پروفیسر ہارون الرشید


الواقعۃ شمارہ: 119 – 122، ربیع الثانی تا رجب المرجب 1443ھ

از قلم : محمد تنزیل الصدیقی الحسینی

بالآخر ’’زندگی نامہ‘‘ کے مولف کی زندگی کا آخری باب اپنی تکمیل کو پہنچا۔ اردو زبان کے مشہور ادیب و نقاد پروفیسر ہارون الرشید 26 جنوری کو سفر آخرت پر روانہ ہو گئے۔ وہ دو ہجرتوں کے حامل دبستان مشرق کی نوا تھے؛ ان کی وفات سے دبستانِ مشرق کا ایک عہد اپنے اختتام کو پہنچا اور امید نہیں کہ کسی نئے عہد کا آغاز ہو سکے۔

پروفیسر ہارون الرشید لالہ بگان، مانک تلہ، کلکتہ میں 3 جولائی 1937ء کو پیدا ہوئے۔ ان کے دادا غازی پور (یوپی) سے اور پر نانا آرہ (بہار) سے کلکتہ آ بسے تھے۔ وہ بچپن ہی سے مذہب کی طرف شدید قلبی رجحان رکھتے تھے۔ سات برس کی عمر سے ہی مسجد میں پنج گانہ نمازیں ادا کرنے لگے تھے جب کہ اس کی نہ انھیں ہدایت کی گئی تھی اور نہ ہی تاکید۔ مذہب سے ان کا تعلق ہمیشہ برقرار اور مستحکم رہا گو وقت کے ساتھ ساتھ ان کے خیالات میں تبدیلی بھی آئی اور قلبِ ماہیت بھی ہوا۔

تقسیم ہند کے وقت ہندوستان کے مختلف خطوں میں مسلم کش فسادات ہوئے؛ لیکن کلکتہ محفوظ رہا۔ اس وقت ان کے خاندان نے فیصلہ کیا کہ وہ وہیں کلکتہ میں  رہیں گے؛ لیکن 1950ء میں کلکتہ میں ہونے والے مسلم کش خونی فسادات نے خاندان کے سربراہ کو اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنے پر مجبور کر دیا۔ چناں چہ اب کسی لیت و لعل کے بغیر ہجرت کا قطعی فیصلہ کر لیا گیا۔ مئی 1950ء کے آخری ہفتے میں پروفیسر صاحب نے اپنے خاندان کے ہمراہ کلکتہ کو الوداع کہا اور پہلے چاٹ گام اور پھر ڈھاکہ چلے آئے۔ چاٹ گام میں ابتدائی قیام کی مدت صرف ایک ماہ تھی۔

ڈھاکہ میں پروفیسر صاحب کی زندگی کا نیا دور شروع ہوا۔ یہیں تعلیم کی تکمیل بھی ہوئی، اور تدریس کا آغاز بھی۔ ادبی ذوق کو جِلا بھی ملی اور تصنیف و تالیف کے لیے قلم کی جنبش بھی ہوئی۔

ڈھاکہ یونی ورسٹی کے شعبہ اردو و فارسی سے انھوں نے اردو میں ایم اے کیا۔ ان کی خواہش تھی کہ وہ پی ایچ ڈی کر لیں۔ اس کے لیے انھوں نے اپنے تئیں پوری کوشش بھی کی مگر اساتذہ کی عدم توجہی کی وجہ سے ان کی پی ایچ ڈی باوجود سعی کے اپنے انجام کو نہ پہنچ سکی۔

ڈھاکہ آ کر زندگی ابھی سنبھلی ہی تھی کہ پھر مشرقی پاکستان سے بنگلہ دیش بننے کی تحریک شروع ہو گئی۔ مشرقی پاکستان میں رہنے والے غیر بنگالیوں کے لیے آہ و فغاں کی ایک نئی راہ منتظر تھی۔ پروفیسر صاحب باوجود یہ کہ کالج میں لیکچرار تھے مگر پھر بھی قید و بند کی صعوبتوں سے گزرے۔

۔1968ء میں پروفیسر صاحب کی پہلی تصنیف ’’اردو ادب اور اسلام‘‘ کی جلد اوّل منصہ شہود پر آئی۔ یہ کتاب اس لائق تھی کہ اس پر پی ایچ ڈی کی ڈگری مرحمت فرمائی جائے مگر پروفیسر صاحب کے نصیب میں یہ ڈگری نہیں تھی؛ اور پروفیسر صاحب کو اس کا ملال بھی نہیں رہا تھا۔ کتاب کی دوسری جلد 1970ء میں طبع ہوئی۔ حصہ نثر و نظم پرمنقسم؛ ان دونوں جلدوں سے پروفیسر صاحب کی ناقدانہ صلاحیتوں کا اظہار ہوتا ہے۔

پروفیسر صاحب کا قلمی سفر شروع ہو چکا تھا۔ ان کی تحریر کی بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ اپنی بات بڑے سلیقے سے پیش کرتے اور کتاب کے فنی لوازمات کا پورا اہتمام کرتے ہیں۔ ان کی تمام کتابیں تصنیفی اسلوب و تقاضوں کے مطابق لکھی گئی ہیں۔

طبیعتاً وہ ایک مذہبی آدمی تھے۔ ان کے اپنے مذہبی نظریات بھی تھے؛ لیکن اس سے کہیں بڑھ کر عافیت پسند تھے۔ مباحثات و مجادلات سے انھیں قطعاً دل چسپی نہیں تھی۔ وہ اپنے مذہبی خیالات کسی پر مسلط کرنے کے قائل نہیں تھے۔

ان کا اصل میدان ادب تھا؛ اور اسی میدان میں  ان کی طبیعت کا رجحان نمایاں ہوتا ہے۔ انھوں نے اپنی پوری زندگی اسلامی ادب کے فروغ کے لیے وقف کر دی؛ لیکن ادبی دنیا میں ان کی اسلام پسندی ہی ان کا سب سے بڑا جرم بن گئی۔ انھوں نے مسلسل تحقیقی و تنقیدی ادب میں کام کیا۔ مگر انھیں نظر انداز کیا جاتا رہا۔ چوں کہ مذہبی ذہن رکھتے تھے اور ادب کو اسی تناظر میں دیکھتے تھے اس لیے سیکولر مزاج، آزاد خیال بزرجمہروں کے نزدیک یہ ان کا نا قابل معافی جرم تھا۔ ان کے ادبی کام کی وہ قدر نہیں ہوئی جو ہونی چاہیے تھی۔ مذہبی طبقے نے بھی ان کے بعض خیالات سے اختلاف کی بنا پر انھیں لائقِ اعتنا نہیں سمجھا۔

پروفیسر صاحب کا ایک بڑا کارنامہ ’’دبستانِ مشرق‘‘ کی تاریخ کو جریدہ عالم پر ثبت کرنا ہے۔ تقسیم ہند کے بعد مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) میں  اردو زبان و ادب کے کئی اساطین ڈھاکہ، چٹا گانگ، سلہٹ وغیرہا میں آ بسے تھے۔ ان علم و ادب کے پروانوں نے اردو شعر و ادب کی خدمت انجام دی۔ ان میں کئی بڑے نام بھی ہیں۔ مگر افسوس بیشتر کے حالات اور کارناموں پر پردہ خفا کی دبیز چادر چڑھ گئی تھی پروفیسر صاحب نے اس گرد کو صاف کیا اور ان کی خدمات کو نمایاں۔ اس ضمن میں تین کتابیں لکھیں: ’’محفل جو اجڑ گئی‘‘ (2002ء)، ’’دو ہجرتوں کے اہل قلم‘‘ (2012ء) اور ’’نوائے مشرق‘‘ (2013ء)۔ یہ تینوں کتابیں علمی اعتبار سے سند کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ان کتابوں میں پروفیسر صاحب کی حیثیت ایک معاصر تذکرہ نگار کی ہے، جس سے ان کتابوں کی قدر و قیمت کافی بڑھ جاتی ہے۔

پروفیسر صاحب کی دیگر اہم علمی و ادبی کتابوں میں ’’سرگزشتِ آصف‘‘ (1983ء)، ’’نیازؔ فتح پوری کے مذہبی افکار‘‘ (2005ء)، ’’اردو کا دینی ادب‘‘ (2006ء)، ’’اردو کا جدید نثری ادب‘‘ (2009ء)، ’’جدید اردو شاعری‘‘ (2010ء)، ، ’’منقبت صحابہ کرام‘‘ (2010ء)، ’’اردو کا قدیم ادب‘‘ (2011ء)، ’’غلام احمد پرویز کے افکار‘‘ (2014ء)، ’’اسلامی ادب‘‘ (2017ء) وغیرہا شامل ہیں۔

پروفیسر صاحب نے اپنی خود نوشت، ’’زندگی نامہ‘‘ کے عنوان سے لکھی، جو 2015ء میں منظر شہود پر آئی۔ جس سچائی کے ساتھ پروفیسر صاحب نے اپنی داستانِ حیات بیان کی ہے وہ لائق ستائش بھی ہے اور حیرت انگیز بھی۔

بدو شعور کے آغاز ہی سے پروفیسر صاحب سے غائبانہ شناسائی ہو گئی تھی۔ والد صاحب کی تربیت نے بچپن ہی سے کتابوں سے رغبت پیدا کر دی تھی۔ نہایت کم عمری ہی سے کتابیں پڑھنے کا شوق دامن گیر رہا۔ والد مرحوم کی رہ نمائی نے نہ صرف پڑھنے کا شوق پروان چڑھایا بل کہ ذوق و معیار کی تعمیر میں بھی حصہ لیا۔ 12 / 13 برس کی عمر ہوگی کہ پروفیسر صاحب کی کتاب ’’اردو ادب اور اسلام‘‘ حاصل ہوئی۔ کتاب کا اسلوب تصنیف ایسا دل نشیں تھا کہ بڑے ذوق و شوق سے پڑھا۔ اس کتاب نے میرے ادبی ذوق کو نکھارا اور مجھ پر اسلامی ادب کی قدر و منزلت آشکار کی۔

پروفیسر صاحب سے غائبانہ تعلق جس قدر جلد استوار ہوا؛ براہ راست تعلق کی استواری میں اسی قدر تاخیر ہوئی۔ میرے اور ان کے مابین معنوی تعلق کی مدت تقریباً تین برس رہی ہوگی؛ گو تعلق کا دورانیہ طویل نہیں لیکن روابط کے عمق نے جلد ہی اس تاخیر کی تلافی کر دی۔

وہ پیرانہ سال تھے۔ ضعیفی نے ان کے چہرے اور جسم پر اپنے نقوش ثبت کر دیے تھے مگر عالی ہمت تھے۔ آخر وقت تک قلم و قرطاس سے ان کا تعلق برقرار رہا۔ وفات سے صرف تین دن قبل ہی ان سے ملاقات ہوئی۔ اس آخری ملاقات میں پروفیسر صاحب نے کمالِ شفقت کا اظہار فرماتے ہوئے مجھے اپنی تمام کتابوں کی طباعت کی اجازت بھی دے دی تھی۔ اس وقت وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ یہ آخری ملاقات ہوگی اور کتنی ہی باتیں اَن کہی رہ گئیں۔


وہ سالہا سال سے اپنے گھر پر اہل علم و فضل کی اتواری نشست کے میزبان تھے۔ اس میزبانی میں ان کے فرزند جناب زاہد رشید بھی ان کے شریک تھے۔ افسوس اہل علم کی جو بزم انھوں نے سجائی تھی وہ محفل بھی ان کی وفات کے بعد اجڑ گئی۔ دعا ہے کہ اللہ رب العزت انھیں شاخ طوبیٰ کی گھنی چھائوں عطا کرے اور اس دنیا کی محفل سے کہیں بہتر محفل انھیں نصیب ہو۔ آمین

جنھیں جُرمِ عشق پہ ناز تھا …………۔


ڈاکٹر عبد القدیر خان – ملت اسلامیہ کا عظیم محسن

الواقعۃ شمارہ: 119 – 122، ربیع الثانی تا رجب المرجب 1443ھ

از قلم : محمد تنزیل الصدیقی الحسینی

بالآخر 10 اکتوبر 2021ء کو یہ خبر وحشت اثر اہلِ پاکستان کے سامعہ خراش ہوئی کہ محسن پاکستان جناب ڈاکٹر عبد القدیر حقِ رحمت سے جا ملے۔

یکم اپریل 1936ء کو ہندوستان کے شہر بھوپال میں پیدا ہونے والے ڈاکٹر عبد القدیر موجودہ اسلامی دنیا کے عظیم ترین سائنس دان تھے؛ جنھوں نے اپنی فنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر مسلم امہ کو بالعموم اور مملکت پاکستان کے دفاع کو بالخصوص نا قابلِ تسخیر بناتے ہوئے ایٹم بم بنایا۔ ملت اسلامیہ کے اس عظیم محسن کا یہ قابل فخر کارنامہ خود ان کی زندگی کی سب سے بڑی آزمائش بن گیا وہ مغرب اور مغرب کے پروردہ لوگوں کی نظروں میں ہمیشہ خار بن کر کھٹکتے رہے۔

ان کی پوری زندگی پاکستان کے لیے تھی۔ انھوں نے اپنے ذاتی عیش و آرام کو تج کر خود کو پاکستان کے لیے وقف کر دیا تھا۔ ایک مخصوص و محدود طبقے کو ان کا اخلاص پسند نہیں مگر ہر محبِّ وطن پاکستانی انھیں اپنا محسن سمجھتا ہے۔

بتان شہر کو یہ اعتراف ہو کہ نہ ہو
زبان عشق کی سب گفتگو سمجھتے ہیں

پاکستان کے لیے ان کی عملی کاوشوں کا آغاز 31 مئی 1976ء سے ہوا جب اس وقت کے وزیر اعظم پاکستان ذو الفقار علی بھٹو نے انھیں "انجینئرنگ ریسرچ لیبارٹریز” کے پاکستانی ایٹمی پروگرام میں حصہ لینے کی دعوت دی۔ اسلام اور پاکستان کی خاطر ڈاکٹر خان اپنی پُر تعیش زندگی کو چھوڑ کر پاکستان چلے آئے اور پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے لیے اپنی زندگی وقف کر دی۔ ان کی خدمت کے اعتراف میں اس ادارے کا نام صدر پاکستان جنرل محمد ضیاء الحق نے یکم مئی 1981ء کو تبدیل کر کے ’ ڈاکٹر اے کیو خان ریسرچ لیبارٹریز‘ رکھ دیا۔ یہ ادارہ پاکستان میں یورینیم کی افزودگی میں نمایاں مقام رکھتا ہے۔

ڈاکٹر عبد القدیر خان کی کامیابیوں کے در کھلے تو ان کی دشمنوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا۔ ہالینڈ کی حکومت نے ان پر اہم ایٹمی راز چرانے کا الزام عائد کیا۔ ان پر مقدمہ چلایا گیا؛ ڈاکٹر خان با عزت بری ہوئے کیوں کہ جن معلومات کو چرانے کی بنا پر مقدمہ قائم کیا گیا تھا وہ عام کتابوں میں پہلے سے ہی موجود تھیں۔

ڈاکٹر خان نے محض آٹھ سال کے انتہائی قلیل عرصہ میں اللہ رب العزت کی مدد سے ایٹمی پلانٹ نصب کر کے دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔

۔28 مئی 1998ء کو بھارتی ایٹمی تجربوں کے بعد پاکستان نے ڈاکٹر خان کے تیار کردہ ایٹم بم کا چاغی کے مقام پر چھے کامیاب تجرباتی ایٹمی دھماکہ کیا۔ اس طرح نہ صرف بھارت بل کہ پاکستان کے تمام دشمن ممالک کو دفاعِ پاکستان کے مضبوط و محفوظ ہونے کا احساس دلایا۔

ڈاکٹر عبد القدیر خان کے ایٹمی دھماکے نے پاکستان کو مسلم امہ کا ہیرو بنا دیا۔ مغربی دنیا نے اپنے سازشی نظریے کے تحت پاکستانی ایٹم بم کو اسلامی بم کا نام دیا۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ رب العزت اسے قرار واقعی اسلامی بم بنائے جو سرکشوں اور نا ہنجاروں کی دنیا ویران کر دے۔

ڈاکٹر خان نے اسلام اور پاکستان کے لیے جو کچھ کیا وہ ایسا نہیں تھا کہ جسے عالم کفر و ضلالت نظر انداز کر سکتا۔ ان کے گرد گھیرا تنگ کیا جانے لگا۔ پرویز مشرف دور حکومت میں پاکستان پر لگنے والے ایٹمی مواد دوسرے ممالک کو فراہم کرنے کے الزام کو ڈاکٹر عبد القدیر نے ملک کی خاطر اپنے سر لیا اور اس کے بعد محسن پاکستان پابندی اور نظر بندی کی زندگی کا شکار رہے۔

ڈاکٹر عبد القدیر لکھنے پڑھنے کا بھی خاص ذوق رکھتے تھے۔ ادب سے بھی انھیں دل چسپی تھی۔ انھوں نے ایک سو پچاس سے زائد سائنسی تحقیقاتی مضامین بھی لکھے ہیں معاشرتی و سماجی مسائل پر کالم بھی۔ مجلہ "الواقعہ” کے بھی ڈاکٹر صاحب قاری رہے ہیں اور مجلہ ان کی خدمت میں گاہے گاہے پیش کیا جاتا تھا۔ افسوس ملک و ملت کے اس عظیم محسن سے میری براہ راست ملاقات نہ ہوسکی۔

ڈاکٹر عبد القدیر کو پاکستان کے کئی اہم سرکاری و غیر سرکاری اعزازات حاصل ہیں۔ تاہم ہماری نظر میں یہ تمام اعزازات ان کی خدمات کے سامنے بہت چھوٹے ہیں۔ دراصل یہ ان اعزاز کا اعزاز ہے کہ وہ ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں پیش کیے گئے۔ اللہ رب العزت کی رحمتِ بے پایاں سے ہمیں امیدِ قوی ہے کہ ان کا صحیح اعزاز اللہ کے دربار ہی میں ہوگا۔

ڈاکٹر صاحب کے سینے میں جو دل تھا وہ مدینہ والے کی محبت سے سرشار اور اس کی امت کا غم خوار تھا مگر افسوس ان کی زندگی کوفہ کے ستم ظریفوں کے ساتھ گزری۔ خود فرماتے ہیں:-۔

گُزر تو خیر گئی ہے تیری حیات قدیرؔ
ستم ظریف مگر کوفیوں میں گزری ہے

ڈاکٹر صاحب نے اپنے اوپر عائد پابندیوں کے خلاف عدالتِ عظمیٰ میں ایک درخواست پیش کی تھی۔ اب ان کی وفات کے بعد اس درخواست کی سماعت زیر غور ہے؛ جب کہ ڈاکٹر صاحب ہر قسم کی پابندیوں  سے آزاد ہو چکے ہیں اور اپنے رب کے حضور پیش ہو گئے ہیں جہاں دنیا کی کسی عدالت کا کوئی قانون ان پر لاگو نہیں ہو سکتا۔

قوم کے لیے اپنی پوری زندگی وقف کرنے اور اسلام و پاکستان کے دشمنوں کے دل میں خار بن کر کھٹکنے والا نہ رہا؛ بقول فیضؔ:-۔

نہ رہا جنون رخ وفا یہ رسن یہ دار کرو گے کیا
جنھیں جرم عشق پہ ناز تھا وہ گناہ گار چلے گئے

امت مسلمہ کا المیہ اور اس کا حل


الواقعۃ شمارہ: 113 – 118، شوال المکرم 1442ھ تا ربیع الاول 1442ھ

از قلم : محمد تنزیل الصدیقی الحسینی

مملکت عزیز کے تمام مذہبی حلقوں کو چند امور کا بخوبی ادراک کر لینا چاہیے:-۔

۔1 تمام اسلامی ممالک کی حکومتوں کا رویہ لبرل اور سیکولر جماعتوں کے ساتھ کچھ اور ہوگا اور خالص مذہبی جماعتوں کے ساتھ کچھ اور۔ رویے کا یہ فرق ماضی میں بھی دیکھا جا سکتا ہے، حال میں بھی اور مستقبل میں یہ فرق اپنی شدت کے ساتھ مزید نمایاں ہوگا۔

۔2 تمام مذہبی اسلامی جماعتیں تنہا پرواز کی بجائے اتحاد کی راہ اپنائیں۔ ان کا اتحاد لا دین قوتوں کو کمزور کرے گا اور ان کا انتشار امت محمدیہ علیٰ صاحبھا السلام کے ضعف کا سبب بنے گا۔ اس لیے اللہ اور رسول ﷺ کے نام لیوا، اللہ اور رسول ﷺ کی خاطر ہی متحد ہو جائیں۔

۔3 بنگلہ دیش ہو یا مصر یا پاکستان جب جب مذہبی طبقے نے اپنی اپنی حکومتوں سے محاذ آرائی کی راہ اختیار کی تو انھیں سخت رد عمل کا سامنا کرنا پڑا۔ کیوں کہ یہ سخت رد عمل عالمی طاقتوں کے اشارے اور ان کی خوشنودی پر کیا گیا اسی لیے عالمی حقوق انسانی سے وابستہ تنظیموں کا ضمیر کبھی بیدار نہیں ہوا۔

گو کہ امت مسلمہ اپنی مشکلات کے بد ترین دور سے گزر رہی ہے۔ اور ان حالات میں عمل سے زیادہ ماضی میں کی گئی غلطیوں کے نتائج بھگتنے کے دور سے گزر رہی ہے۔ تاہم ضروری ہے کہ جلد از جلد اسلامی جماعتیں، علمی و فکری اشخاص اس حقیقت کا ادراک کر لیں:-۔

۔1 اس وقت تقریباً ہر مسلک میں متشدد مزاج گروہ کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ جو ”پیالی میں طوفان اٹھانے “ کی صلاحیت سے معمور ہیں اور معمولی معمولی مسائل پر امت محمد ﷺ میں افتراق کے بیج بوتے ہیں۔ ضروری ہے کہ قیادت کی قوت اس محور سے تبدیل کر کے متعدل مزاج افراد کو دی جائے۔ اس طرح سیاسی و سماجی سطح پر ”عمل “ اور ”رد عمل “ دونوں کی نوعیت بدل جائے گی۔

۔2 تمام اسلامی جماعتیں جو اللہ، رسول ﷺ، قرآن اور صحابہ رضی اللہ عنھم پر ہم عقیدہ ہیں۔ آپس میں اتحاد کی فضا بنا کر رکھیں۔ لا دینی قوتوں کے خلاف مل کر کام کریں۔ تنہا پرواز کی بجائے ہمیشہ مشترکہ راہ عمل کو اختیار کریں۔ اس طرح انھیں خس و خاشاک کی طرح بہانا اور آسانی سے دبانا ممکن نہ ہوگا۔

۔3 تمام اسلامی جماعتیں ہر سطح پر مشترکہ پلیٹ فارم کی حوصلہ افزائی کریں۔ اس طرح ایک مثبت معاشرتی تبدیلی رونما ہوگی۔

۔4 کسی بھی طبقے کے لیے کثرت کا زعم انتہائی خطرناک اور محض فریب ہے۔ لا دین طبقات ایسے ہی فریب سے مسلمانوں کے مختلف طبقات کو بے وقوف بناتے آئے ہیں اس لیے وقت آ چکا ہے کہ ہر قسم کے فریب سے باہر نکلا جائے۔

آخر میں عرض ہے کہ اس وقت ”جدید ریاستِ مدینہ “ میں جو قیامت برپا ہے اس کا جواب تمام دینی حلقے ایک ہو کر پورے شعور و اذعان کے ساتھ دیں۔ پوری قوت کے ساتھ لیکن مکمل فہم رکھتے ہوئے تمام لا دینی قوتوں کو بتا دیں کہ اسلام پسندوں کو کسی بھی طرح دیوار سے لگایا نہیں جا سکتا۔ دین کی بنیادی و اعتقادی اساسیات سے انحراف کسی صورت گوارا نہیں کیا جائے گا۔ رسول اللہ ﷺ کے نام کی عزت و حرمت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا اور اس ذات عالی قدر کے ناموس کے لیے ہر قربانی بخوشی دی جا سکتی ہے۔ تمام دینی حلقے یک زبان ہو کر مطالبہ کریں کہ توہینِ رسالت کے مرتکب و ملوث ہر ملک سے ہر طرح کے تعلقات کا انقطاع اب رسول اللہ ﷺ کی عزت و ناموس کا مسئلہ بن چکا ہے۔ قوم ہر طرح کی قربانی دینے کے لیے تیار ہے۔ یورپ ہو یا عالمی طاقتیں وہ سطح ارضی کے فرعون تو ہو سکتے ہیں لیکن کائنات کے پالنہار نہیں۔ ہمارا رازق و مالک کل بھی اللہ تھا اور آج بھی وہی ایک اللہ ہے اور آئندہ بھی صرف اسی ایک اللہ پر ہمارا توکل استوار ہے۔ لہٰذا اسباب معیشت کی تنگی کا ڈراوا، حرمت رسالت ﷺ کی قیمت پر کسی طرح قبول نہیں۔

نہ جب تک کٹ مروں میں خواجہ یثرب کی حرمت پر
خدا شاہد ہے کامل میرا، ایماں ہو نہیں سکتا

قارئینِ ”الواقعۃ “ سے اعتذار

۔”الواقعۃ “ جب سے معرض اشاعت میں آیا ہے الحمدللہ اس کا سفر بلا تعطل جا ری رہا ہے۔ حالات کی نا مساعدت کی وجہ سے ہر ماہ طبع نہ ہو سکا تو دو ماہ پر شائع ہوتا رہا۔ خصوصی اشاعتوں کی وجہ سے اگر دو سے زائد ماہ شمارے کی طباعت ممکن نہ ہو سکی تب بھی جب شمارہ خاص منظر شہود پر آیا تو اس نے اس تاخیر کا بخوبی ازالہ کر دیا۔

تاہم موجودہ شمارہ چھے ماہ کا مشترکہ شمارہ ہے جو شمارہ خاص بھی نہیں۔ یقیناً اس طویل غیر حاضری کے لیے ہم قارئینِ ”الواقعۃ “ سے صمیم قلب سے معذرت خواہ ہیں۔ 15 جولائی کو راقم کی والدہ مکرمہ بقضائے الٰہی وفات پا گئیں۔ ان کا صدمہ جدائی میری ذاتی زندگی کا سب سے بڑا صدمہ ثابت ہوا۔ اس غم سے ابھرنے میں مجھے کافی وقت لگ گیا۔

جانے والے نے ہمیشہ کی جدائی دے کر
دل کو آنکھوں میں دھڑکنے کے لیے چھوڑ دیا

اس کے بعد میرے کئی احباب سفر آخرت پر روانہ ہو گئے۔ ”الواقعۃ “ کی مجلس ادارت کے رکن جناب ابو الحسن بھی راہی ملک عدم ہوئے۔ الواقعۃ کے موجودہ شمارے میں کثرت سے تعزیتی مضامین اسی غم کے اظہار کی ایک شکل ہیں۔ اس بنا پر اگر موجودہ شمارے کو الرسالۃ الحزنیۃ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ رسالہ تیاری کے آخری مرحلے میں تھا کہ محسن پاکستان ڈاکٹر عبد القدیر خان بھی خالق حقیقی سے جا ملے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ طباعت کے لیے مزید تاخیر ممکن نہ تھی ان شاء اللہ ڈاکٹر صاحب کی حیات و خدمات پر اگلے شمارے میں مضمون شامل اشاعت ہوگا۔


اللہ تعالیٰ کی نا دیدہ افواج


الواقعۃ شمارہ: 98 – 100، رجب المرجب تا رمضان المبارک 1441ھ

از قلم : ابو عمار سلیم

سالِ رواں چین سے نکلنے والے کورونا وائرس کے خوف نے ساری دنیا کو اپنی لپٹ میں لے لیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے چین میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ اس وائرس میں مبتلا ہوئے اور چند دنوں کے اندر اس سے ہونے والی ہلاکتوں نے نہ صرف چین بلکہ تمام دنیا کو ایک ان دیکھے خوف میں جکڑ لیا۔ اس وائرس کا نہ تو کوئی توڑ دریافت ہوا ہے کو پڑھنا جاری رکھیں

اشارات – اداریہ


الواقعۃ شمارہ: 94 – 95، ربیع الاول و ربیع الثانی 1441ھ

از قلم : محمد تنزیل الصدیقی الحسینی

جس طرح کسی کی رواداری بے جا ہے اسی طرح کسی کا ہراس بھی غلط ہے۔ تم اپنی بزدلی کو وقت کے جبر کا نام نہیں دے سکتے۔ تاریخ کا بے لاگ فیصلہ کو پڑھنا جاری رکھیں

آئیں توبہ کریں


الواقعۃ شمارہ : 92 – 93، محرم الحرام و صفر المظفر 1441ھ

از قلم : ابو عمار سلیم

اللہ خالق کائنات نے جب انسان کو خلق کیا تو باری تعالیٰ کا مقصد روئے ارض پر اپنا نائب اور خلیفہ مقرر کرنا تھا۔ اس مالک کون و مکاں نے انسان کی خلقت میں اس کے مقصد حیات کے عین مطابق بہت ساری خصوصیات رکھیں جو اس کے عمل اور اس کے حیات ارضی کے لیے لازم و ملزوم تھیں۔ کو پڑھنا جاری رکھیں

ارض پاک و ہند میں اصحاب رسول ﷺ کی آمد


الواقعۃ شمارہ : 88 – 89، رمضان المبارک و شوال المکرم 1440ھ

از قلم : محمد تنزیل الصدیقی الحسینی

ارضِ پاک و ہند میں رسول اللہ ﷺ کی دعوتِ اسلام و توحید کا چرچا خود عہد رسالت ہی میں ہو چکا تھا۔ تاہم پہلے پہل اصحابِ رسول ہی کے مبارک قدموں سے یہاں اسلام کی فاتحانہ آمد ہوئی۔ اصحابِ رسول کی یہاں فاتحانہ آمد کا آغاز رسول اللہ ﷺ کی وفات سے صرف 4 سال بعد 15ھ میں بعہدِ فاروقی ہوا۔ کو پڑھنا جاری رکھیں

بھارت کا انتہا پسندانہ رویہ – اداریہ


الواقعۃ شمارہ : 88 – 89، رمضان المبارک و شوال المکرم 1440ھ

از قلم : محمد تنزیل الصدیقی الحسینی

ہندوستان کبھی تقسیم نہ ہوتا اور پاکستان کا قیام کبھی عمل میں نہ آتا اگر خود انتہا پسند ہندوؤں نے مسلمانوں کو تقسیم ملک کے لیے مجبور نہ کیا ہوتا۔ پاکستان کا وجود متعصبانہ ہندو ذہنیت کا نتیجہ ہے۔ کیونکہ مسلمان دنیا کے کسی بھی مذہب کے مقابلے میں نسبتاً زیادہ بہتر طریقے سے کسی بھی تکثیری سماج کا حصہ بننے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ مسلمان بخوشی اپنی دینی روایات کے ساتھ بھارت میں ہندوؤں کے ساتھ مل کر رہ سکتے تھے، جیسا کہ صدیوں سے رہ رہے تھے، وہ بھی ایسی صورت میں جب کہ وہ اقتدار پر فائز رہے تھے۔ لیکن جیسے ہی مسلمانوں کے اقتدار کا سورج غروب ہوا ہندتو کی متعصبانہ ذہنیت بیدار ہو گئی۔
قیام پاکستان کے قریبی پس منظر کو دیکھیں تو 1946ء میں بہار میں ہونے والے مسلم فسادات نے قیام پاکستان کے مطالبے کو ایک حقیقت کے طور پر تسلیم کروادیا۔ پھر تقسیم کے موقعہ پر جس طرح مشرقی پنجاب کے اضلاع میں مسلمانوں خون بہایا گیا اس نے ثابت کر دیا کہ ہندو مسلمانوں کو قبول کرنے کے لیے دل سے تیار نہ تھے۔
تقسیم ہند کو 70 برس سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے، مگر افسوس ہندوئوں کا مذہبی جنون ہنوز برقرار ہے۔ بھارت میں اس وقت ہندوؤں کی واضح اکثریت ہے۔ مسلمانوں کی آبادی خود بھارتی سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 14 سے 15 فیصد ہے۔ لیکن اس کے باوجود ہندو ذہنیت مسلمانوں کو ایک اقلیت کے طور پر بھی قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ یقیناً ہندو مت کے ماننے والے سب ایسے نہیں ہیں۔ لیکن انتہا پسندانہ ہندتو کا فلسفہ تیزی سے بھارتی قوم کا عکاس بنتا جا رہا ہے۔ جب بار بار عوام انتہا پسندانہ سوچ رکھنے والی قیادت منتخب کریں تو اس سے یہی تآثر ابھرے گا اور دنیا ہندتو کو بھارتی قوم کا نہ سہی لیکن بھارت کی اکثریتی آبادی کا بیانیہ ضرور سمجھے گی۔
مودی کی گزشتہ حکومت بھی بھارت میں نہ صرف مسلمانوں بلکہ دیگر اقلیتی مذاہب کے لیے بھی انتہائی تکلیف دہ رہی۔ صرف الیکشن جیتنے کی خاطر جس طرح مودی حکومت نے پاکستان کے خلاف نفرت کی فضا پیدا کی اور سرحد پار در اندازی کی کوشش کی، اس کے نتائج انتہائی خطرناک ہو سکتے تھے۔ مودی حکومت کو انتخابات میں واضح اکثریت کے ساتھ کامیابی مل گئی لیکن اس کامیابی نے خطے کا امن دائو پر لگا دیا۔ کامیابی کے نشے سے سرشار انتہا پسند ہندوؤں نے مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے۔ حال ہی میں جھاڑکھنڈ میں جس طرح مظلوم تبریز انصاری کو ایک مجمع نے جئے شری رام بولنے کے لیے اجتماعی تشدد کا نشانہ بنایا اور بعد میں پولیس کی حراست میں اس کی موت واقع ہوئی اس نے نہ صرف بھارت کے امن پسند افراد کو خواہ وہ کسی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں جھنجھوڑ کر رکھ دیا بلکہ دوسری طرف امریکا جو بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک پر کم ہی کچھ کہتا ہے، اس کی مذہبی آزادی کی رپورٹ میں بھارت میں ہونے والے انتہا پسندانہ واقعات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے تبریز انصاری کے قتل کی تفتیش کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ جس پر بھارت کی ہٹ دھرمی اس حد تک رہی کہ اس نے اس مطالبے کو یکسر مسترد کرتے ہوئے اسے بھارت کا اندرونی مسئلہ قرار دیا۔ بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ جو سلوک کیا جا رہا ہے وہ دنیا کی انسانیت کو بیدار کرنے کے لیے کافی ہے۔ کشمیر میں ریاستی جبر و استحصال گزشتہ 70 سالوں سے جاری ہے۔ اقوام متحدہ کی قرار داد کے باوجود بھارت نے کشمیریوں کو ان کا حق خود ارادیت نہیں دیا۔
بھارت میں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے خلاف ہونے والے پُر تشدد واقعات کے بعد بھارتی حکومت اس لائق ہے کہ اسے ایک دہشت گرد حکومت قرار دیا جائے۔ کم سے کم اسلامی ممالک کی مشترکہ تنظیم او، آئی، سی کو چاہیے کہ وہ اس پر اپنا بھرپور احتجاج ریکارڈ کرائے۔
مودی حکومت بھارت کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے میں تو ناکام رہی لیکن اس نے جذبات کو انگیخت کر کے قوم کو انتشار کی جس راہ پر لگایا ہے اس کا یقینی نتیجہ ہلاکت و بربادی ہے۔ بھارت میں رہنے والے انسانیت پسند افراد – خواہ ان کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو، بالخصوص ہمارے وہ بھائی جو ہندو مت سے تعلق رکھتے اور ساتھ ہی دوسرے مذاہب کی بھی عزت کرتے ہیں اور ان کے حقوق تسلیم کرتے ہیں- کو چاہیے کہ ظلم و نا انصافی کے خلاف اپنی آواز بلند کریں اپنے معاشرے کو تباہی سے بچائیں کیونکہ ان حالات میں ان کی خاموشی پوری قوم کی یقینی بربادی کے مترادف ہے۔

سانحہ کرائسٹ چرچ اور امت مسلمہ کا رویہ


الواقعۃ شمارہ: 86 – 87، رجب المرجب و شعبان المعظم 1440ھ

از قلم : ابو عمار سلیم

جمعۃ المبارک ۱۵ مارچ ۲۰۱۹ء کے دن نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ میں کچھ دہشت گردوں نے مسلمانوں کی دو مساجد پر مسلح حملہ کیا اور درجنوں نہتے اور بے گناہ مسلمانوں کو اپنی گولیوں سے چھلنی کر دیا۔ اب تک کی خبروں کے مطابق تقریباً پچاس مسلمان شہید ہوئے اور کو پڑھنا جاری رکھیں

جدید ٹیکنالوجی: مسیح الدجال کی خدمت میں


الواقعۃ شمارہ: 82 – 85، ربیع الاول تا جمادی الثانی 1440ھ

اشاعت خاص : فتنہ دجالیت

از قلم : ابو عمار سلیم

کرہ ارض پر بسنے والے تمام انسانوں کی زندگیوں کو اللہ تعالیٰ نے ایک آزمائش اور امتحان کے لیے بنایا ہے۔ بلکہ یوں کہیں کہ جب اللہ نے آدم علیہ السلام کی تخلیق کا ارادہ کیا تھا تو فرشتوں کو یہ خبر دی تھی کہ میں زمین پر اپنا خلیفہ اور نائب بناؤں گا۔ یقیناً اللہ رب العزت نے جو تمام حاضر اور غائب کا علم رکھنے والا ہے اور بہترین پلان بنا نے والا ہے، اپنے نائب اور خلیفہ کی آزمائش کا بھی بندوبست کر رکھا ہو گا۔ اور اس آزمائش کا بنیادی مقصد اس بات کو پڑھنا جاری رکھیں

دجالی میڈیا کی حقیقت


الواقعۃ شمارہ: 74 – 75، رجب المرجب و شعبان 1439ھ

از قلم : سید خالد جامعی

میڈیا کا کام ہی یہ ہے کہ خودساختہ خیالات، اوراِصطفائیت یا انتخابیت

(Electicism)

کے طریقے سے ایک خود ساختہ حقیقت تعمیر کر دی جائے جو حقیقت کی دنیا میں کوئی وجود نہ رکھتی ہو مثلاً عالم آن لائن کے پروگرام میں ’’علماء عوام کی عدالت‘‘ میں ایک اینکر نے علماء سے پوچھا پاکستانی معاشرے میں ظلم بڑھ رہا ہے اس کی وجہ علماء ہیں وہ منبرو محراب سے ظلم کے خلاف آواز نہیں اُٹھاتے۔ علماء نے اپنی کو پڑھنا جاری رکھیں

خون بدل، آہ بلب، اشک بمژگاں آید – اداریہ


الواقعۃ شمارہ: 74 – 75، رجب المرجب و شعبان 1439ھ

از قلم : محمد تنزیل الصدیقی الحسینی

آج ہم تاریخ کے اس موڑ پر کھڑے ہیں جہاں ہمارے پاس اپنی عظمت رفتہ کو یاد کرنے کے لیے تو بیش قیمت سرمایہ موجود ہے مگر خود اپنے حال کی زبوں حالی پر اشک بہانے کے لیے اسباب و وجوہ کی کمی نہیں۔ عظمتِ رفتہ کے نقوش کتنے ہی شاندار کیوں نہ ہوں لیکن زمانہ حال کی پسماندگی کو دور نہیں کر سکتے۔ ہم اپنے شاندار ماضی کو کتنا ہی آراستہ کرکے دنیا کے سامنے کو پڑھنا جاری رکھیں

پاکستان : ایک دوراہے پر


الواقعۃ شمارہ: 72 – 73 جمادی الاول جمادی الثانی 1439ھ

از قلم : ابو عمار سلیم

۔ 2018ء کی آمد سے قبل ہی پاکستان ایک عجیب و غریب صورت حال سے دو چار ہو گیا ہے اور یہ تصویر روز بروز زیادہ پراگندہ ہوتی اور خرابی کی طرف بڑھتی نظر آ رہی ہے۔ یہ مملکت جو اسلام کے نام پر قائم ہوا تھا اپنے قیام کے فوراً بعد ہی اور سب کچھ ہو گئی اسلامی نہ رہی۔ کو پڑھنا جاری رکھیں