See the following:
- Please like, share and subscribe to get new videos on time. Follow Dar ul Ahsan Media on social media:
See the following:
الواقعۃ شمارہ 44 – 45 محرم و صفر 1437ھ
اشاعت خاص : سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ
از قلم : مولانا عبد الرحیم اظہر ڈیروی
نام و نسب
آپ کا نام عمر ، کنیت ابو حفص اور لقب فاروق تھا۔ الامام الحافظ المحدث ابو عمر یوسف بن عبد اللہ بن محمد بن عبد البر بن عاصم النمری القرطبی المالکی نے آپ کا نسب اس طرح بیان کیا ہے :
عمر بن الخطاب بن نفیل بن عبد العُزیٰ بن رباح بن عبد اللہ بن قُرط بن رزاح بن عدی بن کعب القرشی العدوی ابو حفص ، اُمّہ حَنتَمۃ بنت ھاشم بن المغیرہ بن عبد اللہ بن عمر بن مخزوم۔[1]
الواقعۃ شمارہ 44 – 45 محرم و صفر 1437ھ
اشاعت خاص : سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ
از قلم : مولانا حافظ جلال الدین احمد جعفری
حضرت عمر بن الخطاب کے حالات
ایام جاہلیت میں بھی آپ کا خاندان نہایت ممتاز تھا۔ آپ ہجرت سے 40 سال قبل پیدا ہوئے۔ اسلام سے قبل آپ نے سپہ گری ، پہلوانی، شہسواری سیکھ لی تھی۔ نسب دانی میں بھی آپ کو مہارت تھی۔ لکھنا پڑھنا بھی سیکھ لیا تھا۔ منصب سفارت پر مامور تھے۔ قبائل عرب میں جب کوئی رنج پیدا ہو جاتا تو آپ سفیر بن کر جاتے۔آپ کا نام عمر اور ابو حفص کنیت اور فاروق لقب تھا۔ آپ کے والد کا نام خطاب تھا۔
١٥جولائی ١٠٩٩ء کے روز بیت المقدس پر عیسائیوں کا قبضہ ہوگیا ۔
"حکایت” ڈائجسٹ لاہور کا شمار ملک کے مؤقر رسائل و جرائد میں ہوتا ہے۔ ذیل کا قیمتی مضمون "حکایت” (لاہور) ستمبر ١٩٨٢ء میں طباعت پذیر ہوا ۔
اس کے مضمون نگار "حکایت” کے بانی و مدیر جناب عنایت اللہ ( ١٩٢٠ء – ١٩٩٩ء ) ہیں ۔ ان کا تعلق پاکستان آرمی سے تھا۔ ریٹائر ہونے کے بعد انہوں نے خود کو ہمہ وقت علم و ادب سے منسلک کرلیا ۔
انہوں نے اپنے قلم کی طاقت سے ایک با شعور ادب تخلیق کیا ۔ ان کے متعدد ناول طباعت پذیر ہوئے اور قارئین نے انہیں بے حد سراہا ۔ ان کے یادگار ناولوں میں "داستان ایمان فروشوں کی”، "اور ایک بت شکن پیدا ہوا”، "شمشیر بے نیام”، "دمشق کے قید خانے میں”، "اور نیل بہتارہا”، "حجاز کی آندھی”، "فردوس ابلیس”، "طاہرہ” وغیرہا شامل ہیں۔ ذیل کا مضمون بھی ان کی اعلیٰ ادبی صلاحیتوں کا مظہر ہے ۔ گو اس عرصے میں گردش لیل و نہار کی کتنی ہی ساعتیں گزر گئیں ۔ مگر اس مضمون کی افادیت آج بھی برقرار ہے ۔ اسی وجہ سے "حکایت” کے شکریے کے ساتھ یہ مضمون قارئینِ "الواقعة” کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے ۔
تاہم قارئین دوران مطالعہ پیش نظر رکھیں کہ یہ مضمون ١٩٨٢ء کا تحریر کردہ ہے۔ (ادارہ الواقعۃ)
بیت المقدس کی تعمیر، یثرب کی خرابی PDF Download
"ہمیں اس وقت کفار سے جہاد کرنا ہے ۔ تقلید کا فتنہ اٹھا کر اپنے اندر تفرقہ ڈالنا بہتر نہیں ۔ اس کی وجہ سے ہمارا اصل کام ہجرت اور جہاد جو فرضِ عین ہے ، متاثرہوںگے ۔”
"میں الوؤں میں نہیں پڑتا ، میرا مقصد مسلمانوں کی آزادی اور باطل سے جہاد ہے ۔”
"مسجدِ اقصیٰ کا معاملہ امت مسلمہ کے لیے بھی اسی طرح ایک اخلاقی آزمایش کی حیثیت رکھتا ہے جس طرح کہ وہ بنی اسرائیل کے لیے تھا ، اور افسوس ہے کہ اس آزمائش میں ہمارا رویہ بھی حذو النعل بالنعل (Same to Same) اپنے پیش رووں کے طرزِعمل ہی کے مماثل ہے ۔ ارضِ فلسطین پر حق کا مسئلہ موجودہ تناظر میں اصلاً ایک سیاسی مسئلہ تھا ، اس لیے اس کی وضع موجود میں یہود کے پیدا کردہ تغیر حالات پر اگر عرب اقوام اور امت مسلمہ میں مخالفانہ ردّ عمل پیدا ہوا تو وہ ایک قابلِ فہم اور فطری بات تھی ، لیکن ہیکل کی بازیابی اور تعمیر نو کے ایک مقدس مذہبی جذبے کو ” مسجدِ اقصیٰ کی حرمت کی پامالی ” کا عنوان دے کر ایک طعنہ اور الزام بنا دینا ، مسجدِ اقصیٰ پر یہود کے تاریخی و مذہبی حق کی مطلقاً نفی کردینا اور ، اس سے بڑھ کر ، ان کو اس میں عبادت تک کی اجازت نہ دینا ہر گز کوئی ایسا طرزِ عمل نہیں ہے جو کسی طرح بھی قرینِ انصاف اور اس امت کے شایانِ شان ہو جس کو ” قوامین للّٰہ شھداء بالقسط ” کے منصب پر فائز کیا گیا ہے ۔” [براہین : ٤٠١]
"اللہ تعالیٰ نے مسجدِ اقصیٰ کی تباہی و بربادی اور اس سے یہود کی بے دخلی کے دو معروف واقعات کا تذکرہ کرتے ہوئے بنی اسرائیل کو یاد دلایا ہے کہ یہ ان کی سرکشی اور فساد کے نتیجے میں رونما ہوئے تھے ۔ مسجد اقصیٰ کے بارے میں یہ بات معلوم ہے کہ ان آیات کے نزول کے وقت وہ یہود کے زیرِ تصرف نہیں تھی ، بلکہ تباہ شدہ کھنڈر (Ruins) کی صورت میں ویران پڑی تھی ۔ یہ بات بھی ، ظاہر ہے ، اللہ تعالیٰ کے علم میں تھی کہ مستقبل قریب میں اس عبادت گاہ کو آباد کرنے کا شرف عملاً مسلمانوں کو حاصل ہونے والا ہے ۔ اگر یہود کے حق تولیت کی شرعی بنیادوں پر قطعی تنسیخ مقصود ہوتی تو یہاں یہود سے صاف صاف کہہ دینا چاہیے تھا کہ فساد اور سرکشی کے نتیجے میں اس مسجد سے بے دخلی کے بعد اب تمہارے اس پر دوبارہ متصرف ہونے کا کوئی امکان نہیں اور اس عبادت گاہ کی آبادی اور تولیت کا حق اب تمہارے بجائے ہمیشہ کے لیے ، مسلمانوں کے سپرد کردیا جائے گا ، لیکن اس کے برعکس قرآن مجید صاف لفظوں میں یہ فرماتا ہے کہ اللہ کی رحمت سے پہلے کی طرح اب بھی اس مسجد کے دوبارہ بنی اسرائیل کے تصرف میں آنے کا امکان موجود ہے :
(عَسٰي رَبُّكُمْ اَنْ يَّرْحَمَكُمْ ۚ وَاِنْ عُدْتُّمْ عُدْنَا ) [بنی اسرائیل ١٧:٨]
"توقع ہے کہ تمہارا رب تم پر پھر رحمت کرے گا اور اگر تم نے دوبارہ یہی روش اختیار کی ہم بھی تمہارے ساتھ یہی سلوک کریں گے ۔” [براہین : ٢٦٠]
وَقَضَيْنَآ اِلٰى بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ فِي الْكِتٰبِ لَتُفْسِدُنَّ فِي الْاَرْضِ مَرَّتَيْنِ وَلَتَعْلُنَّ عُلُوًّا كَبِيْرًا (4) فَاِذَا جَاۗءَ وَعْدُ اُوْلٰىهُمَا بَعَثْنَا عَلَيْكُمْ عِبَادًا لَّنَآ اُولِيْ بَاْسٍ شَدِيْدٍ فَجَاسُوْا خِلٰلَ الدِّيَارِ ۭ وَكَانَ وَعْدًا مَّفْعُوْلًا (5) ثُمَّ رَدَدْنَا لَكُمُ الْكَرَّةَ عَلَيْهِمْ وَاَمْدَدْنٰكُمْ بِاَمْوَالٍ وَّبَنِيْنَ وَجَعَلْنٰكُمْ اَكْثَرَ نَفِيْرًا (6) اِنْ اَحْسَنْتُمْ اَحْسَنْتُمْ لِاَنْفُسِكُمْ ۣوَاِنْ اَسَاْتُمْ فَلَهَا ۭ فَاِذَا جَاۗءَ وَعْدُ الْاٰخِرَةِ لِيَسُوْۗءٗا وُجُوْهَكُمْ وَلِيَدْخُلُوا الْمَسْجِدَ كَمَا دَخَلُوْهُ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَّلِــيُتَبِّرُوْا مَا عَلَوْا تَتْبِيْرًا (7) عَسٰي رَبُّكُمْ اَنْ يَّرْحَمَكُمْ ۚ وَاِنْ عُدْتُّمْ عُدْنَا ۘ وَجَعَلْنَا جَهَنَّمَ لِلْكٰفِرِيْنَ حَصِيْرًا (8) اِنَّ هٰذَا الْقُرْاٰنَ يَهْدِيْ لِلَّتِيْ ھِيَ اَقْوَمُ وَيُبَشِّرُ الْمُؤْمِنِيْنَ الَّذِيْنَ يَعْمَلُوْنَ الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَهُمْ اَجْرًا كَبِيْرًا (9) وَّاَنَّ الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ اَعْتَدْنَا لَهُمْ عَذَابًا اَلِـــيْمًا(10) [بنی اسرائیل :٤-١٠]
”اور ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب میں یہ بات بتلادی تھی کہ تم سر زمین میں دوبارہ خرابی کروگے اور بڑا زور چلانے لگو گے پھر جب ان دو بار میں سے پہلی بار کی میعاد آوے گی ہم تم پر اپنے ایسے بندوں کو مسلط کریں گے جو بڑے جنگجو ہوں گے پھر وہ گھروں میں گھس پڑیں گے اور یہ ایک وعدہ ہے جو ضرور ہو کر رہے گا ۔ پھر ہم ان پر تمہارا غلبہ کر دیں گے اور مال اور بیٹوں سے ہم تمہاری امداد کریں گے اور ہم تمہاری جماعت بڑھا دیں گے ۔ اگر اچھے کام کرتے رہو گے تو اپنے نفع کے لیے اچھے کام کرو گے اور اگر تم برے کام کرو گے تو بھی اپنے ہی لیے پھر جب پچھلی بار کی میعاد آوے گی ہم پھر دوسروں کو مسلط کریں گے تاکہ تمہارے منہ بگاڑ دیں اور جس طرح وہ لوگ مسجد میں گھسے تھے یہ لوگ بھی اس میں گھس پڑیں اور جس جس پر ان کا زور چلے سب کو برباد کر ڈالیں ۔ عجب نہیں کہ تمہارا رب تم پر رحم فرماوے اور اگر تم پھر وہی کرو گے تو ہم بھی پھر وہی کریں گے اور ہم نے جہنم کو کافروں کا جیلخانہ بنا رکھا ہے ۔ بلاشبہ یہ قرآن ایسے طریقہ کی ہدایت کرتا ہے جو بالکل سیدھا ہے اور ان ایمان والوں کو جو کہ نیک کام کرتے ہیں یہ خوشخبری دیتا ہے کہ ان کو بڑا بھاری ثواب ملے گا اور یہ بھی بتلاتا ہے کہ جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ہم نے ان کے لیے ایک درد ناک سزا تیار کر رکھی ہے ۔” ( ترجمہ از مولانا اشرف علی تھانوی )
"یعنی اگر تم محمد ۖ پر ایمان لے آئو گے اور قرآن کا اتباع کرتے ہوئے اپنے اعمال درست کر لو گے تو امید ہے کہ اللہ تم پر رحم فرمائے گا ۔ ” [تفسیر مظہری: ٧/٢٦، مترجمہ عبد الدائم جلالی مطبوعہ دارالاشاعت کراچی ١٩٩٩ء ]
"عسیٰ ربکم کا اشارہ یا تو آنحضرت ۖ کے عہد کے یہود کی طرف ہے کہ اب بھی وقت ہے اگر تم نے نبی آخر الزماں علیہ السلام کی اطاعت کرلی تو خدا پھر تم پر رحم کرے گا تمہارا برگشتہ زمانہ جا کر بھلے دن آجائیں گے اور اگر پھر بھی وہی شرارت کرو گے تو دنیا میں ہم تم پر کوئی تازہ آفت لائیں گے اور آخرت میں تو جہنم منکروں کا جیل خانہ تیار ہے ، یہود نے آنحضرت ۖ سے شرارت کی اور بھی رہی سہی عزت جاتی رہی ۔ دنیا بھر میں ایک انچ زمین کے بھی حاکم نہیں جہاں کہیں ہیں محکوم و ذلیل ہیں یا یہ اسی وقت کے یہود کی طرف اشارہ تھا جس کو حکایت کیا جاتا ہے چنانچہ یہود بختِ نصر کے حادثہ کے بعد کچھ نیکی کی طرف آئے شان و شوکت بھی عود کرنے لگی ، مگر حضرت مسیح علیہ السلام کے عہد میں پھر شرارت کی جس کے وبال میں طیطس شاہِ روم کے ہاتھ سے ان کا ستیاناس ہوگیا ۔ ” [تفسیر حقانی : ٣/١١٥، مطبوعہ میر محمد کتب خانہ کراچی ]
"یہ ان یہود سے خطاب ہے جو ان آیات کے نزول کے وقت موجود اور قرآن کی مخالفت میں کفارِ قریش کی ہمنوائی و پشت پناہی کر رہے تھے ۔ ان سے خطاب کرکے فرمایا جا رہا ہے کہ ماضی میں جو کچھ ہوچکا ہے وہ تمہیں سنایا جا چکا ۔ اب اگر خیریت چاہتے ہو تو اس نبی امی ( ۖ ) کی دعوت نے تمہارے لیے نجات کی جو راہ کھولی ہے ، اس کو اختیار کرو ، اور اپنے مستقبل کو سنوار لو ۔ اگر تم نے توبہ اور اصلاح کی راہ اختیار کرلی تو خدا بھی تم پر رحم فرمائے گا اور اگر تم نے پھر اسی طرح کی حرکتیں کیں جیسی کہ پہلے کرتے آئے ہو تو ہم بھی تمہاری اسی طرح خبر لیں گے جس طرح پہلے لے چکے ہیں اور یہ بھی یاد رکھو کہ اس دنیا میں جو ذلت و رسوائی ہوئی ہے وہ تو ہوگی ہی ۔ آگے تمہارے جیسے کافروں کے لیے جہنم کا باڑا ہے جس میں سارے کے سارے بھر دیے جائیں گے.” [تدبر قرآن : ٤/٤٨٣ مطبوعہ فاران فائونڈیشن لاہور ٢٠٠٠ئ]
"ضحاک نے کہا ہے کہ یہ رحمت جس کا اللہ پاک نے بنی اسرائیل سے وعدہ کیا تھا جناب سرورِ کائنات فخر موجودات ۖ ہیں اور یہ بھی اللہ پاک نے انہیں جتلادیا تھا کہ اگر پھر تیسری دفعہ وہی کام کرو گے اور وہی فساد اٹھائو گے تو یاد رکھو ہم وہی عذاب تم پر نازل کریں گے۔ ہمارے ہاتھ سے تمہیں رہائی نہیں مل سکتی .” [احسن التفاسیر : ٤/٢١-٢٢]
” ہیکل کی تباہی اور فلسطین سے یہودیوں کی بے دخلی کی پیش گوئی دوسری مرتبہ ٧٠ ء میں پوری ہوئی ۔ اس مرتبہ اس کا سبب بنی اسرائیل کا وہ رویہ تھا جو انہوں نے من حیث القوم سیّدنا مسیح علیہ السلام کی تکذیب کے حوالے سے اختیار کیا تھا ۔ ” [براہین : ٢٤٢]
وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ ۤ وَبَاۗءُوْ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰهِ ۭ ذٰلِكَ بِاَنَّھُمْ كَانُوْا يَكْفُرُوْنَ بِاٰيٰتِ اللّٰهِ وَيَقْتُلُوْنَ النَّـبِيّٖنَ بِغَيْرِ الْحَقِّ ۭ ذٰلِكَ بِمَا عَصَوْا وَّكَانُوْا يَعْتَدُوْنَ [البقرة : ٦١]
” اور ان پر ذلت اور پست ہمتی تھوپ دی گئی اور وہ اللہ کا غضب لے کر لوٹے ۔ یہ اس سبب سے کہ وہ اللہ کی آیتوں کا انکار کرتے تھے اور نبیوں کو ناحق قتل کرتے تھے ۔ یہ اس وجہ سے کہ انہوں نے نا فرمانی کی اور وہ حد سے بڑھ جانے والے تھے ۔ ”( ترجمہ از مولانا امین احسن اصلاحی )
(ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ اَيْنَ مَا ثُـقِفُوْٓا اِلَّا بِحَبْلٍ مِّنَ اللّٰهِ وَحَبْلٍ مِّنَ النَّاسِ وَبَاۗءُوْ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الْمَسْكَنَةُ ۭذٰلِكَ بِاَنَّھُمْ كَانُوْا يَكْفُرُوْنَ بِاٰيٰتِ اللّٰهِ وَيَقْتُلُوْنَ الْاَنْۢبِيَاۗءَ بِغَيْرِ حَقٍّ ۭ ذٰلِكَ بِمَا عَصَوْا وَّكَانُوْا يَعْتَدُوْنَ ) [آل عمران : ١١٢]
"وہ جہاں کہیں بھی ہیں ان پر ذلت تھوپ دی گئی ہے ۔ بس ( اگر کچھ سہارا ہے تو ) اللہ اور لوگوں کے کسی عہد کے تحت ۔ اور وہ اللہ کا غضب لے کر لوٹے ہیں ۔ اور ان پر پست ہمتی تھوپ دی گئی ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ اللہ کی آیتوں کا انکار اور نبیوں کا ناحق قتل کرتے رہے ہیں ۔ کیونکہ یہ نافرمان اور حد سے بڑھنے والے رہے ہیں۔” ( ترجمہ مولاناامین احسن اصلاحی)
"اس میں شبہ نہیں کہ مسلمانوں کے دعواے تولیت کو ایک عملی وجہ ترجیح حاصل ہے ۔ انہوں نے یہ عبادت گاہ نہ یہودیوں سے چھینی تھی اور نہ ان کی پہلے سے موجود کسی عبادت گاہ کو ڈھا کر اس پر اپنی عبادت گاہ تعمیر کی تھی ۔ نیز وہ بحالتِ موجودہ اس کی تولیت کے ذمہ دار ہیں اور یہ ذمہ داری وہ گزشتہ تیرہ صدیوں سے ، صلیبی دور کے استثنا کے ساتھ ، تسلسل کے ساتھ انجام دیتے چلے آرہے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ بین الاقوامی سطح پر بھی اس کی تولیت کا حق دار مسلمانوں ہی کو تسلیم کیا گیا ہے ۔ ” [براہین : ٢٤٥ -٢٤٦]
"بعض اکابر صحابہ بھی اس مسجد کی کسی خصوصی فضیلت اور اہمیت سے آشنا نہیں تھے ۔” [براہین : ٢٧٥]
"مسجدِ اقصیٰ وہ مسجد ہے ( اَلَّذِیْ بٰرَکْنَا حَوْلَہ ) جس کے ارد گرد ہم نے برکات رکھی ہیں اس میں ظاہری اور باطنی دو قسم کی برکات شامل ہیں ۔ ظاہری طور پر یہ خطہ سر سبز و شاداب ہے ۔ یہاں پر نہریں ، چشمے اور باغات ہیں ۔ نیز یہ مقام ہزاروں انبیاء کا قبلہ رہا ہے اور ان کی وہاں قبریں بھی موجود ہیں ۔ یہاں پر خدا تعالیٰ کی خصوصی رحمتیں نازل ہوئی ہیں ، لہٰذا یہ ظاہری اور باطنی ہر لحاظ سے بابرکت مقام ہے ۔ مفسرین یہ نکتہ بھی بیان کرتے ہیں کہ مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصیٰ تک لے جانے میں یہ حکمت بھی ہے کہ حشر کا میدان اسی مقام پر قائم ہوگا ۔” [معالم العرفان فی دروس القرآن : ١٢/٢٧-٢٨ ، مکتبہ دروس القرآن گوجرانوالہ ٢٠١٠ء ]
"اگرچہ ملّت ابراہیمیہ کا عظیم قبلہ تو بیت اللہ شریف ہی ہے مگر اللہ نے بیت المقدس کو بھی محترم قرار دیا ہے وہ سارے انبیاء کا قبلہ رہا ہے ۔ وہاں پر ایک نماز پڑھنے کا اجر دوسری جگہ کی نسبت پچاس ہزار گنا زیادہ ہے ۔” [١٢/٤٤]
” مسجد اقصیٰ پر قبضہ کرلینے کے بعد یقنیاً ہمیں خوشی ہوئی ہے۔ لیکن ہماری یہ خوشی اس وقت تک پوری نہیں ہوسکتی جب تک ہم مدینہ منورہ میں اپنے پرانے مکانوں اور قلعوں کو واپس نہ لے لیں اور جب تک ہم مدینہ کے ایک ایک باشندے کے ساتھ قتل و خون کا وہی معاملہ نہ کریں جو مسلمانوں نے ہمارے بڑوں بنی قرنیطہ،بنی قینقاع، بنو نضیر اور اہل خیبر کے ساتھ کیا تھا۔”