انتخابی نظام – اسلامی ہدایات کی روشنی میں


الواقعۃ شمارہ 47 ربیع الثانی  1437ھ

از قلم : محمد تنزیل الصدیقی الحسینی

اسلام نے زندگی کے ہر ہر گوشے کے لیے خواہ وہ انفرادی ہو یا اجتماعی، سامانِ ہدایت و رہبری فراہم کیا ہے۔ کچھ امور کا تعلق فرد کی اپنی ذات سے ہوتا ہے اور کچھ امور اجتماعیت کے متقاضی ہوتے ہیں۔ فرد کی اپنی غلطیاں صرف اسی پر یا زیادہ سے زیادہ اس سے منسلک افراد پر ہی اثر انداز ہوتی ہیں۔ جبکہ اجتماعی امور پورے معاشرے کو متاثر کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے ” اجتماعیت ” اور اجتماعی نظام کے استحکام پر بہت زور دیا ہے۔ اسلام کے اجتماعی ( سیاسی و معاشرتی ) نظام کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ بہت سادہ و سلیس اور فطری تقاضوں سے ہم آہنگ ہے۔ سر دست ہمارا موضوعِ بحث و تحقیق اسلام کا انتخابی نظام ہے۔ اس سلسلے میں اسلام نے پہلے چند سادہ اور نہایت عام فہم ہدایات دی ہیں کہ جن کی مکمل پاسداری سے مستقبل کے بہیترے مفسدات کی راہ ہی مسدود ہو جاتی ہے۔ مثلاً

کو پڑھنا جاری رکھیں

إِن كُنتُم مُّؤۡمِنِينَ۔ اداریہ


جمادی الاول و جمادی الثانی 1435ھ / مارچ اور اپریل 2014، شمارہ 24 اور 25

إِن كُنتُم مُّؤۡمِنِينَ۔ اداریہ۔ درس آگہی۔         محمد تنزیل الصدیقی الحسینی۔ جمادی الاول و جمادی الثانی 1435ھ مارچ اور اپریل 2014، شمارہ 24 اور 25 ۔ https://alwaqiamagzine.wordpress.com/ http://al-waqia.blogspot.com/

ایک نظر– دو نظریاتی اسلامی ریاستوں پر An Observation on Two Ideological Islamic States


ربیع الاول و ربیع الثانی 1435ھ/جنوری، فروری 2014، شمارہ 22 اور 23ایک نظر– دو نظریاتی اسلامی ریاستوں پر An Observation on Two Ideological Islamic States

کو پڑھنا جاری رکھیں

رومی جمہوریت


 18ذیقعد و ذی الحجہ 1434ھ/ ستمبر اور اکتوبر 2013، شمارہ  08 Romi Jamhuriat 1

عراق ، شام اور مصر کا معاشی بحران


ذیقعد و ذی الحجہ 1434ھ/ ستمبر اور اکتوبر 2013، شمارہ  18

نور حدیث									   بسلسلہ نادر احادیث فتن عراق ، شام اور مصر کا معاشی بحرانمحمد تنزیل الصدیقی الحسینی

کو پڑھنا جاری رکھیں

حقیقت یا مجاز


شوال 1434ھ/  اگست ، ستمبر2013، شمارہ  17

حقیقت یا مجاز

محمد تنزیل الصدیقی الحسینی

ادارہ الواقعہ کے قیام کا اصل مقصد منہجِ نبوی صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم کے مطابق علمی ، فکری و نظری تحریک بپا کرنا تھا ۔ بالفاظِ دیگر مسلمانوں
کے جسدِ جامد میں ایک مثبت تحرک پیدا کرنا تھا ۔ چنانچہ اس ضمن میں مجلہ ” الواقعة ” کا اجراء کیا گیا جو الحمد للّٰہ گزشتہ سوا سال سے زائد عرصے سے علمی و فکری جہت میں اپنی خدمات بتوفیقِ الٰہی انجام دے رہا ہے ۔ اب اس مجلے میں ایک نیا سلسلہ شروع کیا جارہا ہے ۔ مصادرِ شرعیہ کے عنوان کے زیر تحت ایک مستقل سلسلہ جس میں ایسے سوالات جو عام انسانی ذہن میں باعثِ خلش بنے ہوئے ہیں یا یقین میں شک کے کانٹے چبھو رہے ہیں ۔ کوشش کی جائے گی کہ ذہن انسانی سے ایسی خلش دور کی جاسکے اور یقین پر چبھنے والے شکوک و شبہات کے ہر کانٹے کو نکال پھینکا جا سکے ۔ تاہم عام فقہی و رسمی اعتقادی نوعیت کے سوالات کے جواب نہیں دیئے جائیں گے ۔ آپ اسلام سے متعلق اپنی فکری الجھنیں لکھ بھیجیئے ادارہ الواقعہ اسے سلجھانے کو اپنی سعادت سمجھے گا ۔ ( ادارہ )

سوال:

 مومن مجازی چیزوں کے لیے نماز پڑھتا اور روزے رکھتا ہے ، بلکہ وہ تو یہ تک سمجھتا ہے کہ یہ مجازی چیزیں ایک حقیقی کتاب کے ذریعے اس سے مخاطب ہونا چاہتی ہیں اور اس حقیقی کتاب کے اندر مجازی احکامات ہیں جن کا کام اس کی زندگی کو ان مجازی احکامات کے ذریعے آسان اور منظم بنانا ہے تاکہ وہ ان پر ایمان اور اطاعت کی انتہاء کو پہنچ جائے اور پھر مرنے کے بعد یہ مجازی ہستی اسے ایک مجازی جنت میں بھیج دے گی یا پھر ایک مجازی جہنم میں اسے مجازی طور پر سزا دی جائے گی ۔ تعجب خیز امر یہ ہے کہ اس بے چارے مومن کو حقیقی بھوک اور پیاس لگتی ہے بلکہ وہ ان لوگوں کو مارنے کے درپے ہوتا ہے جو ان مجازی چیزوں کو نہیں مانتے وہ بھی اس امیدپر کہ اس کے صلے میں یہ مجازیات اسے مجازی جنت میں جگہ دلوائیں گی جہاں اسے ٧٢ مجازی حوروں کی صحبت نصیب ہوگی اور وہ شراب و شہد کی مجازی نہروں سے اپنی پیاس بجھا سکے گا ، مجاز کی مضحکہ خیز انتہاء میں مومن اپنا ملک و گھر چھوڑ کر اللہ کے ایک مجازی گھر کی زیارت کرنے نکل کھڑا ہوتا ہے ۔ اللہ کے اس مجازی گھر کی حقیقی زیارت میں مومن مجازی شیطان کو سات حقیقی پتھر مارتا ہے اور یہ یقین کر لیتا ہے کہ اس نے واقعی ایک حقیقی شیطان کو پتھر مارے ہیں لیکن جب اسے حقیقتِ حال کا سامنا کروایا جاتا ہے تو وہ ایک بار پھر مجاز میں اپنی جائے پناہ ڈھونڈتے ہوئے کہتا ہے کہ شیطان ابدی برائی کی ایک مجازی تعبیر ہے ۔
براہ مہربانی اس سوال کا جواب سائنس (١) کی روشنی میں دیجئے ۔ یہ خیال رہے کہ ان نظریات کا حامل شخص قرآن یا حدیث پر یقین نہیں رکھتا ۔
اخلاق احمد ، گلشن اقبال ، کراچی

LGBT ایک گھناؤنی شیطانی کارروائی


جمادی الاول، جمادی الثانی 1434ھ/ مارچ، اپریل 2013، شمارہ  12-13

ابو عمار سلیم

آج ہم ایک ایسے دور سے گزر رہے ہیں جو بلاشبہ تاریخ انسانی کے ادوار میں سب سے آخری دور ہے۔ ہمارے نبی اکرم سیّد المرسلین خاتم النبین صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلمنے قرب قیامت کی جن نشانیوں کی اطلاع دی تھیں ان میں سے علماء کرام اور اصحاب علم کی اکثریت کی رائے کے مطابق تقریباً تمامنشانیاں ظاہر ہو چکی ہیں ما سوائے ان بڑی نشانیوں کے جو قیامت کے بالکل متصل ہیں۔ وہ لوگ جو علم آخر الزماں کے اوپر عبور رکھتے ہیں اور جنہوں نے قیامت کی پیش گوئیوں کی احادیث کے ساتھ ساتھ دنیاوی حالات اور ان کے بدلتے ہوئے رجحانات کا مطالعہ کیا ہے وہ اس رائے پر متحد ہیں کہ ہم ظہور دجال اور یاجوج ماجوج کے فتنوں سے زیادہ دور نہیں ہیں۔ اس کے بعد سیدنا حضرت عیسی ابن مریم علیہ السلام کی تشریف آوری اور جناب مہدی علیہ السلام کا ظہور جیسے چند ایک واقعات کا رونما ہونا باقی رہ جائے گا اور پھر یہ دنیا اور کائنات لپیٹ دی جائے گی اور وہ حادثہ رونما ہوگا جس کے لیے انسان کو شروع دن سے تیار کیا جارہاہے مگر اس کے کان پر جوں نہیں رینگ رہی ہے۔ ہمارا سب سے بڑا دشمن ابلیس جس نے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے سامنے کھڑے ہوکر اس رب العزت کی عزت کی قسم کھا کر یہ اعلان کیاتھا کہ
“میں اس  انسان کے آگے سے ، اس کے پیچھے سے، اس کے دائیں سے ، اس کے بائیں سے آؤنگا  اور اسے گمراہکروں گا اور ثابت کروں گا کے یہ اس حیثیت اور اس عہدہ کے قابل نہیں ہے جو تو اسے عطا کر رہا ہے ۔ اے اللہ تو ان میں سے بیشتر کو اپنا شکر گذار نہیں پائے گا۔” کو پڑھنا جاری رکھیں

تحریک آزادیِ نسواں. خواتین کے خلاف ایک پُر فریب شیطانی دھوکہ


جمادی الاول، جمادی الثانی 1434ھ/ مارچ، اپریل 2013، شمارہ  12-13

ابو عمار محمد سلیم                اللہ سبحانہ وتعالیٰ ، خالق ارض و سما کا فرمان ہے کہ میں نے اس کائنات میں تمام چیزوں کو جوڑے جوڑے میں بنایا ہے۔ اسی سنت کو برقرار رکھتے ہوئے اللہ نے جب انسان کو پیدا فرمایا تو اس کا جوڑا بھی خلق کیا۔ یوں حضرت آدم علیہ السلام کے ساتھ ان کا جوڑا حضرت بیبی حوا علیہا السلام کی صورت میں بنایا اور ان کی تخلیق کی۔ اس طرح جوڑے جوڑے میںتمام چیزوں کو بنانے میں اللہ رب العزت نے جو اہتمام روا رکھا اس کی بنیادی حقیقتاس قسم کی نسل کو آگے بڑھانے اور ان کو پھلنے پھولنے کا موقع فراہم کرناتھا ۔انسان کے ساتھ ساتھ ہمارے کرہ ارض پر جو بھی معلوم چرند پرند اور بحری اقسام کےعلاوہ نباتاتی جاندار ہیں ان سب کے نسلوں کے پھیلاؤ کا واحد فارمولا اپنے جوڑے سےاختلاط ہے اور اس کے نتیجہ میں اسی جیسی ایک نئی زندگی وجود میں آتی ہے۔ انسان کےساتھ ساتھ بہت سے غیر انسانی گروہوں میں بھی اللہ نے مذکر جنس کو زیادہ طاقت عطا کی ہے جس کا استعمال کرکے وہ نہ صرف اپنے ساتھی جوڑے کا بلکہ اپنی کمزور افزائشپذیر نسل کی حفاظت کے لیے ہمہ دم چو کنا اور تیار رہتا ہے۔یہ ایک ایسا انتظام ہے جودنیا کے قیام کے بعد سے خالق کائنات کے بنائے ہوئے اصولوں کے مطابق جاری و ساری ہےاور یہ ہی وجہ ہے کہ تمام انسانوں اور حیوانوں کی زندگیاں قائم ہیں۔ مذکر اور مؤنث
کا یہ جوڑ ہی کامیاب اور پر مسرت زندگی کے لیے ریڑھ کی ہڈی کا کام کرتا ہے۔ جوڑےکے اس انتظام میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ایک عجیب امتزاج رکھا ہے۔ اس جوڑے کےایک حصہ کو بے انتہا طاقت ، ہمت اور دور اندیشی کی صفت عطاکی تو دوسر ے حصہ کو نزاکت، برداشت اور محبت کا وہ لازوال خزانہ دے دیا جو زندگی کی گاڑی کو کھینچنے کےلیے تیل کی فراہمی کا کام کرتا ہے۔ دونوں صنفوں کو ایک دوسرے کی ضد بھی بنایا مگرساتھ ہی ایسا جذبہ بھی بیچ میں رکھ دیا کہ دونوں ایک دوسرے کے لیے ناگزیر بنگئے۔یہ اوراس جیسے دیگرتمام عوامل ہر جنس میں رکھے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر قسمکی نسل نے اللہ کی عطا کی ہوئی طاقت اور قوت کا غلط استعمال بھی کیا۔ دیگر مخلوقاتمیں شاید اس کا ادراک اتنا زیادہ نہ ہو مگر ہم بنی آدم اپنی نسل میں اس بے جااستعمال کے شاہد ہیں جہاں ایک فریق نے اپنے دوسرے ساتھی کے ساتھ زیادتیاں کیں اوراس کے حقوق کو پامال کیا۔ ہمارے اس مضمون کا مطمح نظر بھی بنی آدم اوراس کے جوڑے
کا اسی حوالے سے جائزہ لینا ہے اور ہم اب اپنی توجہ صرف انسانی جنسوں یعنی مرد اورعورت کی طرف رکھیں گے اور ان ہی سے متعلق مختلف مسائل پر گفتگو کریں گے۔ کو پڑھنا جاری رکھیں

جدیدیت کیا ہے، کیا نہیں؟


جریدہ "الواقۃ” کراچی، شمارہ 11، ربیع الثانی 1433ھ/ فروری، مارچ 2013

از قلم: سید خالد جامعی (کراچی یونیورسٹی) 

6 Jadidiat kia hay pdf 2

دنیا کی ٢٣ روایتی، الہامی دینی تہذیبوں میں انسان عبد تھا۔ وہ جو اس نیلی کائنات میں خدا کے آگے سر بسجود ایک ہستی تھا جو اپنی آخرت کی اصلاح کے لیے فکر مند اور مستقبل کی حقیقی زندگی کے لیے کوشاں رہتا تھا۔ لیکن اٹھارہویں صدی میں جدیدیت کی آمد کے بعد یہ عبد جو بندگی کے سانچے میں ڈھلا ہوا تھا یکایک آزاد ہوگیا (Mankind( بندے سے آزاد فرد (Human being( ہوگیا یہ اصطلاح بھی صرف اس کے حیاتیاتی وجود کی علامت تھی لہٰذا اس کے سیاسی وجود کی وضاحت کے لیے Citizen کی اصطلاح استعمال کی گئی جو خود مختار مطلق Soveriegn ہوتا ہے۔ اسی آزاد خود مختار وجود کے لیے ایک ایسی ریاست قائم کی گئی جو Re-public کہلائی۔ ایسی ریاست جہاں عوام کا حکم ارادہ عامہ (General will( کے تحت چلتا ہے۔ اس کے سوا کسی کا حکم چل نہیں سکتا۔ اگر کسی ریاست میں کسی اور کا حکم بہ ظاہر چل رہا ہے تو اس حکم کے چلنے کی اجازت بھی عوام کی اجازت سے ملی ہے اور یہ اجازت مطلق نہیں ہے حاکم حقیقی (عوام( اس اجازت کو جب چاہیں منسوخ کرسکتے ہیں مثلاً پاکستان کے دستور آئین میں اللہ کی حاکمیت کو سب سے بالاترحاکمیت کے طور پر قبول کیا گیا ہے۔
کو پڑھنا جاری رکھیں

آزادی کیا ہے ؟ آزادی کیا نہیں ہے ؟


جریدہ "الواقۃ” کراچی، شمارہ  7  ذوالحجہ 1433ھ/ اکتوبر ، نومبر 2012

سید خالد جامعی (کراچی یونیورسٹی، کراچی)

آزادی کیا ہے ؟ آزادی کیا نہیں ہے ؟

قسط نمبر 1
ہر معاشرے میں صرف ایک قدر ہوتی ہے ، جو تما م اقدار سے ماورا ہوتی ہے۔ہر کام کو اس ایک قدر کے پیمانے پر پرکھا جاتا ہے۔یہ تصور الخیر[Good] یا اس تہذیب کا Hyper Good  ہوتا ہے۔ تمام اقدار و روایات اس تصور خیر سے ہم آہنگ ہوں گی۔ عصر حاضر میں یہ الخیر آزادی ہے۔لہٰذا عصر حاضر کے ہر معاشرے کے تصور عدل کو اس الحق الخیر تصور آزادی[Freedom] پر پرکھا جائے گا کہ معاشرہ فرد کی آزادی میں کتنا اضافہ کررہا ہے۔جو معاشرہ آزادی کے دائرہ میں جس قدر اضافہ کرے گا وہی سب سے عادل معاشرہ ہوگا ۔بہ ظاہر یہ تصور لوگوں کو اچھا لگتا ہے اور آزادی کے اس تصور پر عدل کی اس تعریف پر اس کا اصل تاریخی فلسفیانہ تناظر واضح کیے بغیر تنقید کی جائے تو لوگ مشتعل ہو جاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ انسانوں کو زنجیروں میں جکڑا جا رہا ہے ۔

اللہ کی بادشاہت


جریدہ "الواقۃ” کراچی، شمارہ  7  ذوالحجہ 1433ھ/ اکتوبر ، نومبر 2012

مولانا محمد علی قصوری

اللہ کی بادشاہت

قسط نمبر 1
الحمد للّٰھ نحمدہ و نستعینھ و نستغفرہ و نومن بھ و نتوکل علیھ و نعوذ باللّٰھ من شرور انفسنا و من سیئات اعمالنا من یھد اللّٰھ فلا مضل لھ و من یضللھ فلا ھادی  لھ و نشھد ان لا الھ الا اللّٰھ وحدھ لا شریک لھ و نشھد ان محمدا عبدھ و رسولھ صلوت اللّٰھ و سلامھ علیھ و علیٰ الھ و ازواجھ و اصحابھ و ذریاتھ و اتباعھ اجمعین الیٰ یوم الدین ارسلھ بالھدی و دین الحق لیظھرھ علی الدین کلھ و کفیٰ باللّٰھ شھیدا ، اما بعد قال اللّٰھ تبارک و تعالیٰ :

( وَ لَا تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْ نَقَضَتْ غَزْلَھَا مِنْ بَعْدِ قُوَّةٍ اَنْکَاثًا ) ( النحل )

” اس بڑھیا جیسے نہیں بنو جو اپنا محنت سے کاتا  ہوا سوت خود تار تار کردیتی تھی ۔ ”

خطبۂ حج۔ شیخ عبد العزیز آل الشیخ حفظہ اللہ کا مسجد نمرہ سے اہم اور تاریخی خطاب


جریدہ "الواقۃ” کراچی، شمارہ  7  ذوالحجہ 1433ھ/ اکتوبر ، نومبر 2012

رپورٹ: محمد آفتاب احمد

خطبۂ حج

 

شیخ عبد العزیز آل الشیخ حفظہ اللہ

 

کا مسجد نمرہ سے اہم اور تاریخی خطاب
امام کعبہ شیخ عبدالعزیز آل الشیخ نے مسجد نمر ہ میں خطبہ حج دیتے ہوئے کہا ہے کہ نبی کریم ﷺ کی شان میں گستاخی کسی صورت برداشت نہیں کرسکتے۔ جمہوریت سے اسلامی نظام لاکھ درجے بہتر ہے۔تمام امور میں شریعت کی پیروی لازم ہے، کسی کو اختیار نہیں کہ وہ رسول اللہ ﷺکے فیصلوں کے خلاف کام کرے۔آزادی اظہاررائے اورجمہوریت کے نام پر اسلام کو بدنام کیا جارہا ہے، اسلام میں جبر اور سختی نہیں پیار و محبت ہے۔ اسلام میں دہشت گردی کی کوئی گنجائش نہیں،مسلمانوں کے بہت سے دشمن ہیں، ان کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا ہوگا۔ دنیا میں شر کی قوتیں بالادست ہیں، ہر طرح کے تشدد کو روکنا ہوگا۔ امت مسلمہ میں اخلاقی برائیاں پیدا ہوگئی ہیں۔اللہ سے ڈریں، تقویٰ اختیار کریں، عقیدہ توحید پر چلتے ہوئے اولاد کی پرورش کریں۔مسلمان متحد ہوں، ایک دوسرے کی مدد اور معاونت کریں۔اسلامی تعلیمات کو رواج دینا ہوگا، امت مسلمہ کو اقتصادی قوت میں ڈھالنا ہوگا۔
حج کا رکن اعظم ادا ہوگیا۔عازمین بدھ کی رات رات بھر منیٰ میں قیام اورجمعرات کو نماز فجر کی ادائیگی کے بعدلبیک اللّٰھم لبیک کی صدائیں لگاتے ہوئے دیوانہ وار میدان عرفات کے لیے روانہ ہو ئے۔ عازمین بسوں، ویگنوں اور گاڑیوں کے علاوہ خصوصی طور پر چلائی گئی ٹرین کے ذریعے میدان عرفات کے لیے روانہ ہوئے۔منیٰ سے عرفات کے درمیان کا فاصلہ تقریباً 14 کلومیٹر ہے مگر پے پنا ہ رش کے باعث بڑی تعداد میں عازمین پیدل بھی میدان عرفات پہنچے۔
 
امام کعبہ نے فرمایا کہ تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں۔ اے لوگو! اللہ سے ڈرتے رہو، تقوی اور ہدایت کی راہ اپناؤ۔ اے لوگو! قیامت کے دن سے ڈرتے رہو، اللہ سے ڈرتے رہو اور راہ ہدایت اختیا ر کرتے رہو۔شرک کو کسی بھی صورت اختیار نہ کیا جائے۔ توحید کا پیغام یہ ہے کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کی جائے ۔ نبی کریم ﷺ کی شان میں گستاخی برداشت نہیں کرسکتے، دنیا کی برائیوں کا ڈٹ کا مقابلہ کیا جائے۔ اسلام میں جبر اور ظلم کی کوئی گنجائش نہیں۔ آج یہاں سب مسلمان ہیں کوئی قوم نہیں، ہمیں چاہیے کہ تمام تعصبات ختم کردیں۔شریعت کے خلاف باتیں مخالفین کا پراپیگنڈا ہے۔ اظہار رائے کی آڑ میں اسلامی حدود کے خلاف باتیں ہوتی ہیں۔ مسلمان باہر کے بینکوں سے نکال کر اپنی دولت اپنے معاشروں میں لائیں۔ مسلمانوں کو اپنی مشکلات اپنے وسائل سے حل کرنا ہوں گی۔ مسلمان اپنے عقیدے کی حفاظت کریں، اللہ کا ذکر بڑی بات ہے۔ نبی کریم ﷺکی تکریم ہمارے ایمان کا حصہ ہے، اسلام کا پیغام توحید کا پیغام ہے۔ توحید کا پیغام ہے کہ اللہ کی عبادت کریں اور کسی کی نہیں، اللہ ایک ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں، اللہ اپنی ذات اور صفات میں واحد ہے، ہماری زندگی اور ہماری موت اللہ کے لیے ہے۔ اسلام کا پیغام سب سے افضل ہے ۔ اللہ تعالیٰ اور مخلوق کا رابطہ براہ راست ہے، اس کا کوئی وسیلہ نہیں۔ مسلمان کا حق ہے کہ وہ توحید پر کاربند رہے اور اسی پر چلتے ہوئے اپنے اولاد کی پرورش کرے۔ اللہ کے سوا کسی اور کو حاجت روائی کے لیے پکارنا گمراہی ہے اورصرف ایک اللہ کی عبادت کی جائے ۔
شیخ عبدالعزیز نے کہا کہ خودکشی حرام ہے، خودکشی کرنے والے کی مغفرت نہیں ہوگی۔ مسلمان اللہ کے ساتھ کسی کو ہرگز شریک نہ ٹھہرائیں۔ مومن کی نشانی ہے کہ اس کی ذات سے کسی مسلمان کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔ اپنے درمیان اختلافات کم کرو، اللہ کی توحید کی راہ اپنا کر ہی ہم اس میں دنیا میں کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔ خطبہ حج میں انہوں نے فرمایا کہ اسلام کے سوا کوئی اور دین قبول نہیں کیا جائے گا، دین وہی ہے جو نبی کریم ﷺ نے دیا، اس دین میں نہ قبیلہ ہے نہ خاندان۔ ہمیں ہر طرح کے تشدد کو روکنا ہوگا۔ ہمیں اپنے اخلاق کو سنوارنے کے لیے محمد ﷺ کی سنتوں کو اپنانا ہوگا۔ امت مسلمہ میں اخلاقی برائیاں پیدا ہوگئی ہیں۔ تمام وسال کو اگر جمع کرلیا جائے تو مسائل پر قابو پایا جاسکتا ہے، معاشی اور اقتصادی مسائل بھی مسلمان مل کر ہی حل کرسکتے ہیں، سیاسی مشکلات کا حل بھی مسلمان نکال سکتے ہیں۔
 
عالم اسلام کو درپیش مسائل کا ذکر کرتے ہوئے امام کعبہ نے کہا کہ مسلمانوں کے بہت سے دشمن ہیں جن کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا ہوگا اور امت مسلمہ پرلازم ہے کہ وہ باہمی تعاون کوفروغ دے کر اورایک دوسرے کا احترام کریں۔ آج عالم اسلام مسائل اور مشکلات میں گھرا ہوا ہے، تمام مسائل سے نکلنے کے لیے ضروری ہے کہ اسلام کے احکامات پر عمل کیا جائے، حکمران شریعت پر عمل کرنے کے لیے حالات ساز گار بنائیں۔مسلمان اپنے تجربات اور وسائل ایک دوسرے کے ساتھ بانٹیں۔ مسلمان عقیدہ توحید پر چلتے ہوئے اپنی اولاد کی پرورش کریں۔ جادو امت مسلمہ کا اہم مسئلہ ہے ، اس نے لوگوں کو گمراہی میں مبتلا کردیا ہے۔ اللہ سے ڈریں اور تقویٰ اختیار کریں، اسلام سب سے بہترین ضابطہ اخلاق ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ اگر وہ ترقی کرنا چاہتے ہیں تو ٹیکنالوجی کی طرف جائیں۔ مسلمانوں کی بقا کے لیے ایسا کرنا بہت ضروری ہے۔ امت مسلمہ غربت کا شکار ہے،اس کی ترقی کے لیے باہمی یکجہتی اور اخوت کو فروغ دینا ہوگا۔ وسائل کو مسلمانوںکی ترقی اور بہبود پر خرچ کرنا چاہیے۔ مسلمانوں کو پورے وسائل سے استفادہ اور ان میں اضافہ بھی کرنا چاہیے۔ مال حلال ذریعے سے کمایا جائے اور ایسے خرچ کیا جائے جیسے ہمیں حکم دیا گیا ہے۔
 
امام کعبہ نے مزید کہا کہ حضورﷺ رحمت اللعالمین ہیں ۔دین کا آغاز اللہ کی توحید پر ایمان لانے سے ہوتا ہے ، تمام انبیا علیہم السلام کی رحمت و رسالت پر مسلمان یقین رکھتے ہیں ، نبی اکرمﷺ کے قائم کردہ معاشرے کے مطابق ہم کو اپنی زندگی بسر کرنا ہوگی، یہ شریعت زمان و مکاں کی پابندی سے بالاتر ہے،محمد ﷺ آخری رسول ہیں اور آپ کی شریعت افضل اور بہتر ہے۔ ہم پر واجب ہے کہ ہم ایک دوسرے کا احترام کریں۔ نبی پاک ﷺ کا ارشاد ہے شریعت کو اپنائے رکھو اور اس پر عمل کرو ، نہ صرف حضورﷺ کی سنت کو اپنائیں بلکہ خلفہ راشدین کے طریقہ کار کو بھی اپنائیں ۔ آج کل عالم اسلام مشکلات میں گھرا ہوا ہے ، بہت سارے لوگ ہلاک ہورہے ہیں اور دنیا کو غذائی قلت کا بھی سامنا ہے ۔ امت مسلمہ پر لازم ہے وہ باہمی تعاون کو فروغ دیں اور اپنے تجربات ایک دوسرے کے ساتھ بانٹیں۔تمام امور میں اسلامی شریعت کی پیروی کرنا لازمی ہے اورکسی کو اختیار نہیں کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے فیصلوں کے خلاف کام کرے،اللہ تعالی سودی کاروبارکو ناپسند کرتا ہے ۔ اسلام کے بنیادی احکامات پر عمل کرکے ہی ہم دین ودنیا میں سرخرو ہوسکتے ہیں۔میں دعا گو ہوں اللہ تعالی آپ کی عبادت اور دعاؤں کو قبول فرمائے۔(آمین )
  
ٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓ

حج کے لیے آنے والے مہمانوں سے خادم الحرمین الشریفین کا اہم خطاب

سعودی عرب کے فرمانروا خادم الحرمین الشریفین عبداللہ بن عبدالعزیز نے اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ تمام سماوی مذاہب اور انبیاء کی اہانت کی مذمت پر مبنی قانون تشکیل دے۔ سعودی حکومت کی خصوصی دعوت پر دنیا بھر سے حج کے آنے والے مہمانوں سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ امت اسلامیہ کی اپنی خود احتسابی دینی فریضہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ دین میں غلو، جہالت اور خرابی پیدا کرنے جیسے معاملات مسلمانوں کی امیدوں کے قاتل ہیں۔انہوں نے یہ بات زور دے کر کہی کہ مذاکرات اعتدال کو بڑھاتے ہیں، ان کے ذریعے باعث نزاع امور، انتہا پسندی کا خاتمہ کرنے میں مدد ملتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مکہ میں شروع کیے گئے اسلامی مذاہب کے درمیان مکالمے کے مرکز کا مطلب تمام عقائد کا اتفاق نہیں بلکہ اس مرکز کی اصل روح یہی ہے کہ مختلف عقائد اپنے اپنے دائرے میں رہتے ہوئے زندگی کے معاملات کریں۔سعودی فرمانروا نے اسلام اور نبی اسلام کی شان میں گستاخی پر مبنی امریکی فلم کی مذمت کرتے ہوئے مملکت میں انٹرنیٹ سروس فراہم کرنے والے ادارے کو حکم دیا کہ وہ ان تمام لنکس اور روابط کو بند کر دیں جن کے ذریعے ممکنہ طور پر مذموم فلم تک رسائی ممکن ہے۔انہوں نے یو ٹیوب سے بھی مطالبہ کیا کہ وہ اپنی ویب سائٹ سے اس مذموم فلم کے کلپس کو فوری طور پر ہٹا دے ۔

کو پڑھنا جاری رکھیں