اسلامی جمہوریہ پاکستان کی شکست و ریخت کا صیہونی پلان اور اس کی تکمیل


الواقعۃ شمارہ 47 ربیع الثانی  1437ھ

از قلم : پروفیسر حبیب الحق ندوی

” فلسطین اور بین الاقوامی سیاسیات ” پروفیسر حبیب الحق ندوی مرحوم کی ایک انتہائی گراں قدر محققانہ تصنیف ہے۔ یہ کتاب 1976ء میں کراچی سے طبع ہوئی تھی۔ ذیل کا مضمون اسی کتاب سے ماخوذ ہے۔ امید ہے قارئین ” الواقعۃ ” کے لیے اس کی طباعت نَو مفید ثابت ہوگی۔ ( ادارہ )

*…*…*…*…*

بین الاقوامی سازشوں نے دسمبر 1971ء میں دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست کو بزور قوت دو ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا اور اقوام متحدہ ، جو در حقیقت نیتشے کے فلسفہ قوت کا مظہر ہے ، پاکستانی شکست و ریخت کا تماشہ دیکھتا رہا ۔[1] اقوام متحدہ پر صیہونی کنٹرول اور سامراج کے ساتھ اس کا گٹھ جوڑ اظہر من الشمس ہے۔

ہم یہ سمجھتے رہے کہ محض سفید و سرخ سامراج نے ہندوستان سے اس ” المیہ ڈرامہ ” کو اسٹیج کیا اور اسی لیے ہماری نظریں دست ہندی اور دست روسی سے آگے نہیں جا سکیں۔ صحافت بھی روس کے مکر و فریب پر بین کرتی رہی۔[2] بد قسمتی سے ہماری نظریں دست اسرائیل کا انکشاف نہیں کر سکیں حالانکہ وہ خفیہ طور پر پروٹوکول کے نظریات پر عمل پیرا تھے اور اسلامی ریاست پاکستان کو توڑنے کے لیے اس لیے درپے تھے کہ اسے پیغمبر اسلام کے ساتھ محبت تھی اور عربوں کے ساتھ ہمدردی بھی۔

جون 1967ء میں اسرائیل نے جس طرح شرقِ اوسط کو روندا ہے دنیا نے دیکھا۔ جنگ کے بعد اسرائیل کی نظریں پاکستان کی طرف اٹھیں۔ چنانچہ 1967ء کی جنگ کے بعد پہلے اسرائیلی وزیر اعظم بن گورین Ben Gurion نے پاکستان کو توڑنے کی ہدایات عالمی صیہونیت کو دیں جو برطانوی یہودی ہفتہ وار جیوئش کرونکل The Jewish Chronicle مورخہ 19 اگست 1967ء میں منظر عام پر آئیں۔ بن گورین نے ساربون Sorbonne پیرس میں تقریر کرتے ہوئے عالمی صیہونیت کو حسب ذیل الفاظ میں مخاطب کیا :

” عالمی صیہونی تحریک کو پاکستان کے خطرے سے بے خبر رہنا نہیں چاہیے بلکہ اب صیہونیت کا پہلا نشانہ پاکستان پر ہونا چاہیے کیونکہ یہ نظریاتی ریاست ہمارے وجود کے لیے ایک چیلنج ہے۔ پاکستان یہودیوں سے نفرت اور عربوں سے محبت کرتا ہے۔عرب ہمارے لیے اتنے خطرناک نہیں ہیں ۔ جتنا عربوں کے ساتھ محبت کرنے والا پاکستان خطرناک ہے۔ اس خطرے کے پیشِ نظر صیہونیت کے لیے انتہائی ضروری ہے کہ وہ پاکستان کے خلاف فوری قدم اٹھائے۔

اس کے بر خلاف ہندوستان کے ہندو تاریخ میں ہمیشہ مسلمانوں سے نفرت کرتے رہے ہیں ، پاکستان کے خلاف جدو جہد کرنے اور تحریک چلانے کے لیے ہندوستان ہی ہمارے لیے سب سے اہم محاذ ہے ضروری ہے کہ ہم اس محاذ کو استعمال کریں اور بھیس بدل کر یا خفیہ پلان کے ذریعہ یہیں سے یہودیوں اور صیہونیت سے نفرت کرنے والے پاکستانیوں پر کاری ضرب لگائیں اور انہیں فنا کر دیں۔ اصل انگریزی متن ملاحظہ ہو [3] :

“The World Zionist Movement should not be neglectful of the danger of Paksitan to it and that Pakistan now should be it first target, for this idealogical state a threat to our existence. And that Pakistan, the whole of it, hates the Jews and loves the Arabs. This love of the Arabs is more dangerous to us than the Arabs themselves. For that matter it is most essential for the World Zionism that it should now take immediate steps against Pakistan.

Wheres the inhabitants of the Indian peninsula are Hindu whose hearts have been full of hatred throughout history against the muslims. Therefore, India is the most important base for us to work therefrom against Pakistan. It is essential that we exploit this base and strike and crush Pakistanis, enemis of Jews and Zionism, by all disguised and secret plans.”

بن گورین تنہا پروٹوکول پر عمل پیرا نہیں بلکہ ہر فرد اسی ڈگر پر چل رہا ہے۔ پروفیسر ہرٹز ایک یہودی امریکی عسکری ماہر نے اپنی کتاب کے صفحہ 215 پر پاکستان کے خلاف حسب ذیل خیالات کا اظہار کیا۔

” پاکستانی افواج میں پیغمبر اسلام کی بے پناہ محبت موجود ہے۔ یہی محبت پاکستانیوں اور عربوں کو ایک لڑی میں پروئے ہوئے ہے۔ یہ عالمی صیہونیت کے لیے عظیم خطرہ ہے اور اسرائیلی توسیعات کے لیے رکاوٹ بھی۔ اسرائیلیوں کا یہ فریضہ ہے کہ وہ کسی طرح اس محبت کو مٹا دیں۔ "

اصل انگریزی عبارت ملاحظہ ہو [4] :

“The Pakistan army carries great love for the prophet Muhammad and this is what strengthens the bonds between Pakistan and Arabs. And this is really the grave danger to the world Zionism and the stumbling block to the expansion of Israel. Therefore, it is essential for the jews that they should destroy the love for the Prophet Muhammad by all means.”

مشرقی پاکستان کو توڑنے میں خفیہ طور پر اور بھیس بدل بدل کر کیا کچھ صیہونیوں نے کیا اس کا علم عوام کو نہیں۔ البتہ جو حقائق منظر عام پر آ چکے ہیں وہ حد درجہ عبرتناک ہیں اور تاریخی تنبیہ کے لیے کافی بھی۔ 1967ء کے بعد سے بن گورین کی ہدایات پر کس طرح عمل ہوا اور ہندوستانی محاذ کو کس طرح استعمال کیا گیا اس کے دو ایک واقعات کی طرف اشارہ کافی ہے۔ اسرائیلی خفیہ کاوشات کا نتیجہ تھا کہ 1967ء کے بعد محض تین سال کے اندر 1971ء میں پاکستان کو توڑ دیا گیا۔

انگریزی روزنامہ ڈان 22 دسمبر 1971ء کو لندن کے نمائندہ کی زبانی ( مورخہ 21 دسمبر 1971ء ) حسب ذیل حقائق کو منظر عام پر لایا۔

ہندی افواج میں مشرقی کمانڈ کے یہودی چیف آف اسٹاف میجر جنرل جیکب نے جس کے قریبی فیملی تعلقات اسرائیل کے ساتھ قائم ہیں۔ مشرقی پاکستان کو توڑنے میں کارہائے نمایاں انجام دیئے۔ جدید روسی اسلحہ جات اور تکنیکی مدد سے اس نے آخر اس اسلامی جمہوریہ کو توڑا مقبوضہ مشرقی پاکستان میں پہلے ہندی فوجی کمانڈر کی حیثیت سے جنرل جیکب کا تقرر عمل میں آیا۔ 1967ء کی شرقِ اوسط کی جنگ کے بعد ہندی فوجی ہائی کمان نے جنرل جیکب کے ذمہ یہ فریضہ عائد کیا کہ وہ اسرائیلی حربی داؤ اور برق رفتار جنگی مہارت کا  خصوصی مطالعہ کرے اور ہندی طیاروں کو اس کے لیے تیار کرے تاکہ چین اور پاکستان کے خلاف اسے استعمال کیا جا سکے۔ جیکب نے روسی تکنیکی مدد سے مشرقی پاکستان پر حملہ کا پلان تیار کیا۔ اس حملہ کی تیاری کئی سالوں سے ہو رہی تھی۔ جیکب نے پاکستان کے اندر اور دونوں بازؤں کے درمیان کہر بائی انٹر سپشن کی تنصیبات کا نظم کیا۔ جاسوسی کا جال وسیع پیمانہ پر پھیلا دیا۔ ہپی لڑکیوں کو مامور کر کے پاکستانی فوجی کنٹونمنٹ میں ارسال کرتا رہا اور وہ تمام اہم فوجی خبریں حاصل کرتا رہا جو حملہ آور ہندوستانی فوجی افسران کے لیے بے حد اہم تھیں۔

سقوطِ مشرقی پاکستان کے فوراً بعد اسی ہفتہ جیوئش آبزرور لندن میں میجر جیکب کو خراج تحسین پیش کیا گیا ۔ جیکب راکٹ کے فوجی استعمال میں مہارت رکھتا تھا اور ہندی افواج کو اس کی تربیت دی تھی جیکب کی بہن جیوئش آبزرور میں شعبہ اشتہارات میں منیجر کی حیثیت سے ملازمہ ہے۔ خبر کا انگریزی متن ملاحظہ ہو [5] :

JEWISH KNOW-HOW HELPED INDIA IN E. WING CAMPAIGN

Israeli military strategy with aid of modern seviet weapons and amphibious tanks and vehicles was deployed in war in East Pakistan by Maj-Gen. JFR Jacob, Jewish Chief of staff of Indian Army’s Eastern Command who has close family links with Israel.

Maj-Gen, Jacob has been appointed Indian military Governor of occupied Eastern Wing.

After 1967 Middle East conflict the Indian Army High Command entrusted Maj-Gen Jacob with the task of studying Israeli strategy of lightning and applying it to Indian war plans against Pakistan and China.

With soviet technical help Maj-Gen. Jacob masterminded the East Pakistan campaign which has been in preparation for some years. He also organised electronic interception of communications inside Pakistan and between the country’s two Wings. Through elaborate espionage net-work employing “hippy girls” visiting Pakistani Cantonments and other agents Maj-Gen. Jacob obtained information which was extremely valuable to officers of invading Indian Army.

Tribute to Maj-Gen. Jacob was paid in this week’s issue of “Jewish Observer” of London, where his sister is employed as advertisement manager. According to this journal, “Maj-Gen. Jacob excelled in rocket weaponry was largely responsible for training Indian artillery command and has a flair for army organisation and skilful planning.”

ان حقائق کی روشنی میں بلا تامل کہا جا سکتا ہے کہ شکست پاکستان میں بین الاقوامی صلیبی سازشوں کے ساتھ صیہونی سازش بھی بے حد طاقتور تھی۔ اسے صرف اشتراکی اسلحہ جات کی مدد حاصل نہیں تھی بلکہ اس کے مربی اعلیٰ برطانیہ کی حمایت بھی حاصل تھی جس نے تقسیم ہند میں بھی کھلی نا انصافیاں کی تھیں۔ چرچل خود صیہونی تھا اور اسرائیل کی مدد کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار تھا کسے معلوم ہے کہ سر زمین ہند میں یہودی اثرات کو قائم کرنے میں اس کا کیا اثر تھا۔ ہندی وائسرائے لارڈ ویول نے احتجاجاً فلسطین کے موضوع پر ایک خصوصی کیبنٹ میں تقریر کرتے ہوئے وزیر اعظم چرچل پر  بڑی جسارت کے ساتھ یہ تبصرہ کیا کہ وہ غالی صیہونی ہے۔ ویول کے نقد میں یہودیوں کے لیے تاریخی مسیحی نفرت کی جھلکیاں بھی موجود ہیں۔

“I knew Winston was a confirmed Zionist, but had never quite realised the length to which he was prepared to go ……… the P.M. said the Arabs had done nothing to help us in tha war. I said that (they) had been invaluable and that (their) enmity might have done as much harm, after all the jews, as a race, had not helped us……………” [6]

ان بین الاقوامی سازشوں کی روشنی میں ہر محب پاکستان کا یہ فریضہ ہے کہ وہ اس نظریاتی مملکت کی حفاظت کے لیے سر بکف رہے اور سازشوں سے با خبر رہنے کی کوشش کرے۔ یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک ملک کے تعلیمی اداروں میں شرق اوسط کے متعلق تعلیم و تدریس کا سلسلہ شروع نہ ہوگا ان حقائق کے پیشِ نظر ملک و قوم کا یہ فریضہ ہے کہ وہ پاکستانی جامعات ، کالجوں ، اور مدارس میں مڈل ایسٹ کے مطالعہ کا خصوصی اہتمام کرے ، علاقائی دراسات کے لیے ایسے شعبے کھولے جائیں جو ایک ” ہند – اسرائیلی "، تعلقات پر ریسرچ جاری رکھ سکے اور دوسری طرف شرقِ اوسط سے متعلق پاکستان کے ہمدردانہ مؤقف کے خلاف اقوام متحدہ کے اندر اور اس کے باہر ہونے والی صیہونی سازشوں اور پلان سے اہلِ ملک کو با خبر رکھ سکے۔ کون جانتا ہے کہ مشرقی پاکستان کے المیہ کے بعد مغربی پاکستان میں چار قومیتوں کے نظریہ اور لسانی تنازعات کو جنم دینے میں دیگر عناصر کے ساتھ صیہونی ہاتھ بھی ملوث رہا ہو۔

عالم اسلام کی بد قسمتی ہے کہ یہاں سائنسی نہج پر شرقِ اوسط کے خصوصی دراسات کا اہتمام نہیں کیا گیا ، نہ ہی انہیں نظام تعلیم کا حصہ قرار دیا گیا۔ حالانکہ حالات حاظرہ ( کرنٹ افیرز ) کے طالب علم اور استاذ دونوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ دنیا کے سب سے بڑے اور پیچیدہ ترین مسئلہ سے با خبر رہیں۔ بلکہ عالم اسلام میں صیہونی خفیہ سرگرمیوں اور شکست و ریخت کے پروگرام سے اپنے ملک و قوم کو متنبہ کرتے رہیں۔

مرحوم عبد اللہ التل نے اپنی کتاب ” الافعی الیهودیة فی معاقل الاسلام ” ( بیروت ) میں بڑی حد تک ان سازشوں کا انکشاف کیا ہے جو صیہونی عالم اسلام کی تارجی کے سلسلے میں کر رہے ہیں۔ ترکی مصادر کی روشنی میں مؤلف مرحوم نے ثابت کیا ہے کہ ترکی کی شکست و ریخت میں انہوں نے کیا کیا کردار ادا کیے۔ ( وہی ترکی جو یہودیوں کی سب سے بڑی پناہ گاہ رہی اور مسیحی یورپ کے راندہ درگاہ کا مامن بھی)

صیہونیت کے ساتھ بین الاقوامی ہمدردیاں مخفی نہیں۔ بن گورین کی ہدایات پر اگر دست صیہون نے ہندوستان میں اشتراکی اسلحہ جات کی مدد سے مشرقی پاکستان کو توڑا تو وہ اسی وسیع پلان کا ایک حصہ تھا۔ اشتراکیت پاکستان سے اس لیے بھی متنبہ ہے کہ یہاں کی اسلامی تحریکات کے ذریعہ مرحوم اسلامی ماوراء النہر میں اسلامی شعور بیدار ہونے کا خطرہ ہے ۔ اسی لیے بحر و بر کے ذریعہ پاکستان کے خلاف اسلحہ جات استعمال ہوتے رہے۔ ابھی زیادہ دن نہیں گزرے ہیں کہ پاکستانی صحافت میں زور دار بحث چھڑی تھی کہ 1971ء میں اشتراکی اسلحہ جات مصر کی سرزمین سے ہو کر ہندوستان پہنچے تھے۔[7] خود اندرونِ ملک عراقی سفارت خانے سے روسی ساخت کے جو اسلحہ جات بر آمد ہوئے وہ دنیا کو معلوم ہے۔ یہ اسلحہ جات تخریب پسند عناصر کو چھاپہ مار جنگ کی تربیت کے لیے استعمال کیے جا رہے تھے۔ آخر سفارت خانے سے سیکڑوں مشین گنوں ، ( تین سو ) بموں ، ہزاروں کارتوسوں ، (36 ہزار ) ٹرانسمیٹروں کے بر آمد ہونے کے کیا معنی ؟ سفارتی غسلخانے سے اسلحہ جات کی 23 پیٹیاں کیوں بر آمد ہوئیں ؟ اور اکاؤنٹنٹ کے کمرہ میں گوریلا جنگ کی تربیت کا سامان صوفے پر کیوں سجایا گیا تھا؟ بے شمار خالی پیٹیوں کے اسلحہ جات کہاں تقسیم کیے گئے ؟ وغیرہ وغیرہ ایسے اہم سوالات ہیں جن کا حل شرقِ اوسط کے علاقائی دراسات کے بغیر ممکن نہیں۔ عراقی سفارت خانے میں جو کچھ ہوا اسے خود سفیر عراق ، ملکی اور غیر ملکی صحافیوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ یہ پیٹیاں ان کی موجودگی میں کھولی گئیں۔[8] ان سازشوں کے خلاف اللہ پاکستان کی حفاظت کرے کیونکہ اس کی تائیدِ غیبی سے یہ نظریاتی ریاست وجود میں آئی ہے اور وہی اس کا محافظ ہے۔

پاکستان اسلام کے مستقبل کی آرزو ہے اور اسلام کو عملی شکل میں پیش کرنے کی تمنا بھی۔ گزشتہ نصف عشرہ میں پاکستان نے اقوام متحدہ کے اندر اور باہر جس جرات کے ساتھ عربوں کے مؤقف کی تائید کی ہے اور اسلامی یروشلم کی بحالی کے سلسلے میں جو کردار ادا کیا ہے وہ لائقِ صد ستائش اور ہزار تحسین ہے ۔ اقوام متحدہ کے ریکارڈ کا طالب علم اس حقیقت سے بے خبر نہیں۔ اسلامی نشاۃ ثانیہ ، سیاسی اور اقتصادی اتحاد کے سلسلہ میں اس کی مساعی جمیلہ کا نقطہ عروج دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس ( 1974ء ) اس کا تاریخ ساز کارنامہ ہے۔

[1] H.H Nadvi, Islamic Perspectives, Karachi

جلد 1 عدد 4 دسمبر 1971ء ص 116-130 ، جلد 2 عدد 1 مارچ 1972ء ص 171-183 ، جلد 2 عدد 2،3 جون و ستمبر 1972ء ص 221-243 ، جلد 2 عدد 4 دسمبر 1972ء ص 262-264

[2]   (1) اداریہ اردو روزنامہ جنگ کراچی 12 دسمبر 1971ء

(2) مجلۃ رابطۃ العالم الاسلامی ، مکۃ المکرمۃ عدد 9 جنوری 1972ء

(3) الداون الهندی علیٰ باکستان ، اهدافه و مرامیه ۔۔۔۔ و القوی التی تقف خلفه از استاذ ضیاء شہاب ص 72-75

[3]   جیوئش کرانکل 9 اگست 1967ء ، روزنامہ مارننگ نیوز ، 21 اگست 1972ء زیر نظر ہے۔

[4]   ایضاً

[5]   انگریزی روزنامہ ڈان کراچی 22 دسمبر 1971ء

[6]  Lord Wavell, the Viceroy’s Journal ed bx. Penderel Moon, Oxford University Press 1973, p. 8-9

[7]   چند ماہ قبل پاکستانی صحافت میں اس امر پر خوب بحث چلی کہ پاکستان کے خلاف جنگ کے لیے روسی اسلحہ جات مصر کی سر زمین سے ہو کر ہندوستان پہنچے۔ روزنامہ اہرام کے خبرنامے پر تبصرے ہوئے۔ حکومت مصر نے اس کی تردید بھی کی۔

[8]   روزنامہ جنگ کراچی ، 12 فروری 1973ء ص 1

Please Leave a Reply

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.