پاکستان : ایک دوراہے پر


الواقعۃ شمارہ: 72 – 73 جمادی الاول جمادی الثانی 1439ھ

از قلم : ابو عمار سلیم

۔ 2018ء کی آمد سے قبل ہی پاکستان ایک عجیب و غریب صورت حال سے دو چار ہو گیا ہے اور یہ تصویر روز بروز زیادہ پراگندہ ہوتی اور خرابی کی طرف بڑھتی نظر آ رہی ہے۔ یہ مملکت جو اسلام کے نام پر قائم ہوا تھا اپنے قیام کے فوراً بعد ہی اور سب کچھ ہو گئی اسلامی نہ رہی۔ کو پڑھنا جاری رکھیں

آئیے ! خاتمہ خیر کا نوحہ پڑھ لیں – اداریہ


الواقعۃ شمارہ : 61-62، جمادی الثانی و رجب المرجب 1438ھ

از قلم : محمد تنزیل الصدیقی الحسینی

ابھی کل کی بات تھی کہ ہمارے قلم نے حلب کی سر زمین پر آتش باری کا نوحہ لکھا تھا اور آج ادلب کی سوگوار فضا کا المیہ در پیش ہے۔ ارباب آئین و ریاست ہوں یا اصحاب منبر و محراب یا پھر ہنر مندانِ قلم و قرطاس کسی کے پاس فرصت نہیں کہ دم توڑتی لاشوں اور خوف و ہراس کی سراسیمہ فضاؤں پر ایک حرف تعزیت ہی ادا کریں۔ نغمہ شادی کے متوالوں کے پاس نوحہ غم کی فرصت کہاں ؟ کو پڑھنا جاری رکھیں

حلب نہیں، امت مسلمہ کا قلب جل گیا ہے


الواقعۃ شمارہ : 58 ، ربیع الاول 1438ھ

از قلم : محمد تنزیل الصدیقی الحسینی

شام کی سر زمین مسلمانوں کے خون سے سرخ آلود ہوگئی۔ کبھی یہاں خوب صورت باغات تھے اور لہلہاتے گلستاں۔ لیکن اب یہ اجڑا دیار ہے، جہاں گلتی سڑتی لاشوں کی بو اور مسمار ہوتی عمارتوں کا ملبہ ہے۔ آئندہ نسلیں جب کبھی یہاں فصل کی بوج بوئیں گی تو مجھے یقین ہے اس فصل میں شامی مسلمانوں کے خون کی بو بھی در آئے گی۔ سنا ہے کہ یہاں زیتوں کے باغات بھی ہوا کرتے تھے اور اپنے معیار کے اعتبار سے یہ دنیا کے عمدہ ترین زیتون ہوتے تھے لیکن آئندہ نسلیں جب زیتون کے باغات کی آبیاری کریں گی تو کچھ بعید نہیں کہ یہاں کے زیتون کے رنگ میں مسلمانوں کے لہو کی آمیزش بھی ہو۔

فرعون مر گیا ، مگر فرعون محض ایک شخص نہیں تھا جو مر جاتا، وہ درندگی کی علامت تھا۔ انسانی حیوانیت کی معراج تھا۔ بچوں کو قتل کرنے کی جو رسم اس نے شروع کی تھی آج کی اس مہذب دنیا میں اس کے پیروکار اسی فرعونی رسم کا احیاء کر رہے ہیں۔ بشار الاسد کو بشارت ہو دنیا اسے کبھی نہیں بھولے گی۔ وہ اسلامی تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔ اس کی فرعونیت، بہیمیت اور درندگی ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔ اس نے تاریخ میں اپنے لیے اسی کردار کو منتخب کیا ہے تو اسے اسی عنوان سے یاد بھی رکھا جائے گا۔

زمین پر گرنے والاخون اگر مسلمانوں کا ہو تو نہ حقوق انسانی کے سب سے بڑے علمبردار امریکا کو کوئی تکلیف ہوتی ہے اور نہ ہی اشتراکیت زدہ روس کو۔ اقوام متحدہ بھی ایسے موقع پر خاموشی اختیار کرلیتی ہے۔ مظلومانِ شام کی بربادی میں ان سب کا مشترکہ کردار ہے۔

اور داعش کا خلیفہ کہاں ہے !! تاریخ کا وہ لمحہ یاد کرو، جب تاتاریوں میں گھری ایک عورت وا معتصماہ پکارتی ہے اور عباسی خلیفہ معتصم باللہ اس کی مدد کے لیے نکل پڑتا ہے۔ شام کی کتنی ہی مظلوم عورتیں اپنی عزت و عصمت کی حفاظت کرتے ہوئے اپنے ہی ہاتھوں ابدی نیند سو گئیں مگر خلافت اسلامیہ کے اس دعویے دار خلیفہ کی رگ حمیت نہ جاگی۔

اور وہ جو ہر سال القدس کی آزادی کی لیے ریلیاں نکالتے ہیں۔ اسی القدس پر غاضبانہ قبضہ کرنے والے اسرائیل کے ساتھ مل کر حلب کی سر زمین پر مسلمانوں کا لہو بہا رہے ہیں۔

تفو بر تو اے چرخ گرداں تفو

افسوس اس بات کا نہیں کہ حلب جل گیا افسوس تو اس بات کا ہے کہ امت مسلمہ کا قلب جل گیا ہے۔ آج ایک ارب مسلمانوں میں ایسے دو ہاتھ بھی نہیں جو بارگاہ الٰہی میں اٹھیں تو خالی نہ لوٹائے جائیں اور ایسی ایک زبان بھی نہیں جس کی صدائے دل سوز عرش الٰہی تک پہنچ کر مرتبہ اجابت حاصل کرسکے۔

یہ سب ہماری بد عملی کی سزا ہے۔ ہم بد عمل ہیں اسی لیے "وھن” کی بیماری میں مبتلا ہیں۔ لیکن وہ سب جو آج مظلوم مسلمانوں کے لہو سے اپنے ہاتھ رنگ رہے ہیں۔ خواہ شام و عراق میں ہوں یا فلسطین و کشمیر میں اور یا میانمار و فلسطین میں، بخوبی جان لیں جس دن ہم نے اپنے بد عملی سے توبہ کرلی وہ دن ان کے لیے انتہائی سخت دن ہوگا۔ ایک ایسا دن جسے چشم فلک نے آج تک نہیں دیکھا۔

اے اقوام تہذیب کے علمبردارو !

اے مساوات انسانی کے دعویدارو !

اور اے امت مسلمہ کی وحدت کا پرچار کرنے والے منافقو!

ڈرو اس دن سے جب ہم اپنے سر نہیں روح اللہ کی بارگاہ میں جھکا دیں گے۔

ڈرو اس دن سے جب ہم اپنے نفسوں کی نہیں صرف اللہ واحد قہار کی پرستش کریں گے۔

ڈرو اس دن سے جب زندگی ہمارے لیے بوجھ اور موت اللہ سے ملاقات کا ذریعہ بن جائے گی۔

ڈرو اس دن سے جب تمہارے پاس ہمیں ڈرانے کے لیے کچھ باقی نہیں رہے گا۔

کیونکہ وہ دن ہماری تاریخ بھی بدل دے گا اور تمہاری تاریخ بھی۔

٭-٭-٭-٭-٭

دجال کے قدموں کی آہٹ سنائی دیتی ہے


الواقعۃ شمارہ : 53 – 54 ، شوال المکرم و ذیقعد 1437ھ

از قلم : محمد تنزیل الصدیقی الحسینی

حادثے اس تیزی سے رونما ہو رہے ہیں کہ واقعات کا اعتبار اٹھ سا گیا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جسے زمانہ پرورش کر رہا تھا برسوں ، وہ حادثے اب رونما ہو رہے ہیں۔ عالم اسلام پر ہر طرف سے یلغار ہی یلغار ہے۔ چمنستانِ اسلام کا کونسا گوشہ ہے جو درد و الم کی سسکیوں اور آہ و غم کی صداؤں کے شور سے بوجھل نہیں۔ وہ کونسی فصل ہے جس کی آبیاری خونِ مسلم سے نہیں ہو رہی۔ کو پڑھنا جاری رکھیں

ترکی : عزیمت کے راستے پر یا ۔۔۔۔۔۔۔


الواقعۃ شمارہ 53 – 54 ، شوال المکرم و ذیقعد 1437ھ

از قلم : ابو عمار سلیم

15 جولا ئی 2016 ء کو رات کے 10بجے ترک فوج کے ایک باغی دستے نے اچانک فوجی بغاوت کا اعلان کردیا اور حکومت کی مشینری کے مختلف اداروں پر قبضہ کرلیا۔ ان لوگوں نے مختلف جگہوں پر فائرنگ بھی کی، ٹینک بھی سڑک پر نکل آئے اورفضائیہ کے طیاروں اور ہیلی کاپٹروں کے ذریعہ سے پولیس کی عمارت پر اور دیگر کئی اور حکومتی عمارتوں پر فائرنگ بھی کی گئی اور بمباری بھی کی گئی ،اور یوں دیکھتے ہی دیکھتے دو ڈھائی سو نہتے اور معصوم لوگ اس حملے کا شکار ہوگئے۔ اور تقریبا ً دو ہزار سے اوپر افراد زخمی ہوئے۔ اس تمام کارروائی کے دوران ہی ترکی کے صدر طیب اردگان کو پڑھنا جاری رکھیں

اسلامی جمہوریہ پاکستان کی شکست و ریخت کا صیہونی پلان اور اس کی تکمیل


الواقعۃ شمارہ 47 ربیع الثانی  1437ھ

از قلم : پروفیسر حبیب الحق ندوی

” فلسطین اور بین الاقوامی سیاسیات ” پروفیسر حبیب الحق ندوی مرحوم کی ایک انتہائی گراں قدر محققانہ تصنیف ہے۔ یہ کتاب 1976ء میں کراچی سے طبع ہوئی تھی۔ ذیل کا مضمون اسی کتاب سے ماخوذ ہے۔ امید ہے قارئین ” الواقعۃ ” کے لیے اس کی طباعت نَو مفید ثابت ہوگی۔ ( ادارہ )

*…*…*…*…*

بین الاقوامی سازشوں نے دسمبر 1971ء میں دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست کو بزور قوت دو ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا اور اقوام متحدہ ، جو در حقیقت نیتشے کے فلسفہ قوت کا مظہر ہے ، پاکستانی شکست و ریخت کا تماشہ دیکھتا رہا ۔[1] اقوام متحدہ پر صیہونی کنٹرول اور سامراج کے ساتھ اس کا گٹھ جوڑ اظہر من الشمس ہے۔ کو پڑھنا جاری رکھیں

مغرب کا تکبر اور سر پر منڈلاتی جنگ


06 maghrib ka takabur TITLE کو پڑھنا جاری رکھیں

ایک اور 16 دسمبر ……………


شمارہ 34 اور 35، جنوری / فروری 2015

ربیع الاول و ربیع الثانی  1436ھ

01 Idaria Ttileدرس آگہی (اداریہ)

کو پڑھنا جاری رکھیں

إِن كُنتُم مُّؤۡمِنِينَ۔ اداریہ


جمادی الاول و جمادی الثانی 1435ھ / مارچ اور اپریل 2014، شمارہ 24 اور 25

إِن كُنتُم مُّؤۡمِنِينَ۔ اداریہ۔ درس آگہی۔         محمد تنزیل الصدیقی الحسینی۔ جمادی الاول و جمادی الثانی 1435ھ مارچ اور اپریل 2014، شمارہ 24 اور 25 ۔ https://alwaqiamagzine.wordpress.com/ http://al-waqia.blogspot.com/

مسئلہ فلسطین کی نظریاتی بنیادیں


شوال 1434ھ/ اگست 2013، شمارہ  17

مسئلہ فلسطین کی نظریاتی بنیادیں

یہودی کون ہے ؟ کیا ہے ؟


شعبان المعظم، رمضان المبارک 1434ھ/ جون، جولائ، اگست 2013،
شمارہ  15، 16اور 17
یہودی کون ہے ؟ کیا ہے ؟ 
جناب عنایت اللہ
Contents in uni-code are included at the bottom of the article. To download PDF, pls click the link at the bottom.
مضمون کے آخر میں مندرجات یونی کوڈ میں بھی شامل ہیں۔ "پی ڈی ایف” ڈاؤن لوڈ کرنے لئے آخر میں دیئے گئے لنک پر کلک کریں۔

یہودی کون ہے؟ کیا ہے؟ 2 جاری ہے


رمضان المبارک 1434ھ/ جولائ، اگست 2013، شمارہ 16

یہودی کون ہے؟ کیا ہے؟ 2 (جاری ہے)

جناب عنایت اللہ

١٥جولائی ١٠٩٩ء کے روز بیت المقدس پر عیسائیوں کا قبضہ ہوگیا ۔

٢اکتوبر ١١٨٧ء کے روز سلطان صلاح الدین ایوبی (alāḥ ad-Dīn Yūsuf ibn Ayyūb)  نے عیسائیوں کو شکست دے کر بیت المقدس پر قبضہ کیا ۔ وہ جمعہ کا دن تھا ۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے مسجدِ اقصیٰ سے صلیبیں اٹھوا کر وہاں نماز پڑھی ۔

فلسطین پر مسلمانوں کی حکومت ١٩١٧ء تک رہی ۔ فلسطین میں یہودیوں کی آبادی نہ ہونے کے برابر رہ گئی تھی ۔ وہ ساری دنیا میں بکھرے ہوئے تھے ۔ وہ ہر سال بیت المقدس میں زائرین کی حیثیت سے جاتے اور یہ الفاظ دہراتے رہے —” آئندہ سال یروشلم میں  — وہ اس عزم کا زبانی اعادہ کرتے رہے کہ وہ ایک نہ ایک دن مسجدِ اقصیٰ کو مسمار کرکے یہاں ہیکلِ سلیمانی تعمیر کریں گے ۔ کو پڑھنا جاری رکھیں

یہودی کون ہے؟ کیا ہے؟


مجلہ "الواقعۃ” شعبان المعظم 1434ھ/ جون، جولائ2013، شمارہ  15

اللہ کے دھتکارے ہوئے اور خلق کے راندھے ہوئے یہودی کا تاریخی اور نفسیاتی پس منظر.

اللہ کا دھتکارا ہوا یہودی آج اللہ کے نام لیواؤں کو دھتکار رہا ہے…کیوں؟ اسے یہ قوت کس نے دی؟

یہودی کون ہے؟ کیا ہے؟ قسط 1

"حکایت” ڈائجسٹ لاہور کا شمار ملک کے مؤقر رسائل و جرائد میں ہوتا ہے۔ ذیل کا قیمتی مضمون "حکایت” (لاہور) ستمبر ١٩٨٢ء میں طباعت پذیر ہوا ۔
اس کے مضمون نگار  "حکایت” کے بانی و مدیر جناب عنایت اللہ ( ١٩٢٠ء – ١٩٩٩ء ) ہیں ۔ ان کا تعلق پاکستان آرمی سے تھا۔ ریٹائر ہونے کے بعد انہوں نے خود کو ہمہ وقت علم و ادب سے منسلک کرلیا ۔
انہوں نے اپنے قلم کی طاقت سے ایک با شعور ادب تخلیق کیا ۔ ان کے متعدد ناول طباعت پذیر ہوئے اور قارئین نے انہیں بے حد سراہا ۔ ان کے یادگار ناولوں میں "داستان ایمان فروشوں کی”، "اور ایک بت شکن پیدا ہوا”، "
شمشیر بے نیام”، "دمشق کے قید خانے میں”، "اور نیل بہتارہا”، "حجاز کی آندھی”، "فردوس ابلیس”، "طاہرہ” وغیرہا شامل ہیں۔ ذیل کا مضمون بھی ان کی اعلیٰ ادبی صلاحیتوں کا مظہر ہے ۔ گو اس عرصے میں گردش لیل و نہار کی کتنی ہی ساعتیں گزر گئیں ۔ مگر اس مضمون کی افادیت آج بھی برقرار ہے ۔ اسی وجہ سے "حکایت” کے شکریے کے ساتھ یہ مضمون قارئینِ "الواقعة” کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے ۔
تاہم قارئین دوران مطالعہ پیش نظر رکھیں کہ یہ مضمون ١٩٨٢ء کا تحریر کردہ ہے۔ (ادارہ  الواقعۃ)

 
جون ١٩٦٧ء کی عرب اسرائیل کی جنگ  (Arab Israel War June 1967) میں اسرائیلیوں نے بیت المقدس پر قبضہ کر لیا تو ان کے مذہبی پیشواؤں اور سیاسی لیڈروں نے کہا تھا کہ ہم (یہودی ) دو ہزار سال بعد اپنے گھر واپس آگئے ہیں ۔ اسی جنگ میں انہوں نے اسرائیل کے ارد گرد عربوں کے بیشمار علاقے پر قبضہ کرلیا تھا ۔ مسلمان ممالک کی افواج نے اتحاد کے فقدان کی وجہ سے اسرائیلیوں سے بہت بری شکست کھائی ۔ اس کے بعد اقوام متحدہ  (united nations)میں تقریروں ، قراردادوں اور مذاکرات کا وہ سلسلہ شروع ہوگیا جو چل تو پڑتا ہے مگر کسی انجام کو نہیں پہنچتا ۔
 
اسرائیلیوں نے اقوام متحدہ کی کسی ایک بھی تقریر اور ایک بھی قرارداد کی پروا نہ کی ۔ انہوں نے مقبوضہ علاقوں میں اپنی نئی بستیاں آباد
کرنی شروع کردیں ۔ شام کی جنگی اہمیت کے کوہستانی علاقے گولان کی بلندیوں پر بھی اسرائیلیوں نے ١٩٦٧ء کی چھ روزہ جنگ میں قبضہ کر لیا تھا ۔ وہاں انہوں نے پختہ اور مستقل مورچہ بندی قائم کرلی ۔ اسرائیلیوں کے اس روّیے اور اقدامات سے صاف پتہ چلتا تھا کہ وہ مقبوضہ علاقے نہیں چھوڑیں گے ۔ کو پڑھنا جاری رکھیں