نام جو عربی زبان سے ماخوذ نہیں عربی میں استعمال ہوکر کچھ مختلف ہو گئے۔ اسی طرح دیگر ثقافتوں اور زبانوں کی عربوں کے علاقوں میں آ جانے کی وجہ سے بھی ان الفاظ اور زبانوں کا عربی میں استعمال شروع ہو گیا اور بہت سے الفاظ جو باہر سے آئے ان کو عربی گرائمر کے اصولوں کے تحت عربی سے نزدیک کر لیا گیا مگر ایک بہت بڑی تعداد ان الفاظ کی بغیر کسی رد و بدل کے عربی زبان میں بھی مستعمل ہو گئے اور شائد یہ کسی حد تک جائز بھی ہے۔ ہوائی جہاز جب آیا تو اس کو عربی کے قریب لانے کے لیے پرندہ یا اڑنے والی چیز سے موسوم کر دیا گیا اور طیارہ بنا دیا۔ مگر بعض الفاظ جیسے ٹیکنیک کا کوئی بدل نہ ملا تو تکنیک  بنا کر استعمال کرلیا گیا۔ ٹیلیفون کو ہاتف بنا دیا گیا اس لیے کہ ہاتف کا عربی میں مطلب یہ ہے کہ کوئی ایسی آواز جو بہت دور سے آ رہی ہو مگر اس کا بولنے والا دکھائی نہ دے اور فون میں یہی کچھ ہوتا ہے۔ الغرض ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں اور ان پر غور کر کے ایک لمبی فہرست تیار کی جا سکتی ہے۔ ایسی زبان آج کل جدید عربی یا پھر بین الاقوامی  طور  پر Modern Arabic  کہلاتی ہے۔ اور آج یہی زبان ٹیلی ویزن ، خبروں اور عام بول چال میں استعمال ہوتی ہے اور تقریباً ہر علاقہ کے لوگ اسے بآسانی سمجھتے بھی ہیں۔نہیں۔ لیکن جب بات آ جائے ادبی تحاریر کی یا لکھی ہوئی عربی کی اور انشائیہ پردازی کی تو ہر علاقہ کے لوگ ایک ہی طرز کی عربی پر اتر آتے ہیں جو ہر ایک کی سمجھ میں آتی ہے اور کوئی اجنبیت باقی نہیں رہتی۔ یہ اعجاز ہے قرآن کا جو دنیا کے ہر مسلمان کے دل و دماغ میں اس طرح گھر کیے ہوئے ہے کہ جب اس کے اصول و ضوابط کی بات ہوتی ہے تو کوئی اختلاف باقی نہیں رہتا۔ قرآن مجید عربی زبان کی بہتریں تصنیف ہے جس کے ادبی محاسن پر پچھلے پندرہ سو برسوں سے غور و خوض ہو رہا ہے اور نئی نئی چیزیں سامنے آ رہی ہیں۔ اور کیوں نہ ہو کہ یہ اللہ تعالی کی کتاب ہے۔ جب ہی تو اللہ نے چیلنج کیا کہ ایسی کوئی ایک سورة  ہی بنا لاؤ اور پھر یہ کہہ کر اس بات کوانتہائی شدید طریقہ سے واضح کر دیا کہ تم ایسا کچھ کر ہی نہیں سکتے اور یہ دعویٰ آج بھی بلکہ قیامت تک کے لیے سچ ہی ہے اور ناقابل شکست۔

غیر مسلم اغیار نے جہاں مسلمانوں کو ہر محاذ پر نیچا دکھانے کی ہمیشہ کوشش کی تو وہاں ہی انہوں نے عربی زبان کی مقبولیت اور اس کی ترویج کی رکاوٹوں کے لیے اپنی طرف سے اپنی دشمنی سے گریز نہیں کیا۔ اسلام کی آمد کے بعد اور پھر اسلامی فتوحات کے ساتھ ساتھ جہاں مفتوح علاقہ کے لوگوں کی مذہبی اور ثقافتی روایات میں تبدیلیاں واقع ہوئیں وہیں ان لوگوں  نے عربی زبان کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔ نتیجہ کے طور پر چند ہی برسوں میں وہ عربوں کی بود و باش روایات و ثقافت کے ساتھ ساتھ ان کی زبان کے بھی حامل ہو گئے۔ نتیجہ کے طور پر مصر ، سوڈان ، بلکہ تقریباً پورا شمالی و وسطی افریقہ، مشرق وسطہ کے اکثر ممالک کے ساتھ دیگر علاقہ کے اندر بھی یہ تبدیلی آئی اور آج یہ سارا علاقہ عرب علاقہ کہلاتا ہے ، عرب یونین کا حصہ ہے اور ہر لحاظ سے عربی ہے۔ اغیار کو مسلمانوں کی یہ ترقی اور ان کا یہ اثر بالکل بھی نہیں برداشت ہوتا تھا تو انہوں نے جہاں مسلمانوں کے خلاف ریشہ دوانیاں کیں وہاں عربی زبان اور اس کی ترویج میں بھی رکاوٹیں ڈالنی شروع کر دیں۔ اس کی ایک بہت ہی واضح مثال الجیریا کے واقع سے ملتی ہے جہاں یورپی ممالک کے قبضہ کے بعدعربی کے خلاف نفرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ قرآن مجید کو جلایا گیا، عربی مخطوطات اور ہر قسم کی  عربی کتابوں کو نذر آتش کیا گیا۔ عربی بولنا اور عربی سیکھنا سکھانا سب غیر قانونی قابل سزا عمل قرار پایا۔ عربی جس کی سرکاری زبان کی حیثیت تھی اور اسی حوالے سے الجیریا کی آبادی پچاس فی صد سے بھی زیادہ پڑھی لکھی شمار ہوتی تھی ، اس کی سرکاری حیثیت ختم ہوئی تو وہی آبادی ایک دن کے وقفہ سے جاہل قرار پائی اور Illetrate لوگوں کی تعداد  تقریباً سو فیصد ہو گئی۔

دنیا بھر کے تمام مسلمان عربی زبان کا نہ صرف احترام کرتے ہیں بلکہ اس کو ایک مقدس زبان سمجھتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ جیسا کہ پہلے کہا گیا قرآن مجید فرقان حمید ہے۔ وہ جو عربی ہیں اور جن کی مادری زبان عربی ہے وہ  تو خیر ہیں ہی اس زبان کے بولنے اور سمجھنے والے۔ مگر دیگر علاقوں کے مسلمان جو عربی نہیں جانتے وہ بھی عربی کو جاننے اور سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور اگر بہت کچھ نہ بھی کریں تو یہ ضرور کرتے ہیں کہ جتنا ممکن ہو سکے قران کی آیات کا ٹوٹا پھوٹا مطلب جان لیں۔ سر ڈھانپ کر ، با ادب ہاتھ باندھ کر خاموشی سے قران کی تلاوت سننا خواہ سمجھ میں ایک لفظ بھی نہ آ رہا ہو ، ان غیر عرب علاقے میں ایک بہت ہی عام نظر آنے والا منظر ہے۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ منظر اس لحاظ سے درست ہے ؟ کیونکہ قران ایک درس ہے اور احکامات کا مجموعہ ہے۔ اگر سمجھ میں نہ آئے تو کیا صرف اس کا اس قدر ادب کے ساتھ سننا واقعی قران کا حق ادا کرنا ہے۔ میرے خیال سے نہیں۔ قران کا ادب کرنا ، اسے پاکیزگی میں پڑھنا اور اس کی تلاوت کو غور سے سننا سب بہت ضروری ہے مگر یہ قران کا حق نہیں ہے۔ قران کا حق تو جب ادا ہوگا جب اسے پڑھا ،  یا سنا جائے تو اس کو سمجھا بھی جائے۔ قران کے احکامات ہمارے لیے ہدایت کا ذریعہ ہیں انہیں سمجھنا اور پھر ان ہدایات پر عمل کرنا انتہائی ضروری ہے اور یہی قران کے پڑھنے اور سننے کا حق ہے۔مگر یہ سب کچھ ہو کیسے۔ ہمیں عربی آتی نہیں اور ہم اس کو سیکھنے کے لیے تیار بھی نہیں۔

اگر حقیقی معنوں میں ٹھنڈے دل سے غور کیا جائے تو ہم پاکستانی لوگ اس قران کو سیکھنے کے لیے دیگر تمام اقوام عالم کی نسبت زیادہ نزدیک ہیں اور یہ ہمارے لیے نسبتاً آسان ہے۔ سب سے پہلی بات تو یہ کہ اس کا رسم الخط ہمارے رسم الخط سے ملتا ہے بلکہ ہماری اردو کی لکھائی عربی خط سے ہی وجود میں آئی ہے۔ قران ہم اسی وجہ سے بغیر عربی جانے انتہائی روانی سے اور تجوید کے تمام قوائد کے ساتھ فرفر پڑھ لیتے ہیں۔ قران مجیدمیں استعمال ہونے والے اسی نوے فیصد الفاظ ہمارے لیے مانوس ہیں۔ جہاں کہیں اجنبیت لگتی ہے ذرا سا غور کرنے کے بعد وہ بھی سمجھ میں آ جاتا ہے۔ عربی زبان کے قواعد اردو زبان کے قواعد سے بھی میل کھاتے ہیں۔ کچھ تھوڑی بہت تبدیلی ہے مگر اس میں بھی سمجھ میں نہ آنے والی کوئی چیز نہیں۔ اتنی ساری آسانی کے بعد جب کوئی دل جمعی سے عربی زبان سیکھنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کو زیادہ تکلیف نہیں ہوتی اور پھر اللہ کی مدد بھی شامل حال ہو جاتی ہے۔ میرے ایک جاننے والے صاحب کہنے لگے کہ کیا ضرورت ہے کہ عربی سیکھی جائے۔ قران کے اتنے تراجم موجود ہیں اور ایسی ایسی تفسیریں ہمارے بزرگ لکھ گئے ہیں کہ بس کتاب کھولو اور سب کچھ جان لو۔ مگر حقیقت تو یہ ہے کہ یقیناً یہ سب کچھ درست ہے مگر قران کے سنتے ہی الفاظ سمجھ میں آنے لگ جائیں اور اس کے بیان کی شیرینی کان میں رس گھولنے لگے تو قران کا اصل رنگ نظر آتا ہے۔

عربی زبان بذات خود اتنی اصولی زبان ہے کہ اس کہ چند ایک اصول سمجھ میں آ جائیں تو بہت سارے الفاظ بلکہ جملے بھی بڑی آسانی سے سمجھ میں آنے لگتے ہیں۔ اور اگر پڑھانے والا استاد اچھا اور سمجھ دار ہو تو تقریباً تین ماہ میں ایک گھنٹہ روز کے حساب سے محنت کے بعد آپ قران سنیں گے اور اس کا مطلب سمجھنا شروع ہو جائیں گے۔ یہ یاد رکھیں کہ جب ہم عربی سیکھنا چاہتے ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ تین مہینوں کے بعد ہم قران مجید کا ایک ایسا ترجمہ کر ڈالیں گے کہ ہر طرف دھوم مچ جائے گی ، استغفراللہ۔ عربی سیکھنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم اس کے قواعد اور گرائمر کو اس طرح جان لیں کہ الفاظ کے مطالب پلے پڑنے لگ جائیں۔ وگرنہ جان لیجیے وہ بزرگ جنہوں نے اپنی پوری زندگی قران کو اور اس کے محاسن کو سمجھنے میں کھپا دی  اور دنیا میں بڑے جید عالم مانے گئے وہ بھی آخر میں آکر کف افسوس ملتے دکھائی دیئے کہ ہائے کچھ بھی نہ سیکھ سکے۔

اور ان تمام باتوں کے علاوہ سب سے بڑی بات یہ کہ آپ نے جیسے ہی قران مجید کو بہترطریقہ سے سمجھنے کے لیے عربی سیکھنی شروع کر دی آپ کا شمار اللہ کے دربار میں ان خصوصی لوگوں جیسا ہونے لگ جائے گا جو اللہ کا بھیجا ہوا کلام جاننا چاہتے ہیں اور اس کے لیے کوشش کر رہے ہیں۔ آپ نے شائد حضرت عثمان بن عفان  سے  مروی وہ حدیث نبوی ﷺ  سنی ہوگی کہ ” تم میں  سے بہتر وہ ہے جو قرآن کو سیکھے اور اس کو سکھائے۔” ذرا سوچیے کہ اللہ کے دربارمیں کسی بھی وجہ سے ایک ناچیز بندے کو کوئی خصوصیت مل جائے تو اس کی قسمت کا کیا ٹھکانا۔ ثواب کا ثواب اور پھر اللہ کے حضور اس کی قربت کا ایک ذریعہ۔

مگر افسوس تو اس بات کا ہے کہ ہم لوگ یہ سب کچھ جاننے کے باوجود اس طرف توجہ دینے کو بالکل تیار نہیں۔ ہم دنیاوی تعلیم کے لیے خود بھی اور اپنے بال بچوں کو بھی انتہائی مشقت میں ڈال دیتے ہیں اور برسہا برس اس میں کھپا دیتے ہیں جس کا مطمح نظر صرف یہ ہوتا ہے کہ ایک اچھی سی نوکری ملے گی اور اچھے پیسے کمائیں گے اور گذر بسر اچھے طریقے سے ہو جائے گی۔ یعنی کل مقصود اچھے سے پیٹ کا بھرنا ہے۔ اگر میں یہ کہوں کہ آج تک نہ کسی پرندے نے ایم بی اے کیا، نہ کسی اونٹ گھوڑے نے فلسفہ کی ڈگری لی ، نہ کوئی اور جانور انجینئر یا ڈاکٹر بنا مگر روزی ہر ایک کو مل رہی ہے۔ اللہ نے صاف صاف الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ کتنے ہی پرندے اور جانور صبح کو خالی پیٹ نکلتے ہیں اور شام کو شکم سیر ہو کر واپس آتے ہیں۔ رزق کا وعدہ اللہ نے کیا ہے۔ ہمارا ایمان ہے کہ اللہ نے ہر ایک کا رزق لکھ دیا ہے جس سے نہ زیادہ ملے گا نہ کم ، اور یہ اللہ کا اٹل فیصلہ ہے۔ مگر اس کے باوجود ہم رزق کے لیے اتنی تگ و دو کرتے ہیں۔ دنیا کمانا بالکل منع نہیں ہے بلکہ اللہ نے تو قران مجید میں یہ کہا کہ دنیا سے اپنا حصہ لینا مت بھولو۔ مگر جو حاصل کرو اس کو اپنی آخرت کے لیے آگے بھیج دو۔ مگر ہم لوگ صرف دنیا کے حصول میں لگے ہوئے ہیں۔ اگر ان تمام چیزوں کے ساتھ اللہ کے کلام کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کو اپنا شعار بنا لیں تو یقیناً اللہ تعالیٰ کے اس حکم کے تحت  ” میں اوپر نیچے دائیں بائیں  سے اور ایسی جگہوں سے رزق دونگا کہ تمہیں اس کا گمان بھی نہیں ہوگا۔”  ہمیں ہر حال میں بہترین رزق نصیب ہوگا۔

آئیے اس بات کا وعدہ کریں کہ آپ میری ان گذارشات پر غور کریں گے اور اپنے قیمتی اوقات میں سے اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کی خاطر کچھ تھوڑا سا وقت نکالیں گے اور عربی زبان کو سیکھنے کے لیے اپنی کوششیں صرف کریں گے۔ اگر آپ یہ کام نیک نیتی سے کریں گے تو میرا ایمان ہے کہ اللہ کو آپ کو کبھی بھی مایوس نہیں کرے گا اور اپنے اعلان کے مطابق آپ کو ایسے طریقوں سے رزق دے گا کہ آپ نے کبھی سوچا بھی نہ ہوگا۔ آپ کے تمام معاملات میں وہ خود اپنی رضا شامل کر دے گا۔ اور آپ نہ صرف اس دنیا میں بلکہ آخرت میں بھی اللہ کی عنایات اور اس کی کرم نوازی کے حقدار ہو جائیں گے۔ ان شاء اللہ۔ یاد رکھیں کہ اللہ اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا اور یہ کہ اللہ سے زیادہ کسی کی بات سچی نہیں ہوتی۔  میری دعائیں آپ کے ساتھ ہیں۔ آپ کوشش شروع کریں اور میرے لیے بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اس ضمن میں میری کوششوں کو بھی بار آور کریں اور مجھے بھی آپ کے ساتھ اپنے قریبی لوگوں میں شامل کر لیں کہ جن پر اللہ کی بے شمار نعمتیں ہر لحظہ نازل ہوتی ہیں اور جن کے لیے اللہ کے مخصوص فرشتے دعائیں کرتے ہیں اور ان کے لیے مغفرت مانگتے رہتے ہیں۔

فسق و فجور کا آئینہ


الواقعۃ شمارہ 46 ربیع الاول 1437ھ

از قلم : ابو الحسن

اللہ تعالیٰ نے اپنے خلیفہ فی الارض کو تعقل، تفکر اور تفقہ کی صلاحیتیں عطا فرمائیں۔ ان نعمتوں کی قدر دانی کرنے والوں کو قوم یومنون ، قوم الصالحین ، قوم یعدلون قرار دیا۔ قوم نوح کے لوگوں کو جو اپنے پیغمبر کی جگہ سرکش ظالم حکمرانوں کی پیروی کرتے تھے قوماً عمین قرار دیا۔ فرمایا : وَأَغۡرَقۡنَا ٱلَّذِينَ كَذَّبُواْ بِ‍َٔايَٰتِنَآۚ إِنَّهُمۡ كَانُواْ قَوۡمًا عَمِينَ ٦٤ ( الاعراف : 64 ) اور کافروں کے لیے عموماً فرمایا :

وَنَطۡبَعُ عَلَىٰ قُلُوبِهِمۡ فَهُمۡ لَا يَسۡمَعُونَ  ( الاعراف : 100 )

کو پڑھنا جاری رکھیں

تخلیقِ انسانی کے مراحل قرآن کی روشنی میں


الواقعۃ شمارہ 46 ربیع الاول 1437ھ

از قلم : عبد العظیم جانباز

جس طرح عالمِ آفاق کے جلوے اِجمالاً عالمِ اَنفس میں کار فرما ہیں، اسی طرح نظامِ ربوبیت کے آفاقی مظاہر پوری آب و تاب کے ساتھ حیاتِ انسانی کے اندر جلوہ فرما ہیں۔ انسان کے ” احسن تقویم ” کی شان کے ساتھ منصۂ خلق پر جلوہ گر ہونے سے پہلے اس کی زندگی ایک ارتقائی دَور سے گزری ہے۔ یہی اُس کے کیمیائی اِرتقاء (Chemical evolution) کا دَور ہے، جس میں باری تعالیٰ کے نظامِ ربوبیت کا مطالعہ بجائے خود ایک دلچسپ اور نہایت اہم موضوع ہے، یہ حقائق آج صدیوں کے بعد سائنس کو معلوم ہو رہے ہیں، جب کہ قرآنِ مجید انہیں چودہ سو سال پہلے بیان کر چکا ہے۔

کو پڑھنا جاری رکھیں

صاحب قرآن ﷺ کی فریاد


الواقعۃ شمارہ 20 – 21 محرم و صفر 1435ھ

اشاعت خاص : برائے قرآن کریم

از قلم : ابو عمار سلیم

قرآن مجید فرقان حمید کی سورة الفرقان کی آیت نمبر 30 کے الفاظ ہیں و قال الرسول یٰرب ان قومی اتخذوا ھذا القراٰن مھجورا جس کا ترجمہ کچھ یوں ہے کہ  ”  رسول (ﷺ) نے کہا !  اے  رب بے شک میری قوم نے اس قران کو نظر انداز کر رکھا تھا ۔”  اس آیت مبارکہ کے سیاق و سباق کے مضامین پر نظر ڈالنے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ قران اس وقت کا نقشہ کھینچ رہا ہے جب قیامت قائم ہو چکی ہوگی ۔ تمام نفوس اللہ کی بارگاہ میں صف بستہ کھڑے ہوں گے ۔ نیکو کاروں کو ان کی ایمان پر گامزن رہنے اور اللہ کے احکامات کی بجا آوری اور اس کے بھیجے ہوئے رسولوں کی پیروی کے نتیجہ میں اعلیٰ درجات اور جنت عطا کی جا رہی ہوگی ۔ اسی طرح کافروں اور اللہ کے  رسول کی نافرمانی کرنے والوں کو ان کے کیے  کی سزا مل رہی ہوگی ۔ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا ۔ ابرار خوش ہوں گے تو کفار سخت پشیمانی اور پریشانی میں ہوں گے ۔ لوگ کف افسوس مل رہے ہوں گے کہ اے کاش ہم نے رسول کی بات مان لی ہوتی اور ان گمراہیوں میں نہ پڑے ہوتے ، فلاں کی تقلید نہ کی ہوتی اور رسول کی بات کو سچ مانا ہوتا تو آج یہ خرابی کا دن نہ دیکھنا پڑتا ۔ اس دن ہر ایک پر یہ واضح ہوجائے گا کہ الملک یومئذ الحق للرحمٰن یعنی اس روز حقیقی حکومت صرف حضرت رحمٰن کی ہوگی۔ اللہ جل شانہ’ کا جلال اور شاہانہ رعب و سطوت اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر ہوگا اور وہ تمام کافرین و مشرکین جن کو اعتماد تھا کہ وہ اللہ کو کسی نہ کسی طور راضی کرلیں گے آج اپنی اس حماقت پر خود ہی نادم ہوں گے ۔ اپنی گذشتہ زندگی پر بھرپور پچھتاوا ہوگا اور وہ سب افسوس بے سود ہوگا کیونکہ وقت واپس نہیں پلٹے گا اور اپنے ہاتھ سے کمائے ہوئے اعمال اس دن اپنا پورا پورا بدلہ دیں گے ۔ کافروں کا اس دن اپنے ہاتھوں کو کاٹ کھانا اور گئی زندگی کے سر پھرے اعمال کو چھپا لینا ممکن نہ ہوگا۔ کو پڑھنا جاری رکھیں