خون بدل، آہ بلب، اشک بمژگاں آید – اداریہ


الواقعۃ شمارہ: 74 – 75، رجب المرجب و شعبان 1439ھ

از قلم : محمد تنزیل الصدیقی الحسینی

آج ہم تاریخ کے اس موڑ پر کھڑے ہیں جہاں ہمارے پاس اپنی عظمت رفتہ کو یاد کرنے کے لیے تو بیش قیمت سرمایہ موجود ہے مگر خود اپنے حال کی زبوں حالی پر اشک بہانے کے لیے اسباب و وجوہ کی کمی نہیں۔ عظمتِ رفتہ کے نقوش کتنے ہی شاندار کیوں نہ ہوں لیکن زمانہ حال کی پسماندگی کو دور نہیں کر سکتے۔ ہم اپنے شاندار ماضی کو کتنا ہی آراستہ کرکے دنیا کے سامنے پیش کریں مگر یہ آراستگی بھی ہمارے آج کو بدل نہیں سکتی۔
ہمارے پاس کیا نہیں جس سے ہمارے اسلاف کے خزانے معمور تھے۔ وسعت علم، ذخیرئہ علم و حکمت و کتب کی کمی نہیں۔ اسباب معاش کی فراخی اور جدید تکنیک کی سہولت بھی ہمیں حاصل ہے۔ خطہ زمین کی وسعت اور معادن ارضی کی نعمتِ فراواں کی بھی کمی نہیں۔ لیکن یقیناً ایمان کی متاعِ گراں مایہ سے ہم مفلس ہیں، جو ہمارے عہدِ سلف کی سب سے قیمتی متاع تھی۔ہائے افسوس !
ہم بڑی چیز سمجھتے تھے یہ مے خانے میں
نکلا ایک جام کی قیمت بھی نہ ایماں اپنا
آج افسوس تو اس بات کا ہے کہ ہم اپنا ماتمِ غم بھی ڈھنگ سے نہیں منا سکتے۔ شام کی بے چارگی کا رونا شروع کرتے ہیں تو افغانستان کے سینے سے زخم رسنا شروع ہو جاتے ہیں۔ میانمار کی بات کرتے ہیں تو کشمیر کی آہ و فغاں سامعہ نواز ہوتی ہے۔
یہ کچھ زیادہ دنوں کی بات نہیں جب شام کے ریگستانوں میں ایک معصوم بچہ تنہا ہجرت کی سنت تازہ کر رہا تھا اور قریباً چار برس کی معصوم شامی بچی مرنے سے پہلے اپنے غم گساروں کو کہہ رہی تھی کہ میں اللہ کو سب کچھ بتا دوں گی۔ ہم اسلامیانِ پاکستان اپنے اسلامستان میں کمسن زینب کی آبرو ریزی پر ششدر تھے کہ کشمیر کے کفرستان میں نوخیز آصفہ پر ہونے والے جبر نے دم بخود کر دیا۔
گر قلم بر سر غمنامہ دوراں آید
خون بدل، آہ بلب، اشک بمژگاں آید(1
بد قسمتی سے آج مسلمانوں کے نزدیک تعداد کی قلت و کثرت، آلات حرب کی کمی و زیادتی اور وسائل گوناگوں کی وسعت و فراخی پیمانہ کامیابی بن چکی ہے۔ انھوں نے ایمان و توکل کے ایمانی پیمانوں کو فراموش کر دیا ہے۔
آج امت مسلمہ کی اساس وحدت و یگانگت کی بجائے افتراق و تشتت پر استوار کی جا رہی ہے۔ تشکیک زدہ اذہان وعدہ نصرت الٰہی پر بر ملا شک و ریب کا اظہار کر رہے ہیں مگر جب وہ "ان کنتم مومنین” کے مخاطب ہی نہ بنے ہوں تو پھر کیا حق ہے کہ وعدہ نصرت الٰہی کے نا تکمیل پذیر ہونے کا شکوہ کریں۔
ہم نے اپنی متاعِ ایمانی غفلت کے مے کدوں میں برباد کر دی اب کیا جواز ہے کہ الٰہی وعدوں پر زبانِ طعن کو دراز کریں۔
حلاوت ایمانی کا اپنا ہی ایک ذائقہ ہے جسے صرف اہلِ ایمان ہی چکھ سکتے اور اس کے لذت آشنا ہو سکتے ہیں۔ جو لوگ روحانی فیصلوں کو بھی مادی پیمانوں میں دیکھتے ہیں وہ ان حقیقتوں تک کبھی رَسائی نہیں پا سکتے۔ یہ ایک صاحبِ ایمان ہی ہے جسے رنگینی دنیا کی دلفریبیاں اور شبستانِ وجود کی اٹھکھیلیاں مغلوب نہیں کر سکتیں۔ گو حوادث زمانہ کی آزمائشیں ان پر آ وارد ہوتی ہیں لیکن اس حال میں بھی ان کی روح کی شادمانی اور دل کی خوشحالی برقرار رہتی ہے۔
یہ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آساں سمجھتے ہیں مسلماں ہونا
سطح ارضی پر بہنے والے مظلوم مسلمانوں کے لہو کا غم ہر سینہ محسوس نہیں کر سکتا، معصوم بچوں کی آہ و فغاں کا شور ہر کان نہیں سن سکتا اور امت محمد ﷺکی اس ویراں حالی کا درد ہر دل کا سرمایہ غم نہیں بن سکتا۔ یہ ٹھیک ہے کہ ان مظلوموں کی آہ و بکا عالمی ذرائع ابلاغ کی توجہ کا باعث نہیں بنی، لیکن صاحب ایمان قلوب ہمیشہ اس کی کسک اپنے دل میں محسوس کرتے رہیں گے۔

—————-

1 اگرچہ تقدیر کا قلم ہماری قسمت کے غم نامہ پر غالب آ گیا ہے تو دل سے خون، منہ سے آہ اور پلکوں سے آنسو بھی جاری ہیں۔

Please Leave a Reply

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.