امت مسلمہ کا المیہ اور اس کا حل


الواقعۃ شمارہ: 113 – 118، شوال المکرم 1442ھ تا ربیع الاول 1442ھ

از قلم : محمد تنزیل الصدیقی الحسینی

مملکت عزیز کے تمام مذہبی حلقوں کو چند امور کا بخوبی ادراک کر لینا چاہیے:-۔

۔1 تمام اسلامی ممالک کی حکومتوں کا رویہ لبرل اور سیکولر جماعتوں کے ساتھ کچھ اور ہوگا اور خالص مذہبی جماعتوں کے ساتھ کچھ اور۔ رویے کا یہ فرق ماضی میں بھی دیکھا جا سکتا ہے، حال میں بھی اور مستقبل میں یہ فرق اپنی شدت کے ساتھ مزید نمایاں ہوگا۔

۔2 تمام مذہبی اسلامی جماعتیں تنہا پرواز کی بجائے اتحاد کی راہ اپنائیں۔ ان کا اتحاد لا دین قوتوں کو کمزور کرے گا اور ان کا انتشار امت محمدیہ علیٰ صاحبھا السلام کے ضعف کا سبب بنے گا۔ اس لیے اللہ اور رسول ﷺ کے نام لیوا، اللہ اور رسول ﷺ کی خاطر ہی متحد ہو جائیں۔

۔3 بنگلہ دیش ہو یا مصر یا پاکستان جب جب مذہبی طبقے نے اپنی اپنی حکومتوں سے محاذ آرائی کی راہ اختیار کی تو انھیں سخت رد عمل کا سامنا کرنا پڑا۔ کیوں کہ یہ سخت رد عمل عالمی طاقتوں کے اشارے اور ان کی خوشنودی پر کیا گیا اسی لیے عالمی حقوق انسانی سے وابستہ تنظیموں کا ضمیر کبھی بیدار نہیں ہوا۔

گو کہ امت مسلمہ اپنی مشکلات کے بد ترین دور سے گزر رہی ہے۔ اور ان حالات میں عمل سے زیادہ ماضی میں کی گئی غلطیوں کے نتائج بھگتنے کے دور سے گزر رہی ہے۔ تاہم ضروری ہے کہ جلد از جلد اسلامی جماعتیں، علمی و فکری اشخاص اس حقیقت کا ادراک کر لیں:-۔

۔1 اس وقت تقریباً ہر مسلک میں متشدد مزاج گروہ کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ جو ”پیالی میں طوفان اٹھانے “ کی صلاحیت سے معمور ہیں اور معمولی معمولی مسائل پر امت محمد ﷺ میں افتراق کے بیج بوتے ہیں۔ ضروری ہے کہ قیادت کی قوت اس محور سے تبدیل کر کے متعدل مزاج افراد کو دی جائے۔ اس طرح سیاسی و سماجی سطح پر ”عمل “ اور ”رد عمل “ دونوں کی نوعیت بدل جائے گی۔

۔2 تمام اسلامی جماعتیں جو اللہ، رسول ﷺ، قرآن اور صحابہ رضی اللہ عنھم پر ہم عقیدہ ہیں۔ آپس میں اتحاد کی فضا بنا کر رکھیں۔ لا دینی قوتوں کے خلاف مل کر کام کریں۔ تنہا پرواز کی بجائے ہمیشہ مشترکہ راہ عمل کو اختیار کریں۔ اس طرح انھیں خس و خاشاک کی طرح بہانا اور آسانی سے دبانا ممکن نہ ہوگا۔

۔3 تمام اسلامی جماعتیں ہر سطح پر مشترکہ پلیٹ فارم کی حوصلہ افزائی کریں۔ اس طرح ایک مثبت معاشرتی تبدیلی رونما ہوگی۔

۔4 کسی بھی طبقے کے لیے کثرت کا زعم انتہائی خطرناک اور محض فریب ہے۔ لا دین طبقات ایسے ہی فریب سے مسلمانوں کے مختلف طبقات کو بے وقوف بناتے آئے ہیں اس لیے وقت آ چکا ہے کہ ہر قسم کے فریب سے باہر نکلا جائے۔

آخر میں عرض ہے کہ اس وقت ”جدید ریاستِ مدینہ “ میں جو قیامت برپا ہے اس کا جواب تمام دینی حلقے ایک ہو کر پورے شعور و اذعان کے ساتھ دیں۔ پوری قوت کے ساتھ لیکن مکمل فہم رکھتے ہوئے تمام لا دینی قوتوں کو بتا دیں کہ اسلام پسندوں کو کسی بھی طرح دیوار سے لگایا نہیں جا سکتا۔ دین کی بنیادی و اعتقادی اساسیات سے انحراف کسی صورت گوارا نہیں کیا جائے گا۔ رسول اللہ ﷺ کے نام کی عزت و حرمت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا اور اس ذات عالی قدر کے ناموس کے لیے ہر قربانی بخوشی دی جا سکتی ہے۔ تمام دینی حلقے یک زبان ہو کر مطالبہ کریں کہ توہینِ رسالت کے مرتکب و ملوث ہر ملک سے ہر طرح کے تعلقات کا انقطاع اب رسول اللہ ﷺ کی عزت و ناموس کا مسئلہ بن چکا ہے۔ قوم ہر طرح کی قربانی دینے کے لیے تیار ہے۔ یورپ ہو یا عالمی طاقتیں وہ سطح ارضی کے فرعون تو ہو سکتے ہیں لیکن کائنات کے پالنہار نہیں۔ ہمارا رازق و مالک کل بھی اللہ تھا اور آج بھی وہی ایک اللہ ہے اور آئندہ بھی صرف اسی ایک اللہ پر ہمارا توکل استوار ہے۔ لہٰذا اسباب معیشت کی تنگی کا ڈراوا، حرمت رسالت ﷺ کی قیمت پر کسی طرح قبول نہیں۔

نہ جب تک کٹ مروں میں خواجہ یثرب کی حرمت پر
خدا شاہد ہے کامل میرا، ایماں ہو نہیں سکتا

قارئینِ ”الواقعۃ “ سے اعتذار

۔”الواقعۃ “ جب سے معرض اشاعت میں آیا ہے الحمدللہ اس کا سفر بلا تعطل جا ری رہا ہے۔ حالات کی نا مساعدت کی وجہ سے ہر ماہ طبع نہ ہو سکا تو دو ماہ پر شائع ہوتا رہا۔ خصوصی اشاعتوں کی وجہ سے اگر دو سے زائد ماہ شمارے کی طباعت ممکن نہ ہو سکی تب بھی جب شمارہ خاص منظر شہود پر آیا تو اس نے اس تاخیر کا بخوبی ازالہ کر دیا۔

تاہم موجودہ شمارہ چھے ماہ کا مشترکہ شمارہ ہے جو شمارہ خاص بھی نہیں۔ یقیناً اس طویل غیر حاضری کے لیے ہم قارئینِ ”الواقعۃ “ سے صمیم قلب سے معذرت خواہ ہیں۔ 15 جولائی کو راقم کی والدہ مکرمہ بقضائے الٰہی وفات پا گئیں۔ ان کا صدمہ جدائی میری ذاتی زندگی کا سب سے بڑا صدمہ ثابت ہوا۔ اس غم سے ابھرنے میں مجھے کافی وقت لگ گیا۔

جانے والے نے ہمیشہ کی جدائی دے کر
دل کو آنکھوں میں دھڑکنے کے لیے چھوڑ دیا

اس کے بعد میرے کئی احباب سفر آخرت پر روانہ ہو گئے۔ ”الواقعۃ “ کی مجلس ادارت کے رکن جناب ابو الحسن بھی راہی ملک عدم ہوئے۔ الواقعۃ کے موجودہ شمارے میں کثرت سے تعزیتی مضامین اسی غم کے اظہار کی ایک شکل ہیں۔ اس بنا پر اگر موجودہ شمارے کو الرسالۃ الحزنیۃ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ رسالہ تیاری کے آخری مرحلے میں تھا کہ محسن پاکستان ڈاکٹر عبد القدیر خان بھی خالق حقیقی سے جا ملے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ طباعت کے لیے مزید تاخیر ممکن نہ تھی ان شاء اللہ ڈاکٹر صاحب کی حیات و خدمات پر اگلے شمارے میں مضمون شامل اشاعت ہوگا۔


خون بدل، آہ بلب، اشک بمژگاں آید – اداریہ


الواقعۃ شمارہ: 74 – 75، رجب المرجب و شعبان 1439ھ

از قلم : محمد تنزیل الصدیقی الحسینی

آج ہم تاریخ کے اس موڑ پر کھڑے ہیں جہاں ہمارے پاس اپنی عظمت رفتہ کو یاد کرنے کے لیے تو بیش قیمت سرمایہ موجود ہے مگر خود اپنے حال کی زبوں حالی پر اشک بہانے کے لیے اسباب و وجوہ کی کمی نہیں۔ عظمتِ رفتہ کے نقوش کتنے ہی شاندار کیوں نہ ہوں لیکن زمانہ حال کی پسماندگی کو دور نہیں کر سکتے۔ ہم اپنے شاندار ماضی کو کتنا ہی آراستہ کرکے دنیا کے سامنے کو پڑھنا جاری رکھیں

امت مسلمہ کی غفلت – اداریہ


الواقعۃ شمارہ: 72 – 73 جمادی الاول جمادی الثانی 1439ھ

از قلم : محمد تنزیل الصدیقی الحسینی

نئے عیسوی سال کی آمد کے ساتھ امت مسلمہ نئے مشکلات سے ہمکنار ہوئی۔ طاغوتی قوتوں کی پیش قدمی مسلسل جاری ہے اور امت مسلمہ کی غفلت اور سراسیمگی بدستور بر قرار۔ کو پڑھنا جاری رکھیں

آئیے ! خاتمہ خیر کا نوحہ پڑھ لیں – اداریہ


الواقعۃ شمارہ : 61-62، جمادی الثانی و رجب المرجب 1438ھ

از قلم : محمد تنزیل الصدیقی الحسینی

ابھی کل کی بات تھی کہ ہمارے قلم نے حلب کی سر زمین پر آتش باری کا نوحہ لکھا تھا اور آج ادلب کی سوگوار فضا کا المیہ در پیش ہے۔ ارباب آئین و ریاست ہوں یا اصحاب منبر و محراب یا پھر ہنر مندانِ قلم و قرطاس کسی کے پاس فرصت نہیں کہ دم توڑتی لاشوں اور خوف و ہراس کی سراسیمہ فضاؤں پر ایک حرف تعزیت ہی ادا کریں۔ نغمہ شادی کے متوالوں کے پاس نوحہ غم کی فرصت کہاں ؟ کو پڑھنا جاری رکھیں

دجال کے قدموں کی آہٹ سنائی دیتی ہے


الواقعۃ شمارہ : 53 – 54 ، شوال المکرم و ذیقعد 1437ھ

از قلم : محمد تنزیل الصدیقی الحسینی

حادثے اس تیزی سے رونما ہو رہے ہیں کہ واقعات کا اعتبار اٹھ سا گیا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جسے زمانہ پرورش کر رہا تھا برسوں ، وہ حادثے اب رونما ہو رہے ہیں۔ عالم اسلام پر ہر طرف سے یلغار ہی یلغار ہے۔ چمنستانِ اسلام کا کونسا گوشہ ہے جو درد و الم کی سسکیوں اور آہ و غم کی صداؤں کے شور سے بوجھل نہیں۔ وہ کونسی فصل ہے جس کی آبیاری خونِ مسلم سے نہیں ہو رہی۔ کو پڑھنا جاری رکھیں

ترکی : عزیمت کے راستے پر یا ۔۔۔۔۔۔۔


الواقعۃ شمارہ 53 – 54 ، شوال المکرم و ذیقعد 1437ھ

از قلم : ابو عمار سلیم

15 جولا ئی 2016 ء کو رات کے 10بجے ترک فوج کے ایک باغی دستے نے اچانک فوجی بغاوت کا اعلان کردیا اور حکومت کی مشینری کے مختلف اداروں پر قبضہ کرلیا۔ ان لوگوں نے مختلف جگہوں پر فائرنگ بھی کی، ٹینک بھی سڑک پر نکل آئے اورفضائیہ کے طیاروں اور ہیلی کاپٹروں کے ذریعہ سے پولیس کی عمارت پر اور دیگر کئی اور حکومتی عمارتوں پر فائرنگ بھی کی گئی اور بمباری بھی کی گئی ،اور یوں دیکھتے ہی دیکھتے دو ڈھائی سو نہتے اور معصوم لوگ اس حملے کا شکار ہوگئے۔ اور تقریبا ً دو ہزار سے اوپر افراد زخمی ہوئے۔ اس تمام کارروائی کے دوران ہی ترکی کے صدر طیب اردگان کو پڑھنا جاری رکھیں

اللہ کے ساتھ تجارت


الواقعۃ شمارہ 50 ، رجب المرجب 1437ھ

از قلم : محمد تنزیل الصدیقی الحسینی

اسلام کی چودہ سو سالہ تاریخ میں ایسا پُر آشوب دور پہلے کبھی نہیں آیا۔ مسلم امہ  بحیثیت مجموعی ہر اعتبار سے زوال پذیر ہو گئی ہے۔ سیاسی زوال سے بھی کہیں بڑھ کر جس المیہ کا ہمیں رونا ہے وہ ہمارا روحانی و اخلاقی انحطاط ہے۔ ایک قوم یا ملت ہر قسم کے مادی وسائل سے محروم ہوجانے کے بعد دوبارہ انہیں حاصل کر سکتی ہے مگر اخلاقی جواز کھو دینے اور اپنی اصل کو فراموش کردینے کے بعد قوم اپنی شناخت ہی کھو دیتی ہے۔ اس کے بعد کوئی ترقی یا کامیابی کچھ معنی نہیں رکھتی۔

افسوس اس دور جدید میں جب کہ الفاظ اپنی معنویت کھو رہے ہیں دعوت حق کے اسرار بھی کہیں دفن ہو گئے ہیں۔ ایک واضح اور انتہائی معلوم حقیقت بھی ہماری بصیرتوں کے لیے حجاب بن گئی ہے۔

دنیا نے ہر دور میں داعیانِ حق پرست کی نا قدری کی ہے۔ مگر وہ جس بازارِ جنس کے خریدار ہیں اس کی تو دنیا ہی مادیات کی سطح سے کہیں بلند ہے۔

ان اللہ اشتریٰ من المؤمنین انفسھم و اموالھم بان لھم الجنۃ  ( التوبة: ١١١ )

"بلا شبہ اللہ نے مومنین کی جانوں اور ان کے مالوں کو نعیم اُخروی کے بدلے خرید لیا ہے۔”

کوئی تاجر ہو تو اسے نفع ذات مطلوب ہو۔ کسی کو حصولِ مادیت کی خواہش ہوتو اسے کھونے کا خوف بھی ہو۔ کسی کو اقتدار و سطوت کی تمنا ہو تو ناکامی کے اندیشے بھی ستائیں ، مگر یہاں کا تو عالم ہی دوسرا ہے۔

و من الناس من یشری نفسہ ابتغاء مرضات اللہ ( البقرة: ٢٠٧ )

"اور لوگوں میں سے کچھ ایسے ہیں جنہوں نے اللہ کی رضا کی جستجو میں اپنی زندگی فروخت کر دی ہے۔”

ایک شخص جب اللہ کی غلامی اختیار کر لیتا ہے اور اس کے کارخانہ دعوت کا ملازم بن جاتا ہے تو اس سے صرف ایک ہی چیز مقصود و مطلوب ہوتی ہے ، وہ ہے — اخلاص۔

اخلاص، حق پرستی کی راہ کی سب سے بڑی اور مطلوب حقیقت ہے۔ اللہ سے تجارت کا کوئی خواہشمند اخلاص کی اس قیمت کو ادا کیے بغیر کبھی اللہ سے تجارت نہیں کر سکتا۔ وہ اگر حق پرستی کی راہ میں آنے والی مشکلات سے اپنا دامن چھڑانا چاہتا ہے یا بذلِ مال و متاع سے گریز کرتا ہے یا زندگی کی رعنائیاں موت کی وحشت ناکی پر غالب آنے لگتی ہیں تو اسے چاہیے کہ وہ اپنے دل کی ساری آرزوئیں استوار کرے مگر ابتغاء مرضات اللہ کے بازار میں اپنے نرخ کے بالا ہونے کی امید نہ رکھے ۔کہ

روبازی کن عاشقی کار تو نیست

ایثار و قربانی، ایمان و عزیمت کی راہ کی سب سے بڑی اور روشن مثال حضرت صدیق اکبر کی مقدس زندگی میں ظاہر ہوتی ہے ۔ اپنا سب کچھ لٹا کر کاشانہ نبوت میں حاضر ہوتے ہیں۔ سوال ہوتا ہے ما ابقیت لاهلک ؟ اپنے اہل و عیال کے لیے کیا چھوڑ آئے ہو ؟ عرض کیا : ابقیت لهم الله و رسوله ! ان کے لیے اللہ اور اس کے رسول کو چھوڑ آیا ہوں۔

دیوانہ کنی ہر دو جہانش بخشی

دیوانہ تو ہر دو جہاں را چہ کند ؟

یہ درست ہے کہ اس مقام رفیع تک بڑوں بڑوں کو رَسائی نہیں مگر ان کےمقدس نشانِ قدم کی پیروی تو لازم ہے۔

اللہ پر یقین محکم ہی ہے جو اللہ پر توکل کو جنم دیتا ہے۔ لوگوں کو اپنے فانی مالکان پر بھروسہ ہو سکتا ہے تو اللہ کو اپنا نفس فروخت کرنے والا اپنے اس غیر فانی مالک پر اپنے توکل کی بنیادیں کیوں نہ استوار کرے ؟

افسوس ہمیں پرودگارِ عالم کی جنت تو یاد رہی۔ مگر اس جنت کی قیمت کو بھول گئے۔ ہم ایمان کے ساتھ مشروط اس تجارت کو بھول گئے ہیں جو ہم نے کلمہ لا الہ الا اللہ پڑھتے ساتھ ہی اللہ رب العزت سے کیا تھا۔

امت مسلمہ خواہ مادیت کی کیسی ہی پستی میں جا گرے اگر اللہ رب العزت سے اپنی تجارت کا ایفا کرنے کا عزم کرلے تو دنیا کی ہر طاقت کو سرنگوں کر سکتی ہے۔ کیونکہ اس تجارت میں کھونے کا کوئی خوف نہیں صرف پانے کا یقین ہے اور پانے کا یقین ہر خوف کو مٹا دیتا ہے۔ اور معلوم ہے کہ جس دل میں خوف نہ ہو اسے کوئی تسخیر نہیں کر سکتا۔