لاک ڈاؤن، ملاحم اور امام مہدی


الواقعۃ شمارہ: 98 – 100، رجب المرجب تا رمضان المبارک 1441ھ

از قلم : محمد تنزیل الصدیقی الحسینی

روایت:۔

عن کعب قال: "یوشک أن یزیح البحر الشرقی حتی لا یجری فیہ سفینۃ، وحتی لا یجوز أھل قریۃ الی قریۃ، وذٰلك عند الملاحم، وذٰلك عند خروج المھدی۔”۔ کو پڑھنا جاری رکھیں

کشمیر: نظریہ اسلامی کے بقا کی جنگ


الواقعۃ شمارہ : 90 – 91، ذیقعد و ذی الحجہ 1440ھ

از قلم : محمد تنزیل الصدیقی الحسینی

اس وقت دنیا میں بہت سے خطے ہیں جہاں غلامی سے آزادی کی، استعمار سے رہائی کی اور ریاستی جبر سے نجات کی جنگیں لڑی جا رہی ہیں۔ لیکن یہ محض جنگیں نہیں ہیں بلکہ ایک نظریے کے خلاف دوسرے نظریے کی لڑائی ہے۔ جب تک ان نظریوں کو صحیح تناظر میں سمجھنے کی کوشش کو پڑھنا جاری رکھیں

خون بدل، آہ بلب، اشک بمژگاں آید – اداریہ


الواقعۃ شمارہ: 74 – 75، رجب المرجب و شعبان 1439ھ

از قلم : محمد تنزیل الصدیقی الحسینی

آج ہم تاریخ کے اس موڑ پر کھڑے ہیں جہاں ہمارے پاس اپنی عظمت رفتہ کو یاد کرنے کے لیے تو بیش قیمت سرمایہ موجود ہے مگر خود اپنے حال کی زبوں حالی پر اشک بہانے کے لیے اسباب و وجوہ کی کمی نہیں۔ عظمتِ رفتہ کے نقوش کتنے ہی شاندار کیوں نہ ہوں لیکن زمانہ حال کی پسماندگی کو دور نہیں کر سکتے۔ ہم اپنے شاندار ماضی کو کتنا ہی آراستہ کرکے دنیا کے سامنے کو پڑھنا جاری رکھیں

حلب نہیں، امت مسلمہ کا قلب جل گیا ہے


الواقعۃ شمارہ : 58 ، ربیع الاول 1438ھ

از قلم : محمد تنزیل الصدیقی الحسینی

شام کی سر زمین مسلمانوں کے خون سے سرخ آلود ہوگئی۔ کبھی یہاں خوب صورت باغات تھے اور لہلہاتے گلستاں۔ لیکن اب یہ اجڑا دیار ہے، جہاں گلتی سڑتی لاشوں کی بو اور مسمار ہوتی عمارتوں کا ملبہ ہے۔ آئندہ نسلیں جب کبھی یہاں فصل کی بوج بوئیں گی تو مجھے یقین ہے اس فصل میں شامی مسلمانوں کے خون کی بو بھی در آئے گی۔ سنا ہے کہ یہاں زیتوں کے باغات بھی ہوا کرتے تھے اور اپنے معیار کے اعتبار سے یہ دنیا کے عمدہ ترین زیتون ہوتے تھے لیکن آئندہ نسلیں جب زیتون کے باغات کی آبیاری کریں گی تو کچھ بعید نہیں کہ یہاں کے زیتون کے رنگ میں مسلمانوں کے لہو کی آمیزش بھی ہو۔

فرعون مر گیا ، مگر فرعون محض ایک شخص نہیں تھا جو مر جاتا، وہ درندگی کی علامت تھا۔ انسانی حیوانیت کی معراج تھا۔ بچوں کو قتل کرنے کی جو رسم اس نے شروع کی تھی آج کی اس مہذب دنیا میں اس کے پیروکار اسی فرعونی رسم کا احیاء کر رہے ہیں۔ بشار الاسد کو بشارت ہو دنیا اسے کبھی نہیں بھولے گی۔ وہ اسلامی تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔ اس کی فرعونیت، بہیمیت اور درندگی ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔ اس نے تاریخ میں اپنے لیے اسی کردار کو منتخب کیا ہے تو اسے اسی عنوان سے یاد بھی رکھا جائے گا۔

زمین پر گرنے والاخون اگر مسلمانوں کا ہو تو نہ حقوق انسانی کے سب سے بڑے علمبردار امریکا کو کوئی تکلیف ہوتی ہے اور نہ ہی اشتراکیت زدہ روس کو۔ اقوام متحدہ بھی ایسے موقع پر خاموشی اختیار کرلیتی ہے۔ مظلومانِ شام کی بربادی میں ان سب کا مشترکہ کردار ہے۔

اور داعش کا خلیفہ کہاں ہے !! تاریخ کا وہ لمحہ یاد کرو، جب تاتاریوں میں گھری ایک عورت وا معتصماہ پکارتی ہے اور عباسی خلیفہ معتصم باللہ اس کی مدد کے لیے نکل پڑتا ہے۔ شام کی کتنی ہی مظلوم عورتیں اپنی عزت و عصمت کی حفاظت کرتے ہوئے اپنے ہی ہاتھوں ابدی نیند سو گئیں مگر خلافت اسلامیہ کے اس دعویے دار خلیفہ کی رگ حمیت نہ جاگی۔

اور وہ جو ہر سال القدس کی آزادی کی لیے ریلیاں نکالتے ہیں۔ اسی القدس پر غاضبانہ قبضہ کرنے والے اسرائیل کے ساتھ مل کر حلب کی سر زمین پر مسلمانوں کا لہو بہا رہے ہیں۔

تفو بر تو اے چرخ گرداں تفو

افسوس اس بات کا نہیں کہ حلب جل گیا افسوس تو اس بات کا ہے کہ امت مسلمہ کا قلب جل گیا ہے۔ آج ایک ارب مسلمانوں میں ایسے دو ہاتھ بھی نہیں جو بارگاہ الٰہی میں اٹھیں تو خالی نہ لوٹائے جائیں اور ایسی ایک زبان بھی نہیں جس کی صدائے دل سوز عرش الٰہی تک پہنچ کر مرتبہ اجابت حاصل کرسکے۔

یہ سب ہماری بد عملی کی سزا ہے۔ ہم بد عمل ہیں اسی لیے "وھن” کی بیماری میں مبتلا ہیں۔ لیکن وہ سب جو آج مظلوم مسلمانوں کے لہو سے اپنے ہاتھ رنگ رہے ہیں۔ خواہ شام و عراق میں ہوں یا فلسطین و کشمیر میں اور یا میانمار و فلسطین میں، بخوبی جان لیں جس دن ہم نے اپنے بد عملی سے توبہ کرلی وہ دن ان کے لیے انتہائی سخت دن ہوگا۔ ایک ایسا دن جسے چشم فلک نے آج تک نہیں دیکھا۔

اے اقوام تہذیب کے علمبردارو !

اے مساوات انسانی کے دعویدارو !

اور اے امت مسلمہ کی وحدت کا پرچار کرنے والے منافقو!

ڈرو اس دن سے جب ہم اپنے سر نہیں روح اللہ کی بارگاہ میں جھکا دیں گے۔

ڈرو اس دن سے جب ہم اپنے نفسوں کی نہیں صرف اللہ واحد قہار کی پرستش کریں گے۔

ڈرو اس دن سے جب زندگی ہمارے لیے بوجھ اور موت اللہ سے ملاقات کا ذریعہ بن جائے گی۔

ڈرو اس دن سے جب تمہارے پاس ہمیں ڈرانے کے لیے کچھ باقی نہیں رہے گا۔

کیونکہ وہ دن ہماری تاریخ بھی بدل دے گا اور تمہاری تاریخ بھی۔

٭-٭-٭-٭-٭

دجال کے قدموں کی آہٹ سنائی دیتی ہے


الواقعۃ شمارہ : 53 – 54 ، شوال المکرم و ذیقعد 1437ھ

از قلم : محمد تنزیل الصدیقی الحسینی

حادثے اس تیزی سے رونما ہو رہے ہیں کہ واقعات کا اعتبار اٹھ سا گیا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جسے زمانہ پرورش کر رہا تھا برسوں ، وہ حادثے اب رونما ہو رہے ہیں۔ عالم اسلام پر ہر طرف سے یلغار ہی یلغار ہے۔ چمنستانِ اسلام کا کونسا گوشہ ہے جو درد و الم کی سسکیوں اور آہ و غم کی صداؤں کے شور سے بوجھل نہیں۔ وہ کونسی فصل ہے جس کی آبیاری خونِ مسلم سے نہیں ہو رہی۔ کو پڑھنا جاری رکھیں

بنگلہ دیش کا حیا باختہ ناٹک


رمضان المبارک 1434ھ/ جولائ، اگست 2013، شمارہ   16

بنگلہ دیش کاحیا باختہ ناٹک

عرفان صدیقی

بنگلہ دیش (Bangladesh) میں ایک بار پھر اضطراب کی لہریں اٹھ رہی ہیں۔ مجیب الرحمن کی بیٹی کے دل و دماغ میں ایک بھٹی مسلسل دہک رہی ہے۔ پاکستان اور اس سے نسبت رکھنے والی ہر شے اس کے دل میں کانٹے کی طرح چبھتی ہے۔ بھارت کو وہ اپنا نجات دہندہ خیال کرتی ہے۔ جن دنوں میں ایوان صدر میں جناب محمد رفیق تارڑ کا پریس سکریٹری تھا حسینہ واجد بطور وزیر اعظم پاکستان کے دورے پہ تشریف لائیں۔ صدر سے ان کی ملاقات کے دوران میں بھی موجود تھا۔ اپنی گفتگو میں وہ پاکستان اور بنگلہ دیش کی باہمی تعلقات کے بجائے مسلسل بھارت کی وکالت کرتی رہیں۔ اگر کسی کو تعارف نہ ہو تو ان کی باتیں کلی طور پر بھارتی سفیر کی باتیں لگتی تھیں۔ کو پڑھنا جاری رکھیں

Present day challenge and the Muslim World


رمضان المبارک 1434ھ/ جولائ، اگست 2013، شمارہ   16
 
عالم اسلام اور عصر حاضر کا چیلنج (اداریہ)

Present day challenge and the Muslim World

محمدتنزیل الصدیقی الحسینی
اس وقت عالم اسلام بیک وقت دو محاذوں پر نبرد آزما ہے :
(١) پہلے محاذ کا تعلق میدانِ جنگ و حرب سے ہے اور
(٢)دوسرے محاذ کا تعلق میدانِ علم و فکر سے


عالم اسلام پر مسلط جنگ
عالم اسلام کی زمینی سیاسی حقیقت یہ ہے کہ چارو ناچار اسے حالتِ جنگ کا سامنا ہے ۔ شاید ہی کوئی اسلامی ملک ایسا ہو جسے اندرونی یا بیرونی طور پر اغیار کی سازشوں کا سامنا نہ ہو ۔ یہ جنگ باقاعدہ طور پر میدانِ حرب میں بھی لڑی جا رہی ہے اور بساطِ سیاست پر بھی ۔ اب چونکہ جنگوں کے طریقے بدل چکے ہیں ۔ جنگیں کئی محاذوں پر لڑی جاتی ہیں ۔ میدان حرب میں اسلحہ و بارود کی گھن گرج کے ساتھ بھی لڑی جاتی ہے اور معاشیات کے میدان میں طلبِ زر کی کمی و زیادتی سے بھی یہ بازی جیتی جاتی ہے ۔ کو پڑھنا جاری رکھیں