شمارہ3
غیر مسلم ممالک میں سکونت ایک تحقیقی و تنقیدی جائزہ
جریدہ "الواقۃ” کراچی، شمارہ (3 )
غیر مسلم ممالک میں سکونت ۔ایک تحقیقی و تنقیدی جائزہ
ابو موحد عبید الرحمن
قسط نمبر 1 | قسط نمبر 2 | قسط نمبر 3 | قسط نمبر 4 |
( اِنَّ الَّذِيْنَ ارْتَدُّوْا عَلٰٓي اَدْبَارِهِمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمُ الْهُدَى ۙ الشَّيْطٰنُ سَوَّلَ لَهُمْ ۭ وَاَمْلٰى لَهُمْ (٢٦ ) ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَالُوْا لِلَّذِيْنَ كَرِهُوْا مَا نَزَّلَ اللّٰهُ سَنُطِيْعُكُمْ فِيْ بَعْضِ الْاَمْرِ ښ وَاللّٰهُ يَعْلَمُ اِسْرَارَهُمْ (٢٧ٓ) (سورة محمد :٢٥-٢٦)
” حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ ہدایت واضح ہوجانے کے بعد اس سے پھر گئے ، ان کے لیے شیطان نے اس روش کو سہل بنادیا اور جھوٹی خواہشات کا سلسلہ ان کے لیے دراز کر رکھا ہے ۔ یہ اس لیے کہ انہوں نے اللہ کے نازل کردہ دین کے ناپسند کرنے والوں سے یہ کہہ دیا کہ بعض معاملات میں ہم تمہاری اطاعت کریں گے ، اللہ ان کی یہ خفیہ باتیں خوب جانتا ہے ۔ ”
نکتۂ استدلال
(يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْكٰفِرِيْنَ اَوْلِيَاۗءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِيْنَ ۭ ) (النسائ:١٤٤)
” اے ایمان والو! مومنوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا ولی نہ بنائو ۔”
نکتۂ استدلال
” من بنی ببلاد الاعاجم ، وصنع نیروزھم و مھرجانھم ، و تشبہ بھم حتی یموت ، و ھو کذلک ، حشر معھم یوم القیامة ۔” [اقتضاء الصراط المستقیم : ١٨٨]
” جس نے عجمیوں ( کافروں ) کے علاقہ میں گھر تعمیر کیا ، ان کے نیروز و مہرجان میں شریک ہوا اور ان کی مشابہت اختیار کی یہاں تک کہ وہ مر گیا ، تو یہ انہی میں سے ہے ۔ روزِ محشر اس کا حشر انہی کے ساتھ ہوگا ۔ ”
( وَاِذِ اعْتَزَلْتُمُوْهُمْ وَمَا يَعْبُدُوْنَ اِلَّا اللّٰهَ فَاْوٗٓا اِلَى الْكَهْفِ ) [ الکہف :١٦]
” جب تم ان ( مشرکین ) سے الگ ہوجائو تو غار میں جاکر پناہ لے لو ۔ ”
نکتۂ استدلال
( وَلَا تَرْكَنُوْٓا اِلَى الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ ۙ وَمَا لَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ مِنْ اَوْلِيَاۗءَ ثُمَّ لَا تُنْصَرُوْنَ ) [سورة ہود :١١٣]
” ان ظالموں کی طرف ذرا نہ جھکنا ورنہ جہنم کی لپیٹ میں آجائو گے اور تمہیں کوئی ایسا ولی و سر پرست نہ ملے گا جو اللہ سے تمہیں بچا سکے اور کہیں سے تم کو مدد نہ پہنچے گی ۔”
نکتۂ استدلال
” اذا اراد الامام العود الی دار الاسلام و معہ مواش فلم یقدر علی نقلھا الی دار الاسلام ذبحھا۔ ”[التکمیل الضروری شرح القدوری :٢/٤٩٥]
” اگر امام ( دار الکفر سے ) دارا لاسلام (جہاد کے بعد ) لوٹنا چاہے اور اس کے ساتھ مویشی بھی ہوں ، جن کو وہ دار الاسلام منتقل نہ کرسکے تو پھر چاہئیے کہ انہیں ذبح کر ڈالے ۔ ”
( قَدْ كَانَتْ لَكُمْ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِيْٓ اِبْرٰهِيْمَ وَالَّذِيْنَ مَعَهٗ ۚ اِذْ قَالُوْا لِقَوْمِهِمْ اِنَّا بُرَءٰۗؤُا مِنْكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ ۡ كَفَرْنَا بِكُمْ وَبَدَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةُ وَالْبَغْضَاۗءُ اَبَدًا حَتّٰى تُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَحْدَهٗٓ ) [الممتحنة :٤ ]
”تمہارے لیے بہترین نمونہ ابراہیم اور ان کے ساتھیوں کا ہے ۔جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ ہم بیزار ہیں تم سے اور جن کی تم اللہ کے علاوہ عبادت کرتے ہو ۔ ہم تمہارے انکاری ہیں اور ہمارے اور تمہارے درمیان دشمنی اور نفرت ظاہر ہوچکی ہے جب تک کے تم ایک اللہ پر ایمان نہ لائو ۔ ”
نکتۂ استدلال
( اِنَّ الَّذِيْنَ تَوَفّٰىھُمُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ ظَالِمِيْٓ اَنْفُسِهِمْ قَالُوْا فِيْمَ كُنْتُمْ ۭقَالُوْا كُنَّا مُسْتَضْعَفِيْنَ فِي الْاَرْضِ ۭقَالُوْٓا اَلَمْ تَكُنْ اَرْضُ اللّٰهِ وَاسِعَةً فَتُھَاجِرُوْا فِيْھَا ۭفَاُولٰۗىِٕكَ مَاْوٰىھُمْ جَهَنَّمُ ۭوَسَاۗءَتْ مَصِيْرًا ) ( النسائ:٩٧)
” جن لوگوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ، جب فرشتے ان کی روح قبج کرنے پہنچے تو پوچھا تم کس حال میں تھے ؟ یہ جواب دیتے تھے کہ ہم کمزور و مغلوب تھے ۔ فرشتوں نے کہا کیا اللہ تعالیٰ کی زمین کشادہ نہ تھی کہ تم وہاں ہجرت کر جاتے ؟ یہی لوگ ہیں جن کا ٹھکانہ دوزخ ہے اور وہ بُری جائے قرار ہے ۔ ”
نکتۂ استدلال
٨) ( رَبَّنَآ اَخْرِجْنَا مِنْ ھٰذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ اَهْلُھَا ) ( النسائ:٧٥)
”اے ہمارے رب ! ہم کو اس بستی سے نکال جو ظالموں کی بستی ہے ۔ ”
نکتۂ استدلال
” فان کان ھناک محارباً للمسلمین معیناً للکافرین بخدمتہ أو کتابہ فھو کافر ۔” (المحلیٰ : مسئلہ رقم ٢٢٥٢)
” اگر کوئی شخص دیارِ کفر میں رہ کر مسلمانوں سے لڑے یا کسی بھی نوعیت کی خدمت کرے یا محض کاتب بن کر کافروں کی اعانت کرے تو ایسا شخص بھی کافر ہے ۔ ”(١)
(وَّسَكَنْتُمْ فِيْ مَسٰكِنِ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْٓا اَنْفُسَهُمْ وَتَبَيَّنَ لَكُمْ كَيْفَ فَعَلْنَا بِهِمْ وَضَرَبْنَا لَكُمُ الْاَمْثَالَ ) ( ابراہیم :٤٥)
”حالانکہ تم ان قوموں کی بستیوں میں رہ بس چکے تھے جنہوں نے اپنے اوپر ظلم کیا تھا اور دیکھ چکے تھے کہ ہم نے ان سے کیا سلوک کیا اور ان کی مثالیں دے دے کر ہم تم کو بھی سمجھا چکے تھے ۔ ”
حواشی
یہ مضمون جریدہ "الواقۃ” کراچی کے شمارہ، شعبان المعظم 1433ھ/ جون ، جولائی سے قسط وار شائع ہو رہا ہے۔
سود سے نجات کیسے حاصل کریں؟
الواقعۃ شمارہ ٣
ابو عمار محمد سلیم
قران مجید اور احادیث مبارکہ میں سود کی ممانعت
١۔قران مجید میں سود کی ممانعت
قرآن ایسی تمام برائیوں سے انسان کو دور رہنے کا حکم دیتا ہے اور سرکشی اور بغاوت کی روش اختیار کرنے والوں کو آخرت کے عذاب سے ڈراتا ہے۔چغلی ، جھوٹ ، چوری ، دھوکہ دہی ، زنا اور قتل و غارت گری جیسے غلط کاموں کی نشاندہی کرتا ہے اور ان سے دور رہنے کا درس دیتا ہے۔ انسان کو ایسے تمام غلط کاموں سے رک جانے کے لیے قرآن نے بڑی خوبصورتی سے بڑی مثالیں دے کر تفصیل بتائی ہے تاکہ انسانیت راہ ہدایت پر رہے اور بھٹکنے سے محفوظ رہے۔
: ”…….اور یہ جو تم سود دیتے ہو تاکہ وہ لوگوں کے مال میں شامل ہوکر بڑھ جائے تو وہ اللہ کے نزدیک بڑھتا نہیں ہے۔اور جو زکوٰة تم اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے ارادے سے دیتے ہو ، تو جو کوئی بھی ایسا کرتا ہے وہ اپنے مال کو کئی گنا بڑھا لیتا ہے۔” (سورة الروم : ٣٩)۔
”………یہ اس لیے کہ یہ کہتے ہیں کہ تجارت بھی تو (نفع کے لحاظ سے) ایسا ہی ہے جیسے سود (لینا)۔ حالانکہ اللہ نے تجارت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام قرار دیا ہے۔’ ‘ (سورة البقرة: ٢٧٥)
” اے ایمان والو! بڑھا چڑھا کر سود نہ کھائو اور اللہ سے ڈرو تاکہ نجات حاصل کرو ۔ ” ( سورة آل عمران : ١٣٠)۔
” اللہ سود کو نابود (بے برکت) کرتا ہے اور صدقہ (کی برکت) کو بڑھاتا ہے اور اللہ کسی ناشکرے گنہگار سے محبت نہیں کرتا ۔” (سورة البقرہ : ٢٧٦)۔
” مومنو! اللہ سے ڈرو اور اگر ایمان رکھتے ہو تو جتنا سود رہ گیا ہے اس کو چھوڑ دو۔ ”(سورة البقرة: ٢٧٨)
” جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ( قبروں سے) اس طرح اٹھیں گے جیسے کسی کو شیطان نے چھو کر دیوانہ بنا دیا ہو……….اور پھر جو (حرام کی طرف لوٹا) اور (سود) لینے لگا تو ایسے لوگ دوزخی ہیں کہ ہمیشہ اس میں (جلتے) رہیں گے۔”(سورة البقرة: ٢٧٥)۔
”….اور اس کے سبب سے بھی کہ باوجود منع کئے جانے کے سود لیتے تھے اوراس سبب سے بھی کہ لوگوں کا مال ناحق کھاتے تھے….” (سورة النسائ: ١٦١)
٢۔ احادیث مبارکہ میں سود سے ممانعت
مروجہ سود کی قسموں کا جائزہ
” رسول اللہۖ نے فرمایا کہ ربا کے ستر حصے ہیں اور اس میں سب سے کمترین حصہ اس کے برابر ہے کہ انسان خود اپنی ماں کے ساتھ شادی کرے (یعنی ہم بستری کرے)۔” (سنن ابن ماجہ) ۔
آج کے دور کا نظام معیشت
١۔ ذاتی اور کاروباری لین دین
٢۔ بینک کاکاروباری نظام
٣۔ قومی سیونگ سرٹیفیکیٹ
٤۔ پرائز بانڈ
٥۔ قسطوں پر خریداری
٦۔ ہائوس بلڈنگ کا قرض
٧۔ پوسٹ آفس کے سیونگ اکائونٹ اور سرٹیفیکیٹ
٨۔ حرام آمدنی کے دیگر ذرائع
ہمارے اسلاف کا طرز عمل
” لوگوں پر ایک ایسا زمانہ ضرور آئے گا جس میں ایسا کوئی شخص باقی نہیں رہے گا جس نے سود نہ کھایا ہو ، اور اگر کسی نے سود نہ کھایا ہو گا تو اس کا غبار اس تک ضرور پہنچے گا۔ ” (سنن ابو دائود اور ابن ماجہ)۔
” حضور نبی اکرم ۖ پر جو آخری آیت نازل ہوئی وہ سود کے متعلق تھی اورحضور نے اس کی پوری تشریح بیان نہیں فرمائی تھی کہ آپ ۖ کا وصال ہوگیا۔ لہٰذا سود کو بھی چھوڑ دو اور ان چیزوں کو بھی چھوڑ دو جن میں سود کا شائبہ بھی ہو۔”
” حضرت شعبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب نے فرمایااور کہا کہ ہم نے نوے فیصد حلال کو ربا کے خوف سے چھوڑ رکھا ہے۔”
حقیقت Reality کیا ہے؟ یہ کون بتائے گا؟ منشائے کلام متکلم بتائے گا یا کوئی اور؟
الواقعۃ شمارہ ٣
سیّد خالد جامعی ( کراچی یونی ورسٹی ،کراچی )
حقیقت Reality کیا ہے؟ یہ کون بتائے گا؟ منشائے کلام متکلم بتائے گا یا کوئی اور؟
( هُوَ الَّذِيْٓ اَخْرَجَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ مِنْ دِيَارِهِمْ لِاَوَّلِ الْحَشْرِ ڼ مَا ظَنَنْتُمْ اَنْ يَّخْرُجُوْا وَظَنُّوْٓا اَنَّهُمْ مَّانِعَتُهُمْ حُصُوْنُهُمْ مِّنَ اللّٰهِ فَاَتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ حَيْثُ لَمْ يَحْتَسِبُوْا ۤ وَقَذَفَ فِيْ قُلُوْبِهِمُ الرُّعْبَ يُخْرِبُوْنَ بُيُوْتَهُمْ بِاَيْدِيْهِمْ وَاَيْدِي الْمُؤْمِنِيْنَ ۤ فَاعْتَبِرُوْا يٰٓاُولِي الْاَبْصَارِ ) [٥٩:٢]
وہی ہے جس نے اہل کتاب میں سے کافروں کو ان کے گھروں سے پہلے حشر کے وقت نکالا تمہارا گمان (بھی) نہ تھا کہ وہ نکلیں گے اور وہ خود بھی سمجھ رہے تھے کہ ان کے (سنگین) قعلے انہیں اللہ (عذاب) سے بچا لیں گے . پس ان پر اللہ کا عذاب ایسی جگہ سے آپڑا کہ انہیں گمان بھی نہ تھا اور ان کے دلوں میں اللہ نے رعب ڈال دیا اور وہ اپنے گھروں کو اپنے ہی ہاتھوں اجاڑ رہے تھے اور مسلمان کے ہاتھوں (برباد کروا رہے تھے) پس اے آنکھوں والو! عبرت حاصل کرو۔
( اِذْ يُوْحِيْ رَبُّكَ اِلَى الْمَلٰۗىِٕكَةِ اَنِّىْ مَعَكُمْ فَثَبِّتُوا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ۭسَاُلْقِيْ فِيْ قُلُوْبِ الَّذِيْنَ كَفَرُوا الرُّعْبَ فَاضْرِبُوْا فَوْقَ الْاَعْنَاقِ وَاضْرِبُوْا مِنْهُمْ كُلَّ بَنَانٍ ) [٨:١٢]
( سَـنُلْقِيْ فِيْ قُلُوْبِ الَّذِيْنَ كَفَرُوا الرُّعْبَ بِمَآ اَشْرَكُوْا بِاللّٰهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهٖ سُلْطٰنًا ۚ وَمَاْوٰىھُمُ النَّارُ ۭ وَبِئْسَ مَثْوَى الظّٰلِمِيْنَ ) [٣:١٥١]
( اِذْ يُغَشِّيْكُمُ النُّعَاسَ اَمَنَةً مِّنْهُ ) [٨:١١]
(وَلَا تَهِنُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ ) [٣:١٣٩]
( فَمَا وَهَنُوْا لِمَآ اَصَابَھُمْ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَمَا ضَعُفُوْا وَمَا اسْتَكَانُوْا ۭ وَاللّٰهُ يُحِبُّ الصّٰبِرِيْنَ ) [٣:١٤٦]
( الَّذِيْٓ اَطْعَمَهُمْ مِّنْ جُوْعٍ ڏ وَّاٰمَنَهُمْ مِّنْ خَوْفٍ) [١٠٦:٤]
تنِ حرم میں رُوحِ بت خانہ
الواقعۃ شمارہ ٣
عبدالخالق بٹ
”کچھ اور لوگ ہیں جنھوں نے ایک مسجد بنائی اِس غرض کے لیے کہ (دعوتِ حق کو) نقصان پہنچائیں، اور (خدا کی بندگی کرنے کے بجائے) کفر کریں، اور اہلِ ایمان میں پھوٹ ڈالیں، اور (اس بظاہر عبادت گاہ کو) اْس شخص کے لیے کمین گاہ بنائیں جو اس سے پہلے خدا اور اْس کے رسولۖ کے خلاف برسر پیکار رہ چکا ہے۔ وہ ضرور قسمیں کھا کھا کرکہیں گے کہ ہمارا ارادہ تو بھلائی کے سوا کسی دوسری چیز کا نہ تھا۔ مگر اللہ گواہ ہے کہ وہ جھوٹے ہیں۔ تم اس عمارت میں کھڑے نہ ہونا۔ جو مسجد اوّل روز سے تقویٰ پر قائم کی گئی تھی وہی اس کے لیے زیادہ موزوں ہے کہ تم اْس میں (عبادت کے لیے) کھڑے ہو، اْس میں ایسے لوگ ہیں جو پاک رہنا پسند کرتے ہیں اور اللہ کو پاکیزگی اختیار کرنے والے ہی پسند ہیں۔” (سورہ توبہ:108 – 107)
چاک کردی ترک ناداں نے خلافت کی قباسادگی مسلم کی دیکھ اوروں کی عیاری بھی دیکھ
مری نگاہ کمالِ ہنر کو کیا دیکھے
کہ حق سے یہ حرمِ مغربی ہے بیگانہ!
حرم نہیں ہے فرنگی کرشمہ بازوں نے
تن حرم میں چھپادی ہے روح بْت خانہ!
یہ بت کدہ اْنھیں غارت گروں کی ہے تعمیر
دمشق ہاتھ سے جن کے ہْوا ہے ویرانہ!
رندانِ فرانسس کا مے خانہ سلامتپْر ہے مئے گل رنگ سے ہر شیشہ حلب کا
تصوف میں غیر اسلامی ادیان کی آمیزش
الواقعۃ شمارہ ٣
محمد عالمگیر
مترجم : ابو عمار محمد سلیم
شیخ عیسیٰ نورالدین اور حلول کا تصور
شیخ عبدالواحد یحیٰ کا پیدائش اور موت کے چکر کا فلسفہ
”درحقیقت دنیا کا آخری وقت بار بار آسکتا ہے۔ اس لیے کہ مختلف دوران کے کئی چکر ہوتے ہیں جو ایک دوسرے کے اندر چکراتے رہتے ہیں۔ اس لیے بھی کہ یہ تخمینہ مشابہت رکھنے والے دوسرے ادوار میں ہر درجہ پر لاگو ہوسکتا ہے۔ لیکن یہ ظاہر ہے کہ ہر مرتبہ آخر کی اہمیت ایک جیسی نہیں ہے، بلکہ جس دور کے آخر کی بات ہو رہی ہے وہ بہت اہم ہے اس لیے کہ یہ آخر پورے مَنوَنْتَر یا انسانیت کے وجود سے متعلق ہے۔ مگر پھر بھی یہ بات زور دے کر کہی جاسکتی ہے کہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ آخر پوری کائنات کا اختتام ہے بلکہ دائمی بحا لی کے نظام کے تحت اس آخر کے بعد فوری طور پر ایک نئے منو نتر کی ابتدا ہوگی ۔”
” اس موضوع پر ابھی ایک اور نکتہ کی وضاحت باقی ہے۔ مسلسل ترقی کے داعی یہ کہتے نہیں تھکتے کہ سنہرا دور ماضی میں نہیں بلکہ مستقبل میں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جہاں تک ہمارے اپنے منونتر کا تعلق ہے ، یہ دور ماضی میں تھا۔ اس لیے کہ یہ اولین دور سے متعلق ہے۔ ایک احساس یہ بھی ہے کہ یہ ماضی میں بھی ہے اور مستقبل میں بھی، مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ ہماری نظر نہ صرف موجودہ منونتر پر رہے، بلکہ کائناتی نظام کے چکر کا تواتر پر بھی ہماری نظر رہے ۔ اس لیے کہ جب مستقبل کی بات ہوگی تو وہ سنہرا دور ایک اگلے منونتر ہی میں ممکن ہے۔
مَنْوَنْتَر
منونتر یا منو و نتر یا منو کا دور۔ منو ہندئوں کے یہاں نسل انسانی کا بانی ہے۔ منونتر آفاقی وقت کی پیمائش کا ایک پیمانہ ہے۔ منونتردراصل منو اور انتر یعنی دور کا امتزاج ہے جس کا مطلب بنتا ہے منو کا دور یا اس کی زندگی کا دور ۔
ہر منونتر ایک خاص منو کی تخلیق ہے اور اس کی حکومت کے زیر اثر ہے۔ اس منو کی تخلیق برہما نے کی ہے جو کہ خالق ہے۔ منو دنیا اور اس کی تمام چیزوں کی تخلیق اپنے دور میں خود کرتا ہے، جو اس کی زندگی تک قائم رہتا ہے۔ اس منو کی موت پر برہما ایک اور منو کی تخلیق کرتا ہے تاکہ یہ چکر جو سرشٹی کا چکر کہلاتا ہے چلتا رہے۔ اسی طرح وشنو بھی ایک نئے اوتار کو جنم دیتا ہے اور ایک نیا اِندر اور سات رِشیوں کا تقرر کرتا ہے ۔
ہندئووں کے وقت کے حساب سے ہر ١٤ منو اور ان کے منونتر مل کر ایک کلپا بنتا ہے جس کو جُگ بھی کہتے ہیں، جو برہما کا دن ہوتاہے۔ ہر کلپا کے خاتمہ پر تمام چیزیں فنا ہوجاتی ہیں اور دنیا بھی ختم ہو جاتی ہے، اور آرام کے دور میں چلی جاتی ہے جسے برہما کی رات کہتے ہیں۔
اس عمل کے بعد برہما تخلیق کا عمل دوبارہ شروع کرتا ہے۔ اور یہ کبھی ختم نہ ہونے والا چکر چلتا رہتا ہے۔ تخلیق کے ہر عمل کے بعد تباہی کا عمل شروع ہوتاہے۔ ان دونوں کاموں کی ذمہ داری ہندئوں کے دیوتا شیو پر ہوتی ہے۔
سُوِیتا وَراہا کلپا (موجودہ کلپا ) کے ١٤ منو
پہلا منونتر : سو یمبھو منو کا دور دوسرا منونتر: سو روچش منو کا دور تیسرا منونتر: اُتم منو کا دور چوتھا منونتر: تمش منو کا دور پانچواں منونتر: رَیوت منو کا دورچھٹا منونتر: چَکشُش منو کا دور ساتواں (موجودہ) منونتر: ویوسو تھ منو کا دورآٹھواں (اگلا) منونتر: ساورنی منو کا دورنواں منونتر: دکشا ساورنی منو کا دور دسواں منونتر: برہما ساورنی منو کا دور گیارہواں منونتر: رُدْرا ساورنی منو کا دوربارہواں منونتر: دھرما ساورنی منو کا دورتیرہواں منونتر: رَوکیا یا دیو ساورنی منو کا دورچودھواں منونتر: بَھوتا یا اِندرا ساورنی منو کا دور (ختم اقتباس وکی پیڈیا )
درحقیقت دنیا کا آخری وقت (یعنی قیامت) کئی مرتبہ آسکتا ہے ( جو کہ کسی خاص مانو کے دور پر منطبق ہو) ۔ اس لیے کہ مختلف دوران کے کئی چکر ہوتے ہیں جو ایک دوسرے کے اندر چکراتے رہتے ہیں ( یعنی کلپائوں کے اندر منونتر، منونتروں کے اندرچترجگ، اور چترجگوں کے اندر٤ جگ)۔اس لیے بھی کہ یہ تخمینہ مشابہت رکھنے والے دوسرے ادوار میں ہر درجہ پر لاگو ہوسکتا ہے۔ لیکن یہ ظاہر ہے کہ ہر مرتبہ آخر کی اہمیت ایک جیسی نہیں ہے، بلکہ جس دور سے وہ متعلق ہو اس پر منحصر ہے (اس لیے کہ ایک کلپا سے دوسرے کلپا تک کی تبدیلی بہت بڑی تبدیلی ہے بمقابلہ منونتر ، چترجگ اورجگ کی تبدیلیوں کے) ، آج کل جس دور کے آخر کی بات ہو رہی ہے وہ بہت اہم ہے اس لیے کہ یہ آخر پورے منو نتر یا انسانیت کے وجود سے متعلق ہے ( شائد اس لیے کہ یہ ساتویں منونترکا اکہترویں چترجگ کا چوتھا جگ ہے) ۔ گویا کہ اسے انسانیت کے زمانی وجود کا دوربھی کہہ سکتے ہیں ( جو ابھی اکہترویں چترجگ کے کالی جگ کا حصہ ہے) ۔ مگر پھر بھی یہ بات زور دے کر کہی جاسکتی ہے کہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ آخر پوری کائنات کا اختتام ہے بلکہ دائمی بحالی کا جو اثر ہے وہ فوری طور پر اس آخر سے ایک نئے منو نتر کے آ غاز ( سوارنی منو کے دور کا آغاز ہوگا جو کہ جاری وراہا کلپا کا آٹھواں حصہ ہے) کو بحال کرے گا جو ایک دوسرے منو نتر کے دور کا ابتدا بن جائے گا۔
”ابھی ایک اور نکتہ کی وضاحت باقی ہے۔ ترقی کے داعی یہ کہتے نہیں تھکتے کہ سنہرا دور ماضی میں نہیں تھا بلکہ مستقبل میں ہے ( یہاں مصنف ترقی کے داعیوں کو قصور وار ٹھہرا رہے ہیں کہ وہ اس قول پر تکیہ کیے ہوئے ہیں کہ ” جیت سچ کی ہوگی” جو یہ اشارہ دے رہا ہے کہ آخر میں آکر سچ ہی جیتے گا)۔ حقیقت یہ ہے کہ جہاں تک ہمارے اپنے منو نتر کا تعلق ہے ، ( اس کا سنہری دور) ماضی میں تھا۔ ( ایک خیالی تصور جس کی رو سے روحانی یا اخلاقی ترقی بے معنی ہو جاتی ہے ) اس لیے کہ یہ اولین دور سے متعلق ہے۔ ( ان کا اشارہ ستیہ جگ یا سچائی کے دور سے ہے جو موجودہ چتر جگ کا حصہ ہے)۔ ایک احساس یہ بھی ہے کہ یہ ماضی میں بھی ہے ( یعنی پچھلے چتر جگ کے ستیہ جگ میں جو ساتویں منونتر کا حصہ تھا) اور مستقبل میں بھی ( یعنی اس ستیہ جگ میں جو آٹھویں منونتر کا پہلا چترجگ میں ہوگا)۔ مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ نظریں صرف اس موجودہ منوونتر پر نہ رہے ( اس حالت کے قابل قبول ہونے کے لیے یہ قبول کرنا ضروری ہے کہ اس چکر در چکر منونتر اور چترجگ کا کوئی خاتمہ نہیں ہے) بلکہ اس کو تمام کائناتی نظام کے چکر یا دور تک بھی لے جایا جا ئے اس لیے کہ جب مستقبل کی بات ہوگی تو وہ سنہرا دور شائد ایک اگلے منونتر کے دور کے بارے میں بھی ہو سکتا ہے ( یعنی ستیہ جگ جو آٹھویں منونتر کے پہلے چتر جگ میں وقوع پذیر ہوگا)۔
موت کے بعد کوئی موت نہیں
( لَا يَذُوْقُوْنَ فِيْهَا الْمَوْتَ اِلَّا الْمَوْتَةَ الْاُوْلٰى ۚ ) سورة دخان ( ٥٦ : ٤٤)
یعنی پہلی موت کے علاوہ اور کسی موت کا ذائقہ نہیں چکھے گا۔
( وَلَوْلَا نِعْمَةُ رَبِّيْ لَكُنْتُ مِنَ الْمُحْضَرِيْنَ ٥٧ ۔ اَفَمَا نَحْنُ بِمَيِّتِيْنَ اَفَمَا نَحْنُ بِمَيِّتِيْنَ ۙ ٥٨۔ اِلَّا مَوْتَتَنَا الْاُوْلٰى وَمَا نَحْنُ بِمُعَذَّبِيْنَ ٥٩۔ اِنَّ ھٰذَا لَهُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ ٦٠۔ لِــمِثْلِ ھٰذَا فَلْيَعْمَلِ الْعٰمِلُوْنَ ٦١۔) سورة صافات ( ٦١- ٥٧ : ٣٧)
(پھر وہ خوشی کے عالم میں اپنے ساتھیوں سے کہے گا) اگر میرے رب کا احسان نہ ہوتا تو میں بھی دوزخ میں حاضر کیے جانے والوں میں ہوتا۔ اچھا تو کیا اب ہمیں موت نہیں آئے گی؟ سوائے اس موت کے جو ہمیں پہلے آچکی؟ اور ہمیں عذاب بھی نہیں ہوگا؟ حقیقت یہ ہے کہ زبردست کامیابی یہی ہے۔ اس جیسی کامیابی کے لیے عمل کرنے والوں کو عمل کرنا چاہئے۔
( لَا يَمُوْتُ فِيْهَا وَلَا يَحْيٰي )
یعنی وہ اس میں نہ مریگا، نہ زندہ رہے گا ۔ سورة طٰہٰ(٧٤ : ٢٠) اور سورة اعلیٰ ( ١٣ : ٨٧)،
نور اور ہدایت
( اِنَّآ اَنْزَلْنَا التَّوْرٰىةَ فِيْهَا هُدًى وَّنُوْرٌ ) سورة مائدہ ( ٤٤ : ٥ )۔
”ہم نے تورات نازل کی جس میں ہدایت بھی تھی اور نور بھی۔”
” اور ہم نے ان (پیغمبروں)کے بعد عیسیٰ ابن مریم کو اپنی سے پہلی کتاب یعنی تورات کی تصدیق کرنے والا بنا کر بھیجا، اور ہم نے ان کو انجیل عطا کی جس میں ہدایت تھی اور نور تھا۔”
” اور (اے رسول محمد! ۖ) ہم نے تم پربھی حق پر مشتمل کتاب نازل کی ہے جو اپنے سے پہلی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے اور ان کی نگہبان ہے۔ لہٰذا ان لوگوں کے درمیان اسی حکم کے مطابق فیصلہ کروجو اللہ نے نازل کیا ہے، اور جو حق بات تمہارے پاس آگئی ہے اسے چھوڑ کر ان کی خواہشات کے پیچھے نہ چلو۔”
بے جا آزاد خیالی
مسلمانوں میں دیگر مذاہب کے خیالات کا دخول
” تمام مذاہب ایک ہیں۔ ان کا اختلاف صرف ظاہری ہے۔یہودی، عیسائی اور مسلمانوں کو ایک دوسرے کی حمایت کرنی چاہئے۔ ” اس نے لندن کے ایک پادری کو لکھا: ”میں دو بڑے مذاہب ، اسلام اور عیسائیت کو ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر گلے ملتے ہوئے دیکھنا چاہتا ہوں۔ پھر تورات ، انجیل اور قرآن ایسی کتابیں ہونگی جو ایک دوسرے کی حمایت اور تائید کر رہی ہونگی، جو ہر جگہ پڑھی جا رہی ہونگی اور ان کی ہر قوم میں عزت و تکریم بھی ہو رہی ہو گی۔”
("Philosophia Perennis” is the central concept of the "Traditional School” formalized in the writings of Rene Guenon, Frithjof Schuon and Ananda Coomaraswamy. The term was first used in the 16th century by Agostino Steuco in his book entitled De perenni philosophia libri X (1540), in which scholastic philosophy is seen as the Christian pinnacle of wisdom to which all other philosophical currents in one way or another point. The idea was later taken up by the German mathematician and philosopher Gottfried Leibniz, who used it to designate the common, eternal philosophy that underlies all religions, and in particular the mystical streams within them. The term was popularized in more recent times by Aldous Huxley in his 1945 book: The Perennial Philosophy. The Hindu revivalist notion of Sanatana Dharma has been taken as a translation of Philosophia Perennis) – (Wikipedia)
” گِنوں (یعنی شیخ عبد الواحد یحیٰ) synthesis اور syncretism کو الگ الگ واضح کرتا ہے۔ syncretism میں دوسری جگہوں سے جمع کیے گئے اجزا کو ملا کر اکٹھا کیا جاتا ہے جبکہ وہ اجزا باہم بے محل ہوتے ہیں، اور آپس میں گھل مل نہیں سکتے۔ یہ ایک بیرونی چیز ہے جس کے اجزا کو دوسری جگہوں سے مستعار لیا جا سکتا ہے یکساں نہیں کیا جا سکتا۔ اس موضوع پر بحث کرتے ہوئے وہ Symbolism of the Cross میں لکھتا ہے کہ: ”syncretism فوری طور پر پہچان میں آجاتا ہے جب یہ نظر آئے کہ اس کے مختلف اجزا کو باہر سے مستعار لے کر اکٹھا کیا گیا ہے یہ سوچے بغیر کہ یہ سب اجزا ایک ہی عقیدے کی مختلف تشریحات اور شکلیں ہیں ، یا پھر مختلف النوع اعمال ہیں جو کسی خاص حالت اور زمان و مکاں سے متعلق ہیں۔ گِنوں کے مطابق یہ انداز فکر تھیوسوفیکل سوسائٹی کے عقائد میں ملتا ہے۔ اس کے بالمقابل synthesis میں چیزوں کو ان کے اصل کے تناظر میں دیکھا جا تا ہے، اور اگر وحدانیت کے پس منظر میں رکھا جائے، اور اس ادراک کے ساتھ ان کے عقائد سے منسلک رکھا جائے، تو اظہار کے کثیر التعداد مظاہر کے باوجود سچ کی اصل حقیقت کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اس آگاہی کے ساتھ ایک شخص کو یہ آزادی حاصل ہو جاتی ہے کہ وہ مذہب کے کسی بھی شکل میں سچ کو اپنالے۔ ہر ایک کا اپنا اپنا اندازِ بیان ہے، جو انہیں خاص تحفہ کے طور پر عطا کی گئی ہے ۔ لہٰذا تمام کے تمام روایتی مظاہر کو synonymies یا ایک دوسرے کے مترادف کہہ سکتے ہیں۔ رِنے گِنوں کہتا ہے کہ صلیب کا نشان قدیم زمانے سے مختلف شکلوں میں مختلف علاقوں میں رائج رہا ہے ۔ اس لیے صلیب صرف عیسائیوں کے عقیدہ سے منسلک نہیں ہے ، اور اس کو کسی بھی روایتی پس منظر میں مختلف اعتبار سے دیکھا جا سکتا ہے۔
” اور( حقیقت یہ ہے کہ) اِن ( مشرکین) میں سے اکثر لوگ کسی اور چیز کے نہیں، صرف وہمی انداز ے کے پیچھے چلتے ہیں، اور یہ یقینی بات ہے کہ حق کے معاملے میں وہمی اندازہ کچھ کام نہیں دے سکتا۔ یقین جانو، جو کچھ یہ لوگ کر رہے ہیں، اللہ اس کا پورا پورا علم رکھتا ہے۔” سورة یونس ( ٣٦ :١٠)
”وہ محض وہم و گمان کے پیچھے چل رہے ہیں، اور حقیقت یہ ہے کہ وہم و گمان حق کے معاملے میں بالکل کار آمد نہیں۔” سورة نجم (٢٨:٥٣)۔
قسط نمبر ١ کا مطالعہ کیجئے قسط نمبر ٣ کا مطالعہ کیجئے
یہ مضمون جریدہ "الواقۃ” کراچی کے شمارہ، شعبان معظم 1433ھ/ جون، جولائی 2012- سے ماخوذ ہے۔
وحی متلو اور غیر متلو قرآنی تقسیم ہے قسط (1)
الواقعۃ شمارہ نمبر ٣
علّامہ تمنا عمادی مجیبی پھلواروی
وحی متلو اور غیر متلو قرآنی تقسیم ہے
میرے ایسے مضامین بھی برابر چھپتے رہے جن سے ادارے کو کم و بیش اختلاف تھا ۔ ہجرت کے بعد میں ڈھاکہ پہونچا اور ادارہ طلوعِ اسلام نے کراچی کو اپنا مستقر بنایا باوجود بُعد المشرقین کے باہمی مخلصانہ تعلقات قائم ہوئے اور میرے مضامین طلوعِ اسلام میں چھپنے لگے ۔ البیان بھی لاہور سے نکلنے لگا اور اس میں بھی میرے مضامین چھپتے رہے مگر البیان زندہ نہ رہ سکا جس کا مجھ کو افسوس ہے ، طلوعِ اسلام میں میرے وہی مضامین چھپتے رہے جو ادارہ طلوعِ اسلام کے مسلک کے موئد تھے اور جن سے ادارے کو ذرا سا بھی اختلاف ہوا وہ مضامین شائع نہ ہوئے چنانچہ بعض واپس شدہ مضامین اب تک میرے پاس موجود ہیں طلوعِ اسلام سے تعلقات پیدا ہونے کے چند برس کے بعد ہی سے مجھ کو اس کے مسلک سے اختلاف ہوا تو میںنے کسی اور رسالے میں اپنے اختلافی مضامین شائع کرانے کے بجائے نجی طور پر مراسلت شروع کی اور اپنے اختلاف سے مطلع کرتا رہا کیونکہ اس طور پر افہام وتفہیم سے اصلاح کی توقع زیادہ ہوتی ہے ، بہ نسبت اس کے کہ رسائل و جرائد میں ردّ و قدح کا ہنگامہ برپا کیا جائے اس لیے کہ ایسی صورت میں مناظرے اور ضد کی نوعیت پیدا ہوجانے کا قوی امکان ہوتا ہے ، چنانچہ بہت سے مسائل پر نجی خطوط کے ذریعہ مسلسل افہام و تفہیم کرتا رہا اور یہ صورت حال امسال تک جاری رہی ۔
حواشی
المغراف فی تفسیر سورۂ ق قسط : (٣)
شمارہ نمبر ٣
مولانا شاہ عین الحق پھلواروی رحمہ اللہ
تسہیل و حواشی :محمد تنزیل الصدیقی الحسینی
قسط : ( ٣ )
(٢) ان کا باہم مختلف ہونا اور جلد جلد تبدل رائے کرتے رہنا اور آپ ( ۖ ) کا ابتداء سے انتہاء تک اپنے دعویٰ پر ثابت و قائم رہنا ، اور بَرملا اس کو ظاہر کرتے رہنا اور روز بروز عقلا اور اہلِ دانش کا قبول کرتے جانا اس بات کی صریح دلیل ہے کہ آپ کا دعویٰ حق ہے اور اب ان کا انکار کسی دلیل کی بنا پر نہیں ہے بلکہ نری [صرف] ہٹ دھرمی اور حماقت ہے اگر اب بھی کفار اللہ تعالیٰ کے احاطۂ علمی کو تسلیم نہ کریں اور اپنے اختلافِ باہمی سے بھی اپنے کو غلطی پر نہ مانیں ، تو تیسری دلیل پیش کیجئے ، اور لوحِ محفوظ میں وقائع ]واقعات[ کا لکھا ہونا بھی دلیل ہے ، وہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم کو کیا علم کہ اللہ جلّ شانہ کے یہاں وقائع و حوادث کی کوئی کتاب لکھی ہوئی دھری ہے ، تو دلیل عقلی سے سمجھائیے ۔
( اَوَلَيْسَ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِقٰدِرٍ عَلٰٓي اَنْ يَّخْلُقَ مِثْلَهُمْ ) [ یٰس:٨١]
"بھلا جس نے آسمانوں اور زمینوں کوپیدا کیا ،وہ ان کے مثل ( دوبارہ ) پیدا کرنے پر قادر نہیں ؟”
( لَخَــلْقُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اَكْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ ) [غافر: ٥٧]
"بے شک آسمان اور زمین کا پیدا کرنا آدمیوں کے پیدا کرنے سے زیادہ مشکل ہے ۔”
( اَوَلَمْ يَرَوْا اَنَّ اللّٰهَ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَلَمْ يَعْيَ بِخَلْقِهِنَّ بِقٰدِرٍ عَلٰٓي اَنْ يُّـحْيِۦ الْمَوْتٰى ) [الاحقاف : ٣٣]
"کیا ان لوگوں نے نہ دیکھا کہ جس اللہ نے آسمان و زمین کو پیدا کیا ، اور اسے اس میں کچھ دقت نہ ہوئی وہ مردوں کے زندہ کرنے پر قادر ہے ۔”
(لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِيْٓ اَحْسَنِ تَقْوِيْمٍ ) [التین :٤ ]
"انسان کو نہایت اچھی تناسب میں بنایا”
(لَقَدْ مَنَّ اللّٰهُ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ اِذْ بَعَثَ فِيْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِھِمْ يَتْلُوْا عَلَيْھِمْ اٰيٰتِھٖ وَيُزَكِّيْھِمْ وَيُعَلِّمُھُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ ۚ وَاِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ ) [ آل عمران :١٦٤]
"اللہ نے مسلمانوں پر بڑا ہی کرم کیا ، جو انہیں میں سے ایک بڑی شان والا رسول بھیجا ، جو ان کو قرآن پڑھ پڑھ کر سناتا ہے اور انہیں ( گندگیوں ) سے پاک کرتا ہے ، اور کتاب کی ( تعمیل کا طریقہ ) سکھاتا ، اور مکارم اخلاق بتاتا ہے ، ورنہ اس کے قبل یہ لوگ صریح گمراہی میں پڑے تھے ۔”