تبصرہ کتب


الواقعۃ شمارہ: 113 – 118، شوال المکرم 1442ھ تا ربیع الاول 1442ھ

مبصر : محمد تنزیل الصدیقی الحسینی

فتاویٰ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ
کا اردو ترجمہ

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تاریخ اسلام کی ان غیر معمولی شخصیات میں سے ایک اور نمایاں ترین مقام رکھتے ہیں جن کی ذات پر علم و عمل کو ناز ہے اور جو محض تاریخی نہیں بلکہ تاریخ ساز شخصیت تھے۔ کو پڑھنا جاری رکھیں

تبصرہ کتب: نوائے ضمیرؔ


الواقعۃ شمارہ: 101 – 103، شوال المکرم تا ذی الحجہ 1441ھ

نوائے ضمیرؔ

مجموعہ کلام حکیم محمود احمد ضمیرؔ برکاتی
مرتب: ڈاکٹر سہیل برکاتی
سن طباعت: 2019ء، صفحات: 122
ناشر: برکات اکیڈمی، سی 19، بلاک اے – 3، گلستانِ جوہر کراچی
رابطہ نمبر: 03323456259

حکیم محمود احمد برکاتی عالم، حکیم، فلسفی، طبیب اور کئی کتابوں کے مصنف تھے۔ قدیم و جدید پر ان کی یکساں نظر تھی۔ علوم عقلیہ کی ایک مخصوص علمی و فکری دبستان کے نمائندہ عالم تھے۔ لیکن بہت کم لوگ ہوں گے جو یہ جانتے ہوں کہ حکیم صاحب با قاعدہ شاعر بھی تھے۔ ان کی شاعری ان کے افکار و خیالات کی طرح پاکیزہ اور با مقصد تھی۔ ان کا یہ مجموعہ کلام "نوائے ضمیرؔ” ان کی وفات کے چھے برس بعد پہلی مرتبہ منصہ شہود پر آیا ہے۔ حکیم صاحب کا کلام منتشر و متفرق تھا اس کے مرتب ان کے صاحب زادے ڈاکٹر سہیل برکاتی ہیں۔ جنھوں نے بڑی محبت کے ساتھ اپنے والد کے کلام کو یکجا کیا اور عمدہ انداز میں اس کی طباعت کی۔

کتاب کے آغاز میں حکیم صاحب کا مختصر سوانحی خاکہ تحریر کرنا چاہیے تھا جس کی کمی محسوس ہوتی ہے۔

حکیم محمود احمد برکاتی 21 اکتوبر 1924ء کو ریاست ٹونک (راجستھان، انڈیا) میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم ٹونک میں مدرسۂ خلیلیہ نظامیہ میں حاصل کی۔ اس کے بعد مدرسۂ معینیہ عثمانیہ (اجمیر) میں درسِ نظامی کی تکمیل کی۔ اُن کے اساتذہ میں مولانا معین الدین اجمیری، مولانا محمد شریف اعظم گڑھی، مولانا عبد الرحمن چشتی وغیرہم شامل ہیں۔ اس کے بعد الٰہ آباد سے فاضلِ ادب اور طبیہ کالج (دہلی) سے فاضل الطب والجراحت کی اسناد حاصل کیں۔

عملی زندگی کا آغاز ٹونک میں اپنے مطب سے کیا۔ 1954ء میں کراچی تشریف لے آئے اور اس کو اپنا مستقل مسکن بنایا۔ کراچی میں اپنا مطب برکاتی دواخانہ قائم کیا اور طب اور علم و ادب کی خدمت میں مصروف ہو گئے۔ طب کے میدان میں اُن کی غیر معمولی تحقیقی خدمات کے اعتراف میں ہمدرد یونی ورسٹی (کراچی) نے اُنھیں 1997ء میں ’’سندِ امتیازِ طب‘‘ اور 2001ء میں ’’ڈاکٹر آف سائنس‘‘ کی اعزازی سند عطا کی۔ تاریخ، سوانح اور طب ان کے پسندیدہ موضوعات تھے جن پر حکیم صاحب نے دو درجن سے زائد کتابیں لکھیں۔ 9 جنوری 2013ء کو فیڈرل بی ایریا کراچی میں  واقع ان کے مطب میں دہشت گردوں نے فائرنگ کر کے انھیں شہید کر دیا۔ اللہ رب العزت ان کے درجات بلند کرے۔

۔”نوائے ضمیرؔ” مختصر سا مجموعہ کلام ہے۔ تاہم اس میں افکار کی مختلف جہتیں اور شاعری کے کئی اسالیب نظر آتے ہیں۔ کہیں تشبیہ و استعارات ہیں تو کہیں  واشگاف طور پر اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہیں اور کہیں گزشتہ شاعروں کے زمین کی پیروی اپنے اسلوب میں کرنے کی کوشش کی ہے۔

۔”حرم نامہ” کے زیرِ عنوان لکھتے ہیں:-۔

اک خطا کار و سیہ کار ہو مہمانِ حرم
اللہ اللہ رے ! یہ وسعتِ دامانِ حرم
لرزشِ دل کے سوا، اشکِ مسلسل کے سوا
کوئی ہدیہ نظر آتا نہیں شایانِ حرم

۔13 اگست 1996ء کو عمرہ کی سعادت کے موقع پر جو نظم انھوں نے لکھی اس میں امت کی پریشانیوں کا نوحہ بھی ہے اور عجز کا اعتراف بھی۔ اس کی ابتدا اس طرح کرتے ہیں:-۔

محمود خطا کار ہے اے رب محمد ﷺ
اب حاضر دربار ہے اے رب محمد ﷺ

اور اختتام اس طرح:-۔

چاہے تو ہمیں پھر سے مسلمان بنا دے
تو قادر و مختار ہے اے رب محمد ﷺ

۔نشید توحید” کے زیر عنوان ایک موحدانہ نظم کے اشعار ملاحظہ کیجیے:-۔

صنم کدے میں ترے جذبہ پرستش کو
نہ مل سکے گا سکوں، لا الہ الا اللہ
جیوں تو صرف خدا کے لیے ہو زیست مری
مروں تو کہہ کے مروں، لا الہ الا اللہ
ضمیرؔ بر سرِ اوراق عالم اسباب
نوشتہ ایم زخوں، لا الہ الا اللہ

موسم حج کے موقع پر جب شاعر زیارت سے محروم تھے تو بے اختیارانہ کہہ اٹھتے ہیں:-۔

موسم گل آ گیا زنداں میں بیٹھے کیا کریں
خون کے چھینٹوں سے کچھ پھولوں کے خاکے ہی سہی

حکیم صاحب ماہر منطق و فلسفہ بھی تھے، اُس کے اثرات بھی ان کی شاعری میں کہیں کہیں نمایاں ہیں۔ کلام ضمیرؔ میں عام قاری کے لیے عموماً یہ مقام قدرے مشکل ہے۔ ایک آسان سا فلسفیانہ شعر ملاحظہ ہو:-۔

اعتراف عدم علم، بایں لا علمی
دعویٰ علم عدم کے لیے ہے اک تقریب

کلام ضمیرؔ کے چند متفرق اشعار ملاحظہ فرمایئے:-۔

دل دیا، جاں سونپ دی اور نذر ایماں کر دیا
میں نے جو کچھ پاس تھا وہ نذرِ جاناں کر دیا
اللہ اللہ آپ کے رنگیں تصور کی بہار
قلبِ ویراں کو مرے، رشکِ گلستاں کر دیا
غم انسان کی فطرت میں داخل ہے شاید
خوشی میں بھی رونے کو جی چاہتا ہے
انکشافِ حادثات شام ہجراں کیا کریں
ہم پریشان ہیں تو ہوں ان کو پریشاں کیا کریں
دل بھی ان کا، دیں بھی ان کا، جاں بھی ان کی، اے ضمیرؔ
سوچنا یہ ہے کہ آخر ان پہ قرباں کیا کریں
اے قصر نشینِ روح و جاں اٹھ دل سے نکل کر باہر آ!
وہ قرب مجھے مطلوب نہیں، کر دے جو نظر سے پوشیدہ
جو وسوسے کہ دل میں اٹھائے ہوئے تھے سر
ساغر اٹھا لیا تو وہ موہوم ہو گئے
حاصل در نبی کی زیارت سے کیا ہوا
آیا جو انقلاب نہ اپنے مذاق میں
کافر کو اپنی جاں بھی نہیں اس قدر عزیز
مومن کو جس قدر کہ شہادت عزیز ہے

حکیم صاحب کے کلام کا یہ انتہائی مختصر سا مجموعہ ہے۔ بیشتر کلام یا تو ضایع ہو چکا ہے یا پھر ہنوزِ منتظر طباعت ہے۔

جو لوگ با مقصد شاعری پڑھنا پسند کرتے ہیں ان کے لیے نوائے ضمیرؔ ایک لائقِ مطالعہ مجموعہ ہے۔ اسی طرح جو لوگ شعر و ادب کی تاریخ قلمبند کرتے یا اس سے دل چسپی رکھتے ہیں انھیں چاہیے کو کلامِ ضمیرؔ کو بھی اس کا جائز ادبی مقام دیں۔

مبصر: محمد تنزیل الصدیقی الحسینی

مجلہ "الواقعۃ” کراچی : اشاعت خاص برائے "سیدنا ابوبکر صدیق اکبر رضی اللہ عنہ”۔


Syedna Siddiq e Akbar (R.A) – Al-Waqia Magazine (Special Edition)

الحمد للہ مجلہ "الواقعۃ” کی اشاعت خاص برائے "سیدنا ابوبکر صدیق اکبر رضی اللہ عنہ” مرحلہ طباعت سے گزر کر منصہ شہود پر آ چکا ہے۔ حسب ذیل مقامات سے دستیاب ہے:

لاہور:
مکتبہ بیت السلام 03054863017،
دار الاسلام 03219425765

احمد پور شرقیہ:
ادارہ تفہیم الاسلام 03022186601

کراچی:
مکتبہ دار الاحسن 03333738795
بسم اللہ بک ہاؤس 03122846175

ارض پاک و ہند میں اصحاب رسول ﷺ کی آمد


الواقعۃ شمارہ : 88 – 89، رمضان المبارک و شوال المکرم 1440ھ

از قلم : محمد تنزیل الصدیقی الحسینی

ارضِ پاک و ہند میں رسول اللہ ﷺ کی دعوتِ اسلام و توحید کا چرچا خود عہد رسالت ہی میں ہو چکا تھا۔ تاہم پہلے پہل اصحابِ رسول ہی کے مبارک قدموں سے یہاں اسلام کی فاتحانہ آمد ہوئی۔ اصحابِ رسول کی یہاں فاتحانہ آمد کا آغاز رسول اللہ ﷺ کی وفات سے صرف 4 سال بعد 15ھ میں بعہدِ فاروقی ہوا۔ کو پڑھنا جاری رکھیں

تبصرہ کتب : پاکستان میں غزل کے نعت گو شعراء


الواقعۃ شمارہ : 80 – 81، محرم الحرام و صفر المظفر 1440ھ

پاکستان میں غزل کے نعت گو شعراء

مؤلف: سیّد محمد قاسم
صفحات : 560
طبع اوّل: 2018ء
ناشر: رنگِ ادب پبلی کیشنز، آفس نمبر ۵، کتاب مارکیٹ، اردو بازار، کراچی0345-2610434

جناب سیّد محمد قاسم عصر حاضر کے معروف تذکرہ نگار ہیں۔ ان کی تذکرہ نگاری کا دائزہ ماضی قریب سے لے کر زمانہ حال کی شخصیات پر محتوی ہے۔ وہ تذکرہ نگاری کے فنی لوازمات سے واقف ہیں اور اپنی کتابیں بڑے سلیقے اور ذمہ داری کے ساتھ تحریر کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اپنے کو پڑھنا جاری رکھیں

سید اظہار الحق : تحریک پاکستان کے گمنام مجاہد


الواقعۃ شمارہ : 80 – 81، محرم الحرام و صفر المظفر 1440ھ

از قلم : سید کمال احمد

ملی نہیں ہے ہمیں ارضِ پاک تحفے میں
جو لاکھوں دیپ بجھے ہیں تو یہ چراغ جلا

بقول سابق گورنر سندھ جناب حکیم محمد سعید :-
"اپنے محسنوں اور قومی ہیروز کو نظر انداز کرنے والی اقوام تباہ و برباد ہو جاتی ہیںاور ہماری بد حالی کے اسباب میں سے ایک بڑا سبب یہ ہے کہ ہم نے بھی اپنے ہیروز کے کارناموں کو فراموش کر کے اپنی تاریخ کو نظر انداز کر دیا ہے۔ یہ امر قابل غور ہے کہ انڈیا لائبریری میں تمام ہندو لیڈروں کے مکمل فائل موجود ہیں، لیکن مولانا ابو الکلام آزاد سمیت کسی مسلمان لیڈر کی فائل مکمل نہیں ہے۔” (بحوالہ روزنامہ جنگ کراچی، مورخہ ۲۶ نومبر ۱۹۹۳ء) کو پڑھنا جاری رکھیں

بڑھتی ہوئی قبر پرستی


الواقعۃ شمارہ : 78  – 79 ذیقعد و ذی الحجہ 1439ھ

از قلم : ابو عمار سلیم

اسلام کی تعلیمات کا طرہ امتیاز اللہ تبارک و تعالیٰ کی وحدانیت ہے۔ قرآن مجید فرقان حمید اللہ کی وحدانیت کے احکام سے بھرا پڑا ہے۔ جگہ جگہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے بندوں کو مخاطب کر کے اپنے مالک و خالق ہونے کا اعلان کیا ہے اور یہ تاکید کی ہے کہ اس کی ذات کو ہر قسم کے شرک سے پاک رکھا جائے۔ پوری کائنات میں کوئی ایک ذات بھی اس قابل نہیں ہے کہ اللہ کی ہمسری کر سکے اور نہ ہی کوئی ایسا ہے جو اس کے کاموں میں اس کا ہاتھ بٹانے والا ہو یا اس کا مدد گار ہو۔ کو پڑھنا جاری رکھیں

سفر سندھ : کچھ یادیں، کچھ باتیں – قسط : 1


الواقعۃ شمارہ: 74 – 75، رجب المرجب و شعبان 1439ھ

از قلم : محمد تنزیل الصدیقی الحسینی

عرصہ سے خواہش تھی کہ دیار سندھ کے ایک علمی مرکز پیر جھنڈا (سعید آباد، ضلع مٹیاری) اور نواب شاہ سے متصل لکھمیر میں موجود قیمتی کتب خانے کی زیارت کی جائے۔ الحمد للہ اس تقریب کی سعادت بھی بالکل اچانک ترتیب پا گئی۔ ہمارے محترم دوست مولانا انور شاہ راشدی عرصہ دراز سے ہمارے منتظر تھے ہی دوسری طرف ہمارے رفیقِ خاص حافظ شاہد رفیق (گوجرانوالہ) نے بھی اطلاع دی کہ کو پڑھنا جاری رکھیں

مجلہ "الواقعۃ” کراچی : اشاعت خاص برائے "ختم نبوت”۔


Al Waqia Khatam e Nabuwat

الحمد للہ مجلہ الواقعۃ کی اشاعت خاص برائے "ختم نبوت” مرحلہ طباعت سے گزر کر منصہ شہود پر آ چکا ہے۔ حسب ذیل مقامات سے بآسانی دستیاب ہے

لاہور
مکتبہ بیت السلام (ڈسٹری بیوٹر) 03334413318

احمد پور شرقیہ
ادارہ تفہیم الاسلام، مولانا حمید اللہ خان عزیز 03022186601

حیدر آباد
رحمانیہ کتاب گھر حیدر آباد ٹریڈ سینٹر، حیدر چوک 03333030804

کراچی
مکتبہ دار الاحسن، یٰسین آباد، فیڈرل بی ایریا 03333738795
فضلی بک، سپر مارکیٹ، اردو بازار 03219294753
بیت القلم، اردو بازار 03003509152
کتب خانہ سیرت بک مال، اردو بازار 03333114696
حرمین پبلی کیشنز بک مال، اردو بازار 03333030804
حرمین پبلی کیشنز مسجد الصدیق، منور چورنگی، گلستان جوہر 03333030804

 

علمی خزینوں کی جستجو میں – قسط 1


الواقعۃ شمارہ : 64-65، رمضان المبارک و شوال المکرم 1438ھ

از قلم : محمد تنزیل الصدیقی الحسینی

سالِ رواں مجھے پنجاب کے کئی شہروں میں علمی خزینوں کی جستجو میں نکلنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ گو اس سے قبل بھی کئی مرتبہ پنجاب جا چکا ہوں مگر سفر چند شہروں تک محدود رہا لیکن اس بار "‘محدودیت”کی ساری حدیں توڑ دیں۔ سفر اور مسلسل سفر رہا۔ لاہور، گوجرانوالہ، گجرات، سمبڑیال (سیالکوٹ)، مری، اسلام آباد، فیصل آباد، ماموں کانجن، اوکاڑہ، خانیوال، ملتان، شجاع آباد اور جلال پور پیروالہ جانے کا اتفاق رہا۔ الحمد للہ سفر کی مشقت برداشت کی تو انعاماتِ الٰہی کا غیر معمولی فضل بھی ہوا۔ قیمتی اور نادر ذخیرئہ کتب کو دیکھنے کی سعادت ملی۔ متعدد اشخاص سے ملنا اور کئی علمی اداروں میں جانے کا کو پڑھنا جاری رکھیں

عبد الرحمٰن طاہر سورتی


الواقعۃ شمارہ 56، محرم الحرام 1438ھ

از قلم : عبد الوہاب بن محمود سورتی

نام و نسب

عبد الرحمن بن محمد بن  يوسف بن محمد بن احمد بن علی بن ابراہیم سورتی۔

تخلص

طاہر سورتی۔ کو پڑھنا جاری رکھیں

ایک علمی اور یادگار سفر


الواقعۃ شمارہ 51 – 52 ، شعبان المعظم و رمضان المبارک 1437ھ

از قلم : محمد تنزیل الصدیقی الحسینی

ایک طویل عرصے سے خواہش تھی کہ شمالی پنجاب کے مختلف شہروں کا علمی سفر کیا جائے، وہاں کے کتب خانوں کی زیارت کرکے آنکھوں کو ٹھنڈک پہچائی جائے اور پھر اسی بہانے اپنے پرانے دوستوں سے ملاقات کی جائے اور ان دوستوں سے بھی جن دوستی تو مضبوط بنیادوں پر قائم ہوگئی تھی مگر کبھی صورت آشنائی کی نوبت نہ آ سکی تھی۔ ”ادارہ احیاء التراث الاسلامی ” کویت سے انسلاک کے بعد میں نے فی الفور فیصلہ کیا کہ دس برس سے بھی زائد عرصہ پر محیط اس جمود کو توڑا جائے اور اپنی خلوت سے باہر نکل کر جلوت میں قدم رکھا جائے۔ کو پڑھنا جاری رکھیں

خون ناحق


جریدہ "الواقۃ” کراچی، شمارہ 12-13، جمادی الاول، جمادی الثانی 1434ھ/ مارچ، اپریل 2013

محمد جاوید اقبال

سورہ روم میںرب تعالیٰ کا فرمان ہے:
( ظَھَرَالْفَسَادُ فیْ الْبَرّ وَ الْبَحْر بمَا کَسَبَتْ أَیْدیالنَّاس لیُذیْقَھُم بَعْضَ الَّذیْ عَملُوا )
“ زمین اور سمندر میں فساد پھیل گیا لوگوں کے اعمال کے باعث تاکہ اللہ تعالیٰ لوگوں کو ان کے اپنے  اعمال کا مزہ چکھائے ۔“ (الروم  41)
 اللہ تعالیٰ نے بنی آدم کو زمین میں اپنا نائب بنایا تھا اور اس کی ہدایت کے لیے ہردور اور ہرملک میں رسول اور نبی بھیجے۔ اس کے باوجود انسانوں کی بڑی تعداد اچھے انسان کی طرح رہنے پر تیار نہ ہوئی اور جانوروں کی سطح پر زندگی بسر کرتی رہی ۔ اس کاسبب یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ اپنے لطف و کرم کے سبب لوگوں کو ان کے گناہوں پر فوراً گرفت نہ کرتے تھے۔ بلکہ انہیں سنبھلنے کے لیے کافی وقت دیتے تھے۔لیکن مغرور انسان یہ سمجھتے تھے کہ ان کی گرفت کبھی ہوگی ہی نہیں۔سورہ شوریٰ کی تیسویں آیت کا مفہوم ہے: “ تم پر جو مصیبت آتی ہے ، وہ تمہارے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے اور کتنے گناہ تو ہم معاف ہی کر دیتے ہیں۔” کو پڑھنا جاری رکھیں