تبصرہ کتب: یادگارِ سلف، الاربعین فی مناقب الخلفاء الراشدین


الواقعۃ شمارہ : 92 – 93، محرم الحرام و صفر المظفر 1441ھ

یادگارِ سلف

(استاذ الاساتذہ حافظ عبد اللہ محدث غازی پوری رحمۃ اللہ علیہ کی سوانح حیات)
مولف: حافظ شاہد رفیق
طبع اول: جولائی 2019ء
صفحات: 588     قیمت: 1000 روپے
ناشر: دار ابی الطیب، گل روڈ، حمید کالونی، گلی نمبر 5، گوجرانوالہ برائے رابطہ: 0553823990

گزشتہ صدی کے جن کو پڑھنا جاری رکھیں

عقل و عشق کا حسین امتزاج


الواقعۃ شمارہ : 61-62، جمادی الثانی و رجب المرجب 1438ھ

از قلم : مولانا شاہ محمد جعفر ندوی پھلواروی

ہر انسان کے اندر دو جوہر بہت نمایاں ہوتے ہیں ، عقل اور عشق۔ یہ دونوں جوہر انسانی الگ الگ وظائف و اعمال رکھتے ہیں اور ان کے بغیر زندگی کی گاڑی نہیں چلتی۔عقل کا وظیفہ یہ ہے کہ وہ معاملات زندگی کو سمجھ کر ایک صحیح نتیجہ پر پہنچنے میں مدد دیتی ہے اور خطرات اور مہالک سے بچاتی ہے اور عشق کا وظیفہ یہ ہے کہ اقدار عالیہ کے حصول کی لگن پیدا کرتا ہے اور انہیں حاصل کرنے کے لیے کو پڑھنا جاری رکھیں

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے ملفوظات


الواقعۃ شمارہ 48 – 49 جمادی الاول و جمادی الثانی 1437ھ

از قلم : محمد یاسین شاد

امام المحدثین ابو عبد اللہ محمد بن اسماعیل بخاری کے شاگرد قاضی ابو العباس ولید بن ابراہیم بن زید الہَمذَانی رَے کے قاضی تھے ۔ یہ شہر ( رَے ) ایران کے شہر تہران کے مضافات میں ہے۔ قاضی صاحب کو علم حدیث کا شوق پیدا ہوا ۔ امام بخاری کا علم حدیث میں بلند مقام و مرتبہ تھا ان کی شہرت کی وجہ سے قاضی ابو العباس امام بخاری کی خدمت میں حصول علم حدیث کے لیے حاضر ہوئے اپنی آمد کا مقصد بیان کیا۔

امام بخاری نے فرمایا :

"یا بنی ! لا تدخل فی امر الا بعد معرفة حدوده و الوقوف علی مقادیره۔"

” بیٹا ! کوئی بھی کام کرنے سے پہلے اس کے تمام پہلوؤں ، اس کی حدود اور مقدار کو جاننا ضروری ہے۔”

امام صاحب کی طرف سے مزید ہدایات کی وضاحت و تفصیل

"یاد رکھو ! کوئی عالم اس وقت تک کامل محدث نہیں بن سکتا جب تک وہ احادیث اس طریقے سے نہ لکھے۔ وہ چار چیزیں لکھے۔ چار چیزوں کے ساتھ لکھے۔ چار چیزوں کی طرح لکھے۔ چار چیزوں جیسی لکھے۔ چار حالتوں میں لکھے۔ چار قسم کے علاقوں میں لکھے۔ چار چیزوں پر لکھے۔ چار قسم کے لوگوں سے لے کر لکھے۔ چار مقاصد کے تحت لکھے۔ جب ان سب رُباعیات کی شرائط (چار باتوں کے مجموعے کو "رُباعی ” کہتے ہیں اس کی جمع "رُباعیات ” ہے) پوری ہو جائیں تو اس کے لیے چار چیزیں آسان ہو جائیں گی اور چار چیزوں سے اسے آزمایا جائے گا۔ پھر ان رُباعیات پر جو شخص عمل کرے اسے دنیا میں چار انعامات سے نوازا جائے گا اور چار انعامات آخرت میں دیئے جائیں گے۔”

قاضی ابو العباس ولید بن ابراہیم کہتے ہیں کہ میں نے امام بخاری سے گزارش کی کہ اللہ تعالیٰ آپ کو خوش و خرم رکھے۔ آپ ذرا ان رُباعیات کی تفصیل بیان کر دیں امام صاحب نے فرمایا : ہاں ان کی تفصیل سن لو۔

رُباعی : 1

ان یکتب اربعاً : وہ چار چیزیں لکھے۔

  • احادیث رسول ﷺ
  • صحابہ کے اقوال اور ان کے حالات زندگی
  • تابعین کے احوال و اقوال
  • دیگر علماء کے حالات لکھے

رُباعی : 2

مع اربع : چار چیزوں کے ساتھ لکھے۔

  • رجال ( راویانِ ) حدیث کے نام
  • ان کی کنیتیں
  • ان کی جائے سکونت
  • ان کے سنین ولادت و وفات اور دیگر احوال تحریر کرے

رُباعی : 3

کاربع : چار چیزوں کی طرح لکھےجس طرح

  • خطبے میں حمد و ثنا سے بات کا آغاز لازم ہے
  • اطمینان کے ساتھ دعا مانگنا لازم ہے
  • قرآنی سورتوں کے ساتھ بسم اللہ ضروری ہے
  • نمازوں کے ساتھ تکبیر لازم ہے

رُباعی : 4

مثل اربع : چار چیزوں جیسی لکھے۔

  • مسند احادیث ( وہ احادیث جن کی نسبت اللہ کے رسول ﷺ کی طرف ہو )
  • مرسل احادیث ( جن میں صحابی کا نام مذکور نہ ہو )
  • موقوف احادیث ( صحابہ کے اقوال )
  • مقطوع احادیث ( تابعین کے اقوال )

الغرض تمام قسم کی احادیث سے واقفیت حاصل کرے۔

رُباعی : 5

فی اربع : چار اوقات میں لکھے ۔

  • کم سنی میں لکھے
  • نوجوانی میں لکھے
  • بھرپور جوانی ( ادھیڑ عمری ) میں لکھے
  • بڑھاپے میں لکھے

یعنی کہ عمر کے کسی بھی حصے میں حصولِ علم کا ذوق ماند نہ پڑے ، قلم رکے نہ کبھی وہ علم سے سیر ہو۔

رُباعی : 6

عند اربع : چار حالتوں لکھے ۔

  • کام کاج کے دوران میں لکھے
  • فرصت کے لمحات میں لکھے
  • فقر و فاقہ میں لکھے
  • خوشحالی میں لکھے

ہر حال میں اسے حدیث ہی کی دھن لگی رہے۔

رُباعی : 7

باربع : چار قسم کے علاقوں میں لکھے۔

  • پہاڑی علاقوں میں علم کی تلاش جاری رکھے
  • بحری سفر کرنا پڑے تو دورانِ سفر لکھے
  • شہروں میں گھوم پھر کر علم تلاش کرے
  • عام آبادیوں میں جائے اور علم تلاش کرے

یعنی علم جہاں بھی پائے ، لکھے۔

رُباعی : 8

علیٰ اربع : چار چیزوں پر لکھے ۔

  • پتھروں پر لکھے
  • سیپیوں پر لکھے
  • چمڑے پر لکھے
  • ہڈیوں پر لکھے

غرضیکہ کاغذ نہ ملے تو جو چیز میسر ہو اس پر لکھتا چلا جائے۔

رُباعی : 9

عن اربع : چار قسم کے لوگوں سے لے کر لکھے۔

  • بڑی عمر کے لوگوں سے لکھے
  • اپنے سے کم عمر لوگوں سے علم حاصل کرے
  • اپنے ہم عمر لوگوں سے لکھے
  • اپنے والد کی کتاب سے پڑھ کر علم حاصل کرے ، بشرطیکہ اسے یقین ہو کہ یہ کتاب اس کے والد ہی کی لکھی ہوئی ہے

رُباعی : 10

لاربع : ذیل کے چار مقاصد پیشِ نظر رکھے۔

  • رضائے الٰہی کا حصول
  • جو احکام کتاب الٰہی کے مطابق ہوں ان پر عمل کرنے کی نیت ہو
  • طالبان دین تک ابلاغ کی نیت ہو
  • علمی ذخیرے کو محفوظ کرنے کے لیے اس کی کتابی شکل میں اشاعت مقصود ہو

اس کے بعد فرمایا : مذکورہ بالا دس رُباعیات درج ذیل دو رُباعیوں کے مکمل نہیں ہو سکتیں۔

رُباعی : 1

  • ذاتی کوشش
  • فنِ کتابت سے واقفیت
  • علم لغت
  • علم النحو اور علم الصرف میں مہارت ہو

رُباعی : 2

  • صحت
  • صلاحیت
  • حصول علم کا شوق
  • قوی حافظہ

پھر فرمایا : یہ چیزیں جسے نصیب ہو جائیں تو ذیل کی چار چیزیں اس کے لیے کوئی قیمت نہیں رکھتیں:

  • بیوی
  • اولاد
  • مال و دولت اور جائیداد
  • وطن

اس مقام تک انسان پہنچ جائے تو اسے چار ناگوار صورتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے :

  • تکلیف میں مبتلا دیکھ کر دشمن خوش ہوتے ہیں
  • دوست ملامت کرتے ہیں
  • جاہل طبقہ طعنے دیتا ہے
  • ہم عصر علماء حسد کرنے لگتے ہیں

ان تکالیف پر جو شخص صبر کر لے تو اللہ تعالیٰ اسے دنیا میں چار انعامات سے نوازتا ہے :

  • قناعت کی دولت عطا کر کے معاشرے میں معزز بناتا ہے
  • ایمانی رُعب عطا کرتا ہے
  • علم کے ذریعے سے قلبی سکون اور دلی مسرت و راحت حاصل ہوتی ہے
  • دائمی خوشی نصیب ہوتی ہے

پھر آخرت میں انسان ذیل کے چار انعامات  کا مستحق قرار پاتا ہے:

  • اپنے قرابت داروں میں سے جس کی شفاعت کرنا چاہے اسے اس کی اجازت مل جائے گی
  • عرشِ عظیم کا سایہ نصیب ہوگا
  • حوض کوثر سے وہ جسے چاہے گا پانی پلا سکے گا
  • جنت الفردوس میں انبیاء و رسل علیہم السلام کا پڑوس نصیب ہوگا

اس کے بعد امام بخاری نے ارشاد فرمایا :

بیٹے ! میں نے اپنے اساتذہ سے مختلف اوقات اور مختلف مجالس میں جو کچھ سنا تھا ، وہ میں نے تمہیں ایک ہی بار سنا دیا اب حدیث پڑھنا چاہو تو پڑھ لو ورنہ ارادہ ترک کردو۔

قاضی ابو العباس کہتے ہیں کہ میں امام بخاری کی یہ بات سن کر سخت گھبرا گیا ۔ میں خاموش ہو کر ادب سے سر جھکا لیا اور گہری سوچ میں پڑ گیا کیونکہ امام صاحب نے علم حدیث کے لیے جس مشقت اور محنت کی بات کی تھی ، میں اس کا متحمل نہ تھا۔ انہوں نے مجھے متفکر پایا تو فرمایا : اگر تم اس قدر کوشش اور محنت کی ہمت نہیں رکھتے تو پھر علم فقہ کی طرف دھیان دو۔ یہ علم تو مختلف شہروں میں گھومے پھرے اور سمندروں میں لمبے لمبے سفر کیے بغیر گھر بیٹھے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے اس کے ساتھ ساتھ وہ علم ہی کا ثمر ہے۔

حوالہ  : تدریب الراوی فی شرح تقریب النواوی از حافظ جلال الدین سیوطی جلد دوم ، ص 157 – 159 ، نشر المکتبۃ العلمیۃ بالمدینۃ المنورۃ 1392ھ

ٍمزید استفادہ : (1) سیرۃ البخاری از علامہ عبد السلام مبارک پوری (2) سیرۃ الامام البخاری ، عربی تعلیقات الدکتور عبد العلیم بن عبد العظیم البستوی (3) سیرت امام بخاری ، مطبوعہ مکتبہ دار السلام الریاض – لاہور

افادات نذیریہ


سیّد نذیر حسین محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے مکاتیب سے ماخوذ علمی جواہر پارے

الواقعۃ شمارہ : 48 – 49  جمادی الثانی و رجب المرجب 1437ھ

از قلم : محمد تنزیل الصدیقی الحسینی

شیخ الکل السیّد الامام نذیر حسین محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ تیرہویں و چودہویں صدی ہجری کے جید عالم ، محدث و فقیہ ، مفسر و مجتہد ، مدرس و مبلغ اور ایک صاحبِ نظر بزرگ تھے۔وہ 1220ھ کو بہار کے ضلع مونگیر کے ایک گاؤں سورج گڑھ میں پیدا ہوئے۔ عظیم آباد میں انہوں نے سیّد احمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید کی زیارت کی اور ان کے وعظ و نصائح سے مستفید ہوئے۔ اس کے بعد وہ  اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے دہلی تشریف لے گئے ۔ دہلی میں انہوں نے شاہ محمد اسحاق محدث دہلوی سے 13 برس استفادہ کیا اور علوم القرآن و الحدیث کی تحصیل کی۔ تکمیل کے بعد اپنے استاد کی مسند فضیلت پر متمکن ہوئے اور پوری زندگی اپنے آبائی وطن اور افرادِ خاندان سے دور دہلی میں اپنے استاد گرامی کی مسند تدریس پر فائز ہوکر خدمت انجام دیتے رہے اور بڑی شان و استغنا کے ساتھ متوکلانہ زندگی بسر کی۔ متاخرین میں تلامذہ کا اتنا بڑا حلقہ ان کے سوا کسی کا مقدر نہیں بنا۔ ان کی 60 سالہ خدمت تدریس کے نتیجہ میں بڑے بڑے اعاظم رجال پیدا ہوئے۔ 1320 ھ میں دہلی ہی میں وفات پائی۔

ان کے مکاتیب کا ایک گراں قدر مجموعہ "مکاتیب نذیریہ ” کے نام سے ” محبوب المطابع ” دہلی سے طبع ہوا۔ گو یہ مجموعہ ایک طویل اور بھرپور علمی و دینی گزارنے والی شخصیت کی فکر کا انتہائی مختصر سا خاکہ ہے لیکن اس میں بھی ہم ان کی عالمانہ شان کے ساتھ ساتھ زاہدانہ انداز و روش کو ملاحظہ کر سکتے ہیں۔ ذیل میں ایسے ہی کچھ علمی جواہر پیش خدمت ہیں ، جن کو پڑھ کر ذہن و فکر کے بند دریچے وَا ہوتے اور اعمال و عقائد کی گرہیں کھلتی ہیں۔

افاداتِ نذیریہ

” چلہ کشی سے اس قدر فائدہ حاصل نہیں ہوا ہے جس قدر کہ تہجد سے دل کی کشادگی و صفائی صوفیائے کرام نے پائی ہے مگر پہلے دل کو دنیا و ما فیہا سے فارغ رکھنا چاہیے۔”

” تہجد کی نماز کے بعد اپنے نفس ے برابر محاسبہ کرنا چاہیے اور اہل اللہ کا طریقہ ملامت و زجر و توبیخ نفس ہے اور مقبول بندوں کا طریقہ کہ ملامت کرنا نفس کا گناہانِ گزشتہ سے رہا ہے کیونکہ اللہ جل شانہ بہیترے گناہوں کو معاف کرتا ہے اور بخش دیتا ہے اور بندہ کو بجز رجوع بارگاہ مولیٰ اور توبہ کے چارہ نہیں ہے۔”

” اگلی امت کوہِ طور و مزار حضرت یحیٰ علیہ السلام وغیرہ مقامات پر بنظر حصولِ ثواب کے سفر کرتے تھے اس لیے آنحضرت ﷺ نے سوائے تین مقامات کے ثواب کی نیت سے جانا منع فرمایا۔ ہاں شہر و دیہات کے قریب جو گورستان ( قبرستان ) ہے وہاں سنت طریقہ پر جانا اور دعاء مغفرت کی کرنی اور اپنی موت کو یاد کرنا باعث اجر و ثواب ہے کیونکہ اس فعل سے بے رغبتی دنیائے فانی سے حاصل ہوتی ہے۔”

” محدثین اہلِ بیت کی خدمت کو سرمایہ آخرت و اعزاز جانتے ہیں اور صحابہ کرام کو اپنا سرتاج جانتے ہیں ہر ایک بزرگان کا مرتبہ ملحوظ رکھنا چاہیے افراط تفریط بہت بری بات ہے۔”

” اے عزیز ! تراخی و توقف شانِ باری تعالیٰ ہے، جو چیز دیر سے حاصل ہوتی ہے، وہ دیرپا ہوتی ہے۔ سلطان الاذکار قرآن مجید ہے۔”فنا فی الشیخ” میرے حضرات کا طریقہ نہیں ہے بلکہ شیخ اس لیے ہے کہ قرآن و حدیث سے ان کو جو کچھ معلوم ہوا ہے یا بزرگانِ طریقتِ صادقہ نے ان کو عطا فرمایا ہے، وہ طالب کو پہنچا دیں۔ شیخ اس بات پر قادر نہیں ہے کہ اپنا قدم حلقۂ شریعت سے باہر رکھے۔”

” میری باتیں صرف اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا قول ہے۔ صحاح ستہ میں باب رقاق کو دیکھا اور پڑھا ہے، وہ سب تصوف و درویشی ہے۔ درویشوں نے کہاں سے حاصل کیا ہے اسی فصل رقاق سے۔”

” اگر تہجد کے وقت خلوصِ دلی میسر ہو اور کسی طرف توجہ نہیں ہو تو یہ خلوص ہزار چلّوں کے برابر ہے۔ اربعین ( چلّہ کشی ) یہ نہیں ہے کہ قبر پر بیٹھیں، یہ فعل رسول ﷺ سے منقول نہیں ہے اور نہ اس کا اجر مذکور ہے۔ خدا رسیدگی کا مقام مسجد ہے نہ کہ قبر۔ مسجد سے جو کوئی بھاگے اور مزار پر بیٹھے وہ خدا سے بھاگتا ہے، اس کی تقدیر میں خدا رسیدگی نہ ہوگی۔”

” اگر کوئی شخص کہے کہ میرے پیر پانی پر چلتے ہیں یا وہ آسمان پر اُڑ جاتے ہیں ہرگز اس کے اڑنے اور آسمان پر جانے کا یقین نہ کرو کیونکہ درویشی میں ایسی شعبدہ بازی یعنی "بر آب رفتن و بر آسمان پریدن ” سے کیا تعلق۔”

” اے عزیز ! ایسی چلّہ کشی سے کیا حاصل، جو آج کل کے لوگ (ارباب ریاست) قبر پرستی کو آئینِ درویشی خیال کرتے ہیں۔ حالانکہ قرآن و حدیث اس کے خلاف ندا کر رہا ہے۔ بزرگانِ طریقت ( اللہ تعالیٰ ان کی دلیل کو روشن کرے ) وہ اس قبر پرستی سے ہمیشہ بیزار تھے اور بیزار رہے۔ ”لطائفِ خمسہ” ( نمازِ پنجگانہ) حل مشکلات کی کفیل ہو کر نورانیت کے نزول کا باعث ہوتی ہے۔ گویا نماز اسمِ اعظم ہے۔ ہمیشہ اپنی حالت پر نظر ڈالنا چاہیئے اور دوسرے کی عیب جوئی سے پرہیز کرنا چاہیئے، یہ بات مشکلوں کے حل کرنے والی ہے۔”

” سمجھو اور غور کرو آفات نازلہ پر صبر کرنا آلِ عباد و صالحین کا طریقہ ہے اور صبر پر ثابت قدم رہنا صوفیا کا شعار ہے۔ جو کچھ پہنچتا ہے وہ اللہ کی طرف سے ہے اور جو کچھ جاتا ہے وہ اس کے حکم سے باہر نہیں ہے۔ فی زمانہ کے صوفیا کا ذکر آپ نے کیا یہ سب مکر و فریب سے گدائی کرتے اور پیٹ پالتے ہیں اور دنیا و آخرت کی رُو سیاہی حاصل کرتے ہیں۔ ان مکار دیو سیرت سے پرہیز کرنا دانشمندوں کا کام ہے۔”

” حلقہ قائم کرنا، ہو حق کرنا، شور و غل مچانا اور اہلِ محلہ کو پریشانی میں ڈالنا سوتے ہوؤں کو جگانا یہ سب باتیں حصولِ زر کے لیے ہیں، ورنہ خدا سے مخفی کلامِ الٰہی ناطق ہے۔ حضرت قدسی سیرة شاہ محمد آفاق صاحب  فرماتے تھے کہ ” مینڈک کی طرح شور مچانا شانِ درویشی نہیں ہے خدا تعالیٰ سویا ہوا نہیں ہے کہ اس کو جگائیں۔”بلکہ حرکاتِ بیہودہ کو وہ عملِ غیر صالح تصور کرتے ہیں۔ حضرت رسولِ خدا ﷺ نے فرمایا کہ ” میں عبادت بھی کرتا ہوں، نکاح بھی کرتا ہوں اور غذا بھی کھاتا ہوں لیکن میں شور و غل نہیں کرتا ہوں اور عاجزی و انکساری نبیوں کی شان ہے ۔ ”

” اے عزیز ! شرک و بدعت سے الگ رہنا اور اپنے اعمال کا محاسبہ کرنا صوفیاء کرام کا بہترین طریقہ ہے۔”

” نادان بے وقوف کی بیعت سے بیزار ہوں مگر توبہ مسنونہ کی بیعت لینی بہترین نتائج کے حصول کا سبب ہے بندہ فقیر نے پیری کی دوکان نہیں لگائی ہے کہ ہر خاص و عام آئیں اور روپیہ دے کر سودا لیں ( نعوذ باللہ )۔”

” اے عزیز ! صبر کنجی کشایش کی ہے اور بعد سختی کے راحت ملتی ہے ، نا امید و بد دل ہرگز نہ ہونا چاہیے۔ ایماندا لوگ ہمیشہ پامالِ مصیبت رہتے ہیں اور اصحابِ مکر و فریب خوش و خرم رہتے ہیں۔ اس کے قبل کہہ چکا ہوں اور پھر کہتا ہوں کہ اللہ والوں کو درجہ بلند و اعلیٰ ہے ، صاحبانِ کم نظر کیا جانیں۔”

” اللہ تعالیٰ سے بد دلی کرنی مومن کی شان کے خلاف ہے ، رضائے مولیٰ پر ہر وقت راضی و شاکر رہنا خاص بندوں کا طریقہ ہے۔ بے قراری سے سوائے اس کے صبر کا درجہ کم ہو اور نقصان ہو اور کچھ فائدہ نہیں ہے۔”

” صبر و تحمل نیک بندوں کا طریقہ ہے ، واویلا کرنا جاہلوں کو سزاوار ہے ، عمدہ طریقہ اہل طریقت کا ہے کہ آفتِ نازلہ پر صابر ہوتے ہیں اور اللہ سے اجر کے طالب ہوتے ہیں۔”

” حضرات متوکلین کے لیے یہی زیبا ہے کہ حلال طریقہ سے کم یا زیادہ جو کچھ میسر آئے اسے خود بھی کھائے اور اوروں کو بھی کھلائے ، جمع کرنا ارباب فقر کی شان کے خلاف ہے جو کچھ تقدیر میں لکھا ہے ( بہر صورت ) ملے گا البتہ اجملو الطلب کو مد نظر رکھ کر کوشش کرنی چاہیے۔ نکھٹوؤں کی طرح ہات پاؤں توڑ کر نہ بیٹھ رہنا چاہیے اور نہ حلال مال کو فضول خرچی میں ضائع کرے۔”

” مریدوں اور معتقدوں سے زبردستی کچھ وصول نہ کرنا چاہیے اس سے کچھ فائدہ نہیں ہوتا بلکہ مریدوں کے لیے وہ نفرت کا باعث بن جاتا ہے۔ میں سنت نبوی کے طریقہ پر بیعت کرتا ہوں مگر بیعت کرنے والوں سے دھوکہ بازوں کی طرح ( جس کو اہل تصوف و علماء حقانی ناجائز کہتے ہیں ) کچھ نہیں لیتا اللّٰھم احفظنا منھا مناسب ہے کہ علماء درس و تدریس میں کوشش کریں اور مشتبہ مال سے ضرور پرہیز کریں۔”

” دنیا موحدین کے نزدیک ایک جَو کی قیمت نہیں رکھتی ، کیونکہ وہ ریا کاروں کو فضلہ ہے یا بیت الخلاء کی مانند ہے، کہ رفع حاجت کے واسطے جس طرح وہاں جانا ضروری ہے اور جس طرح وہاں جاتے ہیں اسی طرح وہ دنیا میں رہتے ہیں۔ دوسرے اگر زندگی میں انسان اپنے نفس سے حساب لیتا رہے تو مکروہات دنیا سے وہ محفوظ رہے گا۔”

” قرآن مجید کی تلاوت و حدیث شریف کے پڑھنے پڑھانے اور اس پر غور و فکر کرنے میں رات دن مصروف رہو اور زید و بکر کے قصوں میں نہ پڑو۔ اس لیے کہ قرآن پر غور کرنے سے قلب میں نور اور سرور پیدا ہوتا ہے چنانچہ آیہ کریمہ تقشعر منہ جلود الذین یخشون ربھم اس کی گواہ ہے۔”

اب ایک آخری مکتوب گرامی جو سید نذیر حسین محدث دہلوی نے اپنے تلمیذ رشید شاہ سلیمان پھلواروی کے نام لکھا تھا، یہ خط کیا ہے ؟ معارف و لطافت کا بیش بہا گنجینہ ہے۔ مکاتیب کے ذخیرے میں قرآنی آیات سے مزین ایسا نثری شہ پارہ نایاب نہیں تو کم یاب ضرور ہوگا۔ و ھو ھذا :

” اے عزیز ! محاسبہ و ان تبدوا ما فی انفسکم او تخفوا یحاسبکم بہ اللہ (البقرۃ : 284 ) [ چاہے تم اس کو ظاہر کرو یا چھپاؤ جو تمہارے دلوں میں ہے اللہ تم سے اس کا محاسبہ کرے گا ] کی فکر کرو ، اور اولئک کالانعام ( الاعراف : 179 ) [ وہ چوپایوں کی مانند ہیں ] کی مانند لذائذ نفسانی میں نہ پڑو ، فاذکرونی اذکرکم ( البقرۃ : 152) [ مجھے یاد رکھو تو میں بھی تمہیں یاد رکھوں گا ] کے مراقبے کا سرور حاصل کرو ، اور وجوہ یومئذ ناضرۃ ، الی ربھا ناظرۃ ( القیامۃ : 22 – 23) [ اس دن بعض چہرے تر و تازہ اور شگفتہ ہوں گے اور ان کی نگاہیں اپنے پروردگار کی طرف جمی ہوں گی ] کا مشاہدہ کرنے کے لیے اپنے دیدہ دل کو کھولو اور نظارہ کرو ، فاستقم کما امرت ( ھود : 112) [ ثابت قدمی و استقامت اختیار کرو جیسا کہ تم کو حکم دیا گیا ہے ]  و الذین جاھدوا فینا ( العنکبوت : 69 ) [ اور جیسے مری راہ میں جہاد کرنے والے لوگ ہوتے ہیں ] کی منزل میں اپنی طلبِ استقامت کا سکہ بٹھاؤ ، و یحذرکم اللہ نفسہ  ( آل عمران : 28 ) [ اللہ تمہیں اپنے آپ سے ڈرائے دیتا ہے ] کی آگ سے اپنے آپ کو گداز کرو اور نکھارو ، تاکہ لنھدینھم سبلنا ( العنکبوت : 69 ) [ ہم انہیں اپنی سبیلیں ضرور بتائیں گے ] کی مہر و عنایات کی اہلیت پیدا ہو ، اور ان اللہ اشتریٰ من المؤمنین انفسھم و اموالھم بان لھم الجنۃ ( التوبۃ : 111 ) [ اللہ نے مومنین سے ان کی جانیں اور مال خرید لیے ہیں ، انہیں جنت ملے گی ] کے بازار میں تمہارا نرخ بالا ہو ، اور تم اس سرمائے سے الا للہ الدین الخالص ( الزمر : 3 ) [ آگاہ رہو کہ دین خالص اللہ ہی کا ہے ] کی بضاعتِ دینی حاصل کرلو ، تو شاید ”و المخلصون علیٰ خطر عظیم” [ مخلصین بڑے خطرات میں ہوتے ہیں ] کے اسرار و رموز کا کوئی نکتہ تم پر کھل جائے اور افمن شرح صدرہ للاسلام فھو علی نور من ربہ ( الزمر : 22 ) [ بس جس کا سینہ اللہ نے اسلام کے لیے کھول دیا وہ اپنے پروردگار کی طرف سے روشنی اور نور میں ہے ] کے انوار کی کوئی شعاع تم پر چمک پڑے ، تو پھر تم قل متٰع الدنیا قلیل ( النساء : 77 ) [ کہہ دو کہ متاع دنیا تو حقیر و کمترین شے ہے ] کی پستی سے اپنے پائے ہمت کو باہر نکالو اور و الاخرۃ خیر و ابقیٰ ( الاعلیٰ : 17 ) [ اور آخرت ہی خیر ہے اور باقی رہنے والی ہے ] کی بلند چوٹیوں کو عبور کر لو۔ جہاں ذٰلک فضل اللہ یؤتیہ من یشاء ( المائدۃ : 54 ) [ یہ فضل ہے اللہ کا ، وہ جس کو چاہتا ہے عطا کر دیتا ہے ] کا مبشر اقبال مندی الا تخافوا و لا تحزنوا و ابشروا بالجنۃ التی کنتم توعدون  ( فصلت : 30 ) [ نہ ڈرو نہ غم کرو بلکہ تمہیں مبارک ہو وہ جنت جس کا تم سے وعدہ کیا گیا تھا ] کا مژدہ جانفزا سنائے اور رضوان جنات نعیم ندا دے اور کہے کہ کلوا و اشربوا ھنیئا بما کنتم تعملون ( المرسلات : 43 ) [ اپنے عملِ خیر کے صلے میں خوب کھاؤ پیو اور خوش رہو ]۔

زیادہ السلام خیر الختام

الراقم العاجز محمد نذیر حسین