عصرِ دجالیّت کے تین طاغوت سورة الکہف کی روشنی میں۔ اداریہ


مجلہ "الواقعۃ” شعبان المعظم 1434ھ/ جون، جولائ2013، شمارہ  15

(اداریہ)

عصرِ دجالیّت کے تین طاغوت

سورة الکہف کی روشنی میں

Three devils of contemporary  in the light of Surat ul Kahaf (The Cave)

    محمد تنزیل الصدیقی الحسینی

سورة الکہف کا تعلق دجال اور دجالیت سے بہت گہرا ہے ۔ نبی کریم  صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم  نے اس سورہ مبارکہ کو اگر عصرِ دجالیت سے ایک نسبت خاص دی ہے تو وہ بلا وجہ نہیں ۔ لازم ہے کہ اس سورت کا مطالعہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم کے انوارِ نبوت کی روشنی میں کیا جائے ۔ دجال ایک فرد بھی ہے اور ایک نظام بھی ۔ سورة الکہف میں اس نظام کے اجزائے ترکیبی کے مظاہر دیکھے جا سکتے ہیں ۔ وہ نظر چاہیئے جو تعلیماتِ الہامی کی گہرائیوں میں اتر سکے ۔ سورة الکہف میں ہمیں تین طرح کے شرک کا ذکر ملتا ہے ۔ کو پڑھنا جاری رکھیں

Das Kapital


جریدہ “الواقۃ” کراچی، شمارہ 11، ربیع الثانی 1433ھ/ فروری، مارچ 2013

 ایم ابراہیم خاں

12 Das Kapital pdf

جن کتابوں نے تاریخ کے دھارے کا رخ موڑنے میں مرکزی کردار ادا کیا ہے ان میں Das Kapital بھی نمایاں ہے۔ کارل مارکس نے جرمن میں Das Kapital لکھی تو معیشت اور سیاست سے متعلق علمی حلقوں میں تہلکہ مچ گیا۔ اور جب اس کا ترجمہ انگریزی اور دیگر زبانوں میں کیا گیا تو گویا انقلاب برپا ہوگیا۔ 1867 میں شائع ہونے والی اس کتاب میں سرمایہ دارانہ نظام کا ناقدانہ جائزہ لیا گیا ہے۔ مارکس کی زندگی میں اس کتاب کی پہلی جلد شائع ہوئی تھی۔ دوسری اور تیسری جلد کا مواد تیار تھا۔ مارکس کے دوست فریڈرک اینجلز نے 1885 اور  1894میں دوسری اور تیسری جلد شائع کی۔ چوتھی جلد کارل کوٹسکی نے 1905-1910 میں شائع کی۔ کارل مارکس نے اس بات کو تصریحا بیان کیا ہے کہ کس طور سرمایہ دارانہ نظام میں معاشی سرگرمیاں جاری رہتی ہیں اور کس طرح اہل سرمایہ معاشرے کے دیگر تمام طبقات کا استحصال کرتے ہیں۔
داس کیپٹال کا بنیادی تصور کو پڑھنا جاری رکھیں

جدیدیت کیا ہے، کیا نہیں؟


جریدہ "الواقۃ” کراچی، شمارہ 11، ربیع الثانی 1433ھ/ فروری، مارچ 2013

از قلم: سید خالد جامعی (کراچی یونیورسٹی) 

6 Jadidiat kia hay pdf 2

دنیا کی ٢٣ روایتی، الہامی دینی تہذیبوں میں انسان عبد تھا۔ وہ جو اس نیلی کائنات میں خدا کے آگے سر بسجود ایک ہستی تھا جو اپنی آخرت کی اصلاح کے لیے فکر مند اور مستقبل کی حقیقی زندگی کے لیے کوشاں رہتا تھا۔ لیکن اٹھارہویں صدی میں جدیدیت کی آمد کے بعد یہ عبد جو بندگی کے سانچے میں ڈھلا ہوا تھا یکایک آزاد ہوگیا (Mankind( بندے سے آزاد فرد (Human being( ہوگیا یہ اصطلاح بھی صرف اس کے حیاتیاتی وجود کی علامت تھی لہٰذا اس کے سیاسی وجود کی وضاحت کے لیے Citizen کی اصطلاح استعمال کی گئی جو خود مختار مطلق Soveriegn ہوتا ہے۔ اسی آزاد خود مختار وجود کے لیے ایک ایسی ریاست قائم کی گئی جو Re-public کہلائی۔ ایسی ریاست جہاں عوام کا حکم ارادہ عامہ (General will( کے تحت چلتا ہے۔ اس کے سوا کسی کا حکم چل نہیں سکتا۔ اگر کسی ریاست میں کسی اور کا حکم بہ ظاہر چل رہا ہے تو اس حکم کے چلنے کی اجازت بھی عوام کی اجازت سے ملی ہے اور یہ اجازت مطلق نہیں ہے حاکم حقیقی (عوام( اس اجازت کو جب چاہیں منسوخ کرسکتے ہیں مثلاً پاکستان کے دستور آئین میں اللہ کی حاکمیت کو سب سے بالاترحاکمیت کے طور پر قبول کیا گیا ہے۔
کو پڑھنا جاری رکھیں