تبصرہ کتب: یادگارِ سلف، الاربعین فی مناقب الخلفاء الراشدین


الواقعۃ شمارہ : 92 – 93، محرم الحرام و صفر المظفر 1441ھ

یادگارِ سلف

(استاذ الاساتذہ حافظ عبد اللہ محدث غازی پوری رحمۃ اللہ علیہ کی سوانح حیات)
مولف: حافظ شاہد رفیق
طبع اول: جولائی 2019ء
صفحات: 588     قیمت: 1000 روپے
ناشر: دار ابی الطیب، گل روڈ، حمید کالونی، گلی نمبر 5، گوجرانوالہ برائے رابطہ: 0553823990

گزشتہ صدی کے جن کو پڑھنا جاری رکھیں

آئیں توبہ کریں


الواقعۃ شمارہ : 92 – 93، محرم الحرام و صفر المظفر 1441ھ

از قلم : ابو عمار سلیم

اللہ خالق کائنات نے جب انسان کو خلق کیا تو باری تعالیٰ کا مقصد روئے ارض پر اپنا نائب اور خلیفہ مقرر کرنا تھا۔ اس مالک کون و مکاں نے انسان کی خلقت میں اس کے مقصد حیات کے عین مطابق بہت ساری خصوصیات رکھیں جو اس کے عمل اور اس کے حیات ارضی کے لیے لازم و ملزوم تھیں۔ کو پڑھنا جاری رکھیں

بھارت کا انتہا پسندانہ رویہ – اداریہ


الواقعۃ شمارہ : 88 – 89، رمضان المبارک و شوال المکرم 1440ھ

از قلم : محمد تنزیل الصدیقی الحسینی

ہندوستان کبھی تقسیم نہ ہوتا اور پاکستان کا قیام کبھی عمل میں نہ آتا اگر خود انتہا پسند ہندوؤں نے مسلمانوں کو تقسیم ملک کے لیے مجبور نہ کیا ہوتا۔ پاکستان کا وجود متعصبانہ ہندو ذہنیت کا نتیجہ ہے۔ کیونکہ مسلمان دنیا کے کسی بھی مذہب کے مقابلے میں نسبتاً زیادہ بہتر طریقے سے کسی بھی تکثیری سماج کا حصہ بننے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ مسلمان بخوشی اپنی دینی روایات کے ساتھ بھارت میں ہندوؤں کے ساتھ مل کر رہ سکتے تھے، جیسا کہ صدیوں سے رہ رہے تھے، وہ بھی ایسی صورت میں جب کہ وہ اقتدار پر فائز رہے تھے۔ لیکن جیسے ہی مسلمانوں کے اقتدار کا سورج غروب ہوا ہندتو کی متعصبانہ ذہنیت بیدار ہو گئی۔
قیام پاکستان کے قریبی پس منظر کو دیکھیں تو 1946ء میں بہار میں ہونے والے مسلم فسادات نے قیام پاکستان کے مطالبے کو ایک حقیقت کے طور پر تسلیم کروادیا۔ پھر تقسیم کے موقعہ پر جس طرح مشرقی پنجاب کے اضلاع میں مسلمانوں خون بہایا گیا اس نے ثابت کر دیا کہ ہندو مسلمانوں کو قبول کرنے کے لیے دل سے تیار نہ تھے۔
تقسیم ہند کو 70 برس سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے، مگر افسوس ہندوئوں کا مذہبی جنون ہنوز برقرار ہے۔ بھارت میں اس وقت ہندوؤں کی واضح اکثریت ہے۔ مسلمانوں کی آبادی خود بھارتی سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 14 سے 15 فیصد ہے۔ لیکن اس کے باوجود ہندو ذہنیت مسلمانوں کو ایک اقلیت کے طور پر بھی قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ یقیناً ہندو مت کے ماننے والے سب ایسے نہیں ہیں۔ لیکن انتہا پسندانہ ہندتو کا فلسفہ تیزی سے بھارتی قوم کا عکاس بنتا جا رہا ہے۔ جب بار بار عوام انتہا پسندانہ سوچ رکھنے والی قیادت منتخب کریں تو اس سے یہی تآثر ابھرے گا اور دنیا ہندتو کو بھارتی قوم کا نہ سہی لیکن بھارت کی اکثریتی آبادی کا بیانیہ ضرور سمجھے گی۔
مودی کی گزشتہ حکومت بھی بھارت میں نہ صرف مسلمانوں بلکہ دیگر اقلیتی مذاہب کے لیے بھی انتہائی تکلیف دہ رہی۔ صرف الیکشن جیتنے کی خاطر جس طرح مودی حکومت نے پاکستان کے خلاف نفرت کی فضا پیدا کی اور سرحد پار در اندازی کی کوشش کی، اس کے نتائج انتہائی خطرناک ہو سکتے تھے۔ مودی حکومت کو انتخابات میں واضح اکثریت کے ساتھ کامیابی مل گئی لیکن اس کامیابی نے خطے کا امن دائو پر لگا دیا۔ کامیابی کے نشے سے سرشار انتہا پسند ہندوؤں نے مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے۔ حال ہی میں جھاڑکھنڈ میں جس طرح مظلوم تبریز انصاری کو ایک مجمع نے جئے شری رام بولنے کے لیے اجتماعی تشدد کا نشانہ بنایا اور بعد میں پولیس کی حراست میں اس کی موت واقع ہوئی اس نے نہ صرف بھارت کے امن پسند افراد کو خواہ وہ کسی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں جھنجھوڑ کر رکھ دیا بلکہ دوسری طرف امریکا جو بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک پر کم ہی کچھ کہتا ہے، اس کی مذہبی آزادی کی رپورٹ میں بھارت میں ہونے والے انتہا پسندانہ واقعات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے تبریز انصاری کے قتل کی تفتیش کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ جس پر بھارت کی ہٹ دھرمی اس حد تک رہی کہ اس نے اس مطالبے کو یکسر مسترد کرتے ہوئے اسے بھارت کا اندرونی مسئلہ قرار دیا۔ بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ جو سلوک کیا جا رہا ہے وہ دنیا کی انسانیت کو بیدار کرنے کے لیے کافی ہے۔ کشمیر میں ریاستی جبر و استحصال گزشتہ 70 سالوں سے جاری ہے۔ اقوام متحدہ کی قرار داد کے باوجود بھارت نے کشمیریوں کو ان کا حق خود ارادیت نہیں دیا۔
بھارت میں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے خلاف ہونے والے پُر تشدد واقعات کے بعد بھارتی حکومت اس لائق ہے کہ اسے ایک دہشت گرد حکومت قرار دیا جائے۔ کم سے کم اسلامی ممالک کی مشترکہ تنظیم او، آئی، سی کو چاہیے کہ وہ اس پر اپنا بھرپور احتجاج ریکارڈ کرائے۔
مودی حکومت بھارت کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے میں تو ناکام رہی لیکن اس نے جذبات کو انگیخت کر کے قوم کو انتشار کی جس راہ پر لگایا ہے اس کا یقینی نتیجہ ہلاکت و بربادی ہے۔ بھارت میں رہنے والے انسانیت پسند افراد – خواہ ان کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو، بالخصوص ہمارے وہ بھائی جو ہندو مت سے تعلق رکھتے اور ساتھ ہی دوسرے مذاہب کی بھی عزت کرتے ہیں اور ان کے حقوق تسلیم کرتے ہیں- کو چاہیے کہ ظلم و نا انصافی کے خلاف اپنی آواز بلند کریں اپنے معاشرے کو تباہی سے بچائیں کیونکہ ان حالات میں ان کی خاموشی پوری قوم کی یقینی بربادی کے مترادف ہے۔

افادات نذیریہ


سیّد نذیر حسین محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے مکاتیب سے ماخوذ علمی جواہر پارے

الواقعۃ شمارہ : 48 – 49  جمادی الثانی و رجب المرجب 1437ھ

از قلم : محمد تنزیل الصدیقی الحسینی

شیخ الکل السیّد الامام نذیر حسین محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ تیرہویں و چودہویں صدی ہجری کے جید عالم ، محدث و فقیہ ، مفسر و مجتہد ، مدرس و مبلغ اور ایک صاحبِ نظر بزرگ تھے۔وہ 1220ھ کو بہار کے ضلع مونگیر کے ایک گاؤں سورج گڑھ میں پیدا ہوئے۔ عظیم آباد میں انہوں نے سیّد احمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید کی زیارت کی اور ان کے وعظ و نصائح سے مستفید ہوئے۔ اس کے بعد وہ  اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے دہلی تشریف لے گئے ۔ دہلی میں انہوں نے شاہ محمد اسحاق محدث دہلوی سے 13 برس استفادہ کیا اور علوم القرآن و الحدیث کی تحصیل کی۔ تکمیل کے بعد اپنے استاد کی مسند فضیلت پر متمکن ہوئے اور پوری زندگی اپنے آبائی وطن اور افرادِ خاندان سے دور دہلی میں اپنے استاد گرامی کی مسند تدریس پر فائز ہوکر خدمت انجام دیتے رہے اور بڑی شان و استغنا کے ساتھ متوکلانہ زندگی بسر کی۔ متاخرین میں تلامذہ کا اتنا بڑا حلقہ ان کے سوا کسی کا مقدر نہیں بنا۔ ان کی 60 سالہ خدمت تدریس کے نتیجہ میں بڑے بڑے اعاظم رجال پیدا ہوئے۔ 1320 ھ میں دہلی ہی میں وفات پائی۔

ان کے مکاتیب کا ایک گراں قدر مجموعہ "مکاتیب نذیریہ ” کے نام سے ” محبوب المطابع ” دہلی سے طبع ہوا۔ گو یہ مجموعہ ایک طویل اور بھرپور علمی و دینی گزارنے والی شخصیت کی فکر کا انتہائی مختصر سا خاکہ ہے لیکن اس میں بھی ہم ان کی عالمانہ شان کے ساتھ ساتھ زاہدانہ انداز و روش کو ملاحظہ کر سکتے ہیں۔ ذیل میں ایسے ہی کچھ علمی جواہر پیش خدمت ہیں ، جن کو پڑھ کر ذہن و فکر کے بند دریچے وَا ہوتے اور اعمال و عقائد کی گرہیں کھلتی ہیں۔

افاداتِ نذیریہ

” چلہ کشی سے اس قدر فائدہ حاصل نہیں ہوا ہے جس قدر کہ تہجد سے دل کی کشادگی و صفائی صوفیائے کرام نے پائی ہے مگر پہلے دل کو دنیا و ما فیہا سے فارغ رکھنا چاہیے۔”

” تہجد کی نماز کے بعد اپنے نفس ے برابر محاسبہ کرنا چاہیے اور اہل اللہ کا طریقہ ملامت و زجر و توبیخ نفس ہے اور مقبول بندوں کا طریقہ کہ ملامت کرنا نفس کا گناہانِ گزشتہ سے رہا ہے کیونکہ اللہ جل شانہ بہیترے گناہوں کو معاف کرتا ہے اور بخش دیتا ہے اور بندہ کو بجز رجوع بارگاہ مولیٰ اور توبہ کے چارہ نہیں ہے۔”

” اگلی امت کوہِ طور و مزار حضرت یحیٰ علیہ السلام وغیرہ مقامات پر بنظر حصولِ ثواب کے سفر کرتے تھے اس لیے آنحضرت ﷺ نے سوائے تین مقامات کے ثواب کی نیت سے جانا منع فرمایا۔ ہاں شہر و دیہات کے قریب جو گورستان ( قبرستان ) ہے وہاں سنت طریقہ پر جانا اور دعاء مغفرت کی کرنی اور اپنی موت کو یاد کرنا باعث اجر و ثواب ہے کیونکہ اس فعل سے بے رغبتی دنیائے فانی سے حاصل ہوتی ہے۔”

” محدثین اہلِ بیت کی خدمت کو سرمایہ آخرت و اعزاز جانتے ہیں اور صحابہ کرام کو اپنا سرتاج جانتے ہیں ہر ایک بزرگان کا مرتبہ ملحوظ رکھنا چاہیے افراط تفریط بہت بری بات ہے۔”

” اے عزیز ! تراخی و توقف شانِ باری تعالیٰ ہے، جو چیز دیر سے حاصل ہوتی ہے، وہ دیرپا ہوتی ہے۔ سلطان الاذکار قرآن مجید ہے۔”فنا فی الشیخ” میرے حضرات کا طریقہ نہیں ہے بلکہ شیخ اس لیے ہے کہ قرآن و حدیث سے ان کو جو کچھ معلوم ہوا ہے یا بزرگانِ طریقتِ صادقہ نے ان کو عطا فرمایا ہے، وہ طالب کو پہنچا دیں۔ شیخ اس بات پر قادر نہیں ہے کہ اپنا قدم حلقۂ شریعت سے باہر رکھے۔”

” میری باتیں صرف اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا قول ہے۔ صحاح ستہ میں باب رقاق کو دیکھا اور پڑھا ہے، وہ سب تصوف و درویشی ہے۔ درویشوں نے کہاں سے حاصل کیا ہے اسی فصل رقاق سے۔”

” اگر تہجد کے وقت خلوصِ دلی میسر ہو اور کسی طرف توجہ نہیں ہو تو یہ خلوص ہزار چلّوں کے برابر ہے۔ اربعین ( چلّہ کشی ) یہ نہیں ہے کہ قبر پر بیٹھیں، یہ فعل رسول ﷺ سے منقول نہیں ہے اور نہ اس کا اجر مذکور ہے۔ خدا رسیدگی کا مقام مسجد ہے نہ کہ قبر۔ مسجد سے جو کوئی بھاگے اور مزار پر بیٹھے وہ خدا سے بھاگتا ہے، اس کی تقدیر میں خدا رسیدگی نہ ہوگی۔”

” اگر کوئی شخص کہے کہ میرے پیر پانی پر چلتے ہیں یا وہ آسمان پر اُڑ جاتے ہیں ہرگز اس کے اڑنے اور آسمان پر جانے کا یقین نہ کرو کیونکہ درویشی میں ایسی شعبدہ بازی یعنی "بر آب رفتن و بر آسمان پریدن ” سے کیا تعلق۔”

” اے عزیز ! ایسی چلّہ کشی سے کیا حاصل، جو آج کل کے لوگ (ارباب ریاست) قبر پرستی کو آئینِ درویشی خیال کرتے ہیں۔ حالانکہ قرآن و حدیث اس کے خلاف ندا کر رہا ہے۔ بزرگانِ طریقت ( اللہ تعالیٰ ان کی دلیل کو روشن کرے ) وہ اس قبر پرستی سے ہمیشہ بیزار تھے اور بیزار رہے۔ ”لطائفِ خمسہ” ( نمازِ پنجگانہ) حل مشکلات کی کفیل ہو کر نورانیت کے نزول کا باعث ہوتی ہے۔ گویا نماز اسمِ اعظم ہے۔ ہمیشہ اپنی حالت پر نظر ڈالنا چاہیئے اور دوسرے کی عیب جوئی سے پرہیز کرنا چاہیئے، یہ بات مشکلوں کے حل کرنے والی ہے۔”

” سمجھو اور غور کرو آفات نازلہ پر صبر کرنا آلِ عباد و صالحین کا طریقہ ہے اور صبر پر ثابت قدم رہنا صوفیا کا شعار ہے۔ جو کچھ پہنچتا ہے وہ اللہ کی طرف سے ہے اور جو کچھ جاتا ہے وہ اس کے حکم سے باہر نہیں ہے۔ فی زمانہ کے صوفیا کا ذکر آپ نے کیا یہ سب مکر و فریب سے گدائی کرتے اور پیٹ پالتے ہیں اور دنیا و آخرت کی رُو سیاہی حاصل کرتے ہیں۔ ان مکار دیو سیرت سے پرہیز کرنا دانشمندوں کا کام ہے۔”

” حلقہ قائم کرنا، ہو حق کرنا، شور و غل مچانا اور اہلِ محلہ کو پریشانی میں ڈالنا سوتے ہوؤں کو جگانا یہ سب باتیں حصولِ زر کے لیے ہیں، ورنہ خدا سے مخفی کلامِ الٰہی ناطق ہے۔ حضرت قدسی سیرة شاہ محمد آفاق صاحب  فرماتے تھے کہ ” مینڈک کی طرح شور مچانا شانِ درویشی نہیں ہے خدا تعالیٰ سویا ہوا نہیں ہے کہ اس کو جگائیں۔”بلکہ حرکاتِ بیہودہ کو وہ عملِ غیر صالح تصور کرتے ہیں۔ حضرت رسولِ خدا ﷺ نے فرمایا کہ ” میں عبادت بھی کرتا ہوں، نکاح بھی کرتا ہوں اور غذا بھی کھاتا ہوں لیکن میں شور و غل نہیں کرتا ہوں اور عاجزی و انکساری نبیوں کی شان ہے ۔ ”

” اے عزیز ! شرک و بدعت سے الگ رہنا اور اپنے اعمال کا محاسبہ کرنا صوفیاء کرام کا بہترین طریقہ ہے۔”

” نادان بے وقوف کی بیعت سے بیزار ہوں مگر توبہ مسنونہ کی بیعت لینی بہترین نتائج کے حصول کا سبب ہے بندہ فقیر نے پیری کی دوکان نہیں لگائی ہے کہ ہر خاص و عام آئیں اور روپیہ دے کر سودا لیں ( نعوذ باللہ )۔”

” اے عزیز ! صبر کنجی کشایش کی ہے اور بعد سختی کے راحت ملتی ہے ، نا امید و بد دل ہرگز نہ ہونا چاہیے۔ ایماندا لوگ ہمیشہ پامالِ مصیبت رہتے ہیں اور اصحابِ مکر و فریب خوش و خرم رہتے ہیں۔ اس کے قبل کہہ چکا ہوں اور پھر کہتا ہوں کہ اللہ والوں کو درجہ بلند و اعلیٰ ہے ، صاحبانِ کم نظر کیا جانیں۔”

” اللہ تعالیٰ سے بد دلی کرنی مومن کی شان کے خلاف ہے ، رضائے مولیٰ پر ہر وقت راضی و شاکر رہنا خاص بندوں کا طریقہ ہے۔ بے قراری سے سوائے اس کے صبر کا درجہ کم ہو اور نقصان ہو اور کچھ فائدہ نہیں ہے۔”

” صبر و تحمل نیک بندوں کا طریقہ ہے ، واویلا کرنا جاہلوں کو سزاوار ہے ، عمدہ طریقہ اہل طریقت کا ہے کہ آفتِ نازلہ پر صابر ہوتے ہیں اور اللہ سے اجر کے طالب ہوتے ہیں۔”

” حضرات متوکلین کے لیے یہی زیبا ہے کہ حلال طریقہ سے کم یا زیادہ جو کچھ میسر آئے اسے خود بھی کھائے اور اوروں کو بھی کھلائے ، جمع کرنا ارباب فقر کی شان کے خلاف ہے جو کچھ تقدیر میں لکھا ہے ( بہر صورت ) ملے گا البتہ اجملو الطلب کو مد نظر رکھ کر کوشش کرنی چاہیے۔ نکھٹوؤں کی طرح ہات پاؤں توڑ کر نہ بیٹھ رہنا چاہیے اور نہ حلال مال کو فضول خرچی میں ضائع کرے۔”

” مریدوں اور معتقدوں سے زبردستی کچھ وصول نہ کرنا چاہیے اس سے کچھ فائدہ نہیں ہوتا بلکہ مریدوں کے لیے وہ نفرت کا باعث بن جاتا ہے۔ میں سنت نبوی کے طریقہ پر بیعت کرتا ہوں مگر بیعت کرنے والوں سے دھوکہ بازوں کی طرح ( جس کو اہل تصوف و علماء حقانی ناجائز کہتے ہیں ) کچھ نہیں لیتا اللّٰھم احفظنا منھا مناسب ہے کہ علماء درس و تدریس میں کوشش کریں اور مشتبہ مال سے ضرور پرہیز کریں۔”

” دنیا موحدین کے نزدیک ایک جَو کی قیمت نہیں رکھتی ، کیونکہ وہ ریا کاروں کو فضلہ ہے یا بیت الخلاء کی مانند ہے، کہ رفع حاجت کے واسطے جس طرح وہاں جانا ضروری ہے اور جس طرح وہاں جاتے ہیں اسی طرح وہ دنیا میں رہتے ہیں۔ دوسرے اگر زندگی میں انسان اپنے نفس سے حساب لیتا رہے تو مکروہات دنیا سے وہ محفوظ رہے گا۔”

” قرآن مجید کی تلاوت و حدیث شریف کے پڑھنے پڑھانے اور اس پر غور و فکر کرنے میں رات دن مصروف رہو اور زید و بکر کے قصوں میں نہ پڑو۔ اس لیے کہ قرآن پر غور کرنے سے قلب میں نور اور سرور پیدا ہوتا ہے چنانچہ آیہ کریمہ تقشعر منہ جلود الذین یخشون ربھم اس کی گواہ ہے۔”

اب ایک آخری مکتوب گرامی جو سید نذیر حسین محدث دہلوی نے اپنے تلمیذ رشید شاہ سلیمان پھلواروی کے نام لکھا تھا، یہ خط کیا ہے ؟ معارف و لطافت کا بیش بہا گنجینہ ہے۔ مکاتیب کے ذخیرے میں قرآنی آیات سے مزین ایسا نثری شہ پارہ نایاب نہیں تو کم یاب ضرور ہوگا۔ و ھو ھذا :

” اے عزیز ! محاسبہ و ان تبدوا ما فی انفسکم او تخفوا یحاسبکم بہ اللہ (البقرۃ : 284 ) [ چاہے تم اس کو ظاہر کرو یا چھپاؤ جو تمہارے دلوں میں ہے اللہ تم سے اس کا محاسبہ کرے گا ] کی فکر کرو ، اور اولئک کالانعام ( الاعراف : 179 ) [ وہ چوپایوں کی مانند ہیں ] کی مانند لذائذ نفسانی میں نہ پڑو ، فاذکرونی اذکرکم ( البقرۃ : 152) [ مجھے یاد رکھو تو میں بھی تمہیں یاد رکھوں گا ] کے مراقبے کا سرور حاصل کرو ، اور وجوہ یومئذ ناضرۃ ، الی ربھا ناظرۃ ( القیامۃ : 22 – 23) [ اس دن بعض چہرے تر و تازہ اور شگفتہ ہوں گے اور ان کی نگاہیں اپنے پروردگار کی طرف جمی ہوں گی ] کا مشاہدہ کرنے کے لیے اپنے دیدہ دل کو کھولو اور نظارہ کرو ، فاستقم کما امرت ( ھود : 112) [ ثابت قدمی و استقامت اختیار کرو جیسا کہ تم کو حکم دیا گیا ہے ]  و الذین جاھدوا فینا ( العنکبوت : 69 ) [ اور جیسے مری راہ میں جہاد کرنے والے لوگ ہوتے ہیں ] کی منزل میں اپنی طلبِ استقامت کا سکہ بٹھاؤ ، و یحذرکم اللہ نفسہ  ( آل عمران : 28 ) [ اللہ تمہیں اپنے آپ سے ڈرائے دیتا ہے ] کی آگ سے اپنے آپ کو گداز کرو اور نکھارو ، تاکہ لنھدینھم سبلنا ( العنکبوت : 69 ) [ ہم انہیں اپنی سبیلیں ضرور بتائیں گے ] کی مہر و عنایات کی اہلیت پیدا ہو ، اور ان اللہ اشتریٰ من المؤمنین انفسھم و اموالھم بان لھم الجنۃ ( التوبۃ : 111 ) [ اللہ نے مومنین سے ان کی جانیں اور مال خرید لیے ہیں ، انہیں جنت ملے گی ] کے بازار میں تمہارا نرخ بالا ہو ، اور تم اس سرمائے سے الا للہ الدین الخالص ( الزمر : 3 ) [ آگاہ رہو کہ دین خالص اللہ ہی کا ہے ] کی بضاعتِ دینی حاصل کرلو ، تو شاید ”و المخلصون علیٰ خطر عظیم” [ مخلصین بڑے خطرات میں ہوتے ہیں ] کے اسرار و رموز کا کوئی نکتہ تم پر کھل جائے اور افمن شرح صدرہ للاسلام فھو علی نور من ربہ ( الزمر : 22 ) [ بس جس کا سینہ اللہ نے اسلام کے لیے کھول دیا وہ اپنے پروردگار کی طرف سے روشنی اور نور میں ہے ] کے انوار کی کوئی شعاع تم پر چمک پڑے ، تو پھر تم قل متٰع الدنیا قلیل ( النساء : 77 ) [ کہہ دو کہ متاع دنیا تو حقیر و کمترین شے ہے ] کی پستی سے اپنے پائے ہمت کو باہر نکالو اور و الاخرۃ خیر و ابقیٰ ( الاعلیٰ : 17 ) [ اور آخرت ہی خیر ہے اور باقی رہنے والی ہے ] کی بلند چوٹیوں کو عبور کر لو۔ جہاں ذٰلک فضل اللہ یؤتیہ من یشاء ( المائدۃ : 54 ) [ یہ فضل ہے اللہ کا ، وہ جس کو چاہتا ہے عطا کر دیتا ہے ] کا مبشر اقبال مندی الا تخافوا و لا تحزنوا و ابشروا بالجنۃ التی کنتم توعدون  ( فصلت : 30 ) [ نہ ڈرو نہ غم کرو بلکہ تمہیں مبارک ہو وہ جنت جس کا تم سے وعدہ کیا گیا تھا ] کا مژدہ جانفزا سنائے اور رضوان جنات نعیم ندا دے اور کہے کہ کلوا و اشربوا ھنیئا بما کنتم تعملون ( المرسلات : 43 ) [ اپنے عملِ خیر کے صلے میں خوب کھاؤ پیو اور خوش رہو ]۔

زیادہ السلام خیر الختام

الراقم العاجز محمد نذیر حسین

امام محمد تاج فقیہ۔ بہار کے پہلے مسلم فاتح


جریدہ "الواقعۃ” کراچی، شمارہ  (5 / 6 )  شوال، ذیقعد  1433ھ/   ستمبر، اکتوبر 2012

امام محمد تاج فقیہ۔ بہار کے پہلے مسلم فاتح

محمد تنزیل الصدیقی الحسینی
گو ارضِ بہار نہ امام محمد تاج فقیہ کا مولد و مدفن ہے اور نہ ہی انہوں نے ا س سرزمین کو اپنی سکونت کے لیے اختیار فرمایالیکن بہار کی اسلامی تاریخ امام محمد تاج فقیہ کے بغیرادھوری ہے اور علومِ اسلامی کے ماہر علماء کے وجود کی ابتداء گویا آپ ہی کے حسنات میں سے ہے۔بہار سے تعلق رکھنے والے مسلم اشراف کا شاید ہی کوئی گھرانہ ایسا ہو جسے امام محمد تاج فقیہ کی ذریّت نہ پہنچی ہو۔
امام محمد تاج فقیہ بن ابو بکر بن ابو محمد معروف بہ ابو الفتح بن ابو القاسم بن ابو الصائم بن ابو سعید معروف بہ ابو الدہر بن ابو الفتح بن ابو اللیث بن ابو ابواللیل بن ابو الدر بن ابو سہمہ بن ابو الدین امام عالم بن ابو ذر عبد اللہ ( رضی اللہ عنہ ) بن زبیر بن عبد المطلب ۔نسباً زبیری الہاشمی تھے ۔ امام محمد تاج کے نسب میں مذکور تمام بزرگ اپنے دور کے ائمہ و فقہا میں سے تھے ۔
امام محمد تاج کا تعلق الخلیل سے تھا ۔ بعض نے مدینہ منورہ اور  بعض نے مکہ مکرمہ بھی لکھا ہے ۔تاہم بہار کے اکثر مورخین نے الخلیل ہی کو امام محمد تاج فقیہ کا وطن قرار دیا ہے ۔ ممکن ہے کہ وہ مکہ مکرمہ و مدینہ منورہ سے بکثرت آمد و رفت رکھتے ہوں ۔ یہی مورخین کے لیے وجۂ التباس ہوا ہوگا ۔ شاہ محمد نور کی قلمی بیاض کے مطابق امام محمد تاج اور امام غزالی ہم مکتب و ہم درس تھے ۔ اپنے شیخ کے حکم سے اشاعتِ اسلام کی غرض سے مدینہ منورہ سے باہر نکلے ۔ شاہ محمد نو رکے قلمی بیاض سے مولانا عبد الرحیم صادق پوری نقل کرتے ہیں :

“حضرت مولانا محمد تاج فقیہ قدس سرہ بوجہ تبحر در علم فقہ بمرتبۂ کمال امام محمد تاج الفقہا ملقب بودند آنحضرت و امام محمد غزالی رحمة اللہ علیہما بحکم مرشد خود برائے اجرائے اسلام از مدینہ منورہ و ہم از محلہ قدس خلیل من محلات بیت المقدس تشریف میداشتند ( از آنجا امام غزالی بطرف ملک مغرب و از آنجا بطرف طوس تشریف بردند ) حضرت مولانا محمد تاج فقیہ بطرف ہندوستان صوبہ بہار تشریف ارزانی فرمودند ۔ ” (الدر المنثور فی تراجم اہل الصادقفور : ١١)

مولانا محمد کبیر دانا پوری نے اپنی کتاب “ تذکرة الکرام “ میں لکھا ہے کہ امام محمد تاج کے استاد ، شیخ شہاب الدین سہروردی ہیں ۔
تاہم یہ روایات درایتاً درست نہیں ۔ مستند تاریخی روایت کے مطابق امام محمد تاج نے منیر کو ٥٧٦ھ میں فتح کیا ۔ ان کے ساتھ ان کے جوان بیٹے تھے ۔ یقینا ان کی عمر اس وقت ٥٠ برس سے متجاوز ہوگی ۔جبکہ شیخ ابو حفص شہاب الدین سہروردی کی ولادت ٥٣٩ھ میں ہوئی اور ان کی وفات ٦٣٢ھ میں ہوئی ۔ تاہم یہ امکان ہے کہ امام محمد تاج کے استاد ، شیخ ابو نجیب عبد القاہر سہروردی ہوں کیونکہ ان کی ولادت ٤٩٠ھ میں ہوئی اور وفات٥٦٣ھ میں ہوئی ۔ اسلامی بہار کی قدیم تاریخ ویسے بھی اغلاط سے پُر ہے ۔ ممکن ہے کاتب کی مہربانی سے عبد القاہر سہروردی کو شہاب الدین سہروردی سمجھ لیا گیا ہو ۔ اسی طرح یہ خیال کہ امام غزالی ، امام محمد تاج کے ہم مکتب و ہم درس تھے ، درست نہیں ۔ امام غزالی کا زمانۂ حیات تو اس سے قبل کا ہے ۔ ان کی ولادت ٤٥٠ھ میں ہوئی جبکہ وفات ٥٠٥ھ میں ہوئی ۔ یہ امر بالکل واضح ہے کہ نہ شیخ شہاب الدین سہروردی امام محمد تاج کے شیخ تھے اور نہ ہی امام غزالی ہم مکتب ۔ و اللہ اعلم بالصواب
امام محمد تاج ہندوستان وارد ہوئے ۔ اس وقت اسلامی عملداری کی حدود اودھ تک پہنچی تھی ۔ اس زمانے میں ہندوستان کے مشرقی صوبوں یوپی کے مشرقی اضلاع و بہار و بنگال میں طوائف الملوکی تھی ۔ مختلف ہندو راجاؤں کی حکمرانی تھی ۔ اثنائے سفر امام صاحب بہار کے ایک مقام منیر جا پہنچے ۔ وہاں صرف ایک ہی مسلمان گھر آباد تھا امام صاحب اسی کے گھر فروکش ہوئے جب نماز کا وقت ہوا تو چاہا کہ اذان دیں اور نماز پڑھیں ۔ اس مسلمان نے اذان دینے سے منع کیا اور کہا کہ اذان کی آواز سنتے ہی راجا کے آدمی آکر ہمیں مار دیں گے یہاں اذان دینے کا حکم نہیں یہ سن کر امام صاحب کو بہت دکھ ہوا اور وہ وہیں سے واپس ہوئے ۔ مدینہ منورہ پہنچے تاہم دل میں یہ خیال جاگزیں ہو چکا تھا کہ کسی طرح اس راجا سے لڑیں اور منیر کو اسلامی عملداری میں داخل کریں ۔ اسی اثنا میں ایک روز مسجدِ نبوی میں سو رہے تھے کہ رسول اللہ   کی زیارت ہوئی ۔ آپ نے حکم دیا کہ اس کافر سے جا کر لڑو اللہ کامیاب کرے گا ۔ جب بیدار ہوئے تو متحیر ہوئے کہ تنِ تنہا کس طرح لڑیں ۔ اسی کشمکش میں چند دن مزید نکل گئے کہ دوبارہ مسجدِ نبوی ہی میں نبی کریم کی زیارت ہوئی اور وہی حکم صادر ہوا ۔ اس بار بھی وہی کیفیت ہوئی تاہم یہ خیال بھی راسخ ہوا کہ جب حکم صادر ہوا ہے تو اسباب بھی مہیا ہوگا ۔  تآ نکہ تیسری بار بھی مسجدِ نبوی ہی میں زیارت ہوئی اور اس بار نبی کریم نے فرمایا کہ جاؤ فلاں فلاں اشخاص سے ملو وہ تمہاری اس امر میں مدد کریں گے ۔ جب بیدار ہوئے تو ان ناموں کو اچھی طرح سے ذہن میں محفوظ کرلیا ۔ ان میں سے بعض افراد تو مدینہ منورہ ہی میں مقیم تھے اور بعض دوسرے ممالک میں مقیم تھے ۔ مدینہ منورہ میں جو افراد رہائش پذیر تھے وہ سنتے ساتھ ہی امام صاحب کی معیت میں عازم جہاد ہوئے ۔امام صاحب بمع اہل و عیال ٣٠ /٣٥ افراد کے ساتھ مدینہ سے نکلے ۔ بخارا ، کابل وغیرہا سے ہوتے ہوئے منیر پہنچے ۔ اس وقت تقریباً ساڑھے تین سو افراد ہمرکاب تھے ۔ راجا منیر کو خبر ملی تو اپنے قلعے کی بلندی سے جب اس لشکرِ اسلامی پر نظر ڈالی تو تعداد کی قلت سے بہت خوش ہوا اور مزید سرکشی پر آمادہ ہوا ۔ چنانچہ اس نے جنگ کا آغاز کیا اللہ ربّ العزت نے لشکرِ اسلامی کو فتحیاب کیا ۔ امام صاحب ہی کے نیزے سے راجا مارا گیا ۔ امام صاحب کو منیر اور اس کے اطراف میں مکمل تسلط حاصل ہوا ۔ امام صاحب نے مکمل اسلامی نظام قائم کیا ۔بہار میں منیر کے مقام پر اس پہلی اسلامی ریاست کا قیام بقول مولانا مراد اللہ منیری مصنف “ آثار منیر “ ٢٧ رجب ٥٧٦ھ کو عمل میں آیا ۔ ان کے الفاظ ہیں :

“آج سے آٹھ نو سوسال پہلے اللہ کے بندے ، اس کے محبوب کی امت خاندان ہاشم کے جلیل القدر فرزند حضرت سیدنا امام محمد تاج فقیہ ہاشمی قدس خلیلی رحمة اللہ علیہ حسبِ بشارت حضرت رسالتمآب ہندوستان سے ہزاروں میل دور بیت المقدس سے صوبہ بہار کے مرکز عظیم یعنی سر زمین منیر شریف میں تشریف لائے اور پرچم اسلام نصب کرکے اس تیرہ و تار خطہ کو اپنی ضیائے ایمانی سے منور فرمایا ۔ ٢٧ رجب روز جمعہ ٥٧٦ ہجری کی وہ مبارک ساعت تھی جب آپ کے ہاتھ سے یہاں اسلام کا سنگِ بنیاد رکھا گیا ۔ “ (آثار منیر : ٨ -٩)

جبکہ پروفیسر معین الدین دردائی کے مطابق :

“حضرت مخدوم الملک (شیخ احمد منیری)کے پردادا حضرت امام محمد تاج فقیہ بقصدِ جہاد ٥٧٦ھ میں بیت المقدس کے محلہ قدس خلیل سے ہندوستان تشریف لائے تھے اور صوبہ بہار ضلع پٹنہ کے ایک قصبہ منیر شریف میں اقامت گزیں ہوئے ۔ منیر کا راجہ بہت ظالم اور سرکش تھا ۔ مسلمانوں پر طرح طرح کے مظالم توڑتا تھا ۔ یہ دیکھ کر حضرت امام محمد تاج فقیہ نے اپنے آنے کے چھٹے سال اس سے جہاد کیا اور منیر فتح کرلیا ۔ “ (تاریخ سلسلہ فردوسیہ:١٣٩)

تاہم بہاری محققین کے نزدیک فتح منیر کی اوّل الذکر روایت ہی کو قبولیت عام حاصل ہے ۔ پروفیسر صاحب کی روایت کو درست تسلیم نہیں کیا جاتا ۔
عام طور ہندوستانی مورخین بختیار خلجی کو بہار کا پہلا مسلم فاتح قرار دیتے ہیں ۔ جس نے معروف روایت کے مطابق ( مثلاً “ طبقات ناصری “) ٥٩٥ھ میں بہار فتح کیا تھا ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ بہار کے پہلے مسلم فاتح امام محمد تاج فقیہ تھے ۔ جنہوں نے بختیار خلجی کی آمد سے ١٩ برس قبل ہی بہار کے ایک خطے میں اسلامی ریاست قائم کرلی تھی ۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ امام محمد تاج بہار کے پہلے مسلم فاتح ہیں ۔ اس پر بہار کی مستند تاریخی روایات موجود ہیں اور اس حقیقت کو اب تاریخی طور پر تسلیم کیا جانا چاہئیے۔
امام صاحب کی اہلیہ مکرمہ کا انتقال منیر ہی میں ہوا جس کے بعد امام محمد تاج نے اپنی اہلیہ کی چھوٹی ہمشیرہ کو اپنے حبالۂ عقد میں لیا ۔ ان سے ایک صاحبزادے مخدوم عبد العزیز منیر ہی میں پیدا ہوئے ۔ امام صاحب نے اہلیہ اولیٰ سے اپنے صاحبزادوں مخدوم اسرائیل اور مخدوم اسماعیل کو یہیں چھوڑا اور خود امام صاحب اپنی محل ثانی ، چھوٹے صاحبزادے مخدوم عبد العزیز اور چند مخلصین کے ہمراہ منیر سے الخلیل کی طرف عازم سفر ہوئے ۔ الخلیل بیت المقدس کا ایک محلہ ہے وہیں امام صاحب کی وفات ہوئی ۔ صاحبِ "الدر المنثور“ مولانا عبد الرحیم صادق پوری کے مطابق امام تاج فقیہ منیر سے مدینہ منورہ تشریف لے گئے تھے اور وہیں ان کا انتقال ہوا ۔ (الدر المنثور فی تراجم اہل الصادقفور : ١٤)
امام تاج فقیہ کے چھوٹے صاحبزادے مخدوم عبد العزیز جب سنِ شعور کو پہنچے تو انہیں اپنے بھائیوں سے ملنے کا شوق منیر کھینچ لایا اور انہوں نے بھی اپنے بھائیوں کے ساتھ یہیں اقامت اختیار کرلی ۔
مولانا سیّد ابو الحسن علی ندوی لکھتے ہیں:

“مولانا محمد تاج فقیہ کی ذات سے منیر اور اس کے مضافات میں اسلام کی بہت اشاعت ہوئی ، کچھ عرصہ آپ نے منیر میں قیام کرکے وطن مراجعت فرمائی اور زندگی کا بقیہ حصہ خلیل ہی میں بسر کیا ۔ “(تاریخ دعوت و عزیمت : ٣ /١٧٨)

مولانا ابو البرکات عبد الرؤف دانا پوری لکھتے ہیں :

“صوبہ بہار میں قصبہ منیر شریف قدیم اسلامی مرکز ہے حضرت امام محمد تاج فقیہ رحمة اللہ علیہ نے اس دیار میں سب سے پہلے منیر کو اپنا اسلامی مرکز بنایا ۔ آپ کی مجاہدانہ کوششوں سے اس دور دراز خطہ میں اسلام کی اشاعت ہوئی اور کافی اشخاص نے راہ ہدایت اختیار کی ۔ “ (آثار منیر :٥)

امام محمد تاج فقیہ سلطانِ ہند شہاب الدین محمد غوری ( م ٦٠٢ھ ) کے معاصر تھے ۔ امام محمد تاج کی سن وفات سے متعلق بہت اختلاف پایا جاتا ہے ۔
پروفیسر محمد حسنین اپنے مکتوبِ گرامی مرقومہ ٦ اکتوبر ١٩٩٩ء بنام سیّد قیام الدین نظامی لکھتے ہیں:

"میرے والد الحاج سیّدمحمد رشید مرحوم کے دادا سیّد صمصام الدین کی ایک سندی انگشتری میرے پاس محفوظ ہے ۔ سیّد صمصام الدین مرحوم کی پوتی ، رقیہ محمود شمسی کاکوی ( دختر فخر الدین منیری ) کے پاس جو خاندانی فاتحہ نامہ زیرِ مصرف رہا اسی کا عکسی نقل آپ کو بھیج رہا ہوں ، شاید آپ کے کام آئے ۔ فاتحہ نامہ میں امام محمد تاج فقیہ کا سالِ وفات ٥٦٣ھ تحریر ہے ، جس کی شہادت تاریخِ کملاء سے بھی مل جاتی ہے ۔”

گزشتہ سطور میں مولانا مراد اللہ کی کتاب “ آثار منیر “ کا اقتباس گزر چکا ہے کہ منیر کی فتح ٥٧٦ھ میں ہوئی جس سے ٥٦٣ھ میں امام محمد تاج فقیہ کے سنِ وفات ہونے کی قطعاً نفی ہوتی ہے ۔اس ضمن میں راقم کا حاصلِ تحقیق حسبِ ذیل ہے :
 
اوّلاً : کسی مستند کتاب میں امام محمد تاج فقیہ کی سن وفات مذکور نہیں ۔
ثانیاً : جن سنین وفات کا ذکر ملتا ہے نہ وہ روایتاً درست ہیں اور نہ ہی درایتاً ۔
مختلف اور متعدد تاریخی شخصیات ایسی ہیں جن کی سنینِ ولادت و وفات سے آگاہی نہیں ہوتی لیکن نہ اس سے ان کی شخصیت مجروح ہوتی ہے اور نہ ہی ان کے کارناموں پر زد پڑتی ہے ۔
 
بہار کے متعدد مشاہیر مخدوم یحیٰ منیری ، شیخ شرف الدین احمد منیری ، مخدوم عزیز الدین پکھئی ، مولانا محمد عارف ،  شاہ دولت منیری ، مولانا محمد سعید ( شہر گھاٹی ) ،مولانا ولایت علی صاد ق پوری،مولانا عنایت علی صادق پوری، مولانا عبد الرحیم صادق پوری( اسیر کالاپانی )، شاہ محمد اکبر دانا پوری ، شاہ امین احمد ثبات فرودسی ، شاہ محمد سلیمان پھلواروی وغیرہم امام محمد تاج سے براہِ راست نسبی تعلق رکھتے ہیں ۔