حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ


الواقعۃ شمارہ 44 – 45 محرم و صفر 1437ھ

اشاعت خاص : سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ

از قلم : مولانا حافظ جلال الدین احمد جعفری

حضرت عمر بن الخطاب کے حالات

ایام جاہلیت میں بھی آپ کا خاندان نہایت ممتاز تھا۔ آپ ہجرت سے 40 سال قبل پیدا ہوئے۔ اسلام سے قبل آپ نے سپہ گری ، پہلوانی، شہسواری سیکھ لی تھی۔ نسب دانی میں بھی آپ کو مہارت تھی۔ لکھنا پڑھنا بھی سیکھ لیا تھا۔ منصب سفارت پر مامور تھے۔ قبائل عرب میں جب کوئی رنج پیدا ہو جاتا تو آپ سفیر بن کر جاتے۔آپ کا نام عمر اور ابو حفص کنیت اور فاروق لقب تھا۔ آپ کے والد کا نام خطاب تھا۔

ذریعہ معاش آپ کا تجارت تھا۔ اسی سلسلہ سے دور دور ملکوں کا آپ نے سفر کیا ۔ آپ کی عمر 27 سال کی ہوئی۔ جب حضور ﷺ کو نبوت عطا ہوئی اور توحید کی صدا بلند ہوئی۔ حضرت عمر جب کسی کے نسبت سنتے کہ وہ اسلام لایا تو سخت غصہ ہوتے۔ آپ کے بہنوئی حضرت سعید اور آپ کی بہن فاطمہ مسلمان ہوئیں۔ اور ایک لونڈی لبینہ مسلمان ہوئی۔ لبینہ کو آپ بے حد مارتے۔ جب تھک جاتے تو فرماتے ذرا دم لے لوں۔ اس کے علاوہ جس پر قابو چلتا اس کو مارتے۔ مگر کسی نے بھی ان سختیوں سے اسلام کو نہ چھوڑا۔ آخر مجبور ہوکر خود حضور ﷺ کے قتل کا ارادہ کیا۔ تلوار کمر میں لگا سیدھے حضور ﷺ کی طرف چلے۔ راہ میں نعیم بن عبد اللہ مل گئے اور ان کے تیور دیکھ کر پوچھا خیر تو ہے ۔ بولے محمد ﷺ کا فیصلہ کرنے جاتا ہوں۔ انہوں نے کہا پہلے اپنے گھر کی تو خبر لیجیے۔ تمہاری بہن اور بہنوئی اسلام لا چکے ہیں۔

فوراً پلٹے ۔ بہن کے یہاں گئے۔ وہ قرآن پڑھ رہی تھیں۔ آپ کی آہٹ پاکر چپ ہو گئیں۔ اور قرآن کے اجزا چھپا لیے۔ لیکن ان کے کانوں میں آواز پڑ چکی تھی۔ پوچھا یہ کیا آواز تھی۔ بولیں کچھ نہیں ۔ آپ نے فرمایا میں سن چکا ہوں تم دونوں مرتد ہو گئے ہو۔ یہ کہہ کر بہنوئی کو مارنا شروع کیا۔ جب بہن بچانے آئیں تو ان کو بھی اس قدر مارا کہ تمام جسم سے خون بہنے لگا۔ انہوں نے کہا کہ اے عمر ! تم جو چاہے کرو مگر اب اسلام ہمارے دل سے نہیں نکل سکتا۔

ان الفاظ سے آپ کے دل پر خاص اثر ہوا۔ بہن کی طرف محبت کی نگاہ سے دیکھا۔ فرمایا کہ تم لوگ جو پڑھ رہے تھے۔ مجھے بھی سناؤ۔ آپ کی بہن نے قرآن مجید کے اجزا سامنے لا کر رکھ دیئے۔ دیکھا تو یہ لکھا تھا سَبَّحَ لِلَّهِ مَا فِي ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلۡأَرۡضِۖ وَهُوَ ٱلۡعَزِيزُ ٱلۡحَكِيمُ ١ ( زمین و آسمان میں جو کچھ ہے سب خدا کی تسبیح پڑھتے ہیں وہ غالب حکمت والا ہے)۔ یہ سورہ حدید کی آیت ہے اس کے ہر ہر لفظ سے آپ کے دل پر اثر ہوتا تھا۔ یہاں تک کہ جب ءَامِنُواْ بِٱللَّهِ وَرَسُولِهِۦ پر پہنچے تو بے اختیار پکار اٹھے کہ اَشهَدُ اَن لاَّ اِلٰهَ الاَ الله وَ اَشهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُولُ الله۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آستانہ مبارک پر پہنچ کر دستک دی چونکہ ہاتھ میں ننگی تلوار تھی صحابہ کو تردد ہوا۔ تو حضرت حمزہ نے فرمایا آنے دو۔ مخلصانہ آئے ہیں تو بہتر ہے ورنہ انہیں کی تلوار سے ان کا سر قلم کر دوں گا۔

حضرت عمر نے جب اندر قدم رکھا تو حضور ﷺ خود آگے بڑھے اور ان کا دامن پکڑ کر فرمایا : کیوں عمر کس ارادہ سے آئے ہو ؟ آپ کو دیکھ کر حضرت  عمر پر آپ کا رعب طاری ہوگیا ۔ کانپ اٹھے۔ عرض کیا ایمان لانے کے لیے۔ حضور ﷺ نے اور صحابہ نے بے ساختہ زور سے اللہ اکبر کا نعرہ بلند کیا۔

حضرت انس کی روایت میں بجائے سورہ حدید کے سورہ طٰہٰ ہے۔ جب آپ اِنَّنِي اَنَا اللَّهُ لا اِلَاَ اِلاَّ اَنَا فَاعْبُدْنِي وَاَقِمِ الصَّلاةَ لِذِكْرِي ( میں ہی خدا ہوں ، سوا میرے کوئی خدا نہیں ہے، اس لیے مجھی کو پوجو اور میری یاد کے لیے نماز قائم کرو۔) اس آیت پر پہنچے تو بے اختیار پکار اٹھے لاَ اِلٰهَ الاَ الله اور فرمایا کہ مجھے حضور میں لے چلو۔

آپ نبوت کے چھٹے یا ساتویں سال مسلمان ہوئے۔ اس وقت صرف 39 آدمی مسلمان ہوئے تھےمگر مسلمان چھپ چھپ کر عبادت کرتے تھے۔ آپ کے اسلام کے ساتھ ہی حالت بدل گئی جب آپ نے کفار کے مجمع میں اپنے اسلام کا اعلان فرمایا تو کفار کو نہایت غصہ ہوا اور آپ کو بھی ایذائیں پہنچاتے رہے۔ مگر آپ نہایت استقلال سے ان کا مقابلہ فرماتے رہے۔ یہاں تک کہ اعلانیہ کعبہ میں جماعت کے ساتھ آپ نے نماز پڑھی۔ حضور ﷺ نے اس صلہ میں آپ کو فاروق کا لقب عطا فرمایا۔

چھ سات برس تک آپ نے کفار کی ایزائیں اٹھائیں ۔ 13ھ میں حضور ﷺ کی اجازت سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرمائی۔ چند آدمیوں کو ساتھ لے کر اس طرح روانہ ہوئے کہ ہتھیار بند خانہ کعبہ پہنچے۔ نہایت اطمینان سے طواف کیا۔ نماز پڑھی پھر مشرکین سے فرمایا جس کو مقابلہ کرنا ہو مکہ سے باہر نکل کر مقابلہ کرے۔ مگر کسی کی ہمت نہ پڑی۔

آپ نے مدینہ پہنث کر قبا میں قیام فرمایا۔ آپ کے بعد اور بہت سے صحابہ ہجرت کر کے تشریف لے گئے ۔ یہاں تک کہ حضور ﷺ نے خود حضرت ابو بکر کو ساتھ لے کر ہجرت کی اور قبا میں قیام فرمایا۔

مدینہ پہنچ کر سب سے پہلے حضور ﷺ نے مہاجرین کے قیام کا انتظام فرمایا اور انصار سے ان کا بھائی چارہ قائم کر دیا۔ آپ کی اخوۃ عتبان بن مالک سے قائم کی۔ پھر آپ وہیں رہنے لگے۔ جب مسلمانوں کی تعداد بڑھی تو اعلان نماز کی ضرورت ہوئی۔ حضرت عمر نے یہ رائے دی کہ ایک آدمی مقرر ہو وہ اعلان کرے۔ اس وقت سے اذان قائم ہوئی۔

غزوات اور آپ کے دیگر حالات

اسلام لانے کے بعد سے حضور ﷺ کی وفات تک جتنی لڑائیاں پیش آئیں۔ غیر قوموں سے جو معاہدات ہوئے اور جو انتظامات کیے گئے۔ اور اشاعت اسلام کی جو تدبیریں عمل میں آئیں۔ کوئی کام بغیر حضرت عمر کی شرکت کے انجام نہیں پایا۔ مگر یہاں ہم مختصراً لکھتے ہیں ۔

جب آنحضرت ﷺ نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی تو قریش کو یہ خیال ہوا کہ اگر مسلمانوں کی جلد بیخ کنی نہ کی گئی تو زیادہ زور پکڑ جائیں گے۔ اس خیال سے اب انہوں نے مدینہ پر حملے کی تیاریاں شروع کیں۔ ایک سال کے بعد 2ھ میں بدر کا واقعہ پیش آیا۔ اس میں حضرت عمر رائے، تدبیر ، جانبازی سے حضور ﷺ کے ساتھ تھے۔ یہاں تک کہ حضور ﷺ کے اور اسلام کے مقابل میں آپ نے عزیزوں کی بھی پرواہ نہ کی۔ اپنے ماموں عاصی بن ہشام کو اپنے ہاتھ سے مارا۔

واقعہ بدر کے بعد مدینہ کے یہود سے یہ معاہدہ ہوا کہ مسلمانوں کے خلاف دشمن کو مدد نہ دیں گے اور کوئی دشمن چڑھ آئے تو مسلمانوں کی مدد کریں گے۔ لیکن پھر ان کو یہ ڈر پیدا ہوا کہ مسلمان زور پکڑ کر ان کے مقابل بن جائیں گے اس لیے خود چھیڑ شروع کر دی۔ یہاں تک کہ معاہدہ توڑ ڈالا۔ حضور ﷺ نے ان پر چڑھائی کی۔ یہاں تک کہ سب گرفتار کر کے جلا وطن کیے گئے۔

قریش کو بدر کی شکست سے بدلہ لینے کا بے حد جوش تھا۔ یہاں تک کہ شوال 3ھ میں احد کا معرکہ پیش آیا۔ اس میں پہلے تو مسلمانوں کی فتح ہوئی۔ لیکن مسلمان مال غنیمت پر ٹوٹ پڑے مشرکین نے دوبارہ حملہ کر دیا۔ اس میں مسلمانوں کو شکست ہوئی کسی نے حضور ﷺ کے شہید ہونے کی خبر غلط مشہور کر دی۔ جس سے مسلمان پریشان ہو گئے ۔ کوئی مدینہ بھاگ گیا۔ کوئی اس خیال سے لڑتا رہا کہ آپ کے بعد جینا بیکار ہے۔ کسی نے سپر ڈال دی کہ اب لڑنے سے کیا حاصل۔ حضرت عمر نے بھی سپر ڈال دی۔ حضرت انس نے آپ سے کہا کہ اگر حضور ﷺ شہید ہوگئے تو خدا تو زندہ ہے بیٹھے کیا ہو چل کر لڑو۔ حضرت انس خود لڑے اور 170 زخم کھا کر شہید ہوئے۔ حضرت عمر کو جب یہ معلوم ہوا کہ حجور زندہ ہیں تو حضور ﷺ کی خدمت میں پہنچے۔

پھر ایک دستہ فوج کفار کا حضور کی طرف بڑھا۔ اس وقت حضور پہاڑ پر تھے۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ خدایا یہ لوگ یہاں تک نہ آنے پائیں۔ حضرت عمر نے چند مہاجرین اور انصار کے ساتھ آگے بڑھ کر حملہ کیا اور ان لوگوں کو ہٹا دیا۔ ابو سفیان نے درّہ کے قریب پہنچ کر پکارا کہ گروہ میں محمد ہیں کہ نہیں۔ حضور ﷺ نے اشارہ سے منع فرمایا اس لیے کسی نے جواب نہ دیا۔ ابو سفیان نے پھر ابو بکر رضی اللہ عنہ کا نام لے کہا کہ اس مجمع میں ہیں کہ نہیں۔ جب بھی کسی نے جواب نہ دیا تو اس نے کہا کہ بے شک یہ لوگ مارے گئے۔ پھر کہا اعل ھبّل ( اے ہبل بلند ہو ) اس وقت حضور ﷺ کے حکم سے حضرت عمر نے جواب دیا اللہ اعلیٰ و اجل ( خدا بلند اور برتر ہے)۔

غزوہ احد کے بعد حضرت عمر کی صاحبزادی حضرت حفصہ حضور ﷺ کے نکاح میں آئیں۔

غزوہ احد کے بعد بنو نضیر کا واقعہ پیش آیا۔ حضور ﷺ حضرت ابو بکر اور حضرت عمر کو ساتھ لے کر ان سے مدد کے لیے گئے۔ ان لوگوں نے ایک شخص کو آمادہ کیا کہ چھت پر چڑھ کر آپ پر پتھر کی سل گرا دے حضور ﷺ کو بذریعہ وحی خبر ہو گئی۔ آپ وہاں سے اٹھ کر چلے گئے اور کہال بھیجا کہ تم لوگ مدینہ سے نکل جاؤ ۔ انہوں نے انکار کیا اور لڑنے کو تیار ہوئے۔ آپ نے گرفتار کر کے ان کو جلا وطن کر دیا۔ ان میں سے کچھ شام چلے گئے اور کچھ خیبر یہ سب یہود تھے۔ وہاں جا کر اپنی حکومت قائم کرلی۔

وہاں سے مکہ معظمہ جا کر قریش کو ترغیب دی اور قبائلِ عرب میں دورہ کر کے تمام ملک میں آگ لگا دی۔ تھوڑے ہی دنوں میں قریش کے جھنڈے کے نیچے دس ہزار آدمی جمع ہو گئے اور شوال 5ھ میں ابو سفیان کی سرداری میں مدینہ کا رخ کیا۔ حضور ﷺ نے مدینہ سے باہر نکل کر سلغ پہاڑ کے آگے ایک خندق تیار کرائی ۔ کفار نے خندق کے گرد ہر طرف اپنی فوجیں پھیلا دیں اور رسد وغیرہ بند کر دی۔ ایک مہینہ تک محاصرہ رہا۔ ایک حصہ پر حضرت عمر متعین تھے۔ یہاں ان کے نام کی ایک مسجد اب تک موجود ہے۔ ایک دن کافروں نے حملہ کیا تو حضرت عمر نے آگے بڑھ کر روکااور ان کی جماعت متفرق کر دی۔ یہاں تک کہ مسلمانوں کی فتح ہوئی۔ اس جنگ کا نام جنگ احزاب یا جنگِ خندق ہے۔

6ھ میں حضور ﷺ نے زیارت کعبہ و عمرہ کا قصد فرمایا ۔ اس خیال سے کہ قریش کو لڑائی کا شبہ نہ ہو حکم دیا کہ کوئی شخص ہتھیار باندھ کر نہ چلے ذو الحلیفہ مدینہ سے چھ میل پر ہے۔ وہاں پہنچ کر حضرت عمر کو یہ خیال ہوا کہ اس طرح چلنا مصلحت کے خلاف ہے۔ حضور ﷺ سے عرض کیا۔ آپ نے ان کی رائے پسند فرمائی۔ اور مدینہ سے ہتھیار منگوائے۔ جب مکہ معظمہ دو منزل وہ گیا تو مکہ سے ابو سفیان کے لڑکے بشیر نے آ کر خبر دی کہ قریش نے یہ عہد کر لیا ہے کہ مسلمانوں کو مکہ میں نہ جانے دیں۔ حضور ﷺ نے حضرت عمر کو اس خدمت پر مقرر کرنا چاہا۔ آپ نے عرض کیا کہ قریش کو مجھ سے سخت عداوت ہے اور میرے خاندان کا مکہ میں کوئی نہیں ہے۔ حضرت عثمان کے عزیز وہیں ہیں۔ اس لیے ان کو بھیجنا چاہیے۔ آپ نے یہ رائے پسند فرمائی اور حضرت عثمان کو بھیج دیا۔ قریش نے ان کو روک رکھا۔ کئی دن کے بعد یہ خبر مشہور ہوئی کہ وہ شہید کر دیئے گئے حضور ﷺ نے یہ سن کر صحابہ سے جو تعداد میں 1400 تھے جہاد پر بیعت لی یہ بیعت ایک درخت کے نیچے ہوئی تھی اس لیے اس کو بیعت الشجر کہتے ہیں اور آیت رضوان کی مناسبت سے اس کو بیعت الرضوان بھی کہتے ہیں۔ بعد کو معلوم ہوا کہ خبر غلط ہے۔ پھر کفار سے معاہدہ ہوا کہ اس مرتبہ مسلمان لوٹ جائیں۔ اگلے سال آئیں۔ لیکن تین دن سے زیادہ نہ ٹھہریں اور دس برس تک لڑائی موقوف رہے۔ اس درمیان میں اگر قریش کا کوئی آدمی یہاں آ جائے تو مسلمان اس کو واپس دیدیں۔ اگر مسلمانوں کا کوئی آدمی قریش کے پاس آ جائے تو ان کو اختیار ہوگا کہ واپس دیں یا نہ دیں۔

اس معاہدہ سے حضرت عمر سخت بے چین ہوئے۔ حضرت ابو بکر سے کہا ، انہوں نے کہا کہ حضور ﷺ جو کرتے ہیں اسی میں مصلحت ہوگی۔ لیکن آپ کو تسکین نہ ہوئی۔ خود حضور ﷺ کے پاس جا کر گفتگو کی۔ اس کے بعد معاہدہ لکھا گیا اور بڑے بڑے صحابہ کے دستخط ہوئے۔ معاہدہ کے بعد حضور ﷺ مدینہ شریف لوٹے راہ میں سورہ فتح نازل ہوئی۔ حضور ﷺ نے حضرت عمر کو بلا کر فرمایا کہ یہ سورہ اس وقت نازل ہوئی ہے اس معاہدہ کے بعد میل جول سے اس قدر لوگ مسلمان ہوئے کہ اس سے پہلے 18 برس کی مدت میں بھی اس قدر مسلمان نہ ہوئے تھے۔

اس کے بعد 7 ھ میں خیبر کا واقعہ پیش آیا۔ خیبر میں یہودیوں نے بڑے بڑے قلعے بنا رکھے تھے ۔ سب قلعے آسانی سے فتح ہوگئے۔ مرحب کا قلعہ حضرت علی کے ہاتھ پر فتح ہوا۔ خیبر کی زمین سے کچھ حصہ حضرت عمر کو بھی ملا تھا۔ اس کو آپ نے وقف کر دیا۔

اس کے بعد فتح مکہ کا واقعہ پیش آیا۔ بعد فتح حضور ﷺ نے جب لوگوں سے کوہِ صفا پر بیعت لی تو حضرت عمر آپ کے ساتھ تھے۔ جب آپ مردوں سے بیعت لے چکے اور عورتوں کی باری آئی تو آپ نے حضرت عمر کو حکم دیا انہوں نے عورتوں سے بیعت لی۔

اس کے بعد غزوہ حنین پیش آیا ۔ اس میں پہلے حملے میں مسلمانوں نے دشمن کو بھگا دیا۔ مگر غنیمت کے لوٹنے میں مصروف ہوئے تو دشمن نے پھر حملہ کیا۔ اور اس قدر تیر برسائے کہ مسلمانوں میں ہل چل پڑ گئی ۔ اس معرکہ میں جو صحابہ ثابت قدم رہ گئے تھے ان میں حضرت عمر بھی شامل تھے۔ اس کے بعد پھر مسلمانوں کو فتح ہوئی 6 ہزار آدمی دشمن کے گرفتار ہوئے ۔

9ھ میں یہ خبر مشہور ہوئی کہ قیصر روم عرب پر حملہ کی تیاریاں کر رہا ہے۔ حضور ﷺ نے صحابہ کو تیاری کا حکم دیا اور صدقہ کا وعظ فرمایا اکثر صحابہ نے بڑی بڑی رقمیں دیں۔ حضرت عمر نے آدھا مال لا کر حاضر کر دیا ۔ رسد کا سامان کر کے حضور ﷺ مدینہ سے روانہ ہوئے تبوک میں پہنچ کر معلوم ہوا کہ یہ خبر غلط تھی۔ اس لیے چند روز قیام کے بعد واپس آئے۔

اس کے بعد حجۃ الوداع پیش آیا۔ اس میں بھی حضرت عمر ساتھ تھے۔ وہاں سے واپسی کے بعد حضور ﷺ بیمار ہوئے۔ دس دن کی علالت کے بعد 12 ربیع الاول کو آپ نے وفات پائی۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو حضور ﷺ کی مفارقت کا اس قدر صدمہ ہوا کہ آپ کے حواس جاتے رہے۔ حضرت ابوبکر کی تقریر سے آپ کے حواس درست ہوئے۔ پھر خلافت کا معاملہ درپیش ہوا۔ مسلمانوں کی رائے سے حضرت ابوبکر خلیفہ ہوئے۔ سب سے پہلے آپ کے ہاتھ پر حضرت عمر نے بیعت کی اور ان کے زمانہ تک جس قدر بڑے بڑے کام تھے سب میں حضرت عمر شریک رہے۔

حضرت ابوبکر کو اپنے زمانہ خلافت میں تجربہ ہو گیا تھا کہ منصب خلافت کے لیے حضرت عمر فاروق سے زیادہ کوئی شخص موزوں نہیں ہے۔ مگر پھر بھی آپ نے صحابہ سے مشورہ لے کر ان کو اپنے بعد خلیفہ مقرر کیا اور بلا کر مفید نصیحتیں کیں۔

فتوحات

خلیفہ اول کے وقت عراق میں حیرہ تک فتح ہوا تھا اور شام میں سرحدی اضلاع مسلمانوں کے قبضہ میں آ گئے تھے۔ حضرت عمر نے اپنا سب سے پہلا فرض یہ سمجھا کہ ان مہمات کی تکمیل کریں۔

بیعت خلافت کے وقت اطراف سے بکثرت آدمی آئے تھے۔ آپ نے اس مجمع میں جہاد کا وعظ فرمایا۔مگر ایران بہت بڑی قوت اور سلطنت تھی لوگوں نے یہ خیال کیا کہ اس کا فتح ہونا دشوار ہے اس لیے کوئی مستعد نہ ہوا۔ آپ نے چار دن برابر وعظ فرمایا ، چوتھے دن لوگوں کے دلوں پر اثر ہوا۔ مثنی شیبانی نے کہا کہ مسلمانو ! ہم نے مجوسیوں کو خوب آزما لیا ہے وہ مرد میدان نہیں ہیں۔ پھر ابو عبید ثقفی نے نہایت جوش میں کہا کہ اس کام کے لیے میں ہوں اور بڑھ کر بیعت جہاد کیا۔ پھر تو لوگ جوق جوق بیعت جہاد کرنے لگے۔

حضرت عمر نے مدینہ اور اس کے اطراف سے ایک ہزار یا پانچ ہزار آدمی منتخب کر کے ابو عبیدہ کو سپہ سالار مقرر فرما کر روانہ کیا۔

ایران کے بادشاہ نے رستم کو جو نہایت دلیر اور مدبر مانا جاتا تھا وزیر جنگ مقرر کیا اور تمام اہل فارس کو اتفاق پر آمادہ کیا۔

رستم نے ابو عبیدہ کے پہنچنے سے پہلے فرات کے اضلاع پر قبضہ کر لیا۔ جو مسلمانوں کے قبضہ میں آ چکے تھے۔ بادشاہ ایران نے رستم کی مدد کے لیے نرسی اور جابان کی ما تحتی میں ایک اور فوج بھیجی۔ نرسی کی فوج نمارق پہنچ کر ابو عبیدہ کی فوج سے لڑی اور بری طرح شکست کھا کر بھاگی۔ اس فوج کے بڑے افسر جوشن شاہ اور مردان شاہ مارے گئے۔ جابان گرفتار ہوا۔ مگر جس نے گرفتار کیا تھا وہ پہچانتا نہ تھا۔ اس لیے اس نے یہ دھوکا دیا کہ میں بڑھاپے میں تمہارے کس کام کا ہوں۔ میرے بدلہ میں وہ غلام لے لو اور مجھے چھوڑ دو۔ اس نے منظور کر کے چھوڑ دیا۔ بعد کو معلوم ہوا کہ یہ جابان تھا۔ لوگوں نے کہا مگر ابو عبیدہ نے کہا اسلام میں بد عہدی جائز نہیں۔

اس کے بعد ساقطیہ میں پھر نرسی کی فوج سے مقابلہ ہوا اور نرسی کی فوج کو شکست ہوئی۔ اس کا یہ اثر ہوا کہ قرب و جوار کے تمام رؤسا خود مطیع ہوگئے۔

ان دونوں کی شکست کو سن کر رستم نے بہمن کو چار ہزار کی جمعیت کے ساتھ ابو عبیدہ کے مقابلہ میں روانہ کیا۔ ابو عبیدہ فرات سے پار اتر کر لڑے ۔ مسلمانوں کو سخت شکست ہوئی۔ نو ہزار سے صرف 3 ہزار باقی رہ گئے۔

حضرت عمر کو جب یہ خبر پہنچی تو سخت رنج ہوا ۔ آپ نے پر جوش وعظ کیے۔ اس سے تمام قبائل عرب میں جوش پھیل گیا ۔ یہاں تک کہ عیسائیوں نے بھی مسلمانوں کا ساتھ دیا۔ غرض حضرت عمر نے ایک بڑی فوج میدان میں روانہ کی۔ جریر بجلی کو اس کا سردار مقرر کیا ۔ یہاں مثنیٰ نے بھی ایک زبردست فوج تیار کر لی تھی۔

شاہِ ایران نے 12 ہزار بہادروں کی فوج تیار کی۔ مہران بن مہرویہ کے ساتھ مقابلہ کے لیے بھیجا۔ حیرہ کے قریب دونوں فوجوں میں سخت لڑائی ہوئی۔ مہران مارا گیا۔ مثنی نے پل کا راستہ روک دیا۔ ایرانیوں کے بکثرت آدمی مارے گئے جو بچے بھاگ گئے۔ اس فتح کے بعد مسلمان پورے عراق پر قابض ہوگئے۔

ایران میں یہ خبر پہنچی تو ایرانی سخت پریشان ہوئے۔ انہوں نے تمام قلعے مضبوط کیے اور مسلمانوں کے مفتوحہ ممالک میں بغاوت پھیلانے کی کوشش کی۔ اس طرح مسلمانوں کے ہاتھ سے تمام مفتوحہ مقامات نکل گئے۔

حضرت عمر کو جب یہ خبر پہنچی تو حضرت سعد بن وقاص کو 20 ہزار فوج کے ساتھ روانہ کیا۔ اس میں 70 بدریین تھے اور 300 بیعۃ الرضوان کے لوگ اور تین سو فتح مکہ کے لوگ تھے اور سات سو تابعی تھے۔

حضرت سعد بن وقاص نے شرات پہنچ کر پڑاؤ کیا۔ مثنی آٹھ ہزار آدمیوں کے ساتھ ذی وقار میں اس فوج کا انتظار کر رہے تھے کہ ان کا انتقال ہو گیا۔ ان کے بھائی معنّٰی حضرت سعد سے ملے اور مثنی نے جو ضروری مشورے دیئے تھے بیان کیا۔

حضرت عمر نے اسلام سے قبل ملک عراق کی سیر کی تھی ۔ وہ خوب واقف تھے ۔ اس لیے حضرت سعد سے آپ نے پڑاؤ کا نقشہ اور وہاں کی حالت اور رسد وغیرہ کا حال دریافت کیا ۔ اس کے بعد آپ نے لڑائی کے متعلق پوری ہدایتیں بھیجیں اور یہ حکم دیا کہ شرات کو چھوڑ کر قادسیہ کو میدان جنگ بنائیں۔ حضرت سعد نے اسی ہدایت کے مطابق کام کیا۔

سعد نے پہلے نعمان بن مقرن کے ساتھ 14 آدمی منتخب کر کے ایران بھیجا کہ شاہِ ایران اور اس کے دوستوں کو اسلام کی ترغیب دیں سفارت گئی اور واپس آئی ۔ نہ اسلام قبول کیا نہ جزیہ۔

اس واقعہ کے بعد کئی مہینہ تک دونوں طرف سے سکوت رہا۔ رستم سباط میں پڑا تھا اور یہ قادسیہ میں۔ جب زیادہ دن گزر گئے تو رستم کو مقابلہ کے لیے بڑھنا پڑا۔ اس لیے بھی سباط سے نکل کر قادسیہ کے میدان میں خیمہ ڈالا۔

رستم جیسا کہ پہلے سے لڑائی کو ٹالتا رہا۔ قادسیہ پہنچ کر بھی ٹالتا رہا اور مدتوں نامہ پیام کا سلسلہ جاری رکھا۔ لیکن مسلمانوں کا ہمیشہ یہ جواب ہوتا رہا کہ اسلام یا جزیہ منظور نہیں ہے تو تلوار سے فیصلہ ہوگا۔ رستم جب صلح سے مایوس ہوا تو سخت غصہ ہوا اور قسم کھائی کہ تمام عرب کو ویران کر دوں گا۔

قادسیہ کی لڑائی

رستم نے غصہ ہو کر فوج کو تیاری کا حکم دیا اور خود دوہری زرہیں پہنیں اور تمام ہتھیاروں سے آراستہ ہو کر کہا کہ کل عرب کو تباہ کردوں گا۔ کسی نے کہا اگر خدا نے چاہا بولا خدا نے نہ چاہا تب بھی۔

فوجوں کی صفیں قائم ہوئیں۔ پیچھے ہاتھیوں کا قلعہ باندھا اور وہاں سے دار السلطنت تک کچھ کچھ فاصلے پر ہاتھی بٹھا دیئے ۔ قادسیہ کا میدان آدمیوں کا جنگل نظر آنے لگا ۔ پیچھے ہاتھیوں کے کالے پہاڑ نے عجیب خوفناک سما بنا دیا۔ دوسری طرف مجاہدین اسلام کا لشکر صف بستہ کھڑا تھا۔

اسلام کی فوج نے 3 نعرے اللہ اکبر کے لگائے ، چوتے پر جنگ شروع ہوئی۔ دن بھر لڑائی ہوئی رات کو دونوں اپنے اپنے خیموں میں واپس آئے۔ شام کو چھ ہزار فوج عین معرکے کے وقت پہنچی اور حضرت عمر نے قیمتی تحفے بھیجے جو عین جنگ کے وقت پہنچے۔ قاصد نے پکار کر کہا کہ یہ تحفے ان لوگوں کے لیے ہیں جو اس کا حق ادا کریں۔ اس نے مسلمانوں کے جوش کو اور بڑھا دیا ۔ دو ہزار مسلمان اور دس ہزار ایرانی مقتول و مجروح ہوئے۔        ٍ

تیسرے دن پہلے برچھیوں سے ہاتھیوں کی آنکھیں بیکار کر دیں۔ اور پیل سفید پر تلوار ماری اس سے سونڈ کٹ گئی۔ وہ ہاتھی بھاگا۔ اس کا بھاگنا تھا کہ تمام ہاتھی اس کے پیچھے ہو لیے۔ اس طرح ہاتھیوں کے حملوں سے نجات ملی۔ تو بہادروں نے جی کھول کر لڑنا شروع کیا۔ اس زور کا رن پڑا کہ زمین دہل گئی۔ رستم بھی نہایت بہادری سے لڑتا رہا جب زخموں سے چور ہو گیا تو بھاگ نکلا اور ایک نہر میں کود پڑا کہ تیر کر نکل جائے مگر ہلال نام ایک غازی نے اس کا پیچھا کیا اور ٹانگیں پکڑ کر کھینچ لایا۔ پھر تلوار سے کام تمام کر دیا رستم کے ہلاک ہوتے ہی ایرانی سپاہیوں کے پاؤں اکھڑ گئے۔ مسلمانوں نے دور تک پیچھا کیا۔ ہزاروں لاشیں میدان میں بچھا دیں۔ قادسیہ مسلمانوں کے قبضہ میں آ گیا۔

حضرت سعد نے حضرت عمر کو فتح کی خوش خبری لکھی جس وقت قاصد یہ خبر لے کر پہنچا حضرت عمر نہایت خوش ہوئے اور مجمع عام میں اس کا اعلان کیا اور فرمایا:

” مسلمانو ! میں بادشاہ نہیں ہوں ، میں خدا کا غلام ہوں البتہ خلافت کا بار میرے سر پر رکھا گیا اگر میں اس طرح تمہارا کام کروں کہ تم چین سے گھروں میں سوؤ تو میری سعادت ہے اور اگر میری خواہش ہو کہ تم میرے دروازے پر حاضری دو تو میری بد بختی ہے۔ میں تم تو تعلیم دینا چاہتا ہوں۔ لیکن قول سے نہیں بلکہ عمل سے۔

قادسیہ کی فتح کے بعد مسلمان آگے بڑھے۔ یابل، کوثی،  بہرہ سبز، مدائن پر آسانی سے قبضہ کر لیا۔ ایرانیوں نے مدائن ( نوشیرواں کا دار السلطنت ) سے نکل کر جلولا کو اپنا فوجی مرکز بنایا اور رستم کے بھائی حرزاد نے یہاں ایک بڑی فوج جمع کر لی۔ سعد نے ہاشم بن عتبہ کو جلولا پر مقرر کیا۔ یہ ایک نہایت مضبوط مقام تھا۔ اس لیے مہینوں میں فتح ہوا۔ یہاں سے اسلامی فوج کا ایک دستہ علوان کی طرف بڑھا اور اس پر آسانی سے قابض ہو گیا حلوان عراق کا آخری سرحد ہے۔ اس کے بعد پورے عراق پر مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا۔

عراق کے نکل جانے کا ایرانیوں کو سخت رنج تھا۔ اس لیے یزدگرد نے عراق کے نکل جانے کے بعد مرو کو اپنا دار السلطنت بنایا اور تمام ملک میں فرامین بھیج کر لوگوں کو عربوں سے لڑنے کے لیے آمادہ کیا۔ ڈیڑھ لاکھ آدمی قم میں آکر جمع ہوگئے۔ یزدگرد نے مردان شاہ کو لشکر کا سردار بنا کر نہاوند کی طرف روانہ کیا۔

حضرت عمر نے نعمان بن مقرن کو تیس ہزار فوج کے ساتھ روکنے کے لیے بھیجا۔ نہاوند کے قریب سخت جنگ ہوئی۔ نعمان شہید ہوئے۔ ان کے بھائی نعیم بن مقرن نے جھنڈا ہاتھ میں لیا اور لڑائی جاری رکھی۔ رات ہوتے ہوتے ایرانیوں کے پاؤں اکھڑ گئے۔ مسلمانوں نے ہمدان تک قبضہ کر لیا۔ اس لڑائی میں تقریباً 30 ہزار ایرانی مارے گئے اور فیروز جس کے ہاتھ حضرت عمر کی شہادت ہوئی اسی لڑائی میں گرفتار ہوا۔

اس کے بعد حضرت عمر کو خیال ہوا کہ جب تک ایران میں کوئی بادشاہ موجود ہے لڑائی کا سلسلہ جاری رہے گا۔ اس لیے آپ نے عام لشکر کشی کا ارادہ کیا اور اپنے ہاتھ سے متعدد نشان تیار کیےاور مشہور افسروں کو دے کر خاص خاص ملکوں پر مقرر کیا۔ 21ھ میں یہ سب فوج اپنے متعینہ ملکوں میں روانہ ہوئیں۔ اور نہایت جوش سے حملہ کر کے تمام ملک فتح کر لیا۔ صرف ڈیڑھ دو برس کے عرصہ میں کسریٰ کی ساری حکومت دنیا سے جاتی رہی۔

حضرت عمر کو جس وقت خبر ملی تمام لوگوں کو جمع کر کے یہ خوش خبری سنائی اور ایک مؤثر تقریر کی اور آخر تقریر میں فرمایا کہ آج مجوسیوں کی سلطنت خدا کی نا فرمانی کی وجہ سے برباد ہوگئی لیکن اگر تم بھی اسلام پر قائم نہ ہوگے تو خدا تم سے بھی حکومت چھین کر دوسروں کو دے دے گا۔

فتوحات شام

شام کا کچھ حصہ خلیفہ اول کے عہد میں فتح ہو چکا تھا۔ دمشق کا محاصرہ خالد بن ولید کیے ہوئے تھے کہ خلیفہ اول کا انتقال ہو گیا۔ دمشق حضرت عمر کے عہد میں فتح ہوا۔

دمشق کی فتح سے رومیوں کو سخت رنج ہوا ہر طرف سے فوجیں جمع کر کے بیسان میں آئے مسلمانوں نے ان کے سامنے نحل میں صفیں آراستہ کیں اور عیسائیوں کے درخواست پر محاذ بن جبل سفیر بن کر بھیجے گئے۔ مگر صلح نہ ہوئی۔ آخر 14ھ کے آخر میں نخل کے میدان میں سخت جنگ ہوئی ۔ میدان مسلمانوں کے ہاتھ رہا۔ غنیم کے پاؤں اکھڑ گئے اور مسلمان صوبہ اردن کے تمام شہر اور مقامات پر قابض ہوگئے۔

دمشق اور اردن کی فتح کے بعد مسلمانوں نے حمص کا رُخ کیا۔ وہاں پہنچ کر حمص کا محاصرہ کر لیا۔ حمص والوں نے صلح کر لی پھر لاذقیہ پہنچے اور اس کے مستحکم قلعوں پر قبضہ کر لیا۔

حمص وغیرہ کی فتح کے بعد ہرقل نے دار السلطنت انطاکیہ کا رُخ کیا۔ لیکن وہاں حضرت عمر کا حکم پہنچا کہ اس سال آگے بڑھنے کا ارادہ نہ کیا جائے۔ اس لیے فوجیں واپس آ گئیں۔

بار بار شکست سے قیصر کو سخت غصہ آیا۔ مسلمانوں کے مقابلہ کے لیے اپنا پورا زور صرف کرنے پر آمادہ ہوا۔ چنانچہ اس کی کوشش سے انطاکیہ میں نہایت کثرت سے فوجیں جمع ہو گئیں۔

حضرت ابو عبیدہ نے اس طوفان کے روکنے کے لیے افسروں سے مشورہ لے کر تمام ممالک مفتوحہ کو خالی کر کے دمشق میں اپنی فوج جمع کی اور ذمیوں سے جو کچھ جزیہ وصول کیا گیا تھا۔ سب واپس کر دیا۔ اس لیے کہ اب مسلمان ان کی حفاظت سے مجبور تھے۔ اس کا عیسائیوں اور یہودیوں پر اتنا اثر ہوا کہ روتے تھے اور جوش سے کہتے تھے کہ خدا تم کو جلد واپس لائے۔

حضرت عمر کو اگرچہ مقامات مفتوحہ کے چھوڑنے کا سخت رنج ہوا۔ مگر جب معلوم ہوا کہ یہ کام افسروں کے مشورہ سے ہوا تو فرمایا کہ اسی میں خدا کی مصلحت ہوگی اور سعد بن عامر کو ایک ہزار مجاہدین کے ساتھ مدد کے لیے روانہ کیا۔

یرموک کے میدان میں سب فوجیں جمع ہوئیں ۔ رومی فوج دو لاکھ تھی اور مسلمانوں کی تعداد صرف تیس بتیس ہزار۔

یرموک کا پہلا معرکہ بے نتیجہ رہا۔ دوسرے معرکہ میں رومیوں کے جوش کا یہ عالم تھا کہ ہزاروں پادری ہاتھوں میں صلیب لیے آگے آگے حضرت عیسیٰ کا نام لے لے کر جوش دلاتے تھے۔ لیکن مسلمانوں کی بہادری اور استقلال کے سامنے ان کے پاؤں اکھڑ گئے۔ تقریباً ایک لاکھ عیسائی مارے گئے اور مسلمانوں کی طرف تین ہزار کا نقصان ہوا۔ قیصر کو یہ خبر ملی تو قسطنطنیہ کی طرف روانہ ہوگیا۔ حضرت عمر نے یہ خبر سنی تو اسی وقت خدا کے شکر کا سجدہ کیا۔

یرموک کی فتح کے بعد انطاکیہ ، جومہ ، قورس وغیرہ دس پندرہ چھوٹے چھوٹے مقامات آسانی سے فتح ہو گئے۔

بیت المقدس

حضرت عمرو بن العاص جو فلسطین کی مہم پر متعین ہوئے تھے انہوں نے 16ھ میں بیت المقدس کا محاصرہ کیا۔ اسی اثنا میں حضرت ابو عبیدہ بھی اپنے مہمات سے فارغ ہو کر شریک ہو گئے۔ وہاں کے عیسائیوں نے صلح کی خواہش کی اور یہ کہا کہ امیر المومنین خود تشریف لائیں اور اپنے ہاتھ سے معاہدہ لکھیں۔ آپ کو خبر کی گئی تو آپ حضرت علی کو نائب مقرر کر کے مدینہ سے روانہ ہوگئے۔

حضرت عمر مدینہ سے روانہ ہو کر جابیہ پہنچے۔ یہاں افسروں نے آپ کا استقبال کیا اور یہیں قیام کر کے آپ نے معاہدہ صلح لکھا پھر بیت المقدس میں داخل ہوئے۔ پہلے مسجد تشریف لے گئے پھر عیسائیوں کے گرجا کی سیر کی۔ نماز کا وقت ہوا تو گرجا کے باہر آپ نے نماز پڑھی۔

بیت المقدس سے واپس ہو کر آپ نے تمام ملک کا دورہ کیا اور بخیریت مدینہ واپس تشریف لائے۔

بیت المقدس کی فتح کے بعد جزیرہ، اہواز، سوس، شوستر وغیرہ کے چھوٹے چھوٹے معرکے پیش آئے۔ سب میں مسلمانوں کی فتح رہی۔ شوستر کا رئیس ہرمزان گرفتار ہو کر مدینہ آیا۔ یہاں پہنچ کر اسلام لایا۔ حضرت عمر کو نہایت خوشی ہوئی۔ مدینہ میں رہنے کی اجازت دی۔ دو ہزار سالانہ وظیفہ مقرر فرمایا۔

فتوحات مصر

حضرت عمر بن العاص نے حضرت عمر سے اجازت لے کر چار ہزار فوج سے مصر پر چڑھائی کی اور چھوٹے چھوٹے شہر فتح کرتے ہوئے فسطاط کے قلعہ کا محاصرہ کیااور حضرت عمر کو امداد کے لیے لکھا۔ آپ نے دس ہزار فوج چار افسروں کی ما تحتی میں بھیجا اور یہ لکھا کہ ان افسروں میں سب ایک ایک ہزار کے برابر ہے۔ وہ چار افسر حضرت زبیر بن العوام، حضرت عبادہ بن صامت، حضرت مقداد ابن عمرو ، حضرت سلمہ بن مخلد تھے۔ حضرت عمر بن عاص نے حضرت زبیر کو ان کے رتبہ کے لحاظ سے تمام فوج کا افسر کر دیا اور محاصرہ وغیرہ کے انتظامات ان کے ہاتھ میں دیدے۔ سات مہینہ محاصرہ رہا۔ ایک دن حضرت زبیر نے کہا کہ آج مسلمانوں پر قربان ہوتا ہوں۔ یہ کہہ کر ننگی تلوار ہاتھ میں لے کر سیڑھی لگا کر قلعہ کی فیصل پر چڑھ گئے۔ چند اور صحابی بھی ان کے ساتھ ہوئے۔ فصیل پر سب نے ایک ساتھ اللہ اکبر کے نعرے بلند کیے۔ تمام فوج نے نعرہ مارا۔ عیسائی یہ سمجھ کر کہ مسلمان قلعہ میں گھس آئے۔ بد حواس بھاگے ۔ حضرت زبیر نے فصیل سے اتر کر قلعہ کا دروازہ کھول دیا۔ تمام فوج اندر گھس آئی۔ مقوقس نے یہ دیکھ کر صلح کی درخواست کی۔ اسی وقت سب کو پناہ دے دی گئی۔

اس صلح کی خبر ہرقل کو ئی تو نہایت نا خوش ہوا۔ اسی وقت ایک عظیم الشان فوج روانہ کی کہ اسکندریہ بھیج کر مسلمانوں سے مقابلہ کریں۔

اسکندریہ کی فتح

راہ میں عیسائیوں نے مسلمانوں کو روکنا چاہا۔اس لیے کریون کے مقام پر جنگ ہوئی اور فتح مسلمانوں کو ہوئی۔ بکثرت عیسائی مارے گئے ۔ وہاں سے مسلمان اسکندریہ پہنچے ۔ اسکندریہ بہت دنوں کے محاصرہ کے بعدفتح ہوا۔ حضرت عمر نے مژدہ فتح سنا  تو خدا کا شکر کیا اور سجدے میں گر پڑے۔

فتح اسکندریہ کے بعد تمام مصر پر اسلام کا سکہ بیٹھ گیا اور بہت سے قبطی برضا و رغبت مسلمان ہو گئے۔

حضرت عمر کی شہادت

مدینہ منورہ میں فیروز نامی ایک پارسی غلام تھا۔جس کی کنیت ابو لولو تھی۔ اس نے ایک دن حضرت عمر سے آ کر شکایت کی کہ میرے آقا مغیرہ بن شعبہ نے مجھ پر بھاری محصول لگا رکھا ہے۔ آپ کم کرا دیجیے۔ حضرت عمر نے تعداد پوچھی اس نے کہا دو درہم روزانہ جو سات آنے کے قریب ہوتا ہے۔ آپ نے پوچھا کون سا ٌپیشہ کرتے ہو۔ اس نے کہا بڑھئی ، لوہاری ، نقاشی کا ۔ فرمایا کہ ان صنعتوں کے مقابلہ میں یہ رقم بہت نہیں ہے۔ فیروز دل میں سخت ناراض ہوا۔

دوسرے دن جب حضرت عمر نماز کے لیے نکلے تو فیروز خنجر لے کر مسجد میں آیا۔ جو ں ہی آپ نے نماز شروع کی فیروز نے نکل کر چھ وار خنجر کے آپ پر کیے۔ آپ نے فوراً عبد الرحمٰن بن عوف کا ہاتھ پکڑ کر اپنی جگہ کھڑا کر دیا اور خود زخم کے صدمہ سے گر پڑے۔ عبد الرحمن نے اس حالت میں نماز پڑھائی کہ حضرت عمر تڑپ رہے تھے۔

فیروز نے اور لوگوں کو بھی زخمی کیا۔ آخر میں پکڑا گیا۔ مگر اس نے خود کشی کر لی۔ حضرت عمر کو لوگ اٹھا کر گھر لائے۔ آپ نے پوچھا میرا قاتل کون تھا۔ لوگوں نے کہا فیروز۔ آپ نے فرمایا الحمد للہ میں ایسے شخص کے ہاتھ سے نہیں مارا گیا جو اسلام کا دعویٰ کرتا ہو۔

آپ نے اپنے بیٹے عبد اللہ کو بلا یا اور کہا کہ حضرت عائشہ کے پاس جاؤ اور کہو کہ عمر آپ سے اجازت چاہتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پہلو میں دفن کیا جائے۔ حضرت عبد اللہ حاضر ہوئے تو حضرت عائشہ رو رہی تھیں۔ پیغام پہنچایا تو فرمایا کہ یہ جگہ تو میں نے اپنے لیے رکھی تھی لیکن اب میں عمر کو اپنے پر ترجیح دیتی ہوں ۔ آپ نے سنا تو خوش ہوئے۔

لوگوں نے خلافت کے بارے میں پوچھا تو فرمایا کہ ان چھ شخصوں سے جس کو چاہنا مقرر کر لینا۔ حضرت علی ، حضرت عثمان ، حضرت زبیر ، حضرت طلحہ ، حضرت سعد بن ابی وقاص، حضرت عبد الرحمن بن عوف۔( رضی اللہ عنہم )

اس کے بعد آپ نے خلیفہ کے لیے کچھ وصیتیں کیں اور اپنے ذاتی قرض وغیرہ کی وصیت فرمائی ۔ زخم کے تیسرے دن پہلی محرم 24ھ کو انتقال فرمایا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون

حضرت صہیب نے نماز پڑھائی اور اپنے آقا محبوب رب العالمین کے پہلو میں دفن ہوئے۔

فاروقی کارنامے

حضرت عمر کے مقبوضہ ممالک کا کل رقبہ بائیس لاکھ پانچ ہزار ایک سو تیس میل مربع تھا۔ اس میں شام ، مصر، عراق عرب ، عراق عجم ، جزیرہ ، خوزستان ، آذربائیجان، فارس ، کرمان ، خراسان، مکران کچھ بلوچستان کا شامل تھا۔ یہ سب ممالک دس سال کے عرصہ میں فتح ہوئے اور کہیں کوئی ظلم نہیں کیا گیا۔ عورتوں اور بچوں سے کوئی تعرض نہیں کیا گیا۔

حضور ﷺ کی تعلیم کی وجہ سے مسلمانوں میں جوش ، ہمت ، استقلال، دلیری جو پیدا ہو گئی تھی وہ اس وقت تک باقی تھی۔ اس لیے اور حضرت عمر کی حسن تدبیروں سے اس قدر فتوحات ہوئیں۔ اور چونکہ مسلمانوں میں راستی، دانت داری تھی۔ اس لیے جو ملک فتح ہو جاتے وہاں کی رعایا ایسی گرویدہ ہو جاتی تھی کہ یہ نہ چاہتی تھی کہ ان کی سلطنت جاتی رہے۔

نظام حکومت

آپ نے ایک مجلس میں مہاجرین صحابہ کی قائم کی تھی جس سے چھوٹے چھوٹے معاملات میں مشورہ لیا جاتا تھا۔ ایک اور مجلس مہاجرین اور انصار کی تھی جس میں بڑے بڑے معاملات پیش ہوتے تھے۔ جب کوئی بہت اہم معاملات پیش ہوتے تھے تو عام مجلس ہوتی تھی جس میں مہاجرین اور انصار کے ہر قبیلہ کے سردار شریک ہوتے تھے۔

آپ نے ملک عرب کو آٹھ حصوں پر تقسیم کیا تھا۔ مکہ ، مدینہ ، شام ، جزیرہ، بصرہ، کوفہ ، مصر ، فلسطین اور ایران کو 3 حصوں میں خراسان، آذربائیجان، فارس اور ہر صوبہ میں حاکم صوبہ ، میر منشی ، حاکم خراج، یعنی کلکٹر، افسر پولیس ، افسر خزانہ، قاضی یعنی جج مقرر کیا۔

آپ جب کسی کو صوبہ کا حاکم کر کے بھیجتے تھے تو ان سے یہ عہد لیتے تھے کہ ترکہ گھوڑے پر سوار نہ ہوں۔ باریک کپڑے نہ پہنیں چھنا ہوا ہوا آٹا نہ کھائیں۔ دروازے پر دربان نہ رکھیں۔ اہل حاجت کے لیے ہمیشہ دروازہ کھلا رکھیں۔ اور خود اکثر اس کی جانچ فرماتے تھے کہ اس کی پابندی کرتے ہیں یا نہیں۔

حضرت عمر خود اخلاق اسلامی کے مجسم نمونہ تھے اور چاہتے تھے کہ تمام مسلمان اخلاقِ اسلامی کے پابند رہیں اس لیے حکام اور عام مسلمانوں کی اخلاقی اور مذہبی نگرانی فرماتے تھے۔ عرب جیسی سخت قوم سے فخر و غرور کی تمام علامتیں آپ نے مٹادیں۔ یہاں تک کہ آقا اور نوکر کی تمیز بالکل اٹھا دی۔ اشعار میں ہجو کہنے کو آپ نے حکماً بند کر دیا ۔ آوارگی ، شراب خوری کی سزا سخت کردی کہ لوگوں کو اس کی ہمت نہ پڑے۔

آپ نے پولیس کا محکمہ قائم کیا۔ جس کا یہ کام تھا کہ یہ دیکھے کہ دوکاندار ناپ تول میں کمی نہ کریں۔ شاہ راہ پر کوئی شخص مکان نہ بنائے۔ جانور پر زیادہ نہ لادا جائے۔ شراب علانیہ نہ بکنے پائے اور لوگوں کے امن کا خیال رکھا جائے۔

آپ نے جیل خانے بنوائے اور جلا وطنی کی سزا بھی سب سے پہلے آپ نے دی۔ بیت المال ( خزانہ ) کی بنیاد آپ نے ڈالی۔ اور حساب و کتاب کے لیے مختلف رجسٹر بنوائے۔ سن ہجری آپ نے ایجاد کیا۔ تعمیرات کا محکمہ بھی آپ نے قائم کیا۔ اس سے حکام کے رہنے کے مکانات ، مسجدیں ، پل، سڑک ، قلعے ، مہمان خانے ، بیت المال کی عمارتیں تعمیر ہوتی تھیں۔ مدینہ سے مکہ تک سڑک ہر منزل پر چوکیاں، سرائیں اور چشمے تیار کرائے۔ ترقی زراعت کے لیے نہریں کھدوائی گئیں۔

حضرت عمر نے حسب ذیل شہر بسائے

بصرہ یہ پہلے چھوٹا سا شہر تھا۔ اب بہت برا شہر ہوگیا۔ دجلہ سے جو یہاں سے دس میل کے فاصلہ پر تھا۔ ایک نہر لائی گئی۔ عربی علم نحو کی بنیاد یہیں پڑی۔ اس علم کے امام سیبویہ کی تعلیم یہیں ہوئی۔ ائمہ مجتہدین سے حسن بصری یہیں پیدا ہوئے۔ علم لغت کی پہلی کتاب العین کو خلیل بصری نے یہیں لکھا۔

کوفہ۔ یہ دریائے فرات سے صرف ڈیڑھ دو میل کے فاصلہ پر ہے۔ یہ شہر پہلے چالیس ہزار آدمیوں سے آباد کیا گیا ۔ اور ایک جامع مسجد بنائی گئی جس میں چالیس ہزار آدمی بآسانی نماز پڑھ سکیں۔ مسجد سے دو سو ہاتھ کے فاصلہ پر حاکم کے رہنے کے لیے مکان اور خزانہ کی عمارت بنائی گئی۔ اور ایک مہمان خانہ بنایا گیا جس میں باہر کے مسافروں کو بیت المال سے کھانا ملتا تھا۔ جامع مسجد کے علاوہ کئی چھوٹی چھوٹی مسجدیں بنائی گئیں۔ ابو الاسود دُئلی نے پہلی نحو کی کتاب یہیں لکھی۔ حضرت امام ابو حنیفہ اسی خاک سے پیدا ہوئے۔ حدیث اور فقہ کے بڑے بڑے عالم یہاں گزرے ہیں۔

ان کے علاوہ فسطاط اسکندریہ کے قریب آباد کیا۔ جس میں 40 ہزار اہل عرب آباد ہوئے۔ ان میں بکثرت مسجدیں اور سڑکیں تھیں۔ موصل پہلے ایک گاؤں تھا۔حضرت عمر نے بڑا شہر بنا دیا۔ اس میں ایک بڑی جامع مسجد بھی بنوائی۔ جیزہ یہاں حضرت عمر نے ایک قلعہ بنوایا اس وقت سے اس کی آبادی بڑھنے لگی۔

فوجی انتظامات

حضرت عمر کی خواہش یہ تھی کہ تمام ملک فوج ہو جائے۔ اس کی ابتدا یوں کی کہ پہلے قریش اور انصار سے شروع کیا۔ پھر ان میں سے آنحضرت ﷺ کے قرابت داروں کو سب سے پہلے لیا۔ پھر جس قدر آپ سے قرابت میں دور ہوتے گئے ان کے نام آخر میں رکھتے گئے۔ یہ سب تنخواہ دار تھے اور تنخواہوں کی زیادتہ اور کمی کا یہ حساب رکھا تھا کہ سب سے زائد تنخواہ اہل بدر کی پھر اہل اُحد اور مہاجرین حبش کی۔ پھر فتح مکہ سے پہلے کے مہاجرین کی۔ پھر جو لوگ فتح مکہ وقت ایمان لائے۔ پھر جو لوگ جنگِ قادسیہ و یرموک میں شریک تھے۔ پھر اہل ایمن، پھر قادسیہ و یرموک کے بعد کے مجاہدین کی۔ پھر بلا امتیاز مراتب ان کے بیوی بچوں کو بھی گزارے مقرر ہوئے اور ان کے غلاموں کی بھی تنخواہیں مقرر کی گئیں۔

ان میں دو قسم کے آدمی تھے۔ ایک وہ جو ہر وقت لڑنے میں مصروف رہتے تھے۔ دوسرے وہ جو ضرورت کے وقت بُلائے جاتے تھے۔

فوجوں کے رہنے کے لیے آپ نے بارکیں بنوائیں۔ گھوڑوں کے اصطبل بنوائے۔ جن میں چار چار ہزار گھوڑے ہر وقت معہ ساز و سامان رہتے تھے۔ فوج کا باقاعدہ دفتر تھا۔ رسد کے لیے غلہ بکثرت مہیّا رہتا تھا۔ ہر جگہ دورہ کر کے خود دیکھتے بھی تھے۔ تاکہ کسی انتظام میں فرق نہ آئے۔

آپ کا فوجی انتظام اس طرح بڑھ گیا تھا کہ تقریباً دس لاکھ آدمی ہتھیار بند تھے اور سب اس قدر خوش تھے کہ مرنے مارنے کو تیار رہتے تھے۔

حضرت عمر کے انتظام میں جس قدر کمی ہوتی گئی عربوں میں کمزوری آتی گئی۔ امیر معاویہ نے شیر خوار بچوں کی تنخواہیں بند کر دیں۔ عبد الملک بن مروان نے اور بھی کمی کی۔ معتصم باللہ نے فوجی دفتر سے عربوں کے نام نکال دیئے۔

فوج کے سپاہیوں کو تیرنے ، گھوڑے دوڑانے ، تیر لگانے ، ننگے پاؤں چلنے کی سخت تاکید تھی اور یہ تاکید تھی کہ رکاب کے سہارے نہ چڑھیں، نرم کپڑے نہ پہنیں، دھوپ کھانا نہ چھوڑیں، حمام میں نہ نہائیں۔

فوج کی ترتیب میں مقدمہ ، قلب ، میمنہ ، میسرہ ، ساقہ ، طلیعہ وغیرہ آپ ہی نے قائم کیا۔ آپ نے عجمی ، یونانی ، رومی ، بہادروں کو بھی فوج میں داخل کیا جنہوں نے نہایت بہادری سے عربوں کے ساتھ کام کیا۔

مذہبی خدمات

آپ نے تبلیغ اسلام کی مگر تلوار کے زور سے نہیں ، بلکہ اخلاقی اثر سے ۔آپ جس ملک پر فوجیں بھیجتے تاکید فرماتے کہ پہلے لوگوں کو اسلامی ترغیب دلائی جائے اور اسلام کے اصول اور عقائد سمجھائے جائیں اور آپ فوج کا افسر ہمیشہ عالم اور فقیہ کو مقرر فرماتے تھے۔

آپ نے اپنی تربیت سے تمام مسلمانوں کو اسلام کا اصلی نمونہ بنا دیا تھا۔ اسلامی فوجیں جس ملک میں جاتیں لوگوں کو ان کے دیکھنے کا شوق ہوتا تھا۔ جب لوگ آ کر ان سے ملتے دیکھتے کہ ہر مسلمان سچائی، سادگی، پاکیزگی، جوش اور اخلاص کا سچا نمونہ نظر آتا ہے۔ یہ چیزیں خود بخود لوگوں کے دلوں کو کھینچتی تھیں اور اسلام ان میں گھر کر جاتا تھا فوج کے بڑے بڑے افسر اور کبھی دو ہزار کی جماعت افسر اور فوج سب اسی اخلاق کی وجہ سے مسلمان ہوئے۔

حیرت انگیز فتوحات اسلامی سے بھی لوگوں میں یہ خیال پیدا ہوتا تھا کہ ان کے ساتھ تائید آسمانی ضرور ہے۔

اس کے علاوہ بڑے بڑے علماء عیسائیوں کے اور بڑے بڑے رئیس مسلمان ہوئے۔ ان کا اثر بھی پڑا جس سے ان کے متبعین مسلمان ہو گئے۔ مثلاً جلولا فتح ہوا تو بڑے بڑے رئیس اور نواب اپنی خوشی سے مسلمان ہوگئے۔ رئیسوں کے مسلمان ہونے سے ان کی رعایا میں خود بخود اسلام پھیل گیا۔ قادسیہ کے فتح کے بعد چار ہزار شاہی رسالہ کی فوج سب مسلمان ہو گئی۔ مصر میں اسلام نہایت جلد پھیلا اور وہاں کے لوگ بکثرت مسلمان ہوئے۔

قرآن مجید کی جمع و ترتیب و حفاظت

قرآن مجید حضرت ابوبکر کے زمانہ میں آپ کے بار بار اصرار سے ترتیب دیا گیا۔ آپ نے تمام ممالک مفتوحہ میں قرآن مجید کا درس جاری کیا۔ معلم اور قاری مقرر کیے۔ معلموں کی تنخواہیں مقرر کیں۔ بدؤں کے لیے قرآن مجید کی جبری تعلیم کی۔ ان کا امتحان لیا جاتا۔ اگر یاد نہ ہوتا تو سزا دی جاتی۔

صحابہ میں پانچ بزرگ تھے جنہوں نے آنحضرت ﷺ کے زمانہ ہی میں پورا قرآن حفظ کر لیا تھا۔ معاذ بن جبل ، عبادہ بن صامت ، ابی بن کعب ، ابو ایوب ، ابو الدرداء ۔ ان میں ابی بن کعب ، سید القراء تھے۔ حضرت عمر نے ان سب سے کہا کہ مختلف ممالک میں جا کر تعلیم دیں۔ دو صاحب ضعف اور بیماری کی وجہ سے جا نہ سکے اور 3 صاحب معاذ ، عبادہ ، ابو الدرداء حمص بھیجے گئے۔جب وہاں خوب تعلیم پھیل گئی تو عبادہ نے وہیں قیام فرمایا اور ابو الدرداء دمشق گئے اور معاذ بن جبل فلسطین ۔ معاذ بن جبل نے طاعون عمواس میں وفات پائی۔ ابو الدرداء برابر تعلیم دیتے رہے۔ یہاں تک کہ ہزاروں کی تعداد میں حفاظ ہو گئے اور ناظرہ خواں کا تو کچھ شمار نہ تھا۔

حدیث اور فقہ کی تعلیم اور اشاعت

آپ نے حدیث کی اشاعت میں نہایت کوشش کی مگر اس میں یہ احتیاط تھی کہ بجز مخصوص صحابہ کے عام طور پر حدیث کی روایت کی آپ اجازت نہ دیتے تھے۔

مسائل فقہ کی اشاعت کی آپ نے بڑی کشش فرمائی خود صحابہ کو جمع فرما کر تعلیم دیتے۔ خطبہ جمعہ میں مسائل بیان فرماتے سفر میں آپ جو خطبے پڑھتے اس میں بھی مسائل بیان فرماتے۔ وقتاً فوقتاً عمال افسروں کو مذہبی احکام اور مسائل لکھ کر بھیجتے۔

12ھ میں نماز تراویح جماعت کے ساتھ مسجد نبوی میں قائم کی تو تمام افسروں کو لکھا کہ ہر جگہ اس کے مطابق عمل کیا جائے۔

عملی انتظام

ہر شہر اور ہر قصبہ کی مسجدوں کے لیے آپ نے امام اور مؤذن تنخواہ دار مقرر کیے۔ تنخواہ بیت المال سے دی جاتی تھی اور مسجد نبوی میں صفوں کے درست کرنے کے لیے لوگوں کو مقرر کیا۔ حج کے زمانہ میں مقام منیٰ میں حاجیوں کو عقبہ کے پاس پہنچانے کے لیے لوگ مقرر کیے۔

اپنے زمانہ خلافت میں امیر حاج خود ہوتے تھے۔ اور حاجیوں کی خود خدمت فرماتے تھے۔ تمام ممالک مفتوحہ میں بکثرت مسجدیں تیار کرائیں۔ آپ نے اپنے زمانہ میں تقریباً چار ہزار مسجدیں بنوائیں۔

آپ نے بیت اللہ کے حرم شریف کی عمارت کو وسعت دی اور خانہ کعبہ پر مصر کا بنا ہوا نہایت نفیس غلاف چڑھایا۔ مسجد نبوی کو بھی آپ نے نہایت وسعت اور رونق دی اور آپ کی اجازت سے مسجد نبوی میں چراغ روشن کیے گئے اور خوشبو اور بخور کا بھی انتظام کیا گیا۔ مسجد نبوی میں فرش کا بھی انتظام آپ نے فرمایا۔

ذمیوں کے حقوق

حضرت عمر نے عیسائیوں یہودیوں کے ساتھ جس طرح کا برتاؤ کیا ہے کسی سلطنت نے غیر مذہب کی رعایا کے ساتھ ایسا برتاؤ نہیں کیا۔ عیسائیوں کی جان اور مال اور مذہب کی حفاظت اسی طرح فرماتے تھے جیسی مسلمانوں کی۔ آپ کے فرامین میں یہ تصریح ہے کہ گرجے اور چرچ نہ توڑے جائیں گے۔ نہ ان کی عمارت کو کسی طرح کا نقصان پہنچایا جائے گا۔ نہ ان کے احاطوں میں کسی طرح کی دست اندازی کی جائے گی۔ چونکہ عیسائی یہودیوں کو حضرت عیسیٰ کا دشمن سمجھتے تھے اس لیے ان کی خاطر سے یہودیوں کو حکم دیا گیا کہ بیت المقدس میں نہ آئیں۔ یونانی مسلمانوں سے لڑے تھے اور حقیقت میں وہی مسلمانوں کے دشمن تھےپھر بھی ان کے لیے یہ رعایتیں تھیں کہ بیت المقدس میں رہنا چاہیں تو رہ سکتے ہیں اور جانا چاہیں تو جا سکتے ہیں۔ اور یہ بھی کہہ دیا گیا کہ باوجود نکل جانے کے ان کے گرجاؤں اور معبدوں سے کچھ تعرض نہ کیا جائے۔

ذمیوں کی جان اور مال کی حفاظت اسی طرح کی جاتی تھی جس طرح ایک مسلمان کی۔ اگر کوئی مسلمان کسی ذمی کو قتل کر دیتا تھا تو اس کے عوض میں وہ مسلمان قتل کیا جاتا تھا۔ ممالک مفتوحہ کے ذمیوں کے پاس جس قدر زمینیں تھیں وہ اسی طرح ان کے قبضہ میں بحال رکھی گئیں۔ ضبط نہیں کی گئیں۔ بلکہ مسلمانوں کو ان زمینوں کا خریدنا ناجائز کر دیا گیا۔ ان زمینوں پر مالگذاری نہایت کم لگائی گئی۔ باوجود اس کے ہر سال جب ملک کا خراج آتا تو دس دس ذمی کوفہ اور بصرہ سے طلب کیے جاتے اور ان سے چار پانچ دفعہ قسم لیتے کہ مالگذاری وصول کرنے میں کوئی سختی تو نہیں کی گئی اور جمع سخت تو نہیں ہے۔

جس وقت آپ نے عراق کا بندوبست کیا تو عجمی رئیسوں کو مدینہ میں بلا کر مالگذاری کے بابت مشورہ لیا۔ اور مصر میں مقوقس سے اکثر رائے لی جاتی تھی۔ عمال کو فرامین میں ہمیشہ تاکید لکھتے تھے کہ کوئی مسلمان کسی ذمی پر ظلم نہ کرنے پائے۔

مذہبی امور میں ذمیوں کو پوری آزادی حاصل تھی۔ وہ ہر قسم کے مذہبی رسوم ادا کرتے تھے۔ علانیہ ناقوس بجاتے تھے۔ صلیب نکالتے تھے۔ ہر قسم کے میلے کرتے تھے۔ ان کے مذہبی پیشواؤں کو جو مذہبی اختیارات ھاصل تھے بالکل برقرار رکھے گئے تھے۔

حضرت عمر اگرچہ اسلام کی اشاعت کی بہت کوشش فرماتے تھے اور منصب خلافت کے لحاظ سے ان کا یہ فرض بھی تھا۔ لیکن یہ کوشش صرف وعظ و نصیحت کے ذریعہ سے تھی اور آپ ہمیشہ یہ فرما دیا کرتے تھے کہ مذہب کے قبول کرنے پر کوئی مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ آپ کا ایک عیسائی غلام تھا۔ اس کو آپ ہمیشہ مذہبِ اسلام کی طرف رغبت دلاتے مگر جب اس نے انکار کیا تو آپ نے فرمایا کہ دین میں جبر نہیں ہے۔

ضعیف اور اپاہج مسلمان کو مذہب جس طرح بیت المال سے وظیفہ دیا جاتا اسی طرح کی رعایت ذمیوں کے ساتھ بھی ہوتی تھی۔ ذمیوں کی عزت و آبرو کی اسی طرح حفاظت فرماتے تھے جس طرح ایک مسلمان کی عزت کی۔ یہاں تک کہ اگر کوئی ذمی کسی قسم کی سازش یا بغاوت بھی کرتا تھا تو اس کو ذلیل نہ کرتے تھے۔ ان رعایتوں سے ذمی ایسے خوش تھے کہ اپنی قوم کے مقابلہ میں مسلمانوں کے لیے رسد بہم پہنچانے لشکر گاہ میں بازا ر لگاتے۔ اپنے اہتمام سے سڑک اور پل تیار کراتے جاسوسی اور خبر رسانی کرتے۔ ان کا راز مسلمانوں سے کہتے۔

آپ نے لباس کی بابت یہ حکم دیا تھا کہ ذمہ اپنے لباس پر رہیں مسلمانوں کا لباس نہ پہنیں تاکہ تشابہ نہ پیدا ہوا اور صلیب کی بابت یہ حکم تھا کہ مسلمانوں کے جلسہ میں صلیب نہ نکالیں۔ ناقوس کے بابت یہ فرمان تھا کہ صرف نماز کے اوقات میں نہ بجائیں اور جس وقت چاہیں بجائیں اور سور کے بابت یہ حکم تھا کہ مسلمانوں کے احاطہ میں نہ لے جائیں۔ ان چیزوں میں بھی ان کو کافی آزادی حاصل تھی۔

نابالغ بچے جن کے باپ مسلمان ہو چکے ہوں ان کے بابت یہ حکم تھا کہ ان کو عیسائی نہ بنائیں ۔ اس لیے کہ جب باپ نے اسلام قبول کیا تو بچے مسلمان ہی سمجھے جائیں گے۔ بعدِ بلوغ ان کو اختیار ہوگا کہ جو مذہب چاہیں اختیار کریں۔

آپ نے جن یہودیو ں یا عیسائیوں کو وطن سے نکالا تو صرف اس وجہ سے نکالا کہ وہ مسلمانوں کے خلاف سازش کرتے تھے۔ ان سے لڑنے کی تیاریاں کرتے تھے۔ اس کے روکنے کی تدبیریں کی گئیں۔ جب کسی طرح باز نہ آئے تو وطن سے نکالے گئے۔ مگر ساتھ اس کے ان کو حکم دیا گیا کہ اپنا مال اور اسباب سب لے جائیں۔ زمین اور باغات کی ان کو قیمت بیت المال سے دلوادی گئی ، ضبط نہیں کی گئی۔

جن ذمیوں سے کبھی فوجی خدمت لی جاتی تھی ان کا جزیہ معاف کر دیا جاتا تھا۔

آپ کا عدل و انصاف

آپ موافق مخالف کسی پر ظلم اور سختی نہیں کرتے تھے۔ باغیوں کے ساتھ بھی آپ نے کبھی بے جا سختی جائز نہیں رکھی۔ جن کو بغاوت کی وجہ سے جلا وطن کیا ان کو تمام مال و اسباب لے جانے کی اجازت دی۔ زمین کی قیمت دلوادی اور عاملوں کو لکھ دیا کہ راہ میں ان کو کوئی تکلیف نہ ہو۔ ان کے آرام کا سامان بہم پہنچایا جائے۔ اور جس جگہ مستقل قیام کریں۔ چوبیس مہینہ تک ان سے جزیہ نہ لیا جائے۔

مساوات کا اتنا خیال تھا کہ جبلہ غسانی شام کا بادشاہ مسلمان ہو گیا تھا۔ کعبہ کے طواف میں اس کی چادر کا گوشہ ایک شخص کے پاؤں تلے آ گیا جبلہ نے اس کے منہ پر تھپڑ مارا۔ اس نے بھی برابر کا جواب دیا۔ جبلہ نے غصہ میں حضرت عمر کے پاس آکر شکایت کی۔ آپ نے فرمایا تم نے جو کیا اس کی سزا پائی ۔ اس نے کہا ہمارا وہ رتبہ ہے کہ اگر کوئی ہمارے ساتھ گستاخی کرے تو قتل کا مستحق ہو۔ آپ نے فرمایا کہ جاہلیت میں ایسا تھا لیکن اسلام نے سب کو ایک کر دیا۔

ایک بار تمام عہدہ دارانِ ملکی کو حج کے زمانے میں آپ نے طلب فرمایا اور مجمع عام میں کہا کہ جس کو ان لوگوں سے شکایت ہو پیش کرے۔ ایک شخص نے اٹھ کر کہا کہ فلاں عامل نے بلا وجہ مجھے سو درے مارے۔ حضرت عمر نے فرمایا اٹھ اور اپنا بدلہ لے۔ عمر بن العاص ( گورنر مصر ) نے عرض کیا۔ اے امیر المومنین اس طریق عمل سے تمام عمال بے دل ہو جائیں گے۔ آپ نے فرمایا انصاف رک نہیں سکتا۔ پھر عمر بن العاص نے مستغیث کو دو سو دینار دلوا کر راضی کیا۔

ایک دفعہ سردارانِ قریش آپ کی ملاقات کو آئے۔ حضرت بلال ، حضرت عمار، حضرت صہیب بھی موجود تھے۔ یہ سب آزاد شدہ غلام تھے۔ آپ نے پہلے انہیں لوگوں کو بلایا۔ ابو سفیان جو زمانہ جاہلیت میں تمام قریش کے سردار تھے ان کو نہایت ناگوار ہوا۔ ساتھیوں سے کہا کہ خدا کی شان ہے غلاموں کو دربار میں جانے کی اجازت ملتی ہے اور ہم انتظار کر رہے ہیں ۔ ایک نے ان میں سے کہا یہ شکایت اپنی ہے۔ اسلام نے ایک آواز سے سب کو بلایا جو اپنی شامت اعمال سے پیچھے پہنچے آج بھی پیچھے رہنے کے مستحق ہیں۔

جنگِ قادسیہ کے بعد جب تمام قبائل عرب اور صحابہ کی تنخواہیں مقرر کیں تو دنیاوی عزت کا آپ نے بالکل خیال نہیں کیا۔ جو پہلے اسلام لائے یا جہاد میں اچھے کام کیے یا حضور سرور عالم ﷺ سے خصوصیت رکھتے تھے ان کو دوسروں پر ترجیح دی۔ ان خصوصیات میں غلام اور آقا کا کوئی فرق نہ تھا۔ یہاں تک کہ اسامہ بن زید کی تنخواہ اپنے بیٹے سے زاید مقرر فرمائی۔

علم و فضل

اگرچہ اسلام سےپہلے عرب میں لکھنے پڑھنے کا رواج کم تھا مگر حضرت عمر نے اسی زمانہ میں لکھنا پڑھنا سیکھ لیا تھا۔ آپ کے خطوط اور فرامین اور خطبے اب تک کتابوں میں محفوظ ہیں۔ جن سے آپ کی قوت تحریر اور زورِ تقریر کا اندازہ ہو سکتا ہے۔

شاعری میں آپ کو خاص مہارت تھی۔ فصاحت اور بلاغت کا یہ حال تھا کہ ان کے بہت سے مقولے ضرب المثل ہو گئے ہیں۔ علم الانساب میں بھی آپ کو کمال تھا۔

آپ فطرۃً ذہین اور صائب الرائے واقع ہوئے تھے ۔ شرعی احکام اور عقائد سے خوب واقف تھے۔ قرآن مجید کو نہایت غور اور فکر سے پڑھتے تھے۔

اخلاق و عادات

آپ دن کو خلافت کا کام کرتے۔رات کو نفلیں پڑھتے۔ قریب صبح گھر والوں کو جگاتے۔ فجر کی نماز میں اکثر بڑی بڑی سورتیں مثلاً سوری یوسف، سورہ حج، سورہ یونس، سورہ کہف، سورہ ہود پڑھتے۔ جن آیتوں میں خدا کی عظمت و جلال کا یا قیامت کا ذکر ہوتا تو اس سے اس قدر متاثر ہوتے کہ روتے روتے ہچکی بندھ جاتی۔ بعض دفعہ اتنا روتے کہ آنکھیں سوج آتیں۔

نماز جماعت کے ساتھ پڑھتے اور فرماتے کہ میں اس کو تمام رات کی عبادت پر ترجیح دیتا ہوں۔

مرنے سے دو برس پہلے روزے بہت رکھتے تھے۔ حج ہر سال کرتے تھے اور خود میر قافلہ ہوتے تھے۔

قیامت کے مواخذہ سے بہت ڈرتے تھے۔ ہر وقت اس کا خیال رہتا تھا۔ ایک مرتبہ ابو موسیٰ اشعری سے کہا کہ کیا تم اس پر راضی ہو کہ ہم لوگ اسلام لائے اور ہجرت کی اور رسول ﷺ کی خدمت میں ہر جگہ موجود رہے ، اس کے بدلہ میں ہم عذاب سے بچ جائیں۔ ابو موسیٰ نے کہا کہ میں اس پر راضی نہیں ہوں ، مجھے اور بہت سی امیدیں ہیں۔ آپ نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے میں تو صرف یہ چاہتا ہوں کہ ہم بے مواخذہ چھوٹ جائیں۔ آپ فرماتے تھے کہ اگر مجھے یہ معلوم ہو جائے کہ ایک آدمی کے سوا سب لوگ جنتی ہیں تب بھی مواخذے کا خوف زائل نہ ہوگا کہ شاید وہ بد قسمت آدمی میں ہی ہوں۔

زہد و قناعت

آپ کا جسم کبھی نرم اور ملائم کپڑے سے مس نہیں ہوا۔بدن پر بارہ بارہ پیوند کا کرتہ ، سر پر پھٹا عمامہ اور پاؤں میں پھٹے جوتے تھے اور اسی حالت میں قیصر و کسریٰ کے سفیروں سے ملتے تھے۔ ایک دفعہ حضرت عائشہ اور حضرت حفصہ نے کہا کہ اب خدا نے دولت دی ہے۔ بادشاہوں کے سفراء آتے ہیں۔ آپ کو اپنے طرزِ معاشرت میں تغیر کرنا چاہیے۔ آپ نے فرمایا افسوس ! تم دنیا طلبی کی ترغیب دیتی ہو۔ اے عائشہ ! تم رسول اللہ ﷺ کی اس حالت کو بھول گئیں جب تمہارے گھر میں صرف ایک کپڑا تھا۔ جس کو دن کو بچھاتے تھے اور رات کو اوڑھتے تھے۔ اے حفصہ ! تم کو یاد نہیں ہے کہ ایک دفعہ تم نے فرش کو دہرا کر کے بچھا دیا تھا تو رسول اللہ ﷺ اس کی نرمی کے سبب سے رات بھر سوتے رہے۔ بلال نے اذان دی تو آنکھ کھلی۔ اس وقت آپ نے فرمایا  اے حفصہ تم نے فرش کو دہرا کیوں بچھا دیا کہ میں سوتا رہ گیا۔ مجھے دنیاوی راحت سے کیا تعلق ہے۔

غذا عموماً سادہ ہوتی تھی۔ اکثر روٹی اور روغن زیتون دستر خوان پر ہوتا۔ روٹی اکثر بے چھنے آٹے کی پکتی۔

قناعت کا یہ حال تھا کہ ایام خلافت میں چند سال تک مسلمانوں کے مال سے کچھ بھی نہیں لیا۔ حالانکہ نہایت تنگی سے بسر ہوتی تھی۔ صحابہ نے جب بہت اصرار کیا تو آپ نے معمولی خوراک اور لباس کے لیے بہت قلیل رقم قبول فرمائی۔ مگر اس شرط سے کہ جب تک میری مالی حالت درست نہ ہو۔ صرف اسی وقت تک کے لیے۔ فرماتے تھے کہ میرا حق مسلمانوں کے مال میں صرف اس قدر ہے کہ جتنا یتیم کے مال میں ولی کا ہوتا ہے۔

حضرت امام حسن فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت عمر نے جمعہ کے دن خطبہ پڑھ رہے تھے میں نے شمار کیا تو آپ کے تہہ بند پر بارہ پیوند تھے۔

عمال اور حکام اگر آپ کے پاس تحفے بھیجتے تو واپس کر دیتے اور نہایت سختی سے ان کو اس امر سے روکتے۔

آپ کی تواضع کا یہ حال تھا کہ مشکیزے بھر کر بیوہ عورتوں کے لیے پانی لے جاتے۔ مجاہدین کی بیبیوں کا بازار سے سودا خرید کر لا دیتے۔ تھک جاتے تو مسجد کے گوشہ میں لیٹ جاتے۔

بارہا سفر کا اتفاق ہوا لیکن خیمہ وغیرہ امارت کا سامان کبھی ساتھ نہیں رہا۔ درخت کا سایہ شامیانہ اور فرش خاک بستر تھا۔

ایک دن صدقہ کے اونٹوں کے بدن پر تیل مل رہے تھے۔ ایک شخص نے کہا امیر المومنین ! یہ کام کسی غلام سے لیا ہوتا ۔ آپ نے فرمایا مجھ سے بڑھ کر کون غلام ہو سکتا ہے جو مسلمانوں کا والی ہے وہ ان کا غلام ہے۔

جنگ سے قاصد آتا تو فوج والوں کے خطوط خود ان کے گھروں پر پہنچا آتے اور جس گھر میں کوئی لکھا پڑھا آدمی نہ ہوتا تو خود ہی چوکھٹ پر بیٹھ جاتے اور گھر والے جو لکھاتے لکھ دیتے۔

راتوں کو گشت فرماتے تاکہ آپ کو عام آبادی کا حال معلوم ہو ۔ ایک دفعہ گشت کرتے ہوئے مدینہ سے 3 میل کے فاصلہ پر مقام حرا پہنچے۔ دیکھا ایک عورت پکا رہی ہے اور دو تین بچے رو رہے ہیں۔ پاس جا کر حقیقت حال دریافت کی۔ اس نے کہا بچے بھوک سے تڑپ رہے ہیں۔ میں نے ان کے بہلانے کے لیے خالی ہانڈی چڑھا دی ہے۔ آپ اسی وقت مدینہ آئے۔ آٹا ، گھی ، گوشت اور کھجوریں لے کر چلے۔ آپ کے غلام اسلم نے عرض کیا کہ میں لیے چلتا ہوں۔ فرمایا ہاں ، لیکن قیامت میں میرا بار تم نہ اٹھاؤ گے۔ آپ کود سب سامان لے کر اس عورت کے پاس آئے۔۔ خود چولہا پھونکا۔ اس نے کھانا پکایا۔ کھنا تیار ہوا تو بچے کھا کر خوش ہوئے۔ آپ دیکھتے تھے اور خوش ہوتے تھے۔

ایک بار شہر کے باہر ایک قافلہ اترا آپ نے حضرت عبد الرحمٰن بن عوف کو ساتھ لے کر تمام رات پہرا دیا۔ فرمایا مجھے چوروں کا ڈر لگا تھا۔

ایک بار آپ گشت فرما رہے تھے ایک بدو کے خیمے سے رونے کی آواز آئی۔ دریافت سے معلوم ہوا کہ بدو کی عورت درد زہ میں مبتلا ہے۔ آپ گھر آئے اور اپنی بی بی ام کلثوم کو ساتھ لے کر بدو کے خیمہ میں آئے۔ تھوڑی دیر میں بچہ پیدا ہوا ۔ ام کلثوم نے پکار کر کہا امیر المومنین اپنے دوست کو مبارکباد کہہ دیجیے۔ بدو امیر المومنین کا لفظ سن کر چونک پڑا۔ آپ نے کہا کچھ خیال نہ کرو۔ کل میرے پاس آنا بچہ کی تنخواہ مقرر کر دوں گا۔

آپ کے فضائل و مناقب

حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اگلی امتوں میں صاحب الہام ہوتے تھے۔ میری امت میں اگر کوئی ایسا ہے تو حضرت عمر۔

حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ میں سو رہا تھا میں نے دیکھا کہ میں ایک کنوئیں پر ہوں اس پر ایک ڈول ہے۔ میں نے اس ڈول سے جس قدر اللہ نے چاہا پانی کھینچا۔ پھر حضرت ابوبکر نے لیا اور ایک ڈول کھینچا اور ان کے کھینچنے میں ضعف تھا ۔اللہ تعالیٰ ان کی کمزوری کو معاف کرے۔ پھر وہ ڈول بہت بڑا ( جرس کی طرح ) ہو گیا اور اس کو حضرت عمر نے لیا ۔ میں نے کسی مضبوط آدمی کو نہیں دیکھا کہ حضرت عمر کی طرح کھینچ سکتا ہو۔ یہاں تک کہ لوگوں نے اپنے اونتوں کو پانی میں بٹھایا اور ان کو خوب سیراب کیا۔

حضرت عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے حضور ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی زبان اور دل پر حق جاری کر دیا۔

حضرت عبد اللہ بن عباس سے روایت ہے کہ حضور ﷺ سے دعا فرمائی کہ اے اللہ ابو جہل یا حضرت عمر سے اسلام کو عزت دے۔ اسی صبح کو حضرت عمر حضور ﷺ کی خدمت میں آئے اور اسلام لائے اور مسجد میں علانیہ نماز پڑھی۔

حضرت جابر سے روایت ہے کہ ایک دن حضرت عمر نے حضرت ابوبکر کو یا خیر الناس بعد رسول اللہ ( اے رسول اللہ کے بعد سب سے بہتر ) کہہ کر پکارا تو حضرت ابوبکر نے فرمایا کہ آپ نے مجھے خیر الناس کہہ کر پکارا میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا فرماتے تھے کہ کوئی شخص جس پر آفتاب نکلا ہو حضرت عمر سے بہتر نہیں ہے۔

عقبہ بن عامر سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو حضرت عمر ہوتے۔

حضرت انس سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ حضرت ابوبکر اور عمر جنت کے ادھیڑ لوگوں کے سردار ہیں۔ سوائے نبیوں اور رسولوں کے۔

حضرت حذیفہ سے روایت ہے حضور ﷺ نے فرمایا کہ مجھے معلوم نہیں کہ میری زندگی کتنی ہے۔ اس لیے تم میرے بعد ابوبکر اور عمر کی پیروی کرنا۔

حضرت عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے ایک دن حضور ﷺ مسجد میں تشریف لائے ۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ آپ کے داہنے طرف تھے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ بائیں طرف اور حضور ﷺ دونوں کا ہاتھ پکڑے تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے دن ہم اسی طرح اٹھیں گے۔

حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے حضور ﷺ نے فرمایا کہ ہر نبی کے دو وزیر آسمان پر ہیں اور دو زمین پر۔ میرے وزیر آسمان پر حضرت جبرئیل اور حضرت میکائیل ہیں اور زمین پر حضرت ابوبکر اور حضرت عمر ہیں۔

حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ ایک شب حضور ﷺ میرے یہاں تھے۔ چاندنی نکلی تھی ، تارے چھٹکے تھے، حضور ﷺ کا سر میرے زانو پر تھا۔ میں نے پوچھا یا رسول اللہ ! کیا آپ کی امت میں سے کسی کی نیکیاں اس قدر ہوں گی جتنے آسمان کے تارے۔ آپ نے فرمایا ہاں حضرت عمر کی۔ میں نے عرض کیا کہ حضرت ابوبکر کی نیکیاں ؟ آپ نے فرمایا کہ حضرت عمر کی تمام نیکیاں حضرت ابوبکر کی ایک رات کے برابر ہے۔

حضرت سعد بن ابی وقاص سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے شیطان جب تم کو کسی راستہ میں چلتے دیکھ لیتا ہے تو اس راستہ کو چھوڑ کر دوسرے راستہ سے چلتا ہے۔

4 thoughts on “حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ

Please Leave a Reply

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.