جنھیں جُرمِ عشق پہ ناز تھا …………۔


ڈاکٹر عبد القدیر خان – ملت اسلامیہ کا عظیم محسن

الواقعۃ شمارہ: 119 – 122، ربیع الثانی تا رجب المرجب 1443ھ

از قلم : محمد تنزیل الصدیقی الحسینی

بالآخر 10 اکتوبر 2021ء کو یہ خبر وحشت اثر اہلِ پاکستان کے سامعہ خراش ہوئی کہ محسن پاکستان جناب ڈاکٹر عبد القدیر حقِ رحمت سے جا ملے۔

یکم اپریل 1936ء کو ہندوستان کے شہر بھوپال میں پیدا ہونے والے ڈاکٹر عبد القدیر موجودہ اسلامی دنیا کے عظیم ترین سائنس دان تھے؛ جنھوں نے اپنی فنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر مسلم امہ کو بالعموم اور مملکت پاکستان کے دفاع کو بالخصوص نا قابلِ تسخیر بناتے ہوئے ایٹم بم بنایا۔ ملت اسلامیہ کے اس عظیم محسن کا یہ قابل فخر کارنامہ خود ان کی زندگی کی سب سے بڑی آزمائش بن گیا وہ مغرب اور مغرب کے پروردہ لوگوں کی نظروں میں ہمیشہ خار بن کر کھٹکتے رہے۔

ان کی پوری زندگی پاکستان کے لیے تھی۔ انھوں نے اپنے ذاتی عیش و آرام کو تج کر خود کو پاکستان کے لیے وقف کر دیا تھا۔ ایک مخصوص و محدود طبقے کو ان کا اخلاص پسند نہیں مگر ہر محبِّ وطن پاکستانی انھیں اپنا محسن سمجھتا ہے۔

بتان شہر کو یہ اعتراف ہو کہ نہ ہو
زبان عشق کی سب گفتگو سمجھتے ہیں

پاکستان کے لیے ان کی عملی کاوشوں کا آغاز 31 مئی 1976ء سے ہوا جب اس وقت کے وزیر اعظم پاکستان ذو الفقار علی بھٹو نے انھیں "انجینئرنگ ریسرچ لیبارٹریز” کے پاکستانی ایٹمی پروگرام میں حصہ لینے کی دعوت دی۔ اسلام اور پاکستان کی خاطر ڈاکٹر خان اپنی پُر تعیش زندگی کو چھوڑ کر پاکستان چلے آئے اور پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے لیے اپنی زندگی وقف کر دی۔ ان کی خدمت کے اعتراف میں اس ادارے کا نام صدر پاکستان جنرل محمد ضیاء الحق نے یکم مئی 1981ء کو تبدیل کر کے ’ ڈاکٹر اے کیو خان ریسرچ لیبارٹریز‘ رکھ دیا۔ یہ ادارہ پاکستان میں یورینیم کی افزودگی میں نمایاں مقام رکھتا ہے۔

ڈاکٹر عبد القدیر خان کی کامیابیوں کے در کھلے تو ان کی دشمنوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا۔ ہالینڈ کی حکومت نے ان پر اہم ایٹمی راز چرانے کا الزام عائد کیا۔ ان پر مقدمہ چلایا گیا؛ ڈاکٹر خان با عزت بری ہوئے کیوں کہ جن معلومات کو چرانے کی بنا پر مقدمہ قائم کیا گیا تھا وہ عام کتابوں میں پہلے سے ہی موجود تھیں۔

ڈاکٹر خان نے محض آٹھ سال کے انتہائی قلیل عرصہ میں اللہ رب العزت کی مدد سے ایٹمی پلانٹ نصب کر کے دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔

۔28 مئی 1998ء کو بھارتی ایٹمی تجربوں کے بعد پاکستان نے ڈاکٹر خان کے تیار کردہ ایٹم بم کا چاغی کے مقام پر چھے کامیاب تجرباتی ایٹمی دھماکہ کیا۔ اس طرح نہ صرف بھارت بل کہ پاکستان کے تمام دشمن ممالک کو دفاعِ پاکستان کے مضبوط و محفوظ ہونے کا احساس دلایا۔

ڈاکٹر عبد القدیر خان کے ایٹمی دھماکے نے پاکستان کو مسلم امہ کا ہیرو بنا دیا۔ مغربی دنیا نے اپنے سازشی نظریے کے تحت پاکستانی ایٹم بم کو اسلامی بم کا نام دیا۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ رب العزت اسے قرار واقعی اسلامی بم بنائے جو سرکشوں اور نا ہنجاروں کی دنیا ویران کر دے۔

ڈاکٹر خان نے اسلام اور پاکستان کے لیے جو کچھ کیا وہ ایسا نہیں تھا کہ جسے عالم کفر و ضلالت نظر انداز کر سکتا۔ ان کے گرد گھیرا تنگ کیا جانے لگا۔ پرویز مشرف دور حکومت میں پاکستان پر لگنے والے ایٹمی مواد دوسرے ممالک کو فراہم کرنے کے الزام کو ڈاکٹر عبد القدیر نے ملک کی خاطر اپنے سر لیا اور اس کے بعد محسن پاکستان پابندی اور نظر بندی کی زندگی کا شکار رہے۔

ڈاکٹر عبد القدیر لکھنے پڑھنے کا بھی خاص ذوق رکھتے تھے۔ ادب سے بھی انھیں دل چسپی تھی۔ انھوں نے ایک سو پچاس سے زائد سائنسی تحقیقاتی مضامین بھی لکھے ہیں معاشرتی و سماجی مسائل پر کالم بھی۔ مجلہ "الواقعہ” کے بھی ڈاکٹر صاحب قاری رہے ہیں اور مجلہ ان کی خدمت میں گاہے گاہے پیش کیا جاتا تھا۔ افسوس ملک و ملت کے اس عظیم محسن سے میری براہ راست ملاقات نہ ہوسکی۔

ڈاکٹر عبد القدیر کو پاکستان کے کئی اہم سرکاری و غیر سرکاری اعزازات حاصل ہیں۔ تاہم ہماری نظر میں یہ تمام اعزازات ان کی خدمات کے سامنے بہت چھوٹے ہیں۔ دراصل یہ ان اعزاز کا اعزاز ہے کہ وہ ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں پیش کیے گئے۔ اللہ رب العزت کی رحمتِ بے پایاں سے ہمیں امیدِ قوی ہے کہ ان کا صحیح اعزاز اللہ کے دربار ہی میں ہوگا۔

ڈاکٹر صاحب کے سینے میں جو دل تھا وہ مدینہ والے کی محبت سے سرشار اور اس کی امت کا غم خوار تھا مگر افسوس ان کی زندگی کوفہ کے ستم ظریفوں کے ساتھ گزری۔ خود فرماتے ہیں:-۔

گُزر تو خیر گئی ہے تیری حیات قدیرؔ
ستم ظریف مگر کوفیوں میں گزری ہے

ڈاکٹر صاحب نے اپنے اوپر عائد پابندیوں کے خلاف عدالتِ عظمیٰ میں ایک درخواست پیش کی تھی۔ اب ان کی وفات کے بعد اس درخواست کی سماعت زیر غور ہے؛ جب کہ ڈاکٹر صاحب ہر قسم کی پابندیوں  سے آزاد ہو چکے ہیں اور اپنے رب کے حضور پیش ہو گئے ہیں جہاں دنیا کی کسی عدالت کا کوئی قانون ان پر لاگو نہیں ہو سکتا۔

قوم کے لیے اپنی پوری زندگی وقف کرنے اور اسلام و پاکستان کے دشمنوں کے دل میں خار بن کر کھٹکنے والا نہ رہا؛ بقول فیضؔ:-۔

نہ رہا جنون رخ وفا یہ رسن یہ دار کرو گے کیا
جنھیں جرم عشق پہ ناز تھا وہ گناہ گار چلے گئے

امت مسلمہ کا المیہ اور اس کا حل


الواقعۃ شمارہ: 113 – 118، شوال المکرم 1442ھ تا ربیع الاول 1442ھ

از قلم : محمد تنزیل الصدیقی الحسینی

مملکت عزیز کے تمام مذہبی حلقوں کو چند امور کا بخوبی ادراک کر لینا چاہیے:-۔

۔1 تمام اسلامی ممالک کی حکومتوں کا رویہ لبرل اور سیکولر جماعتوں کے ساتھ کچھ اور ہوگا اور خالص مذہبی جماعتوں کے ساتھ کچھ اور۔ رویے کا یہ فرق ماضی میں بھی دیکھا جا سکتا ہے، حال میں بھی اور مستقبل میں یہ فرق اپنی شدت کے ساتھ مزید نمایاں ہوگا۔

۔2 تمام مذہبی اسلامی جماعتیں تنہا پرواز کی بجائے اتحاد کی راہ اپنائیں۔ ان کا اتحاد لا دین قوتوں کو کمزور کرے گا اور ان کا انتشار امت محمدیہ علیٰ صاحبھا السلام کے ضعف کا سبب بنے گا۔ اس لیے اللہ اور رسول ﷺ کے نام لیوا، اللہ اور رسول ﷺ کی خاطر ہی متحد ہو جائیں۔

۔3 بنگلہ دیش ہو یا مصر یا پاکستان جب جب مذہبی طبقے نے اپنی اپنی حکومتوں سے محاذ آرائی کی راہ اختیار کی تو انھیں سخت رد عمل کا سامنا کرنا پڑا۔ کیوں کہ یہ سخت رد عمل عالمی طاقتوں کے اشارے اور ان کی خوشنودی پر کیا گیا اسی لیے عالمی حقوق انسانی سے وابستہ تنظیموں کا ضمیر کبھی بیدار نہیں ہوا۔

گو کہ امت مسلمہ اپنی مشکلات کے بد ترین دور سے گزر رہی ہے۔ اور ان حالات میں عمل سے زیادہ ماضی میں کی گئی غلطیوں کے نتائج بھگتنے کے دور سے گزر رہی ہے۔ تاہم ضروری ہے کہ جلد از جلد اسلامی جماعتیں، علمی و فکری اشخاص اس حقیقت کا ادراک کر لیں:-۔

۔1 اس وقت تقریباً ہر مسلک میں متشدد مزاج گروہ کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ جو ”پیالی میں طوفان اٹھانے “ کی صلاحیت سے معمور ہیں اور معمولی معمولی مسائل پر امت محمد ﷺ میں افتراق کے بیج بوتے ہیں۔ ضروری ہے کہ قیادت کی قوت اس محور سے تبدیل کر کے متعدل مزاج افراد کو دی جائے۔ اس طرح سیاسی و سماجی سطح پر ”عمل “ اور ”رد عمل “ دونوں کی نوعیت بدل جائے گی۔

۔2 تمام اسلامی جماعتیں جو اللہ، رسول ﷺ، قرآن اور صحابہ رضی اللہ عنھم پر ہم عقیدہ ہیں۔ آپس میں اتحاد کی فضا بنا کر رکھیں۔ لا دینی قوتوں کے خلاف مل کر کام کریں۔ تنہا پرواز کی بجائے ہمیشہ مشترکہ راہ عمل کو اختیار کریں۔ اس طرح انھیں خس و خاشاک کی طرح بہانا اور آسانی سے دبانا ممکن نہ ہوگا۔

۔3 تمام اسلامی جماعتیں ہر سطح پر مشترکہ پلیٹ فارم کی حوصلہ افزائی کریں۔ اس طرح ایک مثبت معاشرتی تبدیلی رونما ہوگی۔

۔4 کسی بھی طبقے کے لیے کثرت کا زعم انتہائی خطرناک اور محض فریب ہے۔ لا دین طبقات ایسے ہی فریب سے مسلمانوں کے مختلف طبقات کو بے وقوف بناتے آئے ہیں اس لیے وقت آ چکا ہے کہ ہر قسم کے فریب سے باہر نکلا جائے۔

آخر میں عرض ہے کہ اس وقت ”جدید ریاستِ مدینہ “ میں جو قیامت برپا ہے اس کا جواب تمام دینی حلقے ایک ہو کر پورے شعور و اذعان کے ساتھ دیں۔ پوری قوت کے ساتھ لیکن مکمل فہم رکھتے ہوئے تمام لا دینی قوتوں کو بتا دیں کہ اسلام پسندوں کو کسی بھی طرح دیوار سے لگایا نہیں جا سکتا۔ دین کی بنیادی و اعتقادی اساسیات سے انحراف کسی صورت گوارا نہیں کیا جائے گا۔ رسول اللہ ﷺ کے نام کی عزت و حرمت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا اور اس ذات عالی قدر کے ناموس کے لیے ہر قربانی بخوشی دی جا سکتی ہے۔ تمام دینی حلقے یک زبان ہو کر مطالبہ کریں کہ توہینِ رسالت کے مرتکب و ملوث ہر ملک سے ہر طرح کے تعلقات کا انقطاع اب رسول اللہ ﷺ کی عزت و ناموس کا مسئلہ بن چکا ہے۔ قوم ہر طرح کی قربانی دینے کے لیے تیار ہے۔ یورپ ہو یا عالمی طاقتیں وہ سطح ارضی کے فرعون تو ہو سکتے ہیں لیکن کائنات کے پالنہار نہیں۔ ہمارا رازق و مالک کل بھی اللہ تھا اور آج بھی وہی ایک اللہ ہے اور آئندہ بھی صرف اسی ایک اللہ پر ہمارا توکل استوار ہے۔ لہٰذا اسباب معیشت کی تنگی کا ڈراوا، حرمت رسالت ﷺ کی قیمت پر کسی طرح قبول نہیں۔

نہ جب تک کٹ مروں میں خواجہ یثرب کی حرمت پر
خدا شاہد ہے کامل میرا، ایماں ہو نہیں سکتا

قارئینِ ”الواقعۃ “ سے اعتذار

۔”الواقعۃ “ جب سے معرض اشاعت میں آیا ہے الحمدللہ اس کا سفر بلا تعطل جا ری رہا ہے۔ حالات کی نا مساعدت کی وجہ سے ہر ماہ طبع نہ ہو سکا تو دو ماہ پر شائع ہوتا رہا۔ خصوصی اشاعتوں کی وجہ سے اگر دو سے زائد ماہ شمارے کی طباعت ممکن نہ ہو سکی تب بھی جب شمارہ خاص منظر شہود پر آیا تو اس نے اس تاخیر کا بخوبی ازالہ کر دیا۔

تاہم موجودہ شمارہ چھے ماہ کا مشترکہ شمارہ ہے جو شمارہ خاص بھی نہیں۔ یقیناً اس طویل غیر حاضری کے لیے ہم قارئینِ ”الواقعۃ “ سے صمیم قلب سے معذرت خواہ ہیں۔ 15 جولائی کو راقم کی والدہ مکرمہ بقضائے الٰہی وفات پا گئیں۔ ان کا صدمہ جدائی میری ذاتی زندگی کا سب سے بڑا صدمہ ثابت ہوا۔ اس غم سے ابھرنے میں مجھے کافی وقت لگ گیا۔

جانے والے نے ہمیشہ کی جدائی دے کر
دل کو آنکھوں میں دھڑکنے کے لیے چھوڑ دیا

اس کے بعد میرے کئی احباب سفر آخرت پر روانہ ہو گئے۔ ”الواقعۃ “ کی مجلس ادارت کے رکن جناب ابو الحسن بھی راہی ملک عدم ہوئے۔ الواقعۃ کے موجودہ شمارے میں کثرت سے تعزیتی مضامین اسی غم کے اظہار کی ایک شکل ہیں۔ اس بنا پر اگر موجودہ شمارے کو الرسالۃ الحزنیۃ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ رسالہ تیاری کے آخری مرحلے میں تھا کہ محسن پاکستان ڈاکٹر عبد القدیر خان بھی خالق حقیقی سے جا ملے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ طباعت کے لیے مزید تاخیر ممکن نہ تھی ان شاء اللہ ڈاکٹر صاحب کی حیات و خدمات پر اگلے شمارے میں مضمون شامل اشاعت ہوگا۔