تاریخ پاکستان کا خلاء — ایک با کردار قیادت


الواقعۃ شمارہ 48 – 49 جمادی الاول و جمادی الثانی 1437ھ

از قلم : محمد تنزیل الصدیقی الحسینی

پاکستان کی نظریاتی سرحدیں عرصہ ہوا پامال ہو چکی ہیں ، اب تو اس نظریے کی لاش کے چیتھڑے اڑائے جا رہے ہیں۔ پاکستان اسلام کےنام پر وجود میں آیا، کم سے کم برصغیر کے مسلمانوں کو یہی جذباتی نعرہ دیا گیا۔ لیکن روزِ اوّل ہی سے یہاں اسلام کا دیس نکالا رہا۔ آقاؤں کے چہرے بدلے، غلامی کے انداز بدلے۔ باقی سب کچھ وہی رہا۔ مرعوب زدہ ذہنیت نے مسند اقتدار سنبھال لی۔ اسلام کا مذاق اڑانے کی رسم چل پڑی ، کھل کر کہنے کی جرات نہ ہوئی تو "مولوی” پر غصہ نکالا گیا۔ لیکن تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے۔ غلامی سے بغاوت ، اور بغاوت سے انقلاب کا عمل جاری رہے گا۔ کو پڑھنا جاری رکھیں

اصنام – قسط 1


الواقعۃ شمارہ 46 ربیع الاول 1437ھ

از قلم : کلیم الدین احمد

کلیم الدین احمد ( 1908ء – 1983ء ) اردو و انگریزی کے مشہور ادیب ، شاعر و نقاد تھے۔ وہ صادق پور پٹنہ کے ممتاز مجاہد خانوادے سے تعلق رکھتے تھے۔ اصناف شعر و ادب سے متعلق ان کی متعدد کتابیں ہیں۔ 1981ء میں بھارتی حکومت نے انہیں ادب کے لیے بہترین خدمات انجام دینے پر ” پدم شری ” اعزاز سے بھی نوازا۔ ” اصنام ” ان کی توحیدی مزاج کی حامل ایک گراں قدر تحریر ہے ، اصل تحریر انگریزی میں ہے ، اس کا اردو ترجمہ جناب محمد عطاء اللہ خان نے کیا جو نیشنل بک فاؤنڈیشن اسلام آباد سے 1992ء میں منظر شہود پر آیا۔ اس کی افادیت کے پیش نظر قارئین الواقعۃ کے لیے یہ کتابچہ قسط وار شائع کیا جا رہا ہے۔ مطبوعہ نسخے میں قرآنی آیات درج نہیں تھے صرف ترجمے پر اکتفا کیا گیا تھا تاہم ادارہ الواقعۃ نے قرآنی آیات کا اندراج بھی کر دیا ہے۔ ( ادارہ )

٭  ٭  ٭  ٭  ٭ کو پڑھنا جاری رکھیں

انتخابی نظام – اسلامی ہدایات کی روشنی میں


الواقعۃ شمارہ 47 ربیع الثانی  1437ھ

از قلم : محمد تنزیل الصدیقی الحسینی

اسلام نے زندگی کے ہر ہر گوشے کے لیے خواہ وہ انفرادی ہو یا اجتماعی، سامانِ ہدایت و رہبری فراہم کیا ہے۔ کچھ امور کا تعلق فرد کی اپنی ذات سے ہوتا ہے اور کچھ امور اجتماعیت کے متقاضی ہوتے ہیں۔ فرد کی اپنی غلطیاں صرف اسی پر یا زیادہ سے زیادہ اس سے منسلک افراد پر ہی اثر انداز ہوتی ہیں۔ جبکہ اجتماعی امور پورے معاشرے کو متاثر کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے ” اجتماعیت ” اور اجتماعی نظام کے استحکام پر بہت زور دیا ہے۔ اسلام کے اجتماعی ( سیاسی و معاشرتی ) نظام کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ بہت سادہ و سلیس اور فطری تقاضوں سے ہم آہنگ ہے۔ سر دست ہمارا موضوعِ بحث و تحقیق اسلام کا انتخابی نظام ہے۔ اس سلسلے میں اسلام نے پہلے چند سادہ اور نہایت عام فہم ہدایات دی ہیں کہ جن کی مکمل پاسداری سے مستقبل کے بہیترے مفسدات کی راہ ہی مسدود ہو جاتی ہے۔ مثلاً

کو پڑھنا جاری رکھیں

ان شاء اللہ کے ساتھ مذاق


الواقعۃ شمارہ 47 ربیع الثانی  1437ھ

از قلم : ایس ، اے ، ساگر

صبح سے شام تک انسان اپنی بول چال میں جانے کتنی مرتبہ کوئی وعدہ یا ارادہ کرتا ہے۔کیا ہی اچھا ہو کہ اس موقع پر یہ یقین کر لیا جائے کہ یہ اللہ کی مرضی کے بغیر بھلا کیسے ہو سکتا ہے، اسی نیت کے ساتھ مختصر سا جملہ ” ان شاء اللہ ” کہنے میں کچھ خرچ نہیں ہوتا ۔لیکن اس کا کیا کیجئے کہ بعض بدنیت قسم کے لوگوں نے اس کلمہ استثنا کو اپنی بد نیتی پر پردہ ڈالنے کے لیے ڈھال بنا رکھا ہے مثلاً ایک شخص اپنے سابقہ قرضہ کی ادائیگی یا  نئے قرض کے لیے قرض خواہ سے ایک ماہ کا وعدہ کرتا ہے اور ساتھ ان شاء اللہ بھی کہہ دیتا ہے مگر اس کے دل میں یہ بات ہوتی ہے کہ اپنا کام تو چلائیں پھر جو ہوگا دیکھا جائے گا اور جب مدت مقررہ کے بعد قرض خواہ اپنے قرض کا مطالبہ کرتا ہے تو کہہ دیتا کہ اللہ کو منظور ہی نہ ہوا کہ میرے پاس اتنی رقم آئے کہ میں آپ کو ادا کرسکوں وغیرہ وغیرہ عذر پیش کر دیتا ہے۔ ایسے بد نیت لوگوں نے اس کلمہ استثناء کواس قدر بدنام کر دیا ہے کہ جب کوئی اپنے وعدہ کیساتھ ان شاء اللہ کہتا ہے تو سننے والا فوراً کہتا ہے کہ اس کی نیت بخیر نہیں ہے جبکہ یہ اللہ کی آیات سے بد ترین قسم کا مذاق ہے جس کا کوئی صاحب ایمان شخص تصور بھی نہیں کر سکتا۔ کو پڑھنا جاری رکھیں

اسلامی جمہوریہ پاکستان کی شکست و ریخت کا صیہونی پلان اور اس کی تکمیل


الواقعۃ شمارہ 47 ربیع الثانی  1437ھ

از قلم : پروفیسر حبیب الحق ندوی

” فلسطین اور بین الاقوامی سیاسیات ” پروفیسر حبیب الحق ندوی مرحوم کی ایک انتہائی گراں قدر محققانہ تصنیف ہے۔ یہ کتاب 1976ء میں کراچی سے طبع ہوئی تھی۔ ذیل کا مضمون اسی کتاب سے ماخوذ ہے۔ امید ہے قارئین ” الواقعۃ ” کے لیے اس کی طباعت نَو مفید ثابت ہوگی۔ ( ادارہ )

*…*…*…*…*

بین الاقوامی سازشوں نے دسمبر 1971ء میں دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست کو بزور قوت دو ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا اور اقوام متحدہ ، جو در حقیقت نیتشے کے فلسفہ قوت کا مظہر ہے ، پاکستانی شکست و ریخت کا تماشہ دیکھتا رہا ۔[1] اقوام متحدہ پر صیہونی کنٹرول اور سامراج کے ساتھ اس کا گٹھ جوڑ اظہر من الشمس ہے۔ کو پڑھنا جاری رکھیں

میں معذرت نہیں کروں گا


الواقعۃ شمارہ 46 ربیع الاول 1437ھ

از قلم : خالد المعینا

پیرس حملوں میں 130 افراد کی ہلاکت کا واقعہ دس دن گزرنے کے باوجود ابھی تک میڈیا کی سرخیوں میں ہے اور دنیا بھر میں سوشل میڈیا کی توجہ کا اولین مرکز بھی بنا ہوا ہے۔ اس واقعہ سے چند دن قبل بیروت کے نواح میں ایک خودکش بمبار نے دھماکے سے 40 افراد کو ہلاک کر دیا تھا اور صحرائے سیناء میں روسی طیارہ مار گرایا گیا تھا جس میں 200 سے زائد مسافر ہلاک ہوئے تھے۔ دونوں واقعات کی ذمہ داری داعش نے قبول کی تھی۔

کو پڑھنا جاری رکھیں

عربی زبان کی اہمیت


الواقعۃ شمارہ 46 ربیع الاول 1437ھ

از قلم : ابو عمار سلیم

عربی زبان کا شمار دنیا کی بڑی زبانوں میں ہوتا ہے۔ انگریزی اور فرانسیسی زبان کے بعد عربی دنیا کی تیسری بڑی زبان ہے۔ اس زبان کے بولنے اور جاننے والے دنیا کے بہت بڑے حصہ میں پائے جاتے ہیں۔ یہ ستائیس ممالک کی سرکاری زبان ہے اور  دنیا بھر میں اس کے بولنے والے تقریباً 35  کروڑ افراد ہیں اور وہ افراد اس سے مستزاد ہیں جن کی مادری زبان عربی نہیں ہے لیکن وہ عربی ایسے جانتے ہیں جیسے کہ اپنی مادری زبان۔ اور ان سب سے اوپر یہ کہ ،  یہ زبان دنیا بھر کے تقریباً ایک ارب ستر کروڑ کے لگ بھگ مسلمانوں کی مذہبی زبان ہے اور وہ عربی جانتے ہوں یا نہ جانتے ہوں انہیں یہ زبان کس طرح عزیز ہے اس کا اندازہ غیر مسلم لوگ نہیں لگا سکتے۔ ہمارا یہ ایمان ہے کہ یہ آسمانوں کی ، اللہ کی ، اللہ کے فرشتوں کی اور جنت کی زبان ہے۔ قرآن مجید کی تلاوت اور پھر اس کو یاد کرنا اور اپنی نمازوں میں اس کو ہر روز پڑھنا ایک عام معمول ہے۔

عربی زبان اپنی ہئیت اور طریقہ بناوٹ سے آرامی اور عبرانی زبانوں سے بنی ہوئی لگتی ہے یا یہ کہا جائے کہ یہ  تینوں زبانیں ایک دوسرے سے ملتی جلتی ہیں۔ قرآن مجید کی عربی اس زبان کا اصل اصول ہے۔ اور قرآن کی زبان اور اس کے قوائد ہی اس زبان کی بنیاد سمجھے جاتے ہیں۔ قرآن کی عربی  ہی دراصل ادبی عربی ہے۔ اس کو  Classical Arabic کہتے ہیں۔ عام بول چال کی عربی زبان قدرے مختلف ہوتی ہے اور مختلف علاقوں میں اس کا انداز الگ الگ ہے۔ بلکہ بعض اوقات تو ایسا ہوتا ہے کہ کسی ایک علاقہ کی بول چال کی عربی ایک دوسرے علاقے کے رہنے والے کی سمجھ میں آتی ہی

موجودہ دور کی عربی جس میں عام تقریر و تحریر کو جدید عربی کہا جاتا ہے اپنی ترکیب اور ہئیت میں تھوڑا سا مختلف ہے۔ موجودہ دور کی ایجادات ، نئی نئی چیزوں کی آمد اور ان کا استعمال اور ان کے نام جو عربی زبان سے ماخوذ نہیں عربی میں استعمال ہوکر کچھ مختلف ہو گئے۔ اسی طرح دیگر ثقافتوں اور زبانوں کی عربوں کے علاقوں میں آ جانے کی وجہ سے بھی ان الفاظ اور زبانوں کا عربی میں استعمال شروع ہو گیا اور بہت سے الفاظ جو باہر سے آئے ان کو عربی گرائمر کے اصولوں کے تحت عربی سے نزدیک کر لیا گیا مگر ایک بہت بڑی تعداد ان الفاظ کی بغیر کسی رد و بدل کے عربی زبان میں بھی مستعمل ہو گئے اور شائد یہ کسی حد تک جائز بھی ہے۔ ہوائی جہاز جب آیا تو اس کو عربی کے قریب لانے کے لیے پرندہ یا اڑنے والی چیز سے موسوم کر دیا گیا اور طیارہ بنا دیا۔ مگر بعض الفاظ جیسے ٹیکنیک کا کوئی بدل نہ ملا تو تکنیک  بنا کر استعمال کرلیا گیا۔ ٹیلیفون کو ہاتف بنا دیا گیا اس لیے کہ ہاتف کا عربی میں مطلب یہ ہے کہ کوئی ایسی آواز جو بہت دور سے آ رہی ہو مگر اس کا بولنے والا دکھائی نہ دے اور فون میں یہی کچھ ہوتا ہے۔ الغرض ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں اور ان پر غور کر کے ایک لمبی فہرست تیار کی جا سکتی ہے۔ ایسی زبان آج کل جدید عربی یا پھر بین الاقوامی  طور  پر Modern Arabic  کہلاتی ہے۔ اور آج یہی زبان ٹیلی ویزن ، خبروں اور عام بول چال میں استعمال ہوتی ہے اور تقریباً ہر علاقہ کے لوگ اسے بآسانی سمجھتے بھی ہیں۔نہیں۔ لیکن جب بات آ جائے ادبی تحاریر کی یا لکھی ہوئی عربی کی اور انشائیہ پردازی کی تو ہر علاقہ کے لوگ ایک ہی طرز کی عربی پر اتر آتے ہیں جو ہر ایک کی سمجھ میں آتی ہے اور کوئی اجنبیت باقی نہیں رہتی۔ یہ اعجاز ہے قرآن کا جو دنیا کے ہر مسلمان کے دل و دماغ میں اس طرح گھر کیے ہوئے ہے کہ جب اس کے اصول و ضوابط کی بات ہوتی ہے تو کوئی اختلاف باقی نہیں رہتا۔ قرآن مجید عربی زبان کی بہتریں تصنیف ہے جس کے ادبی محاسن پر پچھلے پندرہ سو برسوں سے غور و خوض ہو رہا ہے اور نئی نئی چیزیں سامنے آ رہی ہیں۔ اور کیوں نہ ہو کہ یہ اللہ تعالی کی کتاب ہے۔ جب ہی تو اللہ نے چیلنج کیا کہ ایسی کوئی ایک سورة  ہی بنا لاؤ اور پھر یہ کہہ کر اس بات کوانتہائی شدید طریقہ سے واضح کر دیا کہ تم ایسا کچھ کر ہی نہیں سکتے اور یہ دعویٰ آج بھی بلکہ قیامت تک کے لیے سچ ہی ہے اور ناقابل شکست۔

غیر مسلم اغیار نے جہاں مسلمانوں کو ہر محاذ پر نیچا دکھانے کی ہمیشہ کوشش کی تو وہاں ہی انہوں نے عربی زبان کی مقبولیت اور اس کی ترویج کی رکاوٹوں کے لیے اپنی طرف سے اپنی دشمنی سے گریز نہیں کیا۔ اسلام کی آمد کے بعد اور پھر اسلامی فتوحات کے ساتھ ساتھ جہاں مفتوح علاقہ کے لوگوں کی مذہبی اور ثقافتی روایات میں تبدیلیاں واقع ہوئیں وہیں ان لوگوں  نے عربی زبان کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔ نتیجہ کے طور پر چند ہی برسوں میں وہ عربوں کی بود و باش روایات و ثقافت کے ساتھ ساتھ ان کی زبان کے بھی حامل ہو گئے۔ نتیجہ کے طور پر مصر ، سوڈان ، بلکہ تقریباً پورا شمالی و وسطی افریقہ، مشرق وسطہ کے اکثر ممالک کے ساتھ دیگر علاقہ کے اندر بھی یہ تبدیلی آئی اور آج یہ سارا علاقہ عرب علاقہ کہلاتا ہے ، عرب یونین کا حصہ ہے اور ہر لحاظ سے عربی ہے۔ اغیار کو مسلمانوں کی یہ ترقی اور ان کا یہ اثر بالکل بھی نہیں برداشت ہوتا تھا تو انہوں نے جہاں مسلمانوں کے خلاف ریشہ دوانیاں کیں وہاں عربی زبان اور اس کی ترویج میں بھی رکاوٹیں ڈالنی شروع کر دیں۔ اس کی ایک بہت ہی واضح مثال الجیریا کے واقع سے ملتی ہے جہاں یورپی ممالک کے قبضہ کے بعدعربی کے خلاف نفرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ قرآن مجید کو جلایا گیا، عربی مخطوطات اور ہر قسم کی  عربی کتابوں کو نذر آتش کیا گیا۔ عربی بولنا اور عربی سیکھنا سکھانا سب غیر قانونی قابل سزا عمل قرار پایا۔ عربی جس کی سرکاری زبان کی حیثیت تھی اور اسی حوالے سے الجیریا کی آبادی پچاس فی صد سے بھی زیادہ پڑھی لکھی شمار ہوتی تھی ، اس کی سرکاری حیثیت ختم ہوئی تو وہی آبادی ایک دن کے وقفہ سے جاہل قرار پائی اور Illetrate لوگوں کی تعداد  تقریباً سو فیصد ہو گئی۔

دنیا بھر کے تمام مسلمان عربی زبان کا نہ صرف احترام کرتے ہیں بلکہ اس کو ایک مقدس زبان سمجھتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ جیسا کہ پہلے کہا گیا قرآن مجید فرقان حمید ہے۔ وہ جو عربی ہیں اور جن کی مادری زبان عربی ہے وہ  تو خیر ہیں ہی اس زبان کے بولنے اور سمجھنے والے۔ مگر دیگر علاقوں کے مسلمان جو عربی نہیں جانتے وہ بھی عربی کو جاننے اور سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور اگر بہت کچھ نہ بھی کریں تو یہ ضرور کرتے ہیں کہ جتنا ممکن ہو سکے قران کی آیات کا ٹوٹا پھوٹا مطلب جان لیں۔ سر ڈھانپ کر ، با ادب ہاتھ باندھ کر خاموشی سے قران کی تلاوت سننا خواہ سمجھ میں ایک لفظ بھی نہ آ رہا ہو ، ان غیر عرب علاقے میں ایک بہت ہی عام نظر آنے والا منظر ہے۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ منظر اس لحاظ سے درست ہے ؟ کیونکہ قران ایک درس ہے اور احکامات کا مجموعہ ہے۔ اگر سمجھ میں نہ آئے تو کیا صرف اس کا اس قدر ادب کے ساتھ سننا واقعی قران کا حق ادا کرنا ہے۔ میرے خیال سے نہیں۔ قران کا ادب کرنا ، اسے پاکیزگی میں پڑھنا اور اس کی تلاوت کو غور سے سننا سب بہت ضروری ہے مگر یہ قران کا حق نہیں ہے۔ قران کا حق تو جب ادا ہوگا جب اسے پڑھا ،  یا سنا جائے تو اس کو سمجھا بھی جائے۔ قران کے احکامات ہمارے لیے ہدایت کا ذریعہ ہیں انہیں سمجھنا اور پھر ان ہدایات پر عمل کرنا انتہائی ضروری ہے اور یہی قران کے پڑھنے اور سننے کا حق ہے۔مگر یہ سب کچھ ہو کیسے۔ ہمیں عربی آتی نہیں اور ہم اس کو سیکھنے کے لیے تیار بھی نہیں۔

اگر حقیقی معنوں میں ٹھنڈے دل سے غور کیا جائے تو ہم پاکستانی لوگ اس قران کو سیکھنے کے لیے دیگر تمام اقوام عالم کی نسبت زیادہ نزدیک ہیں اور یہ ہمارے لیے نسبتاً آسان ہے۔ سب سے پہلی بات تو یہ کہ اس کا رسم الخط ہمارے رسم الخط سے ملتا ہے بلکہ ہماری اردو کی لکھائی عربی خط سے ہی وجود میں آئی ہے۔ قران ہم اسی وجہ سے بغیر عربی جانے انتہائی روانی سے اور تجوید کے تمام قوائد کے ساتھ فرفر پڑھ لیتے ہیں۔ قران مجیدمیں استعمال ہونے والے اسی نوے فیصد الفاظ ہمارے لیے مانوس ہیں۔ جہاں کہیں اجنبیت لگتی ہے ذرا سا غور کرنے کے بعد وہ بھی سمجھ میں آ جاتا ہے۔ عربی زبان کے قواعد اردو زبان کے قواعد سے بھی میل کھاتے ہیں۔ کچھ تھوڑی بہت تبدیلی ہے مگر اس میں بھی سمجھ میں نہ آنے والی کوئی چیز نہیں۔ اتنی ساری آسانی کے بعد جب کوئی دل جمعی سے عربی زبان سیکھنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کو زیادہ تکلیف نہیں ہوتی اور پھر اللہ کی مدد بھی شامل حال ہو جاتی ہے۔ میرے ایک جاننے والے صاحب کہنے لگے کہ کیا ضرورت ہے کہ عربی سیکھی جائے۔ قران کے اتنے تراجم موجود ہیں اور ایسی ایسی تفسیریں ہمارے بزرگ لکھ گئے ہیں کہ بس کتاب کھولو اور سب کچھ جان لو۔ مگر حقیقت تو یہ ہے کہ یقیناً یہ سب کچھ درست ہے مگر قران کے سنتے ہی الفاظ سمجھ میں آنے لگ جائیں اور اس کے بیان کی شیرینی کان میں رس گھولنے لگے تو قران کا اصل رنگ نظر آتا ہے۔

عربی زبان بذات خود اتنی اصولی زبان ہے کہ اس کہ چند ایک اصول سمجھ میں آ جائیں تو بہت سارے الفاظ بلکہ جملے بھی بڑی آسانی سے سمجھ میں آنے لگتے ہیں۔ اور اگر پڑھانے والا استاد اچھا اور سمجھ دار ہو تو تقریباً تین ماہ میں ایک گھنٹہ روز کے حساب سے محنت کے بعد آپ قران سنیں گے اور اس کا مطلب سمجھنا شروع ہو جائیں گے۔ یہ یاد رکھیں کہ جب ہم عربی سیکھنا چاہتے ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ تین مہینوں کے بعد ہم قران مجید کا ایک ایسا ترجمہ کر ڈالیں گے کہ ہر طرف دھوم مچ جائے گی ، استغفراللہ۔ عربی سیکھنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم اس کے قواعد اور گرائمر کو اس طرح جان لیں کہ الفاظ کے مطالب پلے پڑنے لگ جائیں۔ وگرنہ جان لیجیے وہ بزرگ جنہوں نے اپنی پوری زندگی قران کو اور اس کے محاسن کو سمجھنے میں کھپا دی  اور دنیا میں بڑے جید عالم مانے گئے وہ بھی آخر میں آکر کف افسوس ملتے دکھائی دیئے کہ ہائے کچھ بھی نہ سیکھ سکے۔

اور ان تمام باتوں کے علاوہ سب سے بڑی بات یہ کہ آپ نے جیسے ہی قران مجید کو بہترطریقہ سے سمجھنے کے لیے عربی سیکھنی شروع کر دی آپ کا شمار اللہ کے دربار میں ان خصوصی لوگوں جیسا ہونے لگ جائے گا جو اللہ کا بھیجا ہوا کلام جاننا چاہتے ہیں اور اس کے لیے کوشش کر رہے ہیں۔ آپ نے شائد حضرت عثمان بن عفان  سے  مروی وہ حدیث نبوی ﷺ  سنی ہوگی کہ ” تم میں  سے بہتر وہ ہے جو قرآن کو سیکھے اور اس کو سکھائے۔” ذرا سوچیے کہ اللہ کے دربارمیں کسی بھی وجہ سے ایک ناچیز بندے کو کوئی خصوصیت مل جائے تو اس کی قسمت کا کیا ٹھکانا۔ ثواب کا ثواب اور پھر اللہ کے حضور اس کی قربت کا ایک ذریعہ۔

مگر افسوس تو اس بات کا ہے کہ ہم لوگ یہ سب کچھ جاننے کے باوجود اس طرف توجہ دینے کو بالکل تیار نہیں۔ ہم دنیاوی تعلیم کے لیے خود بھی اور اپنے بال بچوں کو بھی انتہائی مشقت میں ڈال دیتے ہیں اور برسہا برس اس میں کھپا دیتے ہیں جس کا مطمح نظر صرف یہ ہوتا ہے کہ ایک اچھی سی نوکری ملے گی اور اچھے پیسے کمائیں گے اور گذر بسر اچھے طریقے سے ہو جائے گی۔ یعنی کل مقصود اچھے سے پیٹ کا بھرنا ہے۔ اگر میں یہ کہوں کہ آج تک نہ کسی پرندے نے ایم بی اے کیا، نہ کسی اونٹ گھوڑے نے فلسفہ کی ڈگری لی ، نہ کوئی اور جانور انجینئر یا ڈاکٹر بنا مگر روزی ہر ایک کو مل رہی ہے۔ اللہ نے صاف صاف الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ کتنے ہی پرندے اور جانور صبح کو خالی پیٹ نکلتے ہیں اور شام کو شکم سیر ہو کر واپس آتے ہیں۔ رزق کا وعدہ اللہ نے کیا ہے۔ ہمارا ایمان ہے کہ اللہ نے ہر ایک کا رزق لکھ دیا ہے جس سے نہ زیادہ ملے گا نہ کم ، اور یہ اللہ کا اٹل فیصلہ ہے۔ مگر اس کے باوجود ہم رزق کے لیے اتنی تگ و دو کرتے ہیں۔ دنیا کمانا بالکل منع نہیں ہے بلکہ اللہ نے تو قران مجید میں یہ کہا کہ دنیا سے اپنا حصہ لینا مت بھولو۔ مگر جو حاصل کرو اس کو اپنی آخرت کے لیے آگے بھیج دو۔ مگر ہم لوگ صرف دنیا کے حصول میں لگے ہوئے ہیں۔ اگر ان تمام چیزوں کے ساتھ اللہ کے کلام کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کو اپنا شعار بنا لیں تو یقیناً اللہ تعالیٰ کے اس حکم کے تحت  ” میں اوپر نیچے دائیں بائیں  سے اور ایسی جگہوں سے رزق دونگا کہ تمہیں اس کا گمان بھی نہیں ہوگا۔”  ہمیں ہر حال میں بہترین رزق نصیب ہوگا۔

آئیے اس بات کا وعدہ کریں کہ آپ میری ان گذارشات پر غور کریں گے اور اپنے قیمتی اوقات میں سے اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کی خاطر کچھ تھوڑا سا وقت نکالیں گے اور عربی زبان کو سیکھنے کے لیے اپنی کوششیں صرف کریں گے۔ اگر آپ یہ کام نیک نیتی سے کریں گے تو میرا ایمان ہے کہ اللہ کو آپ کو کبھی بھی مایوس نہیں کرے گا اور اپنے اعلان کے مطابق آپ کو ایسے طریقوں سے رزق دے گا کہ آپ نے کبھی سوچا بھی نہ ہوگا۔ آپ کے تمام معاملات میں وہ خود اپنی رضا شامل کر دے گا۔ اور آپ نہ صرف اس دنیا میں بلکہ آخرت میں بھی اللہ کی عنایات اور اس کی کرم نوازی کے حقدار ہو جائیں گے۔ ان شاء اللہ۔ یاد رکھیں کہ اللہ اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا اور یہ کہ اللہ سے زیادہ کسی کی بات سچی نہیں ہوتی۔  میری دعائیں آپ کے ساتھ ہیں۔ آپ کوشش شروع کریں اور میرے لیے بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اس ضمن میں میری کوششوں کو بھی بار آور کریں اور مجھے بھی آپ کے ساتھ اپنے قریبی لوگوں میں شامل کر لیں کہ جن پر اللہ کی بے شمار نعمتیں ہر لحظہ نازل ہوتی ہیں اور جن کے لیے اللہ کے مخصوص فرشتے دعائیں کرتے ہیں اور ان کے لیے مغفرت مانگتے رہتے ہیں۔

سیرت فاروق کے چند اوراق


الواقعۃ شمارہ 44 – 45 محرم و صفر 1437ھ

اشاعت خاص : سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ

از قلم : مولانا غلام رسول مہر

تھوڑے دنوں میں اسلام کی فوجوں نے ایران ، شام اور مصر کے ملک فتح کر لیے۔ اسلامی سلطنت کی حدیں دور دور تک پہنچ گئیں۔ صحابہ کو خیال آیا کہ خلیفۃُ المسلمین کے گزارہ کی جو رقم ہم نے مقرر کی ہے وہ بہت تھوڑی ہے۔ اسے زیادہ کر دینا چاہیے۔ لیکن کسی میں اتنی ہمت نہ تھی کہ حضرت عمر کے ساتھ کھل کر یہ بات کر سکے۔ کافی سوچ بچار کے بعد آپ کی صاحبزادی ام المومنین حفصہ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی کہ آپ مہربانی کر کے یہ بات اپنے ابا جان سے منوا دیجیے۔خلیفہ اوؔل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب اس دنیا سے رخصت ہوئے تو آپ کے بعد حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنایا گیا۔ حضرت عمر بھی خلیفہ اول کی طرح تجارت کیا کرتے تھے۔ جب خلیفہ بنے کاروبار ترک کرنا پڑا۔ چنانچہ کبار صحابہ نے مشورہ کر کے آپ کا وظیفہ مقرر کر دیا۔ جس سے آپ کے اہل و عیال کا بمشکل گزارہ ہوتا تھا۔ حضرت عمر نے خوشی سے وہ وظیفہ قبول کر لیا۔

کو پڑھنا جاری رکھیں

یک نظر بر فتوحات عہدِ فاروقی


الواقعۃ شمارہ 44 – 45 محرم و صفر 1437ھ

اشاعت خاص : سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ

از قلم : مولانا عبد الرحیم اظہر ڈیروی

نام و نسب

آپ کا نام عمر ، کنیت ابو حفص اور لقب فاروق تھا۔ الامام الحافظ المحدث ابو عمر یوسف بن عبد اللہ بن محمد  بن عبد البر بن عاصم النمری القرطبی المالکی نے آپ کا نسب اس طرح بیان کیا ہے :

عمر بن الخطاب بن نفیل بن عبد العُزیٰ بن رباح بن عبد اللہ بن قُرط بن رزاح بن عدی بن کعب القرشی العدوی ابو حفص ، اُمّہ حَنتَمۃ بنت ھاشم بن المغیرہ بن عبد اللہ بن عمر بن مخزوم۔[1]

کو پڑھنا جاری رکھیں

دین و شریعت میں فرق


03 Islam Deen Asaan TITLE کو پڑھنا جاری رکھیں