پروفیسر ہارون الرشید


الواقعۃ شمارہ: 119 – 122، ربیع الثانی تا رجب المرجب 1443ھ

از قلم : محمد تنزیل الصدیقی الحسینی

بالآخر ’’زندگی نامہ‘‘ کے مولف کی زندگی کا آخری باب اپنی تکمیل کو پہنچا۔ اردو زبان کے مشہور ادیب و نقاد پروفیسر ہارون الرشید 26 جنوری کو سفر آخرت پر روانہ ہو گئے۔ وہ دو ہجرتوں کے حامل دبستان مشرق کی نوا تھے؛ ان کی وفات سے دبستانِ مشرق کا ایک عہد اپنے اختتام کو پہنچا اور امید نہیں کہ کسی نئے عہد کا آغاز ہو سکے۔

پروفیسر ہارون الرشید لالہ بگان، مانک تلہ، کلکتہ میں 3 جولائی 1937ء کو پیدا ہوئے۔ ان کے دادا غازی پور (یوپی) سے اور پر نانا آرہ (بہار) سے کلکتہ آ بسے تھے۔ وہ بچپن ہی سے مذہب کی طرف شدید قلبی رجحان رکھتے تھے۔ سات برس کی عمر سے ہی مسجد میں پنج گانہ نمازیں ادا کرنے لگے تھے جب کہ اس کی نہ انھیں ہدایت کی گئی تھی اور نہ ہی تاکید۔ مذہب سے ان کا تعلق ہمیشہ برقرار اور مستحکم رہا گو وقت کے ساتھ ساتھ ان کے خیالات میں تبدیلی بھی آئی اور قلبِ ماہیت بھی ہوا۔

تقسیم ہند کے وقت ہندوستان کے مختلف خطوں میں مسلم کش فسادات ہوئے؛ لیکن کلکتہ محفوظ رہا۔ اس وقت ان کے خاندان نے فیصلہ کیا کہ وہ وہیں کلکتہ میں  رہیں گے؛ لیکن 1950ء میں کلکتہ میں ہونے والے مسلم کش خونی فسادات نے خاندان کے سربراہ کو اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنے پر مجبور کر دیا۔ چناں چہ اب کسی لیت و لعل کے بغیر ہجرت کا قطعی فیصلہ کر لیا گیا۔ مئی 1950ء کے آخری ہفتے میں پروفیسر صاحب نے اپنے خاندان کے ہمراہ کلکتہ کو الوداع کہا اور پہلے چاٹ گام اور پھر ڈھاکہ چلے آئے۔ چاٹ گام میں ابتدائی قیام کی مدت صرف ایک ماہ تھی۔

ڈھاکہ میں پروفیسر صاحب کی زندگی کا نیا دور شروع ہوا۔ یہیں تعلیم کی تکمیل بھی ہوئی، اور تدریس کا آغاز بھی۔ ادبی ذوق کو جِلا بھی ملی اور تصنیف و تالیف کے لیے قلم کی جنبش بھی ہوئی۔

ڈھاکہ یونی ورسٹی کے شعبہ اردو و فارسی سے انھوں نے اردو میں ایم اے کیا۔ ان کی خواہش تھی کہ وہ پی ایچ ڈی کر لیں۔ اس کے لیے انھوں نے اپنے تئیں پوری کوشش بھی کی مگر اساتذہ کی عدم توجہی کی وجہ سے ان کی پی ایچ ڈی باوجود سعی کے اپنے انجام کو نہ پہنچ سکی۔

ڈھاکہ آ کر زندگی ابھی سنبھلی ہی تھی کہ پھر مشرقی پاکستان سے بنگلہ دیش بننے کی تحریک شروع ہو گئی۔ مشرقی پاکستان میں رہنے والے غیر بنگالیوں کے لیے آہ و فغاں کی ایک نئی راہ منتظر تھی۔ پروفیسر صاحب باوجود یہ کہ کالج میں لیکچرار تھے مگر پھر بھی قید و بند کی صعوبتوں سے گزرے۔

۔1968ء میں پروفیسر صاحب کی پہلی تصنیف ’’اردو ادب اور اسلام‘‘ کی جلد اوّل منصہ شہود پر آئی۔ یہ کتاب اس لائق تھی کہ اس پر پی ایچ ڈی کی ڈگری مرحمت فرمائی جائے مگر پروفیسر صاحب کے نصیب میں یہ ڈگری نہیں تھی؛ اور پروفیسر صاحب کو اس کا ملال بھی نہیں رہا تھا۔ کتاب کی دوسری جلد 1970ء میں طبع ہوئی۔ حصہ نثر و نظم پرمنقسم؛ ان دونوں جلدوں سے پروفیسر صاحب کی ناقدانہ صلاحیتوں کا اظہار ہوتا ہے۔

پروفیسر صاحب کا قلمی سفر شروع ہو چکا تھا۔ ان کی تحریر کی بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ اپنی بات بڑے سلیقے سے پیش کرتے اور کتاب کے فنی لوازمات کا پورا اہتمام کرتے ہیں۔ ان کی تمام کتابیں تصنیفی اسلوب و تقاضوں کے مطابق لکھی گئی ہیں۔

طبیعتاً وہ ایک مذہبی آدمی تھے۔ ان کے اپنے مذہبی نظریات بھی تھے؛ لیکن اس سے کہیں بڑھ کر عافیت پسند تھے۔ مباحثات و مجادلات سے انھیں قطعاً دل چسپی نہیں تھی۔ وہ اپنے مذہبی خیالات کسی پر مسلط کرنے کے قائل نہیں تھے۔

ان کا اصل میدان ادب تھا؛ اور اسی میدان میں  ان کی طبیعت کا رجحان نمایاں ہوتا ہے۔ انھوں نے اپنی پوری زندگی اسلامی ادب کے فروغ کے لیے وقف کر دی؛ لیکن ادبی دنیا میں ان کی اسلام پسندی ہی ان کا سب سے بڑا جرم بن گئی۔ انھوں نے مسلسل تحقیقی و تنقیدی ادب میں کام کیا۔ مگر انھیں نظر انداز کیا جاتا رہا۔ چوں کہ مذہبی ذہن رکھتے تھے اور ادب کو اسی تناظر میں دیکھتے تھے اس لیے سیکولر مزاج، آزاد خیال بزرجمہروں کے نزدیک یہ ان کا نا قابل معافی جرم تھا۔ ان کے ادبی کام کی وہ قدر نہیں ہوئی جو ہونی چاہیے تھی۔ مذہبی طبقے نے بھی ان کے بعض خیالات سے اختلاف کی بنا پر انھیں لائقِ اعتنا نہیں سمجھا۔

پروفیسر صاحب کا ایک بڑا کارنامہ ’’دبستانِ مشرق‘‘ کی تاریخ کو جریدہ عالم پر ثبت کرنا ہے۔ تقسیم ہند کے بعد مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) میں  اردو زبان و ادب کے کئی اساطین ڈھاکہ، چٹا گانگ، سلہٹ وغیرہا میں آ بسے تھے۔ ان علم و ادب کے پروانوں نے اردو شعر و ادب کی خدمت انجام دی۔ ان میں کئی بڑے نام بھی ہیں۔ مگر افسوس بیشتر کے حالات اور کارناموں پر پردہ خفا کی دبیز چادر چڑھ گئی تھی پروفیسر صاحب نے اس گرد کو صاف کیا اور ان کی خدمات کو نمایاں۔ اس ضمن میں تین کتابیں لکھیں: ’’محفل جو اجڑ گئی‘‘ (2002ء)، ’’دو ہجرتوں کے اہل قلم‘‘ (2012ء) اور ’’نوائے مشرق‘‘ (2013ء)۔ یہ تینوں کتابیں علمی اعتبار سے سند کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ان کتابوں میں پروفیسر صاحب کی حیثیت ایک معاصر تذکرہ نگار کی ہے، جس سے ان کتابوں کی قدر و قیمت کافی بڑھ جاتی ہے۔

پروفیسر صاحب کی دیگر اہم علمی و ادبی کتابوں میں ’’سرگزشتِ آصف‘‘ (1983ء)، ’’نیازؔ فتح پوری کے مذہبی افکار‘‘ (2005ء)، ’’اردو کا دینی ادب‘‘ (2006ء)، ’’اردو کا جدید نثری ادب‘‘ (2009ء)، ’’جدید اردو شاعری‘‘ (2010ء)، ، ’’منقبت صحابہ کرام‘‘ (2010ء)، ’’اردو کا قدیم ادب‘‘ (2011ء)، ’’غلام احمد پرویز کے افکار‘‘ (2014ء)، ’’اسلامی ادب‘‘ (2017ء) وغیرہا شامل ہیں۔

پروفیسر صاحب نے اپنی خود نوشت، ’’زندگی نامہ‘‘ کے عنوان سے لکھی، جو 2015ء میں منظر شہود پر آئی۔ جس سچائی کے ساتھ پروفیسر صاحب نے اپنی داستانِ حیات بیان کی ہے وہ لائق ستائش بھی ہے اور حیرت انگیز بھی۔

بدو شعور کے آغاز ہی سے پروفیسر صاحب سے غائبانہ شناسائی ہو گئی تھی۔ والد صاحب کی تربیت نے بچپن ہی سے کتابوں سے رغبت پیدا کر دی تھی۔ نہایت کم عمری ہی سے کتابیں پڑھنے کا شوق دامن گیر رہا۔ والد مرحوم کی رہ نمائی نے نہ صرف پڑھنے کا شوق پروان چڑھایا بل کہ ذوق و معیار کی تعمیر میں بھی حصہ لیا۔ 12 / 13 برس کی عمر ہوگی کہ پروفیسر صاحب کی کتاب ’’اردو ادب اور اسلام‘‘ حاصل ہوئی۔ کتاب کا اسلوب تصنیف ایسا دل نشیں تھا کہ بڑے ذوق و شوق سے پڑھا۔ اس کتاب نے میرے ادبی ذوق کو نکھارا اور مجھ پر اسلامی ادب کی قدر و منزلت آشکار کی۔

پروفیسر صاحب سے غائبانہ تعلق جس قدر جلد استوار ہوا؛ براہ راست تعلق کی استواری میں اسی قدر تاخیر ہوئی۔ میرے اور ان کے مابین معنوی تعلق کی مدت تقریباً تین برس رہی ہوگی؛ گو تعلق کا دورانیہ طویل نہیں لیکن روابط کے عمق نے جلد ہی اس تاخیر کی تلافی کر دی۔

وہ پیرانہ سال تھے۔ ضعیفی نے ان کے چہرے اور جسم پر اپنے نقوش ثبت کر دیے تھے مگر عالی ہمت تھے۔ آخر وقت تک قلم و قرطاس سے ان کا تعلق برقرار رہا۔ وفات سے صرف تین دن قبل ہی ان سے ملاقات ہوئی۔ اس آخری ملاقات میں پروفیسر صاحب نے کمالِ شفقت کا اظہار فرماتے ہوئے مجھے اپنی تمام کتابوں کی طباعت کی اجازت بھی دے دی تھی۔ اس وقت وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ یہ آخری ملاقات ہوگی اور کتنی ہی باتیں اَن کہی رہ گئیں۔


وہ سالہا سال سے اپنے گھر پر اہل علم و فضل کی اتواری نشست کے میزبان تھے۔ اس میزبانی میں ان کے فرزند جناب زاہد رشید بھی ان کے شریک تھے۔ افسوس اہل علم کی جو بزم انھوں نے سجائی تھی وہ محفل بھی ان کی وفات کے بعد اجڑ گئی۔ دعا ہے کہ اللہ رب العزت انھیں شاخ طوبیٰ کی گھنی چھائوں عطا کرے اور اس دنیا کی محفل سے کہیں بہتر محفل انھیں نصیب ہو۔ آمین

تبصرہ کتب: نوائے ضمیرؔ


الواقعۃ شمارہ: 101 – 103، شوال المکرم تا ذی الحجہ 1441ھ

نوائے ضمیرؔ

مجموعہ کلام حکیم محمود احمد ضمیرؔ برکاتی
مرتب: ڈاکٹر سہیل برکاتی
سن طباعت: 2019ء، صفحات: 122
ناشر: برکات اکیڈمی، سی 19، بلاک اے – 3، گلستانِ جوہر کراچی
رابطہ نمبر: 03323456259

حکیم محمود احمد برکاتی عالم، حکیم، فلسفی، طبیب اور کئی کتابوں کے مصنف تھے۔ قدیم و جدید پر ان کی یکساں نظر تھی۔ علوم عقلیہ کی ایک مخصوص علمی و فکری دبستان کے نمائندہ عالم تھے۔ لیکن بہت کم لوگ ہوں گے جو یہ جانتے ہوں کہ حکیم صاحب با قاعدہ شاعر بھی تھے۔ ان کی شاعری ان کے افکار و خیالات کی طرح پاکیزہ اور با مقصد تھی۔ ان کا یہ مجموعہ کلام "نوائے ضمیرؔ” ان کی وفات کے چھے برس بعد پہلی مرتبہ منصہ شہود پر آیا ہے۔ حکیم صاحب کا کلام منتشر و متفرق تھا اس کے مرتب ان کے صاحب زادے ڈاکٹر سہیل برکاتی ہیں۔ جنھوں نے بڑی محبت کے ساتھ اپنے والد کے کلام کو یکجا کیا اور عمدہ انداز میں اس کی طباعت کی۔

کتاب کے آغاز میں حکیم صاحب کا مختصر سوانحی خاکہ تحریر کرنا چاہیے تھا جس کی کمی محسوس ہوتی ہے۔

حکیم محمود احمد برکاتی 21 اکتوبر 1924ء کو ریاست ٹونک (راجستھان، انڈیا) میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم ٹونک میں مدرسۂ خلیلیہ نظامیہ میں حاصل کی۔ اس کے بعد مدرسۂ معینیہ عثمانیہ (اجمیر) میں درسِ نظامی کی تکمیل کی۔ اُن کے اساتذہ میں مولانا معین الدین اجمیری، مولانا محمد شریف اعظم گڑھی، مولانا عبد الرحمن چشتی وغیرہم شامل ہیں۔ اس کے بعد الٰہ آباد سے فاضلِ ادب اور طبیہ کالج (دہلی) سے فاضل الطب والجراحت کی اسناد حاصل کیں۔

عملی زندگی کا آغاز ٹونک میں اپنے مطب سے کیا۔ 1954ء میں کراچی تشریف لے آئے اور اس کو اپنا مستقل مسکن بنایا۔ کراچی میں اپنا مطب برکاتی دواخانہ قائم کیا اور طب اور علم و ادب کی خدمت میں مصروف ہو گئے۔ طب کے میدان میں اُن کی غیر معمولی تحقیقی خدمات کے اعتراف میں ہمدرد یونی ورسٹی (کراچی) نے اُنھیں 1997ء میں ’’سندِ امتیازِ طب‘‘ اور 2001ء میں ’’ڈاکٹر آف سائنس‘‘ کی اعزازی سند عطا کی۔ تاریخ، سوانح اور طب ان کے پسندیدہ موضوعات تھے جن پر حکیم صاحب نے دو درجن سے زائد کتابیں لکھیں۔ 9 جنوری 2013ء کو فیڈرل بی ایریا کراچی میں  واقع ان کے مطب میں دہشت گردوں نے فائرنگ کر کے انھیں شہید کر دیا۔ اللہ رب العزت ان کے درجات بلند کرے۔

۔”نوائے ضمیرؔ” مختصر سا مجموعہ کلام ہے۔ تاہم اس میں افکار کی مختلف جہتیں اور شاعری کے کئی اسالیب نظر آتے ہیں۔ کہیں تشبیہ و استعارات ہیں تو کہیں  واشگاف طور پر اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہیں اور کہیں گزشتہ شاعروں کے زمین کی پیروی اپنے اسلوب میں کرنے کی کوشش کی ہے۔

۔”حرم نامہ” کے زیرِ عنوان لکھتے ہیں:-۔

اک خطا کار و سیہ کار ہو مہمانِ حرم
اللہ اللہ رے ! یہ وسعتِ دامانِ حرم
لرزشِ دل کے سوا، اشکِ مسلسل کے سوا
کوئی ہدیہ نظر آتا نہیں شایانِ حرم

۔13 اگست 1996ء کو عمرہ کی سعادت کے موقع پر جو نظم انھوں نے لکھی اس میں امت کی پریشانیوں کا نوحہ بھی ہے اور عجز کا اعتراف بھی۔ اس کی ابتدا اس طرح کرتے ہیں:-۔

محمود خطا کار ہے اے رب محمد ﷺ
اب حاضر دربار ہے اے رب محمد ﷺ

اور اختتام اس طرح:-۔

چاہے تو ہمیں پھر سے مسلمان بنا دے
تو قادر و مختار ہے اے رب محمد ﷺ

۔نشید توحید” کے زیر عنوان ایک موحدانہ نظم کے اشعار ملاحظہ کیجیے:-۔

صنم کدے میں ترے جذبہ پرستش کو
نہ مل سکے گا سکوں، لا الہ الا اللہ
جیوں تو صرف خدا کے لیے ہو زیست مری
مروں تو کہہ کے مروں، لا الہ الا اللہ
ضمیرؔ بر سرِ اوراق عالم اسباب
نوشتہ ایم زخوں، لا الہ الا اللہ

موسم حج کے موقع پر جب شاعر زیارت سے محروم تھے تو بے اختیارانہ کہہ اٹھتے ہیں:-۔

موسم گل آ گیا زنداں میں بیٹھے کیا کریں
خون کے چھینٹوں سے کچھ پھولوں کے خاکے ہی سہی

حکیم صاحب ماہر منطق و فلسفہ بھی تھے، اُس کے اثرات بھی ان کی شاعری میں کہیں کہیں نمایاں ہیں۔ کلام ضمیرؔ میں عام قاری کے لیے عموماً یہ مقام قدرے مشکل ہے۔ ایک آسان سا فلسفیانہ شعر ملاحظہ ہو:-۔

اعتراف عدم علم، بایں لا علمی
دعویٰ علم عدم کے لیے ہے اک تقریب

کلام ضمیرؔ کے چند متفرق اشعار ملاحظہ فرمایئے:-۔

دل دیا، جاں سونپ دی اور نذر ایماں کر دیا
میں نے جو کچھ پاس تھا وہ نذرِ جاناں کر دیا
اللہ اللہ آپ کے رنگیں تصور کی بہار
قلبِ ویراں کو مرے، رشکِ گلستاں کر دیا
غم انسان کی فطرت میں داخل ہے شاید
خوشی میں بھی رونے کو جی چاہتا ہے
انکشافِ حادثات شام ہجراں کیا کریں
ہم پریشان ہیں تو ہوں ان کو پریشاں کیا کریں
دل بھی ان کا، دیں بھی ان کا، جاں بھی ان کی، اے ضمیرؔ
سوچنا یہ ہے کہ آخر ان پہ قرباں کیا کریں
اے قصر نشینِ روح و جاں اٹھ دل سے نکل کر باہر آ!
وہ قرب مجھے مطلوب نہیں، کر دے جو نظر سے پوشیدہ
جو وسوسے کہ دل میں اٹھائے ہوئے تھے سر
ساغر اٹھا لیا تو وہ موہوم ہو گئے
حاصل در نبی کی زیارت سے کیا ہوا
آیا جو انقلاب نہ اپنے مذاق میں
کافر کو اپنی جاں بھی نہیں اس قدر عزیز
مومن کو جس قدر کہ شہادت عزیز ہے

حکیم صاحب کے کلام کا یہ انتہائی مختصر سا مجموعہ ہے۔ بیشتر کلام یا تو ضایع ہو چکا ہے یا پھر ہنوزِ منتظر طباعت ہے۔

جو لوگ با مقصد شاعری پڑھنا پسند کرتے ہیں ان کے لیے نوائے ضمیرؔ ایک لائقِ مطالعہ مجموعہ ہے۔ اسی طرح جو لوگ شعر و ادب کی تاریخ قلمبند کرتے یا اس سے دل چسپی رکھتے ہیں انھیں چاہیے کو کلامِ ضمیرؔ کو بھی اس کا جائز ادبی مقام دیں۔

مبصر: محمد تنزیل الصدیقی الحسینی

مقامِ عبرت یا موجبِ بصیرت


الواقعۃ شمارہ: 101 – 103، شوال المکرم تا ذی الحجہ 1441ھ

از قلم : محمد تنزیل الصدیقی الحسینی

حوادثِ مسلسل میں ہجومِ افکار کی بھی اپنی ہی ایک دنیا ہے۔ کبھی ناکامی کے اندیشے ڈراتے ہیں تو کبھی کوئی امید زندگی بن جاتی ہے۔ جس طرح فرد کی زندگی احساس و جذبات کی ایک مکمل دنیا ہے اسی طرح قوموں کی زندگی میں حوادث بھی آتے ہیں اور افکار بھی۔ اندیشے بھی ڈراتے ہیں اور امیدیں بھی پروان چڑھتی ہیں۔

جس طرح ایک انسان کی زندگی میں جہد للبقاء کی ایک ایسی منزل آتی ہے کہ جہاں ناموسِ ملی پر سمجھوتے کے ساتھ جینا یا غیرت ایمانی کے ساتھ مر جانے کی راہ کا انتخاب نا گزیر ہو جاتا ہے۔ بالکل اسی طرح قوموں کی زندگی میں بھی یہ مرحلہ آتا ہے۔ جب وقت کا منصف بتاتا ہے کہ تمہاری فتوحات کا موسم چلا گیا، اب یا تو مٹ جاؤ یا پھر غیرت ملی کو بچا لو۔ اور ایک تیسری راہ بھی ہے جو کم ہمتوں اور مصلحت کیشوں کی ہمیشہ اوّلین ترجیح رہی ہے، کہ کسی بھی طرح جی لو، خواہ ایمان کا سودا کرنا پڑے یا غیرت ملی کو قربان کرنا پڑے۔

یہاں کم ظرفوں اور کم ہمتوں کے راہِ انتخاب پر مکالمہ مقصود نہیں۔ یہ دنیا کم ہمتوں کو ٹھوکروں پر رکھتی ہے۔ یہ لوگ جی کر بھی مر چکے ہیں، اور ان کے متعفن جسم کی بو آج بھی تاریخ کے صفحات میں محسوس کی جا سکتی ہے۔ ان کے نفاق نے انھیں ہمیشہ غیرتِ ایمانی کی موت میں جسمِ ظاہر کی زندگی دکھائی ہے اور انھوں نے ہمیشہ منافقت کو مصلحت اور بزدلی کو حکمت کے لباسِ فریب سے سنوارا ہے۔

اصل زندگی ان ہی کی ہے جنھوں نے بطلان و عصیان کے مقابلے میں حق پرستی کی راہ منتخب کی۔ وقت کے فرعونوں کا للکارا اور نماردہ عالم کو آنکھیں دکھائیں۔ اللہ کے دشمنوں سے مقابلہ کیا اور اس کی صداقت کی راہ میں اپنی جانیں لڑا دیں اور اس یقین کے ساتھ کہ جو کوئی اللہ، اس کے رسول اور اہلِ ایمان کے ساتھ ہو وہی ہمیشہ غالب ہوگا۔ وَمَنْ يَّتَوَلَّ اللّـٰهَ وَرَسُوْلَـهٗ وَالَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا فَاِنَّ حِزْبَ اللّـٰهِ هُـمُ الْغَالِبُوْنَ (المائدۃ: 56)۔

دنیائے فانی کی آزمائشیں ہر دور اور زمانے میں آئی ہیں اور آتی رہیں گی۔ مگر ایک صاحبِ ایمان کی غیر فانی صداقت کی راہ اس سے کہیں بلند ہے کہ وہ آزمائشوں سے گھبرا کر اپنے مقصد سے منحرف ہو جائے۔ اس کا یقین اسے بتاتا ہے کہ جو کوئی بھی راہِ الٰہ سے منحرف ہوگا مٹ جائے گا، اس کے اعمال ضائع ہوں گے اور زندگی اکارت جائے گی۔ وَمَنْ يَّرْتَدِدْ مِنْكُمْ عَنْ دِيْنِهٖ فَيَمُتْ وَهُوَ كَافِرٌ فَـاُولٰٓئِكَ حَبِطَتْ اَعْمَالُـهُـمْ فِى الـدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ ۚ وَاُولٰٓئِكَ اَصْحَابُ النَّارِ ۚ هُـمْ فِيْـهَا خَالِـدُوْنَ (البقرۃ: 217)۔

دنیا بدل رہی ہے، بالخصوص اسلامی دنیا۔ سطح ارضی پر کھینچی گئی لکیروں میں تبدیلی کا وقت تیزی سے آ رہا ہے۔ چشم بصیرت وَا ہو تو اسلامی دنیا کے نقشے سے ٹپکتا ہوا لہو بھی نظر آ سکتا ہے اور سسکتی ہوئی زندگی کی پکار بھی سنائی دے سکتی ہے۔

تاریخ ہمیشہ خود کو دہراتی ہے، لیکن اس کا فیصلہ کبھی نہیں بدلتا۔ بنی نوع انسان کی تاریخ کا فیصلہ کن باب کھل چکا ہے۔ ملتِ اسلامیہ کے سمندر میں تلاطم بپا ہے۔ موت کے خوف میں زندگی کی خواہش اور ظلم کے سایے میں عدل کی امید دم توڑ رہی ہے۔ اسلام کی تاریخ میں اگر خالد کی تلوار، ایوبی کی یلغار اور ابن زیاد کی للکار ہے تو وہیں سقوطِ بغداد، دہلی ، ڈھاکہ و قدس کی خونیں داستانیں بھی ہیں۔

وقت کا پہیہ ایک بار پھر امت مسلمہ کو اسی مقام پر لے آیا ہے جہاں ہمیں یا تو تلوار، یلغار اور للکار کی راہ کا انتخاب کرنا ہے یا پھر سقوط و زوال کی ذلت برداشت کرنی ہے۔ اب صرف اسلاف کی عظمتوں کی داستانیں سنا کر کام نہیں چل سکتا۔ یہ وقت اپنی روایات اور نسب کو گلے لگا کر سحر انگیز فسانوں کو تیار کرنے کا وقت نہیں ہے کہ ہم ماضی کے اسیر بن کر مستقبل میں قدم نہیں رکھ سکتے۔

بکہ کی وادیوں میں فاران کی چوٹیوں سے صدائے توحید بلند ہو رہی ہے اور یثرب کے غیر فانی بادشاہ کی فوجیں آراستہ ہو رہی ہیں۔ ہمارا ایمان اور عقیدہ ہے کہ قوموں کی تاریخ میں یہ مقامات حکمتِ الٰہی کا ایک دروازہ ہے، جو کھلتا ہے اس لیے کہ بہروں کو سنا سکے اور اندھوں کو دکھا سکے۔ جو کسی کے لیے مقامِ عبرت بنتا ہے اور کسی کے لیے موجب بصیرت۔

Where will the Antichrist come from? By Mohammad Tanzeel as Siddiqi al Husaini


The most frequently asked question about the antichrist is where will the antichrist come from?

It is stated in the hadith that the antichrist will come out of Khurasan and what kind of people will follow him? People will follow him whose faces will be like layers of shields.

This video is prepared from an article in Al-Waqia Magazine Karachi’s special fitna Dajjal edition.
https://alwaqiamagzine.wordpress.com/

 

To know more about Antichrist and to understand his system and its demons, see the following:

https://www.youtube.com/playlist…

Please ♥️like and 📣share the video
and don’t forget to subscribe for new videos on time.

Follow Dar ul Ahsan Media on social media:
👉https://www.facebook.com/DarulAhsanMe
👉messenger: https://m.me/DarulAhsanMedia

🌐Website: https://www.darulahsan.com/

 

کرونا وائرس، لاک ڈاؤن اور نور و ظلمت کی دنیا – اداریہ


الواقعۃ شمارہ: 98 – 100، رجب المرجب تا رمضان المبارک 1441ھ

از قلم : محمد تنزیل الصدیقی الحسینی

زندگی فریبِ نفس و نظر کے سوا کچھ بھی نہیں۔ قریب ہے کہ "متاع الغرور” کی حقیقت آشکارِ عالم ہو جائے۔ کتنی ہی امیدیں ہیں جو دم توڑ رہی ہیں اور کتنے ہی خواب ہیں جو بکھر چکے ہیں۔ دل آرزوؤں کے مدفن بن رہے ہیں اور حسرت نا تمام کے داغ انسانی زندگی کا فسانہ بیان کر رہے ہیں۔ کو پڑھنا جاری رکھیں

Was Ertugrul a non-Muslim?


تحقیق: محمد شاہ رخ خان، کراچی

 

 

See the following:

Please like, share and subscribe to get new videos on time. Follow Dar ul Ahsan Media on social media:

کیا ارطغرل بن سلیمان شاہ مسلمان نہیں تھے ؟


الواقعۃ شمارہ: 98 – 100، رجب المرجب تا رمضان المبارک 1441ھ

از قلم : محمد شاہ رخ خان – کراچی

جب کبھی اسلام پر حملہ مقصود ہو تو اسلامی شخصیات کو متنازع بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ خواہ وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم جیسے مقدس شخصیات کی توہین ہوں، یا کسی بھی اسلامی تاریخی شخصیت کے کردار پر الزامات، جیسے حال ہی میں کو پڑھنا جاری رکھیں

Respect the legacy of Prophet Muhammad (P.B.U.H): By Mohammad Tanzeel as Siddiqi al Husaini


👉#Religion should not be used as #entertainment. But Today, unfortunately, many people are #violating the #legacy of the #Prophet #Muhammad (PBUH).
👉For Allah’s sake! Correct yourself and do not desecrate the legacy of the Prophet Muhammad (PBUH).
May Allah Almighty help us all to accept the #truth and follow it. Aameen.

وَذَرِ الَّـذِيْنَ اتَّخَذُوْا دِيْنَـهُـمْ لَعِبًا وَّلَـهْوًا وَّغَـرَّتْـهُـمُ الْحَيَاةُ الـدُّنْيَا ۚ (الانعام : ۷۰)
“And leave those who have made their religion a sport and a pastime, and the worldly life has deceived them.”

 

Please ♥️like, 📣share and subscribe to get new videos on time. Follow Dar ul Ahsan Media on social media:

دجال مادہ پرستوں کا خدا (ویڈیو)۔


تحقیق: محمد تنزیل الصدیقی الحسینی

قادیانی طریقہ بیعت اور قادیانی دجل


الواقعۃ شمارہ: 98 – 100، رجب المرجب تا رمضان المبارک 1441ھ

از قلم : عبید اللہ لطیف

قارئینِ "الواقعۃ” اس مضمون میں مرزا قادیانی اور اس کے متبعین کے اقتباسات یقیناً ایک صاحبِ ایمان کے لیے بہت تکلیف دہ ہیں۔ ان کے کفریہ ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔ تاہم انھیں صرف اس لیے نقل کیا گیا ہے تاکہ امت مسلمہ میں کو پڑھنا جاری رکھیں

لاک ڈاؤن، ملاحم اور امام مہدی


الواقعۃ شمارہ: 98 – 100، رجب المرجب تا رمضان المبارک 1441ھ

از قلم : محمد تنزیل الصدیقی الحسینی

روایت:۔

عن کعب قال: "یوشک أن یزیح البحر الشرقی حتی لا یجری فیہ سفینۃ، وحتی لا یجوز أھل قریۃ الی قریۃ، وذٰلك عند الملاحم، وذٰلك عند خروج المھدی۔”۔ کو پڑھنا جاری رکھیں

مشاہیر صدیقی


سیّدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اولاد و احفاد کا تذکرہ

الواقعۃ شمارہ: 96 – 97، جمادی الاول و جمادی الثانی 1441ھ

اشاعت خاص: سیدنا ابوبکر صدیق اکبر رضی اللہ عنہ

از قلم : محمد تنزیل الصدیقی الحسینی

خانوادہ صدیق رضی اللہ عنہ

اہل بیتِ نبوی ﷺ کے بعد خانوادہ صدیق رضی اللہ عنہ کو اسلام میں خاص امتیازی مقام حاصل ہے، جس کی دوسری کوئی نظیر نہیں۔ چند مثالیں پیشِ خدمت ہیں:-۔

٭ – حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کی چار پشتوں نے اسلام قبول فرمایا۔ کو پڑھنا جاری رکھیں

مجلہ "الواقعۃ” کراچی : اشاعت خاص برائے "سیدنا ابوبکر صدیق اکبر رضی اللہ عنہ”۔


Syedna Siddiq e Akbar (R.A) – Al-Waqia Magazine (Special Edition)

الحمد للہ مجلہ "الواقعۃ” کی اشاعت خاص برائے "سیدنا ابوبکر صدیق اکبر رضی اللہ عنہ” مرحلہ طباعت سے گزر کر منصہ شہود پر آ چکا ہے۔ حسب ذیل مقامات سے دستیاب ہے:

لاہور:
مکتبہ بیت السلام 03054863017،
دار الاسلام 03219425765

احمد پور شرقیہ:
ادارہ تفہیم الاسلام 03022186601

کراچی:
مکتبہ دار الاحسن 03333738795
بسم اللہ بک ہاؤس 03122846175