جریدہ "الواقۃ” کراچی، شمارہ 11، ربیع الثانی 1433ھ/ فروری، مارچ 2013
از قلم: سید خالد جامعی (کراچی یونیورسٹی)
دنیا کی ٢٣ روایتی، الہامی دینی تہذیبوں میں انسان عبد تھا۔ وہ جو اس نیلی کائنات میں خدا کے آگے سر بسجود ایک ہستی تھا جو اپنی آخرت کی اصلاح کے لیے فکر مند اور مستقبل کی حقیقی زندگی کے لیے کوشاں رہتا تھا۔ لیکن اٹھارہویں صدی میں جدیدیت کی آمد کے بعد یہ عبد جو بندگی کے سانچے میں ڈھلا ہوا تھا یکایک آزاد ہوگیا (Mankind( بندے سے آزاد فرد (Human being( ہوگیا یہ اصطلاح بھی صرف اس کے حیاتیاتی وجود کی علامت تھی لہٰذا اس کے سیاسی وجود کی وضاحت کے لیے Citizen کی اصطلاح استعمال کی گئی جو خود مختار مطلق Soveriegn ہوتا ہے۔ اسی آزاد خود مختار وجود کے لیے ایک ایسی ریاست قائم کی گئی جو Re-public کہلائی۔ ایسی ریاست جہاں عوام کا حکم ارادہ عامہ (General will( کے تحت چلتا ہے۔ اس کے سوا کسی کا حکم چل نہیں سکتا۔ اگر کسی ریاست میں کسی اور کا حکم بہ ظاہر چل رہا ہے تو اس حکم کے چلنے کی اجازت بھی عوام کی اجازت سے ملی ہے اور یہ اجازت مطلق نہیں ہے حاکم حقیقی (عوام( اس اجازت کو جب چاہیں منسوخ کرسکتے ہیں مثلاً پاکستان کے دستور آئین میں اللہ کی حاکمیت کو سب سے بالاترحاکمیت کے طور پر قبول کیا گیا ہے۔
اصولاً منشور بنیادی حقوق کے تحت ایسی حاکمیت کو قبول نہیں کیا جاسکتا لیکن پاکستانی معاشرہ ابھی جدید نہیں ہوسکا ابھی روایات اور مذہب کے شکنجوں میں ہے لہٰذا مجبوراً مذہب کو بھی عوام کی اجازت سے دستور میں عارضی طور پر حاکمیت دی گئی ہے مگر یہ حاکمیت حتمی نہیں عوام جب چاہیں کثرت رائے سے حاکمیت الہ کی اس شق کو منسوخ کرسکتے ہیں۔ 2009ء میں یہ حادثہ ہوچکا ہے جب ایم کیو ایم نے قومی اسمبلی کی ایک کمیٹی کے اجلاس میں دستور سے خدا کی حاکمیت کی شرط ختم کرنے کے لیے قرار داد پیش کی قرارداد کی مخالفت پاکستان پیپلز پارٹی نے کی۔ رائے شماری ہوئی تو خدا کی حاکمیت دو ووٹوں کی برتری سے برقرار رہی۔ ایک پاکستانی اخبار نے سرخی لگائی “خد ا کی حاکمیت دو ووٹوں کی اکثریت سے بچ گئی” جدید انسان قائم بالذات، فاعل مختار مطلق، ہدایت میں خود کفیل، خارجی ذریعۂ ہدایت سے بے نیاز اور ماوراء اپنے فیصلے خود کرنے کا حقیقی مجاز، ہر خارجی بیرونی ذریعۂ علم کی حاکمیت و رہنمائی سے ماورائ، خیر و شر خلق کرنے کا اختیار رکھنے والی ہستی، ہر ایک کی عبادت سے بے نیاز اپنے معبد میں خوداپنی عبادت میں مصروف لا فانی، نورانی، حیوانی وجود ہے۔ لہٰذا جدیدیت میں صرف انسان ہی اصل حقیقت اصل وجود ہے کیونکہ اس کے وجود میں شک نہیں کیا جاسکتا وہی مرکز کائنات ہے کیونکہ یہ خدا مرکز کائنات نہیں یہ کائنات بھی انسان کے لیے ہے۔ ٹائن بی کے الفاظ میں حقیقت کے ادراک کے دوطریقے ہیں ایک سائنسی (Scientific trust( دوسرا شاعرانہ یا پیغمبرانہ(Poetic truth( پہلے طریقے سے علم مشاہدے تجربے سے ملتا ہے دوسرے طریقے سے ملنے والا علم محض شاعرانہ حقیقت ہے۔ ٹائن بی کے خیال میں لاشعور کی شاعرانہ سطح پر قابل فہم مشاہدہ کا نام ہی پیغمبری ہے۔ جدید انسان صرف وہ ہے جو حسی، تجربی، اختیاری سائنسی ذریعۂ علم پر یقین رکھتا ہے اور غیر حسی، غیر تجربی، غیر طبعی، ما بعد الطبیعیاتی، الہامی مذہبی ذرائع سے ملنے والے علم کو جہل، ظلمت و گمراہی تصور کرتا ہے کیونکہ ان ذرائع سے ملنے والے علم کی تصدیق تجربہ گاہ میں آلات سائنس سے نہیں ہوسکتی لہٰذا یہ تمام علوم جہالت میں شمار ہوتے ہیں جدید انسان وہ ہے جو ان جہالتوں سے ماوراء ہے اور خیر و شر کے پیمانے خود خلق کرتا ہے کسی الہامی روایتی دینی علم سے پیمانے اخذ نہیں کرتا اس لیے جدیدیت تاریخ کا انکار کرتی ہے سترہویں صدی سے پہلے کے زمانے کو تاریخ کا تاریک ترین زمانہ (Dark ages( قرار دیتی ہے جدیدیت ماضی کا انکار کرنے کے باوجود ماضی سے کلاسیک کے نام پروہ تمام تصورات نظریات عقائد قبول کرتی ہے جو اس کی ابلیسیت سے ہم آہنگ ہیں مثلاً وہ یونان سے ارسطو کا نظریۂ ابدیت دنیا لے کر آخرت کا انکار کرتی ہے۔ سترہویں صدی سے پہلے کے انسان کو انسان تسلیم نہیں کرتی جدیدیت کے خیال میں اصل انسان تو روشن خیالی کے فلسفے کے بعد ظہور پذیر ہوا۔ جدید انسان ہی حقیقی معنوں میں صاحب علم ہستی ہے جو روشنی سے منور ہے کیونکہ اس نے جہالت کی تاریخ کا انکار کرکے مذاہب سے بغاوت کرکے اپنے لیے زندگی کا راستہ اپنی ہی روشنی اپنی ہی رہبری و رہنمائی میں خود طے کرنے کا فیصلہ کیا ۔نشاة ثانیہ، روشن خیالی، جدیدیت انسان کی اسی خود کفالت، فارغ البالی، خود انحصاری، خود مختاری اور آزادی کامل کا نام ہے جدید انسان کو زندگی کا سفر طے کرنے کے لیے اپنے سواکسی اور ذریعہ سے رجوع کرنے کی کوئی ضرورت نہیں جدیدیت، جدید انسان کا یہ دعویٰ کہ عقلیت آفاقی ہوتی ہے اور عقلیت کی بنیاد پر آفاقی اقدار آفاقی نظام آفاقی اخلاقیات وضع کی جاسکتی ہے پس جدیدیت (پوسٹ ماڈرن ازم( نے رد کردیا اس نے بتایا کہ عقل اپنی تاریخ تہذیب ثقافت میں محصور و مقید مسدود محدود ہوتی ہے مغرب میں اب اس رائے پر عمومی اتفاق ہے اس موقف کی تفصیلات کا مطالعہ کرنے کے لیے درج ذیل کتابوں کو دیکھیے:
-
Towards the understanding of Rationality Habermass.
-
Reading in the philosophy of social science.Mclntyre J. Gray.
-
Madness and civilization Focault.
-
False Dawn J. Gray.
-
Enlightement wake. J.Gray
-
contegency, Irony and Solidrity Rorty.
-
Hideger and Progress Rorty.
-
Relativity objectivity philosophical papers vol II Rorty.
[…] جدیدیت میں صرف انسان ہی اصل حقیقت اصل وجود ہے کیونکہ اس کے وجود میں شک نہیں کیا جاسکتا وہی مرکز کائنات ہے کیونکہ یہ خدا مرکز کائنات نہیں یہ کائنات بھی انسان کے لیے ہے۔ ٹائن بی کے الفاظ میں حقیقت کے ادراک کے دوطریقے ہیں ایک سائنسی (Scientific trust( دوسرا شاعرانہ یا پیغمبرانہ(Poetic truth( پہلے طریقے سے علم مشاہدے تجربے سے ملتا ہے دوسرے طریقے سے ملنے والا علم محض شاعرانہ حقیقت ہے۔ ٹائن بی کے خیال میں لاشعور کی شاعرانہ سطح پر قابل فہم مشاہدہ کا نام ہی پیغمبری ہے۔ جدید انسان صرف وہ ہے جو حسی، تجربی، اختیاری سائنسی ذریعۂ علم پر یقین رکھتا ہے اور غیر حسی، غیر تجربی، غیر طبعی، ما بعد الطبیعیاتی، الہامی مذہبی ذرائع سے ملنے والے علم کو جہل، ظلمت و گمراہی تصور کرتا ہے کیونکہ ان ذرائع سے ملنے والے علم کی تصدیق تجربہ گاہ میں آلات سائنس سے نہیں ہوسکتی لہٰذا یہ تمام علوم جہالت میں شمار ہوتے ہیں جدید انسان وہ ہے جو ان جہالتوں سے ماوراء ہے اور خیر و شر کے پیمانے خود خلق کرتا ہے کسی الہامی روایتی دینی علم سے پیمانے اخذ نہیں کرتا اس لیے جدیدیت تاریخ کا انکار کرتی ہے سترہویں صدی سے پہلے کے زمانے کو تاریخ کا تاریک ترین زمانہ (Dark ages( قرار دیتی ہے جدیدیت ماضی کا انکار کرنے کے باوجود ماضی سے کلاسیک کے نام پروہ تمام تصورات نظریات عقائد قبول کرتی ہے جو اس کی ابلیسیت سے ہم آہنگ ہیں مثلاً وہ یونان سے ارسطو کا نظریۂ ابدیت دنیا لے کر آخرت کا انکار کرتی ہے۔ …. [پرھتے جائیں ….] […]
پسند کریںپسند کریں
[…] https://alwaqiamagzine.wordpress.com/2013/05/05/what-is-the-real-means-of-enlightement/ […]
پسند کریںپسند کریں
bohat achey janab
پسند کریںپسند کریں
بہت معذرت کے ساتھ۔ کچھ مصروفیات کے باعث آپ کو کافی وقت گزرنے کے بعد اطلاعا عرض ہے کہ مدیر صاحب نے حوالے کے ساتھ شائع کرنے کی اجازت دے دی تھی۔
پسند کریںپسند کریں
thanx sir
پسند کریںپسند کریں
ماشاءاللہ۔۔ بہترین کاوش۔۔ میں اسے رسالہ ماہنامہ نوائے اخلاق میں شامل کرنا چاہتا ہوں
پسند کریںپسند کریں
مضمون پسند کرنے کا شکریہ۔ اس سلسلے میں انتظار فرمائیے، آپ کو مدیر سے اجازت لے کر آگاہ کردیا جائے گا۔
پسند کریںپسند کریں