الواقعۃ شمارہ 50 ، رجب المرجب 1437ھ
از قلم : محمد تنزیل الصدیقی الحسینی
اسلام کی چودہ سو سالہ تاریخ میں ایسا پُر آشوب دور پہلے کبھی نہیں آیا۔ مسلم امہ بحیثیت مجموعی ہر اعتبار سے زوال پذیر ہو گئی ہے۔ سیاسی زوال سے بھی کہیں بڑھ کر جس المیہ کا ہمیں رونا ہے وہ ہمارا روحانی و اخلاقی انحطاط ہے۔ ایک قوم یا ملت ہر قسم کے مادی وسائل سے محروم ہوجانے کے بعد دوبارہ انہیں حاصل کر سکتی ہے مگر اخلاقی جواز کھو دینے اور اپنی اصل کو فراموش کردینے کے بعد قوم اپنی شناخت ہی کھو دیتی ہے۔ اس کے بعد کوئی ترقی یا کامیابی کچھ معنی نہیں رکھتی۔
افسوس اس دور جدید میں جب کہ الفاظ اپنی معنویت کھو رہے ہیں دعوت حق کے اسرار بھی کہیں دفن ہو گئے ہیں۔ ایک واضح اور انتہائی معلوم حقیقت بھی ہماری بصیرتوں کے لیے حجاب بن گئی ہے۔
دنیا نے ہر دور میں داعیانِ حق پرست کی نا قدری کی ہے۔ مگر وہ جس بازارِ جنس کے خریدار ہیں اس کی تو دنیا ہی مادیات کی سطح سے کہیں بلند ہے۔
ان اللہ اشتریٰ من المؤمنین انفسھم و اموالھم بان لھم الجنۃ ( التوبة: ١١١ )
"بلا شبہ اللہ نے مومنین کی جانوں اور ان کے مالوں کو نعیم اُخروی کے بدلے خرید لیا ہے۔”
کوئی تاجر ہو تو اسے نفع ذات مطلوب ہو۔ کسی کو حصولِ مادیت کی خواہش ہوتو اسے کھونے کا خوف بھی ہو۔ کسی کو اقتدار و سطوت کی تمنا ہو تو ناکامی کے اندیشے بھی ستائیں ، مگر یہاں کا تو عالم ہی دوسرا ہے۔
و من الناس من یشری نفسہ ابتغاء مرضات اللہ ( البقرة: ٢٠٧ )
"اور لوگوں میں سے کچھ ایسے ہیں جنہوں نے اللہ کی رضا کی جستجو میں اپنی زندگی فروخت کر دی ہے۔”
ایک شخص جب اللہ کی غلامی اختیار کر لیتا ہے اور اس کے کارخانہ دعوت کا ملازم بن جاتا ہے تو اس سے صرف ایک ہی چیز مقصود و مطلوب ہوتی ہے ، وہ ہے — اخلاص۔
اخلاص، حق پرستی کی راہ کی سب سے بڑی اور مطلوب حقیقت ہے۔ اللہ سے تجارت کا کوئی خواہشمند اخلاص کی اس قیمت کو ادا کیے بغیر کبھی اللہ سے تجارت نہیں کر سکتا۔ وہ اگر حق پرستی کی راہ میں آنے والی مشکلات سے اپنا دامن چھڑانا چاہتا ہے یا بذلِ مال و متاع سے گریز کرتا ہے یا زندگی کی رعنائیاں موت کی وحشت ناکی پر غالب آنے لگتی ہیں تو اسے چاہیے کہ وہ اپنے دل کی ساری آرزوئیں استوار کرے مگر ابتغاء مرضات اللہ کے بازار میں اپنے نرخ کے بالا ہونے کی امید نہ رکھے ۔کہ
روبازی کن عاشقی کار تو نیست
ایثار و قربانی، ایمان و عزیمت کی راہ کی سب سے بڑی اور روشن مثال حضرت صدیق اکبر کی مقدس زندگی میں ظاہر ہوتی ہے ۔ اپنا سب کچھ لٹا کر کاشانہ نبوت میں حاضر ہوتے ہیں۔ سوال ہوتا ہے ما ابقیت لاهلک ؟ اپنے اہل و عیال کے لیے کیا چھوڑ آئے ہو ؟ عرض کیا : ابقیت لهم الله و رسوله ! ان کے لیے اللہ اور اس کے رسول کو چھوڑ آیا ہوں۔
دیوانہ کنی ہر دو جہانش بخشی
دیوانہ تو ہر دو جہاں را چہ کند ؟
یہ درست ہے کہ اس مقام رفیع تک بڑوں بڑوں کو رَسائی نہیں مگر ان کےمقدس نشانِ قدم کی پیروی تو لازم ہے۔
اللہ پر یقین محکم ہی ہے جو اللہ پر توکل کو جنم دیتا ہے۔ لوگوں کو اپنے فانی مالکان پر بھروسہ ہو سکتا ہے تو اللہ کو اپنا نفس فروخت کرنے والا اپنے اس غیر فانی مالک پر اپنے توکل کی بنیادیں کیوں نہ استوار کرے ؟
افسوس ہمیں پرودگارِ عالم کی جنت تو یاد رہی۔ مگر اس جنت کی قیمت کو بھول گئے۔ ہم ایمان کے ساتھ مشروط اس تجارت کو بھول گئے ہیں جو ہم نے کلمہ لا الہ الا اللہ پڑھتے ساتھ ہی اللہ رب العزت سے کیا تھا۔
امت مسلمہ خواہ مادیت کی کیسی ہی پستی میں جا گرے اگر اللہ رب العزت سے اپنی تجارت کا ایفا کرنے کا عزم کرلے تو دنیا کی ہر طاقت کو سرنگوں کر سکتی ہے۔ کیونکہ اس تجارت میں کھونے کا کوئی خوف نہیں صرف پانے کا یقین ہے اور پانے کا یقین ہر خوف کو مٹا دیتا ہے۔ اور معلوم ہے کہ جس دل میں خوف نہ ہو اسے کوئی تسخیر نہیں کر سکتا۔
اسے پسند کریں:
پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔