فرانس، زنیموں کا معاشرہ اور توہینِ رسالت


الواقعۃ شمارہ: 104 – 106، محرم الحرام تا ربیع الاول 1442ھ

از قلم : محمد تنزیل الصدیقی الحسینی

ایک رپورٹ کے مطابق فرانس کی 60 فیصد آبادی مجہول النسب افراد پر مشتمل ہے اور ولد الزنا افراد پر مشتمل آبادی میں فرانس دنیا بھر میں اول نمبر پر ہے۔ قرآنی اصطلاح میں ایسے افراد "زنیم” کہلاتے ہیں۔ فرانس میں تو "زنیموں” کا معاشرہ ہی تشکیل پا چکا ہے۔ کو پڑھنا جاری رکھیں

حرمت رسول ﷺ اور ہمارا لائحہ عمل – اداریہ


الواقعۃ شمارہ : 78  – 79 ذیقعد و ذی الحجہ 1439ھ

از قلم : محمد تنزیل الصدیقی الحسینی

مغرب ایک شدید ترین احساس کہتری کے دور سے گزر رہا ہے۔ اس کے پاس اسلام کی عظمت رفتہ کے مقابل پیش کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں، نہ اس کے پاس سیرت محمدی کی رفعتوں کا کوئی جواب ہے۔ ہر چند برسوں میں توہین رسالت کے اقدامات اور توہین آمیز خاکے مغرب کی شکست کا ذلت آمیز اظہار ہے۔ کو پڑھنا جاری رکھیں

مغرب کا تکبر اور سر پر منڈلاتی جنگ


06 maghrib ka takabur TITLE کو پڑھنا جاری رکھیں

خون ناحق


جریدہ "الواقۃ” کراچی، شمارہ 12-13، جمادی الاول، جمادی الثانی 1434ھ/ مارچ، اپریل 2013

محمد جاوید اقبال

سورہ روم میںرب تعالیٰ کا فرمان ہے:
( ظَھَرَالْفَسَادُ فیْ الْبَرّ وَ الْبَحْر بمَا کَسَبَتْ أَیْدیالنَّاس لیُذیْقَھُم بَعْضَ الَّذیْ عَملُوا )
“ زمین اور سمندر میں فساد پھیل گیا لوگوں کے اعمال کے باعث تاکہ اللہ تعالیٰ لوگوں کو ان کے اپنے  اعمال کا مزہ چکھائے ۔“ (الروم  41)
 اللہ تعالیٰ نے بنی آدم کو زمین میں اپنا نائب بنایا تھا اور اس کی ہدایت کے لیے ہردور اور ہرملک میں رسول اور نبی بھیجے۔ اس کے باوجود انسانوں کی بڑی تعداد اچھے انسان کی طرح رہنے پر تیار نہ ہوئی اور جانوروں کی سطح پر زندگی بسر کرتی رہی ۔ اس کاسبب یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ اپنے لطف و کرم کے سبب لوگوں کو ان کے گناہوں پر فوراً گرفت نہ کرتے تھے۔ بلکہ انہیں سنبھلنے کے لیے کافی وقت دیتے تھے۔لیکن مغرور انسان یہ سمجھتے تھے کہ ان کی گرفت کبھی ہوگی ہی نہیں۔سورہ شوریٰ کی تیسویں آیت کا مفہوم ہے: “ تم پر جو مصیبت آتی ہے ، وہ تمہارے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے اور کتنے گناہ تو ہم معاف ہی کر دیتے ہیں۔” کو پڑھنا جاری رکھیں

کس قیامت کے یہ نامے


14 Kis Qayamat k ye Naamay pdf  جریدہ “الواقۃ” کراچی، شمارہ 11، ربیع الثانی 1433ھ/ فروری، مارچ 2013

از قلم: محمد جاوید اقبال

داغ کوشکوہ تھا:
خط میں لکھے ہوئے رنجش کے پیام آتے ہیں
کس قیامت کے یہ نامے میرے نام آتے ہیں
ہم جو مغرب سے بحث و مباحثے میں محو ہیں کچھ اسی قسم کا شکوہ رکھتے ہیں ۔ مثلاً  Adult Christian Debate   فورم  پر ایک امریکی نے لکھا:
کو پڑھنا جاری رکھیں

توہین رسالت اور مغرب کا اندازِ فکر


جریدہ "الواقۃ” کراچی، شمارہ  (5 / 6 )  شوال، ذیقعد  1433ھ/   ستمبر، اکتوبر 2012

محمد تنزیل الصدیقی الحسینی

توہین رسالت ﷺ اور مغرب کا اندازِ فکر (1)

رسالتمآب کی توہین و تنقیص کا جو سلسلہ مغرب یا عیسائی دنیا کی جانب سے جاری ہے ، اس اندازِ فکر کا تاریخی تجزیہ کرنا نہایت ضروری ہے ۔ اس دریدہ ذہنی کے مختلف عوامل ہیں ۔ مسلمانوں کے مقابل میدانِ جنگ میں شکست کی ذلت ، اسلام کی غیر معمولی نشر و اشاعت کے سامنے اپنی بے بسی ،مسلمانوں کی اخلاقی وسعت کے سامنے اپنی برہنہ تہذیب کا احساس اور ان سب سے بڑھ کر سیرتِ محمدی کی حیرت انگیز روحانی تاثیر ۔ یہ وہ عوامل ہیں جو ان کی طبیعتوں پر اسلام کے حوالے سے جھنجھلاہٹ ، ہٹ دھرمی اور عامیانہ پن پیدا کردیتے ہیں ۔

مغرب میں توہینِ رسالت کا مختصر تاریخی جائزہ

مغربی دنیا نے ابتدا میں مسلمانوں کے مقابل مسلسل ناکامی پر اپنی بے بسی کا اظہار مسلمانوں کے لیے بدنما القاب رکھ کر کیا ۔ چنانچہ مسلمانوں کو بت پرست Pagan، ملحد Saracen / Infidel وغیرہا القاب سے نوازا گیا ۔ آخری اصطلاح سے متعلق بعض مستشرقین نے بڑی دلچسپ حاشیہ آرائیاں کی ہیں جن سے ان کی ” وسعتِ ظرف و اخلاق ” کابخوبی احساس ہوتا ہے ۔ مسلمانوں کے خلاف کلیسا کے شدت پسندانہ پروپیگنڈا کا اندازہ اس مقولے سے لگایا جا سکتا ہے :

The only good Saracen is a dead Saracen.”

اس تحریکِ منافرت ہی کے نتیجے میں مسلمانوں کو زوالِ اسپین کا صدمہ برداشت کرنا پڑا ۔ مغرب میں انتہائی وسیع پیمانے پر مسلمانوں کو شہید کیا گیا ۔ عیسائی دنیا کے جذبات بھڑکانے کے لیے بے شمار پادریوں کو فرضی داستانوں میں مسلمانوں کی تلوار سے قتل کروایا گیا ۔ لطف یہ ہے کہ آرڈر بلیو سدرن R.W.Southern نے اوتو آف فریزنگ کے حوالے سے لکھا ہے :

” آرچ بشپ تھیمو کو مسلمانوں نے اس لیے قتل کر ڈالا کہ اس نے قاہرہ میں ان کے بتوں کو توڑ ڈالا تھا۔” (بحوالہ اسلام ، پیغمبر اسلام اور مستشرقینِ مغرب کا اندازِ فکر : ١٨٣)

کجا مسلمان ، کجا اصنام پرستی !

معاندانہ جذبات سے مغلوب ہوکر علوم اسلامیہ کا جائزہ لینے کے لیے تحریکِ استشراق کا آغاز کیا گیا ، جس کا مقصدِ اوّلین پیغمبر اسلام پر دشنام طرازی کے لیے ” نئی علمی و تاریخی راہوں ” کی تلاش تھا ۔

پہلے پہل جس مسیحی عالم نے اسلامی علوم و فنون کو اپنا مرکز توجہ ٹھہرایا ۔ وہ یوحنّا دمشقی تھا ۔وہ شام کے ایک عرب عیسائی گھرانے میں ٦٧٦ء کو پیدا ہوا ، اس نے مدارسِ اسلامیہ میں تعلیم کے مراحل طے کیے ۔ اسے عربی زبان پر مکمل عبور حاصل تھا اور اسلامی تہذیب و ثقافت سے وہ بخوبی آشنا تھا ۔ اسلام کے خلاف اس کی کتاب Cocerning Heresy Haireseon کا دسواں باب ہے ۔ اس زمانے میں مسلمانوں کو حضرت اسماعیل علیہ السلام کی طرف نسبت دیتے ہوئے عیسائی حضرات اسماعیلی کہتے تھے ۔ چنانچہ اس کی کتاب میں مسلمان کی بجائے اسماعیلی کی اصطلاح ملے گی ۔ اس کا انتقال ٧٤٩ء کو بیت المقدس کے اطراف میں واقع ایک مقام بارسبا میں ہوا ۔ اگرچہ اس کا تعلق شام سے تھا مگر بقول ڈاکٹر محمود احمد غازی :

"اس کی تحقیقات کا استشراق میں بڑا اہم مقام حاصل ہے ۔ اس نے اسلام کے بارے میں جو کچھ لکھا ، قرآن مجید کے بارے میں جو کچھ لکھا اور حضور علیہ الصلوةٰ و السلام کی ذات گرامی کے بارے میں جو کچھ لکھا وہ ایک طویل عرصے تک مغربی ماہرین اور مغربی اہلِ علم کے لیے بہت بڑا مآخذ و مصدر رہا ۔ اس کی تحریروں کا لاطینی زبان میں ترجمہ بھی ہوا ۔ لاطینی زبان سے دوسری مغربی زبانوں میں اس کے خلاصے ہوئے اور جو تصورات اس نے قائم کیے تھے ، جن خیالات کا اس نے اظہار کیا تھا ، انہوں نے ایک طویل عرصے تک مغرب کے اہلِ علم کو متاثر کیا ۔ اور وہ غلط فہمیاں یا شکوک و شبہات جو یوحنا دمشقی نے پیدا کیے تھے ، طویل عرصے تک دُہرائے جاتے رہے ۔ ” (خطبات کراچی : ٢٥٠)

مغربی دنیا یوحنا دمشقی کے پھیلائی ہوئی غلط فہمیوں سے بری طرح متاثر ہوئی اور اسلام ، عقائدِ اسلام اور پیغمبر اسلام کے خلاف ان کے زاویۂ فکر و نگاہ میں مزید ابتری آئی ۔ صلیبی جنگوں نے یورپ کو اسلام کے خلاف مزید متعصب بنا دیا ۔ ایسے ایسے شرمناک الزامات انہوں نے نبی کریم کی ذات اقدس پر عائد کیے کہ جس کا ذکر بھی انسانیت کے لیے باعثِ تذلیل ہے ۔ یہ تعصب و عناد صرف عوامی سطح تک محدود نہیں تھا بلکہ تعلیم یافتہ اور اعلیٰ دماغ کے افراد بھی اسلام اور پیغمبر اسلام کے لیے یکساں مزاج رکھتے تھے ۔

اطالوی زبان کا سب سے بڑا شاعر دانتے الیگری Dante Alighieri ( ١٢٦٥ء -١٣٢١ء ) عالمی ادبیات میں نمایاں مقام کا حامل تھا ۔ مگر نبی کریم کے بارے میں اس کے خیالات نہایت عامیانہ تھے ۔ اس کی مشہورِ زمانہ کتاب Divine Comedy ( طربیہ خداوندی ) مختلف زبانوں میں منتقل ہوچکی ہے ۔ اردو میں بھی اس کا ترجمہ ہوا ہے ۔ اس کتاب میں اس نے اپنے ایک روحانی سفرنامے کا تذکرہ کیا ہے ۔ یہ خیال بھی اس کا اپنا نہیں بلکہ مسلمانوں سے اخذ کردہ ہے ۔ نبی کریم کے سفرِ معراج سے وہ واقف تھا ۔ اسی طرح شیخ ابن عربی نے بھی ایک روحانی سفرنامہ لکھا ہے ۔ ابن عربی کا تعلق اسپین سے تھا ۔ ان کی تحریروں سے مغربی مفکرین واقف اور آگاہ تھے ۔ الغرض دانتے کا یہ ” عظیم شاہکار ” بھی مسلمانوں ہی کے علمی ورثے کا نتیجہ ہے ۔ لیکن مسلمانوں سے اس کی نفرت و عداوت ملاحظہ ہو ۔ اس تخیلاتی سفر میں وہ جنت بھی گیا اور دوزخ بھی۔ وہاں اس نے نبی کریم کو بھی دیکھا اور جو کچھ خرافات اس کے دماغ میں تھے وہ سب اس نے نبی کریم کی ذات گرامی سے منسوب کیا ۔

مارٹن لوتھر Matin Luther ( ١٤٨٣ء -١٥٤٦ء ) کو اگرعیسائی مغرب کا سب سے بڑا مصلح قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہوگا ۔ یہ عیسائیوں کے مشہور فرقے پروٹسٹنٹ Protestant کا بانی تھا ۔ عیسائی مذہب میں اصلاحِ مذہب کی تاریخ مارٹن لوتھر سے شروع ہوتی ہے ۔ اس نے جو اصلاحات کیں ۔ وہ سب اسلام ہی سے اخذ کردہ ہیں ۔ مثلاً اللہ اور بندے کے درمیان کوئی واسطہ نہیں ، اللہ براہِ راست اپنے بندے کی سنتا ہے ۔ آسمانی کتابوں میں تبدیلی کا حق کسی کو حاصل نہیں ۔تمام انسان پیدائشی اعتبار سے برابر ہیں ، کسی کو کوئی وجۂ امتیاز حاصل نہیں۔ پوپ اللہ اور بندے کے درمیان وسیلہ نہیں ہے ۔ یہ وہ تعلیمات ہیں جو سب سے پہلے اسلام نے پیش کیں ۔ لیکن اپنے دور کی نفرت انگیز ماحول سے وہ انگیز فقرے کستا تھا ۔ اس کی بانسری سے وہی ساز نکلتا تھا جو عرصہ سے مغربی علماء و مفکرین نکال رہے تھے ۔

ولیم شیکسپیئر William Shakespeare      ( ١٥٦٤ء -١٦١٦ء ) جسے مغربی دنیا ، دنیا کا سب سے ڈرامہ نگار قرار دیتی ہے ۔ جس کی ادبیات انگریزی ادب کی جان ہیں ۔ وہ بھی اسلام کے بارے میں اپنے عہد و ماحول کے تصورات سے مغلوب رہا ۔ اس کے ایک ڈرامے میں Mohamet کے نام سے ایک کردار ہے جسے اس نے تمسخر کا نشانہ بنایا ہے ۔

مشہور فرانسیسی شاعر ، ادیب ، فلسفی اور ڈرامہ نگار والٹیئر Francois Marie Arouet Voltaire ( ١٦٩٤ء – ١٧٧٨ء ) نے ایک ڈرامہ لکھا "Fanaticism or Mohamet”  فیناٹک ازم کا مطلب ہے پاگل پن ، دیوانگی ۔ اس ڈرامے پر اس دور کے پوپ نے والٹیئر کو مبارکباد کا خط لکھا ۔ اس سے اندازہ لگائیے کہ اٹھارویں صدی میں یورپ کی علمی و مذہبی زندگی کا کیا حال تھا ۔

بایں ہَمہ یہ چھ سات سو سالہ دور ہے جسے خود اہل یورپ تسلیم کرتے ہیں کہ یہ جہل و تاریکی کا دور ہے ، تحقیق و مطالعے پر مبنی نہیں ۔ لیکن جب یورپ میں زمانۂ تحقیق شروع ہوا تو علم و تحقیق کے نام پر تعصب و عناد کی ملمع کاری کی گئی ۔ اٹھارویں صدی ہی میں خیال غالب ہوا کہ مضحکہ خیز اعتراضات سے گریز کرنا چاہیئے ۔ مثلاً پالتو کبوتر کے ذریعے نبی کریم کی وحی رَسانی کی کوششیں ، مسلمانوں کی بت پرستی کا فسانہ وغیرہا۔

مغرب میں عظمتِ محمدی کا اعتراف

اٹھارویں صدی کا عظیم جرمن شاعر گوئٹے Johann Wolfgang von Goethe (١٧٤٩ء -١٨٣٢ئٍ)پہلا مغربی فرد ہے جس نے عظمتِ محمدی کا بَرملا اعتراف کیا ۔

گاڈ فرے  ہیگن Godfrey Higgins (١٧٧٢ئ-١٨٣٣ء ) اپنے دور کا سماجی رہنما ، ادیب اور ماہر آثار قدیمہ تھا ۔ اس نے نبی کریم پر عائد کردہ مغربی الزامات کی تردید میں "An Apology for The Life and Character of the Celebrated Prophet of Arabia, called Mohamed or The Illustrious” لکھی ۔ یہ کتاب لندن سے ١٨٢٩ء میں شائع ہوئی ۔ اس میں اس نے متعدد غلط فہمیوں کو دور کیا ۔ مثلاً

"It is a very great mistake to suppose that the Mohamedan religion was propagated by the sword alone.” )page:53 (

” یہ بہت بڑی غلطی ہے کہ یہ سمجھا جائے کہ محمڈن مذہب ( اسلام ) صرف تلوار کے زور سے پھیلا ہے ۔”

سرسیّد احمد خان نے بھی ” خطبات احمدیہ” میں گاڈ فرے  ہیگن کی اس کتاب کی تعریف کی ہے ۔

 تھامس کارلائل Thomas Carlyle ( ١٧٩٥ء – ١٨٨١ء ) وہ پہلامغربی فلسفی ہے جس نے نہایت قوت کے ساتھ اپنے لیکچرز میں نبی کریم پر عائد کردہ بعض مغربی الزامات کی تردید کی ، اس نے بَرملا کہا :

"حضرت محمد ( ) کے متعلق ہمارا موجودہ قیاس بالکل بے بنیاد ہے کہ آپ ( ) دغا باز اور کذبِ مجسم تھے اور آپ کا مذہب محض فریب و نادانی کا ایک مجموعہ ہے ، کذب و افترا کا وہ انبارِ عظیم جو ہم نے اپنے مذہب کی حمایت میں اس ہستی کے خلاف کھڑا کیا خود ہمارے لیے شرم ناک ہے ۔”

جب پوکاک نے گروٹی بس سے پوچھا :

"ہمارے اس قصے کے متعلق کیا ثبوت ہے کہ محمد ( ) نے ایک کبوتر سدھا رکھا تھا ، جو ان کے کانوں سے مٹر کے دانے چنا کرتا اور جسے وہ کہتے کہ فرشتہ وحی لایا ہے ؟”

 تو گروٹی بس نے جواب دیا :

"اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے ۔ ”اب دراصل وہ وقت آ پہنچا ہے کہ اس قسم کی مہمل باتیں چھوڑ دی جائیں، اس شخص (   کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ آج بارہ سو برس سے اٹھارہ کروڑ انسانوں کے حق میں شمع ہدایت کا کام دے رہے ہیں ، یہ اٹھارہ کروڑ انسان بھی ہماری طرح خدائے تعالیٰ کے دست قدرت کا نمونہ تھے ۔ بندگانِ خدا کی بیشتر تعداد آج بھی کسی اور شخص کے بہ نسبت محمد  ) کے اقوال پر اعتماد رکھتی ہے ، کیا ہم کسی طرح اسے تسلیم کرسکتے ہیں کہ یہ سب روحانی بازی گری کا ایک ادنیٰ کرشمہ تھا جس پر اتنے بندگانِ خدا ایمان لائے اور گزر گئے ؟ اپنی حد تک تو میں ایسا قیاس نہیں قائم کرسکتا ، اسے ماننے سے پہلے میں بہت سی بعید از قیاس باتوں کوتسلیم کرلوں گا ، اگر اس دنیا میں مکر و فریب اس قدر فروغ پا سکتا ہے تو سمجھ میں نہیں آتا کہ ایسی دنیا کے متعلق کیا رائے قائم کی جائے ۔” (سیّد الانبیاء ( تھامس کارلائل کی کتاب ” ہیروز اینڈ ہیرو ورشپ ” کے دوسرے لیکچر کا اردو ترجمہ از قلم محمد اعظم خاں ) ص : ٢٣-٢٥، مطبوعہ کاروانِ ادب کراچی ١٩٥١ء)”


امریکی مصنف جان ڈیون پارٹ John Davenport(١٧٨٩ء -١٨٧٤ء) نے
 "An Apology for Mohammed and The Koran"
 لکھی۔ یہ کتاب لندن سے ١٨٦٩ء میں شائع ہوئی ۔ یہ کتاب چار ابواب پر مشتمل ہے ۔
1. Mohammed   : A Biography.
2.  The Koran and its Morality.
3.  Charges against Mohammed Refuted.
4.  Beauties of The Koran.
کتاب کی ابتدا ہی میں اس نے عظمتِ محمدی کی ایک بڑی خوبصورت دلیل پیش کی ہے ۔ اس نے لکھا ہے :

"what the Arabs were before Mohammed’s appearance and what they became after it.”

” محمد ( ﷺ)) سے پہلے عرب کیا تھے اور ان کے بعد کیا ہوگئے ۔”

ماضیِ قریب میں اعترافِ عظمتِ محمدی کی ایک انتہائی جاندار کوشش ہمیں امریکی مصنف مائیکل ہارٹ Michael H.Hart ( ولادت ١٩٣٢ء ) کی کتاب
 "The 100, A Ranking of the most Influential Persons in Histrory
میں نظر آتی ہے ۔ جس میں اس نے دنیا کی ١٠٠ اثر آفریں شخصیات میں محمد کو پہلے نمبر پر شمار کیا ہے ۔ یہ کتاب ١٩٧٨ء میں نیویارک سے منظرِ شہود پر آئی ۔ ایک عیسائی ہونے کے باوجود سے اس نے دنیا کی بڑی شخصیات میں نبی کریم کو عیسیٰ علیہ السلام سے بھی بلند مقام دیا ۔ اس کی وجہ بتاتے ہوئے وہ لکھتا ہے :

"My choice of Mohammad to lead the list of the world’s most influential persons may surprise some readers and may be questioned by others, but he was the only man in history who was supremely successful on both the religious and secular levels……..Today, thirteen centuries after his death, his influence is still powerful and pervasive.” ( page:33 (

”دنیا کے انتہائی با ثر افراد کی فہرست کی قیادت کے لیے میرا انتخاب محمد ( ) ہیں ۔ممکن ہے میرا انتخاب بعض قارئین کو ورطۂ حیرت میں ڈال دے اور بعض سوال کرنے پر مجبور کردے ۔ لیکن یہ تاریخ کی واحد شخصیت ہیں جو دونوں سطحوں یعنی مذہبی اور سیکولر اعتبار سے انتہائی کامیاب رہے ۔ ……. آج جبکہ ان کی وفات کو ١٣ صدیاں بیت چکی ہیں ۔ ان کا اثر آج بھی طاقتور اور وسیع ہے ۔ ”

ان مغربی اہلِ علم کی روشن ضمیری اپنی جگہ ان کے بعد گو ساز وہی رہے ، تاہم سروں میں فرق آگیا، چنانچہ یہ روش اختیار کی گئی کہ نبی کریم کی بعض خوبیوں کا اعتراف کیا جائے اور ساتھ اس اعتراف کو غیر مؤثر بنانے کے لیے کچھ ایسی غیر حقیقی توجیہ بھی کردی جائے جو پڑھنے والوں پر فضیلتِ محمدی عَیاں نہ ہونے دے ، مثال کے طور پر آر ،اے ،نکلسن Reynold Alleyne Nicholson (١٨٦٨ء -١٩٤٥ئ) نے پامر Edward Henry Palmer (١٨٤٠ئ-١٨٨٢ئ)کے ترجمہ قرآن پر جو دیباچہ لکھا ہے اس میں جناب رسولِ کریم کے خلوص کو تسلیم کیا ہے ، تاہم یہ کہنے سے بھی بازنہ رہ سکا :

” جب حالات کے جبر کے تحت پیغمبر  ) ایک حکمراں اور قانون ساز میں ڈھل گئے ، تو بھی یہ ایک نفسیاتی ضرورت تھی کہ وہ خود کو الہامی پیغامات کا منتخب ذریعہ سمجھتے رہیں ۔ ”   (بحوالہ اسلام ، پیغمبر اسلام اور مستشرقینِ مغرب کا اندازِ فکر : ١٦٤)

جاری ہے 

گستاخانہ فلم ۔ عالم اسلام کے خلاف نئی سازش کا نکتۂ آغاز


جریدہ "الواقۃ” کراچی، شمارہ  (5 / 6 )  شوال، ذیقعد  1433ھ/   ستمبر، اکتوبر 2012

گستاخانہ فلم ۔ عالم اسلام کے خلاف نئی سازش کا نکتۂ آغاز

ابو محمّد معتصم باللّٰہ

واہیات فلم Innocence of Muslims مسلمانوں کے خلاف عالمی سازش کا تسلسل اور ایک نئے سازشی موڑ کا نکتۂ آغاز ہے ۔ اس سازش کے ظاہری کرداروں میں سب سے نمایاں نام ٹیری جونز کا ہے ۔یہ وہی خبطی ہے جس نے گزشتہ برس قرآن پاک کے مقدس اوراق کو جلانے کی مہم شروع کی تھی تاہم عالمی دباؤ کے باعث اسے پیچھے ہٹنا پڑا ۔ لیکن اس دوران اس کاتخریبی ذہن مسلسل مسلمانوں کے خلاف متحرک رہا ۔ جس کا نتیجہ گستاخانہ فلم کی صورت میں نکلا ہے ۔

خبر ہے فلم کے لیے ١٠٠امریکی یہودیوں سے پانچ ملین ڈالر بٹورے گئے۔  یہودی جو چند ٹکے دینے میں بھی لیت و لعل سے کام لیں انہوں نے یہ رقم بخوشی پیش کردی ۔ جائے تعجب ہے ۔ گستاخانہ فلم کا پروڈیوسر بھی اسرائیلی نکلاجو فلم کی تیاری کے بعد روپو ش ہوگیا ۔

٥٢ سالہ سام باسل نامی اس پروڈیوسر کا تعلق امریکی ریاست کیلیفورنیا سے ہے اور وہ وہیں روپوش ہے۔ سام باسل ایک اسرائیلی نژاد یہودی ہے۔

گستاخانہ فلم گزشتہ برس کے آخر میں مکمل کر لی گئی تھی اور اسے امریکا میں ہالی وڈ کے ایک تھیٹرمیں چند لوگوں کو دکھایا بھی گیا تھا۔ تاہم اسے منظر عام پر نہیںآنے دیا گیا۔ اس کی تیاری پر پانچ ملین ڈالرز کی لاگت آئی ہے اور یہ ساری رقم امریکا کے ١٠٠یہودیوں سے جمع کی گئی۔

 بعد ازاں فلم کی ١٣ منٹ کی فوٹیج ویڈیو سائٹ ”یو ٹیوب”پر نشر کی گئی ۔ یو ٹیوب کی انتظامیہ نے اس پر ردعمل آنے کے بعد انٹرنیٹ سے ہٹانے کا بھی اعلان کیا ہے۔تاہم عالمی سطح پر پُرزوراحتجاج کے باوجودابھی تک نہیں ہٹا یا ہے ۔

گستاخ رسول امریکی پادری ٹیری جونزبھی اس فلم کا ایک اہم کردار ہے۔ جس عرصے میں یہ فلم اپنی تیاری کے مراحل میں تھی۔ اس دوران یہ بد بخت ، قرآن کریم کے نسخے نذرآتش کرنے کی دھمکیاں دیتا رہا ہے۔ پچھلے سال نائن الیون کی دسویں برسی کے موقع پراس نے قرآن کریم کے نسخے جلانے کا اعلان کیا تھا اور اس سال اسی کے تعاون سے اسلام اور پیغمبر اسلام کی شان میں ایک نئی گستاخی کی گئی ہے۔

فلم کو انگریزی سے عربی میں ڈب بھی کیا گیا ہے ۔ جس کے لیے مصری افراد کی خدمات لی گئی ہیں ۔جن مصری افراد نے اس گھناؤنی حرکت میں حصہ لیا ان کے خلاف مصری حکومت نے سخت تادیبی کارروائی کا حکم دیا ۔تحقیقات کے بعد  ٹیری جونز اور نو مصری نژاد قبطیوں کو مورد الزام ٹھہرایا گیا ہے اوران کی گرفتاری کے لیے وارنٹ تیارکرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
امریکی نیٹ ورک سی این این نے بیہودہ فلم میں کام کرنے والے عملے کا بیان نشر کیا ہے جن کا کہنا ہے کہ وہ سب نہیں جانتے تھے کہ فلم پروڈیوسر سیم باسل کا کیا ارادہ ہے، وہ سب اس کے ہاتھوں استعمال ہوئے اور وہ کسی کو تکلیف دینا نہیں چاہتے تھے ۔ ان کو صحرائی جنگجو Desert Warrior نامی ایک فلم کے لیے اشتہار دے کر بھرتی کیا گیا اور بتایا گیا کہ یہ ایک تاریخی فلم ہو گی ۔

سی این ان نے ایک ایکٹریس کا انٹرویو نشر کیا ہے جس نے دنیا بھر کے مسلمانوں سے معذرت کی ہے اس کا کہنا ہے کہ وہ ساری صوتحال پر بہت خوفزدہ ہے ، اور فلم بنانے والے پر شدید غصے میں ہے ۔ اس کو بتایا گیا تھا کہ یہ ایک ایڈونچر فلم ہے اور اس کا کردار بہت مختصر تھا۔فلم کے کئی ڈائیلاگ بعد میں بدلے گئے جو ایک دھوکا ہے ۔ ایکٹریس نے بتایا کہ فلم بناتے وقت مکالموں میں حضرت محمدکا نام شامل نہیں تھا بلکہ اس کی جگہ جارج یا سر جارج کا نام تھا جسے بعد میں تبدیل کیا گیا ۔

امریکا اور اسرائیل دونوں ہی نے اس فلم سے اپنی برأت کا اظہار کیا ہے اور بظاہر مسلمانوں کے ساتھ اظہارِ ہمدردی بھی کی ہے ۔ لیکن مقام غور ہے کہ اب تک انہوں نے اس گھناؤنی ساش کے کرداروں پرکوئی گرفت نہیں کی ۔  نہ اس فلم پر کسی قسم کی پابندی ہی عائد کی ہے ۔

فلم کے ردّ عمل میں جو تشدد کا رجحان نظرآتا ہے اہلِ نظر بخوبی سمجھتے ہیں کہ یہ بھی کسی بیرونی و عالمی سازش ہی کا حصہ ہے ۔ شاید یہ ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے ۔ کیونکہ توہین آمیز فلم کے خلاف عالم اسلام میں احتجاج کی حدت ابھی کم بھی نہ ہونے پائی تھی کہ فرانس کے ایک  ہفت روزہ جریدے نے نبی اکرم کے گستاخانہ خاکے شائع کرنے کا اعلان کیا ہے۔

فرانس کے دارالحکومت پیرس سے فرانسیسی زبان میں چھپنے والے میگزین ”چارلی ایبڈو”کے ایڈیٹر انچیف چارب نے میڈیا کو بتایا کہ انہوں نے بدھ کے روز کے پرچے میں ایک صفحہ خاکوں کے لیے مختص کیا ہے۔ ان خاکوں میں مسلمانوں کے پیغمبر کی زندگی پر کارٹون شامل ہیں۔فرانسیسی ٹی وی”آئے ٹیلی”سے بات کرتے ہوئے جریدے کے ایڈیٹر نے کہا کہ جو لوگ ہمارے میگزین سے نفرت کرتے ہیں، اسے پڑھنے کی زحمت نہیں کرتے اور ہمارے ساتھ لڑائی پر اتر آتے ہیں، یہ خاکے ان کے لیے تیار کیے گئے ہیں۔ ہم لڑائی کرنے والوں کے ساتھ اسی طرح لڑ سکتے ہیں۔

خیال رہے کہ گستاخانہ خاکے شائع کرنے کے مذموم عزم کا اظہار کرنے والا جریدہ اسی طرح کی جسارت پچھلے سال بھی کر چکا ہے۔ گستاخانہ خاکوں کی اشاعت پر گزشتہ برس پیرس میں اس کے دفتر پر نامعلوم افراد نے پٹرول بموں سے حملہ کیا تھا جس کے نتیجے میں دفتر کا ایک حصہ نذر آتش ہو گیا تھا۔ میگزین نے اس سال پھر وہی جسارت کی ہے اور آزادی صحافت کی آڑ میں مسلمانوں کے جذبات کو مشتعل کیا ہے۔

ادھر پیرس میں وزیر اعظم سیکرٹریٹ کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ وزیر اعظم آزادی اظہار رائے پر یقین رکھتے ہیں لیکن وہ حدود سے تجاوز کو پسند نہیں کرتے۔ انہوں نے تمام اشاعتی اور نشریاتی اداروں اور عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ احساس ذمہ داری کا مظاہرہ کریں اورکسی نئی اشتعال انگیزکارروائی سے گریز کریں۔ وزیر اعظم آئرویلٹ کا کہنا ہے کہ فرانس ایک سیکولر ملک ہے جہاں تمام مذاہب کو یکساں احترام حاصل ہے۔ میثاق جمہوریت کا اصل اصول یہ ہے کہ تمام ادیان کا احترام بجا لایا جائے۔ادھر فرانسیسی وزیر خارجہ لوران فائیبوسنے اپنے قاہرہ کے دورے کے دوران کہاکہ وہ کسی اخبار یا جریدے کو کارٹون شائع کر کے نئی اشتعال انگیزی کی اجازت نہیں دیں گے۔ لیکن ساتھ ہی انہوں نے آزادی اظہار رائے کا راگ الاپتے ہوئے اپنی ہی کہی بات کی نفی کر دی کہ ان کے ملک میں کچھ بھی شائع کیا جا سکتا ہے کیونکہ ہر ایک کو اپنی رائے کے اظہار کی مکمل آزادی حاصل ہے۔

دوسری طرف خیال رہے کہ امریکا بہادر نے دنیا ، بالخصوص اسلامی دنیا کو خبردار کیا ہے کہ وہ اسلامی ممالک میں اپنے سفارت خانوں کی حفاظت کو ہر ممکن صورت یقینی بنائے گا ۔ اس کے لیے وہ اپنی فوجیں بھی مامور کرسکتا ہے ۔ چنانچہ سوڈان کے لیے امریکی فوجوں کی تعیناتی کا اعلان ہوچکا ہے ۔ اس اعلان کے ساتھ مسلم دنیا کے روشن ضمیر افراد پر اس سازش کے تمام اسرار منکشف ہوجاتے ہیں کہ اس سازش کے اصل کردا ر کون ہیں ؟ اور یہ کہ ان کے مقاصدکیا ہیں ؟

نبی کریم کی شانِ اقدس میں گزشتہ کئی برسوں سے ہونیوالی رذیلانہ حرکتوں کے خلاف مسلم امہ سراپا احتجاج ہے ۔ لیکن انہیں احتجاج پر مجبور کرنے والے بغیر کسی مقصد کے ایسا نہیں کرسکتے ۔ نیز یہ سلسلہ رکتا ہوا نظر نہیں آتا ۔ اسی طرح ان ذمہ دار ممالک کے ارباب اقتدار بھی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کر رہے ۔ اس لیے یہ کہنا بجا ہوگا کہ گستاخانہ فلم محض ایک سازش نہیں بلکہ مسلمانوں کے خلاف بپا عالمی سازش کا ایک اہم ترین موڑ ہے ۔

سلسلۂ نفرت و دشنام —-آخرکب تک ؟


سلسلۂ نفرت و دشنام —-آخرکب تک ؟
محمد تنزیل الصدیقی الحسینی

 

(اداریہ )

 

جریدہ "الواقۃ” کراچی، شمارہ  (5 / 6 )  شوال، ذیقعد  1433ھ/  اگست ، ستمبر 2012
تحریکِ استشراق کے آغاز کا اصل مقصد اسلام اور پیغمبر اسلامؐ کی تنقید و تنقیص تھا ۔ اس فکری تحریک کا بھرپور آغاز چند صدیوں قبل ہوا ۔ عصرِ جدید میں بھی اس بدعقیدہ اور فکری لحاظ سے انتہائی گمراہ تحریک کا سلسلۂ طعن و تشنیع جاری ہے ۔
فرق صرف یہ ہے کہ کل اس کا ذریعۂ اظہار قلم اور قرطاس تھا اور آج اس کی جگہ کیمرے اور اسکرین نے لے لی ہے ۔ کل مجمع میں کہی ہوئی بات بھی مغرب سے نکل کر مشرق تک پہنچتے پہنچتے صدا بصحرا ہوکر رہ جاتی تھی جبکہ آج بند کمروں میں کہی ہوئی بات بھی لمحوں میں دنیا بھر کو اپنے دائرئہ اثر میں لے لیتی ہے ۔ لیکن ایک قدر آج بھی مشترک ہے ۔ وہ ہے نفرت ، تعصب اور عناد ۔ نفرت کے شعلے ان کے سینوں کو دہکاتے ہیں اور تعصب کی چنگاری انہیں اپنے بغض و عناد کے اظہار پر مسلسل اکساتی ہے ۔ ان کا مذہب مسیح علیہ السلام کی تعلیمات پر مبنی ” محبت ” نہیں رہا بلکہ اسلام دشمنی کے جذبۂ فاسدہ نے ” نفرت ” کو ان کا مذہب بنا دیا ہے ۔ 

 

اکیسویں صدی کے آغاز کے ساتھ ہی تسلسل کے ساتھ پیغمبر اسلامؐ کی توہین و تنقیص کا سلسلہ شروع ہوا جو ہنوز جاری ہے ۔ دوسری طرف مسلمانوں کا ردّ عمل بھی ظاہر ہوتا ہے ۔ مگر کس طرح ؟ چند روزہ احتجاج اور اس کے بعد دوبارہ وہی زندگی جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو ۔ وہی معمولات روز و شب ، وہی مجالسِ عیش و طرب ، جو زندگی کا حصہ ہیں ۔ گزشتہ ١٢ برسوں کا تجربہ یہی ہے ۔ 

 

درحقیقت یہ بش جونیئر کی آغاز کردہ صلیبی جنگ کا ایک حصہ ہے ۔ یہ ایک مسلسل اور تھکا دینے والی ذہنی و نفسیاتی جنگ ہے ۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم اس کا شعور و ادراک بھی نہیں رکھتے ۔ ہمارا عمل محض ایک ردّ عمل کا نتیجہ ہے ۔ اپنے املاک کو نقصان پہنچا کر ہم اپنی ہی معیشت کی بربادی کا باعث بن رہے ہیں ۔ ہماری حالت اس دیوانے کی سی ہے جسے کوئی گالی دے اور وہ غصے میں آکر اپنا ہی سر دیوار پر دے مارے ۔ 

 

اس انتہائی اہم و حساس معاملے کے دو پہلو ہیں ایک ایمانی اور دوسرا سیاسی و سماجی ۔ جہاں تک ہمارے جذبۂ ایمان کا تعلق ہے تو ہمارے اعمال کی سطحیت نے اسے سخت مجروح کرکے رکھ دیا ہے ۔ ہم دینی تقاضے بھی غیر دینی طریقوں سے نبھاتے ہیں ۔ہم جانتے ہیں کہ ”کوکاکولا” کا ” لوگو” اسلام دشمنی پر مبنی ہے اور” پیپسی ” کی کمائی اسلام دشمنی پر صرف ہوتی ہے لیکن کیا ہمارے بازاروں میں یہ بکنا بند ہوگئے ؟ کیا ہم نے اسے پینا ترک کردیا ؟ جب ہم لذت کام و دہن کی انتہائی ادنیٰ سی قربانی نہیں دے سکتے تو کیا توقع کی جاسکتی ہے کہ ہم اپنا سر دے کر بازی جیتنے کا حوصلہ رکھتے ہیں ۔ 

 

اے وہ کہ جس کی نگاہوں پر حجابِ غفلت ہے اور جس کی عقل پر تیرگی کی نحوست ! اگر ہو سکے تو اپنے جذبات کو مقدس احساس میں منتقل کرلو اور وہ عزم پیدا کرو جو تمہاری ہر ساعتِ مدہوشی کا مداوا ہو اور ہر وقتِ زیاں کا ازالہ۔

 

جہاں تک اس معاملے کی سیاسی و سماجی سطح کا تعلق ہے تو اس کی اصل ذمہ داری مسلم ممالک کے اصحاب اقتدار گروہ پر عائد ہوتی ہے ۔جن کے لیے صرف یہی کہا جا سکتا ہے 

 

الٰہی نہ وہ سمجھے ہیں ، نہ سمجھیں گے میری بات

 

دے اور دل ان کو جو نہ دے مجھ کو زباں اور

 

جذبات سچے ہوں تو پتھروں کو بھی گویائی مل جاتی ہے ۔ پہاڑ بھی صدقِ عزائم کے سامنے چھوٹے ہوجاتے ہیں ۔ سمندر کی گہرائیا ں بھی بلند حوصلگی کے سامنے ہار جاتی ہیں ۔ لیکن ایمان بازاروں میں نہیں بکتا کہ خرید کر دل کو ایک تحفۂ نایاب دیا جائے ۔ یہ تو محض ایک احساسِ لطیف ہے جو قلبِ انسانی کے کسی گوشے میں زندگی کی حرارت بن کر دھڑکتا ہے ۔ جب یہ دھڑکن ہی رُک چکی ہو تو تقاضا کیسا ؟

 

ہم سیاسی سطح پر استیلائے مغرب کے سامنے محض گزارشات کر سکتے ہیں مگر انہیں مجبور نہیں کرسکتے کہ وہ اپنی سرکشی سے باز آجائیں ۔

 

یہ ایک سازش ہے جو گزشتہ سازشوں کا تسلسل بھی ہے اور شاید انسانی تاریخ کے کسی نئے موڑ کا نکتۂ آغاز بھی ۔

 

اب  مسلمانوں کی قوت برداشت کا امتحان ہے ۔کیونکہ یہ محض ایک سازش ہی نہیں بلکہ ایسی سازش ہے جو شاید تاریخ کو تبددیل کردے اور دنیا کے نقشے کو بدل کر رکھ دے ۔ بایں وجہ کہ مسلمان کتنا ہی بداطوار کیوں نہ ہوجائے اپنے سینے میں زندگی بن کر دھڑکنے والی محمد ؐ کی محبت سے دستبردار نہیں ہو سکتا ۔ اس لیے کہ اسلام اور کفر کا اصل وجۂ نزاع نسبتِ محمدیؐ ہے ۔ مغرب کی مادّی فکر اس راز کو کبھی نہیں پا سکتی کہ مسلمان اپنے نبیؐ سے اتنی محبت کیوں کرتے ہیں ۔ کیونکہ ایمان صحرائے یقین و محبت کا وہ گوشۂ لذت و آگہی ہے جہاں افکار کی رَسائی نہیں ہوسکتی ۔

 

تنزیل ، وہ کیا سمجھیں گے کیا ہے ایمان

محمد ؐ  کی غلامی پر ہر آزادی ہے قربان