حرمت رسول ﷺ اور ہمارا لائحہ عمل – اداریہ


الواقعۃ شمارہ : 78  – 79 ذیقعد و ذی الحجہ 1439ھ

از قلم : محمد تنزیل الصدیقی الحسینی

مغرب ایک شدید ترین احساس کہتری کے دور سے گزر رہا ہے۔ اس کے پاس اسلام کی عظمت رفتہ کے مقابل پیش کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں، نہ اس کے پاس سیرت محمدی کی رفعتوں کا کوئی جواب ہے۔ ہر چند برسوں میں توہین رسالت کے اقدامات اور توہین آمیز خاکے مغرب کی شکست کا ذلت آمیز اظہار ہے۔ کو پڑھنا جاری رکھیں

امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ عنہ


الواقعۃ شمارہ : 76 – 77 رمضان المبارک و شوال المکرم 1439ھ

اشاعت خاص : سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ

از قلم : مولانا سید اسماعیل مشہدی

آج ہم خلفائے راشدین المہدیین میں سے خلیفہ چہارم امیر المومنین حضرت علی کرم اﷲ وجہہ کی سیرتِ مقدس پر لکھنے بیٹھے ہیں جس طرح ہم نے اصحابِ ثلاثہ سے متعلق مقالات لکھ کر ان لوگوں کے شکوک و شبہات اور غلط فہمیاں دور کرنے کی کوشش کی تھی، جو ان حضرات اصحابِ ثلاثہ پر کسی نہ کسی سبب سے بدظن اور بدگو ہیں، اسی طرح اس مقالے میں امیر المومنین حضرت علی کی عظیم الشان ہستی کو پڑھنا جاری رکھیں

بیعت رضوان اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ


الواقعۃ شمارہ 55 ذی الحجہ 1437ھ

اشاعت خاص : سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ

از قلم : مولانا شاہ محمد جعفر پھلواروی

صلح حدیبیہ
مہاجرین کو مکہ سے آئے ہوئے کوئی چھ سال ہو گئے تھے۔ بعض مہاجرین کے اہل و عیال ہنوز مکے ہی میں تھے۔ اس کے علاوہ اکثر مسلمانوں کے دل میں زیارت بیت اللہ کا شوق بھی چٹکیاں لے رہا تھا۔ گو مہاجرین مکے سے مستقل ہجرت کر کے مدینے میں آ گئے تھے۔ لیکن وطن کی یاد اتنی جلدی دل سے محو نہیں ہوتی۔ علاوہ ازیں انہوں نے اپنا گھر بار ، املاک ، کھیتی، دوکان اور اہل کفر قرابت داروں کو چھوڑا تھا اور وطنیت کے بت کو توڑا تھا ، کعبے سے تو منہ نہیں موڑا تھا۔ بلکہ اس مرکز دین سے دور ہونے کا تو شدید صدمہ تھا اور وہ اس قبلہ عبادت کو کبھی فراموش نہیں کر سکتے تھے جس کی طرف رخ کر کے نماز ادا کر رہے تھے اور جس کی زیارت اسلام کا چوتھا رکن ہے۔
اسی دوران میں حضور ﷺۖ نے خواب دیکھا کہ صحابہ کے ساتھ حضور ﷺ مناسک حج ادا فرما رہے ہیں۔ اس خواب کی تعبیر آئندہ سال ظہور میں آنے والی تھی۔ تاہم زیارت بیت اللہ کا شوق حضور ﷺ پر اور تمام صحابہ پر اس درجے غالب ہوا کہ سب کے سب سفر مکہ کے لیے رخت سفر باندھ کر تیار ہو گئے اور روانگی عمل میں آ گئی۔
یہ چودہ سو مہاجرین و انصار تھے جو عمرہ ادا کرنے کے شوق میں کشاں کشاں چلے جا رہے تھے۔ یکم ذی القعدہ ۶ھ کو روانگی ہوئی۔ مدینے سے چھ میل ذو الحلیفہ کے مقام پر حضور ﷺ نے اور تمام رفقاء نے عمرے کا احرام باندھا۔ مدینے کی طرف سے آنے والے حجاج کا میقات یہی ذو الحلیفہ ہے۔ احرام کے معنی ہیں حرام کر لینا۔ چونکہ احرام باندھتے ہی قتال و جدال، یاوہ گوئی وغیرہ حرام ہو جاتی ہے اس لیے اسے احرام کہتے ہیں۔ احرام ایک بے سلہ کپڑا ہوتا ہے جسے جسم پر لپیٹ لیا جاتا ہے۔ یہ علامت ہے احرام کی تاکہ دور سے دیکھ کر سمجھ لیا جائے کہ یہ اپنے اوپر قتال و جدال و غیرہ کو حرام کر چکے ہیں۔ یہاں قربانی کے جانوروں کی گردن میں قلاوے بھی ڈال دیئے گئے تاکہ مزید اطمینان ہو جائے کہ ان آنے والوں میں کوئی جنگ کا ارادہ نہیں رکھتا۔ صرف زیارت کعبہ اور ادائے عمرہ کی نیت ہے۔ اس سفر میں دستور عرب کے مطابق مسلمانوں کے پاس تلواریں بھی تھیں لیکن وہ سب نیام میں تھیں۔ یہ بھی ایک اعلان تھا کہ مسلمانوں کی حیثیت صرف زائرین کی ہے۔ مسلمان جا بجا پڑاؤ کرتے ہوئے آ رہے تھے ۔ اس کی خبر اہلِ مکہ ہو گئی۔ انہیں یہ تو یقین تھا کہ اہل اسلام چڑھائی کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے صرف عمرہ ادا کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن انہیں یہ بھی گوارا نہ ہوا کہ مسلمان ادائے عمرہ کی نیت سے مکے میں داخل ہوں۔اس لیے انہوں نے مقابلے کی تیاریاں شروع کر دیں۔ خالد بن ولید (جو ہنوز اسلام نہ لائے تھے ) ایک دستہ فوج لے کر کراع الغمیم روانہ ہو گئے۔ حضور ﷺ ابھی مقام عسفان میں تھے کہ خالد کے آنے کی خبر ملی۔ خالد کے دستے کو پیس کر رکھ دینا ان چودہ سو مہاجرین و انصار کے لیے دشوار نہ تھا۔ لیکن حضور ﷺچونکہ صرف عمرے کا ارادہ رکھتے تھے اور ماہِ حرام ( ذی قعدہ ) کی حرمت بھی قائم رکھنا چاہتے تھے اس لیے دستہ خالد کا سامنا کرنا بھی گوارا نہ فرمایا۔ چنانچہ حضور ﷺ نے داہنی طرف کترا کر ایک دوسرا کٹھن راستہ اختیار فرمایا۔ خالد نے دور سے مسلمانوں اور سواریوں کی اڑتی ہوئی گرد دیکھی اور اہل اسلام کی قوت و شوکت کا اندازہ کر لیا۔ فوراً واپس ہوئے اور اہل مکہ کو خبر دی کہ مسلمان غمیم کے قریب پہنچ گئے ہیں۔ یہ مقام مکے سے نو میل پر ہے ۔ حضور ﷺ کی اونٹنی ( قصویٰ نامی ) مقام حدیبیہ میں رکی۔ حضور ۖﷺ اور تمام صحابہ وہیں اتر پڑے۔ حدیبیہ دراصل ایک کنویں کا نام ہے جو مکے سے آٹھ نو میل کے فاصلے پر ہے۔ یہاں کچھ آبادی بھی تھی اور یہ پورا علاقہ حدیبیہ ہی کے نام سے مشہور تھا۔ یہاں چودہ سو صحابہ کے لیے ایک کنواں کیا کفایت کر سکتا تھا ؟ پہلی ہی مرتبہ میں کنواں خالی ہو گیا اور پانی کی قلت محسوس ہوئی۔ حضور ﷺ کو معلوم ہوا تو دعا فرمائی جس کے بعد پھر پانی کی کوئی کمی نہیں ہوئی۔
حدیبیہ میں قافلہ زائرین کے پہنچنے کی خبر جب بنو خزاعہ کو ملی تو ان کے سردار بُدیل بن ورقاء چند آدمیوں کو لے کر خدمت نبوی میں حاضر ہوئے۔ یہ لوگ اسلام نہیں لائے تھے لیکن مسلمانوں کے حلیف تھے اس لیے ان کی ہمدردیاں اہل اسلام کے ساتھ تھیں اور مسلمانوں کے یہ رازدار بھی تھے۔ بدیل نے آکر حضور ﷺکو خبر دی کہ اہل مکہ نے بڑی تعداد میں جنگجو جوانوں کو جمع کیا ہے اور اعلان کیا ہےکہ وہ ہرگز مسلمانوں کو مکے میں داخل نہ ہونے دیں گے۔ حضور ﷺ نے بدیل ہی کی معرفت قریش کو یہ پیغام بھیجا کہ "ہم لوگ لڑنے نہیں آئے ہیں۔ صرف عمرہ ادا کر کے واپس چلے جائیں گے۔ متعدد جنگوں نے تمہیں یوں بھی کمزور کر دیا ہے ( اس لیے ارادہ جنگ ترک کردو اور ) ایک مدت معینہ کے لیے معاہدہ صلح کرلو ۔ ( اگر لڑو گے تو) اللہ کی قسم جب تک میرے شانوں پر سر موجود ہے میں بھی اس وقت تک لڑتا رہوں گا جب تک اللہ تعالیٰ اپنا فیصلہ نہ فرما دے۔”
بدیل نے مکے پہنچ کر جب قریش کو حضور ﷺ کا یہ پیغام سنان چاہا تو چند جوشیلے نا عاقبت اندیش بول اٹھے کہ "ہمیں محمد (ﷺ) کا کوئی پیغام سننے کی ضرورت ہی نہیں۔” مگر سنجیدہ طبقے نے سکون سے یہ پیغام سنا اور کہا کہ "یہ تو ہم جانتے ہیں کہ مسلمان عمرہ ادا کرنے آئے ہیں۔ لڑنے کا ارادہ نہیں رکھتے۔ لیکن اگر وہ زائرین کی حیثیت سے بھی مکے میں داخل ہوئے تو سارا عرب ہمیں یہی طعنہ دے گا کہ مسلمان فاتحانہ و غالبانہ مکے میں داخل ہو گئے۔ اور ہم یہ طعنہ نہیں سن سکتے۔”
بدیل یہ جواب لے کر واپس ہو گئے اور اہل مکہ نے حالات کا صحیح جائزہ لینے کے لیے جلیس بن علقمہ کو حدیبیہ بھیجا ۔ جلیس نے واپس آکر اسی قسم کی گفتگو کی جو بدیل نے کی تھی۔ مگر قریش کو پھر بھی اطمینان نہ ہوا ۔ بنو ثقیف کے سردار عروہ بن مسعود ثقفی نے کہا کہ "اگر تم کہو تو میں خود جا کر محمد (ﷺ) سے گفتگو کروں ۔ انہوں نے جو باتیں پیش کی ہیں وہ معقول ہیں۔” قریش نے عروہ کو اپنا نمائندہ بنا کر حضور ﷺ کے پاس بھیجا۔ حضور ﷺ نے عروہ سے بھی وہی باتیں فرمائیں جو بدیل کی وساطت سے قریش کو کہلوائی تھیں۔ عروہ نے حضور ﷺ کی باتیں سن کر کہا کہ "اے محمد (ﷺ ) ! اگر تم قریش کو فنا کرو گے تو گویا اپنے ہی ہاتھوں سے اپنی قوم کو برباد کرو گے ۔ اور اگر کہیں جنگ نے پانسہ پلٹا تو تمہارے یہ رفقا گرد کی طرح اڑ جائیں گے۔” عروہ کا یہ جملہ سن کر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو تاؤ آ گیا ۔ فرمایا "او بد بخت ! کیا تو یہ سمجھتا ہے کہ ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کو چھوڑ کر بھاگ جائیں گے ؟” عروہ نے کہا "اے ابو بکر ! میری گردن پر تمہارا ایک احسان ہے جس کا بدلہ میں نے ابھی تک نہیں اتارا ہے ۔ اس لیے میں خاموش ہو جاتا ہوں ورنہ تمہاری سخت کلامی کا مزہ چکھا دیتا۔”
عروہ حضور ﷺ سے گفتگو کرتے ہوئے اپنا ہاتھ بار بار حضور ﷺ کی ریش مبارک تک لے جاتا ۔ حضور ﷺ کے پاس مغیرہ بن شیبہ کھڑے تھے ۔ عروہ کی یہ حرکت انہیں سخت ناگوار گزری۔ کڑک کر بولے : "عروہ ! اگر اب تیرا ہاتھ حضور ﷺ کی ریش مبارک تک آیا تو تیرا ہاتھ پھر واپس نہ جائے گا۔” عروہ نے کہا :” احسان فراموش میرے احسان کو بھول گئے ؟ ” ( ایک موقعے پر چند مقتولین کا خوں بہا مغیرہ کی طرف سے عروہ نے ادا کیا تھا )۔ یہ عربی فطرت دورِ جاہلیت میں بھی تھی کہ دوسرے کے احسان کو فراموش کرتے تھے نہ اپنے احسان کو بھلاتے تھے۔ عروہ نے ایک ہی موقعے پر دونوں جذبے کا اظہار کر دیا۔
عروہ کی گفتگو نا تمام سی رہی۔ وہ مکے میں آ گئے اور قریش سے کہا :-
"اے ابنائے قریش ! میں نے نجاشی کا دربار بھی دیکھا ہے اور قیصر و کسریٰ کے دربار بھی دیکھے ہیں۔ لیکن عقیدت و احترام اور پروانگی و ادب کا جو منظر اس وقت دیکھ کر آ رہا ہوں وہ کہیں بھی دیکھنے میں نہیں آیا ۔ محمد (ﷺ ) جب گفتگو کرتے ہیں تو سارے مجمعے پر سکوت طاری ہو جاتا ہےاور سب ہمہ تن گوش ہو جاتے ہیں۔ کوئی شخص محمد ( ﷺ) کے چہرے کو نظر بھر کر دیکھنے کی جرأت نہیں کرتا۔ وہ وضو کرتے ہیں تو ایک قطرہ بھی زمین پر گرنے نہیں دیا جاتا۔ سارا مجمع اسے اپنے چہرے اور سینے پر ملنے کے لیے ٹوٹ پڑتا ہے۔ محمد ( ﷺ ) کا تو لعاب دہن بھی زمین پر گرنے سے پہلے عقیدت مند اپنے چہروں پر مل لیتے ہیں (۱) ۔ محمد (ﷺ ) کے اصحاب میدان چھوڑ کر بھاگنے والے نہیں۔ اب تم جو مناسب سمجھو وہ کرو۔”
عروہ کی گفتگو سے قریش پر سناٹا چھا گیا اور ان کی قوت فیصلہ درہم برہم ہو گئی۔ کوئی فیصلہ کر چکنے سے پہلے ہی حضور ﷺ نے ایک دوسرے خزاعی خراش بن امیہ کو اپنی سواری کا اونٹ دے کر مکے روانہ فرمایا۔ خراش ابھی اپنی بات بھی پوری نہ کرنے پائے تھے کہ ظالموں نے ان پر حملہ کرنے کا ارادہ کیا۔ سردار احابیش جلیس بن علقمہ نے انہیں پناہ دی اور خراش کی جان بچی مگر ان ظالموں نے ان کے اونٹ کو ہلاک کر دیا۔
اس واقعے کے بعد قریش کے اسّی جوشیلے نوجوانوں کا ایک دستہ مسلمانوں سے جنگ چھیڑنے کے لیے کوہِ تغیم سے اتر کر حدیبیہ کی وادی میں پہنچ گیا۔ لیکن حملے کے آغاز ہی میں مسلمانوں کے محافظ دستے نے ان سب کو گرفتار کر لیا۔ ان کا یہ اقدام فوجی نقطہ نگاہ سے قابل معافی نہ تھا لیکن کچھ تو قرب حرم کا احترام تھا اور کچھ ماہِ حرام کا پاس اور سب سے بڑھ کر رحمت کے تقاضے تھےاور صلح پسندی کا سچا جذبہ۔ اس لیے رحمۃ اللعالمین نے ان سب کو معافی دے کر رہا کر دیا۔ قرآن نے ماہِ حرام میں حملہ آوروں کے جواب میں قتال کی اجازت دی ہے۔وَلاَ تُقَاتِلُوہُمْ عِندَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتَّی یُقَاتِلُوکُمْ فِیْہِ ( البقرۃ : ۱۹۱) لیکن رسول اللہ ﷺ قتال کے موقعے نہیں تلاش فرماتے تھے بلکہ قتال کو روکنے اور صلح کو قائم کرنے کے بہانے ڈھونڈتے تھے۔ صحابہ میں قریشی نوجوانوں کی اس جسارت سے یقیناً جوش انتقام پیدا ہوا ہوگا لیکن جو رسول آیا ہی انسانی اقدار کے قیام کے لیے ہو وہ کیونکر گوارا کر سکتا تھا کہ جذبہ انتقام –اگرچہ جائز اور جوابی ہو — بلدِ حرام اور شہرِ حرام کی حرمت کو مجروح کرے ! اگر ان حملہ آوروں کو قتل کر دیا جاتا تو یہ اس کے مستحق تھے لیکن اہل مکہ کو یہ کہنے کا موقع مل جاتا کہ ان مسلمانوں نے زائرین کا روپ تو دھار لیا ہے لیکن دراصل یہ قتال ہی کی نیت سے آئے ہیں اور بظاہر ہمیں معاہدہ صلح کا پیغام بھجوا رہے ہیں ۔ بہر حال اس موقعے پر حضور ﷺ نے ان مجرموں کو معافی دے کر دینی و اخلاقی قدروں کی محافظت کا انتہائی بلند مظاہرہ فرمایا۔
سیّدنا عمر کا عذر مقبول
حضور ﷺ نے اتمام حجت اور مصالحت کی کوششِ مزید کے لیے حضرت عمر سے فرمایا کہ قریش کے پاس اب تم جا کر بات کرو۔ حضرت عمر نےعرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ مجھ سے قریش کو انتہائی بغض و عناد ہے کیونکہ میں نے دینی معاملات میں ان کے ساتھ کبھی مداہنت و نرمی نہیں برتی ہے۔ علاوہ ازیں میری قوم ( بنی عدی ) کا کوئی ایسا آدمی بھی مکے میں موجود نہیں جو مجھے اپنی پناہ میں لےلے۔ میری رائے ہے کہ حضور ﷺ اس نامہ و پیام کا کام عثمان سے لیں کیونکہ وہ بنو امیہ کے ایک معزز رکن ہیں اور بنو امیہ پر ان کا بڑا اثر ہے۔ حضور ﷺ نے حضرت عمر کی رائے کو پسند فرمایا اور سیدنا عثمان کو مکے بھیج دیا۔
یہاں یہ خوب سمجھ لینا چاہیے کہ اگر محض جان کی قربانی پیش کرنا مقصود ہوتا تو نہ حضرت عمر کو انکار ہوتا اور نہ کسی دوسرے صحابی کو۔ یہاں محض جان کی قربانی کا پیش کرنا یا اپنے آپ کو خطرے میں ڈالنا مقصود ہی نہ تھا۔ مقصد تو تھا ایک کام کو بہتر طریق پر انجام دینا اور نتیجہ خیز طریقہ اختیار کرنا ۔ یہاں عشق و محبت یا بہادری و بزدلی کا کوئی امتحان پیش نظر تھا ہی نہیں۔ یہاں صرف عقل و حکمت اور حسن تدبیر سے ایک کام انجام دینا تھا۔ حضرت عمر کی معذرت نہ بر بنائے بزدلی تھی نہ بر بنائے نا فرمانی۔
دوسرا ضروری قابل غور نکتہ یہ ہے کہ رسول کی بعض باتیں ایسی بھی ہوتی ہیں جن کا ماننا فرض نہیں ہوتا اور نہ ماننے والا خارج از اسلام نہیں ہو جاتا(۲)۔ نکاح ام المومنین زینب بنت حجش کی تفصیلات سے اس نکتے کی پوری وضاحت ہو جاتی ہے۔
رسول اللہ اور بیت اللہ سیدنا عثمان کی نظر میں
حضور ﷺ کے ارشاد کے مطابق سیدنا عثمان بن عفان مکے تشریف لے گئے اور اپنے ایک قرابت دار ابان بن سعید کے گھر ٹھہرے۔ جب اہل مکہ کو حضور ﷺ کا پیغام مصالحت پہنچایا تو انہوں نے صاف لفطوں میں کہہ دیا کہ ہم محمد ( ﷺ ) اور اصحاب محمد (ﷺ ) کو ہرگز مکے میں داخل نہ ہونے دیں گے۔ ہاں اگر تم خود عمرہ ادا کرنا چاہو تو کرلو۔ سیدنا عثمان نے اس کا جو جواب دیا ہے وہ اوراقِ تاریخ پر ہمیشہ ابھرے ہوئے حروف میں ہیرے کی طرح چمکتا رہے گا ۔ آپ نے فرمایا : یہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ میں یہاں تنہا عمرہ و طواف کرلوں اور میرا کعبہ حقیقت ( ﷺ ) بیت اللہ سے دور حدیبیہ میں بیٹھا رہے۔ اللہ اللہ۔ ظاہر بیں فقیہ کی نگاہوں میں جناب عثمان طواف کعبہ کے ایک بڑے ثواب سے محروم رہے مگر حقیقت بیں نگاہ میں اس ترک طواف کا ثواب، ثوابِ طواف سے کہیں زیادہ ہے۔
محمد (ﷺ) اور عثمان (رضی اللہ عنہ) کے درمیان روحانی وائر لیس لگا ہوا تھا۔ یہاں حدیبیہ میں بعض لوگ بولے کہ عثمان بڑے خوش قسمت ہیں۔ وہ کم سے کم عمرہ تو ادا کر ہی لیں گے۔ عثمان کے نبض شناس پیغمبر نے فرمایا :”مجھے یقین نہیں کہ عثمان میرے بغیر عمرہ و طواف کر لیں۔” صدق النبی ﷺ۔ واقعہ بھی یہی ہے کہ عثمان کو حقیقت کعبہ کا کیا علم تھا۔ قوم نے تو اس بیت اللہ کو بیت الاصنام بنا دیا تھا۔ یہ کعبہ حقیقت ہی تھا جس نے حقیقت کعبہ سے دنیا کو روشناس کرایا :-
از جمالِ تو کعبہ شد قبلہ
پیش ازیں ورنہ بود بت خانہ
قتل عثمان کی افواہ اور بیعت رضوان
سیدنا عثمان نے اہلِ مکہ کو پیغام مصالحت دینے کے بعد واپسی کا ارادہ کیا تو روک لیے گئے۔ واپسی میں دیر ہو گئی تو افواہ پھیل گئی کہ عثمان شہید کر دیئے گئے۔ حضور ﷺ نے یہ خبر سنتے ہی فرمایا : "اگر ایسا ہے تو خون عثمان کا قصاص لینا فرض ہے۔” یہ فرما کر ایک ببول کے درخت کے سائے میں تشریف لے گئے اور آواز دی کہ”بایعوا علی الموت” ( سر دھڑ کی بازی لگانے پر بیعت کرو )۔ آوازِ رسول کا سننا تھا کہ تمام صحابہ بیعت کے لیے ٹوٹ پڑے ۔ اسلامی تاریخ کا یہ واقعہ اتنا اہم ہے کہ قرآن پاک نے ان تمام بیعت کرنے والوں کو رضائے الٰہی کی دائمی سند یوں عطا فرمائی کہ
لَقَدْ رَضِیَ اللَّہُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ یُبَایِعُونَکَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِیْ قُلُوبِہِمْ فَأَنزَلَ السَّکِیْنَةَ عَلَیْہِمْ وَأَثَابَہُمْ فَتْحاً قَرِیْباً (الفتح : ۱۸)
"اللہ ان تمام مسلمانوں سے راضی ہے جنہوں نے اس درخت کے نیچے ( اے رسول ) تمہاری بیعت کی۔ پھر اس نے ان کے دلوں کی بات (نیت و اخلاص) جان لی اور ان پر سکینت نازل فرمائی اور انہیں جلد آنے والی فتح سے سرفراز کیا۔”
صرف اسی قدر نہیں بلکہ اس بیعت ( سودے ) کو اتنی اہمیت دی کہ
اِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُونَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُونَ اللَّہَ یَدُ اللَّہِ فَوْقَ أَیْدِیْہِمْ (الفتح : ۱۰)
"جو لوگ ( اے رسول !) تم سے سودا کر رہے تھے ان کے ہاتھوں میں ( تمہارا کیا ) خدا کا ہاتھ تھا۔”
خون عثمان کی قدر و قیمت اللہ اور رسول کی نگاہ میں
ذرا غور کیجیے۔ دنیا میں کسی کے خون کا قصاص لینے کے لیے بارگاہِ نبوت سے کبھی یہ اہتمام ہوا ہے ؟ کس کی جان اتنی پیاری تصور کی گئی ہے جس کے قصاص کے لیے بیعت کرنے والوں کے حق میں اللہ نے اپنی رضا مندی کا غیر فانی پروانہ نازل کیا ہو ؟ کس کی شخصیت اتنی اہم ہے جس کی حرمت کی خاطر جان کی بازی لگانے والوں ہی کا نہیں بلکہ اس درخت کا ذکر بھی قرآن نے کیا ہو جس کے سائے میں جاں بازی کا معاہدہ ہوا تھا ؟ کس ہستی کا خون اتنا قیمتی سمجھا گیا ہے کہ اس کا قصاص لینے والوں کی بیعت کو محض بیعت رسول ہی نہیں بلکہ عین بیعت خدا سے تعبیر کیا گیا ہو ؟ جیسا کہ آگے چل کر معلوم ہوگا کہ حضور ﷺ کو اس کا پورا اندازہ تھا کہ عثمان مکے میں قتل نہیں کیے گئے ہیں۔ پھر سوال یہ ہے کہ خون عثمان کا قصاص لینے کے لیے یہ اہتمام کیوں فرمایا گیا ؟ اس کی دو وجہیں ہماری سمجھ میں آتی ہیں۔ ایک یہ کہ مسلمانوں کے جوش و خروش کی اطلاع اہل مکہ کو مل جائے تاکہ اگر وہ جناب عثمان کے ساتھ کسی قسم کی برائی کا ارادہ رکھتے ہوں تو اس سے باز آجائیں۔ نیز وہ مسلمانوں کی طاقت کا اندازہ بھی کر لیںاور معاہدہ صلح میں تامل نہ کریں۔ دوسری وجہ یہ بھی تھی کہ جناب عثمان پر جو مصیبت آنے والی تھی اس کے بارے میں حضور ﷺ یہ بتانا چاہتے تھے کہ اس نازک وقت میں مسلمان خونِ عثمان کو ایسا ہی قیمتی سمجھ کر محافظت کریں اور ہر فردِ امت ان کا قصاص لینے کے لیے اسی طرح اٹھ کھڑا ہو جس طرح آج حضور ﷺ ہر ایک کو کھڑا کر رہے ہیں۔ مگر آہ خون عثمان بڑی ہی بے دردی سے بہایا گیا۔ امت نے غفلت سے کام لیا۔ جس کے خمیازے میں امت کو پھر کبھی امن و اتفاق دیکھنا نصیب نہ ہوا۔ آج کون عثمان کے بے دردانہ قتل پر آنسو بہانا ثواب سمجھتا ہے ؟ آج کس جگہ ان کی بے گناہی و مظلومی کا ماتم کیا جاتا ہے ؟ آج کہاں ان کے قاتلوں اور سازشیوں کو بد ترین خلائق سمجھا جاتا ہے ؟ سننے والے اپنے اپنے ایمان کا جائزہ لیں۔
مگر خوب ہوا جو حضرت عثمان کے غم کو کوئی مذہبی حیثیت نہ حاصل ہوئی ورنہ ایک اور الگ فرقہ پیدا ہوجاتا جس کا مذہب صرف ماتم عثمان رہ جاتا اور محض چند ایجاد کردہ رسموں پر نجات کا انحصار قرار پا جاتا۔
سیّدنا عثمان زندہ تھے
بیعت رضوان کی ایک عجیب امتیازی خصوصیت یہ تھی کہ جب تمام صحابہ کی بیعت ہو چکی تو حضور ﷺنے اپنے ایک ہاتھ کو اپنے دوسرے ہاتھ پر رکھتے ہوئے فرمایا کہ یہ میرا ہاتھ ہے اور یہ عثمان کا ہاتھ ہے اور اب میں عثمان کی بھی بیعت لیتا ہوں۔ گویا حضور ﷺ نے اشاروں میں بتا دیا کہ عثمان زندہ ہیں۔ کیونکہ بیعت زندوں ہی کی لی گئی تھی اور لی جاتی ہے۔
یہاں یہ نکتہ فراموش نہ کرنا چاہیے کہ اللہ نے رسول کے ہاتھ کو اپنا ہاتھ قرار دیا۔ یَدُ اللَّہِ فَوْقَ أَیْدِیْہِمْ اور آج بیعت رضوان کے وقت رسول اپنے ہاتھ کو عثمان کا ہاتھ قرار دے رہا ہے۔ نتیجہ ظاہر ہے۔ رومی نے شاید ٹھیک ایسے موقعے کے لیے کہا ہے :-
چوں قبول حق شود آں مردِ راست
دستِ او درکارہا دستِ خداست
اس شرف کے مستحق تھے بھی سیدنا عثمان ہی۔ وہ خود فرماتے ہیں کہ جس دن میں نے اسلام قبول کرتے ہوئے اپنا سیدھا ہاتھ رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ میں دیا اس دن سے کبھی میرا وہ ہاتھ میری شرم گاہ سے مس نہیں ہوا۔ غالباً یہی سبب ہے کہ اشاعت قرآن کا کام اسی مبارک ہاتھ سے لیا گیا۔ یہ "مصحف آسمانی” خود رسول اللہ ﷺ کی نگرانی میں مکمل ہو چکا تھا اور اسی کی نقول کی اشاعت کا کام حضرت عثمان نے کیا۔ جناب عثمان صرف "ناشر قرآن”ہیں۔ "جامع قرآن” قطعاً نہیں۔ بہر حال دست قدرت نے اشاعت قرآن کا کام دست عثمان ہی سے لیا کیونکہ عثمان کا ہاتھ رسول کا ہاتھ، اور رسول کا ہاتھ اللہ کا ہاتھ ہے۔ دست او درکارہا دست خدا ست۔حتی کنت یدہ التی یبطش بھا ( حدیث قدسی )
حواشی
(۱) ممکن ہے اس وقت کچھ ایسے عقیدت مند بھی موجود ہوں جو غسالہ وضو یا تھوک وغیرہ کو اپنے چہرہ و جسم پر بطور تبرک مل لیتے ہوں ۔ اب بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو اپنے گروؤں کے ساتھ اسی قسم کی ارادت کا اظہار کر لیتے ہیں۔ لیکن یہ بات مشکل سے سمجھ میں آ سکتی ہے کہ حضور ﷺ جیسا نظافت پسند اسے خوشی سے گوارا کر لے۔ ویسے خود میری بھی عقیدت یہی ہے کہ حضور ﷺ کے غسالہ قدم کے ایک گھونٹ پر کونین کی دولت لٹادوں۔ لیکن حضور ﷺ بھی اسے پسند فرمائیں  گے یا نہیں یہ غور طلب ہے اوریہ بھی غور طلب ہے کہ حضور ﷺ کی پسند کو ترجیح دی جائے یا اپنے جذبہ عقیدت کو۔ ممکن ہے کہ یہ خود عروہ یا بعد کے راویوں کا اضافہ ہو یا بطور محاورہ استعمال ہوا ہو ۔ ہماری زبان میں بھی پاؤں دھو دھو کے پینا کمال احترام و قدر دانی کے معنوں میں مستعمل ہے۔ آخر حضور ﷺ ہر روز وضو فرماتے تھے اور تھوک بھی پھینکتے ہوں گے۔ لیکن قریب ترین صحابہ سے اس نوع کے اظہارِ عقیدت کی پابندی نظروں سے نہیں گزری ہے۔ حد تو یہ ہے کہ بعض صحابہ سے حضور ﷺ کا بول و براز فرو کر لینا بھی مروی ہے۔ ایسی تمام روایتیں ہمارے نزدیک محل نظر ہیں۔
(۲) مراد تشریعی احکام نہیں ہیں ، جن پر ایمان لانا لازم اور جن کا انکار کفر ہے۔ جیسے غیر تشریعی معاملات میں حکم نہیں مشاورت ، مثلاً نبی ﷺ نے حضرت زید اور زینب ( رضی اللہ عنہما) سے کہا کہ وہ علیحدگی اختیار نہ کریں مگر انہوں نے علیحدگی اختیار کر لی اس سے نبی کی نا فرمانی لازم نہیں  آتی۔ ( ادارہ)