محرم و صفر 1436ھ نومبر، دسمبر 2014ء شمارہ 32 اور 33
لمحہ فکریہ
مسلمانوں کی بے خبری اور علماء کی بے حسی
الاسلام بین جھل ابناء و عجز علماء
شیخ عبد القادر عودہ شہید مصری رحمۃ اللہ علیہ ( 1906ء – 1954ء )
شیخ عبد القادر عودہ شہید مصری رحمۃ اللہ علیہ ( 1906ء – 1954ء ) عالم اسلام کے مشہور انقلابی مفکر و راہ نما تھے ۔ وہ اخوان المسلمین کے نمایاں قائدین میں شمار کیے جاتے تھے ۔ اپنی جرات اظہار و حق گوئی کے سبب انہیں کئی بار مشکلات میں مبتلا ہونا پڑا تآنکہ منزلِ شہادت ان کا مقدر بنی ۔ زیر نظر مضمون در اصل شیخ عبد القادر عودہ کا تحریر کردہ ایک کتابچہ ہے جس کا اردو ترجمہ دار القرآن بیروت سے 1400ھ / 1980ء میں طبع ہوا ۔ ہمارے پیش نظر جو نسخہ ہے اس پر مترجم کا نام درج نہیں ۔ بایں ہمہ اس کی اہمیت عصر حاضر میں کسی طرح کم نہیں ہوئی بلکہ شیخ عودہ نے جن مباحث پر قلم اٹھایا ہے اس کی ضرورت شاید اُس دور سے کہیں زیادہ اِس دور کے مفیدِ مطلب ہے ، یہی وجہ ہے کہ ” الواقعۃ ” میں اس کی طباعت نَو کی جا رہی ہے ۔ ( ادارہ )
مقدمہ
تمام تعریف اور تحسین و آفرین اللہ کے لیے ہے جس نے قلم کو ذریعہ تعلیم بنا کر انسان کو وہ سب کچھ سکھایا جو انسان نہ جانتا تھا اور صلوٰۃ و سلام نبی امّی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم پر جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کو ہدایت کے لیے منتخب فرمایا اور تمام دنیا کے انسانوں کے لیے داعی اور معلم بنا کر بھیجا تا کہ بنی نوع انسان کو اللہ کی طرف بلائیں اور ان کو کتاب اللہ کی تعلیم دیں اور یہ ارشادِ باری تعالیٰ ان کو بار بار سنائیں :
قَدۡ جَآءَكُمۡ رَسُولُنَا يُبَيِّنُ لَكُمۡ كَثِيرٗا مِّمَّا كُنتُمۡ تُخۡفُونَ مِنَ ٱلۡكِتَٰبِ وَ يَعۡفُواْ عَن كَثِيرٖۚ قَدۡ جَآءَكُم مِّنَ ٱللَّهِ نُورٞ وَ كِتَٰبٞ مُّبِينٞ ١٥ يَهۡدِي بِهِ ٱللَّهُ مَنِ ٱتَّبَعَ رِضۡوَٰنَهُۥ سُبُلَ ٱلسَّلَٰمِ وَ يُخۡرِجُهُم مِّنَ ٱلظُّلُمَٰتِ إِلَى ٱلنُّورِ بِإِذۡنِهِۦ وَ يَهۡدِيهِمۡ إِلَىٰ صِرَٰطٖ مُّسۡتَقِيمٖ ١٦ ( المائدہ : 15 – 16 )
” تمہارے پاس اللہ کی طرف سے روشنی آ گئی ہے اور ایک ایسی حق نما کتاب جس کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو جو اس کی رضا کے طالب ہیں سلامتی کے طریقے بتاتا ہے اور اپنے اذن سے ان کو اندھیروں سے نکال کر اجالے کی طرف لاتا ہے اور راہِ راست کی طرف رہنمائی فرماتا ہے۔”
ایک مسلمان کے لیے یہ بات انتہائی اندوہ ناک ہے کہ اس کے سامنے دورِ حاضر کے مسلمان دن بدن کمزور سے کمزور تر ہوتے جا رہے ہیں اور ایک جہالت و گمراہی سے نکل کر دوسری جہالت و گمراہی میں گرتے جا رہے ہیں ۔ انہیں یہ بھی معلوم نہیں کہ ان کی موجودہ نکبت و زوال کا حقیقی سبب صرف یہ ہے کہ وہ شریعتِ اسلامیہ سے نہ صرف نا واقف ہیں بلکہ انہوں نے قوانین شریعت کے مکمل اور اعلیٰ و ارفع ہونے کے باوجود ان کو معطل کر رکھا ہے اور ان پر عمل کرنا چھوڑ دیا ہے۔ انہیں اس کا بھی علم نہیں کہ انسانوں کے بنائے ہوئے ناقص قوانین سے وابستگی نے ہی ان کو تباہ و برباد اور ذلیل و خوار کیا ہے ۔
میرا پختہ یقین ہے کہ ہم مسلمانوں نے شرعی احکام کو صرف اس لیے نظر انداز کر دیا کہ ہم خود ان کی خوبی اور افادیت سے بے خبر ہیں اور ہمارے علماء نے ان کو متعارف کرانے اور لوگوں کے سامنے پیش کرنے میں دون ہمتی اور تساہل سے کام لیا ہے ۔ حقیقت ہے کہ اگر ہر مسلمان کو پوری طرح معلوم ہو کہ شریعت کی طرف سے اس پر کیا فرائض عائد ہوتے ہیں تو وہ ان کو ادا کرنے اور بجا لانے میں ہرگز کوتاہی نہ کرے ۔ یہی نہیں بلکہ ہم من حیث القوم شریعت کی خدمت کرنے اور اس کے احکام کے نفاذ اور ان پر عمل کرنے میں ایک دوسرے سے سبقت لے جائیں ۔
میرے نقطہ نگاہ سے ایک مسلمان اپنے مسلمان بھائی کی بہترین خدمت اسی طرح کر سکتا ہے کہ اس کو اسلامی شریعت کے احکام سے پوری طرح روشناس کرائے اور اس کو وہ تمام باتیں بتائے جو وہ نہ جانتا ہو ۔
یہ چھوٹا سا رسالہ جو اس وقت آپ کے سامنے ہے میں نے اس میں شریعت کے وہ احکام جمع کر دیئے ہیں جن سے کوئی با شعور مسلمان بے نیاز نہیں رہ سکتا ۔ علاوہ ازیں بعض جاہلوں کی طرف سے بلا سند و دلیل شریعت پر جو عجیب و غریب اعتراضات اور الزامات کیے گئے ہیں ان کے بارے میں مَیں نے اصل حقائق بھی اس رسالہ میں بیان کر دیئے ہیں ۔ مجھے امید ہے کہا اس رسالہ سے علوم عمرانی سے بہرہ ور ہمارے بھائیوں کے ذہنوں میں شریعت اسلامیہ کے بارے میں جو شکوک و شبہات جم گئے ہیں وہ دور ہو جائیں گے اور بعض احکام اسلامی کے متعلق جو مسخ شدہ تصور پیدا ہو چکا ہے وہ بھی رفع ہو جائے گا ۔ اس تحریر سے علمائے اسلام کو بھی اس طرف توجہ ہو گی کہ وہ اپنے طور طریقے بدلیں اور خدمت اسلام کے لیے نئے اسلوب و انداز اختیار کریں اس لیے کہ علماء ہی انبیاء علیہم ولصلوٰۃ و السلام کے وارث و نائب اور ان کے علم و حکمت کو دنیا میں پھیلانے کے ذمہ دار ہیں ۔
آخر میں بارگاہِ ربّ العزت میں دست بدعا ہوں کہ وہ ہم سب کو راہ راست پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔
فصلِ اوّل
ضروری باتیں
ہم مسلمانوں کے لیے یہ بات خوش آئند ہے کہ ہم مسلمان کہلاتے ہیں اور اپنے مسلمان ہونے پر فخر کرتے ہیں لیکن اسی کے ساتھ یہ امر انتہائی افسوسناک ہے کہ ہم اسلامی احکام سے بے خبر ہیں اور اس کے بڑے بڑے بنیادی اصولوں کو چھوڑ چکے ہیں ۔
اسلامی احکام اور اس کے بنیادی اصول
اسلامی احکام سے مراد وہ بنیادی اصول و نظریات ہیں جو قرآن مجید میں مذکور ہیں اور جن کی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم نے ہمیں تعلیم دی ۔ انہیں سب مقدمات اور نظریات کے مجموعہ کا نام شریعت اسلامیہ ہے۔ اس میں اسلام کے عقائد توحید ، ایمان ، عبادات ، آپس کے معاملات جرم و سزا ، لین دین ، سیاست ، حکومت کا نظم و نسق اور اس کے علاوہ انسانی زندگی کی مختلف ضرورتوں ، اور پہلوؤں کے بارے میں احکام شامل ہیں ۔
اسلام کا بنیادی اصول یہ ہے کہ اس کے نافذ کردہ احکام پر عمل کیا جائے اسلام کے وجود میں آنے کی غرض سے غایت ہی یہ ہے کہ اسکے اوامر و نواہی کو جانا جائے اور اس کے قوانین و شعائر کو دنیا میں جاری و نافذ کیا جائے ۔ اس کے معنیٰ یہ ہیں کہ جس نے اسلامی قوانین سے صرف نظر کیا یا ان کو معطل کر دیا اس نے در اصل اسلام ہی کو معطل کر دیا ۔
اسلامی احکام دین اور دنیا دونوں کے لیے ہیں
اسلامی احکام دو قسم کے ہیں :
ایک قسم کا تعلق اقامت دین سے ہے۔ یہ حصہ عقائد و عبادات کے مسائل پر مشتمل ہے ۔
دوسری قسم وہ احکام و مسائل ہیں جن کا تعلق جماعت و حکومت کے نظم و نسق اور فرد و جماعت کے باہمی روابط و تعلقات کی تنظیم و ترتیب سے ہے۔ اس میں لین دین کے معاملات اور جرم و سزا کی تعزیرات اور وہ تمام امور شامل ہیں جو فرد ، دستور و آئین اور نظم حکومت کے مختلف احوال و ظروف سے متعلق ہیں۔ گویا اسلام دین و دنیا اور مسجد و مملکت میں امتزاج اور یکجائی پیدا کرتا ہے۔ اسلام دین بھی ہے اور حکومت بھی ہے ، عبادت بھی ہے اور قیادت بھی۔ جس طرح عبادات اسلام کا حصہ ہیں اسی طرح امور جہانبانی بھی اسلام کا لازمی حصہ ہیں بلکہ یہ زیادہ اہم حصہ ہے۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کتنا صحیح فر مایا ہے ۔
” ان اللہ لیزع بالسلطان ما لا یزع بالقرآن۔”
” اللہ تعالیٰ نے قوت و سلطنت کو بدی اور برائی کو روکنے کے سلسلے میں قرآن سے بھی زیادہ موثر بنایا ہے ۔”
باوجود یہ کہ اسلامی احکام کی تعداد زیادہ ہے لیکن ان سب کا مقصد صرف ایک ہی ہے اور وہ ہے انسان کی دنیا اور آخرت دونوں میں نجات و خوش بختی۔ یہی وجہ ہے کہ ہر دنیوی عمل کا ایک اُخروی پہلو بھی ہوتا ہے۔ کوئی بھی کام ہو خواہ اس کا تعلق عبادت سے ہو یا رفاہ عامہ سے۔ تعزیرات سے متعلق ہو یا آئین و قوانین حکومت سے اس کا ایک اثر و نتیجہ تو وہ ہے جو اس دنیا میں ظاہر ہوتا ہے مثلاً فرائض کی ادائیگی ، ملکی اور قومی امور کا بحسن و خوبی رواں دواں رہنا ، مظلوم کو اس کا حق دلوانا ، جھوٹے دعوؤں کا باطل قرار دینا ، سزا کا نفاذ ، ذمہ داریوں کو حسب مراتب تقسیم و متعین کرنا وغیرہ۔ ان اعمال کا دنیاوی زندگی میں بھی ایک نتیجہ برآمد ہوتا ہے اور آخرت میں انہی کی بنیاد پر مسلمان ثواب یا عذاب کا مستحق ہوتا ہے ۔
شریعت اسلامیہ کی یہی خصوصیت ہے اور اس کی غرض و غایت ہی انسان کو دنیا اور آخرت دونوں میں سعادت مند بنانا ہے۔ اسلام ایک ایسی وحدت ایسی اکائی ہے کہ اس میں دنیوی پہلو کو اُخروی پہلو سے جدا کرنا یا ایک کو ملحوظ رکھنا اوردوسرے کو نظر انداز کر دینا ممکن نہیں۔ اس طرح اس کا حقیقی مقصد پورا نہیں ہو سکتا جو شخص بھی قرآن مجید میں احکام و قوانین سے متعلق آیات کا بغور مطالعہ کرے گا اسے یہ بات صاف نظر آ جائے گی کہ قرآن مجید نے ہر حکم کی خلاف ورزی پر دو سزائیں بیان فرمائی ہیں۔ ایک دنیوی سزا اور دوسری جو آخرت میں ملے گی۔ مثلاً رہزنی کی سزا قتل ، پھانسی اور جلا وطنی دنیوی سزائیں ہیں اور عذابِ عظیم اُخروی سزا ہے ۔ اس بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشادہے :
إِنَّمَا جَزَٰٓؤُاْ ٱلَّذِينَ يُحَارِبُونَ ٱللَّهَ وَ رَسُولَهُۥ وَ يَسۡعَوۡنَ فِي ٱلۡأَرۡضِ فَسَادًا أَن يُقَتَّلُوٓاْ أَوۡ يُصَلَّبُوٓاْ أَوۡ تُقَطَّعَ أَيۡدِيهِمۡ وَ أَرۡجُلُهُم مِّنۡ خِلَٰفٍ أَوۡ يُنفَوۡاْ مِنَ ٱلۡأَرۡضِۚ ذَٰلِكَ لَهُمۡ خِزۡيٞ فِي ٱلدُّنۡيَاۖ وَ لَهُمۡ فِي ٱلۡأٓخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ ٣٣ ( المائدہ : 33 )
” جو لوگ اللہ اور اس کے رسول سے لڑتے ہیں اور زمین میں اس لیے تگ و دو کرتے پھرتے ہیں کہ فساد برپا کریں ان کی سزا یہ ہے کہ قتل کیے جائیں یا سولی پر چڑھا ئے جائیں یا ان کے ہاتھ اور پاؤں مخالف سمتوں سے کاٹ ڈالے جائیں یا وہ جلا وطن کر دیے جائیں یہ ذلت اور رسوائی تو ان کے لیے دنیا میں ہے اور آخرت میں ان کے لیے بڑی سزا ہے۔”
اسی طرح بے حیائی پھیلانے یا عصمت مآب خواتین پر تہمت لگانے کی ایک دنیوی سزا اور ایک اُخروی ۔ ارشاد باری ہے :
إِنَّ ٱلَّذِينَ يَرۡمُونَ ٱلۡمُحۡصَنَٰتِ ٱلۡغَٰفِلَٰتِ ٱلۡمُؤۡمِنَٰتِ لُعِنُواْ فِي ٱلدُّنۡيَا وَ ٱلۡأٓخِرَةِ وَ لَهُمۡ عَذَابٌ عَظِيمٞ ٢٣ يَوۡمَ تَشۡهَدُ عَلَيۡهِمۡ أَلۡسِنَتُهُمۡ وَ أَيۡدِيهِمۡ وَ أَرۡجُلُهُم بِمَا كَانُواْ يَعۡمَلُونَ ٢٤ يَوۡمَئِذٖ يُوَفِّيهِمُ ٱللَّهُ دِينَهُمُ ٱلۡحَقَّ وَ يَعۡلَمُونَ أَنَّ ٱللَّهَ هُوَ ٱلۡحَقُّ ٱلۡمُبِينُ ٢٥ ( النور : 23 – 25 )
” جو لوگ پاک دامن بے خبر مومن عورتوں پر تہمت لگاتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں لعنت کی گئی اور ان کے لیے بڑا عذاب ہے وہ اس دن کو بھول نہ جائیں جبکہ ان کی اپنی زبانیں اور ان کے اپنے ہاتھ پاؤں ان کے کرتوتوں کی گواہی دیں گے۔ اس دن اللہ وہ بدلہ انہیں بھر پور دے گا جس کے وہ مستحق ہیں۔ اور انہیں معلوم ہو جائے گا کہ اللہ ہی حق ہے سچ کو سچ کر دکھانے والا۔”
اسی طرح عمداً قتل کرنے کی بھی دو سزائیں ہیں۔ ایک قصاص دنیا میں اور آخرت میں ابدی عذاب جہنم ۔ ارشادباری تعالیٰ ہے :
يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ كُتِبَ عَلَيۡكُمُ ٱلۡقِصَاصُ فِي ٱلۡقَتۡلَىۖ ( البقرۃ : 178 )
” اے لوگو ! جو ایمان لائے ہو تمہارے لیے قتل کے مقدموں میں قصاص کا حکم لکھ دیا گیا ہے۔”
اور دوسری جگہ فرمایا گیا :
وَ مَن يَقۡتُلۡ مُؤۡمِنٗا مُّتَعَمِّدٗا فَجَزَآؤُهُۥ جَهَنَّمُ خَٰلِدٗا فِيهَا ( النساء : 93 )
” وہ شخص جو کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کی جزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا۔”
اسی طرح دوسرے احکام شرعیہ کا حال ہے ہم کو ان کی کوئی ایک حکم بھی ایسا نہیں ملتا جس پر دنیوی سزا کے ساتھ ساتھ اُخروی جزا کی وعید نہ ہو اور اگر قرآن مجید میں کسی جگہ حکم کے بارے میں ایسی صراحت موجود نہ ہو تو وہ اللہ تعالیٰ کے اس حکم عام کے ضمن میں آ جائے گا۔
أَفَمَن كَانَ مُؤۡمِنٗا كَمَن كَانَ فَاسِقٗاۚ لَّا يَسۡتَوُۥنَ ١٨ أَمَّا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ وَ عَمِلُواْ ٱلصَّٰلِحَٰتِ فَلَهُمۡ جَنَّٰتُ ٱلۡمَأۡوَىٰ نُزُلَۢا بِمَا كَانُواْ يَعۡمَلُونَ ١٩ وَ أَمَّا ٱلَّذِينَ فَسَقُواْ فَمَأۡوَىٰهُمُ ٱلنَّارُۖ كُلَّمَآ أَرَادُوٓاْ أَن يَخۡرُجُواْ مِنۡهَآ أُعِيدُواْ فِيهَا وَ قِيلَ لَهُمۡ ذُوقُواْ عَذَابَ ٱلنَّارِ ٱلَّذِي كُنتُم بِهِۦ تُكَذِّبُونَ ٢٠( السجدہ : 18 – 20 )
” بھلا کہیں یہ ہو سکتا ہے کہ جو شخص مومن ہو وہ اس شخص کی طرح ہو جائے جو فاسق ہو ؟ یہ دونوں برابر نہیں ہو سکتے جو لوگ ایمان لاتے ہیں اور جنہوں نے نیک عمل کیے ہیں ان کے لیے تو جنت کی قیام گاہیں ہیں ضیافت کے طور پر ان کے اعمال کے بدلے اور جنہوں نے فسق کیا ہے ان کا ٹھکانا دوزخ ہے جب کبھی وہ اس سے نکلنا چاہیں گے اس میں دھکیل دیے جائیں گے اور ان سے کہا جائے گا چکھو اب اسی آگ کا مزا جس کو تم جھٹلاتے تھے۔”
نیز یہ فرمان باری :
وَ مَن يُطِعِ ٱللَّهَ وَ رَسُولَهُۥ يُدۡخِلۡهُ جَنَّٰتٖ تَجۡرِي مِن تَحۡتِهَا ٱلۡأَنۡهَٰرُ خَٰلِدِينَ فِيهَاۚ وَ ذَٰلِكَ ٱلۡفَوۡزُ ٱلۡعَظِيمُ ١٣ وَ مَن يَعۡصِ ٱللَّهَ وَ رَسُولَهُۥ وَ يَتَعَدَّ حُدُودَهُۥ يُدۡخِلۡهُ نَارًا خَٰلِدٗا فِيهَا وَ لَهُۥ عَذَابٞ مُّهِينٞ ١٤ ( النساء : 13 – 14 )
” جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا اسے اللہ ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور ان باغوں میں وہ ہمیشہ رہے گا اور یہی بڑی کامیابی ہے۔ اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نا فرمانی کرے گا اور اس کی مقرر کی ہوئی حدوں سے تجاوز کر جائے گا اسے اللہ آگ میں ڈالے گا جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس کے لیے رسوا کن سزا ہے ۔”
دنیا اور آخرت دونوں کے لیے شریعت اسلامیہ کے احکام بے مقصد نہیں بلکہ یہ خود شریعت کی منطق کا تقاضا ہے۔ اسلام کا بنیادی عقیدہ یہ ہے کہ دنیا دار الامتحان ہے۔ یہاں آزمائشوں کا سامنا ہے یہاں کی ہر چیز مٹنے والی ہے اور عقبیٰ یعنی دار الاخرة ابدی زندگی کا نام ہے جس میں دنیا کے تمام اچھے یا برے کاموں کی جزا یا سزا ملے گی۔ انسان اپنے اعمال و افعال کے لیے دنیا میں بھی جواب دہ ہے اور آخرت میں بھی ان کی جزا یا سزا مقرر ہے گویا انسان اگر کوئی نیک کام کرتا ہے تو وہ اپنے فائدے کے لیے کرتا ہے اور اس سے کوئی برائی سر زد ہوتی ہے تو اس کا وبال یا نتیجہ بھی خود اسی کو بھگتنا ہو گا۔ اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی طے شدہ ہے کہ اگر کسی برے کام کی سزا دنیا میں مل بھی جائے تو اس کی اُخروی سزا ختم نہیں ہوگی جب تک کہ مجرم توبہ کر کے آئندہ کے لیے جرم کرنے سے باز نہ آ جائے ۔
شریعت اسلامیہ انسان کے خود ساختہ قوانین سے اس لحاظ سے ممتاز و مختلف ہے کہ اس میں دین اور دنیا جدا جدا نہیں اور اس نے دین و دنیا دونوں کے لیے بیک وقت قانون سازی کی ہے۔ اسی وجہ سے ایک مسلمان تنہائی میں بھی اور دوسروں کے سامنے بھی خوش حالی میں اورتکلیف کی حالت میں ہر صورت میں احکام الٰہی ماننے اور ان پر عمل کرنے پر آمادہ رہتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ مسلمان اسلامی تعلیمات کے مطابق اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ ہر حکم کی بجا آوری خود ایک عبادت اور قرب الٰہی کا ذریعہ ہے جس پر عمل کرنے والے کو ثواب ملتا ہے۔ نیز یہ بھی مسلمان کا ایمان ہے کہ اگر کوئی شخص یہاں جرم کر کے قانون کی گرفت سے بچ بھی جائے تو وہ آخرت کی سزا سے اور اللہ تعالیٰ کے غضب سے نہیں بچ سکتا اور اسی ڈر کی وجہ سے وہ ارتکاب جرم سے باز رہے گا۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ ایسے معاشرے میں جرائم کم ہو جائیں گے اور امن کو تحفظ حاصل ہوگا اور اجتماعی نظم و نسق کی حالت بہتر ہو جائے گی۔ اس کے برعکس انسانوں کے خود ساختہ قوانین میں ایسا کوئی محرک موجود نہیں ہے جو افراد کو رضاکارانہ حکم ماننے پر آمادہ کر سکے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیاوی قوانین کے زیر سایہ زندگی گزارنے والے لوگ قانون کو اسی حد تک مانتے اور اس پر عمل کرتے ہیں۔ جتنا ان کو قانونی گرفت میں آ جانے کا ڈر ہوتا ہے اور اگر کوئی شخص قانون کی زد سے محفوظ رہ کر کوئی جرم کر سکتا ہے تو پھر کوئی اخلاقی یا دینی محرک یا داعی ایسا موجود نہیں ہے جو اس کو ارتکابِ جرم سے روک سکے۔ یہی وجہ ہے کہ جن ممالک میں قانون پر زور دیا جاتا ہے اور اخلاقی تعلیمات کو نظر انداز کر دیا گیا ہے وہاں علی العموم جرائم میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے خصوصاً روشن خیال طبقات میں جرائم کی کثرت اس لیے بھی ہے کہ اس طبقے میں اخلاقی بگاڑ دوسرے طبقوں کی نسبت زیادہ ہے نیز اس طبقے کے لوگ قانون کی گرفت سے محفوظ رہنے کی زیادہ قدرت و صلاحیت رکھتے ہیں۔
اسلامی احکام ایک اکائی ہیں۔ ان کی کاٹ چھانٹ نا ممکن ہے اسلامی شریعت کے احکام و قوانین کو ایک دوسرے سے علیحدہ نہیں کیا جا سکتا۔ ہم پہلے بتا آئے ہیں کہ اسلامی تعلیمات اور احکام کو ایک دوسرے سے جدا کرنا خود شریعت کی غرض و غایت کے خلاف ہے کہ خود شریعت میں بھی ایسے احکام موجود ہیں جن کے مطابق بعض احکام پر عمل کرنے اور بعض کو چھوڑ دینے سے اسی طرح منع کیا گیا ہے جس طرح بعض پر ایمان لانے اور بعض سے انکار کرنے کو غلط قرار دیا گیا ہے ۔
اسلام تمام احکام پر عمل کرنے اور بیک وقت پوری طرح ان پر ایمان لانے کو یکساں ضروری قرار دیتا ہے۔ اگر ایک شخص ایک حکم کو مانتا ہے اور اس پر عمل کرتا ہے اور دوسرے کو نہیں مانتا یا اس پر عمل نہیں تو قرآن مجید کی یہ آیت اس پر صادق آتی ہے :
أَفَتُؤۡمِنُونَ بِبَعۡضِ ٱلۡكِتَٰبِ وَ تَكۡفُرُونَ بِبَعۡضٖۚ فَمَا جَزَآءُ مَن يَفۡعَلُ ذَٰلِكَ مِنكُمۡ إِلَّا خِزۡيٞ فِي ٱلۡحَيَوٰةِ ٱلدُّنۡيَاۖ وَ يَوۡمَ ٱلۡقِيَٰمَةِ يُرَدُّونَ إِلَىٰٓ أَشَدِّ ٱلۡعَذَابِۗ ( البقرۃ : 85 )
” تو کیا تم کتاب کے ایک حصے پر ایمان لاتے ہو اور دوسرے حصے کے ساتھ کفر کرتے ہو پھر تم میں سے جو لوگ ایسا کریں ان کی سزا اس کے سوا اور کیا ہے کہ دنیا کی زندگی میں ذلیل و خوار ہو کر رہیں اور آخرت میں شدید ترین عذاب کی طرف پھیر دیے جائیں۔”
شریعت کے ایک حصے پر عمل کرنے اور دوسرے حصے کو ترک کر دینے کی حرمت و ممانعت قرآن مجید کی بہت سی آیات میں بیان کی گئی ہے ۔ مثلاً
إِنَّ ٱلَّذِينَ يَكۡتُمُونَ مَآ أَنزَلۡنَا مِنَ ٱلۡبَيِّنَٰتِ وَ ٱلۡهُدَىٰ مِنۢ بَعۡدِ مَا بَيَّنَّٰهُ لِلنَّاسِ فِي ٱلۡكِتَٰبِ أُوْلَٰٓئِكَ يَلۡعَنُهُمُ ٱللَّهُ وَ يَلۡعَنُهُمُ ٱللَّٰعِنُونَ ١٥٩ إِلَّا ٱلَّذِينَ تَابُواْ وَ أَصۡلَحُواْ وَبَيَّنُواْ فَأُوْلَٰٓئِكَ أَتُوبُ عَلَيۡهِمۡ وَ أَنَا ٱلتَّوَّابُ ٱلرَّحِيمُ ١٦٠ ( البقرۃ : 159 – 160 )
” جو لوگ ہماری نازل کی ہوئی روشن تعلیمات کو چھپاتے ہیں دراں حالیکہ ہم انہیں سب انسانوں کی راہنمائی کے لیے اپنی کتاب میں بیان کر چکے ہیں۔ یقین جانو کہ اللہ بھی ان پر لعنت کرتا ہے اور تمام لعنت کرنے والے بھی ان پر لعنت بھیجتے ہیں۔ البتہ جو اس روش سے باز آ جائیں اور اپنے طرز عمل کی اصلاح کرلیں اور جو کچھ چھپاتے تھے اسے بیان کرنے لگیں۔ ان کو میں معاف کر دوں گا اور میں بڑا درگزر کرنے والا اور رحم کرنے والا ہوں۔”
اس آیہ مبارکہ میں لفظ ” کتمان ” استعمال ہوا ہے اس کے معنیٰ ہی دراصل بعض احکام پر عمل کرنا اور بعض پر نہ کرنا یا کچھ کا ماننا اور کچھ سے انکار کرنا ہیں ۔
اسی طرح فرمانِ باری تعالیٰ ہے کہ
إِنَّ ٱلَّذِينَ يَكۡتُمُونَ مَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ مِنَ ٱلۡكِتَٰبِ وَ يَشۡتَرُونَ بِهِۦ ثَمَنٗا قَلِيلًا أُوْلَٰٓئِكَ مَا يَأۡكُلُونَ فِي بُطُونِهِمۡ إِلَّا ٱلنَّارَ وَ لَا يُكَلِّمُهُمُ ٱللَّهُ يَوۡمَ ٱلۡقِيَٰمَةِ وَ لَا يُزَكِّيهِمۡ وَ لَهُمۡ عَذَابٌ أَلِيمٌ ١٧٤ أُوْلَٰٓئِكَ ٱلَّذِينَ ٱشۡتَرَوُاْ ٱلضَّلَٰلَةَ بِٱلۡهُدَىٰ وَ ٱلۡعَذَابَ بِٱلۡمَغۡفِرَةِۚ فَمَآ أَصۡبَرَهُمۡ عَلَى ٱلنَّارِ ١٧٥ ( البقرۃ : 174 – 175 )
” حق یہ ہے کہ جو لوگ ان احکام کو چھپاتے ہیں جو اللہ نے اپنی کتاب میں نازل کیے ہیں اور تھوڑے سے دنیوی فائدوں پر انہیں بھینٹ چڑھاتے ہیں ، وہ دراصل اپنے پیٹ آگ سے بھر رہے ہیں قیامت کے روز اللہ ہرگز ان سے بات نہ کرے گا اور نہ انہیں پاکیزہ ٹھہرائے گا اور ان کے لیے درد ناک سزا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلے ضلالت خریدی اور مغفرت کے بدلے عذاب مول لے لیا۔ کیسا عجیب ہے ان کا حوصلہ کہ جہنم کا عذاب برداشت کرنے کے لیے تیار ہیں ۔”
نیز یہ فرمانِ الٰہی :
فَلَا تَخۡشَوُاْ ٱلنَّاسَ وَ ٱخۡشَوۡنِ وَ لَا تَشۡتَرُواْ بَِٔايَٰتِي ثَمَنٗا قَلِيلٗاۚ وَ مَن لَّمۡ يَحۡكُم بِمَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ فَأُوْلَٰٓئِكَ هُمُ ٱلۡكَٰفِرُونَ ٤٤ ( المائدہ : 44 )
” پس تم لوگوں سے نہ ڈرو مجھ سے ڈرو اور میری آیات کو ذرا ذرا سے معاوضے لے کر بیچنا چھوڑ دو۔ جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں ، وہی کافر ہیں۔”
نیز آیہ کریمہ :
إِنَّ ٱلَّذِينَ يَكۡفُرُونَ بِٱللَّهِ وَ رُسُلِهِۦ وَ يُرِيدُونَ أَن يُفَرِّقُواْ بَيۡنَ ٱللَّهِ وَ رُسُلِهِۦ وَ يَقُولُونَ نُؤۡمِنُ بِبَعۡضٖ وَ نَكۡفُرُ بِبَعۡضٖ وَ يُرِيدُونَ أَن يَتَّخِذُواْ بَيۡنَ ذَٰلِكَ سَبِيلًا ١٥٠ أُوْلَٰٓئِكَ هُمُ ٱلۡكَٰفِرُونَ حَقّٗاۚ ( النساء : 150 – 151 )
” جو لوگ اللہ اور اس کے رسول سے کفر کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسولوں کے درمیان تفریق کریں اور کہتے ہیں کہ ہم کسی کو مانیں گے اور کسی کو نہیں مانیں گے اور کفر اور ایمان کے درمیان میں ایک راہ نکالنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ وہ سب پکے کافر ہیں۔”
نیز یہ ارشاد باری تعالیٰ :
وَ أَنزَلۡنَآ إِلَيۡكَ ٱلۡكِتَٰبَ بِٱلۡحَقِّ مُصَدِّقٗا لِّمَا بَيۡنَ يَدَيۡهِ مِنَ ٱلۡكِتَٰبِ وَ مُهَيۡمِنًا عَلَيۡهِۖ فَٱحۡكُم بَيۡنَهُم بِمَآ أَنزَلَ ٱللَّهُۖ وَ لَا تَتَّبِعۡ أَهۡوَآءَهُمۡ عَمَّا جَآءَكَ مِنَ ٱلۡحَقِّۚ لِكُلّٖ جَعَلۡنَا مِنكُمۡ شِرۡعَةٗ وَ مِنۡهَاجٗاۚ ………. وَ أَنِ ٱحۡكُم بَيۡنَهُم بِمَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ وَ لَا تَتَّبِعۡ أَهۡوَآءَهُمۡ وَ ٱحۡذَرۡهُمۡ أَن يَفۡتِنُوكَ عَنۢ بَعۡضِ مَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ إِلَيۡكَۖ فَإِن تَوَلَّوۡاْ فَٱعۡلَمۡ أَنَّمَا يُرِيدُ ٱللَّهُ أَن يُصِيبَهُم بِبَعۡضِ ذُنُوبِهِمۡۗ وَ إِنَّ كَثِيرٗا مِّنَ ٱلنَّاسِ لَفَٰسِقُونَ ٤٩ أَفَحُكۡمَ ٱلۡجَٰهِلِيَّةِ يَبۡغُونَۚ وَ مَنۡ أَحۡسَنُ مِنَ ٱللَّهِ حُكۡمٗا لِّقَوۡمٖ يُوقِنُونَ ٥٠ ( المائدہ : 48 – 50 )
” پھر اے نبی ہم نے تمہاری طرف یہ کتاب بھیجی جو حق لے کر آئی ہے اور ” الکتاب ” میں سے جو کچھ اس کے آگے موجود ہے اس کی تصدیق کرنے والی اور اس کی محافظ و نگہبان ہے لہذا تم خدا کے نازل کردہ قانون کے مطابق لوگوں کے معاملات کا فیصلہ کرو اور جو حق تمہارے پاس آیا ہے اس سے منہ موڑ کر ان کی خواہشات کی پیروی نہ کرو۔ ہم نے تم ( انسانوں ) میں سے ہر ایک کے لیے ایک شریعت اور ایک راہ عمل مقرر کی …… پس اے نبی تم اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق ان لوگوں کے معاملات کا فیصلہ کرو اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کرو ہوشیار رہو کہ یہ لوگ تم کو فتنہ میں ڈال کر اس ہدایت سے ذرہ برابر منحرف نہ کرنے پائیں جو خدا نے تمہاری طرف نازل کی ہے۔ پھر اگر یہ اس سے منہ موڑیں تو جان لو کہ اللہ نے ان کے بعض گناہوں کی پاداش میں ان کو مبتلائے مصیبت کرنے کا ارادہ کر ہی لیا ہے۔ اور حقیقت ہے کہ ان لوگوں میں سے اکثر فاسق ہیں ( اگر یہ خدا کے قانون سے منہ موڑتے ہیں ) تو کیا پھر جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں۔ حالانکہ جو لوگ اللہ پر یقین رکھتے ہیں ان کے نزدیک اللہ سے بہتر فیصلہ کرنے والا اور کون سکتا ہے۔”
شریعت اسلامی الٰہی اور عالمی قانون ہے
اسلامی شریعت اس لحاظ سے منفرد اور ممتاز ہے کہ یہ پوری دنیا کے لیے ہے اور اس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول جناب محمد صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم پر اس لیے نازل فرمایا کہ اس کو عرب و عجم اور مشرق و مغرب کے تمام انسانوں تک پہنچا دیں۔ قطع نظر اس سے کہ ان کے عادات و اطوار ، ان کی بود و باش اور ان کے مذہب و تاریخ ایک دوسرے سے مختلف بلکہ متضاد و متبائن ہی کیوں نہ ہوں گویا اس لحاظ سے یہ ہر خاندان ، ہر قبیلہ ، ہر جماعت اور ہر حکومت کے لیے وہ عالمی قانون ہے جس کے بارے میں بڑے بڑے علماء قانون نے سوچا اور یہ خواہش کی کہ وہ ایسا کوئی قانون بنا سکیں جو پوری دنیا کے لیے کار آمد ہو لیکن وہ ایسا قانون ایجاد کرنے پر قادر نہ ہو سکے ۔
اللہ تعالیٰ کا ارشادگرامی ہے :
قُلۡ يَٰٓأَيُّهَا ٱلنَّاسُ إِنِّي رَسُولُ ٱللَّهِ إِلَيۡكُمۡ جَمِيعًا ٱلَّذِي ( الاعراف : 185 )
” اے محمد ( صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم ) کہو کہ اے انسانوں میں تم سب کی طرف خدا کا پیغام بر ہوں۔”
نیز یہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے :
هُوَ ٱلَّذِيٓ أَرۡسَلَ رَسُولَهُۥ بِٱلۡهُدَىٰ وَدِينِ ٱلۡحَقِّ لِيُظۡهِرَهُۥ عَلَى ٱلدِّينِ كُلِّهِۦ ( التوبہ : 33 )
” وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے پوری جنس دین پر غالب کر دے ۔”
شریعت اسلامیہ ایک ابدی اور مکمل ضابطہ قانون ہے
اسلامی شریعت اللہ تعالیٰ کی جانب سے مکمل اور ہمہ گیر تفصیلات کے ساتھ نازل کی گئی ہے اور اس کا نزول ایک مختصر مدت میں مکمل ہو گیا تھا جس کی ابتداء نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم کی بعثت سے ہوئی اور آپ کی وفات کے ساتھ ختم ہو گئی۔ یا اس دن پوری ہو گئی جس دن یہ آیہ کریمہ نازل ہوئی ۔
ٱلۡيَوۡمَ أَكۡمَلۡتُ لَكُمۡ دِينَكُمۡ وَ أَتۡمَمۡتُ عَلَيۡكُمۡ نِعۡمَتِي وَ رَضِيتُ لَكُمُ ٱلۡإِسۡلَٰمَ دِينٗاۚ ( المائدہ : 3 )
” آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے ۔”
نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم کے خاتم الانبیاء ہونے کے بارے میں دوسری آیات کریمہ کے علاوہ قرآن مجید کی یہ آیت :
مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَآ أَحَدٖ مِّن رِّجَالِكُمۡ وَ لَٰكِن رَّسُولَ ٱللَّهِ وَ خَاتَمَ ٱلنَّبِيِّۧنَۗ وَ كَانَ ٱللَّهُ بِكُلِّ شَيۡءٍ عَلِيمٗا ٤٠ ( الاحزاب : 40 )
” ( لوگو ) محمد تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں مگر وہ اللہ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں ۔”
اس بات کے ثبوت کی قطعی اور اُخری دلیل ہے کہ شریعت اسلامیہ ایک مکمل اور ابدی ضابطہ قانون ہے جس میں تغیر و تبدل اور ترمیم کی گنجائش نہیں۔ جو شخص احکام شرعیہ کا مطالعہ کرے گا ا س کی سمجھ میں یہ بات بخوبی آ جائے گی کہ اس میں کسی نقص یا خامی کا شائبہ بھی نہیں ہو سکتا۔ یہ فرد ، جماعت اور حکومت سب کے احوال و معاملات کے لیے کافی و دافی ہے۔ شریعت اسلامیہ افراد کے ذاتی مسائل کے علاوہ ان کی تمام معاملات کی تنظیم و ترتیب بھی کرتی ہے جن کا تعلق عدلیہ انتظامیہ اور مملکت کے دیگر محکمہ جات سے ہے اس کے علاوہ انسانوں کے بین الاقوامی مسائل و معاملات کا تعلق صلح و جنگ سے ہے ان میں بھی رہنمائی کرتی ہے ۔
پھر ایک خصوصیت اسلامی شریعت کی یہ بھی ہے کہ یہ کسی ایک خاص وقت یا زمانے کے لیے یا ایک عصر یا دور کے لیے نہیں اتاری گئی بلکہ رہتی دنیا تک ہر دور اور ہر زمانے کے لیے ایک مکمل قانون ہے تآنکہ اللہ تعالیٰ اس زمین کو واپس لے لے اوریہاں کے رہنے والوں کو اپنے پاس بلا لے۔ اس کے علاوہ شرعی احکام اس انداز سے ڈھالے گئے ہیں کہ ان پر وقت کے گزرنے کا کوئی اثر نہیں پڑتا اور تازگی و توانائی میں کوئی فرق نہیں آتا۔ اس کے عام اور بنیادی اصولوں میں کسی تغیر و تبدل کی ضرورت نہیں محسوس ہوتی۔ اس کے بنیادی اصول اتنے لچکدار اور وسیع ہیں کہ وہ اپنے اندر ہر قسم کے نئے حالات کو سمو لیتے ہیں خواہ واقعات و حالات کتنے ہی بعید از قیاس اور خارج از امکان کیوں نہ ہوں۔ اسلامی احکام میں کسی رد و بدل اور کسی تغیر و تنسیخ کی ضرورت پیش نہیں آتی اس کے مقابلہ میں انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین آئے دن ترمیم و تنسیخ کا تختہ مشق بنے رہتے ہیں ۔
احکام شرعیہ اورانسانی قوانین
گزشتہ صفحات میں شریعت اسلامیہ کی ترتیب نزول اورتکمیل کے بارے میں بتایا جا چکا ہے۔ اس کے مقابلے میں انسانوں کے بنائے قوانین کی اجتماعی زندگی کی تنظیم کے ساتھ ساتھ چند محدود اور غیر اہم قوائد و ضوابط سے ہوتی ہے پھر اجتماعی زندگی کی ترقی کے ساتھ ساتھ مختلف مرحلے طے کرتے ہوئے وہ اپنے حجم میں اضافے کرتے جاتے ہیں۔ پھر جیسے جیسے جماعتوں کی ضرورت کی تعداد و اقسام میں اضافہ ہوتا جاتا ہے ، اس کے ساتھ ساتھ قانون کے بنیادی نظریات میں بھی ارتقاء کا عمل ہوتا رہتا ہے اور جب کوئی ترقی پذیر معاشرہ اپنے قوانین میں غور و فکر شروع کر کے اس کو علمی اندازمیں مرتب کرنا چاہتا ہے تو اس کے بنیادی اصولوں کی تدوین ان لوگوں کے ہاتھوں ہوتی ہے جو معاشرہ پر تسلط رکھتے ہیں اور وہی قوانین کو اپنی مرضی سے بناتے اور بدلتے رہتے ہیں گویا خود معاشرہ ہی اپنے لیے قانون بناتا ہے اور اس کو ایسی سورت میں مرتب کرتا ہے جس سے اس کی ضرورتیں پوری ہوسکیں اس صورت میں قانون جماعت کی مرضی اور خواہش کے تابع ہو کر رہ جاتا ہے اور قانون میں ارتقاء کا عمل معاشرہ کی ترقی کی رفتار کے ساتھ وابستہ رہتا ہے ۔
ماہرین قانون کے بیان کے مطابق قانون کی ابتداء ہزار سال پہلے خاندان کے وجود میں آنے کے ساتھ ہوئی ہے پھر جب خاندان نے قبائلی شکل اختیار کرلی تو قانون نے بھی نئی شکل و صورت اختیار کی۔ اس کے بعد اٹھارویں صدی کے آخری ایام میں قانون کے ارتقاء کا آخری مرحلہ آیا جب فلسفہ ، نفسیات اور اجتماعی علوم کی بنیادوں پر اس کی تدوین شروع ہوئی۔ گویا انسانی قانون نے اپنے آغاز سے موجودہ شکل و صورت تک پہنچنے میں ارتقاء کے بہت سے مرحلے طے کیے ہیں تب کہیں جا کر وہ موجودہ بنیادوں پر قائم ہوا ہے جن کا قدیم الایام میں کوئی وجود نہ تھا ۔
شریعت کا مزاج قانون کے مزاج سے مختلف ہے
شریعت کے وجود میں آنے اور قانون کے نشو و نما پانے کی جو تفصیل بیان کی گئی ہے اس کی بنیاد کہنا حقیقت پر مبنی ہوگا کہ شریعت اور انسان کے خود ساختہ قانون میں مطلق مشابہت نہیں ہے ۔ شریعت کا مزاج انسان کے بنائے ہوئے قانون کے مزاج سے یکسر مختلف ہے۔ اس لیے اگر شریعت بھی قانون کی مانند ہوتی تو وہ ہرگز اس اندازسے نہ آتی جس طرح ہم پہلے بیان کر چکے ہیں ضروری ہے کہ شریعت بھی قانون کی طرح اولاً ابتدائی شکل میں آتی پھر قانون کی مانند جماعت کے نشو و ارتقاء کے ساتھ اپنی تکمیل کے مراحل طے کرتی۔ اور اس کے لیے وہ جدید نظریات جنہیں ماہر ین قانون اب بالکل آخری دور میں کہیں جا کر دریافت کر سکے۔ بالکل شروع میں پیش کر دینا ممکن نہ ہوتا بلکہ قانون سازوں کی دریافت کے بعد اور ہزارہا سال کے ارتقائی عمل کے بعد ہی ممکن ہوتا ۔
قانون اور شریعت میں بنیادی فرق
اسلامی شریعت اور انسانی قوانین میں بنیادی اختلاف ہے اور اس کے تین اسباب ہیں :
- شریعت اللہ کی طرف سے آئی ہے اور مغربی قوانین انسانوں کے بنائے ہوئے ہیں اور اسی وجہ سے دونوں میں اپنے اپنے بنانے والوں کے اوصاف و خصائص واضح طور پر نمایاں ہیں۔ مغربی قانون چونکہ انسان کا بنایا ہوا ہے اس لیے اس میں انسانی نقائص ، عجز ، کمزوری اور نارسائی کی پوری جھلک موجود ہے اسی لیے قانون ترمیم و تنسیخ کا تختہ مشق بنا رہتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں آپ اس کو قالب بدلنا یا ترقی کرنا کہہ لیجئے۔ جب بھی انسانی معاشرہ ترقی کرکے ایسے درجے پر پہنچتا ہے جو توقع کے خلاف ہو تو قانون کو بھی ایسے مسائل اور حالات سے سابقہ پڑتا ہے جن کا اس سے پہلے سے کوئی اندازہ نہیں ہوتا اسی وجہ سے قانون ہمیشہ ناقص رہتا ہے اور رہے گا ، اور کبھی حدِ کمال کو نہ پہنچ سکے گا۔ جب تک اس کے بنانے والے خود وصفِ کمال سے متصف نہ ہو جائیں۔ انسانی کمال کی زیادہ سے زیادہ حد یہ ہے کہ ماضی کے حالات و کوائف کا کچھ اندازہ ہو جاتا ہے۔ رہا مستقبل کے حالات کا احاطہ کرنا وہ اس حدودِ ممکنات سے باہر ہے۔ اس کے بر عکس شریعت اسلامیہ جس کا عطا کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے۔ اپنے صانع کے کمال و عظمت کی آئینہ دار اور ماضی ، حال اور مستقبل پر محیط ہے۔ اس میں اللہ رب العزت کی قدرت اور تمام اوصاف نمایاں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شریعت کو اس علیم و خبیر نے اس طرح ڈھالا ہے کہ حال اور مستقبل کے تمام جزئیات و اتفاقات کا احاطہ کر سکے ۔
- قانون عبارت ہے ان وقتی قواعد و ضوابط سے جنہیں جماعت یا معاشرہ اپنے معاملات کی ترتیب و تنظیم اور اپنے مسائل حل کرنے کے لیے بناتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ قواعد و قوانین جماعت کے پیچھے پیچھے چلتے ہیں یا زیادہ سے زیادہ یہ ہو سکتا ہے کہ آج یعنی جس وقت قانون و ضع کیا جا رہا ہے۔ اس کا معیار جماعت کے معیار کے برابر ہو یعنی اس کی ضروریات کے لیے کافی ہو لیکن قریب میں جب معاشرہ کچھ اور آگے بڑھ جائے گا تو یہی قانون اس سے پیچھے رہ جائے گا اس لیے کہ جماعت کے حالات جس رفتار سے بدلتے رہتے ہیں قانون اس کا ساتھ نہیں دے سکتا۔ وہ ہمیشہ پیچھے رہ جاتا ہے اور پھر اس کو جماعت کی ضروریات اور حالات کے مطابق بدلنا پڑتا ہے یا ترمیم و تنسیخ کرنی پڑتی ہے ۔
اس کے برعکس شریعت اسلامیہ کے قواعد و ضوابط اللہ تعالیٰ نے انسانی معاشرہ کو ہمیشہ کے لیے درست رکھنے کی غرض سے بنائے ہیں۔ گویا شریعت اور قانون اس لحاظ سے تو ایک دوسرے سے مشابہ ہیں کہ دونوں کی غرض و غایت جماعت میں نظم و ضبط پیدا کرنا ہے لیکن شریعت اسلامیہ اس لحاظ سے مختلف اور ممتاز ہے کہ اس کے قواعد و ضوابط دائمی اور ابدی ہیں جن میں رد و بدل کی ضرورت پیش نہیں آتی ، اسلامی شریعت کے اسی امتیاز و خصوصیت کا منطقی تقاضا یہ ہے کہ اس میں مندرجہ ذیل اوصاف ہوں :
- شریعت کے قواعد و ضوابط اور بنیادی اصولوں میں اتنی لچک عمومیت اور وسعت ہو کہ زمانہ کتنا ہی آگے بڑھ جائے اور معاشرہ کے حالات و انداز کتنے ہی کیوں نہ بدل جائیں اور اس کی ضروریات میں کتنا ہی اضافہ کیوں نہ ہو جائے اور ان کی نوعیت کتنی ہی مختلف کیوں نہ ہو جائے یہ قواعد و اصول اس کا ساتھ دے سکیں ۔
- یہ کہ شریعت کے احکام و قواعد کا معیار اتنا اعلیٰ و ارفع ہو کہ ان کا کسی وقت اور کسی دور میں معاشرے کی سطح اور معیار سے کم تر یا پیچھے رہ جانے کا امکان نہ ہو۔ اور واقعہ یہ ہے کہ شریعتِ اسلامیہ میں یہ دونوں منطقی تقاضے اپنے تمام تر پہلوؤں کے ساتھ بدرجہ اتم موجود ہیں اور دراصل یہی اس کی نمایاں خوبی ہے۔ شریعت کے بنیادی اصولوں میں اتنی عمومیت اور لچک ہے کہ اس سے زیادہ کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے ساتھ ہی یہ اتنے ارفع و اعلیٰ ہیں جس کے بعد رفعت اور بلندی کا کوئی درجہ فرض نہیں کیا جا سکتا ۔
شریعت اسلامیہ پر تیرہ صدیوں سے زیادہ مدت گزر چکی ہے اس طویل عرصے میں انسانی اوضاع و اطوار میں کئی بار انقلاب آئے اور افکار و علوم نے بے انتہا ترقی کی۔ نئی نئی ایجادیں ہوئیں۔ صنعت و فن نے ارتقاء کی منزلیں طے کیں جو انسان کے وہم و گمان میں نہ آ سکتی تھیں۔ اسی اثناء میں مغربی قانون کے قواعد اور بنیادی اصولوں میں کئی طرح کی تبدیلیاں کی گئیں تاکہ وہ نئے حالات کا ساتھ دے سکے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مغربی قانون شریعت اسلامیہ کے نزول کے وقت جس شکل و صورت میں تھا اور اس وقت جو اس کی بنیادیں تھیں ان میں اور موجودہ دور کی شکل و صورت اور مبادیات و اصول میں اتنا فرق آ چکا ہے کہ ان دونوں کا ایک دوسرے سے کوئی واسطہ اور تعلق معلوم نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس کہ شریعتِ اسلامیہ تغیر و تبدل قبول نہیں کرتی اس کے مبادیات و اصول اور احکام و قوانین ہمیشہ معاشرے کے معیار اور سطح سے بلند رہے ہیں اور ہر دور میں اور ہر زمانے میں انسانوں کی ضرورتوں کی کفالت کرتے رہے ہیں اور ان کے مسائل و معاملات کی ترتیب و تنظیم کرتے رہے ہیں۔ پھر یہ قوانین انسانی فطرت کے مطابق انسانی جمعیت کے محافظ اور ان کے سکون و اطمینان کا باعث رہے ہیں ۔
یہ تو تھی تاریخ کی عجیب و غریب شہادت جس سے اسلامی شریعت کی برتری اور عظمت ثابت ہوتی ہے اور اس سے زیادہ ارفع و اعلیٰ وہ ثبوت و استشہاد ہے جو نصوص شرعیہ اور ان میں پوشیدہ حکمت و منطق کے مطالعے اور مشاہدے سے سمجھ میں آ سکتا ہے مثلاً یہ ارشادات باری تعالیٰ :
وَ شَاوِرۡهُمۡ فِي ٱلۡأَمۡرِۖ ( آل عمران : 159 )
” اور دین کے کاموں میں ان کو بھی شریکِ مشورہ رکھو ۔”
وَ أَمۡرُهُمۡ شُورَىٰ بَيۡنَهُمۡ ( الشوریٰ : 38 )
” ( ایمان والے لوگ ) اپنے معاملات آپس کے مشورے سے چلاتے ہیں ۔”
وَ تَعَاوَنُواْ عَلَى ٱلۡبِرِّ وَ ٱلتَّقۡوَىٰۖ وَ لَا تَعَاوَنُواْ عَلَى ٱلۡإِثۡمِ وَ ٱلۡعُدۡوَٰنِۚ ( المائدہ : 2 )
” جو کام نیکی اور خدا ترسی کے ہیں ان میں سب سے تعاون کرو اور جو گناہ و زیادتی کے کام ہیں ان میں کسی سے تعاون نہ کرو ۔”
نیز نبی کریم علیہ الصلواة والسلام کا ارشاد گرامی ہے :
” لا ضرر و لا ضرار فی الاسلام ۔”
” اسلام میں کسی کو نہ نقصان پہنچانا جائز ہے اور نہ کسی سے نقصان اٹھانا ۔”
قرآن مجید اور سنت نبوی میں اسی طرح کے بنیادی اصول و احکام ہیں جن میں اتنی لچک ، وسعت اور عمومیت ہے۔جس کی انتہا نہیں۔ اب اگر ان احکام کو بنیاد بنا کر ان سے استنباط مسائل کیا جائے تو نتیجہ یہ برآمد ہوتاہے کہ ” الشوریٰ ” کے حکم پر اس طرح عمل ہونا چاہیے کہ نہ کسی کو نقصان پہنچے اور نہ گناہ اور برائی کا امکان باقی رہے۔ اور نیکی اور خدا ترسی کے کاموں میں تعاون پیدا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ قانون سازی شریعت کا مقام اتنا بلند ہو گیا ہے کہ انسان کا اس معیار تک پہنچنا ممکن نہیں ۔
3 شریعت کی غرض و غایت معاشرے کو منظم کرنا اور ایک خاص سمت میں چلا کر نیک اور برتر افراد پیدا کرنا ہے تاکہ ایک مثالی حکومت قائم ہو سکے اور ایک مثالی دنیا وجود میں آئے۔ اسی لیے شریعت کے احکام اس کے نزول کے وقت ہی پوری دنیا کے آخری معیار سے بھی بلند رکھے گئے ہیں اور آج بھی اتنے ہی ارفع و اعلیٰ ہیں بلکہ ہمیشہ رہیں گے شریعت اسلامیہ نے ایسے ایسے نظریات اور بنیادی اصول پیش کیے ہیں کہ غیر اسلامی دنیا ان میں سے صرف چند اصولی قواعد کو صدہا سال کے بعد دریافت کر سکی ہے اور بہت سے ابھی ان کی رسائی سے باہر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شریعت کے قوانین بنانے کا اہتمام اللہ تعالیٰ نے خود کیا اور اس کو کمال کا مثالی نمونہ بنا کر نازل فرمایا تاکہ انسان اطاعت احکام اور تہذیب اخلاق کے ذریعے علو و کمال کے اس درجے تک پہنچ جائے کہ اس کا مقام و معیار بھی شریعتِ کاملہ کے مقام و معیار کے برابر یا قریب پہنچ جائے ۔
اس کے مقابلے میں مغربی قانون کی بنیادصرف یہ ہے کہ اجتماعی مسائل و معاملات حل کیے جا سکیں۔ اس کی تیاری میں اس بات کو ملحوظ نہیں رکھا جاتا کہ انسان اخلاقی یا ذہنی اعتبار سے بھی آگے بڑھے اور ترقی کرے۔ اسی لیے قانون ہمیشہ معاشرے سے پیچھے رہ جاتا ہے ، اور اس کے حالات و کیفیات کے تغیر و تبدل کے تابع رہتا ہے۔ البتہ موجودہ صدی میں اس کے بنیادی نظریات سے کچھ انحراف کیا گیا ہے اور بعض ممالک مثلاً روس ، ترکی ، جرمنی اور اٹلی وغیرہ میں وہاں کی حکومتیں جو جدید افکار و نظریات کی مبلغ ہیں قانون کے ذریعے انسانی گروہوں کو مخصوص اور متعین سمتوں کی طرف چلانے کے لیے اور اس کو اپنے مخصوص مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کر رہی ہیں اور اس طرح اب جا کر کہیں انسانی قانون اس انداز کو اپنا سکا ہے جس سے شریعت اسلامیہ نے ابتداء کی تھی گویا قانون کو اس مقام تک پہنچنے میں تیرہ سو سال لگے ۔
شریعت اور انسانی قوانین میں بنیادی فرق
جو کچھ اب تک بیان ہوا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اسلامی شریعت انسانی قوانین سے تین بنیادی امتیازات کی بناء پر برتر و اعلیٰ ہے :
- کمال : شریعت اسلامیہ مغربی قوانین سے اس اعتبار سے ممتاز و برتر ہے کہ اس نے ان تمام نظریات اور بنیادی اصولوں کو جن کی ایک کامل شریعت کو ضرورت ہو سکتی ہے بالکل ابتداء ہی میں مکمل اور جامع صورت میں پیش کر دیا اور اس کے پاس زمانہ حاضر اور مستقبل بعید دونوں کے لیے انسانی جماعتوں کی ہر قسم کی ضرورتیں پوری کر نے کا سامان موجودہے ۔
- معیار کی بلندی : شریعت اس لحاظ سے بھی ممتاز و منفرد ہے کہ اس کے اصول و قواعد ہمیشہ انسانی جماعتوں کے معیار سے بلند و ارفع رہیں گے۔ شریعت میں وہ ضابطے موجود ہیں جو انسانی معاشرے کی ترقی اور ارتقاء کا ساتھ دے سکتے ہیں۔ ان ضوابط کے ذریعہ انسانی معاشرہ اپنے معیار اور اس کی بلندی کی حفاظت کر سکتا ہے ۔
- دوام : تیسری خصوصیت جس کی وجہ سے شریعت اسلامیہ مغربی قانون سے ممتاز ہے۔ وہ اس کی دائمی حیثیت ہے شریعت کے بنیادی اصول و ضوابط میں رد و بدل اور ترمیم تنسیخ کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ زمانہ کتنی ہی کروٹیں بدلے اور وقت کتنا ہی آگے چلا جائے۔ شریعت ہر دور اور ہر زمانے میں اپنے بنیادی آئین و قوانین کی حفاظت کی صلاحیت رکھتی ہے ۔
قانون سازی میں شریعت اسلامیہ کا طریق کار
اسلامی شریعت کی بنیادی خصوصیت اس کے وہ احکام ہیں جو انسانوں کے تمام معاملات اور ہر قسم کے حالات پر محیط ہیں۔ شریعت مطالبہ کرتی ہے کہ لوگ اپنے دنیوی اور اخروی مسائل و معاملات میں اس کے احکام تسلیم کریں۔ شریعت نے اسی کے ساتھ ساتھ یہ حکیمانہ اندازبھی اختیار کیا ہے کہ اس نے ایسے تفصیلی احکام نہیں دیے جو ہر جزوی اور فرعی مسئلے سے بحث کریں جیسا کہ موجودہ زمانے کے مغربی قوانین کا حال ہے۔ شریعت نے عام طور پر ہر معاملے میں انتہائی لچکدار اور عمومیت کے حامل کلیات پیش کرنے پر اکتفاء کیا ہے اور اگر کسی موقع پر کسی فرعی مسئلے کے بارے میں کوئی فیصلہ صادر کیا گیا ہے تو اس کو مثالی جزئیہ قرار دے دیا گیا ہے تاکہ وہ ان تمام مسائل و معاملات کے لیے جو اس کے ضمن میں آسکیں ایک کلیہ کی حیثیت اختیار کر لے اور وہ احکام کلیہ جن کو شریعت نے اصلِ اصول قرار دیا ہے دراصل وہی اسلامی قانون سازی کی مضبوط بنیاد ہیں۔ شریعت نے با اختیار لوگوں کو یہ حق تفویض کر دیا کہ وہ ان قواعد و ضوابط کو سامنے رکھ کر قانون بنائیں اور اس ڈھانچے کو مکمل کریں اور وہ نکتے اور باریکیاں بتائیں اور تفصیلات طے کریں جو ان بنیادی اصول و ضوابط میں پوشیدہ ہیں۔ قانون سازی کے ضمن میں شریعت اسلامیہ نے جو طریقہ اختیار کیا ہے وہی واحد طریقہ ہے جو اس شریعت کے معیار و امتیازسے مناسبت رکھتا ہے اور اس میں کمال ، معیار کی بلندی اور دوامی ہونے کی جو خصوصیات موجود ہیں۔ اس لیے کہ معیار کی بلندی اور ہر لحاظ سے مکمل ہونے کا تقاضا یہ ہے کہ انسانیت اور اجتماعیت سے متعلق ہر بنیادی احکام و نصوص دے دیے جائیں جو لوگوں کی متوازن اور خوش خرم زندگی کی ضمانت دے سکیں اور معاشرے میں عدل و انصاف اور مساوات قائم کر سکیں تاکہ لوگ ایک دوسرے کے ساتھ مہربانی اور مروت کا سلوک کرتے ہوئے نیکی اور بھلائی کی طرف بڑھ سکیں۔ اور ہر فرد ایک برتر انسان کی حیثیت اختیار کرلے۔ احکام شرعیہ کے دوامی ہونے کا تقاضا یہ ہے کہ ان مسائل و معاملات کے بارے میں قطعی اور آخری فیصلہ نہ دیا جائے جو مرور ایام سے متاثر ہو سکتے ہیں ۔