الواقعۃ شمارہ ٢
محمد تنزیل الصدیقی الحسینی
زوال پذیر قوموں کا ایک بہت بڑا المیہ یہ ہے کہ ان کے ارباب حل و عقد بھی وقت کی صحیح نباضی سے قاصر ہوجاتے ہیں ۔ ” یہ ناداں گر گئے سجدوں میں جب وقتِ قیام آیا ” کے مصداق ہم دیکھتے ہیں کہ برصغیر کی تاریخ میں ایک ایسا وقت آیا جب ایسٹ انڈیا کمپنی اپنے اختیارات سے مسلسل تجاوز کرتے ہوئے سلطنتِ مغلیہ کے استحکام کے لیے ایک چیلنج بن گئی مگرکمال ہے اس عہد کے ارباب کمال پر جو امکانِ کذب باری تعالیٰ جیسے مباحث پر دادِ تحقیق دے رہے تھے ۔ علماء کی یہی روش تھی جس نے بالآخر مسلمانوں کو فرنگی استبداد کی چوکھٹ پر غلام بنادیا ۔ لال قلعہ کی دیواریں
مسلمانوں کے خون سے رنگین ہوگئیں اور ہندوستان کے تخت پر سات سمندر پار کے سیاسی تاجروں کا قبضہ ہوگیا ۔
”صحیح وقت پر صحیح فیصلہ ” یہ الہامی صلاحیت جس میں ہوگی وہی اس امت کا حکیم اور اس ملّت کا غمخوار ہوگا ۔ تاریخ سے صرف دو مثالیں پیش کرتا ہوں ۔
میدانِ جہادمیں جب مخالفین شاہ اسماعیل شہید کے مسلک و نظریات کو وجہ جواز بنا کر عام لوگوں کو متنفر کر رہے تھے تو بمقام پنجتار مذہبی مسائل کی تشریح کے لیے افغان علماء کو بلایا گیا اس مجلس میں شاہ اسماعیل نے عدم وجوب تقلید کی پُر زور حمایت کی ۔ تاہم اس موقع پر انہوں نے جو رائے دی ، وہ بقول شیخ محمد اکرام آب زر سے لکھنے کے قابل ہے ]موجِ کوثر : ٦٢[شاہ صاحب نے فرمایا :
"ہمیں اس وقت کفار سے جہاد کرنا ہے ۔ تقلید کا فتنہ اٹھا کر اپنے اندر تفرقہ ڈالنا بہتر نہیں ۔ اس کی وجہ سے ہمارا اصل کام ہجرت اور جہاد جو فرضِ عین ہے ، متاثرہوںگے ۔”
اسی طرح جب مولانا ولایت علی صادق پوری بغرضِ جہاد نکلے اور اثنائے راہ دہلی پہنچے تو اس وقت علمائے دہلی میں یہ مسئلہ زوروں پر تھا کہ الو حلال ہے یا حرام ؟ کسی نے مولانا سے بھی دریافت کیا تو امت کے اس حکیم نے جو بات کہی وہ دین کے استخواں فروشوں کے لیے ایک تازیانہ ہے۔ فرمایا:
"میں الوؤں میں نہیں پڑتا ، میرا مقصد مسلمانوں کی آزادی اور باطل سے جہاد ہے ۔”
بدقسمتی سے آج پھر تاریخ دہرا رہی ہے ۔ ہزارہا قربانیاں دے کر اس مملکتِ پاک کی آزادی عمل میں آئی تھی ۔ آج پھر ایسٹ انڈیا کمپنی نئے پیراہن میں ملبوس ہماری خودمختاری کے لیے سوالیہ نشان بن گئی ہے اور گزری ہوئی تاریخ کے عین مطابق ہمارے علماء نت نئی فقہی موشگافیوں سے اپنی علمی ذوق کی تسکین فرما رہے ہیں ۔
یہ خیال ہی کتنا عجیب لگتا ہے کہ مسلمان یہ سوچنے لگیں کہ ان کا قبلۂ اوّل ان کا نہیں بلکہ اس قوم کا حق ہے جسے اللہ ربّ العزت نے مغضوب قرار دیا ہو اور جن کے حق میں ذلت و مسکنت کی نوید دی ہو ۔
مولانا محمد عمار خاں ناصر مدیر ماہنامہ ” الشریعة” عصر حاضر کے جید علماء میں سے ہیں ۔ ان کی صلاحیتوں کے مختلف دوائر ہیں اور بلاشبہ ان کی صلاحیتیں قابلِ تسلیم ہیں مگر کاش وہ اپنی صلاحیتوں سے اس امت کے زوال و انحطاط کی وجہ دریافت فرماتے ۔ اس امت کے لیے حکیم اور نباض بنتے اور اس کی غمخواری کرتے ۔ لیکن اس کے برعکس انہوں نے ایسے مباحث کو اپنا مرکزِ تحقیق بنایا جو اس وقت امت مسلمہ میں مزید انتشار و افتراق کا باعث بن گئے ہیں ۔ ان کی تحقیق کا حاصل ہے :
"مسجدِ اقصیٰ کا معاملہ امت مسلمہ کے لیے بھی اسی طرح ایک اخلاقی آزمایش کی حیثیت رکھتا ہے جس طرح کہ وہ بنی اسرائیل کے لیے تھا ، اور افسوس ہے کہ اس آزمائش میں ہمارا رویہ بھی حذو النعل بالنعل (Same to Same) اپنے پیش رووں کے طرزِعمل ہی کے مماثل ہے ۔ ارضِ فلسطین پر حق کا مسئلہ موجودہ تناظر میں اصلاً ایک سیاسی مسئلہ تھا ، اس لیے اس کی وضع موجود میں یہود کے پیدا کردہ تغیر حالات پر اگر عرب اقوام اور امت مسلمہ میں مخالفانہ ردّ عمل پیدا ہوا تو وہ ایک قابلِ فہم اور فطری بات تھی ، لیکن ہیکل کی بازیابی اور تعمیر نو کے ایک مقدس مذہبی جذبے کو ” مسجدِ اقصیٰ کی حرمت کی پامالی ” کا عنوان دے کر ایک طعنہ اور الزام بنا دینا ، مسجدِ اقصیٰ پر یہود کے تاریخی و مذہبی حق کی مطلقاً نفی کردینا اور ، اس سے بڑھ کر ، ان کو اس میں عبادت تک کی اجازت نہ دینا ہر گز کوئی ایسا طرزِ عمل نہیں ہے جو کسی طرح بھی قرینِ انصاف اور اس امت کے شایانِ شان ہو جس کو ” قوامین للّٰہ شھداء بالقسط ” کے منصب پر فائز کیا گیا ہے ۔” [براہین : ٤٠١]
مسجدِ اقصیٰ کے حق تولیت پر یہ بحث غالباً دس برسوں سے جاری ہے ۔ اس عرصے میں نہ معلوم کتنی آندھیاں آئیں اور کتنے طوفان اٹھے جنہوں نے اس امت کی زبوں حالی میں اپنا کردار ادا کیا مگر اس طویل علمی مناقشے کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا ۔ برادرم ابو موحد عبید الرحمن کا تأثر یہی رہا کہ مولانا عمار ناصر نے جو نکات اٹھائے ہیں ان کا اب تک مدلل جواب نہیں آسکا ہے ۔ اس لیے امت کے اس شاذ حلقے کے لیے جمہورِ امت کے صحیح مؤقف کی ترجمانی ضروری ہے ۔ راقم کو اس بحث سے کوئی دلچسپی نہیں ۔ ربّ العزت کی حکمتیں علمی مناقشوں کی محتاج نہیں ہوتیں ۔ نہ کسی صاحبِ علم کے دل پر اترنے والے معصومانہ الہام سے تقدیرِ الٰہی کو بدلا جاسکتا ہے ۔ یہ مختصر سا مضمون صرف اس احساس کا نتیجہ ہے کہ مسئلہ ہذا کی صحیح نوعیت کو واضح کیا جاسکے ۔ یہاں یہ عرض کردینا ضروری ہے کہ ہمارے پیشِ نظر جناب عمار ناصر کی کتاب ” براہین ” ہے ، ” الشریعة ” کے شمارے ہمارے پیشِ نگاہ نہیں ۔
جناب عمار ناصر نے اپنے دلائل کی اصل بنا ایک قرآنی آیت کے چھوٹے سے ٹکرے پر رکھی ہے ۔ اس کے ساتھ ہی عقلی و منطقی دلائل ، کچھ مفسرین کی دور از کار تاویلات ، چند آثار اور تاریخی روایات کو بھی پیش کیا ہے ۔ تاہم ہم اپنا موضوعِ سخن صرف قرآن کی روشنی میں پیش کریں گے ۔ اس کے نص ہونے میں کسی کو معمولی درجہ بھی کلام نہیں ہوگا ۔
میری ناقص رائے کے مطابق ہر وہ شخص جو اپنے باطل نظریات کے لیے قرآن سے استدلال کرتا ہے وہ کبھی بھی آیتِ قرآنی کو اس کے صحیح ترین سیاق و سباق کے ساتھ پیش نہیں کرتا ۔ بلکہ اس کے بَرعکس محض اپنے مطلب کی بات ”لے اڑنے ” کی روش اختیار کرتا ہے ۔ ہمیں جناب عمار ناصر کی نیت پر شبہ نہیں ۔ امید ہے کہ انہوں نے اپنا مؤقف پوری دیانتداری سے اختیار کیا ہوگا ۔ مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ قرآنی استدلال کرتے ہوئے ان کا طریقہ بھی مذکورہ روش ہی کا عکاس ہے ۔ فرماتے ہیں :
"اللہ تعالیٰ نے مسجدِ اقصیٰ کی تباہی و بربادی اور اس سے یہود کی بے دخلی کے دو معروف واقعات کا تذکرہ کرتے ہوئے بنی اسرائیل کو یاد دلایا ہے کہ یہ ان کی سرکشی اور فساد کے نتیجے میں رونما ہوئے تھے ۔ مسجد اقصیٰ کے بارے میں یہ بات معلوم ہے کہ ان آیات کے نزول کے وقت وہ یہود کے زیرِ تصرف نہیں تھی ، بلکہ تباہ شدہ کھنڈر (Ruins) کی صورت میں ویران پڑی تھی ۔ یہ بات بھی ، ظاہر ہے ، اللہ تعالیٰ کے علم میں تھی کہ مستقبل قریب میں اس عبادت گاہ کو آباد کرنے کا شرف عملاً مسلمانوں کو حاصل ہونے والا ہے ۔ اگر یہود کے حق تولیت کی شرعی بنیادوں پر قطعی تنسیخ مقصود ہوتی تو یہاں یہود سے صاف صاف کہہ دینا چاہیے تھا کہ فساد اور سرکشی کے نتیجے میں اس مسجد سے بے دخلی کے بعد اب تمہارے اس پر دوبارہ متصرف ہونے کا کوئی امکان نہیں اور اس عبادت گاہ کی آبادی اور تولیت کا حق اب تمہارے بجائے ہمیشہ کے لیے ، مسلمانوں کے سپرد کردیا جائے گا ، لیکن اس کے برعکس قرآن مجید صاف لفظوں میں یہ فرماتا ہے کہ اللہ کی رحمت سے پہلے کی طرح اب بھی اس مسجد کے دوبارہ بنی اسرائیل کے تصرف میں آنے کا امکان موجود ہے :
(عَسٰي رَبُّكُمْ اَنْ يَّرْحَمَكُمْ ۚ وَاِنْ عُدْتُّمْ عُدْنَا ) [بنی اسرائیل ١٧:٨]
"توقع ہے کہ تمہارا رب تم پر پھر رحمت کرے گا اور اگر تم نے دوبارہ یہی روش اختیار کی ہم بھی تمہارے ساتھ یہی سلوک کریں گے ۔” [براہین : ٢٦٠]
سب سے پہلے آیت کے اس ٹکرے کو اس کے صحیح ترین سیاق و سباق کے ساتھ ملاحظہ فرمائیے۔
وَقَضَيْنَآ اِلٰى بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ فِي الْكِتٰبِ لَتُفْسِدُنَّ فِي الْاَرْضِ مَرَّتَيْنِ وَلَتَعْلُنَّ عُلُوًّا كَبِيْرًا (4) فَاِذَا جَاۗءَ وَعْدُ اُوْلٰىهُمَا بَعَثْنَا عَلَيْكُمْ عِبَادًا لَّنَآ اُولِيْ بَاْسٍ شَدِيْدٍ فَجَاسُوْا خِلٰلَ الدِّيَارِ ۭ وَكَانَ وَعْدًا مَّفْعُوْلًا (5) ثُمَّ رَدَدْنَا لَكُمُ الْكَرَّةَ عَلَيْهِمْ وَاَمْدَدْنٰكُمْ بِاَمْوَالٍ وَّبَنِيْنَ وَجَعَلْنٰكُمْ اَكْثَرَ نَفِيْرًا (6) اِنْ اَحْسَنْتُمْ اَحْسَنْتُمْ لِاَنْفُسِكُمْ ۣوَاِنْ اَسَاْتُمْ فَلَهَا ۭ فَاِذَا جَاۗءَ وَعْدُ الْاٰخِرَةِ لِيَسُوْۗءٗا وُجُوْهَكُمْ وَلِيَدْخُلُوا الْمَسْجِدَ كَمَا دَخَلُوْهُ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَّلِــيُتَبِّرُوْا مَا عَلَوْا تَتْبِيْرًا (7) عَسٰي رَبُّكُمْ اَنْ يَّرْحَمَكُمْ ۚ وَاِنْ عُدْتُّمْ عُدْنَا ۘ وَجَعَلْنَا جَهَنَّمَ لِلْكٰفِرِيْنَ حَصِيْرًا (8) اِنَّ هٰذَا الْقُرْاٰنَ يَهْدِيْ لِلَّتِيْ ھِيَ اَقْوَمُ وَيُبَشِّرُ الْمُؤْمِنِيْنَ الَّذِيْنَ يَعْمَلُوْنَ الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَهُمْ اَجْرًا كَبِيْرًا (9) وَّاَنَّ الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ اَعْتَدْنَا لَهُمْ عَذَابًا اَلِـــيْمًا(10) [بنی اسرائیل :٤-١٠]
”اور ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب میں یہ بات بتلادی تھی کہ تم سر زمین میں دوبارہ خرابی کروگے اور بڑا زور چلانے لگو گے پھر جب ان دو بار میں سے پہلی بار کی میعاد آوے گی ہم تم پر اپنے ایسے بندوں کو مسلط کریں گے جو بڑے جنگجو ہوں گے پھر وہ گھروں میں گھس پڑیں گے اور یہ ایک وعدہ ہے جو ضرور ہو کر رہے گا ۔ پھر ہم ان پر تمہارا غلبہ کر دیں گے اور مال اور بیٹوں سے ہم تمہاری امداد کریں گے اور ہم تمہاری جماعت بڑھا دیں گے ۔ اگر اچھے کام کرتے رہو گے تو اپنے نفع کے لیے اچھے کام کرو گے اور اگر تم برے کام کرو گے تو بھی اپنے ہی لیے پھر جب پچھلی بار کی میعاد آوے گی ہم پھر دوسروں کو مسلط کریں گے تاکہ تمہارے منہ بگاڑ دیں اور جس طرح وہ لوگ مسجد میں گھسے تھے یہ لوگ بھی اس میں گھس پڑیں اور جس جس پر ان کا زور چلے سب کو برباد کر ڈالیں ۔ عجب نہیں کہ تمہارا رب تم پر رحم فرماوے اور اگر تم پھر وہی کرو گے تو ہم بھی پھر وہی کریں گے اور ہم نے جہنم کو کافروں کا جیلخانہ بنا رکھا ہے ۔ بلاشبہ یہ قرآن ایسے طریقہ کی ہدایت کرتا ہے جو بالکل سیدھا ہے اور ان ایمان والوں کو جو کہ نیک کام کرتے ہیں یہ خوشخبری دیتا ہے کہ ان کو بڑا بھاری ثواب ملے گا اور یہ بھی بتلاتا ہے کہ جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ہم نے ان کے لیے ایک درد ناک سزا تیار کر رکھی ہے ۔” ( ترجمہ از مولانا اشرف علی تھانوی )
ان آیات مبارکہ میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے دو مرتبہ یہود پران کی نافرمانیوں کے سبب اپنے سخت عذاب کا ذکر فرمایا ہے ۔ پھر اللہ رب العزت نے انہیں ایک موقع دیتے ہوئے مزیدفرمایا ( عَسَی رَبُّکُمْ أَن یَرْحَمَکُمْ ) ”قریب ہے کہ تمہارا رب تم پر رحم فرمائے ۔” لیکن اگر تم نے پھر وہی روش اختیار کی تو ہم بھی تمہارے ساتھ ویسا ہی سلوک کریں گے جیسا کہ پہلے کرچکے ہیں ۔ اس بیان کے بالکل متصل اللہ رب العزت نے قرآنِ کریم کا ذکر فرمایا ہے ۔ سیاقِ و نظمِ کلام کا تقاضا یہی ہے کہ یہود کے لیے وعدئہ رحمت نبی کریم ۖ اور قرآن کریم پر ایمان کے ساتھ مشروط ہے ۔
ائمہ مفسرین اس سے یہی مراد لیتے ہیں ۔
( عَسٰي رَبُّكُمْ اَنْ يَّرْحَمَكُمْ ۚ ) کی تفسیر میں قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمہ اللہ ۣ لکھتے ہیں:
"یعنی اگر تم محمد ۖ پر ایمان لے آئو گے اور قرآن کا اتباع کرتے ہوئے اپنے اعمال درست کر لو گے تو امید ہے کہ اللہ تم پر رحم فرمائے گا ۔ ” [تفسیر مظہری: ٧/٢٦، مترجمہ عبد الدائم جلالی مطبوعہ دارالاشاعت کراچی ١٩٩٩ء ]
مولانا ابو محمد عبد الحق حقانی دہلوی لکھتے ہیں :
"عسیٰ ربکم کا اشارہ یا تو آنحضرت ۖ کے عہد کے یہود کی طرف ہے کہ اب بھی وقت ہے اگر تم نے نبی آخر الزماں علیہ السلام کی اطاعت کرلی تو خدا پھر تم پر رحم کرے گا تمہارا برگشتہ زمانہ جا کر بھلے دن آجائیں گے اور اگر پھر بھی وہی شرارت کرو گے تو دنیا میں ہم تم پر کوئی تازہ آفت لائیں گے اور آخرت میں تو جہنم منکروں کا جیل خانہ تیار ہے ، یہود نے آنحضرت ۖ سے شرارت کی اور بھی رہی سہی عزت جاتی رہی ۔ دنیا بھر میں ایک انچ زمین کے بھی حاکم نہیں جہاں کہیں ہیں محکوم و ذلیل ہیں یا یہ اسی وقت کے یہود کی طرف اشارہ تھا جس کو حکایت کیا جاتا ہے چنانچہ یہود بختِ نصر کے حادثہ کے بعد کچھ نیکی کی طرف آئے شان و شوکت بھی عود کرنے لگی ، مگر حضرت مسیح علیہ السلام کے عہد میں پھر شرارت کی جس کے وبال میں طیطس شاہِ روم کے ہاتھ سے ان کا ستیاناس ہوگیا ۔ ” [تفسیر حقانی : ٣/١١٥، مطبوعہ میر محمد کتب خانہ کراچی ]
مولانا امین احسن اصلاحی اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں :
"یہ ان یہود سے خطاب ہے جو ان آیات کے نزول کے وقت موجود اور قرآن کی مخالفت میں کفارِ قریش کی ہمنوائی و پشت پناہی کر رہے تھے ۔ ان سے خطاب کرکے فرمایا جا رہا ہے کہ ماضی میں جو کچھ ہوچکا ہے وہ تمہیں سنایا جا چکا ۔ اب اگر خیریت چاہتے ہو تو اس نبی امی ( ۖ ) کی دعوت نے تمہارے لیے نجات کی جو راہ کھولی ہے ، اس کو اختیار کرو ، اور اپنے مستقبل کو سنوار لو ۔ اگر تم نے توبہ اور اصلاح کی راہ اختیار کرلی تو خدا بھی تم پر رحم فرمائے گا اور اگر تم نے پھر اسی طرح کی حرکتیں کیں جیسی کہ پہلے کرتے آئے ہو تو ہم بھی تمہاری اسی طرح خبر لیں گے جس طرح پہلے لے چکے ہیں اور یہ بھی یاد رکھو کہ اس دنیا میں جو ذلت و رسوائی ہوئی ہے وہ تو ہوگی ہی ۔ آگے تمہارے جیسے کافروں کے لیے جہنم کا باڑا ہے جس میں سارے کے سارے بھر دیے جائیں گے.” [تدبر قرآن : ٤/٤٨٣ مطبوعہ فاران فائونڈیشن لاہور ٢٠٠٠ئ]
ایک تابعی ہیں ضحاک ان کی رائے بھی یہی ہے ۔ مولانا احمد حسن دہلوی لکھتے ہیں :
"ضحاک نے کہا ہے کہ یہ رحمت جس کا اللہ پاک نے بنی اسرائیل سے وعدہ کیا تھا جناب سرورِ کائنات فخر موجودات ۖ ہیں اور یہ بھی اللہ پاک نے انہیں جتلادیا تھا کہ اگر پھر تیسری دفعہ وہی کام کرو گے اور وہی فساد اٹھائو گے تو یاد رکھو ہم وہی عذاب تم پر نازل کریں گے۔ ہمارے ہاتھ سے تمہیں رہائی نہیں مل سکتی .” [احسن التفاسیر : ٤/٢١-٢٢]
سر دست یہ محض چند مفسرین کی آراء ہیں ورنہ اس پر تقریباً اتفاق ہی ہے ۔
” روح المعانی ” ،
” تفسیر النسفی ” اور
” فتح القدیر ”
دیکھ لیجئے اس میں ہمارے ہی مؤقف کی تائیدملے گی ۔ قرآنی نظم بھی اسی تفسیر کا تقاضا کرتی ہے ۔ حیرت ہے نظمِ قرآن کے اتنے بڑے داعی اتنی معمولی سی بات نہ سمجھ سکے ۔
جناب عمار ناصر کو یہ احساس تو ہے کہ یہود کو دوسری مرتبہ جس سخت عقوبت سے گزرنا پڑا وہ مسیح علیہ السلام کی تکذیب کی وجہ سے تھا ۔ چنانچہ لکھتے ہیں :
” ہیکل کی تباہی اور فلسطین سے یہودیوں کی بے دخلی کی پیش گوئی دوسری مرتبہ ٧٠ ء میں پوری ہوئی ۔ اس مرتبہ اس کا سبب بنی اسرائیل کا وہ رویہ تھا جو انہوں نے من حیث القوم سیّدنا مسیح علیہ السلام کی تکذیب کے حوالے سے اختیار کیا تھا ۔ ” [براہین : ٢٤٢]
کیا یہ امر تعجب انگیز نہیں ہوگا کہ مسیح علیہ السلام کی تکذیب پر تو یہود کو سزا دی جائے لیکن نبی آخر الزماںۖ جو ” عہد کے نبی ” ہیں ان کی تکذیب پر یہود سے کچھ سرزنش نہ کی جائے بلکہ مستقبل میں ان سے رحمتِ الٰہی کا وعدہ بھی استوار کرلیا جائے؟؟؟
قرآنی بیان بالکل واضح ہے اس میں توڑمڑوڑکرنے اور تاویلات کے پھندے بچھانے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں ۔ اللہ کی رحمت ایمان کے ساتھ ہی مشروط ہوسکتی ہے اور اب محمد رسول اللہ ۖ کی رسالت پر ایمان لائے بغیرکوئی ایمان قابلِ قبول نہیں ہوسکتا ۔ یہود اجتماعی یا انفرادی طور پررسالتِ محمدیۖ پر ایمان لے آئیں تو وہ یقینا وعدۂ رحمت الٰہی کے حقدار ہونگے وگرنہ دائمی ذلّت و مسکنت ان کا مقدر ہوگی ۔
تفسیر قرآن کا ایک اہم اصول نظم قرآن ہے اور دوسرا اہم اصول تفسیر القرآن بالقرآن ہے ۔ اس پہلو سے بھی دیکھیں تو معاملہ بالکل صاف ہے ۔ جب دنیا میں اس کتاب مقدس کا نزول ہوا تو یہود اس وقت سطحِ ارضی پر منتشر تھے ۔ کچھ اطمینان و سکون انہیں میسر تھا تو مدینہ میں ۔ لیکن یہاں بھی وہ اپنی سرکشی اور فساد فی الارض کے باعث نکالے گئے ۔ تآنکہ اللہ ربّ العزت نے ان پر ذلت و خواری مسلط کردی ۔
وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ ۤ وَبَاۗءُوْ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰهِ ۭ ذٰلِكَ بِاَنَّھُمْ كَانُوْا يَكْفُرُوْنَ بِاٰيٰتِ اللّٰهِ وَيَقْتُلُوْنَ النَّـبِيّٖنَ بِغَيْرِ الْحَقِّ ۭ ذٰلِكَ بِمَا عَصَوْا وَّكَانُوْا يَعْتَدُوْنَ [البقرة : ٦١]