محرم و صفر 1436ھ
نومبر، دسمبر 2014ء شمارہ 32 اور 33
خبر سے ندامت تک
محمد احسن اللہ عظیم آبادی
صدیوں پہلے اسی رمضان المبارک میں محمد بن قاسم نے بر صغیر کے علاقہ سندھ پر پہلا اسلامی جھنڈا لہرایا تھا ۔ صدیوں بعد اسی رمضان المبارک میں ایک اخبار کے توسط سے یہ خبر موصول ہوئی کہ سندھ کے ایک نوجوان طالب علم رہنما نے بنگلہ دیش میں مقیم محصور پاکستانیوں کو سندھ میں آباد کرنے کی مخالفت کی ہے۔ اس خبر سے سخت ندامت ہوئی کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کی اس حد تک مخالفت کر سکتا ہے جب کہ ” سب مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔” ( القرآن )
مگر قصور اس مسلمان نسل کا نہیں ہے۔ بلکہ پاکستانی رہنماؤں ، دانشوروں اور مذہبی پیشواؤں کا ہے۔ جنہوں نے کبھی نئی نسل کو نہیں بتایا کہ پاکستان کا مطلب کیا ہے۔ 30 سال تک نا اہل وزارت تعلیم نے شاہین بچوں کی صحیح رہنمائی نہیں کی۔
آج ان مسلمانوں کے لیے پاک سر زمین تنگ کی جا رہی ہے۔ جنہوں نے قیام پاکستان میں بر صغیر کے مسلمانوں کی جدوجہد میں شانہ بشانہ حصہ لیا تھا آج ان ہی اسلام کے متوالوں کے لیے یہ سر زمین تنگ کی جا رہی ہے۔ جنہوں نے اپنے اکثریتی علاقوں کے مسلمان بھائیوں کے لیے اپنے گھر کو آگ لگا دی تھی۔ ہندی مسلمانوں نے بر صغیر کی ہر ملی اور دینی تحریکوں میں حصہ لیا ہے اور آج مسلم قومیت اور پاکستان سے والہانہ محبت کرنے کی سبق آموز سزا انہیں مل رہی ہے ۔ نئی نسل کو کیا معلوم کہ قیام پاکستان کے وقت ہندی مسلمانوں نے کیسی عظیم قربانیاں پیش کی ہیں۔ امرتسر سے کلکتہ تک ہم اقلیتی مسلمانوں کے خون ہی خون نظر آئیں گے۔ ہماری بے کفن لاشیں ملیں گی ۔ ہماری ماں بہنوں کی عصمتیں لٹتی نظر آئیں گی ۔ ہمارے معصوم بچوں کی آہ و بکا ہی سنائی دے گی ۔
تقسیم ہند کی اقلیتی مسلمانوں کو سخت سزا ملی ، عبرت ناک سزا ۔ یہ سب اس لیے ہوا تھا کہ قرار داد پاکستان کے وقت ہندی مسلمانوں نے قائد اعظم سے نہ صرف قائدِ اعظم سے بلکہ سر ہدایت اللہ تالپور ، جی ایم سید ، لغاری ، سیٹھ عبد اللہ ہارون ، پیر پگاڑا خاندان اور سندھ کے دیگر مسلم قومیت کے حامی معزز رہنماؤں سے بھی وعدے کیے تھے کہ ہم ہندی مسلمان اپنے اکثریتی مسلمان بھائیوں کی آزاد مسلم ریاست کے قیام میں بھرپور ساتھ دیں ان رہنماؤں نے بھی ہمیں یقین دلایا تھا کہ ہمارے لیے پاکستان کے دروازے ہمیشہ کے لیے کھلے رہیں گے اور پاکستان میں مساوی حقوق کے مستحق ہوں گے۔
47-1946ء کے انتخابات کے گوشوارے بتا رہے ہیں کہ ہم نے کہاں تک ملّت اسلامیہ کا ساتھ دیا تھا۔ آج ہمارے دل مطمئن ہیں ۔بحمد للہ ہم نے ایک مومن کی طرح اپنا وعدہ پورا کر دیا ۔ اب ” فرزندانِ وطن ” کے امتحان کا وقت ہے کہ وہ اپنے عہد کا کہاں تک پاس رکھتے ہیں ، ہندی مسلمانوں کی مصیبت کے وقت کیا مدد کرتے ہیں اور پاکستان کے دروازے کہاں تک کھلے رکھتے ہیں ۔
آج 9 سال سے ہم دیارِ غیر میں پاکستان کا ساتھ دینے کی مکروہ ترین سزا بھگت رہے ہیں ۔ زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں ۔ ہم انہیں آواز دیتے رہے ، ہم اسلام آباد کے قصر صدارت پر دستک دیتے رہے مگر کوئی شنوائی نہیں ہوئی ۔
حضور اکرم ﷺ کا فرمان ہے : ” جو شخص مسلمانوں کی مدد کا اعلان سن کر مثبت جواب نہ دے وہ مسلمان نہیں ۔ ” اس فرمان کے باوجود کوئی میری مدد کو نہ آیا ۔ بلکہ ہوا یہ کہ سندھ سندھیوں کا ، سر حد سرحدیوں کا ، پنجاب پنجابیوں کا اور بلوچستان بلوچیوں کا ، کے نعرے لگنے لگے ۔ اس نعرہ بازی میں جو وعدے بابائے قوم اور ان کے ساتھیوں نے ہم سے کیے تھے وہ عہدِ پاکیزہ بھی چور چور ہو گیا ۔ حالانکہ شریعت میں عہد شکنی کا کوئی جواز نہیں ۔ حکیم ملّت نے ہمیشہ وطنیت کو بت پرستی سے تشبیہ دی ۔ آج 32 سال قیام پاکستان کو ہو چکے ۔ مگر پاکستان صوبائیت سے آزاد نہ ہو سکا۔ وادی کاغان سے کلفٹن تک ایک قوم کا تصور پیدا نہ ہو سکا۔