المغراف فی تفسیر سورۂ ق 7


جریدہ "الواقۃ” کراچی، شمارہ  7  ذوالحجہ 1433ھ/ اکتوبر ، نومبر 2012

مولانا شاہ عین الحق پھلواروی رحمہ اللہتسہیل و حواشی :محمد تنزیل الصدیقی الحسینی

المغراف فی تفسیر سورۂ ق

قسط نمبر 7
مگر یہ دولتِ تفکر و ذکر ہر آدمی کو نصیب نہیں ہوتی ۔ اس لیے کہ
(١) انسان جب سے ہوش سنبھالتا ہے ، عالم میں ساری چیزوں کے ظاہری اسباب کو دیکھتا ہے ۔
( ٢) خود کو کھانے پینے اور دیگر ضروریات کے بہم پہنچانے میں مصروف کردیتا ہے ۔
(٣) خود کو ایسے لوگوں میں پاتا ہے جو فی الجملہ مختار بھی ہیں اور مجبور بھی ۔
(٤) جن لوگوں میں نشو و نما پاتا ہے انہیں دیکھتا ہے کہ جن باتوں میں وہ مختار ہیں ، ان کو اپنی طرف نسبت دیتے ہیں اور جن باتوں میں مجبور ہیں ان کو کسی قوت غیبی کی طرف منسوب کرتے ہیں تو یہ بھی کسی غیبی قوت کا قائل ہوجاتا ہے اور تقلیداً انہیں کا کلمہ پڑھنے لگتا ہے ۔ یہی بنیاد ہے اللہ کے ماننے کی ، جس سے کسی انسان کا دل خالی نہیں مگر اس کے تعیین میں ، تعداد میں ، طریقِ پرستش میں ہزاروں دھوکے کھاتے ہیں ۔

آزادی کیا ہے ؟ آزادی کیا نہیں ہے ؟


جریدہ "الواقۃ” کراچی، شمارہ  7  ذوالحجہ 1433ھ/ اکتوبر ، نومبر 2012

سید خالد جامعی (کراچی یونیورسٹی، کراچی)

آزادی کیا ہے ؟ آزادی کیا نہیں ہے ؟

قسط نمبر 1
ہر معاشرے میں صرف ایک قدر ہوتی ہے ، جو تما م اقدار سے ماورا ہوتی ہے۔ہر کام کو اس ایک قدر کے پیمانے پر پرکھا جاتا ہے۔یہ تصور الخیر[Good] یا اس تہذیب کا Hyper Good  ہوتا ہے۔ تمام اقدار و روایات اس تصور خیر سے ہم آہنگ ہوں گی۔ عصر حاضر میں یہ الخیر آزادی ہے۔لہٰذا عصر حاضر کے ہر معاشرے کے تصور عدل کو اس الحق الخیر تصور آزادی[Freedom] پر پرکھا جائے گا کہ معاشرہ فرد کی آزادی میں کتنا اضافہ کررہا ہے۔جو معاشرہ آزادی کے دائرہ میں جس قدر اضافہ کرے گا وہی سب سے عادل معاشرہ ہوگا ۔بہ ظاہر یہ تصور لوگوں کو اچھا لگتا ہے اور آزادی کے اس تصور پر عدل کی اس تعریف پر اس کا اصل تاریخی فلسفیانہ تناظر واضح کیے بغیر تنقید کی جائے تو لوگ مشتعل ہو جاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ انسانوں کو زنجیروں میں جکڑا جا رہا ہے ۔

عالمِ اسلامی کا انتشار


جریدہ "الواقۃ” کراچی، شمارہ  7  ذوالحجہ 1433ھ/ اکتوبر ، نومبر 2012

مولانا عبد الحامد بدایونی کی کتاب ” فلسفۂ عبادات اسلامی ” سے ماخوذ

عالمِ اسلامی کا انتشار

بدقسمتی سے ممالکِ اسلامیہ کا اپنا کوئی مشترکہ نظریۂ حیات نہیں اسی لیے وہ مغرب کا شکار ہیں ۔ باہمی تباغض و تنافر کی وجہ سے شیرازہ منتشر ہے ۔ اغیار فائدہ اٹھا کر ایک دوسرے کے خلاف لڑانے میں کامیاب ہورہے ہیں ۔ حیرت ہے کہ عالم اسلامی اپنے سرمایۂ حیات کو مغرب کی نذر کر رہا ہے جسے دیکھو وہ مجلس اقوام کی قیادت قبول کر رہا ہے ۔
افسوس جس ملّت نے دنیا کی قیادت کی وہ آج اپنے انشقاق و افتراق کی بدولت غیروں کے دامن میں پناہ لے کر اپنا مستقبل تاریک کر رہی ہے ، مغربی لعنتیں اختیار کر رہی ہے ۔

 
وطنیت کی بلائے عظیم ہر طرف عام ہے جسے دیکھو وہ وطنیت کے جذبہ سے سرشار ہے ۔ عصبیت و باہمی رقابت ترقی کر رہی ہے ۔ ان تمام تحریکات میں کفر اپنا کام کر رہا ہے ہم یہ نہیں کہتے کہ مسلمانانِ عالم دوسری اقوام اور ممالکِ غیر سے تجارتی یا سیاسی تعلقات قائم نہ کریں یا مصنوعات و ایجادات سے فائدہ نہ اٹھائیں ۔ بیشک عصر حاضرہ کی ضروریات کے لحاظ سے تعلقات قائم کرنا ضروری ہیں ، لیکن یہ کہاں کی دور اندیشی ہے کہ ہم کفّار کو اپنی سیاسیات میں اس قدر دخیل کریں کہ ہمارا سیاسی و مذہبی موقف خراب ہوجائے اور مسلمان دنیائے مغرب کے اشارات پر متحرک ہوں وہ جہاں چاہیں ممالکِ اسلامی کو استعمال کریں ۔ اغراض ان کی ہوں اور خون بہیں مسلمانانِ عالم کے ۔
 
شاطرانِ یورپ کے ہاتھوں میں ہماری سیاست تجارت و صنعت ہے ، ہمارے بازاروں میں مصنوعاتِ غیر ملکی پھیلی ہوئی ہیں ۔ دوسروں کی ایجادات و اختراعات سے ہمارے ممالک نے ابھی تک اتنا بھی فائدہ نہ اٹھایا کہ وہ اپنی اپنی جگہ یورپ کی اختراعات و ایجادات اپنے یہاں قائم کرتے ۔
 
یورپ کے لوگ کہیں تجارت کے بہانے کہیں ٹھیکوں کے ذریعہ ہمارے ممالک میں داخل ہوکر اپنے پیر جمالیتے ہیں ۔ وہ عالم اسلامی کو کسی ایک مشترک اور متحد نقطۂ نظر پر نہیں پہنچنے دیتے ۔ نہ کسی عالمگیر تحریک کو کامیاب ہونے دیتے ہیں ۔
 
فلسطین کے مسئلہ نے ایک عالمگیر صورت اختیار کی تھی مگر اسے بھی صیہونیت یہودیت کی نذر کردیا گیا ۔ یہ ہے اس دور کی مسلم کش سیاست کا سبق آموز حربہ جس سے ہماری آنکھیں کھلنا چاہیئے تھیں اگرچہ کفار کا یہ طرزِ عمل نیا نہیں بلکہ وہ آغازِ اسلام سے لے کر اب تک یہی طور و طریقے اختیار کرتے رہے ۔
 
مبارک تھے وہ جنہوں نے اپنے عزم راسخ ، عمل پیہم سے کفر کے تمام نقشوں کو خاک میں ملایا ۔ دنیا پر مسلمانوں کی سیاست چھائی وہ جہاں بھی گئے اپنے اسلامی تمدن و معاشرت کو ساتھ لے گئے ۔ اغیار ہمارے تمدّن پر عمل کرنا فخر سمجھتے تھے ۔ آج نہ ہمارا کوئی اسلامی تمدّن باقی ہے اور نہ اس کی کوشش ہے کہ ہم اپنی روایات و معاشرت کو دنیا میں پھیلائیں بلکہ ہم اپنی تمام تہذیبی و معاشرتی صورتوں کو دوسروں پر قربان کرتے جارہے ہیں ۔ یاد رکھو ! جو قوم اپنی روایات و اصول کو چھوڑدیتی ہے ، وہ ہمیشہ ذلیل و خوار ہوتی ہے ۔
 
حج ہمیں ہر سال سبق دیتا ہے کہ ہم اپنے حالات تبدیل کریں اپنا ایک موقف قائم کریں ۔ اسلامی تہذیب و تمدّن کو زندہ کریں ہمارے پاس ایک مکمل ضابطۂ حیات موجود ہے اسے دنیا میں پھیلائیں ۔ ہم میں کا ہر چھوٹا بڑا اس جامع قانون پر عمل پیرا ہو ۔
************************************************************************

اللہ کی بادشاہت


جریدہ "الواقۃ” کراچی، شمارہ  7  ذوالحجہ 1433ھ/ اکتوبر ، نومبر 2012

مولانا محمد علی قصوری

اللہ کی بادشاہت

قسط نمبر 1
الحمد للّٰھ نحمدہ و نستعینھ و نستغفرہ و نومن بھ و نتوکل علیھ و نعوذ باللّٰھ من شرور انفسنا و من سیئات اعمالنا من یھد اللّٰھ فلا مضل لھ و من یضللھ فلا ھادی  لھ و نشھد ان لا الھ الا اللّٰھ وحدھ لا شریک لھ و نشھد ان محمدا عبدھ و رسولھ صلوت اللّٰھ و سلامھ علیھ و علیٰ الھ و ازواجھ و اصحابھ و ذریاتھ و اتباعھ اجمعین الیٰ یوم الدین ارسلھ بالھدی و دین الحق لیظھرھ علی الدین کلھ و کفیٰ باللّٰھ شھیدا ، اما بعد قال اللّٰھ تبارک و تعالیٰ :

( وَ لَا تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْ نَقَضَتْ غَزْلَھَا مِنْ بَعْدِ قُوَّةٍ اَنْکَاثًا ) ( النحل )

” اس بڑھیا جیسے نہیں بنو جو اپنا محنت سے کاتا  ہوا سوت خود تار تار کردیتی تھی ۔ ”

دعائے قنوت اور ہم


جریدہ "الواقۃ” کراچی، شمارہ  7  ذوالحجہ 1433ھ/ اکتوبر ، نومبر 2012

ابو عمار سلیم

دعائے قنوت اور ہم

دعائے قنوت ایک ایسی دعا ہے جو ہمارے آقا و مولا نبی اکرم صادق الوعد اور امین ﷺ نے ہمیں سکھائی ہے۔ یہ دعا ہر مسلمان عشا کی نماز کے آخرمیں صلوٰة وتر کی تیسری رکعت میں رکوع سے قبل یا رکوع کے بعد پڑھتا ہے اور چونکہ صلوٰة وتر واجب ہے اس لیے اس دعا کا پڑھنا بھی واجب ہی قرار پائے گا۔ اور یہ بھی یاد رہے کہ تمام واجب نمازوں میں صلوٰة وتر ہی وہ نماز ہے جس کی قضا پڑھی جاتی ہے اوراس قضا میں بھی تیسری رکعت میں یہ دعا پڑھی جاتی ہے۔اور پھر یہ بھی یاد رہے کہ اگر کسی وجہ سے تیسری رکعت میں یہ دعا پڑھنی بھول جائے تو سجدہ سہو بھی واجب ہے۔ یہ تو رہی اس دعا کی اہمیت اور اس کے پڑھنے کی تلقین۔ ہم سب لوگ ہی اس دعا کو ہر روز ضرور پڑھتے ہیں مگر افسوس کا مقام ہے کہ اپنی دیگر نمازوں میں پڑھی جانے والی تمام سورتوں اور تسبیحات کی طرح بہت سے لوگوں کو یہ نہیں معلوم کہ اس کا مطلب کیا ہے۔ ہم ہاتھ باندھے با ادب قبلہ رو کھڑے ہو کر اللہ تعالیٰ  کے ساتھ چپکے چپکے دعا مانگ رہے ہیں تو وہ دعا ہے کیا۔ اس کا مطلب کیا ہے۔ بس طوطے کی طرح رٹے رٹائے جملے دہرا دیئے نہ دل اس کی طرف مائل ہے اور نہ زبان میں ان دعائیہ کلمات کی ادائیگی کے لیے کوئی جذبہ ہے۔ پھر نہ اس دعا کی ادئیگی کے بعد اس دعا کے الفاظ کا کوئی اثر ہماری زندگیوں پر مرتب ہو رہا ہے۔ گویا یہ سب ایک رسم ہے جو ادا کرنی ضروری ہے اور بغیر کسی منفعت کے ادا کی جارہی ہے۔ آئیے اس مضمون کو مزید آگے بڑھانے سے قبل دعائے قنوت اور اس کے معنی پر نظر ڈال لیتے ہیں تاکہ اس مضمون پر قلم اٹھانے کی کوئی توجیہ پیش کی جاسکے۔

اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَسْتَعِیْنُکَ وَ نَسْتَغْفِرُکَ وَ نُوْمِنُ بِکَ وَ نَتَوَکَّلُ عَلَیْکَ وَ نُثْنِیْ عَلَیْکَ اَلْخَیْرَ  ط 

” اے اللہ ! ہم آپ سے مدد چاہتے ہیں اور آپ سے معافی مانگتے ہیں اور آپ پر ایمان لا تے ہیں اور آپ پر بھروسہ کرتے ہیں اور آپ کی بہت تعریف کرتے ہیں ۔”

” وَ نَشْکُرُکَ وَ لَا نَکْفُرُکَ وَ نَخْلَعُ وَ نَتْرُکُ مَنْ یَّفْجُرُکَ  ط ”

” اور آپ کا شکر کرتے ہیں اور آپ کی ناشکری نہیں کرتے اور الگ کرتے ہیں اور چھوڑتے ہیں اس کو جو آپ کی ناشکری کرے۔”

” اَللّٰھُمَّ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ لَکَ نُصَلِّیْ وَ نَسْجُدُ وَ اِلَیْکَ نَسْعٰیْ وَ نَحْفِدَُ ۔”

”اے اللہ ! ہم آپ ہی کی عبادت کرتے ہیں اور آپ کے لیے ہی نماز پڑھتے ہیں اور سجدہ کرتے ہیں اور آپ ہی کی طرف دوڑتے ہیں اور خدمت کے لیے حاضر ہوتے ہیں ۔”

” وَ نَرْجُوْا رَحْمَتَک وَ نَخْشٰی عَذَا بَکَ اِنَّ عَذَابَکَ بِا لْکُفَّا رِ مُلْحِقْ ط ”

”اور آپ کی رحمت کے امیدوار ہیں اور آپ کے عذاب سے ڈرتے ہیں، بے شک آپ کا عذاب کافروں کو ملنے والا ہے۔”

اگر آپ نے اس دعا کو پڑھ لیا اور اس کے معنٰی پر اچھی طرح غور کر لیا ہے تو آپ نے یقیناً یہ بات بھی محسوس کر لی ہوگی کہ ہمارا طرز عمل اپنی زندگی میں ان دعائیہ الفاظ سے کس قدر مختلف ہے۔ سارا دن اپنی زندگی کی گاڑی کو کھینچنے، اپنے اور اپنے گھر والوں کی روٹی اور آسائشوں کی بہم رسانی کے بعد تھکے ہارے جب گھر واپس آکر سونے سے قبل اللہ کے آگے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوجاتے ہیں اس کے دربار میں اپنی جبین نیاز جھکا دیتے ہیں اور اس کے ساتھ رازونیاز کرکے اپنا ہاتھ پھیلا دیتے ہیں۔ اس کی عنایتوں اور کرم نوازیوں پر اس کا شکر ادا کرتے ہیں۔ آفات و بلیات سے مشکلات و پریشانیوں سے ، خطرات اور حادثات سے ، چور اچکوں ڈاکوؤں سے اور جان مال و عزت و آبرو کی حفاظت کے لیے اسی کے آگے ہاتھ پھیلانے اور مانگنے کے ساتھ ساتھ اوپر والی دعا کے الفاظ ادا کرتے ہیں اور سو جاتے ہیں۔ اب اگلی صبح ہم اٹھنے کے بعد ایک نئے عزم اور ولولے کے ساتھ اپنے دن کا آغاز کرتے ہیں ایک ایسے دن کا آغاز جس میں ہماری ایک بڑی اکثریت ان دعائیہ کلمات کے الفاظ سے انحراف کرتی ہے الا ماشا ء اللہ ۔ ہماری زندگیاں اسلام کے سکھائے ہوئے  اصولوں اور اس کی تعلیمات سے بہت دور ہیں۔ہماری  تجارت ہماری معیشت سب کی سب اسلامی تعلیمات سے کوسوں دور ہے۔ آئیے اس دعا کو چھوٹے چھوٹے ٹکروں میں بانٹ کر اس کا مطلب بھی سمجھتے ہیں اور یہ بھی دیکھتے ہیں کہ وہ وعدہ جو ہم ہر روز اللہ کے آگے ہاتھ باندھ کر کرتے ہیں اس کا کتنا پاس کرتے ہیں۔

” اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَسْتَعِیْنُکَ وَ نَسْتَغْفِرُکَ وَ نُوْمِنُ بِکَ وَ نَتَوَکَّلُ عَلَیْکَ وَ نُثْنِیْ عَلَیْکَ اَلْخَیْرَ  ط” 

”اے اللہ !ہم آپ سے مدد چاہتے ہیں اور آپ سے معافی مانگتے ہیں اور آپ پر ایمان لا تے ہیں اور آپ پر بھروسہ کرتے ہیں اور آپ کی بہت تعریف کرتے ہیں ۔”

دعا کے اس حصہ میں تو کوئی شک نہیں کہ ہم اللہ کو اپنا رب، اپنا خالق اور مالک مانتے ہیں۔ اسی کی مدد ہر لمحہ چاہتے ہیں۔ ہماری زبانیں اپنی روز مرہ کی گفتگو میں اللہ کی حمد و تعریف ، اس کی شکر گذاری کے ساتھ ساتھ بہتری کی امید کے الفاظ بلا ترد د ادا کرتی ہیں۔ ان شا ء اللہ ، ماشا ء اللہ ، الحمد للہ کے بغیر ہم میں سے اکثر لوگوں کی گفتگو ادھوری رہتی ہے۔ اللہ کی ذات گرامی پر ایمان اس پر اعتبار اس پر بھروسہ یہ سب تو مومن کی شان ہے اس میں تو کوئی شک نہیں اور یہ سب کچھ ہمارے والدین نے بچپن میں ہی ہمیں ایسا ازبر کرادیا تھا کہ ان کی ادائیگی ہماری فطرت کا حصہ بن گئی ہے اور اس کا ہم خوب خوب استعمال کرتے ہیں۔مگر سچی بات تو یہ ہے کہ ان الفاظ کے استعمال کے باوجود ہمارے دل کے کسی گوشے میں ان الفاظ پر ایمان نہیں۔ہم اپنے معاملات میں اللہ سے مدد مانگ کر کچھ شروع کرنے سے قبل اسباب کو تلاش کرتے ہیں۔ اگر اسباب سے کام نکل آیا تو پھر اللہ یاد نہیں آتے۔ ہاں اگر کام الٹا ہوگیا تو پھر اللہ کے آگے روتے گڑگڑاتے ہیں۔ ہم بلا تکلف اللہ کے احکامات سے روگردانی کرتے ہیں اور  اس کا احساس بھی نہیں کرتے بلکہ بسا اوقات تو اتنی ہٹ دھرمی دکھاتے ہیں کہ کوئی ٹوک دے تو بلا تکلف کہہ دیتے ہیں کہ  ارے بھائی سب چلتا ہے۔ کبھی کبھار اپنی غلطیوں پر شرمندگی ہوتی بھی ہے تو یقیناً اللہ سے معافی مانگتے ہیں مگر پھر دوبارہ اور سہ بارہ وہی غلطی دہراتے ہیں جو یقیناً اللہ کے غضب کو آواز دینے کے مترادف ہوتا ہے۔ اللہ پر زبانی ایمان تو ہمارا بہت ہے مگر کیا واقعی ہمارا ایمان اللہ پر ہے ؟ کیا ہمارا دل اللہ کو واقعی اپنا سب سے بڑا مالک مانتا ہے جس کے ہر حکم کی تعمیل ہمارے لیے لازمی ہو۔ ہم جب کہتے ہیں کہ اللہ پر ہمارا ایمان ہے تو کیا ہم واقعی اس ایمان کا مطلب سمجھتے ہیں۔ اگر ہمارا اللہ پر ایمان ہو تو ہم اس کو اپنا حاکم اعلیٰ مانیں۔ اس کے ہر حکم پر سر تسلیم خم کردیں۔ جو اس نے کہا وہ کریں اور جس سے اس نے ہمیں روکا ہے اس سے رک جائیں۔ قرآنی تعلیمات میں زندگی گزارنے کی مکمل ہدایات موجود ہیں مگر ہم نہ اللہ کے احکامات کو جانتے ہیں نہ ان کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں اور اگر کچھ ٹوٹا پھوٹا علم ہے بھی تو ہم اسے لائقِ توجہ نہیں سمجھتے ۔ جب ہم یہ سب کچھ نہیں کرتے تو پھر ان الفاظ کو ادا کرنے کی  حقیقت ہی کیا ہے کہ ” اے اللہ! ہم آپ پر بھروسہ کرتے ہیں اور آپ کی بہت تعریف کرتے ہیں۔” ذرا سوچیں کہ بھروسہ تو اللہ کے رسول سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے کیا تھا۔ فرعون کا لشکر جب بنی اسرائیل کو پکڑنے والا تھا تو لوگ چیخ اٹھے کہ اب ہم مارے گئے۔ تو اللہ کے رسول نے فرمایا کہ ہر گز نہیں اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ ہمیں بچائے گا۔ اور پھر کس قدر ایمان اور اللہ پر بھروسے کا اظہار کرتے ہوئے دریا پر اپنا عصا دے مارا۔ ہم کہاں بھروسہ کرتے ہیں اللہ پر۔ اللہ پر بھروسہ ہوتا تو وہ رزق جس کی فراہمی کا اس کا وعدہ ہے ، ہم اس کی تلاش میں اور اس کے حصول کے لیے ہر غلط قدم اٹھانے سے گریز نہ کرتے؟ اور اپنے ان تمام کرتوتوں کے باوجود ہمارا دعویٰ ہے اور کس قدر ڈھٹائی کے ساتھ اللہ کے آگے ہاتھ باندھ کر یہ بول رہے ہوتے ہیں کہ ہم آپ کی بہت تعریف کرتے ہیں۔ اے اللہ ہم یقینا بہت گناہ گار ہیں۔ اگر آپ ہمیں گرفت میں لے لیں تو آپ یقیناً اس کا حق رکھتے ہیں اور اگر آپ اپنے رحم و مغفرت کے طفیل معاف فرمادیں تو یہ آپ کا احسان ہوگا کہ ہم آپ ہی کے بندے ہیں۔
آئیے اب اس دعا کے دوسرے حصہ کی طرف

” وَ نَشْکُرُکَ وَ لَا نَکْفُرُکَ وَ نَخْلَعُ وَ نَتْرُکُ مَنْ  یَّفْجُرُکَ ط

”اور ہم آپ کا شکر کرتے ہیں اور آپ کی ناشکری نہیں کر تے اور الگ کرتے ہیں اور چھوڑتے ہیں ، اس کو جو آپ کی ناشکری کرے۔”

کیا دعا کا یہ حصہ جو ہم ادا کرتے ہیں وہ ہمارے دل کی آواز کا غماز ہے یا یہ کہ یہ دعا کرنے کے بعد ہم نے اپنے آڑے ترچھے رویوں اور راستوں کو تبدیل کیا یا تبدیل کرنے کے بارے میں سوچا۔ میرے خیال سے ہم نے اس دعا کو ادا ضرور کیا ہے مگر اس کی اصل تک نہیں پہنچے ہیں۔ شکر زبانی بھی ہوتا ہے اور حرکات و اعمال سے بھی ۔ زبانی شکر تو بس زبان اور ہونٹوں سے آگے نہیں جاتا۔ مگر جب دل شکرگزاری کے جذبات سے پر ہو تو وہ ہر لمحہ اور ہر لحظہ اس کوشش میں ہوتا ہے کہ وہ مالک نارض نہ ہو اور کہیں اپنی رحمتوں والا ہاتھ ہم سے اٹھا نہ لے۔ نتیجہ کے طور پر جو شکر کرتا ہے وہ اس کا اظہار اپنے تمام اعمال سے بھی کرتا ہے اور اس کی بارگاہ میں رکوع و سجود کے ذریعہ بھی کرتا ہے۔ کہتے ہیں کہ اللہ کا شکر ادا کرنے کا بہترین ذریعہ نماز ہے، جبکہ ہماری ایک بڑی اکثریت نماز سے گریزاں ہے۔ پھر ہم یہ کہتے ہیں کہ ہم آپ کی نا شکری نہیں کرتے۔ اے اللہ ہمیں معاف کردیں ہم یقیناًناشکرے ہیں اور ہمیں توفیق عطا کریں کہ ہم آپ کا شکر ایسے ادا کریں کہ جیسے شکر کرنے کا حق ہے۔دعائے قنوت کا اگلا حصہ بھی ہماری زبانی جمع خرچ اور ہمارے روزمرہ کے اعمال کے تضاد کا ایک نمونہ ہے۔ جو اللہ کی ناشکری کرے ہمیں چاہئے کہ ہم اس دعا کے زیر اثر اس سے اپنا ر بطہ بھی ختم کرلیں اور اس کو نہ صرف یہ کہ اپنی ذاتی زندگیوں سے د ور کردیں بلکہ اجتماعی طور پر بھی ایسے شخص کا حقہ پانی بند کردیا جائے جو اللہ کی ناشکری کرتا ہے۔مگر ہماری حالت یہ ہے کہ ہمیں اس کی کوئی فکر نہیں کہ دوسرا کیا کررہاہے۔ نہ تو اس کی غلط حرکتوں پر اس کو روکتے ہیں نہ اس کی اصلاح کی کوئی سبیل کرتے ہیں۔ جبکہ اس امت کے بڑے کاموں میں اللہ تعالیٰ نے یہ ذمہ داری بھی لگا رکھی ہے کہ امر بالمعروف کی طرف دعوت دیںاور نہی عن المنکر کے ذریعہ سے غلط کاموں سے روک لیں۔ آج امت کے بڑوں کی یہ حالت ہے کہ وہ لوگ اور وہ ممالک جو امت مسلمہ کے کھلے دشمن ہیں ان کو اپنا دوست کہتے نہیں تھکتے۔ قرآن نے جن کے بارے میں واشگاف الفاظ میں اعلان کر دیا کہ یہ تمہارے دوست نہیں اور جو انہیں دوست رکھے وہ بھی انہی میں سے ہے۔ مگر ہماری عزت و شرف انہی دشمن اسلام کی دوستی اور ان کی حاشیہ نشینی میں ہے۔ اللّٰھم احفظنا منھم۔
دعائے قنوت کا اگلا ٹکڑا کہتا ہے:

” اَللّٰھُمَّ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ لَکَ نُصَلِّیْ وَ نَسْجُدُ          وَ اِلَیْکَ نَسْعٰیْ وَ نَحْفِدَُ ”

”اے اللہ! ہم آپ ہی کی عبادت کرتے ہیں اور آپ کے لیے ہی نماز پڑھتے ہیں اور سجدہ کرتے ہیں اور آپ ہی کی طرف دوڑتے ہیں اور خدمت کے لیے حاضر ہوتے ہیں۔”

اے اللہ! ہم یقیناً آپ کو اپنا خالق اور رب مانتے ہیں۔ ہم اس معنی میں آپ کی ذات کا انکار کرنے والے اور کفر کرنے والے ہر گز نہیں ہیں ۔ جب عبادت کے لیے کھڑے ہوتے ہیں تو بلا شک و شبہ آپ ہی کی عبادت کرنے کے لیے کھڑے ہوتے ہیں۔ ہمارا رکوع اور ہمارا سجود چاہے کیسا ہی ناقص کیوں نہ ہو ، ہوتا آپ کے لیے ہی ہے۔ سجدہ میں ہمارا دھیان چاہے کہیں بھی کیوں نہ ہو ، ہم یہ سجدہ کرتے آپ ہی کی بڑائی کے لیے ہیں ۔ ہمارے سجدہ میں عجز و انکسار بے شک نہ ہو مگر ہمارا سر آپ کی ذات ذو الجلال و الاکرام کے آگے ہی جھکا ہوا ہوتاہے۔مگراے اللہ ! اس سے اگلے والی بات ہم نہیں کرتے یعنی نہ آپ کی طرف دوڑتے ہیں اور نہ آپ کی خدمت کے لیے حاضر ہوتے ہیں۔اگر ہم اللہ کی طرف دوڑتے یعنی اس کے احکام کی بجا آوری کو اپنی ذات کی تمام ضروریات پر مقدم گردانتے تو ہم ان گوناگوں غلاظتوں میں ہر گز نہ ڈوبے ہوئے ہوتے جس میں آج مقید ہیں۔ ہماری تمام کی تمام زندگی اسلام کے سچے اصولوں پر مبنی ہوتی اور ہمارا معاشرہ وہ قابل تقلید معاشرہ ہوتا جس میں خلفائے راشدین کے دور کی جھلکیاں ملتیں ۔ اگر ہم نے اللہ کے بتائے ہوئے ہدایت کے راستے پر عمل کیا ہوتا تو آج ایسی زندگی ہوتی جس پر غیر مسلم معاشرے بھی نظرِ حسد ڈالتے ، مذاق نہ اڑاتے۔ اگر چشمِ حقیقت کو وَا کرکے دیکھے تو  ہمارا ان الفاظ کواللہ کے حضور ہاتھ باندھ کر ادا کرنا اسی رب کائنات کا مذاق اڑانا ہے جو سب کچھ جانتا ہے اور اتنا غفور و رحیم ہے کہ ہماری اس کھلی بدمعاشی اور بد عملی سے نظریں چرا رہا ہے، ڈھیل دئیے چلا جا رہا ہے۔ یقینا جیسا اس نے کہا ہے ویسا ہی ہے کہ اس نے اپنے غیض و غضب کے اوپر اپنی رحمتوں کی چادر پھیلا رکھی ہے۔ مگر ایسا کب تک چلے گا؟۔ کیا ہمیں سدھرنے کی ضرورت نہیں ہے؟
دعا کا اگلا ٹکرا ان الفاظ پر مشتمل ہے:

” وَ نَرْجُوْا رَحْمَتَک وَ نَخْشٰی عَذَا بَکَ    اِنَّ عَذَابَکَ بِا لْکُفَّا رِ مُلْحِقْ ط ”

”اور آپ کی رحمت کے امیدوار ہیں اور آپ کے عذاب سے ڈرتے ہیں، بے شک آپ کا عذاب کافروں کو ملنے والا ہے۔”

اس میں تو کوئی شک نہیں کہ ہر مسلمان خواہ وہ ایک صاحب عمل شخص ہو یا صرف نام کا مسلمان ہو ، اللہ کی رحمتوں کا امید وار ہو تا ہے۔ اور پھر یہ کہ ہم اللہ کی گرفت اور پکڑ سے ڈریں یا نہ ڈریں ، ہمیں اس بات کا یقین کامل ہے کہ اللہ پاک قیامت کے دن نافرمانوں کو اپنی نافرمانی کی قرار واقعی سزا دیں گے۔ مگر اس یقین کے باوجود اکثر مسلمان پتہ نہیں کیوں اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ اللہ ہمیں معاف کردیں گے۔ بے شک اللہ کی رحمت اس کے غیض و غضب سے کہیں زیادہ وسیع ہے۔ اس کے دائرہ اختیار میں ہے کہ وہ چاہے گا تو غلطیوں کو حسنات سے بدل دے گا ، چاہے گا تو ایک اچھے کام کے بدلے ہزاروں گنا انعام دیدے۔ مگروہ یہ کس کے ساتھ کرے گا اور کس کے ساتھ ایسا سلوک نہیں کرے گا یہ صرف اس کی اپنی مرضی پر منحصر ہوگا۔ مگر کیا اللہ تعالیٰ منصف نہیں ہے؟ ہے ، ضرور ہے۔ تو پھر یہ کہ وہ ظالموں کو تو شائد نہیں چھوڑے گا۔ اور قران مجید میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے ظالموں کی نشاندہی تو کر رکھی ہے۔ وہ کن سے ناراض ہوتا ہے اور کن کو بالکل معاف نہیں کرے گا یہ بھی اس نے بتا رکھا ہے۔ جہنم کے سب سے نچلے درجے میں کون ہوگا یہ بھی قرآن مجید میں صاف صاف درج ہے۔اورپھر جناب رسول کریم صادق الوعد ﷺ نے یہ بھی بتا رکھا ہے کہ ایمان اور کفر کے درمیان بہت زیادہ فاصلہ نہیں ہے اس لیے کہ ایک زمانہ ہوگا جب انسان صبح کو مسلمان ہوگا تو شام کو کافر۔ اللہ کی خفگی اور ناراضگی میں بھی تقریباً ایسا ہی معاملہ ہے۔ یہ بات تو طے ہے کہ اللہ کی ناراضگی ہمیں بہت مہنگی پڑے گی۔ اور اس کے دربار میں قیامت والے دن کھوٹے سکے تو بالکل نہیں چلیں گے۔ نہ کوئی مدد گار ہوگا نہ سفارشی ۔اپنا نامہ اعمال ہوگا اور اس میں ہمارا سارا کچا چٹھا درج ہوگا۔ اس کے فرشتوں کے لکھے کو جب نہیں مانیں گے تو یہ بھی اس نے کہا ہے کہ ہم تمہارے منہ پر مہر لگا دیں گے تاکہ بول نہ سکو پھر وہ ہماری جلد کو ، ہمارے ہاتھ اور پائوں کو گویائی کی طاقت عطا کر دیں گے جو ہمارے تمام کرتوتوں کا پول کھول دیں گے ۔ اللہ اس دن کی ایسی گرفت اور ایسی پکڑ سے ہم سب مسلمانوں کو محفوظ رکھیں۔ شرمندگی اور رسوائی کا جو سامان اس دن ہم خود اپنے لیے بہم پہنچائیں گے اللہ اس کو اپنی رحمتوں کے طفیل ہم سے دور کر دیں۔ اے اللہ! ہمارا حساب کتاب آسان کر دیجئے گا اور اپنی ستاری کے پردے میں ہمیں ڈھانپ لیجئے گا۔ ہم آج بھی اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہیں اور کل بھی ہم اپنے نامہ اعمال سے منکر نہ ہونگے بس آپ کی مہربانیوں کا سوال ہے۔ بیشک اللہ کی گرفت اور پکڑ کافروں کے لیے ہے جو انتہائی شدید ہوگی اور اس کا تمام عذاب کافروں کے لیے ہی تیار کیا گیا ہے۔
 
مجھے خوشی ہے کہ آپ نے اس مضمون کو پڑھا اور ان آخری سطور تک آگئے۔ اوپر جو کچھ بیان کیا گیا ہے شاید آپ اس کے دائرے میں نہیں آتے ہونگے اور میں اللہ سے دعا گو ہوں کہ آپ ان لوگوں سے دور رہیں جن کی نشاندہی میں نے اس مضمون میں کی ہے۔میرے اس پورے مضمون کا مقصد اور منشا صرف اور صرف یہ ہے کہ ہم اپنی عبادتوں اور تسبیحات میںجو کچھ بھی پڑھتے ہیں اس کو صرف طوطے کی طرح رٹے رٹائے جملوں کی صورت میں نہ ادا کریں۔ بلکہ ہماری کوشش ہونی چاہئے کہ ہم قران کے معنی کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ دنیاوی تعلیم کے حصول کے لیے خود بھی برسہا برس کھپا دیتے ہیں اور اپنی اولاد کو بھی اسی راستے پر ڈال دیتے ہیں مگر اس  ایک انتہائی اہم کام پر ذرا توجہ نہیں کرتے۔نہ صرف دعائے قنوت بلکہ کلام اللہ کی تمام سورتیں جو ہم پڑھتے ہیں ان پر ہمارا ایمان تو ہے مگر ہم یہ نہیں جانتے کہ کیا پڑھا گیا اور یہ کہ کس چیز پر ایمان ہے۔ اگر ہم دعائے قنوت کو ہی لے لیں اور یہ دیکھیں کہ اس کے معنی اگر ہمارے دلوں میں بیٹھ جائیں اور ہم جب اس کو پڑھ رہے ہوں اورہماری نظروں میں اس کے معنیٰ بھی شامل ہوں تو اس کے پڑھنے کا رنگ ہی اور ہوگا۔ دن بھر جو غلطیاں ہوئی ہیں وہ اس دعا کو پڑھنے کے ساتھ ہی خیال میں گھومنے لگ جائیں تو احساس گناہ بھی ہوگا اور شرمندگی کے ساتھ معافی کی تمنا بھی ہوگی اور اگر یہ احساس انتہائی شدید ہوجائے تو میرے خیال میں وہ ایک منٹ جس میں ہم انتہائی روانی سے یہ دعا پڑھ جاتے ہیں شائد تیس منٹوں میں بھی پورا نہ ہوسکے۔ اور جب پورے احساس اور علم کے ساتھ ان الفاظ کو ادا کریں گے تو اس بات کا بھی قوی امکان موجود ہے کہ اگلے دن کا آغاز اللہ کے بتائے ہوئے راستے پر قدم اٹھا کر ہوگا اور پھر رفتہ رفتہ ہماری زندگیاں اسلامی اصول کے دائرے میں آتی چلی جائیں گی۔ دنیا میں بھی کامیابی قدم چومے گی اور ان شاء اللہ آخرت میں بھی کسی شرمندگی کا سامنا نہیں ہوگا ۔ اے اللہ ہماری زندگیوں کو اسلام کے راستے پر ڈال دیجئے اور اپنی ناراضگی کے کاموں سے ہمیں دور کردیجئے۔ آمین ثم آمین۔

پاکستان بلاؤں میں گرفتار ملک. تدارک کی تمنا2


جریدہ "الواقۃ” کراچی، شمارہ  7  ذوالحجہ 1433ھ/ اکتوبر ، نومبر 2012

محمد احمد

پاکستان بلاؤں میں گرفتار ملک.  تدارک کی تمنا

قسط نمبر 2۔۔۔ قسط نمبر 1 پڑھئے
اس پر فتن دور میں ہماری ریاست کے ستونوں( مثلا ً  مقننہ ، عدلیہ ، اور منتظمہ ) کا استحکام شدید خطرات سے دوچار ہے۔ ایک اظہر من الشمس عدالت عظمیٰ کے احکامات نہ ماننا اور اس کی توہین اور بے توقیری پر ملک کے مقتدر طبقہ Elitesکا ڈٹ جاناہے۔ مندرجہ بالا قرانی آیات کا بالواسطہ اشارہ عدلیہ کے ضعف ایمان کی جانب ہے۔ پس مضبوطی ایمان کی دلیل ہے۔ ایک اور قرآنی تقاضہ ملاحظہ کیجئے:

"اے محمد ﷺ ! تمہارے رب کی قسم یہ کبھی مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ اپنے باہمی اختلافات میں یہ تم کو اپنا فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں، پھر جو کچھ فیصلہ تم کرو اس میں اپنے دلوں میں بھی کوئی تنگی محسوس نہ کریں بلکہ سر بسر تسلیم کرلیں۔”                                                ( سورة النساء : ٦٥ )

اس آیت کا حکم صرف حضور ﷺ کی زندگی تک محدود نہیں ہے بلکہ قیامت تک کے لیے ہے۔جو کچھ اللہ کی طرف سے نبی ﷺ لائے ہیں اور جس طریقہ پر اللہ تعالیٰ کی ہدایت اور رہنمائی کے تحت آپ ﷺ نے عمل کیا ہے وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مسلمانوں کے درمیان سند ہے اور سند کو ماننے یا نہ ماننے ہی پر آدمی کے مومن ہونے یا نہ ہونے کافیصلہ ہے۔  ایک حدیث میں اسی بات کو نبی کریم ﷺ نے ان الفاظ میں ارشاد فرمایاہے:

” تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کی خواہش نفس اس طریقہ کی تابع نہ ہو جائے جسے میں لے کر آیا ہوں ۔ ”

 معاشرہ میں چلن کچھ ایساچل پڑاہے کہ جو فرعون وقت ہو ، یا جس کو قارون کی طرح اپنی دولت پر گھمنڈ ہو یا ہامان کی طرحEstablishment  پر بھرپور اختیار ہونے کے ساتھ ساتھ مرد و زن کے بڑے بڑے مخلوط اجتماعات کراتے ہوئے Modernity کی بے قابو سونامی پیدا کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہو تو ” جسد جمہوریت ” میں جان پڑ جاتی ہے۔ اب ان بلائوں کے سد باب کے لیے ” صحیح اور مدبر لیڈر شپ کہاں سے دستیاب ہو ؟” کے جواب میں سب چپ سادھ لیتے ہیں۔ آیئے قران کی روشنی میں اس کا حل تلاش کیا جائے۔

” لوگو !ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمہاری قومیں برادریاں بنا دیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔ در حقیقت اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ پرہیز گار ہے ۔ یقینا اللہ سب کچھ جاننے والا اور با خبر ہے۔ ” ( سورة الحجرات: ١٣)

اس آیت میں پوری نوع انسانی کو خطاب کرکے اصلاح کی گئی ہے جو دنیا میں ہمیشہ عالمی فساد کا موجب رہی ہے۔ یعنی رنگ ، نسل ، زبان ، وطن اور قومیت کاتعصب۔  قدیم ترین زمانے سے آج تک ہر دور میں انسان بالعموم انسانیت کو نظر انداز کرکے اپنے گرد مختلف قسم کے منفی دائرے کھینچتا رہا ہے اور ان ہی محرکات نے نفرت ، عداوت ، تحقیر و  تذلیل اور ظلم و ستم کی بدترین دائرة السوء ( Vicious Circles) برپا کرتے ہوئے سوسائٹی کو اور کرپٹ کر دیا ہے۔ ان دگر گوں حالات میں اپنا رہبر اور رہنما وہی بن سکتا ہے جو دوسروں سے بڑھ کر اللہ سے ڈرنے والا ، برائیوں سے بچنے والا اور نیکی اور پاکیزگی کی راہ پر چلنے والا ہو۔
 
امن و امان کی فضا میں پروردہ ایک ریاست کے لیے انتہائی ضروری ہے کہ ادنیٰ سے ادنیٰ فرد سے لے کر اعلیٰ سے اعلیٰ ریاستی منصب دار تک ہر شخص کے دل کا بحیثیت ایک ادارہ اور انصاف کرنے والے منصفین کا فردا ً فردا ً ادب و احترام دل میں بس جانا چاہئے تاکہ وہ صرف لبوں تک  (Lip Service) محدود نہ ہوجائے۔ اب اولین درجہ پر جج حضرات پر واجب ہے کہ وہ اپنے نفوس میں سورة حجرات کی تقویٰ سے متعلق ہدایات جانگزیں فرماتے ہوئے انصاف کا ترازو سنبھالیں۔ یاد رہے کہ ایسے مبارک افراد جو ذہین ترین بھی ہوتے ہیں بلا تخصیص مذہب ،بنی نوع انسانی میں ہر دور میں پائے گئے ہیں۔ چراغ کے تیل سے تمثیلاً استنباط کرتے ہوئے رب کائنات کا منشا ء مندرجہ ذیل ارشاد ربانی سے پوری طرح واضح ہوجاتاہے :

”   جس کا تیل آپ ہی آپ بھڑک پڑتا ہو چاہے اس کو آگ لگے نہ لگے ( اس طرح) روشنی پر روشنی (بڑھنے کے تمام اسباب جمع ہو گئے ہوں)۔” (سورة النور:٣٥)

کرپشن ایک لعنت کی طرح معاشرہ پر مسلط ہے اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ اس سے جنگی بنیاد پر ( On War Footing) نمٹا جائے اور اس ضمن میں قران کریم کا یہ حکم ہے کہ

” اور تم لوگ آپس میں نہ تو ایک دوسرے کا مال ناروا طریقہ سے کھاؤ اور نہ حاکموں کے آگے اس کو اس غرض سے پیش کرو کہ تم کو دوسروں کے مال کا کوئی حصہ قصداً ظالمانہ طریقہ سے کھانے کا موقعہ مل جائے۔” (سورة البقرہ: ١٨٨)

اس آیت کا ایک مفہوم تویہ ہے کہ حاکموں کو رشوت دے کر ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش نہ کرو ۔ اور دوسرا یہ کہ جب تم خود جانتے ہو کہ مال دوسرے شخص کا ہے ، تو محض اس لیے کہ اس کے پاس ملکیت کا کوئی ثبوت نہیں ہے یا اس بنا پر کہ کسی اینچ  پینچ سے تم اس کو کھا سکتے ہو ، اس کا مقدمہ عدالت میں مت لے جاؤ۔ ہو سکتا ہے کہ حاکم عدالت مقدمہ کی روداد کے مطابق وہ مال تمہیں دلوادے۔حاکم کا یہ فیصلہ غلط بنائی ہوئی روداد سے دھوکہ کھا جانے کی سبب سے ہوگا۔ اس لیے عدالت سے اس کی ملکیت کا حق حاصل کرنے کے باوجود حقیقت میں تم اس کے جائز مالک نہیں ہوگے بلکہ عنداللہ وہ تمہارے لیے حرام ہی رہے گا۔ ( یہاں ہدایت الٰہی کا اطلاق  بعینہ بار کے ارکان پر اتنا ہی ہوگا جتنا کہ بنچ کے جج حضرات مکلف ہونگے۔)مزید وضاحت کے لیے حضور ﷺ فرماتے ہیں:

” میں بہر حال ایک انسان ہی تو ہوں۔ ہوسکتا ہے کہ تم ایک مقدمہ میرے پاس لاؤ اور تم میں سے ایک فریق دوسرے کی نسبت زیادہ چرب زبان ہو اور اس کے دلائل سن کر میں اس کے حق میں فیصلہ کردوں ۔ مگر یہ سمجھ لو کہ اس طرح سے اپنے بھائی کی کوئی چیز میرے فیصلے کے تحت تم نے حا صل کرلی تو تم دراصل دوزخ کا ایک ٹکڑا حاصل کروگے۔”

ایک اور حدیث مبارک کا ایک حصہ ملاحظہ کریں،حضور  ﷺ نے ارشاد فرمایا:

” سات قسم کے لوگوں کو اللہ تعالیٰ اس دن اپنے (عرش کے) سایہ کے نیچے جگہ دے گاجس دن صرف اس کے عرش کا سایہ ہوگا (پہلا شخص) عدل کرنے والا حکمران۔” (صحیح بخاری)

اللہ رب العزت کے نزدیک ادنیٰ عادل جج یا مجسٹریٹ ، اور عادل سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کے جج کے درمیان ان کے دنیاوی مراتب کی کوئی اہمیت و تخصیص نہیں کہ یہ ان کے لیے عرش کے سایہ کے فیصلہ کی بنیاد بن سکے۔ اس لیے ہر انصاف کی ترازو پکڑنے والے مسلمان کو اپنی کم تر حیثیت نظر انداز کرتے ہوئے اپنے پالنے والے کے اس بیان کردہ نعمت عظمیٰ کو اپنی زندگی کا اولین مقصد بنانے اور عملی میدان میں آگے سے آگے بڑھنے کی انتھک اور جاںگسل جدوجہد میں اپنا حصہ (وقت ضائع کیے بغیر)  ڈال دینا چاہئے۔چونکہ بنچ اور بار انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے اصولی بنیادوں پرایک دوسرے کی معاونت کے پابند ہیں اس لیے عدالت میں تعاون کرنے والے وکلا اپنی حسن نیت کی برکت اپنے اللہ سے عرش بریں کے سایے تلے عادل و فاضل ججوں کے درمیان جگہ ان شا ء اللہ پالیں گے۔
 
ہم نہیں جانتے کہ ہماری صفوں میں ان مذکورہ بالا صفات کی شخصیات ہیں بھی کہ نہیں۔ اگر وہ ہیں تو اغلبا ً وہ کم تعداد میں ہوں یا نہ ہونے کے برابر ہوں اور غلبہ حاصل کرنے کی پوزیشن میں اب تک نہ آئے ہوں ۔ دراصل ہمارے وطن میں غلبۂ اشرار کم ہو ہی نہیں سکتا جب تک خدائی جنگ کی سیز فائر (Cease Fire) کروانے کے لیے اس ملک کے باسیوں کے قلوب رجوع الی اللہ کرتے ہوئے اپنے مقتدر طبقوں کو جنگ بندی اور اصلاح احوال پر پوری شدت سے اور پوری درد مندی سے مجبور نہ کر لیں۔ ان شا ء اللہ اس مضمون میں بیان کردہ آیات قرانی برہان قاطع ہیں۔ روز روشن کی مانند ہر خاص و عام کو نظر آرہا ہے کہ پاکستان فیصلہ خداوندی کے مطابق نرغہ اغیار میں ہے۔ حکمرانوں کو ایک طرف اپنے برگزیدہ کلام کے بارے میں خداوند تعالیٰ  فرماتے ہیں :

” یہ ایک نصیحت ہے ۔ اب جس کا جی چاہے اپنے رب کی طرف جانے کا راستہ اختیار کرے۔”(سورة المزمل: ١٩)

 تو دوسری جانب جھڑکتے ہوئے فرمایا :

"بے شک اللہ کے نزدیک بد ترین قسم کے جانور وہ بہرے گونگے لوگ ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے۔ " (٢٢ :٨)

لگتا ہے کہ حکمران اپنے لیے خود ساختہ مگر دائمی استثنا ء  کے حصول کا تہیہ کر چکے ہیں۔ اور بر افروختہ بلاؤں نے ان مقتدر طبقوں کا بشمولیت سودی گماشتوں کے سرعت رفتار سے تعاقب جاری رکھا ہوا ہے۔ ہرانسان کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔، مگر استثناء کے عشق میں مبتلا گروہ اپنے رب کے حضور قیامت والی پیشی کے دن اپنے معیوب سفاکانہ طرز عمل کا مظاہرہ کرنے سے باز نہیں آئے گا ۔ مالک الملک کا ہم پر احسان ہے کہ وہ دنیا میں یوم الحسرت کا مشاہدہ اپنے متلو (یعنی تلاوت کیے جانے والے ) الفاظ میں کرا رہے ہیں :

” کاش تم دیکھو وہ وقت جب یہ مجرم سر جھکائے اپنے رب کے حضور کھڑے ہونگے ( اس وقت یہ کہہ رہے ہونگے)  اے ہمارے رب! ہم نے خوب دیکھ لیا اور خوب سن لیا اب ہمیں واپس بھیج دیجئے تاکہ ہم نیک عمل کریں، ہمیں اب یقین آگیا ہے۔( جواب میں ارشاد ہوگا) اگر ہم چاہتے تو پہلے ہی ہر نفس کو ہدایت دے دیتے مگر میری وہ بات پوری ہوگئی جو میں نے کہی تھی کہ میں جہنم کو جنوں اور انسانوں سے بھر دوں گا۔ بس اب چکھو مزا اپنی اس حرکت کا کہ تم نے اس دن کی ملاقات کو فراموش کر دیا ہے۔ چکھو ہمیشگی کے لیے عذاب کا مزہ اپنے کرتوتوں کی پاداش میں۔” (سورة  السجدہ: ١١٢ – ١١٤)

حکمرانوں کی دیرینہ خواہش بہر صورت الیکشن جیتنے کی ہوتی ہے۔ کامیابی کی صورت میں مناسب لیپا پوتی سے یہ لوگ اپنی غلطیوں پر پردہ ڈال دیتے ہیں۔ اور گاڑی پرانے طرز پر ہی چلتی رہتی ہے۔ آخرت سے لا پرواہی کا قبیح ترین انجام قران پاک میں بیان ہو چکا ہے۔ حالا ت میں تبدیلی ناگزیر ہے ۔ اس لیے مسلمانوں کے روڈ میپ  (Road Map)  اگر مغربی ماہرین کے توسط سے بنیں گے تو اسلامی معاشرہ مذکورہ بالا بلاؤں کے تعاقب و مزاہمت کو نہ روک پائے گا۔ پہلی تبدیلی کا ایک خوش آئند حوالہ کلام پاک کے بابرکت الفاظ میں ملاحظہ کیجئے:

” اللہ مومنوں کو اس حالت میں ہرگز نہ رہنے دے گا جس میں تم اس وقت پائے جاتے ہو۔ وہ پاک لوگوں کو ناپاک لوگوں سے الگ کر کے رہے گا۔ مگر اللہ کا یہ طریقہ نہیں کہ وہ تم کو غیب پر مطلع کردے۔ غیب کی باتیں بتانے کے لیے تو وہ اپنے رسولوں میں سے جس کو چاہے منتخب کر لیتا ہے۔ لہٰذا (امور غیب کے بارے میں)  اللہ اور اس کے رسول  ﷺ  پر ایمان رکھو۔ اگر تم ایمان اور خدا ترسی کی روش پر چلوگے تو تم کو بڑا اجر ملے گا۔” (سورة آل عمران: ١٧٩)

حزب اختلاف کے لیے خوش خبری ہے اگر وہ اپنے زمینی نقشہ جات کی مطابقت  (Alignment)   مکمل طور پر اسلام پر رکھیں اور بلا خوف و خطر عمل پیرا ہوجائیں۔ اس ضمن میں رب قدوس کے دو پالیسی احکام یہ ہیں:

١۔”اس فرمانبرداری (الاسلام) کے سوا جو شخص کوئی اور طریقہ اختیار کرنا چاہے اس کا وہ طریقہ ہرگز قبول نہ کیا جائے گا اور آخرت میں وہ ناکام اور نامراد رہے گا۔” (سورة آل عمران: ٨٥)

٢۔” اے ایمان والو ! تم پورے کے پورے اسلام میں آجاؤ اور شیطان کی پیروی نہ کرو کہ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ جو صاف صاف ہدایات تمہارے پاس آچکی ہیں ، اگر ان کو پا لینے کے باوجود پھر تم نے لغزش کھائی ، تو خوب جان رکھو اللہ سب پر غالب اورحکیم و دانا ہے۔(ان ساری نصیحتوں اور ہدایتوں کے بعد بھی لوگ سیدھے نہ ہوں تو) کیا اب وہ اس بات کے منتظر ہیں کہ اللہ بادلوں کا چتر لگائے فرشتوں کے پرے ساتھ لیے خود سامنے آموجود ہو اور فیصلہ ہی کر ڈالا جائے؟۔ ” (سورة البقرة: ٢٠٨- ٢١٠)

یہ الفاظ قابل غور ہیں۔ ان سے اس حقیقت پر روشنی پڑتی ہے کہ اس دنیا میں انسان کی ساری آزمائش اس بات پر ہے کہ وہ حقیقت کو بغیر دیکھے مانتا ہے کہ نہیں اور ماننے کے بعد اتنی اخلاقی طاقت رکھتا ہے یا نہیں کہ نافرمانی کا ااختیار رکھنے کے باوجود فرمانبرداری اختیا ر کرے۔چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء کی بعثت میں، کتابوں کی تنزیل میں ، حتیٰ کہ معجزات تک میں عقل کے امتحان اور اخلاقی قوت کی آزمائش کا ضرور لحاظ رکھا ہے اور کبھی حقیقت کو اس طرح بے پردہ نہیں کردیا ہے کہ آدمی کے لیے مانے بغیر چارہ نہ رہے۔ کیونکہ اس کے بعد تو آزمائش بالکل بے معنیٰ ہو جاتی ہے اور امتحان میں کابیابی اور ناکامی کا کوئی مفہوم باقی نہیں رہتا ہے۔ اسی بنا پر یہاں فرمایا جارہا ہے کہ اس وقت کا انتظار نہ کرو جب اللہ اور اس کی سلطنت کے کارکن فرشتے خود سامنے آجائیں کیونکہ پھر تو فیصلہ ہی کر دیا جائے گا۔ ایمان لانے اور اطاعت میں سر جھکانے کی ساری قدر و قیمت اس وقت تک ہے جب حقیقت تمہارے حواس سے پوشیدہ ہو اور تم اسے صرف دلیل سے تسلیم کرکے اپنی دانش مندی کا اور محض فہمائش سے اس کی پیروی اور اطاعت اختیار کرکے اپنی اخلاقی طاقت کا ثبوت  دو۔ ورنہ جب حقیقت بے نقاب سامنے آجائے اور تم بچشم سر دیکھ لو کہ اللہ اپنے جلال کے ساتھ تخت پر متمکن ہے اور اس ساری کائنات کی سلطنت اس کے فرمان پر چل رہی ہے اور یہ فرشتے زمین و آسمان کے انتظام میں لگے ہوئے ہیں اور تمہاری یہ ہستی اس کے قبضہ قدرت میں پوری بے بسی کے ساتھ جکڑی ہوئی ہے، اس وقت تم ایمان لائے اور اطاعت پر آمادہ ہوئے تو اس ایمان اور اطاعت کی قیمت ہی کیا ہے؟۔ اس وقت تو کوئی کٹے سے کٹا کافر اور بد سے بدتر مجرم بھی انکار اور نافرمانی کی جراء ت نہیں کر سکتا۔ ایمان لانے اور اطاعت قبول کرنے کی مہلت صرف اس وقت تک ہے جب تک پردہ کشائی کی وہ ساعت سامنے نہیں آتی۔ اور جب وہ ساعت آگئی تو پھر نہ مہلت ہے نہ آزمائش۔بلکہ وہ تو فیصلہ کا وقت ہے۔

 یہ گھڑی محشر کی ہے تو عرصہ محشر میں ہے

پیش کر غافل عمل کوئی اگر دفتر میں ہے

پاکستان ، مدینہ منورہ کی بنی ہوئی اسلامی مملکت کے بعد پہلی نیشن اسٹیٹ (Nation State) ہے۔ جس کی بیخ کنی پر شیطانی قوتیں متحد و متفق ہیں ۔ ہم نے اپنے اس مقالے میں متعدد قرآنی حوالے پیش کرتے ہوئے آگاہ کیا ہے اللہ کے پاک کلام کو حرز جاں بنائے بغیر اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی ہمارے خلاف برپا جنگ سے چھٹکارا عبث ہے۔ مفکر پاکستان نے مختصرا ً بتا دیا

گر تو می خواہی مسلماں زیستن

نیست ممکن جز بہ قراں زیستن

یعنی قران کو حرز جاں آپ اسی وقت بنا سکتے ہیں جب اسے لے کر اٹھیں اور دعوت الی اللہ کا کام شروع کردیں اور جس طرح یہ کتاب ہدایت دیتی جائے اس طرح قدم اٹھاتے چلے جائیں تب و ہ سارے تجربات آپ کو پیش آئیں گے جو  نزول قرآن کے وقت پیش آئے تھے۔مکہ ، حبش اور طائف کی منزلیں بھی آپ کو دیکھنی پڑیں گی اور بدر و احد سے لے کر حنین اور تبوک تک کے مراحل بھی آپ کے سامنے آئیں گے۔ ابو جہل اور ابو لہب سے بھی آپ کو معاملہ ہوگا اور یہود و منافقین بھی آپ کو ملیں گے۔ اور مئولفة القلوب سے لے کر سابق الاولون تک سبھی قسم کے انسانی نمونے آپ دیکھ لیں گے اور برت بھی لیں گے۔ اس کی جس جس منزل سے آپ گزرتے جائیں گے قرآن کی کچھ سورتیں اور آیات بھی آپ کے سامنے آکر آپ کو بتاتی چلی جائیں گی کہ وہ اس منزل پر اتری تھیں اور یہ ہدایت لے کر آئیں تھیں۔پھر اسی کلیہ کے مطابق قرآن کے احکام اس کے معاشی و تمدنی ہدایات اور زندگی کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں اس کے بتائے ہوئے اصو ل و قوانین انسانی سمجھ میں آ ہی نہیں سکتے جب تک کہ وہ ان کو برت نہ لے۔ نہ وہ شخص اس کتاب کو سمجھ سکتا ہے جس نے اپنی انفرادی زندگی کو اس کی پیروی سے آزاد رکھا ہو اور نہ وہ قوم اس سے آشنا ہو سکتی ہے جس کے سارے اجتماعی ادارے اس کی بتائی ہوئی روش کے خلاف چل رہے ہوں۔
 
سودی مسائل کے ضمن میں اللہ کے نیک بندے خوش گمان ہیں کہ ہمارے عادل ججز فیصلہ کن اقدامات کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔ اس لیے بہتر ہوگا کہ مزید تجزیہ کرلیا جائے ۔ اولاً عدالت عظمیٰ ملک کے توہین عدالت کے تمام قوانین ، رولز اور پروسیجرز کا تفصیلی جائزہ لے کہ یہ بنیادی قسم کے قوانین ہر لحظہ بے اثر ہوتے جارہے ہیں تو کیوں۔اگر آئینی چپقلش حل ہونے میں نہ آرہی ہوں تو توہین عدالت کی لاٹھی برسا کر کام نکالا جاسکتا تھا مگر اہانت عدالت اعلیٰ حکومتی عہدیداروں سے لے کر صف اول کے ممتاز بار کے ارکان کا طرہ امتیاز بنتا جارہا ہے ۔ غرضیکہ آئین بازیچئہ اطفال بن چکا ہے ۔ پارلیمانی روایات کا خاصہ آئین و قوانین کا تقدس اور سر بلندی برقرار رکھنا ایسا ہے جیسا مملکت کے سبز ہلالی کو اونچے سے اونچا رکھنا مگر عمل کی دنیا میں منفی سوچ بروئے کار ہے اور فروغ پارہی ہے۔ قرآنی اشارہ ” بات یہ ہے کہ صرف آنکھیں ہی اندھی نہیں ہوتی ہیں بلکہ دل اندھے ہو جاتے ہیں جو سینوں میں ہیں۔” (سورة الحج:٤٦) فعل تعقل کا انتساب دل سے کیا گیا ہے جس سے استدلال کیا گیا ہے کہ عقل کا محل قلب ہے۔ اور بعض کہتے ہیں کہ محل عقل دماغ ہے۔بعض کہتے ہیں کہ فہم و ادراک کے حصول میں دل و دماغ دونوں کا آپس میں بڑا گہرا تعلق ہے۔
 
ہم مزید آیات قرآنی کا مطالعہ ایک گہرے غور و فکر کی خاطر کرتے ہیں کہ ججز کو اپنے لیے روشن لائحہ عمل مرتب کرنا دشوار نہ ہو۔ رب کائنات کا ارشاد ہے :

”وہ منہ پر کہتے ہیں کہ ہم مطیع و فرمانبردار ہیں۔مگر جب تمہارے پاس سے نکلتے ہیں تو ان میں سے ایک گروہ راتوں کو جمع ہوکر تمہاری باتوں کے خلاف مشورہ کرتا ہے۔ اللہ ان کی یہ ساری سر گوشیاں لکھ رہا ہے۔ تم ان کی پرواہ نہ کرو اور اللہ پر بھروسہ رکھو وہی بھروسہ کے لیے کافی ہے۔ کیا یہ لوگ قرآن پر غور نہیں کرتے ؟ اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہت کچھ اختلاف بیانیاں پائی جاتیں۔”  

”یہ لوگ جہاں کوئی اطمینان بخش یا خوفناک خبر سن پاتے ہیں اسے لے کر پھیلا دیتے ہیں حالانکہ یہ اگر اسے رسول اور اپنی جماعت کے ذمہ دار اصحاب تک پہنچائیں تو وہ ایسے لوگوں کے علم میں آجائے جو ان کے درمیان اس بات کی صلاحیت رکھتے ہیں کہ اس سے صحیح نتیجہ اخذ کر سکیں۔ تم لوگوں پر اللہ کی رحمت نہ ہوتی تو ( تمہاری کمزوریاں ایسی تھیں کہ)  معدودے چند کے سوا تم سب شیطان کے پیچھے لگ گئے ہوتے۔” (سورة النساء :٨١ ، ٨٢ ، ٨٣)

رب کریم ججز کو کیا خوب آگاہ فرما رہے ہیں کہ ہم واقف ہیں کہ کون سے سازشی کردار تمہاری عزت و حیثیت کو معاشرہ میں مجروح (Character Assasination)   کرنے کے درپے ہیں۔ تم ان سے خوف نہ رکھو اور نہ ہی پرواہ کرو۔ تمہارا بھروسہ صرف اور صرف باری تعالیٰ پر بلا شک و تشکیک ہونا چاہئے۔ رہے سازشی ، اللہ سبحانہ و تعالیٰ خود ان شک و شبہ والے نفوس سے نمٹ لیں گے۔ تم اللہ کی رسی کو مظبوطی سے تھامے رکھو۔ کتمان حق سے بچو اور اعلاء کلمة الحق دل و جان سے بلا کسی خوف و تردد کے کرتے رہو۔یہ لوگ میرے احکام سے غور و خوض سے اعراض برتتے  ہیں اور جھوٹی افواہ سازی کا ایک طوفان بپا کیے ہوئے ہیں ۔ یہ کام اپنی بے حد و حساب سودی رقومات سے مختلف النوع ذرائع ابلاغ  (Multimedia) استعمال کرتے ہوئے انجام دیتے ہیں۔ اگر ان میں امن و اصلاح ، اخلاق اور ایمان کی رمق ہوتی تو وہ یہ افواہ گڑھنے کی بجائے ایسی اطلاعات اللہ کے رسول اور اپنی جماعت کے ذمہ دار افراد کے علم میں لاتے تاکہ وہ اپنی مثبت صلاحیتوں سے احسن نتائج اخذ فرماتے۔ مگر ہو رہا ہے اس کے برعکس۔ یہ مالک کی رحمت و مہربانی کا تقاضا ہے کہ تمہیں شیطان کے چنگل سے نکالتا رہاہے۔ وُقعت و سرفرازی منبر و محراب مصطفیٰﷺ کو ہی زیبا ہے۔

نور خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن

پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا

 اس لیے لازم ہے کہ ججز کرسئی عدالت کو بمع توہین عدالت کے ،ایک نوجوان مجسٹریٹ کے Summary Trial   سے زیادہ اہمیت نہ دیں راہ نجات اپنے آپ کو دین متین کی خدمت میں وقف کردینے میں ہے۔ پھر شعور حاصل ہوگا توتوہین عدالت تو دراصل توہین رسالت ہی ہے۔ پھر مفکر ملت کا یہ سمجھانا کیسا عقل و فہم کو ” سراجا ً منیرا ً ” کرے گا۔ 

قوت عشق سے ہر پست کو بالا کردے

دہر میں اسم محمد سے اجالا کردے

اس مقالہ کا مرکزی موضوع سودی طرز معیشت سے مکمل علیحدگی اور خدائی جنگ سے مکمل امن و امان کی طرف مراجعت ہے۔ اس لیے کہ سازشی کرداروں کے کرتوتوں کے متعلق رب العالمین ارشاد فرماتے ہیں :

”افسوس ان کے حال ، (ان کی زبان پر ہے)۔ اطاعت کا اقرار اور اچھی اچھی باتیں۔ مگر جب قطعی حکم دے دیا گیا اس وقت وہ اپنے عہد میں اللہ سے سچے نکلتے تو انہی کے لیے اچھا تھا۔اب تم لوگوں سے اس کے سوا کچھ اور توقع     کی جاسکتی ہے کہ اگر تم الٹے منہ پھر گئے تو زمین میں پھر فساد برپا کروگے اور آپس میں ایک دوسرے کے گلے کاٹو گے۔     یہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی اور ان کو اندھا اور بہرا بنا دیا ۔ کیا ان لوگوں نے قرآن پر غور نہیں کیا ، یا ان کے دلوں پر قفل چڑھے ہوئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ ہدایت واضح ہو جانے کے بعد اس سے پھر گئے ان کے لیے شیطان نے ان کی روش کو سہل بنا دیا اور جھوٹی توقعات کا سلسلہ ان کے لیے دراز کررکھا ہے۔” (سورة محمد: ٢٠ – ٢٥)

ملکی زبوں حالی کا بھر پور اندازہ ہر خاص و عام کو ہو چکا ہوگا۔ قرآن دو راستے تجویز کرتا ہے ۔ اگر ملت کے قدم مضبوطی سے سیدھے راستے پر گامزن ہوگئے تو تا دم آخر نقشہ بروز قیامت یہ ہوگا:

 ” اس وقت جس کا نامہ اعمال سیدھے ہاتھ میں دیا جائے گا وہ کہے گا لو دیکھو پڑھو میرا نامہ اعمال ، میں سمجھتا تھا      کہ مجھے میرا حساب ملنے والا ہے ۔ پس وہ دل پسند عیش میں ہوگا عالی مقام جنت میں جس کے پھلوں کے گچھے جھکے      پڑے ہونگے (ایسے لوگوں سے کہا جائے گا) مزے سے کھاؤ پیو ان اعمال کے بدلے میں جو تم نے گزرے ہوئے دنوں میں کیے۔ ” (سورة الحاقہ: ١٩ -٢٤)

وگرنہ……..جب چڑیاںچگ گئیں کھیت تو جاٹ کھڑاپچھتائے

” اور جس کا نامہ اعمال اس کے بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا وہ کہے گا ‘ کاش میرا اعمال نامہ مجھے نہ دیا جاتااور میں نہ جانتا کہ میرا حساب کیا ہے۔ کاش میری وہی موت (جو دنیا میں آئی تھی) فیصلہ کن ہوتی۔آج میرا مال میرے کچھ کام نہ آیا۔ میرا سارا اقتدار ختم ہوگیا (حکم ہوگاکہ) پکڑو اسے جہنم میں جھونک دو اور اس کی گردن میں طوق ڈالدو اور اس کو ستر ہاتھ لمبی زنجیروں میں جکڑ دو۔ یہ نہ اللہ بزرگ و برتر پر ایمان لاتا تھا اور نہ مسکین کو کھانا کھلانے کی ترغیب دیتا تھا۔ لہٰذا آج     یہاں اس کا کوئی یار ہے نہ غمخوار اور نہ ہی زخموں کے دھون کے سوا اس کے لیے کوئی کھانا جسے خطا کاروں کے سوا کوئی نہیں کھاتا۔” (سورة الحاقہ: ٢٥ -٣٧)

اے اللہ ! ہم کمزور ہیں ، بس اپنی رضا جوئی میں ہمارا ضعف اپنی قوت سے دور کردے اور کشاں کشاں ہمیں خیر کی طرف لے جا اور الاسلام کو ہماری پسند کا منتہا بنا دے۔ ہم ذلیل ہیں تو ہمیں عزت دے اور ہم محتاج ہیں تو ہمیں رزق دے۔ اے اللہ ! ہمارے دل ، ہماری مہار اور ہمارے اعضا تیری مٹھی میں ہیں اور تو نے ہمیں ان میں سے کسی کا مالک نہیں بنایا۔ پس جب تو نے ہمارے ساتھ یہ معاملہ کیا ہے تو ، تو ہی بس ہمارا ولی بن جا اور ہمیں سیدھے رستے پر لے جا۔ آمین یا رب العالمین

خطبۂ حج۔ شیخ عبد العزیز آل الشیخ حفظہ اللہ کا مسجد نمرہ سے اہم اور تاریخی خطاب


جریدہ "الواقۃ” کراچی، شمارہ  7  ذوالحجہ 1433ھ/ اکتوبر ، نومبر 2012

رپورٹ: محمد آفتاب احمد

خطبۂ حج

 

شیخ عبد العزیز آل الشیخ حفظہ اللہ

 

کا مسجد نمرہ سے اہم اور تاریخی خطاب
امام کعبہ شیخ عبدالعزیز آل الشیخ نے مسجد نمر ہ میں خطبہ حج دیتے ہوئے کہا ہے کہ نبی کریم ﷺ کی شان میں گستاخی کسی صورت برداشت نہیں کرسکتے۔ جمہوریت سے اسلامی نظام لاکھ درجے بہتر ہے۔تمام امور میں شریعت کی پیروی لازم ہے، کسی کو اختیار نہیں کہ وہ رسول اللہ ﷺکے فیصلوں کے خلاف کام کرے۔آزادی اظہاررائے اورجمہوریت کے نام پر اسلام کو بدنام کیا جارہا ہے، اسلام میں جبر اور سختی نہیں پیار و محبت ہے۔ اسلام میں دہشت گردی کی کوئی گنجائش نہیں،مسلمانوں کے بہت سے دشمن ہیں، ان کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا ہوگا۔ دنیا میں شر کی قوتیں بالادست ہیں، ہر طرح کے تشدد کو روکنا ہوگا۔ امت مسلمہ میں اخلاقی برائیاں پیدا ہوگئی ہیں۔اللہ سے ڈریں، تقویٰ اختیار کریں، عقیدہ توحید پر چلتے ہوئے اولاد کی پرورش کریں۔مسلمان متحد ہوں، ایک دوسرے کی مدد اور معاونت کریں۔اسلامی تعلیمات کو رواج دینا ہوگا، امت مسلمہ کو اقتصادی قوت میں ڈھالنا ہوگا۔
حج کا رکن اعظم ادا ہوگیا۔عازمین بدھ کی رات رات بھر منیٰ میں قیام اورجمعرات کو نماز فجر کی ادائیگی کے بعدلبیک اللّٰھم لبیک کی صدائیں لگاتے ہوئے دیوانہ وار میدان عرفات کے لیے روانہ ہو ئے۔ عازمین بسوں، ویگنوں اور گاڑیوں کے علاوہ خصوصی طور پر چلائی گئی ٹرین کے ذریعے میدان عرفات کے لیے روانہ ہوئے۔منیٰ سے عرفات کے درمیان کا فاصلہ تقریباً 14 کلومیٹر ہے مگر پے پنا ہ رش کے باعث بڑی تعداد میں عازمین پیدل بھی میدان عرفات پہنچے۔
 
امام کعبہ نے فرمایا کہ تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں۔ اے لوگو! اللہ سے ڈرتے رہو، تقوی اور ہدایت کی راہ اپناؤ۔ اے لوگو! قیامت کے دن سے ڈرتے رہو، اللہ سے ڈرتے رہو اور راہ ہدایت اختیا ر کرتے رہو۔شرک کو کسی بھی صورت اختیار نہ کیا جائے۔ توحید کا پیغام یہ ہے کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کی جائے ۔ نبی کریم ﷺ کی شان میں گستاخی برداشت نہیں کرسکتے، دنیا کی برائیوں کا ڈٹ کا مقابلہ کیا جائے۔ اسلام میں جبر اور ظلم کی کوئی گنجائش نہیں۔ آج یہاں سب مسلمان ہیں کوئی قوم نہیں، ہمیں چاہیے کہ تمام تعصبات ختم کردیں۔شریعت کے خلاف باتیں مخالفین کا پراپیگنڈا ہے۔ اظہار رائے کی آڑ میں اسلامی حدود کے خلاف باتیں ہوتی ہیں۔ مسلمان باہر کے بینکوں سے نکال کر اپنی دولت اپنے معاشروں میں لائیں۔ مسلمانوں کو اپنی مشکلات اپنے وسائل سے حل کرنا ہوں گی۔ مسلمان اپنے عقیدے کی حفاظت کریں، اللہ کا ذکر بڑی بات ہے۔ نبی کریم ﷺکی تکریم ہمارے ایمان کا حصہ ہے، اسلام کا پیغام توحید کا پیغام ہے۔ توحید کا پیغام ہے کہ اللہ کی عبادت کریں اور کسی کی نہیں، اللہ ایک ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں، اللہ اپنی ذات اور صفات میں واحد ہے، ہماری زندگی اور ہماری موت اللہ کے لیے ہے۔ اسلام کا پیغام سب سے افضل ہے ۔ اللہ تعالیٰ اور مخلوق کا رابطہ براہ راست ہے، اس کا کوئی وسیلہ نہیں۔ مسلمان کا حق ہے کہ وہ توحید پر کاربند رہے اور اسی پر چلتے ہوئے اپنے اولاد کی پرورش کرے۔ اللہ کے سوا کسی اور کو حاجت روائی کے لیے پکارنا گمراہی ہے اورصرف ایک اللہ کی عبادت کی جائے ۔
شیخ عبدالعزیز نے کہا کہ خودکشی حرام ہے، خودکشی کرنے والے کی مغفرت نہیں ہوگی۔ مسلمان اللہ کے ساتھ کسی کو ہرگز شریک نہ ٹھہرائیں۔ مومن کی نشانی ہے کہ اس کی ذات سے کسی مسلمان کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔ اپنے درمیان اختلافات کم کرو، اللہ کی توحید کی راہ اپنا کر ہی ہم اس میں دنیا میں کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔ خطبہ حج میں انہوں نے فرمایا کہ اسلام کے سوا کوئی اور دین قبول نہیں کیا جائے گا، دین وہی ہے جو نبی کریم ﷺ نے دیا، اس دین میں نہ قبیلہ ہے نہ خاندان۔ ہمیں ہر طرح کے تشدد کو روکنا ہوگا۔ ہمیں اپنے اخلاق کو سنوارنے کے لیے محمد ﷺ کی سنتوں کو اپنانا ہوگا۔ امت مسلمہ میں اخلاقی برائیاں پیدا ہوگئی ہیں۔ تمام وسال کو اگر جمع کرلیا جائے تو مسائل پر قابو پایا جاسکتا ہے، معاشی اور اقتصادی مسائل بھی مسلمان مل کر ہی حل کرسکتے ہیں، سیاسی مشکلات کا حل بھی مسلمان نکال سکتے ہیں۔
 
عالم اسلام کو درپیش مسائل کا ذکر کرتے ہوئے امام کعبہ نے کہا کہ مسلمانوں کے بہت سے دشمن ہیں جن کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا ہوگا اور امت مسلمہ پرلازم ہے کہ وہ باہمی تعاون کوفروغ دے کر اورایک دوسرے کا احترام کریں۔ آج عالم اسلام مسائل اور مشکلات میں گھرا ہوا ہے، تمام مسائل سے نکلنے کے لیے ضروری ہے کہ اسلام کے احکامات پر عمل کیا جائے، حکمران شریعت پر عمل کرنے کے لیے حالات ساز گار بنائیں۔مسلمان اپنے تجربات اور وسائل ایک دوسرے کے ساتھ بانٹیں۔ مسلمان عقیدہ توحید پر چلتے ہوئے اپنی اولاد کی پرورش کریں۔ جادو امت مسلمہ کا اہم مسئلہ ہے ، اس نے لوگوں کو گمراہی میں مبتلا کردیا ہے۔ اللہ سے ڈریں اور تقویٰ اختیار کریں، اسلام سب سے بہترین ضابطہ اخلاق ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ اگر وہ ترقی کرنا چاہتے ہیں تو ٹیکنالوجی کی طرف جائیں۔ مسلمانوں کی بقا کے لیے ایسا کرنا بہت ضروری ہے۔ امت مسلمہ غربت کا شکار ہے،اس کی ترقی کے لیے باہمی یکجہتی اور اخوت کو فروغ دینا ہوگا۔ وسائل کو مسلمانوںکی ترقی اور بہبود پر خرچ کرنا چاہیے۔ مسلمانوں کو پورے وسائل سے استفادہ اور ان میں اضافہ بھی کرنا چاہیے۔ مال حلال ذریعے سے کمایا جائے اور ایسے خرچ کیا جائے جیسے ہمیں حکم دیا گیا ہے۔
 
امام کعبہ نے مزید کہا کہ حضورﷺ رحمت اللعالمین ہیں ۔دین کا آغاز اللہ کی توحید پر ایمان لانے سے ہوتا ہے ، تمام انبیا علیہم السلام کی رحمت و رسالت پر مسلمان یقین رکھتے ہیں ، نبی اکرمﷺ کے قائم کردہ معاشرے کے مطابق ہم کو اپنی زندگی بسر کرنا ہوگی، یہ شریعت زمان و مکاں کی پابندی سے بالاتر ہے،محمد ﷺ آخری رسول ہیں اور آپ کی شریعت افضل اور بہتر ہے۔ ہم پر واجب ہے کہ ہم ایک دوسرے کا احترام کریں۔ نبی پاک ﷺ کا ارشاد ہے شریعت کو اپنائے رکھو اور اس پر عمل کرو ، نہ صرف حضورﷺ کی سنت کو اپنائیں بلکہ خلفہ راشدین کے طریقہ کار کو بھی اپنائیں ۔ آج کل عالم اسلام مشکلات میں گھرا ہوا ہے ، بہت سارے لوگ ہلاک ہورہے ہیں اور دنیا کو غذائی قلت کا بھی سامنا ہے ۔ امت مسلمہ پر لازم ہے وہ باہمی تعاون کو فروغ دیں اور اپنے تجربات ایک دوسرے کے ساتھ بانٹیں۔تمام امور میں اسلامی شریعت کی پیروی کرنا لازمی ہے اورکسی کو اختیار نہیں کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے فیصلوں کے خلاف کام کرے،اللہ تعالی سودی کاروبارکو ناپسند کرتا ہے ۔ اسلام کے بنیادی احکامات پر عمل کرکے ہی ہم دین ودنیا میں سرخرو ہوسکتے ہیں۔میں دعا گو ہوں اللہ تعالی آپ کی عبادت اور دعاؤں کو قبول فرمائے۔(آمین )
  
ٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓ

حج کے لیے آنے والے مہمانوں سے خادم الحرمین الشریفین کا اہم خطاب

سعودی عرب کے فرمانروا خادم الحرمین الشریفین عبداللہ بن عبدالعزیز نے اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ تمام سماوی مذاہب اور انبیاء کی اہانت کی مذمت پر مبنی قانون تشکیل دے۔ سعودی حکومت کی خصوصی دعوت پر دنیا بھر سے حج کے آنے والے مہمانوں سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ امت اسلامیہ کی اپنی خود احتسابی دینی فریضہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ دین میں غلو، جہالت اور خرابی پیدا کرنے جیسے معاملات مسلمانوں کی امیدوں کے قاتل ہیں۔انہوں نے یہ بات زور دے کر کہی کہ مذاکرات اعتدال کو بڑھاتے ہیں، ان کے ذریعے باعث نزاع امور، انتہا پسندی کا خاتمہ کرنے میں مدد ملتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مکہ میں شروع کیے گئے اسلامی مذاہب کے درمیان مکالمے کے مرکز کا مطلب تمام عقائد کا اتفاق نہیں بلکہ اس مرکز کی اصل روح یہی ہے کہ مختلف عقائد اپنے اپنے دائرے میں رہتے ہوئے زندگی کے معاملات کریں۔سعودی فرمانروا نے اسلام اور نبی اسلام کی شان میں گستاخی پر مبنی امریکی فلم کی مذمت کرتے ہوئے مملکت میں انٹرنیٹ سروس فراہم کرنے والے ادارے کو حکم دیا کہ وہ ان تمام لنکس اور روابط کو بند کر دیں جن کے ذریعے ممکنہ طور پر مذموم فلم تک رسائی ممکن ہے۔انہوں نے یو ٹیوب سے بھی مطالبہ کیا کہ وہ اپنی ویب سائٹ سے اس مذموم فلم کے کلپس کو فوری طور پر ہٹا دے ۔

کو پڑھنا جاری رکھیں

تہذیبوں کا تصادم


جریدہ "الواقۃ” کراچی، شمارہ  7  ذوالحجہ 1433ھ/ اکتوبر ، نومبر 2012

ایم ابراہیم خاں

تہذیبوں کا تصادم

”تہذیبوں کا تصادم” بین الاقوامی تعلقات کے مطالعے میں ایک متنازع نظریہ ہے۔ سیمیوئل پی ہنٹنگٹن نے اس نظریے کو عالمگیر شہرت بخشنے میں مرکزی کردار ادا کیا۔ انہوں نے 1993 میں معروف جریدے "فارن افیئرز” میں ایک مضمون لکھا جس میں یہ تصور صراحت سے بیان کیا گیا تھا کہ جدید دنیا میں بین الاقوامی جنگوں کی بنیاد تہذیبی اختلاف پر ہوگی۔ تہذیبوں کے تصادم کی اصطلاح برنارڈ لیوئس نے 1990 میں معروف جریدے "دی اٹلانٹک” منتھلی کے ستمبر کے شمارے میں شائع ہونے والے مضمون "دی روٹس آف دی مسلم ریج” میں دی تھی۔ ہنٹنگٹن نے جب تہذیبوں کے تصادم سے متعلق مضمون لکھا تو دنیا بھر کے سیاسی اور علمی حلقوں میں تہلکہ مچ گیا۔ اپنے مضمون پر غیر معمولی ردعمل دیکھ کر ہنٹنگٹن نے 1996 میں ایک ضخیم کتاب "تہذیبوں کا تصادم اینڈ دی ری میکنگ آف ورلڈ آرڈر” کے عنوان سے شائع کی۔ اس کتاب کو بھی عالمگیر شہرت حاصل ہوئی۔ بہت سے سیاسی مبصرین کے نزدیک جو کچھ ہنٹنگٹن نے بیان کیا اس میں زیادہ دم خم نہیں، اور کسی بھی جنگ کی اصل بنیاد مفادات کا تصادم ہے، تہذیبوں کا تصادم نہیں۔

سرد جنگ کے بعد دنیا میں جو تبدیلیاں رونما ہوئیں ان سے تجزیہ کاروں کو تحریک ملی کہ وہ عالمی سیاست اور معیشت کو نئے زاویوں سے دیکھیں اور پرکھیں۔ مغرب کی لبرل ڈیمو کریٹک اقدار کو ہی دنیا کا مقدر سمجھا جانے لگا۔ ایک صدی کے دوران مغرب نے جو فقید المثال ترقی کی ہے اس کی روشنی میں کسی اور تہذیب کے پنپنے کی امید کی ہی نہیں جاسکتی۔ بیسویں صدی کے اوائل میں کمیونزم کو غیر معمولی مقبولیت ملی تھی، مگر اس صدی کے ختم ہوتے ہوتے یہ نظریہ بظاہر دم توڑ گیا۔ کمیونسٹ بلاک کی شکست و ریخت اور بالآخر تحلیل نے سیاسی مبصرین کو یہ نتیجہ اخذ کرنے کی راہ دکھائی کہ فکری محاذ پر اب کوئی فیصلہ کن تبدیلی رونما نہیں ہوگی اور دنیا نظریاتی اعتبار سے اپنی منطقی منزل تک پہنچ گئی ہے ! چند مصنفین اور دانشوروں کے نزدیک مغرب کی سیاسی سوچ ہی اب دنیا کا فکری مقدر ہے۔ جو کچھ دکھائی دے رہا تھا اس کے تناظر میں ایسی سوچ کا ابھرنا حیرت انگیز بھی نہ تھا۔ ترقی پذیر دنیا ہر معاملے میں مغرب کی طرف دیکھ رہی تھی۔ ترقی سے ہمکنار ہونے والے نئے ممالک بھی مغرب کی فکری کاسہ لیسی سے بچے ہوئے نہ تھے۔ جان ہاپکنز یونیورسٹی کے پروفیسر فرانسس فوکویاما نے یہ متنازع نظریہ پیش کیا کہ دنیا نظریاتی اعتبار سے مکمل ہوچکی ہے، لہٰذا فکری تاریخ کا سفر ختم ہوا۔ اس موضوع پر انہوں نے ایک ضخیم کتاب بھی لکھی جو علمی اور عوامی حلقوں میں خاصی مقبول ہوئی۔ فوکویاما کے نزدیک دنیا اب مغرب کے نظریات سے دامن بچاکر نہیں چل سکتی۔ ان کا بنیادی استدلال یہ تھا کہ مغرب کی برتری انتہائی واضح ہے اور اس کا دائرۂ اثر اس قدر وسیع ہے کہ دنیا اس کی دست نگر ہوکر رہ گئی ہے۔

ہنٹنگٹن نے یہ نظریہ پیش کیا کہ اکیسویں صدی میں جنگیں پانی یا زمین کے حصول کی خواہش کی بنیاد پر نہیں، بلکہ تہذیبی اور مذہبی اختلاف کی بنیاد پر ہوں گی۔ اس تصور یا نظریے نے سنجیدہ حلقوں میں ہلچل مچادی۔ یہ بآور کرلیا گیا کہ مغرب کے انتہائی طاقتور ممالک اس نظریے کو بنیاد بناکر ترقی پذیر معاشروں کو زیر نگیں کرنا چاہتے ہیں۔ امریکا اور یورپ نے جس طرح جارحانہ طور پر کمزور ممالک کے خلاف کارروائیاں شروع کیں اور ان کی زمین اور وسائل ہتھیانے کا عمل شروع کیا اس سے دنیا کو یہ پیغام ملا کہ اب مغرب اپنے مفادات کے لیے کسی بھی حد تک جاسکتا ہے۔ امریکا اور یورپی ممالک پر الزام عائد کیا جارہا ہے کہ وہ تہذیبوں کے تصادم کا بہانہ تراش کر افریقہ اور مشرق وسطیٰ میں زیادہ سے زیادہ تباہی پھیلانا چاہتے ہیں۔ ہنٹنگٹن کا استدلال یہ ہے کہ بین الاقوامی تعلقات اور تنازعات کو اب مذہبی، تہذیبی اور ثقافتی بنیاد پر سمجھنا زیادہ آسان ہوگا۔ "فارن افیئرز” میں ہنٹنگٹن نے لکھا ہے:

"میرا نظریہ یہ ہے کہ سرد جنگ کے بعد جو نئی دنیا معرض وجود میں آئی ہے اس میں تمام بڑے اور فیصلہ کن تنازعات کی بنیاد معاشی مفادات اور نظریات سے کہیں بڑھ کر تہذیبی اقدار پر استوار ہوگی۔”

ہنٹنگٹن نے اپنی کتاب میں دنیا کو سات تہذیبوں میں تقسیم کیا ہے۔ آئیے، اس تقسیم پر ایک نظر ڈالیں۔
·        یورپ، شمالی امریکا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ پر مشتمل عیسائی تہذیب۔ (عیسائی دنیا میں روس بھی شامل ہے تاہم وہ آرتھوڈوکس ہے۔ قدامت پرست عیسائیوں کے عقائد کیتھولک یا پروٹیسٹنٹ عیسائیوں کے خیالات سے یکسر مختلف ہیں۔ روس اور مشرقی یورپ کے دیگر ممالک بھی ایک تہذیبی علاقہ تشکیل دیتی ہیں ۔ سابق سوویت یونین کی ریاستیں خود فیصلہ کریں گی کہ انہیں یورپ اور شمالی امریکا کے ساتھ رہنا ہے یا روس کے ساتھ۔ روس اور اس کے زیر نگیں علاقوں کو ایک علاحدہ تہذیبی علاقہ اب تک تو تصور نہیں کیا جاتا، ممکن ہے آگے چل کر اس کی راہ ہموار ہو۔ جن علاقوں میں آرتھوڈوکس عیسائی رہتے ہیں انہیں باضابطہ تہذیب بھی قرار نہیں دیا جاسکتا۔)
·        مشرق وسطیٰ، شمالی افریقہ، جنوبی ایشیا، ملائیشیا اور انڈونیشیا پر مشتمل اسلامی تہذیب
·        ہندوستان اور نیپال پر مشتمل ہندو تہذیب
·        صحرائے صحارا کے زیریں علاقے پر مشتمل تہذیب
·        چین، ویت نام، سنگاپور، تائیوان وغیرہ پر مشتمل چینی تہذیب
·        تھائی لینڈ، کمبوڈیا، ویت نام، بھوٹان، منگولیا، لائوس، تبت، میانمار، نیپال اور شمالی بھارت سے تعلق رکھنے والے بدھ باشندوں پر مشتمل بدھ تہذیب
·        اور آخر میں جاپان۔ بہت سوں کو حیرت ہوتی ہے کہ ہنٹنگٹن نے جاپان کو علاحدہ تہذیب شمار کیا ہے۔ انہوں نے اس کی ٹھوس وجوہ بھی بیان کی ہیں۔
ہنٹنگٹن کا بنیادی استدلال یہ ہے کہ دنیا بھر میں تہذیبوں کے مابین اختلافات تیزی سے ابھر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے سابق یوگوسلاویہ ، چیچنیا اور پاک بھارت تنازعے کی مثال پیش کی ہے۔ حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہنٹنگٹن نے یہ بھی لکھا ہے کہ مغربی اقدار کو برتر قرار دے کر انہیں دنیا کا حتمی مقدر بنادینا کسی طور درست نہیں، بلکہ سادہ لوحی ہے۔ مغرب نے جہاں جہاں قدم جمائے ہیں، جمہوریت اور سرمایہ دارانہ نظام بھی نافذ اور رائج کرنے کی کوشش کی ہے اور اس کے نتیجے میں صرف خرابیاں پیدا ہوئی ہیں۔ مغرب اس بات کو قبول یا ہضم نہیں کر پارہا کہ اس کی دی ہوئی ہر سوغات لاجواب نہیں۔ مغرب کو اس بات کا احساس (اور فخر) ہے کہ اس نے جدید بین الاقوامی نظام بنایا، اس کے لیے قوانین مرتب کیے اور اقوام متحدہ کی شکل میں دنیا کو ایک لڑی میں پرویا۔ مگر یہ سب تو اس نے اپنے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے کیا ہے، پھر بھلا کوئی بھی دوسری تہذیب مغرب کے دیئے ہوئے ہر اصول کو اپنانے کے لیے صبر اور قرار کیوں داؤ پر لگائے؟

ہنٹنگٹن نے چین کی تہذیب کو مستقبل میں مغرب کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ چین تیزی سے ترقی کی منازل طے کر رہا ہے۔ چین اور اسلامی دنیا کے مابین مناقشے کی تاریخ نہیں، لہٰذا دونوں ایک دوسرے کو زیادہ آسانی سے قبول کرسکتے ہیں۔ اسلامی ممالک نے چین میں دلچسپی دکھائی بھی ہے۔ چین کے مستحکم ہونے سے ہر اسلامی ملک کی انفرادی سیاست اور معیشت کے علاوہ مجموعی طور پر اسلامی تہذیب بھی توانا ہوسکتی ہے۔ اس صورت میں تہذیبوں کے مابین تصادم کا خطرہ مزید پروان چڑھے گا۔ مغرب کے لیے بہت سے مسائل موجود ہیں۔ ایک طرف تو اس کی آبادی کم ہوتی جارہی ہے اور رقبہ بھی محدود رہ گیا ہے۔ عالمی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ مغرب اس معاملے میں دنیا کا ساتھ نبھانے سے قاصر ہے۔

ہنٹنگٹن نے آرتھوڈوکس، ہندو اور جاپانی تہذیب کو swing civilization قرار دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان تہذیبوں کا جھکاؤ کسی بھی سمت ہوسکتا ہے۔ ہندو تہذیب کسی بھی مرحلے پر چینی یا اسلامی تہذیب سے مل سکتی ہے۔ اسلامی اور چینی تہذیب کے ممکنہ ملاپ کو ہنٹنگٹن نے شک کی نگاہ سے دیکھا ہے۔ اس معاملے میں وہ قدرے متعصب دکھائی دیئے ہیں۔ چین کو عالمی سطح پر اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کے لیے پاکستان، ایران اور دیگر اسلامی ممالک کا ساتھ درکار ہے۔ یہ ساتھ پانے کے لیے وہ کچھ بھی کرسکتا ہے۔ عالمی میڈیا میں چین کے خلاف مغربی پروپیگنڈا کا بنیادی سبب بھی یہی خوف ہے کہ کہیں چین اور اسلامی دنیا ایک نہ ہوجائیں۔

جدیدیت، مغربیت اور منقسم ممالک

ہنٹنگٹن کے ناقدین روایتی تہذیب کو یہ کہتے ہوئے تنقید کا نشانہ بناتے ہیں کہ وہ جدید دور کے تقاضے نبھانے سے قاصر ہیں۔ ان کے خیال میں اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ بیشتر قدامت پسند تہذیبیں اپنے آپ کو تبدیل کرنے سے گریزاں ہیں۔ ان کی نظر میں بہتر یہ ہے کہ اپنی حدود میں رہتے ہوئے زیادہ سے زیادہ فروغ کی کوشش کی جائے۔ اس کوشش میں وہ زیادہ کامیاب نہیں ہوسکی ہیں۔ اس ذیل میں جاپان ایک ایسی مثال ہے جسے بنیاد بناکر کئی پس ماندہ تہذیبیں اپنے لیے نیا جہان پیدا کرسکتی ہیں۔ جاپان نے مغرب سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ حالات کے مطابق اپنے آپ کو تبدیل کرکے اس نے ترقی کی متعدد منازل طے کی ہیں اور اب وہ عالمی معیشت میں کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔ جاپان نے آزاد معیشت کو فروغ دیا ہے، جمہوریت کو اپنایا اور اس کے باوجود مغرب سے یکسر جدا تہذیبی شناخت برقرار رکھی ہے۔ چین بھی ابھرتی ہوئی غیر مغربی معیشت ہے۔ روس کا شمار بھی ان ممالک میں ہوتا ہے جو غیر مغربی جدیدیت کی عمدہ مثال ہیں۔ روس کے لیے ابتدا ہی سے شناخت کا مسئلہ موجود رہا ہے۔ اب تک یہ طے نہیں ہوسکا کہ وہ مشرقی ملک ہے یا مغربی۔ مغربی دنیا اسے اپنا حصہ بنانے کے معاملے میں کبھی سنجیدہ دکھائی نہیں دی۔

مغرب نے جس دور میں بیرون ملک نوآبادیاں بنانے پر توجہ دی، فطری علوم کو پروان چڑھایا اور روشن خیالی اپنائی اسی دور میں آرتھوڈوکس تہذیب اندرونی فروغ کی جانب مائل رہی۔ اقدار کے معاملے میں اس نے بازنطینی تہذیب کے بجائے روم کی سلطنت پر انحصار کیا۔ ظاہر ہے کہ مشرق سے روس کا فاصلہ بھی بڑھ گیا۔ ترکی کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ دو تہذیبوں کے سنگم پر کھڑا ہے۔ اسلامی دنیا میں اس کا مقام غیر معمولی رہا ہے، مگر جدید دور میں اس نے مغرب کو بہتر آپشن کی حیثیت سے اپنایا ہے۔ ترک زبان رومن رسم الخط میں لکھی جاتی ہے۔ مغرب کی اقدار کو نمایاں طور پر اپنایا گیا ہے۔ ترک سیاست اور معیشت میں فوج کا کردار کلیدی نوعیت کا رہا ہے۔ اب بھی فوج تمام معاملات پر حاوی ہے۔ ترکوں نے جدید مغربی لباس کو بھی اپنالیا ہے۔ ترکی یورپی یونین کا حصہ بننے کے لیے بہت کچھ داؤ پر لگا چکا ہے۔ ترکی کا معاملہ بہت واضح ہے کہ وہ مغرب کا حصہ بننا چاہتا ہے۔ یورپی یونین کا حصہ بننے کی صورت میں ایران پر بھی دباؤ بڑھ جائے گا۔ swing civilization کے حامل کسی بھی ملک کے لیے کسی برتر تہذیب کا حصہ بننے کی راہ اسی وقت ہموار ہوتی ہے جب تین شرائط مکمل کی جائیں۔
·       سب سے پہلے تو اس ملک کی اشرافیہ ایسا کرنے کے لیے تیار ہو،
·        دوسرے یہ کہ اس فیصلے یا ارادے کو عوام کی حمایت حاصل ہو
·       اور تیسرے یہ کہ جس تہذیب کا حصہ بننے کی تیاری کی جارہی ہے اس کی اشرافیہ بھی اس معاملے کو قبولیت کی سند دے۔
ہنٹنگٹن کے تصورات نے خاصا ہنگامہ کھڑا کیا۔ ان سے اختلاف کرنے والے بھی کمر کس کے میدان میں آگئے۔ بہت سے سرکردہ سیاسی تجزیہ نگاروں کا خیال یہ تھا کہ ہنٹنگٹن نے کہیں سے کوئی اشارہ پاکر یہ شوشہ چھوڑا ہے! اختلاف کرنے والوں کا بنیادی استدلال یہ تھا کہ تہذیبی بنیاد پر عالمی مناقشوں کا جواز پیش کرنا تاریخی حقائق سے درست ثابت نہیں ہوتا۔ ایک ہی تہذیب سے وابستہ ہونے کے باوجود یورپی ممالک نے دو عالمگیر جنگیں لڑی ہیں اور ایک دوسرے کو مکمل طور پر تباہ کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ ہنٹنگٹن کے نظریے کے مطابق چین اور مشرق بعید کے بیشتر ممالک ایک ہی تہذیب کا حصہ ہیں لہٰذا ان کے مابین مخاصمت کی کوئی گنجائش نہیں۔ مگر دوسری طرف حقیقت یہ ہے کہ ویت نام اور دوسرے بہت سے ممالک اب بھی چین سے خوفزدہ ہیں۔ ویت نام خاص طور پر قابل ذکر ہے جس نے اب بھی خاصی بڑی فوج رکھی ہوئی ہے۔ مسلم دنیا بھی اب تک منتشر چلی آرہی ہے۔ پاکستان، ایران، ترکی، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، ملائیشیا، انڈونیشیا اور دیگر اسلامی ممالک اپنی اپنی ترجیحات کے تحت جی رہے ہیں۔ ان کے باہمی تعلقات کسی واضح تہذیبی رشتے کی جانب اشارہ نہیں کرتے بلکہ اس سے کہیں دور جاکر یہ سب اپنے اپنے "تکوینی” مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے علاحدہ بلاکس سے وابستگی رکھے ہوئے ہیں۔

بھارت اور جاپان نے اپنی تاریخی اور تہذیبی روایات کے برعکس جمہوریت کو عمدگی سے اپنایا ہے اور ثابت کیا ہے کہ دیگر تہذیبوں سے بہت کچھ سیکھا جاسکتا ہے، لیا جاسکتا ہے۔ کئی ممالک ایسے ہیں جو کسی بھی دوسری تہذیب سے وابستہ کسی بھی ملک سے معاملات طے کرتے وقت حکومت کی نوعیت یا سیاسی نظام پر خاصا زور دیتے ہیں۔ بھارت، جاپان اور روس اس کی واضح مثال ہیں۔

11 ستمبر 2001 کے واقعات کے بعد بہت سوں کو محسوس ہوا کہ ہنٹنگٹن نے جو کچھ کہا تھا وہ بالکل درست تھا۔ افغانستان اور عراق پر جنگ تھوپنے کے عمل کو تہذیبی ٹکراؤ سے تعبیر کیا گیا۔ 1995 سے 2004 تک یورپی یونین میں توسیع کی جاتی رہی۔ مشرقی یورپ کے آرتھوڈوکسی کو چھوڑ کر کئی ممالک مغربی یورپ کے مرکزی دھارے کا حصہ بننے کی جانب مائل ہوئے۔ جرمن جغرافیہ دان البرٹ کولب کے مطابق قومی تاریخ کی تشکیل میں مذہب سے کہیں بڑھ کر معاشرت اور معیشت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

ہنٹنگٹن کا سوانحی خاکہ

سیمیوئل فلپس ہنٹنگٹن کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جنہوں نے تاریخ اور سیاست کے حوالے سے علمی حلقوں میں تہذیبوں کے تصادم کو پروان چڑھانے میں مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ 18 اپریل 1927 کو پیدا ہونے والے ہنٹنگٹن نے علمی محاذ پر بھرپور زندگی بسر کی ہے۔ انہیں جمہوری اور فوجی حکومتوں کے مابین کشمکش سے متعلق امور کا ماہر تصور کیا جاتا ہے۔ انہوں نے 1968 میں ایک متنازع مضمون میں مشورہ دیا تھا کہ ویت نام میں امریکا نواز عناصر کو مستحکم کرنے لیے دیہی علاقوں پر بمباری کی جائے۔ اسی زمانے میں انہوں نے شریک مصنف کی حیثیت سےThe Governability of Democracies لکھی۔

امریکا کے ٹرائی لیٹرل کمیشن نے یہ رپورٹ 1976 میں شائع کی۔ ہنٹنگٹن کی شہرت کا آغاز 1960 کی دہائی سے ہوا جب ان کی کتاب Political Order in Changing Societies شائع ہوئی۔ اس کتاب میں انہوں نے سیاسی مفکرین کی اس رائے کا جواب پیش کیا تھا کہ دنیا بھر میں نوآبادیاتی تسلط سے نجات پانے والے ممالک میں سیاسی اور معاشی اصلاحات تیزی سے نافذ ہوں گی۔

1970 کی دہائی میں ہنٹنگٹن نے اپنے سیاسی نظریات کو عملی جامہ پہنانے کے حوالے سے کئی تجربے کیے۔ انہوں نے ہر طرح کی حکومت کے ساتھ کام کیا۔ برازیل سمیت کئی ممالک کی حکومتوں کو انہوں نے لبرل ڈیموکریسی کی طرف جانے کے معاملے میں خبردار کیا تاکہ وہ ہر قدم پھونک پھونک کر اٹھائیں۔ ہنٹنگٹن کے نظریات پر تنقید بھی بہت ہوئی۔ سیاسی مفکرین کا کہنا تھا کہ وہ کبھی کبھی غیر منطقی نوعیت کی باتیں کرتے ہیں۔

ہنٹنگٹن کو حقیقی شہرت 1996 کی کتاب Clash of Civilizations سے ملی۔ اس کتاب نے انہیں متنازع مصنفین کی اگلی صف میں کھڑا کردیا۔

ہنٹنگٹن کی کتابیں

ü  THe Soldier and the State: The Theory and Politics of Civil-Military Relations (1957)
ü  The Common Defense: Strategic Programs in National Politics (1961)
ü  Political Order in Changing Societies (1968)
ü  American Politics: The Promise of Disharmony (1981)
ü  The Third Wave: Democratization in the Late Twentieth Century (1991)
ü  The Clash of Civilizations and the Remaking of World Order (1996)
ü   Who Are We? The Challenge to America’s National Identity (2004)

فنا فی الآزاد. مولانا ابو الکلام آزاد کے ایک عقیدت مند کو خراج عقیدت


 یہ ٹھیک ہے کہ حیاتِ ابو الکلام کا ایسا کوئی گوشہ نہیں جس میں ابو سلمان کا گزر ہوا ہو اور ابو سلمان کی زندگی کا ایسا کوئی پَل نہیں جس میں ابو الکلام کی شراکت ہو ۔ لیکن اس کے باوجود نہ ہم ابو الکلام کی زندگی سے ابو سلمان کو خارج کر سکتے ہیں اور نہ ہی ابو سلمان کی زندگی سے ابو الکلام کو نکال سکتے ہیں ۔ ابو الکلام، ابو سلمان کے لیے اور ابو سلمان، ابو الکلام کے لیے لازم و ملزوم ہیں ۔

 
دنیا میں بڑی بڑی شخصیات پیدا ہوئی ہیں ان کے بڑے بڑے عقیدت مند پیدا ہوئے ہیں جنہوں نے اپنے اپنے ممدوحین کے لیے اپنی زندگی کی کتنی ہی ساعتیں وقف کردیں اور اپنے ممدوحین کے ہر اہم گوشے کو کھنگال ڈالا۔ لیکن ابو سلمان اپنے طرزِ خاص کے سب سے منفرد عقیدت مند ہیں ۔ وہ زندگی کی ساعتیں وقف کرنے کے قائل نہیں ، انہوں نے زندگی ہی وقف کردی ۔ انہوں نے ابو الکلام کی زندگی کے اہم گوشوں کو نہیں کھنگالا بلکہ ہر گوشے کو کھنگال ڈالا ۔ ابو سلمان علمی تاریخ کی واحد مثال ہیں جنہوں نے اپنے ممدوح ابو الکلام پر سب سے زیادہ کتابیں لکھ ڈالیں، جن کی مجموعی تعداد ٥٠ سے زائد ہے ۔
اسے جنون کہیے یا دیوانگی ١٩٨٨ء ابو الکلام کی صد سالہ پیدائش کا سال ۔ ہندوستان میں اس سال کو بڑے بڑے اداروں نے اپنے بھرپور مالی وسائل کے ساتھ شاندار طریقے سے منایا لیکن کراچی میں مالی وسائل سے محروم اور مالی مسائل سے بھرپور ابو الکلام کے اس عقیدت مند نے جس طرح منایا وہ ہماری علمی تاریخ میں "تاریخ عقیدت" کی یادگار ترین مثال ہے ۔ چنانچہ خود لکھتے ہیں :
"میں نے اپنے دل میں یہ فیصلہ کرلیا تھا کہ پاک و ہند کا کوئی ایک ادارہ مولانا ابو الکلام آزاد پر یا ان کی یاد میں زیادہ سے زیادہ جتنی کتابیں شائع کرے گا ۔ اس سے زیادہ کتابیں ، خواہ ایک ہی زیادہ ہو شائع کروں گا ۔”
ابو الکلام کے اس عقیدت مند نے محض نذرانۂ اشک کے ہدیے پیش کرکے اپنی عقیدت کا تقاضا ادا کرنا اپنی غیرت اور خودداری کے منافی سمجھتے ہوئے عالی حوصلگی کی مثال قائم کی ۔ ابو الکلام پر تحقیق و جستجو کے تقاضے پورے کرتے ہوئے اپنی داستانِ عقیدت رقم کرکے قرطاس کے ڈھیر لگادیئے ۔ پھر ان کاغذی گلدستوں کی منصہ شہود پر آمد بھی ایک مرحلۂ دشوار تھا ۔ یہاں اس عقیدت مند نے اپنی درماندگی کو خاطر میں لائے بغیر عزیمت و استقامت کی تاریخ رقم کی ۔
 
ابو سلمان عمل کی مثال ہیں ۔ وہ اپنی عقیدت میں سچے ہیں ۔ ابو الکلام کی "کلامیات” سے انہیں جو دلچسپی ہے اس نے انہیں "کلام غیر” سے بے نیاز کردیا ہے ۔ کوئی کچھ ہی کہے وہ اپنا کام کرتے ہیں ۔ اس طرح وہ زبانِ قال سے نہیں بلکہ زبانِ عمل سے بتاتے ہیں کہ کام کیسے کیا جاتا ہے ۔
 
ابو سلمان علم و تحقیق کے آدمی ہیں ۔ ان کی بدقسمتی ہے کہ وہ ہمارے عہد اور معاشرے سے تعلق رکھتے ہیں ۔ اگر انہیں علم پرور معاشرہ ملتا تو ان کی قدر ہوتی ۔ لوگ ان پر تحقیقی مقالے لکھتے ۔ ان کے اعزاز میں تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ۔ ان کے نام پر شاہراہ وقف کی جاتی ۔ مگر زمانے سے جو "سزائے تحسین” انہیں ملی اس پر شکوہ کناں ہونے کی بجائے انہوں نے تسکینِ قلب کے مملکتِ قناعت میں پناہ گزیں ہوناپسند کیا۔
فائز چو قدسیم نہ برد مال و زر زجا
آتش نیم کہ تیز کند خار و خس مر

فنا فی الآزاد

مولانا ابو الکلام آزاد کے ایک عقیدتمند کو خراج عقیدت

جو تمام عقیدت مندوں سے بازی لے گیا

از قلم: محمد تنزیل الصدیقی الحسینی

جریدہ "الواقۃ” کراچی، شمارہ  7  ذوالحجہ 1433ھ/ اکتوبر ، نومبر 2012

 

ی

مریم جمیلہ مغرب کے لیے اسلام کی سفیر


جریدہ "الواقۃ” کراچی، شمارہ  7  ذوالحجہ 1433ھ/ اکتوبر ، نومبر 2012

ابو محمد معتصم بااللہ

مریم جمیلہ

 

مغرب کے لیے اسلام کی سفیر
 
مریم جمیلہ ( پیدائشی نام: مارگریٹ مارکس ) مغرب کے لیے اسلام کی سفیر تھیں ۔ ان کی زندگی اور ان کے رویے نے اہلِ مغرب کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ اسلام ایک واقعی غیر معمولی روحانی تاثیر کا حامل دین ہے ۔ وہ اپنی ذات میں اللہ تبارک و تعالیٰ کی نشانی تھیں ۔ ٢٣مئی ١٩٣٤ء کو نیو یارک کے ایک یہودی خانوادے میں پیدا ہوئیں ۔ ان کا خاندان جرمنی سے تعلق رکھتا تھا ۔
 
ان کی ابتدائی زندگی نیویارک میں گزری ۔ وہ زمانۂ طالب علمی میں اسلام اور عرب تہذیب سے متعارف ہوئیں جو بعد ازاں تعارف سے بڑھ کر تاثر میں تبدیل ہوگیا ۔
 
لڑکپن ہی سے جنوبی افریقہ کے شہر ڈربن سے شائع ہونے والے مسلم ڈائجسٹ کے لیے تحاریر بھی لکھتی رہی تھیں ۔ وہ علامہ محمد اسد ( سابق یہودی لیوپولڈوس ) اور محمد مارماڈیوک پکھتال کے قبول اسلام سے خاصی متاثر تھیں ۔ اوّل الذکر کی کتاب Road to Makkah ( اردو ترجمہ ” طوفان سے ساحل تک ” ) نے ان کے ذہن و قلب پر اچھے اثرات مرتب کیے تھے تاہم انہوں نے اپنے اشکالات مولانا ابو الاعلیٰ مودودی کی خدمت میں پیش کیے اس سلسلے میں ان کی مستقل خط و کتابت رہی . بالآخر انہوں نے ٢٤ مئی ١٩٦١ء کو اسلام قبول کر لیا۔
 
اسلام قبول کرنے کے بعد مولانا مودودی کی دعوت پر وہ ١٩٦٢ء میں وہ لاہور پہنچیں جہاں انہوں نے مولانا موددوی اور ان کے اہل خانہ سے ملاقات کی۔ بعد ازاں انہوں نے پاکستان میں مستقل سکونت اختیار کرلی اور یہاں محمد یوسف خان نامی شخص –جو جماعت اسلامی کے رکن ہیں –سے  شادی کی۔یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ محمد یوسف خاں پہلے سے شادی شدہ تھے اور مریم جمیلہ ان کی دوسری بیوی کی حیثیت سے ان کی زندگی میں شامل ہوئیں ۔
 
کہا جاتا ہے کہ ان کے اسلام قبول کرنے کی وجہ” مسلم ڈائجسٹ ” میں مولانا مودودی کا چھپنے والا مضمون "حیات بعد الموت ” تھا جس کے بعد انہوں نے ٥دسمبر ١٩٦٠ء کو مولانا مودودی سے بذریعہ خط پہلا رابطہ کیاتھا۔مولانا مودودی اور مریم جمیلہ کے درمیان خط و کتابت کا یہ سلسلہ ١٩٦٢ء تک جاری رہا۔ ان خطوط کا موضوع اسلام اور مغرب ہوا کرتا تھا۔ دونوں کے خطوط بعد ازاں ”مولانا مودودی اور مریم جمیلہ کی خط و کتابت ” کے عنوان سے کتابی شکل میں شائع ہوئے ۔
 
مریم جمیلہ نے اسلام قبول کرنے کے بعد اپنی تمام تر قلمی صلاحیتیں تبلیغِ اسلام کے لیے وقف کردی ۔ ان کی کتابوں میں حسبِ ذیل کتابیں شامل ہیں ::
 
 ISLAM VERSUS THE WEST
2. ISLAM AND MODERNISM
3. ISLAM IN THEORY AND PRACTICE
4. ISLAM VERSUS AHL AL KITAB PAST AND PRESENT
5. AHMAD KHALIL
6. ISLAM AND ORIENTALISM
7. WESTERN CIVILIZATION CONDEMNED BY ITSELF
8. CORRESPONDENCE BETWEEN MAULANA MAUDOODI AND MARYUM JAMEELAH
9. ISLAM AND WESTERN SOCIETY
10. A MANIFESTO OF THE ISLAMIC MOVEMENT
11. IS WESTERN CIVILIZATION UNIVERSAL
12 WHO IS MAUDOODI ?
13 WHY I EMBRACED ISLAM
14 ISLAM AND THE MUSLIM WOMAN TODAY
15 ISLAM AND SOCIAL HABITS
16 ISLAMIC CULTURE IN THEORY AND PRACTICE
17 THREE GREAT ISLAMIC MOVEMENTS IN THE ARAB WORLD OF THE RECENT PAST
18 SHAIKH HASAN AL BANNA AND IKHWAN AL MUSLIMUN
19 A GREAT ISLAMIC MOVEMENT IN TURKEY
20 TWO MUJAHIDIN OF THE RECENT PAST AND THEIR STRUGGLE FOR FREEDOM AGAINST FOREIGN RULE
21 THE GENERATION GAP ITS CAUSES AND CONSEQUENCES
22 WESTERNIZATION VERSUS MUSLIMS
23 WESTERNIZATION AND HUMAN WELFARE
24 MODERN TECHNOLOGY AND THE DEHUMANIZATION OF MAN
25 ISLAM AND MODERN MAN
 
وہ لاہور میں رہائش پذیر تھیں اور یہیں بروز بدھ ٣١ اکتوبر ٢٠١٢ء کو ان کا انتقال ہوا۔
 
Deborah Baker نے مریم جمیلہ کی سوانح The Convert: A Tale of Exile and Extremism کے عنوان سے لکھی ۔ یہ کتاب ٢٠١١ء میں طبع ہوئی ہے ۔
 
ایک افسوسناک امر
مریم جمیلہ ( غفر اللہ لہا ) نورِ ہدایت کی متلاشی ایک پاکیزہ روح تھی ۔ جس نے محض اسلام کی خاطر اپنا خاندان ، معاشرہ اور ملک چھوڑ کر اسلام کے آغوشِ رحمت میں پناہ لی۔ اپنی پوری زندگی اسلامی احکام پر عمل کرتے ہوئے لاہور میں گزاری ۔ وہ قبولِ اسلام کے بعد ایک انتہائی با پردہ خاتون ثابت ہوئیں۔ بدقسمتی سے ان کی خبر وفات کے ساتھ اخبارات میں ان کی پرانی تصاویر بھی شائع کی گئیں یہ روّیہ اسلامی اخبارات و جرائد کے صفحات پر ظاہر ہوا ۔ اس کارِ مذموم کی جس قدر مذمت کی جائے کم ہے ۔ ایک باپردہ اسلامی بہن کی تصویر کی اشاعت غیر مناسب و غیر اخلاقی تھا ۔ مریم جمیلہ کی تصویر کی اشاعت کرنے والوں نے اپنی ہمشیرہ دینی کی حق تلفی کا ارتکاب کیا ہے ۔ کاش ایسا نہ کیا جاتا۔مانا زرد صحافت کے اپنے تقاضے ہیں مگر غیرتِ اسلامی کی کچھ رمق تو باقی رہے ۔

سیّد علی مطہر نقوی سے فکر انگیز گفتگو


جریدہ "الواقۃ” کراچی، شمارہ  7  ذوالحجہ 1433ھ/ اکتوبر ، نومبر 2012

ابو موحد عبید الرحمن

سیّد علی مطہر نقوی سے  فکر  انگیز  گفتگو

سیّد علی مطہر نقوی موجودہ امیر جماعت اسلامی پاکستان سیّد منور حسن کے خسر ہیں ۔ وہ خود بڑے متحرک و فعال شخصیت کے حامل رہے ہیں ۔ انہوں نے کئی اہم کتابیں شائع کی ہیں ۔ پاکستان میں پہلے پہل مولانا عبد الشکور فاروقی لکھنؤی اور مولانا عامر عثمانی کے افکار و نظریات کی اشاعت بھی انہیں کا حصہ ہے ۔ انہیں اپنے عہد کے کبار علماء کی ہم نشینی و ہم جلیسی کا شرف حاصل رہا ہے ۔ اس اعتبار سے ان کا سینہ قیمتی معلومات کا مخزن ہے ۔ اسی اہمیت کے پیش نظر ادارہ ” الواقعة ” نے ان کے ساتھ ایک فکری نشست کا اہتمام کیا ۔ اس دوران ان سے مختلف موضوعات پر گفتگو رہی ۔


الواقعة:اپنی ابتدائی زندگی اور خاندانی پسِ منظر سے متعلق آگاہ فرمائیے ؟
سیّد علی مطہر نقوی : میری پیدائش ١٩٢٣ء میں امروہہ کے نقوی سادات خاندان میں ہوئی ۔ میرے تایا سید علی متقی امروہہ کے مشہور و معروف اصحاب میں سے تھے ۔ وہ امروہہ مسلم لیگ کے تا حیات صدر رہے ۔ انہیں اپنے زمانے میں سیاسی اعتبار سے نمایاں مقام حاصل تھا ۔ مولانا شوکت علی اور دوسرے سیاسی رہنما ان سے ملنے امروہہ تشریف لایا کرتے تھے ۔

الواقعة:آپ اپنی تعلیمی زندگی میں کن اساتذہ سے متاثر ہوئے ؟
سیّد علی مطہر نقوی : میری تعلیمی زندگی تو کوئی خاص نہیں تاہم مولانا انوار الحق صاحب شفیق استاد تھے ۔

الواقعة:اپنی علمی زندگی میں آپ کن اشخاص سے متاثر ہوئے ؟
سیّد علی مطہر نقوی: میں پہلے نمبر پر امام اہل سنت علامہ عبد الشکور فاروقی لکھنؤی سے بے انتہا متاثر رہا ہوں اور خود کو ان کا نیاز مند سمجھتا ہوں اور دوسرے نمبر پر مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی علیہ الرحمة سے متاثر ہوں ۔

الواقعة:مولانا عبد الشکور لکھنؤی سے اپنے اس خاص ارتباطِ قلبی اور نیاز مندانہ تعلقات کی تفصیل بیان فرمائیے ؟
سیّد علی مطہر نقوی: علامہ لکھنؤی تو اپنے دور کے ممتاز علماء میں سر فہرست ہیں اور یقینا وہ صحیح معنوں میں امام اہل سنّت تھے بلکہ علامہ یوسف بنوری بھی انہیں ” امام اہل سنت ” کے لقب سے یاد فرمایا کرتے تھے ۔ مفتی اعظم مفتی کفایت اللہ صاحب انہیں ” جامع معقول ومنقول ” بتلاتے تھے ۔علی میاں انہیں نہ صرف ” عمیق النظر فقیہ ”لکھتے ہیں بلکہ اپنے دور کا ” مجدد” بھی قرار دیتے تھے ۔ مجھے اور میرے بڑے بھائی یعنی قاری علی تجمل نقوی امروہوی کو علامہ لکھنؤی سے خاص قلبی انس تھا ۔ خود علامہ لکھنؤی بھی ہم سے محبت رکھتے تھے بلکہ آپ کی جب پاکستان آمد ہوئی دو بار ، تو دونوں بار تمہیدی گفتگو کے فوراً بعد اپنے مخصوص لہجہ میں بھائی کے متعلق دریافت فرماتے کہ تجمل کا کیا حال ہے ۔

الواقعة:مولانا سیّد ابو الاعلیٰ مودودی سے کب اور کس طرح متعارف ہوئے ؟
سیّد علی مطہر نقوی: فکرِمودودی سے میری پہلی آشنائی بذریعہ ترجمان القرآن ہوئی ۔ یہ ١٩٣٢ء کی بات ہے جب میں نے ” اشارات ” کا مطالعہ کیا اور پورے یقین کے ساتھ اس نتیجہ پر پہنچا کہ یہ شخص ( یعنی سید مودودی ) صحیح اسلامی فکر کا حامل ہے اور اس کی دلیل نہ صرف سید صاحب کی کتابیں ہیں بلکہ ان کی کتاب زندگی بھی اسی پر شاہد ہے ۔ ان کی کتابیں اور کتاب زندگی میں آپ عین مطابقت پائیں گے ، یہی معاملہ ان کی صورت و سیرت کا ہے کہ وہاں بھی اس ناچیز نے فطرت کی جھلک کو واضح طور پر محسوس کیا ۔ میری سید صاحب سے خود ان کے گھر پر ملاقاتیں رہتی تھیں ، میرا قلبی تاثر ان کے متعلق یہی کچھ تھا جو میں نے آپ سے بلا تکلف بیان کیا ۔

الواقعة:آپ نے امّت مسلمہ کے دو بڑے اصحاب علم و فضل یعنی مولانا لکھنؤی و مولانا مودودی کا ذکر خیر کیا ۔ آپ کی اس قلبی محبت نے کیا ان دونوں شخصیتوں کے مابین کوئی نکتۂ اشتراک بھی دریافت کیا؟
سیّد علی مطہر نقوی:  جی ! بڑا عمدہ سوال ہے ، یقینا ہم ان دونوں اکابرین کے مابین نکتۂ اشتراک پاتے ہیں اور یہ نکتۂ اشتراک دونوں اکابرین کے مابین محبت و قدر دانی کا ہے ۔ دونوں ہی اکابرین ایک دوسرے کی جلالت علمیہ کے معترف تھے ۔ چنانچہ میں آپ کو بتاتا ہوں کہ سیّد صاحب کے انتقال پر جب جانا ہوا تو جہاز میں میری ساتھ والی نشست پر محترم مولانا ملک غلام علی مرحوم ( مؤ لف ” خلافت و ملوکیت پر اعتراضات کا تجزیہ ” ) بھی تشریف فرما تھے ۔ انہوں نے اس موقع پر سیّد صاحب کے یہ الفاظ علامہ لکھنؤی کے بارے میں روایت کیے کہ” میں علامہ عبد الشکور لکھنؤی کے علم و فضل و تدین کا تہہ دل سے معترف ہوں ۔” اور ادھر خود مولانا عبد الشکور صاحب بھی سید صاحب کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے ۔ چنانچہ جس دور میں سید صاحب کے خلاف فتوے بازی کی مہم جاری تھی کچھ مخالفین آپ کے پاس فتویٰ لینے آئے ، آپ نے اس وقت فتویٰ دینے سے انکار کردیا اور کہا کہ جب تک خود اصل مآخذ کا مشاہدہ نہ کرلوں ، فتویٰ نہ دوں گا ۔چنانچہ آپ کوسید صاحب کی اصل کتب بھجوائی گئیں ۔ جب آپ نے ان کا مطالعہ کیا تو واضح الفاظ میں یہ خلاصۂ تحقیق بیان فرمایا کہ ” لوگ جو باتیں کرتے ہیں مجھے تو ان کا شائبہ بھی نظر نہیں آتا ، زیادہ سے زیادہ اگر کچھ کہا جا سکتاہے تو وہ عدم احتیاط ہے ۔” آپ دیکھیے کہ کس قدر معتدل و محتاط لوگ ہیں اور مولانا لکھنؤی کے یہاں احتیاط کا عالم یہی تھا کہ اصل مآخذ پڑھے بغیر تبصرہ نہ فرماتے تھے ۔ ایک بار میں آپ سے ملنے بنوری ٹائون گیا تو آپ کی میز پر ” خلافت معاویہ و یزید ” رکھی تھی فرمانے لگے محمود عباسی صاحب آئے تھے ، تقریظ لکھوانا چاہ رہے تھے میں نے کہہ دیا ہے کہ بغیر پڑھے تقریظ نہ کروں گا ، گو تقریظ تو آپ نے بعد میں بھی نہ لکھی اور بھلا آپ کیسے کسی ناصبی کی تائید کرسکتے تھے لیکن اصل مآخذ پڑھے بغیر آپ کوئی تبصرہ نہیں کرتے تھے ۔

الواقعة:آپ نے فتنہ ناصبیت کی بات کی اور اس سلسلہ میں آپ نے اس فتنہ کا علمی محاسبہ بھی اپنی تالیف ” محمود احمد عباسی اپنے عقائد و نظریات کی آئینے میں ” کیا ہے ،اس حوالے سے تحریک کیونکر بیدار ہوئی ؟
سیّد علی مطہر نقوی: میں دراصل خود بھی اس قسم کے علمی موضوعات سے شغف رکھتا ہوں ۔ میں یہ دیکھ رہا تھا کہ ایک منظم تحریک جو شیعیت کے مقابلہ میں میدان میں آئی ہے وہ حدود سے تجاوز کر رہی ہے اور اپنی اصل منزل کی طرف گامزن ہونے کی بجائے خانوادئہ اہل بیت پر تبرا کر رہی ہے اور یوں ناصبیت کا شکار ہو رہی ہے ۔ اس لیے ضروری ہوگیا تھا کہ ان کی اصلاح کی جاتی تاکہ اہل سنت کی توانائیاں غلط سمت میں استعمال نہ ہو پائیں ۔ باقی سیاسیات کے باب میں بھی یہ فطری سوال جنم لے رہا تھا کہ اگر عمر فاروق بھی خلیفہ راشد ہیں اور یزید بھی خلیفہ راشد ہے تو پھر مسلمانوں کا تصور خلافت آخر ہے کیا اور رہ کیا جاتا ہے ؟؟

الواقعة:آپ کے بڑے بھائی محترم قاری علی تجمل نقوی امروہوی ایک مشہور ادبی شخصیت رہے ہیں ، ان کے متعلق بھی ہمیں آگاہ فرمائیے ؟
سیّد علی مطہر نقوی: میرے بھائی قاری علی تجمل نقوی بڑی اعلیٰ صلاحیتوں کے حامل تھے ۔ وہ فارسی زبان میں ید طولیٰ رکھتے تھے ۔ لکھنؤ ریڈیو اسٹیشن سے بھی منسلک رہے ۔ میں عنقریب ان کا فارسی دیوان بھی شائع کرنے والا ہوں ۔ جس میں انہوں نے علامہ لکھنؤی و علامہ مودودی پر بھی قصائد سپرد قلم کیے ہیں ۔ بھائی کی شیعہ شعراء کے ساتھ امروہہ میں نوک جھونک چلتی رہتی تھی ۔ ایک بار بھائی کے ایک قصیدے کا جواب رئیس امروہوی صاحب نے اپنے تئیں دینے کی کوشش بھی کی لیکن جب یہ قصیدہ خود اہل تشیع مکتبہ فکر کی مجلس میں پیش کیا گیا تو قابلِ رد قرار دیا گیا کہ اس میں فارسی ادبیت کی وہ چاشنی نہ تھی جو بھائی کے قصیدہ میں ملحوظِ خاطر رکھی گئی تھی ۔ بھائی کو مولانا لکھنؤی ، مولانا مودودی ، علامہ اقبال اور جگر مرادآبادی سے بے حد عشق و تعلق تھا ۔

الواقعة:آپ کے بھائی علامہ موسیٰ جار اللہ سے بھی متعلق رہے ، اس حوالے سے بھی کچھ فرمائیے؟
سیّد علی مطہر نقوی: آپ کو معلوم کہ علامہ موسیٰ جار اللہ کا شمار کبار روسی علماء میں ہوتا ہے ۔ بھائی کے ان سے برادرانہ تعلقات تھے ۔ علامہ موسیٰ جار اللہ مجاہد آدمی تھے ۔ اسٹالن ان سے بہت خائف رہتا تھا ۔ اسٹالن اپنے مخالفوں کو ایک لمحہ برداشت نہ کرتا تھا اور انہیں موت کے گھاٹ اتار دیتا تھا ۔ اس نے علامہ سے بھی کہاکہ مزاحمت و تنقید کرنا چھوڑ دو ورنہ موت کے لیے تیار ہوجائو ۔ اس پر علامہ موسیٰ جار اللہ نے فرمایا کہ اسی باب شہادت کا تو میں منتظر ہوں ۔ تاہم اسٹالن اپنی اس سرکشی سے باز رہا لیکن پھر انہیں جلا وطن کردیا۔ پھر وہ وہاںسے ہندوستان چلے آئے ۔ یہاں وہ پشاور کے ہوٹل میں مقیم تھے ۔ میرے بھائی وہاں ان سے ملنے گئے اور پھر متعدد بار ملے یوں ان سے خوشگوار تعلقات استوار ہوئے ۔ کچھ عرصہ بعد وہ تھوڑی تھوڑی اردو سمجھنے بھی لگے تھے ۔ تاہم روانی سے گفتگو نہیں کرسکتے تھے ۔ بھائی نے ان کو سید مودودی کی کتاب ” الجہاد فی الاسلام ” اور دیگر کتب پیش کیں ۔ ” الجہاد فی الاسلام ” پر علامہ نے تین علمی نوعیت کے نقد کیے جن میں سے ایک سید صاحب نے تسلیم بھی کرلیا تھا ۔ پرویزیوں اور منکرینِ حدیث کا لٹریچر بھی علامہ صاحب تک کسی نے پہنچادیا تھا جس کو پڑھ کر وہ کافی اشتعال میں آگئے تھے ۔ بھائی نے یہ صورتحال دیکھی تو علامہ صاحب کو ” تفہیمات ” لا کر دی ۔ اس کو پڑھ کر آپ کا دل ٹھنڈا ہوا اور فرمانے لگے میں تو پرویز صاحب کا جواب لکھنے کی تیاری کرچکا تھا لیکن استاذ مودودی کے قوت استدلال نے مجھے اس سے مستغنی کردیا ۔ بھائی علامہ صاحب کا تذکرہ کرتے ہوئے بعض دفعہ آبدیدہ ہوجاتے تھے اور پھر ان سے اپنی ملاقاتوں کا منظر کھینچتے تھے کہ میں جب جاتا وہ بے حد خوش ہوتے ، بڑی گرم جوشی سے ملتے ، خود اٹھ کر دودھ گرم کرتے اور گلاس میں لا کر دیتے ، یہ تواضع ان کا روزانہ کا معمول تھا ۔ 

الواقعة:آپ افکار عامرعثمانی کے بھی ناشر ہیں ، اس حوالے سے آپ ہمیں علامہ عامر عثمانی کے گفتار و افکار کے بارے میں بھی بتائیے؟
سیّد علی مطہر نقوی:  علامہ عامر عثمانی حق و اہل حق کے وکیل تھے اور ہمیشہ حق بات ہی کی وکالت کرتے تھے ۔ چاہے انہیں اپنے اساتذہ ہی سے کیوں نہ مخالفت کرنی پڑے ۔ آپ جانتے ہیں کہ وہ اپنا ایک مخصوص علمی پسِ منظررکھتے تھے اور دیوبندی مدرسہائے فکر میں ان کا خانوادہ منصبِ امامت و علمیت پر فائز ہے ۔ شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی ان کے چچا تھے ۔مفتی عزیز الرحمن ( مولف ” فتاویٰ دارالعلوم دیوبند ” ) و مفتی حبیب الرحمن تایا تھے ۔ اس کے علاوہ مشہور پیر طریقت علامہ مطلوب الرحمن ان کے والد محترم تھے جبکہ مولانا فضل الرحمن صاحب ( جن کا شمار دارالعلوم دیوبند کے بانیوں میں ہوتا ہے ) دادا تھے ۔ خود مولانا عثمانی ، مولانا حسین احمد مدنی کے تلامذہ میں سے تھے ۔ جب مولانا حسین احمد مدنی نے ” مودودی دستور و عقائد ” میں سید مودودی پر تنقید لکھی تو مولانا عثمانی نے پورے ادب و احترام کے ساتھ اس کا جواب لکھا ۔ مولانا محمد میاں صاحب نے خلافت و ملوکیت کے رد میں ” شواہد تقدیس ” لکھی تو اس کا جواب ” تجلیات صحابہ ” کے نام سے دیا جو میں نے شائع کردیا ہے ۔ اسی طرح مولانا احمد رضا بجنوری اور مولانا انظر شاہ صاحب سے مولانا کا تحریری مناظرہ ہوا جو ” تفہیم القرآن پر اعتراضات کی علمی کمزوریاں ” کے نام سے شائع شدہ موجود ہے ۔ مولانا مودودی کی حمایت ہی کی پاداش میں ان کے مکتبہ کو دو بار آگ لگائی گئی مگر ان کی طبیعت میں ذرا سی مصالحت و مفاہمت دیکھنے میں نہ آئی وہ جب علمی محاسبہ کرتے تو مخالف کی دھجیاں اڑا دیتے تھے ۔ ان کے زورِ قلم کا تو ایک زمانہ قائل ہے ۔

الواقعة:مولانا عثمانی آپ کے نزدیک عالم بڑے ہیں یا ادیب؟
سیّد علی مطہر نقوی:گو ادیب تو وہ بڑے ہیں لیکن ان کے ادب میں چاشنی و ثقاہت ان کے علم کی وجہ سے ہے اور ان کے علمی مقالوں میں ادبیت خود ان کے ادب کی وجہ سے ہے ۔

الواقعة:کیاعثمانی صاحب کے ماہنامہ ” تجلی ” دیوبند کی ساری فائلیں آپ کے پاس ہیں اور کیا ان کے خانوادے میں کوئی ایسا صاحبِ جستجو بھی ہے جو مولاناعثمانی کے علمی پروجیکٹ کو آگے بڑھانے کا متمنی ہو؟
سیّد علی مطہر نقوی: جہاں تک بات ہے ”تجلی ”کی تمام فائلوں کی تو اس کی صرف دعا ہی کی جاسکتی ہے ۔ عثمانی صاحب کی اہلیہ پاکستان دو بار آئیں تھیں ، میں نے ان کی آمد پر ان کی دعوت بھی کی تھی ، ان کو یہ افسوس تھا کہ عثمانی صاحب کے بعد ان کے بچوں میں وہ علمی ذوق منتقل نہ ہوسکا جس کے خود مولانا عثمانی نمائندہ تھے ۔

الواقعة:”اکابر صحابہ اور شہدائے کربلا پر افترا” مولانا عبد الرشید نعمانی کی تصنیف ہے اس پر آپ کا پیشِ لفظ موجود ہے ۔ کیا مولانا نعمانی مرحوم سے بھی آپ کے علمی روابط رہے ہیں ۔ آگاہ فرمائیے ؟
سیّد علی مطہر نقوی: میںخود کو مولانا عبد الرشید نعمانی کا کف بردار و ادنیٰ شاگرد سمجھتا ہوں اور ان کی حیات میں میری یہ کوشش رہتی تھی کہ میں زیادہ سے زیادہ وقت ان کے ساتھ گزاروں ۔ ردّ ناصبیت کی وجہ سے وہ اور میں ہم ذوق واقع ہوئے تھے ۔ مولانا اسحاق سندیلوی جو مائل بہ ناصبیت تھے ، ان کے افکار سے علامہ نعمانی حد درجہ بیزار تھے ۔ چنانچہ انہوں نے مجھے مولانا عبد الماجد دریا آبادی کے جریدے ” صدقِ جدید ” کی قدیم فائلیں سپرد کیں ۔ اسی میں اسحاق صاحب کا وہ تحسینی خط بھی تھا جو انہوں نے محمود احمدعباسی صاحب کی کتاب ” خلافت معاویہ و یزید ” کے متعلق تحریر کیا تھا ۔ یہ خط میں نے علامہ نعمانی کو بتا کر شائع کردیا تھا جو ان کے جامعہ بنوریہ سے اخراج کے اہم اسباب میں سے ایک سبب تھا۔

الواقعة:حضرت محدث بنوری اور مفتی ولی حسن صاحب سے اپنے علمی روابط کے حوالے سے آگاہ فرمائیے ؟
سیّد علی مطہر نقوی:  علامہ یوسف بنوری صاحب سے تو میرے قریبی روابط رہے ۔ علامہ بنوری کی ” معارف السنن ” کی تین جلدیں میں نے ہی الحجاز پرنٹنگ پریس سے چھپوائی تھیں ۔ مفتی ولی حسن صاحب سے بھی قریبی تعلقات رہے ہیں ۔ میری کتاب ” محمود احمد عباسی اپنے عقائد و نظریات کے آئینے میں ” کے حوالے سے جو کچھ انہوں نے لکھا ہے وہ شائع شدہ موجود ہے ۔

الواقعة:مولانا حسین احمد مدنی سے آپ کے خانوادے کے روابط رہے ہیں ۔ اس حوالے سے بھی ذرا روشنی ڈالیے ؟
سیّد علی مطہر نقوی: ان رو ابط کی نوعیت اصلاحی تھی ۔ میری اہلیہ ، بہن ، بھائی اور بھاوج ان سے اصلاحی تعلق رکھتے تھے اور ان سے بیعت تھے۔

الواقعة:امروہہ میں رفض کی اشاعت کے پیچھے کیا عوامل کار فرما رہے ہیں ؟
سیّد علی مطہر نقوی:  اصل سبب تو خود وہاں کے حکمراں تھے جیسا کہ ” تاریخ امروہہ ” میں تصریح ہے کہ آصف الدولہ خود رافضی تھا ۔ جو شخص اس دور میں رافضی ہوجاتا اس کو جائیداد ملتی ۔ اس حوالے سے خود ہمارے اجداد کو آفر ہوئی لیکن انہوں نے ڈٹ کر مقابلہ کیا ۔

الواقعة:علامہ تمنا عمادی سے متعلق آپ کی کیا رائے ہے ؟
سیّد علی مطہر نقوی:  میرا ان سے کوئی خاص تعلق نہیں رہا تاہم سنا ہے کہ وہ لائق اور ذہین آدمی تھے ۔

الواقعة:مولانا محمد چراغ ، مولانا معین الدین خٹک اور مفتی محمد یوسف بونیری سے آپ کے روابط رہے ہیں ، تفصیل بیان فرمائیے ؟
سیّد علی مطہر نقوی: مفتی محمد یوسف مرحوم سے ملاقات کی خواہش تو رہی لیکن ہو نہ سکی البتہ مولانا محمد چراغ سے ملاقات رہی ہے ۔ مولانا معین الدین خٹک تو نہایت ہی قابل و فاضل محقق تھے ۔ میں جب بھی کوہاٹ جاتا تھا انہی کے یہاں قیام کرتا ، ان دنوں وہ کوہاٹ کے امیر جماعت ہوا کرتے تھے انہوں نے اس ناچیز کی پُر تکلف دعوت بھی کی ۔
الواقعة:مولانا مسعود عالم ندوی سے متعلق آپ کی کیا رائے ہے ؟
سیّد علی مطہر نقوی: یقینا  مولانا مسعود عالم ندوی نے سید صاحب کی فکر کی اشاعت میں جو حصہ لیا ہے اس کی مثال نہیں ملتی ۔ وہ بڑے ذہین و قابل فرد تھے ۔ ان کی کتاب  ” محمد بن عبد الوہاب -ایک مظلوم و بدنام مصلح ” عمدہ تالیف ہے اور اہم تاریخی حقائق کا اس میں بیان ہے ۔

الواقعة:پاکستان کے تین اہم مسالک دیوبندی ، بریلوی اور اہل حدیث کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں اور کیا ان کے مابین اتحاد کی کوئی سبیل یا نکتہ اشتراک ہے ؟
سیّد علی مطہر نقوی:میں خود دیوبندی فکر سے وابستہ ہوں اور اسے مبنی بر صواب قرار دیتا ہوں ۔ اہل حدیث فکر کوبھی درست سمجھتا ہوں ۔ بریلوی مسلک کو بدعات سے متعلق جاننے کے باوجود اہل سنت و الجماعت سے خارج نہیں سمجھتا ۔ میرے خیال میں یہ تینوں ہی اہل سنت و الجماعت کا حصہ ہیں ۔

الواقعة:اپنی زندگی کا کوئی خوشگوار لمحہ؟
سیّد علی مطہر نقوی:  (مسکراتے ہوئے ) کوئی خاص نہیں فی الحال تو یہی ہے کہ آپ جیسے صاحبِ ذوق سے محو گفتگو ہوں ۔

الواقعة:ادارہ الواقعة کے توسط سے امت مسلمہ کو کوئی پیغام دینا چاہیں گے ؟
سیّد علی مطہر نقوی: پیغام تو یہی ہے کہ دنیا و آخرت کی فلاح دین ہی سے وابستہ ہے ، لہٰذا دین پر ثابت قدمی و تصلب اختیار کیا جائے ، انسان کی زندگی کس قدر محدود ہے اس کا اندازہ بہر کیف ہر کسی کو جلد ہی ہونے والا ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے امان میں رکھے ۔

علامہ راغب احسن


جریدہ "الواقۃ” کراچی، شمارہ  7  ذوالحجہ 1433ھ/ اکتوبر ، نومبر 2012

سید محمد رضی ابدالی

علامہ راغب احسن

علامہ راغب احسن ایک عالم ، فاضل ، صحافی اور اپنے عہد کی کئی تحاریک میں حصہ لینے کے حوالے سے بے حد مشہور شخصیت ہیں ۔ علّامہ تحریکِ پاکستان میں شروع سے پیش پیش رہے اور اپنی پوری زندگی مسلمانوں کی فلاح و بہبود اور انہیں اقوام عالم میں صحیح مقام دلانے میں صرف کی ۔

علّامہ راغب احسن کا آبائی وطن ضلع گیا ، صوبہ بہار ( بھارت ) تھا ۔ آپ ایک غریب گھرانے میں ١٩٠٥ء میں پیدا ہوئے ۔ آپ کے والد ریاض الدین احمد ، کلکتہ میں محکمۂ ڈاک میں ملازم تھے ۔ راغب احسن نے کلکتہ میں تعلیم پائی اور اپنی سیاسی زندگی کا آغاز خلافت کمیٹی میں شمولیت سے کیا اور اسی سلسلہ میں جیل بھی گئے ۔ علی پور جیل میں ان کی ملاقات کلکتہ کارپوریشن کے اس وقت کے میئر محمد عثمان سے ہوئی ۔ وہاں ان دونوں نے عہد کیا کہ وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کریں گے اور انگریز کی ملازمت کرنے کے بجائے اس کے خلاف جہاد کریں گے چنانچہ انہوں نے جیل سے رہائی کے بعد ایم -اے کیا اور اس کے بعد صحافت کا پیشہ اختیار کرتے ہوئے ” اسٹار آف انڈیا ” کے عملہ میں شامل ہوگئے ۔
مولانا محمد علی جوہرکے اخبار ” کامریڈ ” کے اعزازی مدیر بھی تھے ۔ مولانا محمد علی جوہر کی صحبت نے علامہ راغب احسن میں ایسا زورِ قلم پیدا کیا کہ محمد علی جوہر کے انتقال کے بعد سارا ہندوستان آپ کو محمد علی ثانی کہنے لگا۔
علّامہ راغب احسن نے ١٩٣١ء میں ” آل انڈیا یوتھ لیگ ” کی بنیاد رکھی اور اسی دوران ” میثاق فکر اسلامیت و استقلال ملّت ” کے نام سے ایک فکر انگیز دستاویز مسلمانوں کے حقوق کے لیے مرتب کی ۔ ١٩٣٦ء میں راغب احسن نے کلکتہ مسلم لیگ کی بنیاد رکھی اور اس کی تنظیم سازی میں نہایت سرگرمی سے حصہ لیا ۔ حسین شہید سہروردی ( جو بعد میں متحدہ پاکستان کے وزیراعظم بنے) کو اس کا صدر اورسید محمد عثمان (سابق میئر کلکتہ ) کو جنرل سکرٹری مقرر کیا ۔
ہندوستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ جس مسئلہ کو ہندوئوں اور مسلمانوں کے درمیان متنازع فیہ تسلیم کیا گیا وہ طرزِ انتخاب کا مسئلہ تھا ۔ ہندوستان کے بڑے بڑے مسلم رہنما مثلاً حکیم اجمل خاں ، سر علی امام ، حسن امام ، بیرسٹر مظہر الحق ، محمد علی جناح ، حسرت موہانی ، ڈاکٹر انصاری ، مولانا ظفر علی خان ، چودھری خلیق الزماں ، مولانا شوکت علی اور مولانا محمد علی جوہر وغیرہم متحدہ طرزِ انتخاب کو ہندوستان کے سیاسی نظام کے لیے بہتر سمجھتے تھے جبکہ مسلم کانفرنس کے اراکین و عہدیداران ہمیشہ جداگانہ طرزِ انتخاب کے حامی رہے مثلاً سر محمد شفیع ، سر علامہ محمد اقبال ، محمد شفیع داودی اور علامہ راغب احسن اس ضمن میں قابلِ ذکر ہیں ۔ جداگانہ طرزِ انتخاب پر جس قدر تحریر علامہ راغب احسن کی ہے ، کسی اور کی نہیں ۔ موصوف کی سیاست میں استحکام تھا ۔ ان کا نام نظریات کے تبدیل کرنے والوں میں نہیں لیا جا سکتا ۔
علامہ راغب احسن کی شخصیت کی اہمیت کا اندازہ اس واقعہ سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ جب قائد اعظم محمد علی جناح ١٩٣٥ء میں برطانیہ سے ہندوستان تشریف لائے تو دلی کی سرز مین پر تین اہم شخصیتوں محمد علی جناح ، علامہ محمد اقبال اور  علامہ راغب احسن نے ایک کمرے میں بیٹھ کر گھنٹوں ہندوستان کے مسلمانوں کی حالت زار اور عالمی حالات و واقعات پر باتیں کیں ۔ اسی اجتماع میں علامہ اقبال نے علامہ راغب احسن سے درخواست کی کہ وہ مسٹر جناح کا ساتھ دین اور ان کے ہاتھ مضبوط کریں ۔ چنانچہ راغب احسن نے علامہ اقبال کی درخواست قبول کرتے ہوئے آل انڈیا مسلم لیگ کی تنظیم میں بھر پور حصہ لیا اور اسے نہایت مستحکم تنظیم بنادیا ۔
علامہ راغب احسن کی عظمت ، فہم و فراست اور ذہنی بالیدگی کا اندازہ اس حقیقت سے بھی ہوتا ہے کہ وہ مولانا محمد علی جوہر کے جتنے چہیتے تھے اتنے ہی قائد اعظم محمد علی جناح کے بھی پیارے تھے حالانکہ محمد علی جناح اور محمد علی جوہر میں اصولی طور پر سیاسی اختلافات بھی قائم رہے ۔
٤٦١٩٤٥ء کے انتخابات میں مسلم لیگ کی شاندار کامیابی کے بعد اپریل ١٩٤٦ء میں منتخب نمائندوں کا کنونشن دہلی میں منعقد ہوا تھا ۔ اس اجلاس میں قائد اعظم محمد علی جناح نے علامہ راغب احسن کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ

” کروڑوں ہیں جو میرے اندھے مقلد ہیں ، لاکھوں ہیں جو میری تائید کرتے ہیں اور لاکھوں ہیں جو میرے لیے سرگرمی سے کام کرتے ہیں لیکن ہندوستان کے طول و عرض میں مسلم لیگیوں میں صرف ایک راغب احسن ہیں جو اسلام اور پاکستان کے اصول کی محبت میں مجھ پر بے باکی کے ساتھ تنقید کی جرأت کرتے ہیں ۔ پاکستان کے نصب العین کی خاطر وہ مجھ پر سخت ترین گرفت کرنے سے بھی نہیں چوکتے ۔وہ مجھ کو چاہتے ہیں لیکن مجھ سے زیادہ اسلام اور پاکستان کو چاہتے ہیں ۔ راغب احسن لیگ اور تحریکِ پاکستان کے زندہ ضمیر ہیں اور راغب احسن پر مجھے فخر ہے ۔ "

١٩٣٣ء میں علامہ اقبال نے اپنے ایک خط میں علامہ راغب احسن کے متعلق لکھا کہ

"مولانا راغب احسن کی قابلیت و صلاحیت کی تصدیق کرتے ہوئے مجھے بے حد مسرت ہوئی ہے ۔ یہ ان گنتی کے چند قابل ترین اور انتہائی ہونہار نوجوانوں میں سے ہیں جن سے مجھے ملنے کا موقع ملا ہے ۔ مجھے کامل یقین ہے کہ وہ اسلام اور ہندوستان کے لیے ایک قیمتی سرمایہ ثابت ہوں گے ۔ "

علامہ راغب احسن نے بنگال میں آل انڈیا مسلم لیگ کی تنظیم بہ کمالِ محنت و مشقت کی تھی ، اسی لیے وہ سارے ہندوستان کی جان قرار پاگئی تھی ۔ ہر گائوں اور ہر محلہ مسلم لیگ کی تنظیم سے منسلک تھا ۔ جب آل انڈیا مسلم لیگ نے یوم رسات اقدام منانے کا اعلان کیا تو لاکھوں افراد کا مجمع کلکتہ میدان میں جمع ہونے لگا ، جس پر ہندوئوں نے منظم سازش کے ذریعے حملہ کردیا ۔ کلکتہ کے نقصانات کو وائسرائے ہند لارڈ ویول نے بہ چشم خود دیکھا ۔ وہ اس حادثہ پر انتہائی مضطرب ہوا اور ساتھ ہی مسلم قوم کی جانبازی اور سرفروشی کو بھی پرکھ لیا ۔ وائسرائے ہند نے مسلمانوں کی جانب سے یوم راست اقدام منانے کی حیثیت اور اہمیت کو سمجھ لیا اور اس کے بعد ہی اس نے عارضی حکومت میں آل انڈیا مسلم لیگ کو پانچ وزارتیں دینے کی پیش کش کی جبکہ اس سے چند ہفتہ قبل عارضی حکومت میں آل انڈیا مسلم لیگ کی شمولیت کو ناقابل قبول قرار دیا تھا ۔ عارضی حکومت میں آل انڈیا مسلم لیگ کی شمولیت ، تنہا کلکتہ مسلم لیگ کے عزمِ بلند کی مرہونِ منّت ہے ۔ کلکتہ کے فسادات میں مسلمانوں نے جو شہادت پیش کی اور جس طرح جرأت و ہمت کا مظاہرہ کیا ، در حقیقت اسی کے پیشِ نظر آل انڈیا مسلم لیگ کے پانچ ممبرانِ اسمبلی لیاقت علی خاں ، راجہ غضنفر علی خاں ، سردار عبد الرب نشتر ، آئی آئی چندریگر اور منڈل ہندوستان کی عارضی حکومت میں شامل ہوئے ۔ اس عارضی حکومت میں لیاقت علی خان کو وزیر خزانہ مقرر کیا گیا تھا ۔ یہ انتہائی بدقسمتی کی بات ہے کہ علامہ راغب احسن جو کہ ہندوستان کی مرکزی اسمبلی کے رکن بھی تھے اور قائد اعظم کے ساتھ مل کر جدو جہدِ آزادی میں نمایاں حصہ لیا ، اس کے باوجود علامہ راغب احسن کو نہ ہی ہندوستان کی عارضی حکومت میں شامل کیا گیا اور نہ ہی ان سے حکومت کے نظم و نسق کے لیے کسی قسم کا صلاح و مشورہ کیا گیا ۔ تاریخ کے اوراق میں حقائق پھیلے ہوئے ہیں کہ پاکستان کو تعمیر کرنے میں راغب احسن نے کیا کردار ادا کیا لیکن قیام پاکستان کے بعد بھی حکومت کے دروازے ان پر بند کردیئے گئے ۔
آل انڈیا مسلم لیگ کی تحریک کی جب ابتدا ہوئی تو اسے بہت سی دشواریوں سے دوچار ہونا پڑا ۔ علامہ راغب احسن پر یہ حقیقت واضح طور پر سامنے آئی کہ جب تک علماء کے حلقے اور خانقاہوں کی گدی نشینوں کو مسلم لیگ کا ہم خیال نہیں بنایاجائے گا اس وقت تک مسلم لیگ کی تحریک کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکتی ۔ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ کانگریس کے شکار مذہبی حلقوں کا زور توڑ دیا جائے چنانچہ علامہ راغب احسن نے جمعیت علمائے اسلام کے قیام اور اس کی کامیابی میں بھرپور حصہ لیا ۔علامہ راغب احسن اپنے ایک مضمون جو اخبار ” زمیندار ” کی اشاعت مورخہ ١٩ جنوری ١٩٤٩ء میں شائع ہوا ، لکھتے ہیں :

"جمعیت علمائے اسلام کی تاسیس و تنظیم راقم الحروف نے سالہا سال کی کوشش و کاوش کے ساتھ ١١ جولائی ١٩٤٥ء کو کلکتہ میں کی تھی ۔” (بحوالہ حیات شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی : ٨٧)

 جمعیت علمائے اسلام کی وجہ سے آل انڈیا مسلم لیگ کو ١٩٤٦ء کے عام انتخابات میں بے مثال کامیابی ملی اور پاکستان کا قیام عمل میں آیا ۔
علّامہ شبیر احمد عثمانی نے علامہ راغب احسن کو ” سیف الملّت ” کا لقب دیا تھا جبکہ حسین شہید سہرورودی نے ” پاکستان کا ٹینک فورس ” کا خطاب دیا تھا ۔
علامہ راغب احسن کی کتابوں میں حسبِ ذیل کتابوں کا ذکر ملتا ہے ۔
* What Muslims want in India
*Principles of Islamic Economics
* The Political Case of Musalim India
* History of Making of Muslim Nationalism in India.
علامہ راغب احسن ١٩٥٧ء میں اسلامی لاء کمیشن کے رکن مقرر ہوئے ۔سینٹرل اقبال کمیٹی کے نائب صدر اور سلیمان ندوی کمیٹی آف اسلام ( کراچی ) کے رکن تھے ۔ ١٩٦٥ء کے عام انتخابات میں مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کے حق میں اور اس وقت کے صدر پاکستان محمد ایوب خان کے خلاف مشرقی پاکستان میں بے حد کام کیا تھا ۔
قیام پاکستان کے بعد علامہ راغب احسن پاکستان ہجرت کرتے ہوئے سابق مشرقی پاکستان کے شہر ڈھاکہ میں مستقل سکونت پذیر ہوئے اور پھر بنگلہ دیش کے قیام کے بعد ایک دفعہ پھر ڈھاکہ سے ہجرتے کرکے کراچی تشریف لے آئے ۔ علامہ راغب احسن کا انتقال ٢٧ نومبر ١٩٧٥ء کو کراچی میں ہوا اور وہ سخی حسن قبرستان میں مدفون ہوئے ۔ ١٩٩٠ء میں حکومت پنجاب نے آپ کی خدمات کے اعتراف میں ” تحریکِ پاکستان کا گولڈ میڈل ” دیا تھا ۔

مآخذ:

١-انسائیکلوپیڈیا پاکستانیکا از سیّد قاسم محمود
٢-انسائیکلو پیڈیا تحریکِ پاکستان از اس سلیم شیخ
٣-وفیات ناموران پاکستان از ڈاکٹر محمد منیر احمد سلیچ
٤-شائق و عثمان و راغب از محمد انیس الرحمان انیس
٥-رہبران پاکستان از سیّد محمد رضی ابدالی
٦-حیات شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی از فیض الانبالوی و شفیق صدیقی
7-Allama Raghib Ahsan — Quaid-i-Azam Correspondence (1936-1947) by Syed Umar Hayat

کیا امّت مسلمہ کی بے حسی برقرار رہے گی؟؟؟


جریدہ "”الواقۃ” کراچی، شمارہ  7  ذوالحجہ 1433ھ/ اکتوبر ، نومبر 2012

 محمد اسماعیل شیرازی

کیا امّت مسلمہ کی بے حسی برقرار رہے گی؟؟؟

یہ کچھ زیادہ دنوں کا قصہ نہیں برما ( میانمار)میں مسلمانوں پر زمین تنگ کردی گئی ۔عراق پر امریکی اور اس کے اتحادی افواج کا سلسلۂ ظلم و ستم جاری ہے ۔ افغانستان پر استعمار قابض ہے ۔ افریقہ کے مسلم ممالک عالمی طاقتوں کے ہاتھوں بے بس ہیں ۔ لیبیا کی حکومت کا تختہ الٹا جا چکا ہے ۔ نائجیریا ، مالی ، تیونس ، سوڈان ، مصر ، مراکش وغیرہا سازشوں کے نرغے میں ہیں ۔ یمن میں بد امنی ہے اور خود ہمارا اپنا ملک پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں دہشت گردی کا شکار ہو رہا ہے ۔ بے شمار ڈرون حملے ، آئے دن کے بم دھماکے اور مسلسل جاری ٹارگٹ کلنگ ہمارا نصابِ زندگی بن گئے ہیں ۔ ان تمام تر سانحات سے بھی بڑا سانحہ یہ ہے کہ مسلم امہ پھر بھی بیدار ہونے کے لیے تیار نہیں ۔


ہر سال اللہ کے لاکھوں بندے فریضۂ حج کی ادائیگی کرتے ہیں ۔ کروڑوں افراد سنّت ابراہیمی انجام دیتے ہیں ۔ لیکن اس کے باوجود نہ ہمارے اندر ایثار وقربانی کے جذبات پیدا ہوتے ہیں اور نہ ہی ہمارے اندر عملِ صالح کی کوئی تحریک پیدا ہوتی ہے ۔ 
ہمارے لیے کس قدر آسان ہوتا ہے کہ ہم اپنی ہر غفلت کا الزام عالمی طاقتوں پر ڈال دیتے ہیں ۔ اپنی ہر برائی کا سبب امریکا کو قرار دیتے ہیں اور اپنے یہاں ہونے والی ہر آفت کے پیچھے یہودی سازش کا انکشاف کردیتے ہیں ۔ لیکن ہم خود اپنے عیوب و نقائص نہیں دیکھتے ۔ اسلام دشمن عناصر اگر اپنی دشمنی نبھارہے ہیں تو ان سے شکوہ کیسا ؟وہ اگر اپنے رہنما ابلیس کے احکام پر عمل کر رہے ہیں تو ان سے کس طرح گلہ کیا جا سکتا ہے ؟ جواب دہی تو ہم سے ہے کہ کیا ہم اپنے ربّ واحد کے احکامات پر عمل کر رہے ہیں ؟ اپنے پیغمبر کی اطاعت کا فریضہ انجام دے رہے ہیں ؟ ہم اللہ کو تو ایک مانتے ہیں مگر اس کی ایک نہیں مانتے ۔
اللہ تعالیٰ کو ایک ماننے کا تقاضا کیا ہے ؟ ہمیں چاہیئے کہ ہم اس حقیقی معبود کی عبودیت کو تسلیم کریں ۔ اس کے احکامات کو رسم و رواج سمجھنے کی بجائے اسے اپنی زندگی میں شامل کریں اور اسی کے مطابق اپنی زندگیوں کو بسر کریں ۔ ہم دوسروں سے تبدیلی کا تقاضا کرنے کی بجائے خود اپنے اندر سے تبدیلی کا آغاز کریں ۔
ہم غیروں سے شکوہ کرتے ہیں کہ وہ اسلام اور پیغمبر اسلام کا مذاق اڑاتے ہیں ۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ ہم ان سے بڑے گستاخِ رسول ہیں جو ہر روز اپنے نبی کے احکامات سے استہزاء کرتے ہیں ۔
قرآن عمل کی کتاب تھی اسے ہم نے مردے بخشوانے کی کتاب بنادیا ۔ اس کی آیات کو تعویذ بنا کر بازئوں میں باندھنے اور بندھوانے کا کاروبار شروع کردیا ۔ ہمارے ملک کے اخبارات اپنے اوّلین صفحات پر آیات قرآنی درج کرتے ہیں اور یہی اخبارات سڑکوں پر گرے ملتے ہیں اور کسی کو توفیق نہیں ہوتی کہ قرآنی آیات کا حترام کرتے ہوئے انہیں اٹھالے الّا ماشاء اللہ۔
ہم نے جو اس توہین کے اسباب پیدا کر رکھے ہیں کیا ہمیں اس کی سزا نہیں ملے گی ۔ سود جس کی لعنت قرآنِ حکیم اور احادیثِ مبارکہ سے ثابت ہے ۔ کیا پوری امت مسلمہ بحیثیت مجموعی اس لعنت کا شکار نہیں اور اگر ہے ، یقینا ہے تو کیا ہم اس کی سزا سے بچ سکتے ہیں ؟ اللہ تبارک و تعالیٰ نے سودی کاروبار کرنے والوں کو جنگ کے لیے خبردار کیا ہے اور کیا ہم اللہ ربّ العزت سے جنگ کرکے جیت سکتے ہیں ؟ الامان الحفیظ ۔
ہم امریکا اور اسرائیل کے کایا پلٹ دینا چاہتے ہیں مگر خود ہمارے نفس نے ہماری کایا پلٹ رکھی ہے مگر ہم اس پر توجہ نہیں دیتے ۔
یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے فضل و کرم کی انتہا ہے کہ اس نے ہمارے لیے آج بھی اسباب کامیابی مہیا کر رکھے ہیں ۔ امت مسلمہ بحیثیت مجموعی عذاب الٰہی میں گرفتار نہیں ۔ جس قدر وسائل اللہ نے امت مسلمہ کو دیئے ہیں اس قدر وسائل اور کسی کے پاس نہیں ۔ بس ہمارے پاس ایک ہی چیز نہیں ہے اور وہ ہے جرأت ایمانی ۔ ہمارا ایمان ہمارے پست اعمال کے سامنے شکست خوردہ ہوگیا ہے ۔ بقول محمد تنزیل الصدیقی الحسینی :
"جہاں تک ہمارے جذبۂ ایمان کا تعلق ہے تو ہمارے اعمال کی سطحیت نے اسے سخت مجروح کرکے رکھ دیا ہے ۔ ہم دینی تقاضے بھی غیر دینی طریقوں سے نبھاتے ہیں ۔ہم جانتے ہیں کہ "کوکاکولا” کا "لوگو” اسلام دشمنی پر مبنی ہے اور "پیپسی” کی کمائی اسلام دشمنی پر صرف ہوتی ہے لیکن کیا ہمارے بازاروں میں یہ بکنا بند ہوگئے ؟ کیا ہم نے اسے پینا ترک کردیا ؟ جب ہم لذت کام و دہن کی انتہائی ادنیٰ سی قربانی نہیں دے سکتے تو کیا توقع کی جاسکتی ہے کہ ہم اپنا سر دے کر بازی جیتنا کا حوصلہ رکھتے ہیں ۔ ” (مجلہ "الواقعة ” کراچی شمارہ نمبر ٥،٦)
ہمیں بخوبی جان لینا چاہئیے کہ ایمان اور عملِ صالح لازم و ملزوم ہیں ۔ ہمارا عمل ہی ہمارے ایمان کا آئینہ دار ہے ۔ جب تک امت مسلمہ ایک جسدِ واحد کی طرح اپنے دکھ سکھ میں شراکت نہیں کرتی تب تک ہم اغیار کی سازشوں کا ایسے ہی شکار ہوتے رہیں گے اور ہماری فلاح و کامرانی بھی ہم سے دور رہے گی ۔