ربیع الاول، ربیع الثانی1436ھ
جنوری، فروری2015ء شمارہ 34 اور 35
سیرت اور عصر حاضر
حبّ رسول ﷺ کے عملی تقاضے
راحیل گوہر
مفکر اسلام علامہ اقبال نے اپنی تصنیف ” تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ ” کے دیباچہ میں لکھا ہے : ” قرآن پاک کا رجحان زیادہ تر اس طرف ہے کہ ‘ فکر ‘ کی بجائے ‘ عمل ‘ پر زور دیا جائے۔” اسلام قرآن حکیم کے توسط سے ہی دنیا میں متعارف ہوا ہے اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اسلام کوئی ساکت و جامد دین نہیں بلکہ اپنے قالب میں ایک متحرک اور انقلابی تصور لیے ہوئے آیا ہے۔ انسان کی زندگی سے غور و فکر کے مراحل کو یکسر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اس لیے کہ نظریات میں عملی حرارت تفکر و تدبر ہی سے پیدا ہوتی ہے۔محمد عربی ﷺ نے اپنی بعثت سے قبل ایک عرصہ غار حرا کی تنہائیوں میں آفاق و انفس کی صحیح حقیقت جاننے کی فکر و تدبر میں ہی گزارا تھا۔ اپنے تخلیق کار کی تلاش نے آپ ﷺ کو اپنی ذات سے بھی بیگانہ کر دیا تھا۔
لیکن کسی شئے کے ادراک کے لیے غور و فکر کرنے کا بھی ایک وقت معین ہوتا ہے ، اس کے بعد اپنے زاویئے نگاہ کو تبدیل کرنا ناگزیر ہو جاتا ہے۔ چنانچہ غور و فکر اور تجسس و تعقل کی ساعتیں گزارنے کے بعد پھر اگلا قدم عمل کی دنیا میں رکھنا پڑتا ہے اور یہ عملی قدم ہی نظریات کو پختگی دیتا اور مطلوبہ نتائج بر آمد کرتا ہے۔ تاریخ انسانی شاہد ہے کہ رسول عربی ﷺ کے برپا کیے ہوئے ہمہ گیر انقلاب میں اور دنیا میں برپا ہونے والے دیگر انقلابات خواہ وہ انقلاب فرانس ہو یا انقلاب روس یا اور کوئی انقلاب ان میں بنیادی فرق ہی یہ ہے کہ ان انقلابات کی فکر دینے والے کوئی اور تھے اور ان کو عملی جامہ پہنانے والے کوئی اور لوگ۔ لیکن رسول کریم ﷺ کا اصل اور بے مثال کارنامہ یہ ہے کہ جس انقلاب اور انسانی نفوس کی قلب ماہیت کی فکر لوگوں کے ذہن میں راسخ کی اس کے عین مطابق اس فکر کو عملی طور بھی نافذ کر کے دنیا کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔ چنانچہ آپ ﷺ کی حیات طیبہ میں جب وہ وقت آیا تو آپ ﷺ نے خلوت نشینی تر ک کر کے عمل کی دنیا میں قدم رکھا۔ ارشاد ربانی ہوا :
يَٰٓأَيُّهَا ٱلۡمُدَّثِّرُ ١ قُمۡ فَأَنذِرۡ ٢ وَرَبَّكَ فَكَبِّرۡ ٣
” اے ( محمد ﷺ ) جو کمبل اوڑھے سو رہے ہو۔ اٹھ جائیے اور خبر دار کیجیے اور اپنے رب کی بڑائی بیان کیجیے۔” ( سورة المدثر : 1 – 3 )
اسلام میدان میں آکر اپنی حقانیت کا اعلان کرنے اور اس کو تمام ادیان پر عملی طور پر غالب و نافذ کر نے کا لائحہ عمل لے کر آیا ہے۔ یہ خانقاہوں ، درگاہوں اور کونوں کھدروں میں بیٹھ کر ، دنیا و ما فیہا سے کنارا کشی اختیار کر کے اپنی ہی ذات کا طواف کرتے رہنے کے لیے نہیں آیا۔ یہ الہامی دین ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے ، جس میں ا نسانی مسائل کی الجھی ڈور کو سلجھانے کی پوری استعداد اور بھرپور صلاحیت موجود ہے۔محمد عربی ﷺ کے لائے ہوئے دین متین پر کامل ایمان و ایقان کے ساتھ عمل کرنے سے دنیا اور آخرت دونوں ہی سنور جاتے ہیں۔ کسی انسان کا ایمان کامل ہی نہیں ہوتا جب تک محمد عربی ﷺ اس کو دنیا کی ہر چیز سے عزیز تر نہ ہو جائیں۔ ارشاد رسول ﷺ ہے :
” تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اس کی نگاہ میں اس کے باپ ، اس کی ماں ، اس کے بیٹے اور سارے انسانوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔” ( رواہ البخاری و مسلم )
اب چونکہ موجودہ دور میں ہر عبادت کو ایک رسم بنا لیا گیا ہے۔ چنانچہ ربیع الاول کے اس ماہ مبارک میں بھی حب رسول ﷺ کے اظہار کے لیے بھی کچھ ایسی بدعات و رسومات یجاد کرلی گئی ہیں جس کو ثواب سمجھ کر پورے زور و شور سے منایا جا رہا ہے۔ مثلاً گھروں ، دکانوں اور شاہراہوں کو رنگ برنگے قمقموں سے سجانا ، جلسے ، جلوس اور ریلیاں نکالنا ، میلاد کی محفلوں میں جھوم جھوم کر نعتیں پڑھنا ، عشقِ رسول کے بڑے بڑے دعوے کرنا۔ یہ سب کر کے شاید وہ اپنے دلوں میں چھائے ہوئے اندھیروں کو روشنیوں میں بدلنا چاہتے ہیں ، ان میں بعض عاشقانِ رسول ﷺ پٹاخے پھوڑ کے ، پھلجڑیاں چھوڑ کر ، گھروں اور بازاروں میں سبز جھنڈیاں لگا کر ہی اپنی والہانہ محبت کا اظہار کر لیتے ہیں۔ صحابۂ کرام کا یہ طرز عمل تھا کہ وہ آپ ﷺ کے وضو کا پانی اپنے چہرے پر مل لیتے تھے۔ آپ ﷺ نے اس کی وجہ دریافت کی تو آپ ﷺ کے رفقاء نے اپنے اس عمل کو اللہ اور اس کے رسول کی محبت بیان کیا۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا :
” جن لوگوں کو اس بات کی خوشی ہو کہ وہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتے ہیں تو انھیں چاہیے کہ جب بات کریں تو سچ بولیں ، جب ان کے پاس کوئی امانت رکھی جائے تو اس کو اس کے مالک کے حوالے کریں ، اور پڑوسیوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کریں۔” ( مشکوٰة )
اب ہم جو عشق رسول ﷺ کے بہت بڑے دعوے دار بنتے ہیں ، کیا اللہ کے رسول ﷺ کی فرمائی ہوئی صرف ان تین باتوں پر ہی پوری طرح ، شعوری کوشش کے ساتھ عمل کرتے ہیں ؟ ہم اگر پوری دیانت داری کے ساتھ اپنے گریبانوں میں جھانکیں تو یہ حقیقت واضح ہوگی کہ ہمارا طرز عمل بحیثیت امت مسلمہ اس کے برعکس ہے۔ نہ ہمارے قول و فعل میں کوئی مطابقت رہی ہے ، نہ صداقت و حق گوئی کی ہماری زبان عادی ہے ، ہم انفرادی سے اجتماعی سطح تک خیانت اور بد دیانتی کے عادی ہو چکے ہیں ، اور اسی طرح پڑوسیوں کے حقوق کا کوئی احساس ہے اور نہ بھائی چارے کا کوئی جذبہ موجود ہے۔ ہم بحیثیت امت انسانی بنیادی اوصاف سے بھی تہی دامن ہیں۔
عوام الناس عشق رسول ﷺ کے اظہار کے لیے ہر سال ربیع الاول کے مہینے میں جو کچھ کرتے ہیں یہ اصل میں جھوٹا اطمینان ہے جو ہمیں اس حقیقت کی جانب متوجہ ہونے نہیں دیتا کہ ہم دیانت داری اور پورے اخلاص کے ساتھ یہ معلوم کرنے کی کوشش کریں کہ قرآن حکیم کی ہدایات کی روشنی میں رسول کریم ﷺ سے ہمارے تعلق کی حقیقی اساسات اورصحیح بنیادیں کیا ہیں ؟ ارشاد باریٔ تعالیٰ ہے :
قُلۡ يَٰٓأَيُّهَا ٱلنَّاسُ إِنِّي رَسُولُ ٱللَّهِ إِلَيۡكُمۡ جَمِيعًا ٱلَّذِي لَهُۥ مُلۡكُ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَ ٱلۡأَرۡضِۖ لَآ إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ يُحۡيِۦ وَ يُمِيتُۖ
فََٔامِنُواْ بِٱللَّهِ وَ رَسُولِهِ ٱلنَّبِيِّ ٱلۡأُمِّيِّ ٱلَّذِي يُؤۡمِنُ بِٱللَّهِ وَ كَلِمَٰتِهِۦ وَ ٱتَّبِعُوهُ لَعَلَّكُمۡ تَهۡتَدُونَ ١٥٨ ( الاعراف : 158 )
” آپ کہہ دیجیے : ” لوگو ! میں تم سب کی طرف اس اللہ کا رسول ہوں جو آسمانوں اور زمین کی سلطنت کا مالک ہے۔ اس کے سوا کوئی الہٰ نہیں ، وہی زندہ کرتا اور مارتا ہے۔ لہٰذا اللہ اور اس کے رسول نبی امی پر ایمان لاؤ ، جو اللہ اور اس کے ارشادات پر ایمان لاتا ہے اسی کی پیروی کرو۔ امید ہے تم راہ راست پالوگے۔”
اس آیت مبارکہ کی روشی میں واضح ہوگیا کہ انسانی معاشرے کی اصل فوز و فلاح اور کامل ہدایت کے لیے رسول کریم ﷺ کی اطاعت اور اتباع ہی اصل طریقہ ہے۔ انسانوں کے ناقص ذہنوں کے تراشے ہوئے حب رسول ﷺ کے اظہار کے وہ تمام طریقے جن کا مظاہرہ بڑے دھوم دھام سے ہر سال ہمارے ہاں ہوتا ہے۔ محض خود کو طفل تسلیاں دینے کے مترادف ہے۔ جب کہ اتباع رسول ﷺ کے پیمانے کچھ اور ہی ہیں اور اس کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ بحیثیت مسلمان ہمارا ہر عمل ، ہمارا ہر قول ، ہمارا رہن سہن ، گفتگو ، ہماری وضع قطع ، ہماری نجی اور اجتماعی زندگی غرض کہ اس دنیا میں شعور و ادراک کی سطح پر قدم رکھنے سے لے کر زندگی کی آخری سانس تک اسی کی ذات سے منسوب ہو جسے اللہ کا رسول ﷺ مانا گیا ہے اور یہ سب اس وقت تک ہو نہیں سکتا جب تک دل کی گہرائیوں میں اللہ اور اس کے رسول کامل ﷺ پر ایمان کامل نہ ہو۔ زبانی اقرار کے ساتھ تصدیق بالقلب بھی لازمی ہے۔
رسول کریم ﷺ کی ذات مبارکہ کو اپنے لیے زندگی کا معیار اور رہبر و رہنما بنانا ہماری اسلامی تہذیب و تمدن کی اصل پہچان اور دین کا بنیادی تقاضہ ہے اور ہماری یہی شناخت ہمارا رشتہ اپنے اس شاندار ماضی سے استوار کرتی ہے جس پراس وقت ہماری بد اعمالیوں ، فکری اور عملی گمراہیوں کی گرد چھائی ہوئی ہے۔ ہمارے اس بے مثال ماضی کی صداقت کا اظہار تو غیر مسلم مفکرین اور مورخین نے بھی کیا ہے۔ انگریز مورخ ولیم میور اپنے تصنیف ”Life or muhammad” میں لکھتا ہے۔:
” محمد ﷺ اپنی بات کے واضح کرنے اور دین کے آسان ہونے کے اعتبار سے ممتاز حیثیت رکھتے ہیں۔ آپ ﷺ نے اپنے کاموں کو قلیل عرصے میں ایسے مکمل کر کے دکھا دیا کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ تاریخ نے ایسا کوئی مصلح نہیں دیکھا جس نے اتنے مختصر عرصے میں اس طرز پر دلوں کو بیدار کیا ہو ، اخلاق کو زندگی بخشی ہو اور اخلاقی قدروں کو بلند تر کر دیا ہو ، جس طرح پیغمبر اسلام ﷺ نے کر کے دکھا دیا۔”
امریکی دانش ور مائیکل ہارٹ نے ان الفاظ میں رسول کریم ﷺ کی مدحت کی ہے :
” محمد ﷺ تاریخ انسانی میں وہ واحد انسان ہیں جنھوں نے دینی اور دنیاوی دونوں میدانوں میں کامل کامیابی حاصل کی اور سیاسی اور عسکری قائد قرار پائے۔”
تعریف تو اصل میں وہی ہوتی ہے جو دشمن کی زبان سے ادا ہو۔ یہی سبب ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ کے تربیت یافتہ رفقاء نے شرق و غرب میں نہ صرف اپنے فتوحات کے علم بلند کر دیئے بلکہ انسانوں کے نفوس کے تزکیے بھی کیے۔ اور ان کے کردار اور رویوں میں اخلاق ، رہن سہن ، باہمی پیار و محبت اور شفقت و رحمت کے ایسے سوتے جگا دیئے جو رہتی دنیا کے لیے گہرے نقوش چھوڑ گئے۔ یہ سب کچھ اللہ کی خصوصی رحمت اور اس کے رسول ﷺ کی سچی اور والہانہ اطاعت اور پیروی کے سبب ہی ممکن ہو سکا۔
آج مسلم امت کی اکثریت کا ہرعمل اغراض و مفادات کے پردوں میں چھپا ہوا ہے۔ ہماری عبادات ، معاملات ، معیشت و تجارت لین دین کے پیمانوں میں مکاری اور دو رخی ، حتیٰ کہ حب رسول ﷺ کے اظہار میں بھی ریا کاری اور جھوٹ شامل ہو گیا ہے ، اور بدعات و رسومات کو ہی حب رسول ﷺ کا معیار سمجھ لیا گیا ہے۔ مولانا احمد رضا خان بریلوی اطاعت رسول ﷺ کے حوالے سے فرماتے ہیں :
” روضۂ انور کا طواف نہ کرو ، نہ سجدہ کرو ، نہ اتنا جھکو کہ رکوع کے برابر ہو۔ حضور نبی کریم کی تعظیم ان کی اطاعت میں ہے۔” ( فتاویٰ رضویہ جدید جلد 10 ص 769 ،مطبوعہ رضا اکیڈمی ممبئی )
فتاویٰ رضویہ جدید جلد 10 ص 765 مطبوعہ جامعہ نظامیہ، لاہور میں فرماتے ہیں :
” روضۂ رسول ﷺ کو ہاتھ لگانے ، جالیوں کو بوسہ دینے سے بچو ، کیونکہ خلاف ادب ہے۔ بلکہ جالی سے چار ہاتھ کے فاصلے سے زیادہ قریب نہ جاؤ ، فرماتے ہیں کی ان کی یہ رحمت کیا کم ہے کہ تم کو اپنے حضور بلا لیا۔”
اب حضرت کے ان فرمودات کے آئینے میں ان لوگوں کو اپنا جائزہ لینا چاہیے جو اس کے بر خلاف محض اپنے خود ساختہ اصولوں کو معیار بنا کر عشق رسول ﷺ کے نام پر میلے ٹھیلوں کا بڑے جوش و خروش سے اہتمام کر تے ہیں اور اس کو ہی اصل دین اور رسول ﷺ کی محبت قرار دیتے ہیں۔ جبکہ سنت کے دائرے سے باہر نکل کر کیا ہوا کوئی عمل بھی معتبر نہیں ہوتا۔
آج ہم بحیثیت مجموعی اس منہج سے ہٹ گئے ہیں جس کو اختیار کر کے رسول کریم ﷺ اور ان کے جاں نثاروں نے ہواؤں کے رخ بدل دیئے تھے ، آج ہماری ذلت و رسوائی اور جگ ہنسائی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے۔ بقول غا لب :
ہیں کیوں آج ذلیل کہ کل تک نہ تھی پسند
گستاخی فرشتہ ہماری جناب میں
اطاعت ہے تو اس میں اصل روح موجود نہیں ، احکام شریعت کو ایک مذاق بنایا ہوا ہے۔ اوامر و نواہی کی فرضیت سے ہم غافل ہیں۔ برائی ہوتے دیکھ کر ہمیں اپنے دل میں کوئی کڑھن بھی محسوس نہیں ہوتی جو ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔ ہمارا یہ طرز عمل سراسر معصیت اور منافقت کی علامت ہے۔ ایک طرف عشقِ رسول ﷺ کے بلند بانگ دعوے ہیں اور دوسری جانب سچی اطاعت سے گریز ، اخلاص نیت پر مبنی رسول ﷺ کی پیروی کا فقدان ، اپنے وجود اور اپنی وضع قطع میں اغیار کی نقالی ، تربیت اولاد میں غفلت ، انھیں ایک اچھا انسان اور سچا مسلمان بنانے کے بجائے مغربی طرز زندگی کا نمونہ بنانے کی کوششیں ہیں۔ پھر ہم کس منہ سے خیر الامت کہلانے اور شافع محشر کی شفاعت کی امیدیں لگا کر بیٹھ سکتے ہیں۔ ہماری میلاد کی محفلیں ، چراغاں ، آتش بازیاں ، گھروں پر جھنڈے لہرانا ، اگر یہ سب اطاعت رسول ﷺ کے حقیقی جذبے اور اتباع سنت کی روح سے خالی ہیں تو یہ سب سراپا ڈھونگ اور فریب نفس ہے۔ اس کی اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی نظر میں کوئی وقعت ہے اور نہ ہی اعمال کے میزان میں اس کا کوئی وزن۔ بلکہ یہ محض ملمع کاری ہے اور جو قابل مؤا خذہ بھی ہو سکتی ہے۔
مسلمان امت کرب اور اذیت سے دوچار ہے ، ہماری صفوں میں شامل کچھ مغربی تہذیب و تمدن کے اسیر لوگوں نے اپنے برے عمل سے اگر عالم مغرب کے سامنے اسلام کی اصل تصویر کو مسخ کر کے پیش کیا ہے اور کر رہے ہیں تو ان کا راستہ روکنا چاہیے اور اسلام کے روشن اور تابناک چہرے کو اجاگر کرنے کی بھرپور سعی و جہد کو اپنا مشن اور فرض منصبی بنانا چاہیے۔ اسلام سراسر امن ، سلامتی ، خیر و بھلائی اور اخوت و بھائی چارگی اور ایثار و قربانی کا سرچشمہ ہے۔ اسلام تو ایسا عدل و انصاف اور صلح و آشتی والا دین ہے کہ اپنے کٹر دشمنوں سے جنگ کے موقع پربھی یہ درس دیتا ہے کہ کسی بوڑھے پر ، بچے پر ، عورت پر ہاتھ نہ اٹھایا جائے ، بلکہ کسی ہرے بھرے اور پھل دار درخت کو بھی نہ کاٹا جائے۔ دنیا کی دوسری قوموں کی جنگی تاریخ پڑھ کر دیکھ لیں وہاں وحشت و بہیمیت کا یہ نقشہ نظر آئے گا کہ کوئی ضعیف مرد ، عورت اور نہ کوئی بچہ ان کے ہاتھوں تہہ تیخ ہونے سے نہیں بچ سکا ، نہ صرف یہ بلکہ حاملہ عورتوں کے پیٹ چاک کر کے معصوم بچوں کو بھی نیزوں کی نوک پر اچھالا گیا اور برچھیوں سے ان کے نازک جسموں کو چھلنی کر دیا گیا ہے۔ مسلم اسپین کی تاریخ ہو ، صلیبی جنگوں کی تاریخ ہو ، یہودیت ، ہندو مت اور حالیہ بدھ مت کا معصوم مردوں ، عورتوں اور پھول جیسے بچوں کا وحشیانہ قتل عام ہو ، یہ روح فرسا واقعات اس سچائی کو نمایاں کر رہے ہیں کہ اگر سلامتی ، امن و سکون ، رحمت و رأفت اور عدل و انصاف اور سسکتی انسانیت کا چارہ گر کوئی ہے تو اس روئے ارض پر صرف اسلام ہی ہے۔
موجودہ فتنہ و فساد اور ظلم و استحصال کی دنیا میں ہمارے کرنے کا اصل کام یہ ہے کہ ہم مسلمان اپنے کردار و عمل کو اسلام کے اصل مفہوم و معنی کے عین مطابق دنیا کے سامنے پیش کریں تاکہ اسلام کی غلط تعبیر کرنے والوں پر اس دین کی حقانیت آشکار ہو جائے۔ اسلام کے اصل خد و خال جس میں اس کی معیشت ، معاشرت ، سیاست و عدالت ، رواداری اور امداد باہمی کے رہنما اصول و ضابطے واضح ہوں ، انھیں دنیا کے سامنے لایا جائے تاکہ اسلام کی حقانیت کو پہچان کر اسلام کے بارے میں دنیا کی رائے تبدیل ہو اور مسلمان دنیا کے ہر خطے میں امن و سکون کی زندگی بسر کر سکیں۔ ورنہ یہ میلے ٹھیلوں کا طرز عمل اسلام کا مزاج ہے اور نہ یہ حب رسول ﷺ کے حقیقی تقاضے ہیں۔
ہر سال ربیع الاول کی آمد امت مسلمہ کے لیے یہ پیغام لے کر آتی ہے کہ دنیا میں سسکتی انسانیت اور چہار سو پھیلے ظلمت کے اندھیروں کے خلاف حریت فکر و عمل اور صراط مستقیم سے بھٹکی ہوئی امت کے لیے رشد و ہدایت کی شمع جلائی جائے اور بیغام رسالت کو اس کی اصل روح کے ساتھ اپنے قول و فعل اور اپنی زندگی کے ہر شعبہ میں جاری و ساری کرنے کی سعی و جہد کی جائے۔ اور اس امر کا بھی شعوری ادراک اپنے فکر و نظر میں مستحضر رکھا جائے کہ اسلام کو بحیثیت نظام کے اسلامی ریاستوں میں فروغ دینا وقت کی اہم ضرورت ہے اور یہ حب رسول کا لازمی اور ناگزیر تقاضا بھی ہے۔ فرقہ بندی اور فروعی معاملات کی گتھیوں میں الجھنے کی بجائے قرآن و سنت کی واضح اور قابل عمل تعلیمات کو اپنی زندگیوں میں ڈھالا جائے تاکہ ہمارا فکری ،عملی ، سیاسی ، معاشی ، معاشرتی اور نظریاتی زوال عروج میں بدل سکے۔ ہم اطاعت رسول کے ہتھیار سے لیس ہو کر ایک بار پھر دنیا کی اس امامت کا فریضہ انجام دے سکیں جو کبھی ہماری اصل شان اور پہچان تھی۔
عصر حاضر کا انسان گوناگوں مسائل کے گرداب میں پھنسا ہوا ہے۔ کہیں دنیوی امن و سکون کو خطرات لاحق ہیں تو کہیں رنگ و نسل کے فرق و تفاوت سے آدمیت کی اصل روح کو پامال کیا جا رہا ہے۔ معاشی نا ہمواری اور سماجی بے راہ روی کا طرز عمل اپنایا ہوا ہے۔ انسانی حقوق کو غصب کرنے کا رجحان معاشرے کی جڑوں میں بیٹھ چکا ہے۔ ریاست کی ذمہ داریاں ان لوگوں کے ہاتھوں میں ہیں جو جانتے ہی نہیں کہ انسانیت کی فلاح و بہبود کیا شے ہے۔ یہ ملک و ملت کے لٹیرے محض اپنے مفاد کے اسیر ہیں۔ خشک سالی اور مصنوعی غذائی قلت نے عوام الناس کو نانِ شبینہ سے بھی محروم کیا ہوا ہے۔ انسان کا انسان سے باہمی اور اخوت و محبت کا تعلق بتدریج کمزور ہو رہا ہے۔ انتقامی ذہنیت ، عداوت و شقاوت اور بے حسی اور بے رحمی کا سیلاب انسانی معاشروں کو پوری طرح اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔ ان دگرگوں حالات میں ، سسکتی اور تڑپتی انسانیت کو کسی ایسے سہارے کی ضرورت ہے جو ان کی ابدی رہنمائی کر سکے اور جس پر عمل پیرا ہو کر انسان اپنے مادی اور روحانی مسائل اور اپنی محرومیوں کا کوئی حتمی حل تلاش کر سکے اور اس کی دنیوی اور اخروی کامیابی کی ضمانت بن سکے۔
رسول کریم ﷺ کی مکمل اطاعت و پیروی ہمارے اندر امانت ، دیانت ، فرض شناسی ، عملیت پسندی ، ایفائے عہد ، صداقت و پاک دامنی جیسے اوصاف حمیدہ کا شعور بیدار کرتی ہے ، جس کا فقدان آج ہمارے معاشرے کے ہر فرد کے اندر واضح طور پر نظر آتا ہے۔ آج ہمارا نظام حکومت و عدالت انگریز کے دور استبداد کی عکاسی کرتا ہے اور ہمارا معاشرہ بے حسی ، بے رحمی اور اخلاقی روح سے عاری انسانوں کا ترجمان ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سیرت النبی ﷺ کے تذکرے کو محض رسم و رواج ، جلسوں جلوسوں تک نہ محدود رکھا جائے بلکہ ہم اپنی انفرادی اور قومی زندگی میں اسوۂ حسنہ کو زندہ کرنے کا پختہ عزم کریں۔ کیونکہ یہی ہماری مادی اور روحانی بقا اور سلامتی کا ضامن ہے۔
بہت ہی عمدہ پیغام ہے جو بالکل حقیقت پر مبنی ہے،حالات حاضرہ کی صحیح عکاسی ہے،البتہ جو مقصد تحریر ہے اس پر عمل کرنا اشد ضروری ہے،اللہ تعالی گوہر صاحب کو جزاے خیر عطا فرمائے اور قارئین کو عمل کی توفیق عطاء فرمائے ۔۔۔۔۔۔آمین
پسند کریںپسند کریں