الواقعۃ شمارہ 47 ربیع الثانی 1437ھ
از قلم : ایس ، اے ، ساگر
صبح سے شام تک انسان اپنی بول چال میں جانے کتنی مرتبہ کوئی وعدہ یا ارادہ کرتا ہے۔کیا ہی اچھا ہو کہ اس موقع پر یہ یقین کر لیا جائے کہ یہ اللہ کی مرضی کے بغیر بھلا کیسے ہو سکتا ہے، اسی نیت کے ساتھ مختصر سا جملہ ” ان شاء اللہ ” کہنے میں کچھ خرچ نہیں ہوتا ۔لیکن اس کا کیا کیجئے کہ بعض بدنیت قسم کے لوگوں نے اس کلمہ استثنا کو اپنی بد نیتی پر پردہ ڈالنے کے لیے ڈھال بنا رکھا ہے مثلاً ایک شخص اپنے سابقہ قرضہ کی ادائیگی یا نئے قرض کے لیے قرض خواہ سے ایک ماہ کا وعدہ کرتا ہے اور ساتھ ان شاء اللہ بھی کہہ دیتا ہے مگر اس کے دل میں یہ بات ہوتی ہے کہ اپنا کام تو چلائیں پھر جو ہوگا دیکھا جائے گا اور جب مدت مقررہ کے بعد قرض خواہ اپنے قرض کا مطالبہ کرتا ہے تو کہہ دیتا کہ اللہ کو منظور ہی نہ ہوا کہ میرے پاس اتنی رقم آئے کہ میں آپ کو ادا کرسکوں وغیرہ وغیرہ عذر پیش کر دیتا ہے۔ ایسے بد نیت لوگوں نے اس کلمہ استثناء کواس قدر بدنام کر دیا ہے کہ جب کوئی اپنے وعدہ کیساتھ ان شاء اللہ کہتا ہے تو سننے والا فوراً کہتا ہے کہ اس کی نیت بخیر نہیں ہے جبکہ یہ اللہ کی آیات سے بد ترین قسم کا مذاق ہے جس کا کوئی صاحب ایمان شخص تصور بھی نہیں کر سکتا۔ → کو پڑھنا جاری رکھیں
اسے پسند کریں:
پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔