دعوۃ یا تباہی۔ قسط 2 آخری


مجلہ "الواقعۃ” شعبان المعظم 1434ھ/ جون، جولائ2013، شمارہ  15

(دعوت  یا  تباہی (قسط 2 آخری

دعوت  یا  تباہی. قسط 1 کے لئے یہاں کلک کریں

ڈاکٹر ذاکر نائیک

تسہیل و حواشی :محمدثاقب صدیقی

ہم دعوة کیسے دیں ؟

اللہ تعالیٰ آپ کو سکھاتے ہیں کہ کس طرح سے دعوة پہنچانی ہے؟ اللہ تعالیٰ آسان طریقہ بتاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ قرآن میں سورة آلِ عمران الآیة :٦٤ میں ارشاد فرماتے ہیں:
  (قل ياهل الکتب)
"کہو اہلِ کتاب ( یہود و نصاریٰ ) سے”
(تعالوا الى کلمة سواء بيننا و بينکم )
"ہم آپس میں اس چیز کے اوپر ، جو چیز آپ میں اور ہم میں مشترک ہے ۔”
(الا نعبد الا الله)
"کہ ہم ایک اللّٰہ سبحانہ و تعالیٰ کی عبادت کریں”۔
(و لا نشرک به شيا)
"اور ہم کسی اَور کو اللہ کے ساتھ شریک نہیں کریں”۔
(و لا يتخذ بعضنا بعضا اربابا من دون الله)
"ہم آپس میں کسی کو معبود نہیں بنائیں اللہ کے علاوہ”
(فان تولوا فقولوا اشهدوا بانا مسلمون)
"اور اگر تم اس بات کو نہیں مانتے تو کہ دو کہ گواہ رہو ہم تو مسلمان ہیں”۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتے ہیں کہ کبھی بھی غیر مسلموں کو دعوة دیں تو سب سے بہترین طریقہ ہے کہ: جو آپ میں اور ہم میں ایک جیسی چیز ہے کم از کم اُس پر عمل کریں ۔ تو سب سے اول اور بہترین چیز ہے کہ ایک اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی عبادت کریںاور کسی اور کو اللہ کے ساتھ شریک نہ کریں۔ کو پڑھنا جاری رکھیں

دعوت یا تباہی فریضۂ دعوت کی اہمیت ڈاکٹر ذاکر نائیک کی نظر میں 1


جریدہ “الواقۃ” کراچی، شمارہ 14، رجب المرجب 1434ھ/ مئی، جون 2013
دعوت  یا  تباہی
فریضۂ دعوت کی اہمیت ڈاکٹر ذاکر نائیک کی نظر میں
قسط 1

مرتب : محمد ثاقب صدیقی

ڈاکٹر ذاکر نائیک عصر حاضر کے مشہور و معروف داعی و مبلغ اسلام ہیں ۔ ان کی تبلیغی مساعی کے نتیجے میں متعدد غیر مسلم افراد حلقہ بگوشِ اسلام ہوئے ۔” دعوت یا تباہی” کے عنوان سے انہوں نے اپنے لکچرمیں تبلیغ کی اہمیت کو نہایت اچھوتے اور منفرد انداز سے بیان کیا ہے ۔ ان کے تقریری بیانیے کو محمد ثاقب صدیقی نے تحریری انداز میں منتقل کیا ہے نیز حواشی میں بعض مقامات پر فہم مطلب کے لیے قرآنی آیات کا اندراج بھی کیا ہے جس کے بعد اس کی” الواقعة” میں طباعت کی جا رہی ہے ۔ ( ادارہ  الواقعۃ )
الحمد اللّٰہ  و الصلوٰة  و السلام علی رسول اللّٰہ و علی آلِہ  و اصحابہ اجمعین اما بعد ! اعوذ با اللہ من الشیطان الرجیم ، بسم اللہ الرحمن الرحیم:
(قُلْ اِنْ كَانَ اٰبَاۗؤُكُمْ وَاَبْنَاۗؤُكُمْ وَاِخْوَانُكُمْ وَاَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيْرَتُكُمْ وَاَمْوَالُۨ اقْتَرَفْتُمُوْهَا
وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسٰكِنُ تَرْضَوْنَهَآ اَحَبَّ اِلَيْكُمْ مِّنَ اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ وَجِهَادٍ فِيْ سَبِيْلِهٖ
فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰي يَاْتِيَ اللّٰهُ بِاَمْرِهٖ  ۭ وَاللّٰهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفٰسِقِيْنَ    ) (سورة التوبة : ٢٤)
(رَبِّ اشْرَحْ لِيْ صَدْرِيْ 25؀ۙوَيَسِّرْ لِيْٓ اَمْرِيْ 26؀ۙ وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِّنْ لِّسَانِيْ 27؀ۙيَفْقَـــهُوْا
قَوْلِيْ 28) ( سورة طٰہ : ٢٥ -٢٨ ) کو پڑھنا جاری رکھیں