لاک ڈاؤن، ملاحم اور امام مہدی


الواقعۃ شمارہ: 98 – 100، رجب المرجب تا رمضان المبارک 1441ھ

از قلم : محمد تنزیل الصدیقی الحسینی

روایت:۔

عن کعب قال: "یوشک أن یزیح البحر الشرقی حتی لا یجری فیہ سفینۃ، وحتی لا یجوز أھل قریۃ الی قریۃ، وذٰلك عند الملاحم، وذٰلك عند خروج المھدی۔”۔ کو پڑھنا جاری رکھیں

امت مسلمہ کی غفلت – اداریہ


الواقعۃ شمارہ: 72 – 73 جمادی الاول جمادی الثانی 1439ھ

از قلم : محمد تنزیل الصدیقی الحسینی

نئے عیسوی سال کی آمد کے ساتھ امت مسلمہ نئے مشکلات سے ہمکنار ہوئی۔ طاغوتی قوتوں کی پیش قدمی مسلسل جاری ہے اور امت مسلمہ کی غفلت اور سراسیمگی بدستور بر قرار۔ کو پڑھنا جاری رکھیں

دجال کے قدموں کی آہٹ سنائی دیتی ہے


الواقعۃ شمارہ : 53 – 54 ، شوال المکرم و ذیقعد 1437ھ

از قلم : محمد تنزیل الصدیقی الحسینی

حادثے اس تیزی سے رونما ہو رہے ہیں کہ واقعات کا اعتبار اٹھ سا گیا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جسے زمانہ پرورش کر رہا تھا برسوں ، وہ حادثے اب رونما ہو رہے ہیں۔ عالم اسلام پر ہر طرف سے یلغار ہی یلغار ہے۔ چمنستانِ اسلام کا کونسا گوشہ ہے جو درد و الم کی سسکیوں اور آہ و غم کی صداؤں کے شور سے بوجھل نہیں۔ وہ کونسی فصل ہے جس کی آبیاری خونِ مسلم سے نہیں ہو رہی۔ کو پڑھنا جاری رکھیں

میں معذرت نہیں کروں گا


الواقعۃ شمارہ 46 ربیع الاول 1437ھ

از قلم : خالد المعینا

پیرس حملوں میں 130 افراد کی ہلاکت کا واقعہ دس دن گزرنے کے باوجود ابھی تک میڈیا کی سرخیوں میں ہے اور دنیا بھر میں سوشل میڈیا کی توجہ کا اولین مرکز بھی بنا ہوا ہے۔ اس واقعہ سے چند دن قبل بیروت کے نواح میں ایک خودکش بمبار نے دھماکے سے 40 افراد کو ہلاک کر دیا تھا اور صحرائے سیناء میں روسی طیارہ مار گرایا گیا تھا جس میں 200 سے زائد مسافر ہلاک ہوئے تھے۔ دونوں واقعات کی ذمہ داری داعش نے قبول کی تھی۔

کو پڑھنا جاری رکھیں

خادم حرمین نے مسلمانوں کی عزت رکھ لی


11 Khadem e Harmain TITLe

کو پڑھنا جاری رکھیں

ایک اور 16 دسمبر ……………


شمارہ 34 اور 35، جنوری / فروری 2015

ربیع الاول و ربیع الثانی  1436ھ

01 Idaria Ttileدرس آگہی (اداریہ)

کو پڑھنا جاری رکھیں

إِن كُنتُم مُّؤۡمِنِينَ۔ اداریہ


جمادی الاول و جمادی الثانی 1435ھ / مارچ اور اپریل 2014، شمارہ 24 اور 25

إِن كُنتُم مُّؤۡمِنِينَ۔ اداریہ۔ درس آگہی۔         محمد تنزیل الصدیقی الحسینی۔ جمادی الاول و جمادی الثانی 1435ھ مارچ اور اپریل 2014، شمارہ 24 اور 25 ۔ https://alwaqiamagzine.wordpress.com/ http://al-waqia.blogspot.com/

Present day challenge and the Muslim World


رمضان المبارک 1434ھ/ جولائ، اگست 2013، شمارہ   16
 
عالم اسلام اور عصر حاضر کا چیلنج (اداریہ)

Present day challenge and the Muslim World

محمدتنزیل الصدیقی الحسینی
اس وقت عالم اسلام بیک وقت دو محاذوں پر نبرد آزما ہے :
(١) پہلے محاذ کا تعلق میدانِ جنگ و حرب سے ہے اور
(٢)دوسرے محاذ کا تعلق میدانِ علم و فکر سے


عالم اسلام پر مسلط جنگ
عالم اسلام کی زمینی سیاسی حقیقت یہ ہے کہ چارو ناچار اسے حالتِ جنگ کا سامنا ہے ۔ شاید ہی کوئی اسلامی ملک ایسا ہو جسے اندرونی یا بیرونی طور پر اغیار کی سازشوں کا سامنا نہ ہو ۔ یہ جنگ باقاعدہ طور پر میدانِ حرب میں بھی لڑی جا رہی ہے اور بساطِ سیاست پر بھی ۔ اب چونکہ جنگوں کے طریقے بدل چکے ہیں ۔ جنگیں کئی محاذوں پر لڑی جاتی ہیں ۔ میدان حرب میں اسلحہ و بارود کی گھن گرج کے ساتھ بھی لڑی جاتی ہے اور معاشیات کے میدان میں طلبِ زر کی کمی و زیادتی سے بھی یہ بازی جیتی جاتی ہے ۔ کو پڑھنا جاری رکھیں

اسرائیل صرف طاقت کی زبان سمجھے گا، شاہ فیصل شہید


الواقعۃ شمارہ نمبر ٢ 

سعودی عرب کے شہید فرمانروا شاہ فیصل کا ایک تاریخی انٹرویو

سعودی عرب کے فرمانروا شاہ فیصل شہید نے ستمبر١٩٧٠ء میں (جب اردن میں عرب بالخصوص فلسطینی مجاہدین کی نسل کشی کی جارہی تھی) امریکی رسالے” رانٹر پلے” کے نمائندے ٹام دمان کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ” مقبوضہ عرب علاقوں اور بیت المقدس کی آزادی کے لیے اسرائیل کے خلاف جہاد کیا جائے۔ انہوں نے اسرائیل کی ہٹ دھرمی، غرور اور توسیع پسندانہ عزائم کی بنا پر عربوں اور اسرائیل کے درمیان مفاہمت کو خارج از امکان قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ جب تک اسرائیلی جارحیت کی روک تھام اور اسے معقول رویہ اختیار کرنے کے لیے طاقت استعمال نہیں کی جائے گی ، اس وقت تک مشرق وسطیٰ میں مفاہمت نہیں ہوسکتی۔شاہ فیصل نے امریکا کو خبردار کیا تھا کہ اگر امریکا نے اسرائیل پر معقول رویہ اختیار کرنے اور دوسرے عرب علاقے خالی کرنے کے لیے دبائو نہ ڈالا تو عوام مجھے مجبور کردیں گے کہ میں دوسرے عرب سربراہوں کی طرح روس کی حمایت حاصل کروں۔ لیکن یہ بات بھی اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ مشرق وسطیٰ کے تمام مسائل اور مشکلات کی وجہ کمیونزم اور صہیونیت ہیں۔ شاہ فیصل کا کہنا تھا کہ سعودی عرب بیت المقدس کے بارے میں کوئی سودے بازی قبول نہیں کرے گا۔ان کا کہنا تھا کہ یہ شہر ان تمام لوگوں کے لیے صدیوں کھلا رہا جن کے مقامات مقدسہ وہاں واقع ہیں، اس لیے اب اسے بین الاقوامی شہر قرار دینے کا کوئی جواز نہیں۔ شاہ فیصل نے یہ بات اعلانیہ طو رپر کہی کہ ہم فلسطینی حریت پسندوں کی بھرپور حمایت اور مدد کرتے ہیں، وہ ہمارے بھائی ہیں جو اپنے وطن کی آزادی کے لیے لڑ رہے ہیں، انہیں طاقت کے بل پر ان کے گھروں سے نکال پھینکا گیا ہے،اس ظلم کے خلاف ان کی جدوجہد جائز اور منصفانہ ہے۔”

(بحوالہ: روزنامہ ”جسارت” کراچی مورخہ ٢ ستمبر١٩٧٠ء ) 

کیا سعودی عرب کو تنہا کرنے کی سازش کی جارہی ہے ؟


الواقعۃ شمارہ ١ 

محمد آفتاب احمد

مملکت خادم حرمین و شریفین تاریخ کے ایک نازک اور اہم ترین موڑ سے گزررہا ہے ۔ ایسے میں کسی غیر معمولی واقعہ سے9/11 کی طرح پوری دنیا کی سمت کو بدلنے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔حالات کی سنگینی کا ادراک سعودی حکومت کے ١٢ مارچ٢٠١٢ء (١٦ربیع الثانی ١٤٣٣ھ)کے اقدام سے کیا جاسکتا ہے۔جس میں تاریخ میں پہلی مرتبہ سعودی حکومت نے دنیا بھر میں اپنے سفارتکاروں کو قومی لباس پہننے سے روک دیا(سعودی گزٹ)۔عربوں کی تاریخ میں خواہ وہ زمانہ جاہلیت کا دور ہو یا اسلام کے بعد کا آج تک ایسا کبھی نہیں ہوا کہ ان کا لباس ہی ان کی زندگی کے لیے خطرہ بن گیا ہو۔ آخر کیا وجہ ہے کہ
سعودی حکومت کو انتہائی اقدام اٹھا نا پڑا؟اس کے پس پر دہ مقاصد کیا ہیں؟ریاض حکومت کو اس اقدام پر مجبور کرنے والے آخر کیا چاہتے ہیں؟معاملہ صرف سعودی باشندوں کا تحفظ ہے یاکچھ ؟
 
سعودی عرب کے خلاف سازشوں کا کھیل تو بہت پرانا ہے مگر چند عشروں کے دوران پیش آنے والے واقعات کا ایک سر سری جائزہ مستقبل میں پیش آنے والے حالات و واقعات کو سمجھنے کے لیے کافی ہوگا۔عرب اسرائیل جنگ کسے یاد نہیں ۔١٩٦٧ء کی عرب اسرائیل جنگ نے ایمان و عقیدے کی روح سے عاری ملت کو ایسا کاری زخم لگایا کہ وہ آج تک مندمل نہ ہوسکا۔ دنیا نے یہ بھی دیکھا کہ اردن کے مشرقی کنارے کے ساتھ بیت المقدس کو جانے والی سڑک جہاں پر حضرت معاذ بن جبل، حضرت ابوعبیدہ بن جراح، حضرت شرحبیل بن حسنہ اور حضرت ضرار بن آزد کے مزارات واقعہ ہیں، کے سامنے سے مسلمانوں کے لٹے پٹے قافلے وہ سارا علاقہ چھوڑ کر جارہے تھے جسے ان کے اسلاف نے بے پناہ قربانیوں کے بعد حاصل کیا تھا۔بیت المقدس اور اردن کا وہ سارا علاقہ جو آج اسرائیل کے قبضے میں ہے،نہایت گنجان آبادی سے بھرا پڑا اور سر سبز و شاداب علاقہ تھا۔بیت المقدس کی وجہ سے اردن حکومت کو سیاحت سے خاصی آمدنی بھی تھی۔اردن کی کمر ٹوٹ گئی۔سیاسی لحاظ سے بھی۔فوجی اعتبار سے بھی اوراقتصادی طور پر بھی۔ یہ مقامات مقدسہ بھی ہاتھ سے گئے ۔ یہاں کے آنے والے سیاحوں کی آمدنی بھی گئی۔ مسئلہ اسرائیل کو صرف عربوں کا مسئلہ بنادیاگیا۔شاہ فیصل شہید معاملے کی حقیقت سے آگاہ تھے۔انہوں نے کوشش کی کہ اسرائیل کو تنہا عربوں کا نہیں بلکہ امت محمدیہ کا مسئلہ بنایا جائے مگر قدرت کو ابھی اور امتحان مقصود تھاشاہ فیصل شہید کردیے گئے۔
 
عربوں اور ان کے مفادات پر دشمن جہاں ایک جانب براہ راست حملہ آور تھا وہیں انہیں دوسرے طریقوں سے بھی بدنام کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتا۔ اس کی سب سے بڑی مثال او آئی سی ہے جو اپنے قیام کے مقاصد پورے کرنے میں نہ صرف ناکام رہا بلکہ بیشتر مواقعوں پر امت محمدیہ کے لیے مضرکردار ادا کیا۔ مگر او آئی سی کی ناکامی اور اس کے کرتوتوں کو بھی کسی نہ کسی طرح سعودی عرب کے کھاتے میں ڈال دیا گیا اور میڈیا کے ذریعے دنیا بھر کے مسلمانوں کو یہی بآورکرایا گیا کہ مسلمانوں کی ناکامی کی وجہ عربوں کا انتشار اور ان کا غیر مؤثر ہونا ہے۔
 
9/11کاواقعہ کسے یاد نہیں۔( دنیا کی اکثریت جن میں بڑی تعداد مسلمانوں کی ہی ہے آج بھی اسے عرب مسلمانوں کی کارروائی ہی سمجھتی ہے۔ باوجود اس کے کہ خود امریکی ماہرین طبیعیات نے اپنی تحقیق سے یہ بات ثابت کی ہے کہ امریکی معیشت کوکنٹرول کرنے والے ایک محدود طبقے کا کارنامہ ہے۔ آج تک یہ جاننے کی کوشش نہیں کی گئی کہ آخر اس مقصد کے لیے ٹوئن ٹاور کا انتخاب ہی کیو ں کیا گیا؟ اور اس کے لیے11ستمبر کی تاریخ کیوں متعین کی گئی؟)یہ واقعہ ایک استعارہ تھا جس کا مقصد دنیا بھر میں ابلیس کے گماشتوں کو یہ بتانا تھا کہ اب ان کی وفاداری ثابت کرنے کا وقت آگیا ہے۔اور پھر دنیا نے دیکھا کہ تاریخ نے ایک نیا موڑ لیا ہے ۔ سوچ کے زاویے بدل گئے۔ نظریات نے اپنی معنویت تبدیل کرلی۔ فلسفہ کا قبلہ بدل گیا۔معاشی اصول کے نئے معنی بنائے گئے۔ غریبوں کی مدد دہشت گردوں کی معاونت قرار پائی اور صرف او ر صرف دنیا کے ٢ مسلم ملکوں پاکستان اور سعودی عرب کو کسی نہ کسی طریقے سے ان معاملات میں ملوث کرکے ہدف تنقید بنایا گیا تاکہ مستقبل کی کارروائیوں کو سند جواز فراہم کیا جاسکے۔
 
موجود ہ دور میں ایک جانب جہاں پاکستان کو براہ راست ”حملوں” کا نشانہ بنایا گیا وہیںبالواسطہ طور پر سعودی عرب پر بھی حملے کیے گئے۔ان حملوں میں جہاں سعودی عرب کے مفادات کو نشانہ بنایا گیا وہیں خود مسلم ملکوں میں عربوں میں اسے بے توقیر ثابت کرنے کے لیے کمزور اور مردہ قوم کی حیثیت سے پیش کیا گیا ۔اس کی تازہ مشال گزشتہ ایک سال کے دوران پاکستان، بنگلہ دیش اور یمن میںسعودی سفارتخانوں پر کیے جانے والے حملے ہیں۔ ١٦ مئی٢٠١١ء کو کراچی میں شہر کے ریڈ زون ڈیفنس خیابان شہباز میں سعودی قونصلر کی گاڑی پر سعودی سفارتکار حسن گابانی کو قتل کیا گیا۔انہیں گھر سے قونصل خانہ جاتے ہوئے نشانہ بنایا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ واقعہ سے چند روز قبل سیکورٹی اداروں نے قونصل خانہ سے ایک سیکورٹی افسر کو مشکوک سرگرمیوں پر گرفتار بھی کیا لیکن اس کے بعد پہلے سعودی قونصل خانہ پر دستی بم سے حملہ کیا گیااورچند روز بعد سفارتکار کو ہدف بنا کر قتل کردیا گیا(ڈان۔ عرب نیوز) ۔ قاتل آج تک گرفتار نہیں ہوسکے۔ابھی اس واقعہ کو ایک سال بھی نہیں ہوا تھا کہ بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکا میں خلف بن محمد سلیم العلی کوڈپلومیٹک انکلیو میں قتل کردیاگیا ۔ انہیں انتہائی قریب سے سینے میں گولی ماری گئی۔اس بارے میں بنگلہ دیش پولیس کے بیان میں تضاد پایا گیا۔ سفارتکار کے گھر19/B کے سیکورٹی گارڈ ذوالفقار علی اورمکان نمبر20/A کے سیکورٹی گارڈ ربیع الاسلام کا کہنا ہے کہ انہیں دن سوا بجے قتل کیا گیا جبکہ ڈھاکا کے اسسٹنٹ پولیس کمشنر نورالعالم کا کہنا ہے کہ خلف العلی کو علی الصبح نشانہ بنایا گیا(دی ڈیلی اسٹار) ۔ اس واقعہ پر نہ صرف سعودی عرب بلکہ کویت ، بحرین، اردن اور متحدہ عرب امارات کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا۔سب کا ایک ہی مؤقف تھا کہ خلف العلی کا قتل دہشت گردی اور کھلی جنگ ہے (سعودی گزٹ۔ عرب نیوز) ۔ قاتلوں کی گرفتاری اور تفتیش میں مدد کے لیے سعودی عرب کی تحقیقاتی ٹیم ڈھا کا پہنچی مگر خلف العلی کے قاتل بھی تادم تحریر گرفتار نہ ہوسکے اور نہ ہی یہ معلوم ہوسکا کہ واردات کرنے والے کون تھے؟ان کے مقاصد کیا تھے؟دوسری جانب ٢٨ مارچ ٢٠١٢ء کو سعودی عرب کے پڑوسی ملک یمن کے شہر عدن سے سعودی قونصلر عبداللہ الخالدی کو اغوا کرلیا گیا۔انہیں المنصورہ کالونی میں گھر کے باہر موجود گاڑی سے صبح کے وقت اغو ا کیا گیا۔ 4ماہ قبل ان سے راستے میں روک کر گاڑی بھی چھین لی گئی تھی( العربیہ .نیٹ ) ۔ الخالدی کے بارے میں اب تک نہیں معلوم کہ وہ کہاں ہیں؟ انہیں کس نے اغوا کیا؟ ان کے مقاصد کیا ہیں؟یہ سار ے عوامل کہیں اس امر کی نشاندہی تو نہیں کررہے کہ سعودی عرب کو عالم اسلام میں تنہا کیا جارہا ہے۔ 
 
پے در پے سعودی سفارتکاروں پر حملہ یہ واضح کرتا ہے کہ سعودی عرب کے خلاف اس وقت کسی عالمی سازش کا کھیل جاری ہے ۔ یہ کھیل کھیلنے والے کسی بھی طرح مسلمانوں کے ہمدرد نہیں ہوسکتے کیونکہ سعودیہ کے خلاف کھیلا جانے والا کھیل صرف وہیں تک محدود نہیں رہے گا بالآخر اس کا اثر پورے عالم اسلام پر پڑے گا ۔ 
 
اس امر کو بخوبی سمجھ لینے کی ضرورت ہے کہ سعودی  عرب میں انتشار مسلمانوں کے لیے کسی بھی طرح سود مند نہیں ۔ سعودی عرب کی تنہائی محض سعودی عرب کی تنہائی نہیں بلکہ اسلام کی مرکزیت یعنی حجازِ مقدس سے مسلمانوں کو دور کردینے کی ناپاک کوشش ہے ۔ 
 
اس بات کو کسی بھی طرح نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ اسرائیل اپنے قیام کے ساتھ ہی پاکستان اور سعودی عرب کا مخاف رہا ہے اور اس سلسلے میں کسی بھی حد تک جانے سے گریز نہیں کرتا بلکہ ان دو اسلامی ممالک –جن کے تعلق مثالی نوعیت کے ہیں — کے مابین اختلافات پیدا کرنے سے بھی گریز نہیں کرتا ۔ ١٩٦٧ء کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد اسرائیلی وزیر اعظم بن گورین کا بیان ریکارڈ پر ہے ، جس میں اس نے پاکستان سے متعلق اپنے خبث باطن کا اظہار کیا تھا ۔ 
 
اگر مفروضہ کو درست مان لیا جائے توایک یہودی سردار حاخام اکبر کا وہ بیان جو اس نے مسجد اقصیٰ پر اسرائیلی قبضے کے بعداپنی تقریر میں کہا تھا کہ
” مسجد اقصیٰ پر قبضہ کرلینے کے بعد یقنیاً ہمیں خوشی ہوئی ہے۔ لیکن ہماری یہ خوشی اس وقت تک پوری نہیں ہوسکتی جب تک ہم مدینہ منورہ میں اپنے پرانے مکانوں اور قلعوں کو واپس نہ لے لیں اور جب تک ہم مدینہ کے ایک ایک باشندے کے ساتھ قتل و خون کا وہی معاملہ نہ کریں جو مسلمانوں نے ہمارے بڑوں بنی قرنیطہ،بنی قینقاع، بنو نضیر اور اہل خیبر کے ساتھ کیا تھا۔”
ان تمام کڑیوں کو ملائیے اور غور کیجئے کہ کہیں سعودی عرب کو تنہا کرنے کی سازش تو نہیں کی جارہی ؟

یہ مضمون جریدہ "الواقۃ” کراچی کے پہلے شمارہ، -2012 اپریل،- سے ماخوذ ہے۔

کو پڑھنا جاری رکھیں