بھارت کا انتہا پسندانہ رویہ – اداریہ


الواقعۃ شمارہ : 88 – 89، رمضان المبارک و شوال المکرم 1440ھ

از قلم : محمد تنزیل الصدیقی الحسینی

ہندوستان کبھی تقسیم نہ ہوتا اور پاکستان کا قیام کبھی عمل میں نہ آتا اگر خود انتہا پسند ہندوؤں نے مسلمانوں کو تقسیم ملک کے لیے مجبور نہ کیا ہوتا۔ پاکستان کا وجود متعصبانہ ہندو ذہنیت کا نتیجہ ہے۔ کیونکہ مسلمان دنیا کے کسی بھی مذہب کے مقابلے میں نسبتاً زیادہ بہتر طریقے سے کسی بھی تکثیری سماج کا حصہ بننے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ مسلمان بخوشی اپنی دینی روایات کے ساتھ بھارت میں ہندوؤں کے ساتھ مل کر رہ سکتے تھے، جیسا کہ صدیوں سے رہ رہے تھے، وہ بھی ایسی صورت میں جب کہ وہ اقتدار پر فائز رہے تھے۔ لیکن جیسے ہی مسلمانوں کے اقتدار کا سورج غروب ہوا ہندتو کی متعصبانہ ذہنیت بیدار ہو گئی۔
قیام پاکستان کے قریبی پس منظر کو دیکھیں تو 1946ء میں بہار میں ہونے والے مسلم فسادات نے قیام پاکستان کے مطالبے کو ایک حقیقت کے طور پر تسلیم کروادیا۔ پھر تقسیم کے موقعہ پر جس طرح مشرقی پنجاب کے اضلاع میں مسلمانوں خون بہایا گیا اس نے ثابت کر دیا کہ ہندو مسلمانوں کو قبول کرنے کے لیے دل سے تیار نہ تھے۔
تقسیم ہند کو 70 برس سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے، مگر افسوس ہندوئوں کا مذہبی جنون ہنوز برقرار ہے۔ بھارت میں اس وقت ہندوؤں کی واضح اکثریت ہے۔ مسلمانوں کی آبادی خود بھارتی سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 14 سے 15 فیصد ہے۔ لیکن اس کے باوجود ہندو ذہنیت مسلمانوں کو ایک اقلیت کے طور پر بھی قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ یقیناً ہندو مت کے ماننے والے سب ایسے نہیں ہیں۔ لیکن انتہا پسندانہ ہندتو کا فلسفہ تیزی سے بھارتی قوم کا عکاس بنتا جا رہا ہے۔ جب بار بار عوام انتہا پسندانہ سوچ رکھنے والی قیادت منتخب کریں تو اس سے یہی تآثر ابھرے گا اور دنیا ہندتو کو بھارتی قوم کا نہ سہی لیکن بھارت کی اکثریتی آبادی کا بیانیہ ضرور سمجھے گی۔
مودی کی گزشتہ حکومت بھی بھارت میں نہ صرف مسلمانوں بلکہ دیگر اقلیتی مذاہب کے لیے بھی انتہائی تکلیف دہ رہی۔ صرف الیکشن جیتنے کی خاطر جس طرح مودی حکومت نے پاکستان کے خلاف نفرت کی فضا پیدا کی اور سرحد پار در اندازی کی کوشش کی، اس کے نتائج انتہائی خطرناک ہو سکتے تھے۔ مودی حکومت کو انتخابات میں واضح اکثریت کے ساتھ کامیابی مل گئی لیکن اس کامیابی نے خطے کا امن دائو پر لگا دیا۔ کامیابی کے نشے سے سرشار انتہا پسند ہندوؤں نے مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے۔ حال ہی میں جھاڑکھنڈ میں جس طرح مظلوم تبریز انصاری کو ایک مجمع نے جئے شری رام بولنے کے لیے اجتماعی تشدد کا نشانہ بنایا اور بعد میں پولیس کی حراست میں اس کی موت واقع ہوئی اس نے نہ صرف بھارت کے امن پسند افراد کو خواہ وہ کسی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں جھنجھوڑ کر رکھ دیا بلکہ دوسری طرف امریکا جو بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک پر کم ہی کچھ کہتا ہے، اس کی مذہبی آزادی کی رپورٹ میں بھارت میں ہونے والے انتہا پسندانہ واقعات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے تبریز انصاری کے قتل کی تفتیش کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ جس پر بھارت کی ہٹ دھرمی اس حد تک رہی کہ اس نے اس مطالبے کو یکسر مسترد کرتے ہوئے اسے بھارت کا اندرونی مسئلہ قرار دیا۔ بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ جو سلوک کیا جا رہا ہے وہ دنیا کی انسانیت کو بیدار کرنے کے لیے کافی ہے۔ کشمیر میں ریاستی جبر و استحصال گزشتہ 70 سالوں سے جاری ہے۔ اقوام متحدہ کی قرار داد کے باوجود بھارت نے کشمیریوں کو ان کا حق خود ارادیت نہیں دیا۔
بھارت میں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے خلاف ہونے والے پُر تشدد واقعات کے بعد بھارتی حکومت اس لائق ہے کہ اسے ایک دہشت گرد حکومت قرار دیا جائے۔ کم سے کم اسلامی ممالک کی مشترکہ تنظیم او، آئی، سی کو چاہیے کہ وہ اس پر اپنا بھرپور احتجاج ریکارڈ کرائے۔
مودی حکومت بھارت کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے میں تو ناکام رہی لیکن اس نے جذبات کو انگیخت کر کے قوم کو انتشار کی جس راہ پر لگایا ہے اس کا یقینی نتیجہ ہلاکت و بربادی ہے۔ بھارت میں رہنے والے انسانیت پسند افراد – خواہ ان کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو، بالخصوص ہمارے وہ بھائی جو ہندو مت سے تعلق رکھتے اور ساتھ ہی دوسرے مذاہب کی بھی عزت کرتے ہیں اور ان کے حقوق تسلیم کرتے ہیں- کو چاہیے کہ ظلم و نا انصافی کے خلاف اپنی آواز بلند کریں اپنے معاشرے کو تباہی سے بچائیں کیونکہ ان حالات میں ان کی خاموشی پوری قوم کی یقینی بربادی کے مترادف ہے۔

امت مسلمہ کی غفلت – اداریہ


الواقعۃ شمارہ: 72 – 73 جمادی الاول جمادی الثانی 1439ھ

از قلم : محمد تنزیل الصدیقی الحسینی

نئے عیسوی سال کی آمد کے ساتھ امت مسلمہ نئے مشکلات سے ہمکنار ہوئی۔ طاغوتی قوتوں کی پیش قدمی مسلسل جاری ہے اور امت مسلمہ کی غفلت اور سراسیمگی بدستور بر قرار۔ کو پڑھنا جاری رکھیں

حلب نہیں، امت مسلمہ کا قلب جل گیا ہے


الواقعۃ شمارہ : 58 ، ربیع الاول 1438ھ

از قلم : محمد تنزیل الصدیقی الحسینی

شام کی سر زمین مسلمانوں کے خون سے سرخ آلود ہوگئی۔ کبھی یہاں خوب صورت باغات تھے اور لہلہاتے گلستاں۔ لیکن اب یہ اجڑا دیار ہے، جہاں گلتی سڑتی لاشوں کی بو اور مسمار ہوتی عمارتوں کا ملبہ ہے۔ آئندہ نسلیں جب کبھی یہاں فصل کی بوج بوئیں گی تو مجھے یقین ہے اس فصل میں شامی مسلمانوں کے خون کی بو بھی در آئے گی۔ سنا ہے کہ یہاں زیتوں کے باغات بھی ہوا کرتے تھے اور اپنے معیار کے اعتبار سے یہ دنیا کے عمدہ ترین زیتون ہوتے تھے لیکن آئندہ نسلیں جب زیتون کے باغات کی آبیاری کریں گی تو کچھ بعید نہیں کہ یہاں کے زیتون کے رنگ میں مسلمانوں کے لہو کی آمیزش بھی ہو۔

فرعون مر گیا ، مگر فرعون محض ایک شخص نہیں تھا جو مر جاتا، وہ درندگی کی علامت تھا۔ انسانی حیوانیت کی معراج تھا۔ بچوں کو قتل کرنے کی جو رسم اس نے شروع کی تھی آج کی اس مہذب دنیا میں اس کے پیروکار اسی فرعونی رسم کا احیاء کر رہے ہیں۔ بشار الاسد کو بشارت ہو دنیا اسے کبھی نہیں بھولے گی۔ وہ اسلامی تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔ اس کی فرعونیت، بہیمیت اور درندگی ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔ اس نے تاریخ میں اپنے لیے اسی کردار کو منتخب کیا ہے تو اسے اسی عنوان سے یاد بھی رکھا جائے گا۔

زمین پر گرنے والاخون اگر مسلمانوں کا ہو تو نہ حقوق انسانی کے سب سے بڑے علمبردار امریکا کو کوئی تکلیف ہوتی ہے اور نہ ہی اشتراکیت زدہ روس کو۔ اقوام متحدہ بھی ایسے موقع پر خاموشی اختیار کرلیتی ہے۔ مظلومانِ شام کی بربادی میں ان سب کا مشترکہ کردار ہے۔

اور داعش کا خلیفہ کہاں ہے !! تاریخ کا وہ لمحہ یاد کرو، جب تاتاریوں میں گھری ایک عورت وا معتصماہ پکارتی ہے اور عباسی خلیفہ معتصم باللہ اس کی مدد کے لیے نکل پڑتا ہے۔ شام کی کتنی ہی مظلوم عورتیں اپنی عزت و عصمت کی حفاظت کرتے ہوئے اپنے ہی ہاتھوں ابدی نیند سو گئیں مگر خلافت اسلامیہ کے اس دعویے دار خلیفہ کی رگ حمیت نہ جاگی۔

اور وہ جو ہر سال القدس کی آزادی کی لیے ریلیاں نکالتے ہیں۔ اسی القدس پر غاضبانہ قبضہ کرنے والے اسرائیل کے ساتھ مل کر حلب کی سر زمین پر مسلمانوں کا لہو بہا رہے ہیں۔

تفو بر تو اے چرخ گرداں تفو

افسوس اس بات کا نہیں کہ حلب جل گیا افسوس تو اس بات کا ہے کہ امت مسلمہ کا قلب جل گیا ہے۔ آج ایک ارب مسلمانوں میں ایسے دو ہاتھ بھی نہیں جو بارگاہ الٰہی میں اٹھیں تو خالی نہ لوٹائے جائیں اور ایسی ایک زبان بھی نہیں جس کی صدائے دل سوز عرش الٰہی تک پہنچ کر مرتبہ اجابت حاصل کرسکے۔

یہ سب ہماری بد عملی کی سزا ہے۔ ہم بد عمل ہیں اسی لیے "وھن” کی بیماری میں مبتلا ہیں۔ لیکن وہ سب جو آج مظلوم مسلمانوں کے لہو سے اپنے ہاتھ رنگ رہے ہیں۔ خواہ شام و عراق میں ہوں یا فلسطین و کشمیر میں اور یا میانمار و فلسطین میں، بخوبی جان لیں جس دن ہم نے اپنے بد عملی سے توبہ کرلی وہ دن ان کے لیے انتہائی سخت دن ہوگا۔ ایک ایسا دن جسے چشم فلک نے آج تک نہیں دیکھا۔

اے اقوام تہذیب کے علمبردارو !

اے مساوات انسانی کے دعویدارو !

اور اے امت مسلمہ کی وحدت کا پرچار کرنے والے منافقو!

ڈرو اس دن سے جب ہم اپنے سر نہیں روح اللہ کی بارگاہ میں جھکا دیں گے۔

ڈرو اس دن سے جب ہم اپنے نفسوں کی نہیں صرف اللہ واحد قہار کی پرستش کریں گے۔

ڈرو اس دن سے جب زندگی ہمارے لیے بوجھ اور موت اللہ سے ملاقات کا ذریعہ بن جائے گی۔

ڈرو اس دن سے جب تمہارے پاس ہمیں ڈرانے کے لیے کچھ باقی نہیں رہے گا۔

کیونکہ وہ دن ہماری تاریخ بھی بدل دے گا اور تمہاری تاریخ بھی۔

٭-٭-٭-٭-٭

ایک طاقت ور اور مضبوط پاکستان


اس وقت عالمی دنیا کے حالات بہت تیزی کے ساتھ بدل رہے ہیں۔ صورت حال میں کسی درجہ ٹھہراؤ یا یکسانیت نہیں ہے۔ بالخصوص پیرس حملہ اور روس ترکی تنازع کے بعد سے اسلامی دنیا کے حالات میں مزید ابتری آئی ہے۔

پاکستان عالم اسلام کا اہم ترین ملک ہے ، اور اسلامی دنیا کی تبدیل ہوتی صورت حال سے بےگانہ رہنا بھی چاہے تو رہ نہیں سکتا کیونکہ تبدیلیاں اسے بھی تبدیل کر کے رہیں گی۔ عالمی سازشوں کے تانے بانے پاکستان ہو کر ہی گزرتے ہیں اور یہ عالمی سازش کار پاکستان کے لیے کیسے جذبات رکھتے ہیں وہ کسی اہلِ نظر سے مخفی نہیں۔

کو پڑھنا جاری رکھیں

مغرب کا تکبر اور سر پر منڈلاتی جنگ


06 maghrib ka takabur TITLE کو پڑھنا جاری رکھیں

دنیا پر حکومت کا امریکی خواب


12 Dunya me amriki hukumat TITLE

کو پڑھنا جاری رکھیں

إِن كُنتُم مُّؤۡمِنِينَ۔ اداریہ


جمادی الاول و جمادی الثانی 1435ھ / مارچ اور اپریل 2014، شمارہ 24 اور 25

إِن كُنتُم مُّؤۡمِنِينَ۔ اداریہ۔ درس آگہی۔         محمد تنزیل الصدیقی الحسینی۔ جمادی الاول و جمادی الثانی 1435ھ مارچ اور اپریل 2014، شمارہ 24 اور 25 ۔ https://alwaqiamagzine.wordpress.com/ http://al-waqia.blogspot.com/

پاکستان مخالف دنیا۔ (اداریہ)


ربیع الاول و ربیع الثانی 1435ھ جنوری اور فروری2014، شمارہ 22 اور 23AlWaqiaMagzine, Al-Waqia,  AlWaqiaMagzine.wordpress.com, Al-Waqia.blogspot.com, مجلہ الواقعۃ

کو پڑھنا جاری رکھیں

یہودی کون ہے؟ کیا ہے؟


مجلہ "الواقعۃ” شعبان المعظم 1434ھ/ جون، جولائ2013، شمارہ  15

اللہ کے دھتکارے ہوئے اور خلق کے راندھے ہوئے یہودی کا تاریخی اور نفسیاتی پس منظر.

اللہ کا دھتکارا ہوا یہودی آج اللہ کے نام لیواؤں کو دھتکار رہا ہے…کیوں؟ اسے یہ قوت کس نے دی؟

یہودی کون ہے؟ کیا ہے؟ قسط 1

"حکایت” ڈائجسٹ لاہور کا شمار ملک کے مؤقر رسائل و جرائد میں ہوتا ہے۔ ذیل کا قیمتی مضمون "حکایت” (لاہور) ستمبر ١٩٨٢ء میں طباعت پذیر ہوا ۔
اس کے مضمون نگار  "حکایت” کے بانی و مدیر جناب عنایت اللہ ( ١٩٢٠ء – ١٩٩٩ء ) ہیں ۔ ان کا تعلق پاکستان آرمی سے تھا۔ ریٹائر ہونے کے بعد انہوں نے خود کو ہمہ وقت علم و ادب سے منسلک کرلیا ۔
انہوں نے اپنے قلم کی طاقت سے ایک با شعور ادب تخلیق کیا ۔ ان کے متعدد ناول طباعت پذیر ہوئے اور قارئین نے انہیں بے حد سراہا ۔ ان کے یادگار ناولوں میں "داستان ایمان فروشوں کی”، "اور ایک بت شکن پیدا ہوا”، "
شمشیر بے نیام”، "دمشق کے قید خانے میں”، "اور نیل بہتارہا”، "حجاز کی آندھی”، "فردوس ابلیس”، "طاہرہ” وغیرہا شامل ہیں۔ ذیل کا مضمون بھی ان کی اعلیٰ ادبی صلاحیتوں کا مظہر ہے ۔ گو اس عرصے میں گردش لیل و نہار کی کتنی ہی ساعتیں گزر گئیں ۔ مگر اس مضمون کی افادیت آج بھی برقرار ہے ۔ اسی وجہ سے "حکایت” کے شکریے کے ساتھ یہ مضمون قارئینِ "الواقعة” کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے ۔
تاہم قارئین دوران مطالعہ پیش نظر رکھیں کہ یہ مضمون ١٩٨٢ء کا تحریر کردہ ہے۔ (ادارہ  الواقعۃ)

 
جون ١٩٦٧ء کی عرب اسرائیل کی جنگ  (Arab Israel War June 1967) میں اسرائیلیوں نے بیت المقدس پر قبضہ کر لیا تو ان کے مذہبی پیشواؤں اور سیاسی لیڈروں نے کہا تھا کہ ہم (یہودی ) دو ہزار سال بعد اپنے گھر واپس آگئے ہیں ۔ اسی جنگ میں انہوں نے اسرائیل کے ارد گرد عربوں کے بیشمار علاقے پر قبضہ کرلیا تھا ۔ مسلمان ممالک کی افواج نے اتحاد کے فقدان کی وجہ سے اسرائیلیوں سے بہت بری شکست کھائی ۔ اس کے بعد اقوام متحدہ  (united nations)میں تقریروں ، قراردادوں اور مذاکرات کا وہ سلسلہ شروع ہوگیا جو چل تو پڑتا ہے مگر کسی انجام کو نہیں پہنچتا ۔
 
اسرائیلیوں نے اقوام متحدہ کی کسی ایک بھی تقریر اور ایک بھی قرارداد کی پروا نہ کی ۔ انہوں نے مقبوضہ علاقوں میں اپنی نئی بستیاں آباد
کرنی شروع کردیں ۔ شام کی جنگی اہمیت کے کوہستانی علاقے گولان کی بلندیوں پر بھی اسرائیلیوں نے ١٩٦٧ء کی چھ روزہ جنگ میں قبضہ کر لیا تھا ۔ وہاں انہوں نے پختہ اور مستقل مورچہ بندی قائم کرلی ۔ اسرائیلیوں کے اس روّیے اور اقدامات سے صاف پتہ چلتا تھا کہ وہ مقبوضہ علاقے نہیں چھوڑیں گے ۔ کو پڑھنا جاری رکھیں