درد جس کی کسک لازوال تھی


13 Dard jis TITLE

محرم و صفر 1436ھ

نومبر، دسمبر 2014ء شمارہ 32 اور 33گوشہ خاص

 online urdu

درد جس کی کسک لازوال تھی

محمد احسن اللہ عظیم آبادی

چودھویں صدی ہجری ختم ہو رہی تھی ۔ اس صدی کی آخری رمضان المبارک کی ایک سحر آفریں صبح ریڈیو پاکستان کرہ ارض کے باسیوں کو پیغام دے رہا تھا —– اخوّت اور بھائی چارگی کا ، کہ —– ” دنیا کے کسی گوشے میں اگر کسی مسلمان کے پاؤں میں کانٹا چبھ جائے تو سارے مسلمان کے دل دکھ جاتے ہیں۔”

واقعی کتنا بلند پیغام تھا۔ کیسی الفت اور محبت ٹپکتی ہے ، رنگ ، نسل اور قومیت کا سوال نہیں ، شرط صرف کلمہ طیبہ ہے۔

قرآن نے کہا :

” تم اپنے اوپر اللہ کے احسان یاد کرو کہ تم آپس میں دشمن تھے تو اللہ نے تمہارے دلوں کو جوڑ دیا پھر تم بھائی بھائی ہو گئے ۔”

رسول پاک ﷺ نے ساری زندگی امت کو بھائی چارگی کا درس دیا اور اسلامی معاشرہ کی بنیاد اخوّت اور مساوات پر رکھی ۔

مؤرخین حیرت زدہ ہیں کہ یہ جنگجو عرب جو صدیوں آپس میں لڑتے رہتے تھے وہ محمد عربی ﷺ کی تعلیم اور صحبت سے آپس میں شیر و شکر ہو گئے۔

اہلِ مدینہ نے بغیر کسی کٹیگری کے ( اسلامی جمہوریہ پاکستان کی طرح نہیں ) مدینہ کے تمام دروازے تمام مسلمانوں کے لیے کھول دیئے بلکہ اپنے مکی مہاجر بھائیوں کو بلا معاوضہ اپنی املاک میں برابر کا شریک بنا لیا اور اس سے بھی آگے اپنی بیویوں کو طلاق دے کر ان مہاجروں کی زوجیت میں دے دیا ۔ دیکھتے ہی دیکھتے یثرب کی گلیوں میں فارس کے سلمان فارسی ، روم کے صہیب ، حبشہ کے بلال ، مکہ کے عبد اللہ بن مسعود ، عثمان غنی اور عبد الرحمٰن بن عوف       ( رضی اللہ عنہم ) نظر آنے لگے کسی نے نہیں پوچھا کہ تم اس پاک سر زمین میں کس کٹیگری میں آئے ہو ۔

ایک غزوہ میں ایک صحابی زخمی ہو جاتے ہیں تو ان کے بھائی پانی لے کر آ جاتے ہیں مگر وہ دوسرے زخؐی کی طرف اشارہ کرتے ہیں ، یہاں تک کہ تینوں ہی جام شہادت نوش کرتے ہیں مگر تنہا پانی پینا گوارا نہیں کرتے۔

ساحل سندھ پر ایک مسلمان لڑکی خلیفہ وقت سے مدد چاہتی ہے تو بغداد میں ہلچل مچ جاتی ہے اور محمد بن قاسم فوج لے کر طوفان کی طرح مدد کو آ پہنچتا ہے ۔

مرہٹوں کی بغاوت سے لال قلعہ ڈگمگا رہا ہے ، ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ہند سے ہمیشہ کے لیے اسلام ختم ہو جائے گا ، ایسے نازک وقت پر احمد شاہ ابدالی ہندی مسلمانوں کی مدد کو آ جاتا ہے۔

اسلامی تاریخ نے ایسی بہت سی مثالیں محفوظ رکھی ہے ، جس میں مسلمانوں نے اخوّت کا ثبوت دیا ہے ، مگر افسوس تو اس بات کا ہے کہ آج مسلمانوں نے اسلامی اخوّت ، مساوات ، اخلاص ، اخلاق ، انصاف اور ایثار کو کتابوں ، تقریروں اور ریڈیو تک محدود کر دیا ہے اس وقت پوری دنیائے اسلام میں عملی طور سے کہیں اس کا وجود نہیں ، صرف ” اسلامی جمہوریہ ” کے بورڈ ہی بورڈ نظر آتے ہیں ۔

بنگلہ دیش جو اسلامی اقدار ، مساوات اور سماجی انصاف SOCIAL JUSTICE کا بڑا داعی ہے اسی سرزمین پر 11 اگست 1979ء / 18 رمضان المبارک 1399ھ سے نہتے لانگ مارچ کرنے والے مہاجروں پر ایسی انسانیت سوز مظالم ڈھائے کہ انسانیت شرما گئی اور دور سرحد کے اس پار بھارتی فوج حیرت زدہ آنکھوں سے مسلمانوں پر مسلمانوں کے ہاتھوں قتل اور غارت گری کا تماشہ دیکھتی رہی ۔

رمضان کے اس مقدس مہینے میں ان نہتے مسلمان روزہ داروں پر گولیا چلتی رہیں ، لاٹھیاں برستی رہیں ، سڑکیں ویران ہوتی رہیں ، لوگ جاں بحق ہوتے رہے ، آگ کے شعلے بلند ہوتے رہے اور کنچن ندی کی بے تاب لہریں سرخ ہوتی رہیں ۔ ——- اور ڈھاکہ میں مسلم ممالک کے سفارت خانے ان خونچکاں حالات سے بے نیاز ، رات ذو الجلال کی عبادتوں میں اور شام پُر تکلف افطار پارٹیوں میں صرف کرتے رہے ۔

دور بہت دور ایک گاؤں کے مکتب میں ایک بوڑھا ملّا بچوں کو سبق دے رہا تھا ۔ بچّو !

اللہ پاک نے کہا ہے : ” میرے بندوں سے محبت کرو۔”

” انسان کا قتل کفر ہے۔”

” خدا کے فضل سے تم سب بھائی بھائی بن گئے ہو ۔”

بچّو ! ——میرے نبی ﷺ نے کہا ہے :

” ہر مسلمان ایک دوسرے کا بھائی ہے نہ وہ اس پر ظلم کرے نہ اسے بے سہارا چھوڑ دے۔”

” وہ لوگ اللہ کی خاص رحمتوں سے محروم رہیں گے جو دوسروں پر رحم نہیں کرتے ۔”

” جو شخص مسلمانوں کی مدد کا اعلان سن کر مثبت جواب نہ دے وہ مسلمان نہیں۔”

— مگر —

بنگلہ دیش میں ان تڑپتے ، مچلتے ، سسکتے ، مجبوروں ، محصوروں مظلوموں کو دیکھنے کون آیا ؟ —- کون بولا ؟ —- کون رویا ؟ نہ ڈھاکہ کو شرم آئی ــــــــ نہ اسلام آباد کو ـــــــــ نہ ریاض کا دل دکھا ـــــــــــ  نہ جکارتہ کا  ــــــــــــ نہ رباط کو افسوس ہوا  ــــــــــــ نہ دمشق کو ــــــــــ نہ بغداد کے آنسو ٹپکے ـــــــــــ نہ کوالالمپور کے ــــــــــ نہ قاہرہ رویا ـــــــــــ نہ انقرہ ــــــــــ نہ خرطوم کے دل کراہے ــــــــــ نہ تہران کے ــــــــــــ نہ عمان نے پوچھا ـــــــــــ نہ بغداد نے ــــــــــ نہ بن غازی نے خبر لی ـــــــــ نہ دبئی نے !!!

ریڈیو پاکستان کہہ رہا تھا

دنیا کے کسی گوشہ میں اگر کسی مسلمان کے ــــــــــــــــــــــــــ

یہ سن کر ایک شکستہ مسجد کے مینار پر بیٹھے ہوئے ایک بوڑھے گدھ نے کہا ـــــــــــــــ دیکھو تو سہی ــــــــــــــ اللہ کے دین کا کیسا مذاق اڑایا جا رہا ہے۔

Please Leave a Reply

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.