جریدہ "الواقۃ” کراچی، شمارہ 12-13، جمادی الاول، جمادی الثانی 1434ھ/ مارچ، اپریل 2013
مولانا شاہ عین الحق پھلواروی
المغراف فی تفسیر سورۂ ق قسط 9
جریدہ "الواقۃ” کراچی، شمارہ 11 ربیع الثانی 1433ھ/ فروری، مارچ 2013
المغراف فی تفسیر سورۂ ق قسط 9
مولانا شاہ عین الحق پھلواروی رحمہ اللہ
تسہیل و حواشی :محمد تنزیل الصدیقی الحسینی
(3) پہلی آیتوں سے صرف اپنے وجود اور کمال، عظمت، جلال و بعثتِ انبیاء و حشر پر استدلال منظور ہے اور ان سب باتوں میں اس کے بندے باہم مختلف ہیں اور عموماً ان کو تسلیم نہیں کرتے، صرف وہ لوگ جن کی طبیعت میں رجوع الیٰ الحق کا مادہ ہے اِ ن سب کو جب تامل سے دیکھتے ہیں تو مان لیتے ہیں۔ اس لیے وہاں پر عبد کو منیب کے ساتھ مقید (ذکر) کیا۔ اور دوسری آیتوں میں جو مذکور ہے وہ مانی ہوئی بات ہے، پانی کے برسنے سے کسی کو انکار نہیں۔ زمین کی پیداوار میں آب باراں کی تاثیر سے کسی کو انکار نہیں۔ اس کے تمام مخلوقات کے لیے ذخیرہ رزق ہونے میں کسی کو اختلاف نہیں، اس سے جس طرح ابرار اور اللہ کے ماننے والے فائدہ اٹھاتے ہیں، اسی طرح فجار اور کفار بھی اس لیے یہاں للعباد میں کسی قید کی ضرورت نہیں تھی۔ منکرین اگر اب بھی انکار پر اڑے رہیں اور ایسی ایسی صاف و صریح باتوں کو جنہیں ہر شخص اپنی مدت عمر میں بارہا دیکھتا ہے غور نہ کریں اور رسول کے سمجھانے پر بھی نہ سمجھیں تو اب طریقِ استدلال اختیار کرنا لا حاصل ہے۔ اس لیے تہدید و تخویف (ڈر و خوف ) سنا کر راہ پر لانے کے لیے چند مثالیں گزشتہ زمانہ کے نافرمانوں کی سنائی جاتی ہیں۔ وہ لوگ بشر (انسان) کے نبی ہونے کو تعجب کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور تمہاری ہی طرح کفر و عناد پر اصرار کرتے تھے۔ آخر اللہ نے ان کو دھر پکڑا اور ایسی بری طرح سے دنیا سے گئے کہ خلق میں افسانہ ومثال بن گئے۔
کو پڑھنا جاری رکھیں
المغراف فی تفسیر سورۂ ق قسط 8
جریدہ "الواقۃ” کراچی، شمارہ 10 ربیع الاول 1433ھ/ جنوری، فروری 2013
از قلم: مولانا شاہ عین الحق پھلواروی رحمہ اللہ
تسہیل و حواشی :محمد تنزیل الصدیقی الحسینی
المغراف فی تفسیر سورۂ ق قسط 8 PDF Download
خرمے کے درخت کا ذکر کرکے دوبارہ علیحدہ سے اس کے پھل کے ذکر کرنے کی یہ وجہ ہے کہ خرمے کا درخت از سرتاپا آدمیوں کے حاجات میں کار آمد ہے تو یہ مستقل احسان ہوا اور اس کا پھل مستقل احسان اور دونوں قدرت خدا کا نشان ۔ کو پڑھنا جاری رکھیں
المغراف فی تفسیر سورۂ ق 7
مولانا شاہ عین الحق پھلواروی رحمہ اللہتسہیل و حواشی :محمد تنزیل الصدیقی الحسینی
المغراف فی تفسیر سورۂ ق
المغراف فی تفسیر سورہ ق
جریدہ "الواقۃ” کراچی، شمارہ (5 / 6 ) شوال، ذیقعد 1433ھ/ اگست ، ستمبر 2012
المغراف فی تفسیر سورہ ق
قسط نمبر 4
|
||
جائے۔” اور فرمایا
"جس دن زمین اور آسمان کی موجودہ حالت بدل دی جائے گی اور سب لوگ
اللہ کے حضور میں حاضر ہوں گے ۔”
وَالشُّهَدَاۗءِ وَقُضِيَ بَيْنَهُمْ بِالْحَــقِّ وَهُمْ لَا يُظْلَمُوْنَ 69) )الزمر:٦٩(
“زمین اپنے پروردگار کے نور سے چمک اٹھے گی اور کتاب رکھ دی جائے گی اور انبیاء اور گواہ حاضر کیے جائیں گے اور لوگوں کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کیا جائے گا اور ان پر ظلم نہ کیا جائے گا ۔”
المغراف فی تفسیر سورۂ ق 4
جریدہ "الواقۃ” کراچی شمارہ ٤، رمضان المبارک 1433ھ/ جولائی، اگست 2012
تسہیل و حواشی :محمد تنزیل الصدیقی الحسینی
” ما شی اثقل من میزان المؤمن یوم القیٰمة من خلق حسن و انّ اللّٰہ لیبغض الفاحش البذی ۔”رواہ الترمذی (١) عن أبی الدرداء رفعاً ” یعنی
” مسلمان کے ترازو میں قیامت کے دن عمدہ اخلاق سے زیادہ بھاری کچھ نہ ہوگا اور اللہ تعالیٰ نفرت رکھتا ہے بدکار کج خلق سے ۔” اس کو ترمذی نے ابی درداء سے ]مرفوعاً[روایت کیا ہے ۔
(ذٰلِکَ رَجْع بَعِیْد) (٢) ] سورہ ق: ٣[
( لِّمَنِ الْمُلْکُ الْیَوْمَ لِلّٰہِ الْوَاحِدِ الْقَہَّارِ ) (٥) ] سورہ غافر: ١٦[
المغراف فی تفسیر سورۂ ق قسط : (٣)
شمارہ نمبر ٣
مولانا شاہ عین الحق پھلواروی رحمہ اللہ
تسہیل و حواشی :محمد تنزیل الصدیقی الحسینی
قسط : ( ٣ )
(٢) ان کا باہم مختلف ہونا اور جلد جلد تبدل رائے کرتے رہنا اور آپ ( ۖ ) کا ابتداء سے انتہاء تک اپنے دعویٰ پر ثابت و قائم رہنا ، اور بَرملا اس کو ظاہر کرتے رہنا اور روز بروز عقلا اور اہلِ دانش کا قبول کرتے جانا اس بات کی صریح دلیل ہے کہ آپ کا دعویٰ حق ہے اور اب ان کا انکار کسی دلیل کی بنا پر نہیں ہے بلکہ نری [صرف] ہٹ دھرمی اور حماقت ہے اگر اب بھی کفار اللہ تعالیٰ کے احاطۂ علمی کو تسلیم نہ کریں اور اپنے اختلافِ باہمی سے بھی اپنے کو غلطی پر نہ مانیں ، تو تیسری دلیل پیش کیجئے ، اور لوحِ محفوظ میں وقائع ]واقعات[ کا لکھا ہونا بھی دلیل ہے ، وہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم کو کیا علم کہ اللہ جلّ شانہ کے یہاں وقائع و حوادث کی کوئی کتاب لکھی ہوئی دھری ہے ، تو دلیل عقلی سے سمجھائیے ۔
( اَوَلَيْسَ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِقٰدِرٍ عَلٰٓي اَنْ يَّخْلُقَ مِثْلَهُمْ ) [ یٰس:٨١]
"بھلا جس نے آسمانوں اور زمینوں کوپیدا کیا ،وہ ان کے مثل ( دوبارہ ) پیدا کرنے پر قادر نہیں ؟”
( لَخَــلْقُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اَكْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ ) [غافر: ٥٧]
"بے شک آسمان اور زمین کا پیدا کرنا آدمیوں کے پیدا کرنے سے زیادہ مشکل ہے ۔”
( اَوَلَمْ يَرَوْا اَنَّ اللّٰهَ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَلَمْ يَعْيَ بِخَلْقِهِنَّ بِقٰدِرٍ عَلٰٓي اَنْ يُّـحْيِۦ الْمَوْتٰى ) [الاحقاف : ٣٣]
"کیا ان لوگوں نے نہ دیکھا کہ جس اللہ نے آسمان و زمین کو پیدا کیا ، اور اسے اس میں کچھ دقت نہ ہوئی وہ مردوں کے زندہ کرنے پر قادر ہے ۔”
(لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِيْٓ اَحْسَنِ تَقْوِيْمٍ ) [التین :٤ ]
"انسان کو نہایت اچھی تناسب میں بنایا”
(لَقَدْ مَنَّ اللّٰهُ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ اِذْ بَعَثَ فِيْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِھِمْ يَتْلُوْا عَلَيْھِمْ اٰيٰتِھٖ وَيُزَكِّيْھِمْ وَيُعَلِّمُھُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ ۚ وَاِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ ) [ آل عمران :١٦٤]
"اللہ نے مسلمانوں پر بڑا ہی کرم کیا ، جو انہیں میں سے ایک بڑی شان والا رسول بھیجا ، جو ان کو قرآن پڑھ پڑھ کر سناتا ہے اور انہیں ( گندگیوں ) سے پاک کرتا ہے ، اور کتاب کی ( تعمیل کا طریقہ ) سکھاتا ، اور مکارم اخلاق بتاتا ہے ، ورنہ اس کے قبل یہ لوگ صریح گمراہی میں پڑے تھے ۔”
المغراف فی تفسیر سورۂ ق
الواقعۃ شمارہ ١، ٢
مولانا شاہ عین الحق پھلواروی رحمہ اللہ
تسہیل و حواشی :محمد تنزیل الصدیقی الحسینی
الحمد للّٰہ نحمدہ و نستعینہ و نستغفرہ و نؤمن بہ و نتوکل علیہ و نعوذ باللّٰہ من شرور انفسنا و من سیأت اعمالنا من یھدہ اللّٰہ فلا مضل لہ و من یضللہ فلا ھادی لہ و نشھد ان لا الٰہ الا اللّٰہ وحدہ لا شریک لہ و نشھد ان محمدا عبدہ و رسولہ.
( و ذکر فانّ الذکری تنفع المومنین ) [ الذاریات : ٥٥ ]
”آپ نصیحت کرتے رہیے اس لیے کہ وعظ و نصیحت مسلمانوں کو فائدہ بخش ہے ۔”
” انّما بعثت معلماً ” (١)
اس ارشاد کی تعمیل کی غرض سے ہفتہ میں ایک بار بطور تعلیم دین و عظ و نصیحت فرض ہوئی ، اور وہ دن جمعہ کا ہے اور وعظ و نصیحت یہی خطبہ ہے جو جمعہ کی نماز میں شرط ہے ۔ پھر نمازِ جمعہ کا یہ اہتمام کیا گیا کہ تمام کاروبارِ دنیا موقوف کرکے آنا ضروری ٹھہرایا گیا اور فرمایا:
( اِذَا نُوْدِيَ لِلصَّلٰوةِ مِنْ يَّوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا اِلٰى ذِكْرِ اللّٰهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ) [الجمعة : ٩ ] یعنی "جب صلوٰة جمعہ کی اذان سنو تو اللہ کی یاد ( یعنی خطبہ ) کی طرف دوڑو اور بیچ کھونچ[خرید و فروخت ] موقوف کردو”.
عن أبی ھریرة و ابن عمر : ” انہما سمعا رسول اللّٰہ ۖ یقول علی اعواد منبرہ لینتہین اقوام عن ودعہم الجمعات او لیختمن اللّٰہ علی قلوبہم ثم لیکونن من الغافلین ۔”رواہ مسلم و ابن ماجة (٢)
حضرت ابو ہریرہ اور ابن عمر نے رسول اللہ ۖ کو منبر کے اوپر فرماتے سنا کہ ” لوگ جمعہ کی نماز کو ترک کرنے سے باز آئیں ، ورنہ اللہ تعالیٰ ان کے دل پر مہر کردے گا پھر اس کا یہ نتیجہ ہوگا کہ دین کی طرف سے لاپروائی کرنے والوں میں ہو جائیں گے ۔ ”
( فَاسْتَمِعُوْا لَهٗ وَاَنْصِتُوْا )[ الاعراف : ٢٠٤] "چپ چاپ سنتے رہو”
” عن ابی ھریرة ان النبی ۖ قال اذا قلت لصاحبک یوم الجمعة انصت و الامام یخطب فقد لغوت ۔ ” رواہ البخاری (٣)
[ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب تم اپنے ساتھی سے جمعہ کے دن خاموش رہنے کے لیے کہو اور امام خطبہ دے رہا ہو تو تم نے یقینا لغو کام کیا ۔]
( فَذَكِّرْ بِالْقُرْاٰنِ مَنْ يَّخَافُ وَعِيْدِ ) [ق : ٤٥] "آپ بذریعہ قرآن کے نصیحت فرمائیں ، اس کو جو میرے عذاب سے ڈرتا ہے ۔ ”
” ان ھذا القرآن حبل اللّٰہ و النور المبین و الشفآء النافع ۔ ” رواہ الحاکم عن ابن مسعود (٤)”یہ قرآن اللہ کی ڈوری ہے ، اور جگمگاتا نور ہے اور دل کے روگ کی نافع شفا ہے ۔ ”
عن ام ھشام بنت حارثة بن النعمان قالت : ما أخذت ق والقرآن المجید الا علی لسان رسول اللّٰہ ۖ کان یقرأ بہا کل یوم جمعة علی المنبر اذا خطب الناس ۔” رواہ احمد (٥)ام ہشام صحابیہ فرماتی ہیں کہ ” میں نے سورئہ ق حضرت ہی کے زبان مبارک سے سیکھ کر یاد کرلی آپ اس سورت کو منبر پر ہر جمعہ کے خطبہ میں پڑھا کرتے تھے ۔ ”
یہ مضمون جریدہ "الواقۃ” کراچی کے پہلے شمارہ، – جمادی الثانی 1433ھ / اپریل، مئی 2012– سے قسط وار شائع ہو رہا ہے۔
ذیل میں قسط نمر 2 پیش کی جارہی ہے:
( ق ) یہ حرف اور جو ایسے ایسے حروف سورتوں کے شروع میں مذکور ہیں ، ان کے معنوں کو سوائے اللہ اور رسول ۖ کے کوئی نہیں جانتا ۔ ہر دوست اپنے دوست کے لیے کچھ نہ کچھ اشارے رکھتا ہے جن کو اغیار نہیں سمجھ سکتے ۔ ہم مسلمانوں کو اپنے مقام پر پر ٹھہرنا چاہیے ، اور آگے بڑھنے کی جرأت نہ کرنی چاہیے جس قدر معلوم ہے ، اس پر شکر احسان ہے ، اور جو مخفی ہے اس پر ایمان ہے ۔
( وَ القُرْاٰنِ الْمَجِیْدِ )[١] "قسم ہے قرآن کی جو بزرگ ہے”
اس لیے کہ اس کا اتارنے والا مجید اور پروردگار عالم اور جس پر اتارا گیا وہ سیّد اولادِ آدم ، جو فرشتہ اس کے لانے کے لیے انتخاب کیا گیا ، وہ تمام ملائکہ میں محترم ، جس شہر میں اوّل نازل ہوا یعنی مکہ وہ امّ القریٰ اور حرم ، جہاں کی ایک رکعت نماز کا ثواب دوسری جگہ کی لاکھ رکعت کے برابر ۔ جس ماہ میں اترا یعنی رمضان وہ تمام مہینوں سے بزرگی و برکات و فضل میں ممتاز ۔ جس شب میں نازل ہوا یعنی لیلة القدر اس کے فضائل بے انتہا ۔ جس امت کے لیے اترا وہ خیر الامم ۔ اس کے تلاوت کا ثواب نا محدود ۔ اس کے تفکر و تدبر سے حصول مقصود خود وہ مضامین جو اس کے مندرج ہیں ، پاکیزہ و بابرکت و پر زور جو جہاں بھر کے مختلف اقوام کے رہنمائی کے لیے قیامت تک کافی ۔ اس کے قصص پُر اثر اور نتیجہ خیز اس پر کذب و فحش سے پاک اس کی تمثیلیں ابلغ تمثیلات ہر ایک دعویٰ راست اور دلائل موصل الی المطلوب [مطلب تک پہنچانے والی].
ایسی محترم چیز کی قسم کھا کر کفار سے یہ کہا جاتا ہے کہ آپ ہماری طرف سے بھیجے ہوئے رسول ہیں ، اور قیامت کے عذاب سے تم لوگوں کو ڈرانے کی غرض سے بھیجے گئے ہیں ۔
آدمی کا قاعدہ ہے کہ جب کوئی تعجب خیز بات سنتا ہے ، تو اوّلاً اس کی صحت میں شک کرتا ہے ، مگر جب دیکھتا ہے کہ کہنے والا نہایت راست گو ، دیانتدار ہے ، اور بقسم بیان کرتا ہے ، تو اس کا شک دور ہوجاتا ہے اور ایسی حالت میں کم از کم اس قدر ضرور کہتا ہے کہ جب تمہارے جیسا دیانت دار اور سچا آدمی بڑے دعوے سے کہہ رہا ہے تو اگرچہ میری عقل میں نہیں آتی مگرسچ مان لیتا ہوں ۔ لیکن ان کفار کا ( آپ کی راستی کا کمال یقین رہتے ہوئے ) آپ کی نبوت کو نہ تسلیم کرنا بسبب ایک شبہ کے ہے جس سے وہ شک و تردد ہی کی حد تک نہ رہے ( بَلْ ) ”بلکہ” شک سے ترقی کرکے ایک جانب کا فیصلہ کرلیا کہ آپ نبی نہیں ہیں اور قیامت کا ہونا ہر گز صحیح نہیں اور آپ کو اس فیصلے کے خلاف دعویٰ پر اصرار کرتے دیکھ کر ( عَجِبُوْا ) ”تعجب کرنے لگے” ( اَنْ جَآئَ ھُمْ مُّنْذِر ) ”کہ ان کے پاس ایک ڈرانے والا آیا” جو اپنے کو باوجود اوصاف بشریت کے اللہ کا بھیجا ہوا کہتا ہے ۔ اگر کوئی فرشتہ یا جن یہ دعویٰ کرتا تو چنداں جائے تعجب و انکار نہ ہوتا ، تعجب تو اس لیے ہے کہ وہ ڈرانے والا ( مِنْھُمْ ) ”انہیں میں کا ایک آدمی ہے” جو نہ من حیث بشریت کے لائقِ نبوت ہے نہ من حیث عزت و وجاہت کے نہ من حیث مال و دولت کے ( فَقَالَ الْکٰفِرُوْنَ ) ”تو کہا نہیں ماننے والوں نے” ( ھٰذَا )”یہ” یعنی ہمیں لوگوں میں سے ایک شخص کا اس قدر بلند پایہ ہوجانا اور منصب نبوی تک پہنچ جانا اور بلا ستعانت مال و جاہ وغیرہ کے جو ترجیح استحقاق کے فی الجملہ باعث ہوسکتے ہیں ۔ سب پر فوقیت کا دعویٰ کرنا ( شَیْٔ عَجِیْب ) [٢] "عجیب چیز ہے”. دوسرے جس مصیبت سے ڈراتے ہیں وہ اگر دنیا ہی میں آنے والی بتاتے تو خیر ، تعجب بالائے تعجب تو یہ ہے کہ کہتے ہیں کہ مرجانے کے بعد جب قیامت کا دن آئے گا جس کو مدت دراز ہے تو ( ئَ اِذَا مِتْنَا وَ کُنَّا تُرَابًا ) ”کیا جب ہم مر مٹیں گے اور سڑ گل کر مٹی ہوجائیں گے ۔” بھلا ایسی حالت میں یہ عذاب کس طرح ہوگا ، کس پر ہوگا ، کون سہیگا ۔ تو خواہی نخواہی یا یہ بات ہی غلط ہے یا مانا جائے کہ مرمٹنے کے بعد دوبارہ زندہ کرکے پوری طرح پر آدمی کی ہستی لوٹائی جائے گی ، اور عذاب کیا جائے گا ۔
گو یہ بات مسلمان اور رسول قرین عقل سمجھیں مگر ( ذٰلِکَ رَجْع بَعِیْد ) [٣] ”وہ لوٹنا اور بار دوم ہستی کا واپس ملنا قیاس و عقل سے نہایت دور ہے ۔”
انسان میں ناری و ہوائی و آبی اجزا سب ہوا ہوجائیں گے خاکی اجزاء خاک میں مل جائیں گے ۔ اگر ڈوب کر دریا میں مرا تو کوسوں کی مچھلیوں اور دریائی جانوروں کا جزو بدن ہوگیا ۔ جل کر مرا تو خاک سیاہ ہوکر نیست و نابود ہوگیا ۔ کسی درندے نے پھاڑ کھایا تو مختلف جانوروں کے مختلف اجزا ہوکر وہ بھی یا کسی دوسرے حیوان کا جزو بدن بن جائے گا ، اور وہ تیسرے کا یا آخر کو خاک بن جائے گا ۔ پھر وہ خاک خدا جانے کہاں کہاں اڑتی پھرے گی ۔
پس اس قدر اجزاء کا پراگندگی کے بعد مجتمع ہوجانا ، اور جوڑ جوڑ کا از سر نو اسی حال پر آنا بالکل عقل کے خلاف ہے ۔
کفار کے یہی دو شبہے ایک بہ نسبت نبوت کے اور دوسرا بہ نسبت حشر و نشر کے جو ذکر کیے گئے ، ان کے لیے باعث تعجب تھے ان دونوں شبہوں کی تردید یہاں سے لے کر تا آخر سورت بیان فرمائی گئی ہے ۔
(١) متفرق اجزا کا بہم کرنا بعد مدت دراز ہر جوڑ بند کا پہلی حالت پر لے آنا اس کے نزدیک مشکل ہے ، جو خبر نہ رکھتا ہو کہ وہ اجزا کیا ہوئے اور کدھر گئے ۔ میرے نزدیک کیا مشکل ہے میری خبر داری کا یہ حال ہے کہ
( قَدْ عَلِمْنَا مَا تَنْقُصُ الْاَرْضُ مِنْھُمْ )"میں جان رہا ہوں جو کچھ ان میں سے زمین کم کرتی ہے”.
گو زمین اپنی جذبی تاثیر سے جسم کو مٹی بنا ڈالتی ہے ، اور کچھ اجزائے جسم ہوا یا پانی ہوجاتے ہیں اور ترکیبِ نوعی بالکل بدل جاتی ہے ، اور سیکڑوں بلکہ ہزاروں انقلابات ہوجاتے ہیں مگر یہ ساری حالتیں میرے علم میں موجود ہیں ، جس وقت چاہوں ہر جزو کو دوسرے سے الگ کر سکتا ہوں اور ایک جسم کے تمام اجزاء کا گو وہ کتنے ہی پراگندہ اور دوسرے جسم کی طرف مستحیل[شامل] ہوگئے ہوں پتا لگا کر بہم [جمع] کرسکتا ہوں ۔
اور میرے کارکنان قضا و قدر موکل فرشتے بھی بہت آسانی سے اس کو پتا لگا کر بہم [جمع] کرلیں گے ۔ ( وَ ) ”اور” ( اس لیے کہ )
( عِنْدَنَا کِتَاب )"ہمارے پاس تو ایک عظیم الشان کتاب ہے”
جس میں کارخانۂ عالم کے جزوی و کلی اجمالی و تفصیلی حالات مندرج ہیں ، کوئی واقعہ چھوٹا ہو یا بڑا اس سے باہر نہیں ہو سکتا ، جیسا کہ فرمایا ہے
( لَا رَطْبٍ وَّ لَا یَابِسٍ اِلَّا فِی کِتٰبٍ مُّبِیْنٍ )[الانعام : ٥٩]
"ہر تر و خشک کتاب مبین میں موجود ہے”.
( یعنی جو ہوا ہے اور ہونے والا ہے وہ سب ہماری کتاب لوح محفوظ میں لکھا ہوا ہے ) اور اس میں نہ بسبب کہنگی کے تغیر ہوتا ہے ، اور نہ کوئی ایسا ہاتھ وہاں تک پہنچ سکتا ہے ، جو واقعات کو ردو بدل کر ڈالے ۔ اس لیے کہ وہ
( حَفِیْظ ) [٤] ”نہایت محفوظ ہے”
اور سارے انقلابات اور حادثات کی حافظ ہے ۔ اب جو ان کی تسکین کے لیے کافی وا فی دلیل بیان کردی گئی ، تو مان ہی لینا تھا ، مگر پھر بھی نہ مانا
( بَلْ کَذَّبُوْا بِا لْحَقِّ لَمَّا جَآئَ ھُمْ )"بلکہ حق بات آتے ہی جھٹلا دی ۔ ”
اب کوئی معقول وجہ انکار کی نہ رہی تو لگے واہی تباہی باتیں بنانے اور ہٹ دھرمی کرنے ۔ کبھی کہتے ہیں کہ خدا اگر فرشتے کی معرفت کہلواتا تو مانتے ، بشر کی کبھی نہ مانیں گے۔
( وَ قَالُوا لَوْ لَآ اُنْزِلَ عَلَیْہِ مَلَک ۔ وَ لَوْ اَنْزَلْنَا مَلَکًا لَّقُضِیَ الْاَمْرُ ثُمَّ لَا یُنْظَرُونَ ) [الانعام : ٨]”اور کہا کفار نے کیوں نہ ان پر فرشتہ اتارا گیا ( تاکہ ہم کو یقین لانے کا عمدہ موقع ملتا مگر یہ نہ سمجھے ) کہ اگر ہم فرشتہ نازل کرتے تو فیصلہ ہی ہوجاتا پھر مہلت نہ دی جاتی ۔”
( وَ قَالُوْا مَالِ ھٰذَا الرَّسُوْلِ یَاْکُلُ الطَّعَامَ وَ یَمْشِیْ فِی الْاَسْوَاقِ ط لَوْ لَآ اُنْزِلَ اِلَیْہِ مَلَک فَیَکُوْنَ مَعَہ نَذِیْرًا ۔ اَوْ یُلْقٰی اِلَیْہِ کَنْز اَوْ تَکُوْنُ لَہ جَنَّة یَّاْکُلُ مِنْھَا ط وَ قَالَ الظّٰلِمُوْنَ اِنْ تَتَّبِعُوْنَ اِلَّا رَجُلاً مَّسْحُوْرًا ) [الفرقان : ٧-٨]
”اور کہا منکروں نے اس رسول کو کیا ہے کھانا کھاتا ہے ، بازاروں میں چلتا پھرتا ہے ۔ ( ساری باتیں تو تمہاری سی ہیں اس پر رسالت و نبوت کا دعویٰ جو ان کے نزدیک آدمیت کی شان سے بالاتر تھا ) کیوں نہیں اس پر کوئی فرشتہ اتارا گیا کہ وہ اس کے ساتھ ڈراتا رہتا ۔کیوں نہ اسے کوئی خزانہ دیا گیا یا کوئی باغ اس کے لیے ہوتا کہ اس میں سے کھاتا اور ظالموں نے کہا کہ تم تو جادو زدہ اور دیوانے کی اتباع کرتے ہو ( یعنی یہ تو دیوانوں کی سی باتیں کرتا ہے تم اس کی کیوں سنتے ہو )۔”
( وَ قَالَ الَّذِیْنَ لَا یَرْجُوْنَ لِقَآئَ نَا لَوْ لَآ اُنْزِلَ عَلَیْنَا الْمَلٰئِکَةُ اَوْ نَرٰی رَبَّنَا ط لَقَدِ اسْتَکْبَرُوْا فِیْ اَنْفُسِھِمْ وَ عَتَوْ عُتُوًّا کَبِیْرًا ) [الفرقان :٢١]”اور جن کو ہم سے ملنے اور جی کر زندہ ہونے کا یقین نہیں ہے انہوں نے کہا ( اگر یہ پیغمبر ہے تو ) کیوں نہ اس کے ساتھ فرشتے آئے یا ہم اپنے پروردگار کو دیکھتے بیشک ان منکروں نے اپنے جی میں تکبر کیا اور بہت سر اٹھایا ۔”
کوئی کہتا ہے کہ یہ ہوش ہی میں نہیں ، سب مالیخولیا ہے ۔ مجنونانہ خیالات ہیں ، دیوانے کی باتوں کا کیا ٹھکانا ، جس سے ہم آبائی دین کو چھوڑ دیں جیسا کہ فرمایا
( أَ ئِنَّا لَتَارِکُوْا اٰلِھَتِنَا لِشَاعِرٍ مَّجْنُوْنٍ ) [الصآفات:٣٦]” بھلا ہم لوگ اپنے معبودوں کو ایک شاعر دیوانے کی خاطر سے کبھی چھوڑنے والے ہیں ۔”
اور فرمایا
( ھَلْ نَدُلُّکُمْ عَلٰی رَجُلٍ یُّنَبِّئُکُمْ اِذَا مُزِّقْتُمْ کُلَّ مُمَزِّقٍ اِنَّکُمْ لَفِیْ خَلْقٍ جَدِیْدٍ ۔ اَفْتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا اَمْ بِہ جِنَّة )[سبا:٧-٨]” کفار تمسخر کی راہ سے ایک دوسرے سے کہتے ہیں کہ آئو تمہیں ایک آدمی کے پاس لے چلیں جو تمہیں یہ بتائے گا کہ جب تم سڑ گل کر بالکل ریزہ ریزہ ہوجائو گے تو پھر دوبارہ نئی طرح سے پیدا کیے جائو گے ۔ نہیں معلوم کہ خدا کی طرف جھوٹ جھوٹ ان باتوں کی نسبت کرتا ہے یا سڑی [جن زدہ] ہے ۔”
کوئی کہتا ہے کہ یہ سب شاعرانہ نازک خیالیاں ہیں ان کو منجانب اللہ ہونے سے کیا علاقہ مگر جو خود شاعر ہیں جب وہ غور سے سنتے ہیں تو کہتے ہیں کہ کجا شاعرانہ تُک بندیاں اور محض خیالات ، بے سروپا مضامین اور کجا یہ کلام معجز نظام بیشک ایسا نظم کلام طاقت بشری سے باہر ہے ۔
مگر یہ کیا ضرور ہے کہ خدا کا ہی ارشاد ہو ، کوئی شیطان یا جن اسرارِ غیبی ملا ملا کر ان کو یہ باتیں سکھا جاتا ہے ، جیسا کہ اس کی تردید میں دوسری جگہ فرمایا گیا ہے
( وَ لَا بِقَوْلِ کَاھِنٍ ط قَلِیْلًا مَّا تَذَکَّرُوْنَ ) [الحاقة:٢٢]"یہ کسی کاہن کی بات نہیں ۔ تم لوگ سوچتے بہت کم ہو”.
غرض کوئی شاعر ، کوئی مجنوں ، کوئی کاذب ، کوئی کاہن ، کوئی کچھ کوئی کچھ کہتا ہے ۔
( فَھُمْ فِیْ اَمْرٍ مَّرِیْجٍ )[٥]"تو وہ لوگ آپ کی تنقیص اور انکار کے بارے میں نہایت مختلف القول اور مختلف الرائے ہو رہے ہیں ۔”
یہ مضمون جریدہ "الواقۃ” کراچی کے پہلے شمارہ، -2012 اپریل،- سے قسط وار شائع ہو رہا ہے۔