افادات نذیریہ


سیّد نذیر حسین محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے مکاتیب سے ماخوذ علمی جواہر پارے

الواقعۃ شمارہ : 48 – 49  جمادی الثانی و رجب المرجب 1437ھ

از قلم : محمد تنزیل الصدیقی الحسینی

شیخ الکل السیّد الامام نذیر حسین محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ تیرہویں و چودہویں صدی ہجری کے جید عالم ، محدث و فقیہ ، مفسر و مجتہد ، مدرس و مبلغ اور ایک صاحبِ نظر بزرگ تھے۔وہ 1220ھ کو بہار کے ضلع مونگیر کے ایک گاؤں سورج گڑھ میں پیدا ہوئے۔ عظیم آباد میں انہوں نے سیّد احمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید کی زیارت کی اور ان کے وعظ و نصائح سے مستفید ہوئے۔ اس کے بعد وہ  اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے دہلی تشریف لے گئے ۔ دہلی میں انہوں نے شاہ محمد اسحاق محدث دہلوی سے 13 برس استفادہ کیا اور علوم القرآن و الحدیث کی تحصیل کی۔ تکمیل کے بعد اپنے استاد کی مسند فضیلت پر متمکن ہوئے اور پوری زندگی اپنے آبائی وطن اور افرادِ خاندان سے دور دہلی میں اپنے استاد گرامی کی مسند تدریس پر فائز ہوکر خدمت انجام دیتے رہے اور بڑی شان و استغنا کے ساتھ متوکلانہ زندگی بسر کی۔ متاخرین میں تلامذہ کا اتنا بڑا حلقہ ان کے سوا کسی کا مقدر نہیں بنا۔ ان کی 60 سالہ خدمت تدریس کے نتیجہ میں بڑے بڑے اعاظم رجال پیدا ہوئے۔ 1320 ھ میں دہلی ہی میں وفات پائی۔

ان کے مکاتیب کا ایک گراں قدر مجموعہ "مکاتیب نذیریہ ” کے نام سے ” محبوب المطابع ” دہلی سے طبع ہوا۔ گو یہ مجموعہ ایک طویل اور بھرپور علمی و دینی گزارنے والی شخصیت کی فکر کا انتہائی مختصر سا خاکہ ہے لیکن اس میں بھی ہم ان کی عالمانہ شان کے ساتھ ساتھ زاہدانہ انداز و روش کو ملاحظہ کر سکتے ہیں۔ ذیل میں ایسے ہی کچھ علمی جواہر پیش خدمت ہیں ، جن کو پڑھ کر ذہن و فکر کے بند دریچے وَا ہوتے اور اعمال و عقائد کی گرہیں کھلتی ہیں۔

افاداتِ نذیریہ

” چلہ کشی سے اس قدر فائدہ حاصل نہیں ہوا ہے جس قدر کہ تہجد سے دل کی کشادگی و صفائی صوفیائے کرام نے پائی ہے مگر پہلے دل کو دنیا و ما فیہا سے فارغ رکھنا چاہیے۔”

” تہجد کی نماز کے بعد اپنے نفس ے برابر محاسبہ کرنا چاہیے اور اہل اللہ کا طریقہ ملامت و زجر و توبیخ نفس ہے اور مقبول بندوں کا طریقہ کہ ملامت کرنا نفس کا گناہانِ گزشتہ سے رہا ہے کیونکہ اللہ جل شانہ بہیترے گناہوں کو معاف کرتا ہے اور بخش دیتا ہے اور بندہ کو بجز رجوع بارگاہ مولیٰ اور توبہ کے چارہ نہیں ہے۔”

” اگلی امت کوہِ طور و مزار حضرت یحیٰ علیہ السلام وغیرہ مقامات پر بنظر حصولِ ثواب کے سفر کرتے تھے اس لیے آنحضرت ﷺ نے سوائے تین مقامات کے ثواب کی نیت سے جانا منع فرمایا۔ ہاں شہر و دیہات کے قریب جو گورستان ( قبرستان ) ہے وہاں سنت طریقہ پر جانا اور دعاء مغفرت کی کرنی اور اپنی موت کو یاد کرنا باعث اجر و ثواب ہے کیونکہ اس فعل سے بے رغبتی دنیائے فانی سے حاصل ہوتی ہے۔”

” محدثین اہلِ بیت کی خدمت کو سرمایہ آخرت و اعزاز جانتے ہیں اور صحابہ کرام کو اپنا سرتاج جانتے ہیں ہر ایک بزرگان کا مرتبہ ملحوظ رکھنا چاہیے افراط تفریط بہت بری بات ہے۔”

” اے عزیز ! تراخی و توقف شانِ باری تعالیٰ ہے، جو چیز دیر سے حاصل ہوتی ہے، وہ دیرپا ہوتی ہے۔ سلطان الاذکار قرآن مجید ہے۔”فنا فی الشیخ” میرے حضرات کا طریقہ نہیں ہے بلکہ شیخ اس لیے ہے کہ قرآن و حدیث سے ان کو جو کچھ معلوم ہوا ہے یا بزرگانِ طریقتِ صادقہ نے ان کو عطا فرمایا ہے، وہ طالب کو پہنچا دیں۔ شیخ اس بات پر قادر نہیں ہے کہ اپنا قدم حلقۂ شریعت سے باہر رکھے۔”

” میری باتیں صرف اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا قول ہے۔ صحاح ستہ میں باب رقاق کو دیکھا اور پڑھا ہے، وہ سب تصوف و درویشی ہے۔ درویشوں نے کہاں سے حاصل کیا ہے اسی فصل رقاق سے۔”

” اگر تہجد کے وقت خلوصِ دلی میسر ہو اور کسی طرف توجہ نہیں ہو تو یہ خلوص ہزار چلّوں کے برابر ہے۔ اربعین ( چلّہ کشی ) یہ نہیں ہے کہ قبر پر بیٹھیں، یہ فعل رسول ﷺ سے منقول نہیں ہے اور نہ اس کا اجر مذکور ہے۔ خدا رسیدگی کا مقام مسجد ہے نہ کہ قبر۔ مسجد سے جو کوئی بھاگے اور مزار پر بیٹھے وہ خدا سے بھاگتا ہے، اس کی تقدیر میں خدا رسیدگی نہ ہوگی۔”

” اگر کوئی شخص کہے کہ میرے پیر پانی پر چلتے ہیں یا وہ آسمان پر اُڑ جاتے ہیں ہرگز اس کے اڑنے اور آسمان پر جانے کا یقین نہ کرو کیونکہ درویشی میں ایسی شعبدہ بازی یعنی "بر آب رفتن و بر آسمان پریدن ” سے کیا تعلق۔”

” اے عزیز ! ایسی چلّہ کشی سے کیا حاصل، جو آج کل کے لوگ (ارباب ریاست) قبر پرستی کو آئینِ درویشی خیال کرتے ہیں۔ حالانکہ قرآن و حدیث اس کے خلاف ندا کر رہا ہے۔ بزرگانِ طریقت ( اللہ تعالیٰ ان کی دلیل کو روشن کرے ) وہ اس قبر پرستی سے ہمیشہ بیزار تھے اور بیزار رہے۔ ”لطائفِ خمسہ” ( نمازِ پنجگانہ) حل مشکلات کی کفیل ہو کر نورانیت کے نزول کا باعث ہوتی ہے۔ گویا نماز اسمِ اعظم ہے۔ ہمیشہ اپنی حالت پر نظر ڈالنا چاہیئے اور دوسرے کی عیب جوئی سے پرہیز کرنا چاہیئے، یہ بات مشکلوں کے حل کرنے والی ہے۔”

” سمجھو اور غور کرو آفات نازلہ پر صبر کرنا آلِ عباد و صالحین کا طریقہ ہے اور صبر پر ثابت قدم رہنا صوفیا کا شعار ہے۔ جو کچھ پہنچتا ہے وہ اللہ کی طرف سے ہے اور جو کچھ جاتا ہے وہ اس کے حکم سے باہر نہیں ہے۔ فی زمانہ کے صوفیا کا ذکر آپ نے کیا یہ سب مکر و فریب سے گدائی کرتے اور پیٹ پالتے ہیں اور دنیا و آخرت کی رُو سیاہی حاصل کرتے ہیں۔ ان مکار دیو سیرت سے پرہیز کرنا دانشمندوں کا کام ہے۔”

” حلقہ قائم کرنا، ہو حق کرنا، شور و غل مچانا اور اہلِ محلہ کو پریشانی میں ڈالنا سوتے ہوؤں کو جگانا یہ سب باتیں حصولِ زر کے لیے ہیں، ورنہ خدا سے مخفی کلامِ الٰہی ناطق ہے۔ حضرت قدسی سیرة شاہ محمد آفاق صاحب  فرماتے تھے کہ ” مینڈک کی طرح شور مچانا شانِ درویشی نہیں ہے خدا تعالیٰ سویا ہوا نہیں ہے کہ اس کو جگائیں۔”بلکہ حرکاتِ بیہودہ کو وہ عملِ غیر صالح تصور کرتے ہیں۔ حضرت رسولِ خدا ﷺ نے فرمایا کہ ” میں عبادت بھی کرتا ہوں، نکاح بھی کرتا ہوں اور غذا بھی کھاتا ہوں لیکن میں شور و غل نہیں کرتا ہوں اور عاجزی و انکساری نبیوں کی شان ہے ۔ ”

” اے عزیز ! شرک و بدعت سے الگ رہنا اور اپنے اعمال کا محاسبہ کرنا صوفیاء کرام کا بہترین طریقہ ہے۔”

” نادان بے وقوف کی بیعت سے بیزار ہوں مگر توبہ مسنونہ کی بیعت لینی بہترین نتائج کے حصول کا سبب ہے بندہ فقیر نے پیری کی دوکان نہیں لگائی ہے کہ ہر خاص و عام آئیں اور روپیہ دے کر سودا لیں ( نعوذ باللہ )۔”

” اے عزیز ! صبر کنجی کشایش کی ہے اور بعد سختی کے راحت ملتی ہے ، نا امید و بد دل ہرگز نہ ہونا چاہیے۔ ایماندا لوگ ہمیشہ پامالِ مصیبت رہتے ہیں اور اصحابِ مکر و فریب خوش و خرم رہتے ہیں۔ اس کے قبل کہہ چکا ہوں اور پھر کہتا ہوں کہ اللہ والوں کو درجہ بلند و اعلیٰ ہے ، صاحبانِ کم نظر کیا جانیں۔”

” اللہ تعالیٰ سے بد دلی کرنی مومن کی شان کے خلاف ہے ، رضائے مولیٰ پر ہر وقت راضی و شاکر رہنا خاص بندوں کا طریقہ ہے۔ بے قراری سے سوائے اس کے صبر کا درجہ کم ہو اور نقصان ہو اور کچھ فائدہ نہیں ہے۔”

” صبر و تحمل نیک بندوں کا طریقہ ہے ، واویلا کرنا جاہلوں کو سزاوار ہے ، عمدہ طریقہ اہل طریقت کا ہے کہ آفتِ نازلہ پر صابر ہوتے ہیں اور اللہ سے اجر کے طالب ہوتے ہیں۔”

” حضرات متوکلین کے لیے یہی زیبا ہے کہ حلال طریقہ سے کم یا زیادہ جو کچھ میسر آئے اسے خود بھی کھائے اور اوروں کو بھی کھلائے ، جمع کرنا ارباب فقر کی شان کے خلاف ہے جو کچھ تقدیر میں لکھا ہے ( بہر صورت ) ملے گا البتہ اجملو الطلب کو مد نظر رکھ کر کوشش کرنی چاہیے۔ نکھٹوؤں کی طرح ہات پاؤں توڑ کر نہ بیٹھ رہنا چاہیے اور نہ حلال مال کو فضول خرچی میں ضائع کرے۔”

” مریدوں اور معتقدوں سے زبردستی کچھ وصول نہ کرنا چاہیے اس سے کچھ فائدہ نہیں ہوتا بلکہ مریدوں کے لیے وہ نفرت کا باعث بن جاتا ہے۔ میں سنت نبوی کے طریقہ پر بیعت کرتا ہوں مگر بیعت کرنے والوں سے دھوکہ بازوں کی طرح ( جس کو اہل تصوف و علماء حقانی ناجائز کہتے ہیں ) کچھ نہیں لیتا اللّٰھم احفظنا منھا مناسب ہے کہ علماء درس و تدریس میں کوشش کریں اور مشتبہ مال سے ضرور پرہیز کریں۔”

” دنیا موحدین کے نزدیک ایک جَو کی قیمت نہیں رکھتی ، کیونکہ وہ ریا کاروں کو فضلہ ہے یا بیت الخلاء کی مانند ہے، کہ رفع حاجت کے واسطے جس طرح وہاں جانا ضروری ہے اور جس طرح وہاں جاتے ہیں اسی طرح وہ دنیا میں رہتے ہیں۔ دوسرے اگر زندگی میں انسان اپنے نفس سے حساب لیتا رہے تو مکروہات دنیا سے وہ محفوظ رہے گا۔”

” قرآن مجید کی تلاوت و حدیث شریف کے پڑھنے پڑھانے اور اس پر غور و فکر کرنے میں رات دن مصروف رہو اور زید و بکر کے قصوں میں نہ پڑو۔ اس لیے کہ قرآن پر غور کرنے سے قلب میں نور اور سرور پیدا ہوتا ہے چنانچہ آیہ کریمہ تقشعر منہ جلود الذین یخشون ربھم اس کی گواہ ہے۔”

اب ایک آخری مکتوب گرامی جو سید نذیر حسین محدث دہلوی نے اپنے تلمیذ رشید شاہ سلیمان پھلواروی کے نام لکھا تھا، یہ خط کیا ہے ؟ معارف و لطافت کا بیش بہا گنجینہ ہے۔ مکاتیب کے ذخیرے میں قرآنی آیات سے مزین ایسا نثری شہ پارہ نایاب نہیں تو کم یاب ضرور ہوگا۔ و ھو ھذا :

” اے عزیز ! محاسبہ و ان تبدوا ما فی انفسکم او تخفوا یحاسبکم بہ اللہ (البقرۃ : 284 ) [ چاہے تم اس کو ظاہر کرو یا چھپاؤ جو تمہارے دلوں میں ہے اللہ تم سے اس کا محاسبہ کرے گا ] کی فکر کرو ، اور اولئک کالانعام ( الاعراف : 179 ) [ وہ چوپایوں کی مانند ہیں ] کی مانند لذائذ نفسانی میں نہ پڑو ، فاذکرونی اذکرکم ( البقرۃ : 152) [ مجھے یاد رکھو تو میں بھی تمہیں یاد رکھوں گا ] کے مراقبے کا سرور حاصل کرو ، اور وجوہ یومئذ ناضرۃ ، الی ربھا ناظرۃ ( القیامۃ : 22 – 23) [ اس دن بعض چہرے تر و تازہ اور شگفتہ ہوں گے اور ان کی نگاہیں اپنے پروردگار کی طرف جمی ہوں گی ] کا مشاہدہ کرنے کے لیے اپنے دیدہ دل کو کھولو اور نظارہ کرو ، فاستقم کما امرت ( ھود : 112) [ ثابت قدمی و استقامت اختیار کرو جیسا کہ تم کو حکم دیا گیا ہے ]  و الذین جاھدوا فینا ( العنکبوت : 69 ) [ اور جیسے مری راہ میں جہاد کرنے والے لوگ ہوتے ہیں ] کی منزل میں اپنی طلبِ استقامت کا سکہ بٹھاؤ ، و یحذرکم اللہ نفسہ  ( آل عمران : 28 ) [ اللہ تمہیں اپنے آپ سے ڈرائے دیتا ہے ] کی آگ سے اپنے آپ کو گداز کرو اور نکھارو ، تاکہ لنھدینھم سبلنا ( العنکبوت : 69 ) [ ہم انہیں اپنی سبیلیں ضرور بتائیں گے ] کی مہر و عنایات کی اہلیت پیدا ہو ، اور ان اللہ اشتریٰ من المؤمنین انفسھم و اموالھم بان لھم الجنۃ ( التوبۃ : 111 ) [ اللہ نے مومنین سے ان کی جانیں اور مال خرید لیے ہیں ، انہیں جنت ملے گی ] کے بازار میں تمہارا نرخ بالا ہو ، اور تم اس سرمائے سے الا للہ الدین الخالص ( الزمر : 3 ) [ آگاہ رہو کہ دین خالص اللہ ہی کا ہے ] کی بضاعتِ دینی حاصل کرلو ، تو شاید ”و المخلصون علیٰ خطر عظیم” [ مخلصین بڑے خطرات میں ہوتے ہیں ] کے اسرار و رموز کا کوئی نکتہ تم پر کھل جائے اور افمن شرح صدرہ للاسلام فھو علی نور من ربہ ( الزمر : 22 ) [ بس جس کا سینہ اللہ نے اسلام کے لیے کھول دیا وہ اپنے پروردگار کی طرف سے روشنی اور نور میں ہے ] کے انوار کی کوئی شعاع تم پر چمک پڑے ، تو پھر تم قل متٰع الدنیا قلیل ( النساء : 77 ) [ کہہ دو کہ متاع دنیا تو حقیر و کمترین شے ہے ] کی پستی سے اپنے پائے ہمت کو باہر نکالو اور و الاخرۃ خیر و ابقیٰ ( الاعلیٰ : 17 ) [ اور آخرت ہی خیر ہے اور باقی رہنے والی ہے ] کی بلند چوٹیوں کو عبور کر لو۔ جہاں ذٰلک فضل اللہ یؤتیہ من یشاء ( المائدۃ : 54 ) [ یہ فضل ہے اللہ کا ، وہ جس کو چاہتا ہے عطا کر دیتا ہے ] کا مبشر اقبال مندی الا تخافوا و لا تحزنوا و ابشروا بالجنۃ التی کنتم توعدون  ( فصلت : 30 ) [ نہ ڈرو نہ غم کرو بلکہ تمہیں مبارک ہو وہ جنت جس کا تم سے وعدہ کیا گیا تھا ] کا مژدہ جانفزا سنائے اور رضوان جنات نعیم ندا دے اور کہے کہ کلوا و اشربوا ھنیئا بما کنتم تعملون ( المرسلات : 43 ) [ اپنے عملِ خیر کے صلے میں خوب کھاؤ پیو اور خوش رہو ]۔

زیادہ السلام خیر الختام

الراقم العاجز محمد نذیر حسین

مشاہیر فاروقی


الواقعۃ شمارہ 44 – 45 محرم و صفر 1437ھ

اشاعت خاص : سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ

از قلم : محمد تنزیل الصدیقی الحسینی

سیّدنا فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کی اولادو احفاد کا تذکرہ

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے زمانہ جاہلیت اور اسلام میں متعدد نکاح کیے۔ ان کا پہلا نکاح زینب بنت مظعون سے ہوا ، جو مشہور صحابی رسول حضرت عثمان بن مظعون کی بہن تھیں۔ حضرت زینب نے اسلام قبول کیا ، ان کی وفات مکہ معظمہ ہی میں ہوئی۔ ان کے بطن سے ام المومنین حفصہ ، عبد اللہ اور عبد الرحمٰن الاکبر پیدا ہوئے۔

کو پڑھنا جاری رکھیں