بعض احادیث نسبتِ فتنِ آخر الزماں


06 moulana azad TITLe

شمارہ 34 اور 35، جنوری / فروری 2015

ربیع الاول و ربیع الثانی  1436ھ

دور فتن

بعض احادیث نسبتِ فتنِ آخر الزماں

مولانا ابو الکلام آزاد

online urdu

جس صادق و مصدوق نے اسلام کی پہلی غربت میں آنے والے اقبال و عروج کی یہ خبریں دی تھیں ، اسی کی زبانِ حق نے عین غلبہ و ظہور کے وقت یہ بھی تو فرما دیا تھا : بدء [1] الاسلام غریباً و سیعود کما بدء ، فطوبیٰ للغرباء۔[2] یعنی اسلام کی ابتدا بیکسی اور پردیسی کی مصیبتوں میں ہوئی ، اور قریب ہے کہ پھر ویسی ہی حالت اس پر طاری ہو جائے۔ سو کیا ہی خوشی اور مبارکی ہے پردیسیوں کے لیے ! یہ مسلم کے الفاظ ہیں بروایت ابو ہریرہ۔ لیکن ترمذی میں بروایت عمرو بن عوف زیادہ تفصیل ہے : ان الدین بدء غریباً سیعود کما بدء ، فطوبیٰ للغرباء۔ و ھم الذین یصلحون ما افسد الناس من بعدی من سنتی۔[3] دین کی ابتداء غربت سے ہوئی اور قریب ہے کہ پھر اسی کی طرف پلٹ آئے۔ پس کیا ہی مبارکی ہے پردیسیوں اور بے یاروں کے لیے ! یہی لوگ ہیں جو ان خرابیوں کو دور کر دیں گے جو لوگوں نے میرے بعد میری سنت میں پیدا کر دی ہوں گی۔ اور احمد[4] و طبرانی نے مرفوعاً روایت کی ہے : قلنا و ما الغرباء ؟ قال قوم صالحون قلیل فی ناس سوء کثیر۔ من یعصیھم اکثر من یطیعھم۔ یعنی فرمایا مبارکی ہے ” غرباء ” کے لیے ہم نے پوچھا ” غرباء ” کون ہیں ؟ کہا صالحون کی ایک جماعت۔ برے لوگوں میں تھوڑے سے اچھے ۔

اس حدیث میں ” غربت ” اور ” غریب ” کا لفظ آیا ہے جس کے معنیٰ ہیں پردیسی اور بے خانہ و وطن کے۔ مقصود یہ ہے کہ اسلام کی ابتداء ہجرت کی مصیبتوں اور مظلومیوں سے ہوئی تھی ، عروج و اقبال کے بعد پھر ویسا ہی زمانہ آنے والا ہے۔ اس وقت حق مغلوب ہو جائیگا۔ لوگ قرآن و سنت کی راہ چھوڑ دیں گے ، ظلم و فساد اور بدعات و منکرات کا ہر طرف دور دورہ ہوگا حق پر چلنے والے اور قرآن و سنت کی سچی اور خالص پیروی کرنے والے بوجہ قلت و بے چارگی کے ایسے ہوں گے ، جیسے پردیسی ، بے یار و مددگار مسافر۔ سارا شہر خوشحالوں سے بھرا پڑا ہے ، ہر شخص اپنے عیش کدہ وطن میں آرام و راحت کے مزے لوٹ رہا ہے مگر اس کے لیے نہ تو  گھر ہے جہاں سر چھپائے ، نہ کوئی عزیز آشنا ہے جسے درد دل سنائے ، پرایا دیس اور پرائے لوگ۔ نہ یہ ان کی بولی جانے ، نہ وہ اس کی زبان سمجھیں۔ ایک ایک منہ تکتا ہے اور جی ہی جی میں رو دھوکے چپ ہو رہتا ہے :

کس زبان مرا نمی فہمد

بعزیزاں چہ التماس کنم

ہر لحاظ سے غربت و بے کسی ہوگی۔ ایک طرف تو یہ ہوگا کہ کفار کی بھیڑ ساری دنیا پر چھا جائیگی ، ان کے مقابلے میں مسلمان پردیسیوں کی طرح اکے دکے نظر آئیں گے۔ دوسری طرف خود مسلمانوں کے اندر سچے حق پرستوں اور دین الخالص کے پیروؤں کی تعداد بہت تھوڑی رہ جائے گی۔ گویا ایک پورے شہر میں باہر کے چند مسافر قوم صالحون قلیل فی ناس سوء کثیر۔ غربت اولیٰ میں یہی حال غربائے اسلام کا تھا ، پہلے حبش میں اور پھر مدینے میں ، بے چارگی کے بستر پر بے قراری کی کروٹیں بدلتے۔ حضرت ابوبکر کی زبان بخار کی شدت میں کھلتی ، تو پکارتے۔ بخاری[5] میں بروایت حضرت عائشہ پڑھا ہوگا۔ و کان ابوبکر اذا اخذتہ الحمی یقول :

کل امرئ مصبّح فی اھلہ

و الموت ادنیٰ من شراک نعلہ [6]

آنحضرت ﷺ یہ حالت دیکھتے اور دعا فرماتے ، ” اللّٰھم حبب الینا المدینۃ کحبنا مکۃ ” خدایا پردیس میں ایسا جی لگا دے کہ وطن بھول جائیں ! طائف سے جب سرور عالم اس حالت میں لوٹے کہ قبیلہ ثقیف کی سنگباری سے پیشانی اقدس کا خون پائے مبارک کو رنگین کر رہا تھا ، تو بے اختیار یہ جملے زبان پر طاری ہو گئے اللّٰھم الیک اشکو ضعف قوتی و قلۃ حیلتی ، خدایا اور کس کے آگے کہوں ؟ تیرے ہی سامنے بے چارگی کی فریادہے اور بے سرو سامانی کا شکوہ !

تو نیز بر سر بام آ کہ خوش تماشائیست !

تو معلوم ہوا کہ ایسا ہی حال اس دوسری غربت میں بھی ہونے والا تھا۔ جس کی اس حدیث میں خبر دی گئی۔

اور اسی کا ارشادتھا : ان ربی قال لی اذا قضیت قضاء فانہ لا یرد۔ انی اعطیتک لامتک ان لا اھلکھا بسنۃ عامۃ ، و ان لا اسلط علیھم عدواً من سوی انفسھم فیتبیح بیضتھم و لو اجتمع علیھم باقطارھا ، حتیٰ یکون بعضھم یھلک بعضا ، و یسبی بعضھم بعضا ، و انما اخاف علی امتی الائمۃ المضلین ، و اذا وضع السیف فی امتی لم یرفع عنھا الی یوم القیٰمۃ ، و لا تقوم الساعۃ حتی یلحق قبائل من امتی بالمشرکین ، و حتی تعبد قبائل من امتی الاوثان ، و انہ سیکون فی امتی کذابون ثلٰثون ، کلھم یزعم انہ نبی و انا خاتم النبیین ، و لا تزال طائفۃ من امتی علی الحق ( او قال ظاھرین علی الحق ) لا یضرھم من خالفھم حتی یاتی امر اللہ بعضھم بعضاً۔” [7] تک مسلم نے ثوبان سے روایت کیا ہے۔

و رواہ ابو داود[8] و البرقانی بتمامہ عن ابی اسماء عن ثوبان رضی اللہ عنمھما۔ یعنی میں نے اللہ تعالیٰ سے اپنی امت کے لیے دعا کی تھی کہ خود ان کے سوا ان پر اور کوئی دشمن مسلط نہ ہو ، اور کوئی ایسی عام ہلاکت نہ چھا جائے کہ قوم کی قوم ہلاک ہو جائے ، تو اللہ نے فرمایا ایسا ہی ہوگا۔ تیری امت پر کبھی ایسی عام و ہمہ گیر ہلاکت نہ آئے گی ، اور نہ کبھی ان پر کوئی دشمن اس طرح مسلط ہوگا کہ ان کی بیخ و بنیاد اکھاڑ ڈالے[9]۔ الا یہ کہ وہ خود ہی اپنے دشمن ہوں گے اور خود ہی اپنے آپ کو دشمنوں کی طرح تباہ کریں گے۔ یعنی ایک گروہ ان میں سے دوسرے گروہ کو قتل کرے گا۔ ( و ذٰلک لکثرۃ اختلافھم و تفرقھم و تمذھبھم ) اور آپ نے فرمایا  مجھ کو بڑا خوف گمراہ کرنے والے پیشواؤں سے ہے جب ایک مرتبہ میری امت میں باہمی خونریزی شروع ہوگئی تو قیامت تک نہ رکے گی۔ پھر فرمایا ایسا ہوگا کہ میری امت میں سے کئی گروہ مشرکوں سے جا ملیں گے ، اور ایسا ہوگا کہ کئی گروہ بتوں کو پوجیں گے۔ اور ضرور ہے کہ تیس جھوٹے مدعی نبوت پیدا ہوں ، حالانکہ میرے بعدکوئی نبی نہیں۔ آخر میں فرمایا ، بایں ہمہ ایک جماعت اس امت میں ہمیشہ حق پر باقی رہے گی۔ مخالفین حق اس کو نقصان نہ پہنچا سکیں گے ۔ یہاں تک کہ  امر الٰہی ظاہر ہو ۔

اور اسی صادق و مصدوق کا ارشاد تھا :  لتتبعن سنن من کان قبلکم حذو القذۃ بالقذۃ ( او حذو النعل بالنعل ) حتی لو دخلوا حجر ضب لدخلتموہ۔ قالوا الیھود و النصاریٰ ؟ قال فمن ؟ اخرجاہ عن ابی سعید [10]۔ تم سے پہلے جو قومیں گزر چکی ہیں ، ضرورہے کہ تم ان کے سارے طریقوں اور چالوں کی ہو بہو پیروی کرو گے۔ یعنی ان کی ساری گمراہیاں اختیار کرلو گے۔ صحابہ نے کہا : یہود و نصاریٰ کی ؟ فرمایا : ہاں ، اور کون ؟”

اور حضرت ابو ہریرہ کی روایت ہے : قالوا کما صنعت فارس و الروم و اھل الکتاب ؟ قال فھل الناس الا ھم ، و قال ابو ھریرۃ اقرؤا ان شئتم ، کالذین من قبلکم کانوا اشدّ منکم قوّۃ [11]۔ الخ یعنی صحابہ نے عرض کیا : کن پچھلی قوموں کی چال چلیں گے ؟ فارس و روم اور اہلِ کتاب کی ؟ فرمایا : ہاں وہی لوگ ہیں اور کون ؟ حضرت ابو ہریرہ نے اپنی عادت کے مطابق قرآن سے تطبیق دی ، اور کہا جی چاہے تو اس آیت کو اس موقعہ پر یاد کرلو ” وہ قومیں جو تم سے پہلے گزر چکی ہیں اور بآلاخر اپنی گمراہیوں کے ہاتھوں ہلاک ہوئیں ، حالانکہ تم سے کہیں زیادہ طاقتور اور متمدن تھیں [12]۔ حاصل یہ کہ اس امت میں اہل کتاب کی مغضوبیت اور عجمی و رومی اقوام کے مہلک و گمراہ علوم و تمدن دونوں کی نقالی اور پوری پوری ریس ہوگی ، اور مسلمانوں کے اندر ضلالت کی ان دونوں قسموں سے پوری مشابہت و مماثلت پیدا ہو جائے گی۔

اور اسی کا ارشاد تھا : ” فتنا کقطع اللیل المظلم ، یصبح الرجل فیھا مومنا و یسمی کافرا ” رواہ الترمذی[13] و ابو داود[14]۔ آخری زمانے میں فتنے ہیں ایسے جیسے اندھیری رات کی اندھیاری۔ صبح کو ایک آدمی مومن ہوگا ، شام کو کافر۔” یعنی ایمان میں ثبات و استقامت باقی نہ رہے گی ، گھڑی میں کچھ گھڑی میں کچھ۔ مسلم[15] میں یہی حدیث بروایت ابو ہریرہ ہے : ” یمسیی مومناً و یصبح کافراً ۔ یبیع دینیہ بعرض من الدنیا ” رات کو ایک آدمی مومن سوئے گا۔ صبح اٹھے گا تو کفر میں مبتلا ہو جائے گا۔ اپنے دین کو دنیا کے بدلے بیچ ڈالے گا ۔ یبیع دینیہ نے یمسیی مومناً و یصبح کافراً کے معنیٰ بتلا دیے ۔

اور اسی صادق و مصدوق کا فرمان تھا : ” یوشک ان تتداعی علیکم کما تتداعی الا کلۃ الی قصعتھا۔ قال قائل من قلۃ نحن یومئذ ؟ قال لا ، بل انتم یومئذ کثیر و لکنکم غچاء کغثاء السیل ، و لینزعن اللہ من صدورکم عدوکم المھابۃ منکم ، و لیقذفن فی قلوبکم الوھن ، قیل و ما الوھن ؟ قال حب الدنیا و کراھۃ الموت۔” اخرجہ ابو داود[16] ایسا ہوگا کہ دنیا کی قومیں تم سے لڑنے کے لیے اکٹھی ہو جائیں گی، اور ایک دوسرے کو اس طرح بلائیں گی جیسے بھوکے ایک دوسرے کو کھانے پر بلاتے ہیں۔ ایک شخص نے عرض کیا : یہ اس لیے ہوگا کہ ہم اس وقت تھوڑے ہوں گے اور دشمن بہت ؟ فرمایا : نہیں ، مسلمان تو اس وقت بہت ہوں گے مگر ایسے ہو جائیں گے جیسے دریا کے بہاؤ کا کوڑا کرکٹ۔ جس طرف بہہ رہا ہے ، بہہ جائے گا۔ تمہارے دشمنوں کے دلوں سے تمہاری ہیبت نکل جائے گی تذھب ریحکم اور تمہارے دلوں میں ” وھن ” پیدا ہو جائے گا۔ کسی نے پوچھا ” وھن ” کیا ہے ؟ فرمایا دنیا کا عشق اور راہ حق میں موت کو نا خوش جاننا اور اس سے بھاگنا ۔”

اور اسی نے بھی فرمایا تھا : ” ان من کان قبلکم من اھل الکتاب افترقوا علی ثنتین و سبعین ملۃ ، و ان ھذہ الامۃ ستفترق علیٰ ثلاث و سبعین فرقۃ۔” اخرجہ ابو داود[17] و الترمذی[18] ۔ یہود و نصاریٰ ٹوٹ پھوٹ کر بہتر فرقے ہو گئے تھے۔ ضرور ہے کہ یہ امت بھی اسی طرح ٹکڑے ٹکڑے ہو کرتہتر فرقوں میں بٹ جائے۔”

اور اسی کا قول تھا : ” لا یذھب اللیل و النھار حتی تعبد اللات و العزیٰ ، قلت ان کنت لاظن حین انزل لیظھرہ علی الدین کلہ ان ذٰلک قام ؟ قال انہ سیکون من ذٰلک ما شاء اللہ۔” اخرجہ مسلم و البخاری[19] قیامت نہیں آئے گی یہاں تک کہ پھر لات و عزیٰ کی پوجا ہو۔ حضرت عائشہ نے کہا جب یہ آیت اتری لیظھرہ علی الدین کلہ ( دینِ توحید اس لیے آیا تاکہ سارے دینوں پر غالب آئے ) تو میں نے خیال کیا تھا کہ اب دین توحید ہی آخر تک رہے گا پھر یہ بات کیونکر ہوگی ؟ فرمایا : ہاں ، یہ رہے گا جب تک اللہ چاہے گا ! ”

اور اسی نے یہ خبر بھی دے دی تھی : ” اذا کانت امراؤکم خیارکم ، و اغنیاؤکم ، سمحاؤکم و امورکم شوریٰ بینکم ، فظھر الارض خیر لکم من بطنھا ، و اذا کانت امراؤکم شرارکم و اغنیاؤکم بخلاءکم و امورکم الی نسائکم ، فطن الارض خیر لکم من ظھرھا۔” رواہ الترمذی[20] جب تک تم میں سے بہتر اور نیک لوگ تمہارے امیر ہوں گے ، اور تمہارے مالدار سخی ، اور تمہارے معاملاتِ حکومت باہم مشورہ سے انجام پائیں گے ( یعنی عجمیوں کی سی شخصی حکومت و فرمانروائی نہ ہوگی۔ خلافتِ راشدہ کے منہاجِ نبوت پر حکومتِ شوریٰ ہوگی ) تو زمین کا ظاہر تمہارے لیے بہتر ہوگا اس کے باطن سے۔ یعنی دنیا میں رہنا تمہارے لیے عزت و کامیابی کا موجب ہوگا۔ لیکن جب ایسا ہو کہ تمہارے امیر بد ترین لوگ ہوں ، تمہارے مالدار بخیل ہو جائیں اور تمہاری حکومت عورتوں کے اختیار میں چلی جائے ، تو پھر زمین کا اندر تمہارے لیے اچھا ہوگا بمقابلہ اس کی سطح کے۔ یعنی زندگی میں عزت باقی نہ رہے گی ، مر جانا ہی بہتر ہوگا و امورکم الی نسائکم سے یہ مقصود نہیں ہے کہ عورتیں بادشاہ ہوں ، نہ یہ مقصدہے کہ عورتوں کے مشورے سے کام انجام پائیں ، بلکہ یہ اشارہ ہے شاہانِ نفس پرست اور امراء و عمال کی حرم سراؤں کی زندگی کی طرف۔ گویا سر رشتہ حکومت مجلسِ شوریٰ اور اصحاب حل و عقد کہ جگہ حرم سرا کے عشرت خانوں کے ہاتھ میں چلا جائے گا۔ عورتیں جس چال چاہیں گی ، چلائیں گی ۔

اور پھراسی لسانِ حق و صدق پر یہ پیشین گوئی بھی جاری ہوئی تھی : ” کیف بکم اذا فسق فتیاتکم و طغی نساؤکم ؟ قالوا و ان ذٰلک لکائن ؟ قال نعم و اشد۔ کیف انتم اذا لم تامروا بالمعروف و لم تنھوا عن المنکر ؟ قالوا و ان ذٰلک لکائن ؟ قال نعم و اشد۔ کیف اذا امرتم بالمنکر و نھیتم عن المعروف ؟ قالوا و ان ذٰلک لکائن ؟ قال نعم و اشد۔ کیف انتم اذا رایتم المعروف منکراً و المنکر معروفاً ؟ قالوا و ان ذٰلک لکائن ؟ قال نعم۔” اخرجہ ۔۔۔۔۔۔ ” کیا حال ہوگا تمہارا جب تمہاری لڑکیاں مبتلائے فسق ہوں اور تمہاری عورتیں سرکش ؟ ( یعنی جب کہ تمہارے گھر کے اندر کی زندگی بھی خراب ہو جائے اور عورتیں تک مبتلائے فسق و فجور ہوں ) لوگوں نے عرض کیا : کیا یہ بات بھی ہونے والی ہے ؟ فرمایا ہاں بلکہ اس سے بھی زیادہ سخت۔ کیا حال ہوگا تمہارا جب تم بھلائی کا حکم نہ دو گے اور برائی سے نہ روکو گے ؟ عرض کیا : کیا یہ بھی ہوگا ؟ فرمایا ہاں ، بلکہ اس سے بھی زیادہ۔ کیا حال ہوگا اس وقت جب کہ تم نیک بات کو برا سمجھو گے اور برائی کو اچھا ؟ عرض کیا : کیا یہ بھی ہوگا ؟ فرمایا ہاں۔” یعنی قوموں کی ہلاکت کے بتدریج تین درجے ہیں۔ ہر پچھلا درجہ پہلے سے اشد پہلا یہ کہ خود تو نیکی کا شوق باقی ہو ، لیکن دوسروں کو نیک بنانے کا ولولہ جاتا رہے ، یہ ہلاکت کا بیج ہے۔ اس کے بعددوسرا دور آتا ہے۔ اب ایسا ہوتا ہے کہ نہ تو خود نیک راہ چلتے ہیں ، نہ دوسروں کو چلنے دیتے ہیں اور حق کو علانیہ روکتے ہیں۔ یہ تخم فساد کے پھول پتے ہیں۔ اس کے بعد تیسرا دور آتا ہے۔ اب نیک و بد اور حق و باطل کا نظام بالکل الٹ جاتا ہے ، باطل کو حق سمجھا جاتا ہے اور حق کو باطل ، یہ تخم فساد کا آخری پھل ہے ، اور اس کا زہر تمام قوم کو ہلاک کر دیتا ہے ۔

اور پھر یہی وہ لوٹ لوٹ کر آنے والی نحوستیں اور رہ رہ کر ابھرنے والی ہلاکتیں تھیں ، جن کی نسبت حضرت حذیفہ نے ( کہ سب سے زیادہ فتنوں ( اور ) فسادوں کے جاننے والے تھے ) پوچھا تھا ” کنّا فی جاھلیۃ و شر فجاءنا اللہ بھذا الخیر ، فھل بعد ھذا من شر ؟” ہم جاہلیت کے شر میں مبتلا تھے۔ اللہ نے اسلام کی روشنی پھیلائی۔ پھر کیا اس خیر کے بعد شر ہوگا ؟ فرمایا : ہاں مگر اس کے بعد خیر کا بھی دور ہے ، لیکن ” فیہ دخن ” بے میل خیر مثل خیر اول کے نہ ہوگا ، کچھ کدورتیں بھی ملی ہوں گی۔ پوچھا وہ کدورت اور میل کیا ہے ؟ فرمایا : ” قوم یستنون بغیر سنتی ، و یھتدون بغیر ھدی ، تعرف منھم و تنکر ” میری سنت چھوڑ کر اوروں کے طور طریق پر چلیں گے۔ میری ہدایت سے ہٹ کر دوسروں کی چال اختیار کر لیں گے۔ کچھ باتیں اُن کی اچھی پاؤ گے کچھ بری۔ پھر پوچھا : اس خیر کے بعد بھی شر ہوگا۔ فرمایا : ہاں دعاۃ علیٰ ابواب جھنم دوزخ کی طرف بلانے والے ! آخر میں بتلایا کہ راہ سلامتی کی اس وقت یہ ہو گی کہ جماعت اور امام کا ساتھ دو۔ اور جب وہ وقت آ جائے کہ جماعت بھی باقی نہ رہے اور مختلف فرقوں اور مذہبوں میں مسلمان بٹ جائیں تو ” فاعتزل تلک الفرق کلھا و لو ان تعض باصل شجرۃ ، حتیٰ یدرکک الموت و انت علیٰ ذٰلک ” ان تمام فرقوں سے الگ ہو کر رہو ( یعنی صرف دینِ خالص و اول کے ہو کر رہو کہ اسلام ہے اور تمام بناوٹی فرقوں اور مذہبوں میں سے کسی کو بھی اختیار نہ کرو۔ کیونکہ فرقہ بندی اور تمذہب و تعین خود سب سے بڑا شر اور سب سے اشد بدعت ہے۔ ) اگرچہ ایسا کرنے میں تمہاری غربت اور بے کسی کا یہ حال ہو جائے کہ درخت کی جڑ چبا کر وقت کاٹنا پڑے پھر بھی ان سے الگ ہی رہو۔ یہاں تک کہ موت آ جائے۔” اخرجہ الشیخان [21]

اور یہی وہ آنے والے پے در پے فتنے تھے جن کا حال عبد اللہ بن عمرو العاص خانہ کعبہ کے سائے میں بیٹھ کر بیان کیا کرتے تھے ، اور جن میں سے ہر پچھلا فتنہ پہلے فتنہ کو بھلا دینے والا تھا ۔ ” ان ھذہ امتکم جعل عافیتھا فی اولھا و سیصیب آخرھا بلاء و امور تنکرونھا فتجئ فتنۃ فیزلق بعضھا بعضا ، فیقول المومن ھذہ مھلکتی ! ثم تنکشف و تجئ فتنۃ ، فیقول المومن ھذہ ! ھذہ ! ” ” اس امت کی ابتداء میں عافیت ہے اور آخری عہدوں میں مصیبتیں اور برائیاں۔ ایسا ہوگا کہ ایک فتنہ آئے گا اور مومن کہے گا کہ اس میں میرے لیے ہلاکت ہے ، لیکن جب وہ دور ہو جائے گا اور دوسرا فتنہ شروع ہوگا تو پچھلے فتنے کو بھلا دے گا اور مومن پکار اٹھے گا کہ فتنہ تو یہ ہے ! فتنہ تو یہ ہے ! ( یعنی پے در پے فتنے آئیں گے۔ ہر پچھلا فتنہ پہلے سے سخت و اشد ہوگا۔ یہاں تک کہ ان میں سے ہر فتنہ کو دیکھ کر اربابِ حق و ایمان بول اٹھیں گے کہ سب سے بڑا فتنہ یہی ہے۔ حالانکہ پھراس کے بعد فتنہ آئے گا جس کا شرو فساد دیکھ کر پچھلے فتنے بھول جائیں گے ! ) رواہ مسلم [22]

اور یقیناً ایسے ہی وقتوں کی نسبت وہ خبر بھی تھی جس کو حضرت علی اپنے یاروں کے سامنے بار بار فرمایا کرتے تھے ، اور یہ کہہ کر اپنی روایت کی صداقت پر یقین دلاتے تھے واللہ لان اخر من السماء احب الی من ان اقول علیہ ما لم یقل ” قسم خدا کی ! مجھے یہ پسند ہے کہ آسمان سے گرا دیا جاؤں ، لیکن یہ گوارا نہیں کر سکتا کہ رسول اللہ ﷺ کے نام سے ایسی روایت کروں جو انہوں نے نہیں فرمائی۔” ” انی سمعت یقول : سیخرج قوم فی آخر الزمان حدثاء الاسنان سفھاء الاحلام ، یقولون من خیر قول البریۃ ، یقرؤن القرآن ، لا یجاوز ایمانھم حناجرھم ، یمرقون من الدین کما یمرق السھم من الرمیۃ ” یعنی آنحضرت ﷺ نے فرمایا آخری زمانے میں ایک قوم ظاہر ہوگی ، نوخیز اور ناقص العقل لوگوں کی ، بظاہر ان کی باتیں بڑے ہی اچھے لوگوں کی سی ہوں گی ، قرآن پڑھیں گے مگر ایمان ان کے حلق سے نیچے نہ اترے گا۔ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح تیر شکار پر سے نکل جاتا ہے ، یعنی گو اپنے تئیں مسلمان سمجھیں گے لیکن ان میں اسلام نہ ہوگا اخرجہ الشیخان[23] و النسائی کوئی وجہ نہیں کہ اس روایت کو صرف خوارج سے مخصوص کر دیا جائے ، اور لفظ ” آخر الزماں ” کی تاویل کی جائے۔ صاف بات یہ ہے کہ اس میں آخری زمانے ہی کے مبتدعین و اہل ہوا کی نسبت خبر دی گئی ہے ” سفھاء الاحلام ” خاص طور پر اس لیے فرمایا کہ ان لوگوں کو اپنی عقل و رائے اور قیاس و درایت پر بڑا گھمنڈ ہوگا کہیں گے کہ ہم عقلاء و حکماء کی سی باتیں کرتے ہیں اعجاب کل ذی رای برایہ ایسے ہی لوگوں میں پہلی بڑی جماعت خوارج کی بھی تھی جنہوں نے رائے کو دین میں دخل دیا اور امام کی اطاعت سے باہر ہو گئے۔ اور اسی لیے حضرت علی اور اکثر صحابہ اُنہی لوگوں کو اس کا مصداق اول سمجھتے تھے۔ مسلم کی حدیث میں زید بن وہب اور صحیحین و ابو داود کی روایت ابو سعید و انس میں گو ” آخر الزمان ” کا لفظ نہیں ہے مگر حرف استقبال قُرب و بُعد دونوں پر حاوی ہے۔ اور انبیائے کرام کے لیے سینکڑوں برس بعد ہونے والی باتیں بھی بوجہ کمالِ یقین و مشاہدہ معنوی ایسی ہوتی ہیں جیسے ہمارے لیے صبح شام کی بات ” ان اللہ روی لی الارض فرایت مشارقھا و مغاربھا [24] ” کے معاملات جہاں پیش آتے ہوں ، اور ” انی وجدتھا قریباً ان انتم تجدونھا بعیداً ” جہاں کی صدائے علم ہو ، وہاں کے لیے ” سیکون ” اور ” کان ” اور مستقبل و ماضی دونوں ایک ہی حکم رکھتے ہیں۔ قرب و بعد کا کیا سوال ہے ؟ حتیٰ کہ بعض پیشین گوئیاں تو زبان نبوت پر بصیغہ ماضی ہی میں واقع ہوئیں۔ مسلم کی روایت ابو ہریرہ  میں عراق و شام کی نسبت فرمایا : ” منعت العراق قفیزھا و منعت الشام مدیھا۔” عالمِ یقین و حقائق میں تفرقہ ماضی و استقبال نہیں ہوتا۔ کیا نہیں دیکھتے کہ قرآن حکیم عالمِ آخرت و معاد کے معاملات ہر جگہ بصیغہ ماضی بیان کرتا ہے۔ اور گو ساٹھ برس بعد بابل تباہ ہونے والا تھا مگر یرمیاہ نبی نے یہ نہیں کہا کہ ہو جائے گا بلکہ کہا کہ ہو چکا اور شہروں کی دلہن کی اوڑھنی اس کے سر سے چھین لی گئی ” !

بہرحال جس صادق و مصدوق نے فرمایا تھا کہ کسریٰ کے خزانے کھل گئے اوریمن سے حضرموت تک اسلام پھیل گیا اور واللہ لیتمن ھذا الامر و الکنکم تستعجلون تو اسی نے یہ سب کچھ بھی فرما دیا تھا ، بلکہ بقول حضرت حذیفہ کے : ما ترک من قائد فتنۃ الی انقضاء الدنیا السماہ لنا باسمہ و اسم ابیہ کسی فتنے اور فتنہ انگیز کو نہیں چھوڑا۔ سب کی ٹھیک ٹھیک خبریں دے دیں تھیں۔  سننے والے ہر آن اور ہر گھڑی ان وقتوں کی دہشت اور خوف سے مضطر اور اداس رہتے تھے۔ باہم دگر ایک دوسرے سے پوچھا کرتے تھے کہ وہ وقت تو نہیں آ گیا ؟ حضرت عمر  حذیفہ سے بار بار کہتے : اس فتنہ کی نسبت تو کہو التی تموج کموج البحر ؟ اور پھر یہ سن کر مطمئن ہو جاتے کہ ابھی دیوار نہیں ہٹی کہ خود انہی کا وجود تھا۔ سو کیا مبارک و خوش نصیب وہ لوگ جنہوں نے پہلی خبر کی تصدیق کی اور اس کا ظہور اپنے آنکھوں سے دیکھا لیا کہ و کنت فی من افتح کنوز کسریٰ۔ اور کیسی بد نصیبی اور ہلاکی ہے ہمارے لیے کہ اُن پچھلی خبروں کی تصدیق کرنے والوں میں اور ان کا ظہور اپنی آنکھوں سے دیکھنے والوں میں سے ہیں۔ بلکہ خود ہمارا وجود ہی از سر تاپا ان خبروں کا ظہور اور ان میں سے ہر بات کی ٹھیک ٹھیک مجسم تصدیق ہے۔ حضرت عدی بن حاتم نے اول امت میں وعدہ کی تصدیق کی تھی۔ ہم آخرِ امت میں وعید کی تصدیق کرتے ہیں۔ اُن کے حصے میں بشارتوں کا دیکھنا آیا تھا ، ہمارے حصے میں نذارتوں کا۔ انہوں نے بھی تصدیق کی اور ہم نے بھی ، انہوں نے پاکر ہم نے سب کچھ کھو کر۔ فصدق اللہ العلیلم الحکیم ، و صدق رسولہ الکریم ، و نحن علیٰ ذٰلک من الشاھدین !

در مجلسے کہ یاراں شربِ مدام کردند

تہجد

” چلّہ کشی سے اس قدر فائدہ حاصل نہیں ہوا ہے جس قدر کہ تہجد سے دل کی کشادگی و صفائی صوفیائے کرام نے پائی ہے مگر پہلے دل کو دنیا و ما فیہا سے فارغ رکھنا چاہیے ۔”

 

سیّد نذیر حسین محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ

کے مجموعہ مکاتیب ” مکاتیب نذیریہ ” مرتبہ مولانا عبد العزیز صمدن فرخ آبادی سے ماخوذ

چوں نوبتے بما شد ، آتش بجام کردند

[1]   قال ملا علی القاری فی الازھار : بدا بلا ھمزہ ای ظھر۔ قال النووی : ضبطناہ بالھمزہ۔ و فی شرح الطیبی : قال محی السنۃ بدء بالھمزۃ من الابتداء۔

[2]   صحیح مسلم ، کتاب الایمان : 232 ، ترمذی ، کتاب الایمان : 13 ، ابن ماجہ ، کتاب الفتن : 15 ، الدارمی ، کتاب الرقاق : 42 ، مسند احمد ، 1 : 398 و نیز 4 : 73

[3]   یہ حدیث ترمذی میں سرسری طور پر دیکھنے سے نہیں ملی ، البتہ مسند ابن حنبل 2 : 389 میں ہے۔

[4]   مسند ابن حنبل ، 1 : 398 ، 2 : 177 ، 389 ، نیز 4 : 73۔ اس کے علاوہ یہ حدیث مسلم ( کتاب الایمان ) ، ترمذی ( کتاب الایمان ) ، ابن ماجہ ( کتاب الفتن ) اور دارمی ( کتاب الرقاق ) میں بھی آئی ہے۔

[5]   صحیح بخاری ، کتاب الفضائل المدینہ : 12 ، بخاری میں اور کئی مقامات پر بھی مروی ہے۔ اس کے علاوہ صحیح مسلم ، موطا امام مالک اور مسند امام احمد میں بھی ملتی ہے۔

[6]   ہر آدمی کے لیے صبح اس کے گھر والوں میں ہوتی ہے اور موت تو اس کی جوتیوں کے تسمے سے بھی قریب ہے۔

[7]   صحیح مسلم ، کتاب الفتن ( اس کے علاوہ بتغیر الفاظ ترمذی ، کتاب الفتن ، نیز کتاب التفسیر ، ابن ماجہ ، کتاب الفتن ، موطا امام مالک ، کتاب الجہاد اور مسند ابن حنبل کے متعدد مقامات پر بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ )

[8]   ابو داود ، کتاب الفتن

[9]   اس حدیث میں اور نیز بعض دیگر روایات میں بھی فیستبیح بیضتھم کا لفظ آیا ہے۔ یعنی مسلمانوں پر ان کی بد حالیوں کی وجہ سے دشمنوں کا تسلط اور غلبہ تو ہو جائے گا مگر ایسی حالت کبھی نہ ہوگی جس پر تستبیح بیضتھم کا اطلاق ہو سکے۔ جوہری نے کہا : بیضۃ کل شئ حوزتہ و بیضۃ القوم ساحتھم اور نووی نے لکھا ہے : قیل بیضتھم معظھم و جماعتھم و ان قلوا ۔ پس یستبیح بیضتھم کے معینی یہ ہوئے کہ اگرچہ اس امت پر دشمنوں کا غلبہ و تسلط ہو جائے گا مگر ایسا تسلط کبھی نہ ہوگا کہ مسلمانوں کی قومی ہستی بالکل مٹادیں اور دنیا میں ان کی قومیت کے نشو و نما کے لیے کوئی بنیاد اور تخم باقی نہ رہے۔ چنانچہ اب تک جو کچھ ہو چکا ہے ، وہ اس وعدہ الٰہی کی تصدیق کے لیے بس کرتا ہے۔ تاتاریوں کا حملہ یاجوج و ماجوج کا فتنہ تھا کہ  من کل حدب ینسلون اور جو کچھ اس وقت تمام عالم اسلامی پر گزرا معلوم ہے۔ تاہم یہ تو نہ ہو سکا کہ یستبیح بیضتھم۔ اٹھارہویں صدی عیسوی سے یورپ کے استیلاء و تسلط کا فتنہ شروع ہوا ، اور جو کچھ ہو رہا ہے ، ہم دیکھ رہے ہیں۔ تاہم اب تک یستبیح بیضتھم کی قدرت دشمنان اسلام کو نہیں ملی ہے ، تآنکہ غربت ثانیہ کے نشاۃ و غلبہ ثانیہ کا وقت موعود آ جائے ، اور وہ وعدہ الٰہی پورا ہو کر رہے کہ لیظھرہ علی الدین کلہ و لو کرہ المشرکون۔ اور وہ آخری عہدِ سعادت کہ لا یدری اولھا خیر ام اٰخرھا یعنی اس امت کی ابتدا اور انتہا ، دونوں کی برکتوں اور کامرانیوں کا یہ حال ہے کہ نہیں کہا جا سکتا ، اس کا اول زیادہ شاندار ہے یا آخر ؟

کس نمی گویدم از منزل آخر خبرے

صد بیاباں بگذشت و دگرے در پیش است

[10]   مسند احمد بن حنبل 4 : 125

[11]   سورۃ التوبہ 9 : 69 ( ان لوگوں کی طرح جو تم سے پہلے اور طاقت میں کہیں زیادہ تھے )

[12]   عن ابن عباس فی ھذہ الایۃ ، قال : ” ما اشبہ اللیلۃ بالبارحۃ ؟ ھا اولاء بنو اسرائیل شبھنا بھم ” و عن ابن مسعود انہ قال : ” انتم اشبہ الامم ببنی اسرائیل سمتاً و ھدیاً ، تتبعون علمھم حذو القذۃ بالقذۃ غیر انی الا ادری اتعبدون العجل ام لا ؟ و قال سفیان بن عیینۃ ” من فسد من علمائنا ففیہ شبہ من الیھود ، ومن فسد من عبادنا ففیہ شبہ من النصاریٰ ” اور یہ حضرت ابن مسعود نے فرمایا :    ” یہودیوں کی ساری گمراہیاں اختیار کرلو گے ، البتہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ ان کی طرح گوسالہ کی پوجا بھی تم میں ہو گی یا نہیں ” تو افسوس کہ یہ بھی ہو چکا اور حذو النعل بالنعل کی پیشین گوئی ساری باتوں میں پوری ہوئی ۔

[13]   ترمذی ، کتاب الفتن : 30

[14]   ابو داود ، کتاب الفتن : 2 ۔ ترمذی اور ابو داود کے علاوہ یہ حدیث ابن ماجہ ( کتاب الفتن ) ، دارمی ( المقدمہ ) اور مسند احمد کے متعدد مقامات پر بھی مروی ہے۔

[15]   صحیح مسلم ، کتاب الایمان۔ اس کے علاوہ یہ حدیث ابو داود ، ترمذی ، ابن ماجہ ، دارمی اور مسند احمد میں بھی متعدد مقامات پر ہے۔

[16]    ابو دواد ، کتاب الملاحم۔ نیز دیکھیے مسند ابن حنبل ، 5 : 178

[17]   ابو داود ، کتاب السنۃ ، 1

[18]    ترمذی ، کتاب الایمان ۔ یہ حدیث ابن ماجہ ( کتاب الفتن ) ۔ الدارمی ( کتاب السیر ) اور مسند ابن حنبل ( 3 : 25 ) میں بھی ہے۔

[19]   صحیح بخاری ، کتاب التفسیر

[20]   ترمذی ، کتاب الفتن

[21]   صحیح بخاری، کتاب الفتن ، نیز کتاب المناقب ، صحیح مسلم ، کتاب الامارۃ۔ یہ حدیث شیخین کے علاوہ ابن ماجہ ( کتاب الفتن ) اور مسند ابن حنبل ( 5 : 387 ، 403 ، 406 ) میں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔

[22]   صحیح مسلم میں نہیں ملی ، لیکن نسائی ، کتاب البیعہ اور ابن ماجہ ، کتاب الفتن میں ہے۔

[23]   صحیح بخاری ، کتاب الفضائل القرآن ، و کتاب المواقیت الصلاۃ ، نیز کتاب استتابۃ المرتدین۔ یہ حدیث صحیح بخاری کے علاوہ ، کتاب السنۃ ، الترمذی ، کتاب الفتن ، ابن ماجہ ، المقدمہ میں بھی ہے۔ مسند ابن حنبل کے بھی متعدد مقامات پر ہے۔

[24]   ابن ماجہ ، کتاب الفتن

Please Leave a Reply

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.