الواقعۃ شمارہ 44 – 45 محرم و صفر 1437ھ
اشاعت خاص : سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ
از قلم : رحمت بانو
خلیفہ اوّل حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہی کے عہد میں مسلمانوں کی فتوحات کا آغاز ہو گیا تھا۔ حضرت عمر فاروق جب خلیفہ بنے تو ان کے سامنے سرحدوں پر جنگی محاذ زور و شور سے جاری تھیں۔ حضرت عمر ہی کے عہد میں مسلمانوں نے ایسی جنگیں لڑیں جو نہ صرف تاریخ اسلام کی بلکہ تاریخ عالم کی فیصلہ کن جنگیں تھیں۔ جنگِ یرموک اور جنگ قادسیہ کا شمار بلا شبہ ایسی ہی جنگوں میں ہوتا ہے۔ حضرت ابو عبیدہ بن الجراح ، حضرت خالد بن ولید ، حضرت عکرمہ ، حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہم وغیرہم مستقل محاذ جنگ پر مصروف عمل تھے اور مرکز خلافت سے مسلسل رابطے میں تھے۔
یرموک کے میدان میں جہاں اسلامی افواج حضرت ابو عبیدہ بن الجراح کے زیرِ قیادت جمع تھے۔ اچانک معلوم ہوا کہ بازنطینی افواج مسلمانوں سے لڑنے کے لیے باہم متحد ہو کر اور ایک نئی قوت کے ساتھ لڑنے آ رہی ہیں۔ عیسائیوں کے لیے یہ جنگ ایک مقدس جنگ بن گئی تھی ، ہر شخص جو ہتھیار چلانا جانتا تھا شریکِ جنگ ہونے کے لیے تیار ہو گیا۔ بازنطینی قلمرو کے ہزاروں مذہبی رہنما بھی شریک جنگ ہوئے جو وقتاً فوقتاً اپنی فوج کا مذہبی جوش و جذبہ بڑھاتے۔ عیسائی افواج کی تعداد لاکھوں میں جا پہنچی جب کہ مسلمان صرف 40 ہزار کی تعداد میں موجود تھے۔ سپہ سالار حضرت ابو عبیدہ بن الجراح نے محاذ جنگ سے فی الفور ایک خط مرکزِ خلافت امیر المومنین سیدنا عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا ، جس میں لکھا کہ
” بزنطیوں نے سمندر اور خشکی سے ہمارے اوپر یورش کر دی ہے اور ہر اس مرد کو فوج میں بھرتی کر لیا ہے جو ہتھیار چلانے کے قابل ہو ، ان کے ساتھ بشپ اور پادری بھی ہیں اور راہب جہاد کے لیے عبادت گاہوں سے نکل کر فوج کے ساتھ شریک ہو گئے ہیں ، قیصر نے آرمینیہ ، اور میسو پوٹامیہ ( جزیرہ ) کے صوبوں سے بھی فوجیں حاصل کی ہیں اور کل فوج کی تعداد چار لاکھ کے قریب ہے ، جب مجھے ان حقائق کا علم ہوا تو میں نے مناسب نہ سمجھا کہ مسلمانوں کو دھوکہ میں رکھوں یا حقیقت سے بے خبر ، صورت حال سے مطلع کر کے جب میں نے ان سے مشورہ کیا تو ان کی رائے ہوئی کہ سب لوگ شام کے کسی الگ تھلگ حصہ میں چلے جائیں اور اپنی فوج کو جو ادھر اُدھر بکھری ہوئی ہے جمع کر لیں ، پھر جب آپ کے پاس سے کمک آ جائے تو دشمن سے لڑنے کے لیے جائیں ، امیر المومنین بہت جلدی کیجیے اور فوج در فوج بھیجیے ، اگر ایسا نہ ہوا اور مسلمان یہاں ( یرموک ) پڑے رہے تو سمجھ لیجیے وہ ہلاک ہوئے اور اگر وہ ڈر کر بھاگ گئے تو سمجھ لیجیے ان کا دین ایمان گیا ، ان کا مدّ مقابل ایک ایسا غنیم ہے جس سے عہدہ بر آ ہونے کی ان میں صلاحیت نہیں ہے الّا یہ کہ اللہ ان کی مدد کے لیے فرشتے بھیجے یا خود کوئی فوج لے کر آئے۔” [1]
اس کے جواب میں حضرت عمر نے جو خط لکھا اس کے کلمات تاریخِ عزیمت میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ اپنی جرات ایمانی سے بھرپور اس مکتوب گرامی میں حضرت عمر نے میدانِ جہاد میں ایمان باللہ کی پوری کیفیت بیان کر دی ہے۔ حضرت عمر نے لکھا :
” اَخو ثَمالہ ( عبد اللہ بن قرط ) تمہارا خط لے کر آیا ، تم نے لکھا ہے کہ رومیوں نے مسلمانوں پر سمندر اور خشکی کی راہ سے یورش کی ہے اور اپنے پادریوں اور راہبوں کو تم سے لڑانے لائے ہیں ، بلا شبہ ہمارے مالک کو جس کی ہم ستائش کرتے ہیں اور جو ہمارا مشکل کشا ہے جس ذات گرامی نے ہم پر احسان کیے ہیں اور جو ہمیشہ ہمیں اپنی نعمتوں سے نوازتا رہا ہے ان پادریوں اور راہبوں کی موجودگی کا اس وقت علم تھا جب اس نے محمد ﷺ کو بر حق مبعوث کیا ، فتوحات سے ان کی عزت افزائی کی اور دشمن کے دلوں کو مرعوب کر کے ان کی مدد فرمائی ، جس نے فرمایا اور اس کا کوئی وعدہ جھوٹا نہیں ہوتا ” یہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسول کو کتاب ہدایت اور سچا دین دے کر بھیجا تاکہ اس کو سارے دینوں پر غالب بنا دے خواہ مشرکوں کو یہ بات کتنی ہی نا پسند ہو۔” هُوَ ٱلَّذِيٓ أَرۡسَلَ رَسُولَهُۥ بِٱلۡهُدَىٰ وَدِينِ ٱلۡحَقِّ لِيُظۡهِرَهُۥ عَلَى ٱلدِّينِ كُلِّهِۦ وَلَوۡ كَرِهَ ٱلۡمُشۡرِكُونَ ٣٣ ( التوبۃ : 33 ) لہٰذا بزنطیوں کی کثرت فوج سے ہرگز ہراساں نہ ہو کیونکہ خدا ان کی مدد نہیں کرے گا اور جس کی خدا مدد نہ کرے اس کے لیے فوج کی کثرت بیکار ہوتی ہے ، ایسے شخص کو خدا اس کے بل بوتے پر چھوڑ کر الگ ہو جاتا ہے، تم اپنی قلت سے مت گھبراؤ کیونکہ اللہ تمہارے ساتھ ہے اور جس کے ساتھ اللہ ہو وہ کبھی کم نہیں ہوتا ، پس جہاں ہو وہیں ڈٹے رہو حتیٰ کہ دشمن کا تم سے مقابلہ ہو اور اللہ کی مدد سے تمہیں فتح حاصل ہو ، وہی بہترین محافظ ، سر دھرا اور مددگار ہے۔ تمہارے ان الفاظ سے مجھے تعجب ہوا کہ اگر مسلمان دشمن کے سامنے ٹھہرے رہے تو سمجھ لیجیے وہ تباہ ہوئے اور اگر دشمن سے ڈر کر بھاگ گئے تو سمجھ لیجیے ان کا دین ایمان گیا کیونکہ ان سے ایک ایسا غنیم لڑنے آیا ہے جس سے عہدہ بر آ ہونا ان کے بس سے باہر ہے الّا یہ کہ اللہ فرشتے بھیج کر ان کی دستگیری فرمائے ، یا خود لشکر لے کر آئے ۔ اللہ کی قسم ، اگر تم یہ کلمہ استثناء نہ لکھتے تو بُرا کرتے ، میری جان کی قسم اگر مسلمان ان کے سامنے ڈٹے رہے اور صبر کا دامن نہ چھوڑا اور قتل ہوئے ( تو ان کی قربانی ضائع نہیں ہو گی ) بلا شبہ اللہ انہیں عمدہ انعام دے گا ، اللہ بزرگ و برتر کہتا ہے : ” ان میں سے کچھ مر گئے اور کچھ موت کے منتظر ہیں اور انہوں نے اپنی وفا داریوں میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔ بڑے خوش نصیب ہیں وہ جنہیں شہادت کی نعمت حاصل ہو!” فَمِنۡهُم مَّن قَضَىٰ نَحۡبَهُۥ وَمِنۡهُم مَّن يَنتَظِرُۖ وَمَا بَدَّلُواْ تَبۡدِيلٗا ٢٣ ( سورۃ الاحزاب : 23 ) سمجھدار مسلمانوں کے لیے وہ جانباز اچھی مثال بن سکتے ہیں جو رسول اللہ ﷺ کی لڑائیوں میں ان کے گرد لڑتے ہوئے مارے گئے ، جو رسول اللہ ﷺ اور اسلام کی خاطر لڑے وہ نہ تو کبھی بے بس ہوئے اور نہ موت سے ڈرے ، رسول اللہ ﷺ کے بعد جو لوگ زندہ رہے وہ بھی دشمن یا موت سے خائف نہیں ہوئے ، نہ مصیبتوں کے سامنے انہوں نے کبھی گھٹنے ٹیکے بلکہ انہوں نے اپنے پیش روؤں کی مثال سامنے رکھی اور ان لوگوں سے جہاد کیا جنہوں نے ان کی مخالفت کی یا اسلام قبول کرنے کو تیار نہیں ہوئے ۔ اللہ نے صبر کرنے والوں کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے : ” ایسے کتنے ہی نبی گزرے ہیں جن کے ساتھ بہت سے خدا پرست جنگ میں شریک ہوئے جنہوں نے جنگ کی مصیبتوں میں نہ تو کسی کمزوری کا اظہار کیا نہ دشمن کے سامنے گھٹنے ٹیکے ( بلکہ صبر کیا ) اللہ صبر کرنے والوں کی قدر کرتا ہے ( جنگ کے مصائب میں) ان کی زبان پر یہ الفاظ تھے : مالک ہمارے گناہ معاف کر اور ہماری بے اعتدالیوں سے درگزر فرما ، دشمن کے مقابلہ میں ہمیں ثابت قدم رکھ اور کافر قوم پر فتح عطا کر ، اللہ نے انہیں دنیا اور آخرت کے عمدہ انعام سے نواز، اللہ نیکو کاروں کا قدر دان ہے۔” وَكَأَيِّن مِّن نَّبِيّٖ قَٰتَلَ مَعَهُۥ رِبِّيُّونَ كَثِيرٞ فَمَا وَهَنُواْ لِمَآ أَصَابَهُمۡ فِي سَبِيلِ ٱللَّهِ وَمَا ضَعُفُواْ وَمَا ٱسۡتَكَانُواْۗ وَٱللَّهُ يُحِبُّ ٱلصَّٰبِرِينَ ١٤٦ وَمَا كَانَ قَوۡلَهُمۡ إِلَّآ أَن قَالُواْ رَبَّنَا ٱغۡفِرۡ لَنَا ذُنُوبَنَا وَإِسۡرَافَنَا فِيٓ أَمۡرِنَا وَثَبِّتۡ أَقۡدَامَنَا وَٱنصُرۡنَا عَلَى ٱلۡقَوۡمِ ٱلۡكَٰفِرِينَ ١٤٧ فََٔاتَىٰهُمُ ٱللَّهُ ثَوَابَ ٱلدُّنۡيَا وَحُسۡنَ ثَوَابِ ٱلۡأٓخِرَةِۗ وَٱللَّهُ يُحِبُّ ٱلۡمُحۡسِنِينَ ١٤٨ ( آل عمران : 146 – 148 ) ان آیتوں میں ثوابِ دنیا فتح اور غنیمت ہے ، ثواب آخرت مغفرت اور جنت۔ میرا یہ خط لوگوں کو سنانا اور تاکید کرنا کہ اسلام کی سر بلندی کے لیے مردانہ وار لڑیں اور ( سخت سے سخت ) مشکلوں کو برداشت کریں ، اللہ ان کو دنیا اور آخرت کی نعمتوں سے سرفراز کرے گا ، تمہارا یہ کہنا کہ مسلمانوں کا مقابلہ ایسے لشکر سے ہے جس سے وہ عہدہ بر آ نہیں ہو سکتے ، اگر تمہارے اندر یہ صلاحیت نہیں ہے تو اللہ قوی میں تو ہے ، ہمارا مالک ان کو برابر شکست دینے پر قادر رہا ہے ۔ اللہ کی قسم ! اگر دشمن سے ہم اپنے بل بوتے پر لڑا کرتے تو وہ مدت کے ہمیں تباہ کر چکے ہوتے۔ ہم تو اپنے مالک اللہ کے بھروسے پر لڑتے ہیں اور اپنے بل پر بالکل اعتماد نہیں کرتے اور اسی سے نصرت و رحمت کی التجاء کرتے ہیں ، ان شاء اللہ تم بہر صورت کامیاب ہو گے ، ضرورت اس بات کی ہے کہ اللہ کے لیے قربانی کی سچی لگن تمہارے دل میں ہو اور اپنی ہر مشکل میں اسی سے لَو لگاؤ ، صبر کرو اور دشمن کے مقابلہ میں ڈٹے رہو اور رسالے تیار رکھو اور اللہ سے ڈرو ، امید ہے تم کامیاب ہو گے۔ ٱصۡبِرُواْ وَصَابِرُواْ وَرَابِطُواْ وَٱتَّقُواْ ٱللَّهَ لَعَلَّكُمۡ تُفۡلِحُونَ ٢٠٠ ( سورۃ آل عمران : 200 )۔” [2]
ڈاکٹر خورشید احمد فارق اس خط کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں :
” اس خط میں کمک بھیجنے کا کوئی ذکر نہیں ہے لیکن فتوح ابن اعثم میں اس خط کا جو خلاصہ دیا گیا ہے اس میں تصریح ہے کہ عمر فاروق نے اپنے خط کے آخر میں کمک بھیجنے کا وعدہ کیا تھا اور تین ہزار سوار روانہ کیے تھے۔ فتوح الشام کا بیان ہے کہ کمک سات ہزار سواروں پر مشتمل تھی۔” [3]
ابن جوزی نے ” تاریخ عمر بن خطاب ” میں اور سیوطی نے ” تاریخ الخفاء ” میں حضرت عمر کا ایک اور مکتوب گرامی نقل کیا ہے جو انہوں نے حضرت ابو عبیدہ کو یرموک کے محاذ جنگ میں بھیجا تھا۔ اس میں لکھا تھا :
” تمہارا خط موصول ہوا جس میں تم نے مجھ سے کمک طلب کی ہے میں تمہاری توجہ اس ہستی کی طرف مبذول کراتا ہوں جس کی کمک انسانی کمک سے زیادہ طاقت ور اور جس کا لشکر انسانی لشکر سے جلد تر آنے والا ہے اور وہ ہستی ہے اللہ ، اسی سے مدد طلب کرو۔ بدر کے معرکہ میں جس فوج سے محمد ﷺ کو فتح حاصل ہوئی وہ تم سے کم تعداد تھی ، میرا خط پا کر بزنطیوں سے لڑو اور پھر کمک کے لیے خط نہ لکھنا۔” [4]
حضرت عمر کے یہ خطوط کیا پہنچے کہ مسلمانوں کے جوشِ ایمانی میں صاعقہ حق کی ایک بجلی سی کوند گئی۔ اور پھر دنیا نے دیکھا کہ ہزاروں کے لشکر نے لاکھوں کے لشکر کو شکست فاش سے ہمکنار کیا۔ یرموک کے میدان میں بے شمار صحابیوں کی دادِ شجاعت کی داستانیں مستور ہیں لیکن مرکز خلافت میں بیٹھے امیر المومنین نے بھی لمحہ بہ لمحہ ان کے حالات سے واقف رہ کر جس طرح ان کی کمان کی۔اور مسلمانوں کے ذوقِ جہاد کو برابر پروان چڑھاتے رہے وہ بھی مسلمانوں کی تاریخِ عزیمت کا زریں باب ہے۔
آج نہ صرف مسلمانوں کو بلکہ دنیا کے کروڑوں لاچار و بے بس انسانوں کو بھی فاروقِ اعظم جیسے ایک رہنما کی ضرورت ہے۔ جو انہوں ظلم و ستم اور درندگی و بہیمیت کی اس زندگی سے نجات دے۔ جو خود راتوں کو جاگے تاکہ وہ سکون سے سوئیں اور جو خود دن بھر ان کی فکر میں مبتلا رہے تاکہ وہ خود ہر فکر سے آزاد ہو سکیں۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا یہ شوقِ شہادت اور جذبہ جہاد آج کے بے کس مسلمانوں کے لیے ایک تازیانہ عبرت ہے جو زندگی کی محبت میں مبتلا ہوئے تو موت کے خوف نے انہیں آ دبوچا۔ جنہوں نے اللہ سے اپنا اعتماد اٹھایا تو شیطان نے انہیں سر عام رسوا کر دیا۔ آج بھی ہمارے لیے صحابہ کرام کی مقدس زندگیوں میں ہماری مشکلات کا حل موجود ہے۔ ان کی پاکیزہ سیرت ہمارے لیے عملی نظیر ہے۔ جب ہم کتاب اللہ ، سنت رسول اللہ ﷺ اور اسوہ صحابہ کو اپنا رہنما بنا لیں گے تو دنیا کی تمام طاقتیں ہمارے سامنے چھوٹی پڑ جائیں گی۔
[1] حضرت عمر فاروق کے سرکاری خطوط : 95
[2] حضرت عمر فاروق کے سرکاری خطوط : 95 – 98
[3] حضرت عمر فاروق کے سرکاری خطوط : 98
[4] حضرت عمر فاروق کے سرکاری خطوط : 100