کیا ارطغرل بن سلیمان شاہ مسلمان نہیں تھے ؟


الواقعۃ شمارہ: 98 – 100، رجب المرجب تا رمضان المبارک 1441ھ

از قلم : محمد شاہ رخ خان – کراچی

جب کبھی اسلام پر حملہ مقصود ہو تو اسلامی شخصیات کو متنازع بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ خواہ وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم جیسے مقدس شخصیات کی توہین ہوں، یا کسی بھی اسلامی تاریخی شخصیت کے کردار پر الزامات، جیسے حال ہی میں کو پڑھنا جاری رکھیں

حدیث نبوی ﷺ سے ہمارا رشتہ


الواقعۃ شمارہ: 98 – 100، رجب المرجب تا رمضان المبارک 1441ھ

از قلم : ابو عمار سلیم

الحمد للہ کہ ہم مسلمان ہیں۔ ہم اللہ کی وحدانیت پر ایمان رکھتے ہیں اور حضور نبی کریم ﷺ کے امتی ہیں۔ یہ ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسانوں کی ہدایت کے لیے اپنی کتاب قرآن مجید فرقان حمید نبی اکرم ﷺ پر نازل فرمائی جو ہماری زندگی کے تمام معاملات کے لیے کافی و شافی ہے۔ ہم مسلمان اس مبارک کتاب کو نہ صرف ہدایت کا خزانہ سمجھتے ہیں کو پڑھنا جاری رکھیں

بڑھتی ہوئی قبر پرستی


الواقعۃ شمارہ : 78  – 79 ذیقعد و ذی الحجہ 1439ھ

از قلم : ابو عمار سلیم

اسلام کی تعلیمات کا طرہ امتیاز اللہ تبارک و تعالیٰ کی وحدانیت ہے۔ قرآن مجید فرقان حمید اللہ کی وحدانیت کے احکام سے بھرا پڑا ہے۔ جگہ جگہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے بندوں کو مخاطب کر کے اپنے مالک و خالق ہونے کا اعلان کیا ہے اور یہ تاکید کی ہے کہ اس کی ذات کو ہر قسم کے شرک سے پاک رکھا جائے۔ پوری کائنات میں کوئی ایک ذات بھی اس قابل نہیں ہے کہ اللہ کی ہمسری کر سکے اور نہ ہی کوئی ایسا ہے جو اس کے کاموں میں اس کا ہاتھ بٹانے والا ہو یا اس کا مدد گار ہو۔ کو پڑھنا جاری رکھیں

شمع رسالت ﷺ کا ایک پروانہ


الواقعۃ شمارہ 55 ذی الحجہ 1437ھ

اشاعت خاص : سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ

از قلم : محمد زبیر شیخ ( ملتان)

تاریخ اسلام کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس امت کو بہت سی خصوصیات سے نوازا ہے۔ ان مختلف الجہت خصوصیات میں سے ایک خصوصیت وہ رجال اللہ ہیں جنہیں تاریخ میں بلند مقام حاصل ہے۔ خصوصاً صحابہ کرام کی زندگیاں ہمارے لیے روشن مثال ہیں۔ اس مضمون میں انہی ہستیوں میں سے ایک منفرد ہستی کا تذکرہ کیا جا رہا ہے جن کی زندگی کفر کی موت تھی۔ وقت کی دھول بھی ان کی تابندہ سیرت کو دھندلا نہیں سکی۔ جو شرم وحیاء کا پیکر تھی۔ (مسلم: ۲۴۰۱) کو پڑھنا جاری رکھیں

ان شاء اللہ کے ساتھ مذاق


الواقعۃ شمارہ 47 ربیع الثانی  1437ھ

از قلم : ایس ، اے ، ساگر

صبح سے شام تک انسان اپنی بول چال میں جانے کتنی مرتبہ کوئی وعدہ یا ارادہ کرتا ہے۔کیا ہی اچھا ہو کہ اس موقع پر یہ یقین کر لیا جائے کہ یہ اللہ کی مرضی کے بغیر بھلا کیسے ہو سکتا ہے، اسی نیت کے ساتھ مختصر سا جملہ ” ان شاء اللہ ” کہنے میں کچھ خرچ نہیں ہوتا ۔لیکن اس کا کیا کیجئے کہ بعض بدنیت قسم کے لوگوں نے اس کلمہ استثنا کو اپنی بد نیتی پر پردہ ڈالنے کے لیے ڈھال بنا رکھا ہے مثلاً ایک شخص اپنے سابقہ قرضہ کی ادائیگی یا  نئے قرض کے لیے قرض خواہ سے ایک ماہ کا وعدہ کرتا ہے اور ساتھ ان شاء اللہ بھی کہہ دیتا ہے مگر اس کے دل میں یہ بات ہوتی ہے کہ اپنا کام تو چلائیں پھر جو ہوگا دیکھا جائے گا اور جب مدت مقررہ کے بعد قرض خواہ اپنے قرض کا مطالبہ کرتا ہے تو کہہ دیتا کہ اللہ کو منظور ہی نہ ہوا کہ میرے پاس اتنی رقم آئے کہ میں آپ کو ادا کرسکوں وغیرہ وغیرہ عذر پیش کر دیتا ہے۔ ایسے بد نیت لوگوں نے اس کلمہ استثناء کواس قدر بدنام کر دیا ہے کہ جب کوئی اپنے وعدہ کیساتھ ان شاء اللہ کہتا ہے تو سننے والا فوراً کہتا ہے کہ اس کی نیت بخیر نہیں ہے جبکہ یہ اللہ کی آیات سے بد ترین قسم کا مذاق ہے جس کا کوئی صاحب ایمان شخص تصور بھی نہیں کر سکتا۔ کو پڑھنا جاری رکھیں