شمارہ5
وحی متلو اور غیر متلو قرآنی تقسیم ہے
وحی متلو اور غیر متلو قرآنی تقسیم ہے 3
حقیقی و اصلی اتباع
اتباع و اطاعت
قرآن مجید اور روایت
وحی بالمفہوم
توہین رسالت اور مغرب کا اندازِ فکر
محمد تنزیل الصدیقی الحسینی
توہین رسالت ﷺ اور مغرب کا اندازِ فکر (1)
رسالتمآب ﷺکی توہین و تنقیص کا جو سلسلہ مغرب یا عیسائی دنیا کی جانب سے جاری ہے ، اس اندازِ فکر کا تاریخی تجزیہ کرنا نہایت ضروری ہے ۔ اس دریدہ ذہنی کے مختلف عوامل ہیں ۔ مسلمانوں کے مقابل میدانِ جنگ میں شکست کی ذلت ، اسلام کی غیر معمولی نشر و اشاعت کے سامنے اپنی بے بسی ،مسلمانوں کی اخلاقی وسعت کے سامنے اپنی برہنہ تہذیب کا احساس اور ان سب سے بڑھ کر سیرتِ محمدی ﷺکی حیرت انگیز روحانی تاثیر ۔ یہ وہ عوامل ہیں جو ان کی طبیعتوں پر اسلام کے حوالے سے جھنجھلاہٹ ، ہٹ دھرمی اور عامیانہ پن پیدا کردیتے ہیں ۔
مغرب میں توہینِ رسالت کا مختصر تاریخی جائزہ
” The only good Saracen is a dead Saracen.”
” آرچ بشپ تھیمو کو مسلمانوں نے اس لیے قتل کر ڈالا کہ اس نے قاہرہ میں ان کے بتوں کو توڑ ڈالا تھا۔” (بحوالہ اسلام ، پیغمبر اسلام اور مستشرقینِ مغرب کا اندازِ فکر : ١٨٣)
"اس کی تحقیقات کا استشراق میں بڑا اہم مقام حاصل ہے ۔ اس نے اسلام کے بارے میں جو کچھ لکھا ، قرآن مجید کے بارے میں جو کچھ لکھا اور حضور علیہ الصلوةٰ و السلام کی ذات گرامی کے بارے میں جو کچھ لکھا وہ ایک طویل عرصے تک مغربی ماہرین اور مغربی اہلِ علم کے لیے بہت بڑا مآخذ و مصدر رہا ۔ اس کی تحریروں کا لاطینی زبان میں ترجمہ بھی ہوا ۔ لاطینی زبان سے دوسری مغربی زبانوں میں اس کے خلاصے ہوئے اور جو تصورات اس نے قائم کیے تھے ، جن خیالات کا اس نے اظہار کیا تھا ، انہوں نے ایک طویل عرصے تک مغرب کے اہلِ علم کو متاثر کیا ۔ اور وہ غلط فہمیاں یا شکوک و شبہات جو یوحنا دمشقی نے پیدا کیے تھے ، طویل عرصے تک دُہرائے جاتے رہے ۔ ” (خطبات کراچی : ٢٥٠)
مغرب میں عظمتِ محمدی ﷺ کا اعتراف
"It is a very great mistake to suppose that the Mohamedan religion was propagated by the sword alone.” )page:53 (
” یہ بہت بڑی غلطی ہے کہ یہ سمجھا جائے کہ محمڈن مذہب ( اسلام ) صرف تلوار کے زور سے پھیلا ہے ۔”
"حضرت محمد ( ﷺ) کے متعلق ہمارا موجودہ قیاس بالکل بے بنیاد ہے کہ آپ ( ﷺ) دغا باز اور کذبِ مجسم تھے اور آپ کا مذہب محض فریب و نادانی کا ایک مجموعہ ہے ، کذب و افترا کا وہ انبارِ عظیم جو ہم نے اپنے مذہب کی حمایت میں اس ہستی کے خلاف کھڑا کیا خود ہمارے لیے شرم ناک ہے ۔”
"ہمارے اس قصے کے متعلق کیا ثبوت ہے کہ محمد ( ﷺ) نے ایک کبوتر سدھا رکھا تھا ، جو ان کے کانوں سے مٹر کے دانے چنا کرتا اور جسے وہ کہتے کہ فرشتہ وحی لایا ہے ؟”
"اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے ۔ ”اب دراصل وہ وقت آ پہنچا ہے کہ اس قسم کی مہمل باتیں چھوڑ دی جائیں، اس شخص ( ﷺ کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ آج بارہ سو برس سے اٹھارہ کروڑ انسانوں کے حق میں شمع ہدایت کا کام دے رہے ہیں ، یہ اٹھارہ کروڑ انسان بھی ہماری طرح خدائے تعالیٰ کے دست قدرت کا نمونہ تھے ۔ بندگانِ خدا کی بیشتر تعداد آج بھی کسی اور شخص کے بہ نسبت محمد ﷺ) کے اقوال پر اعتماد رکھتی ہے ، کیا ہم کسی طرح اسے تسلیم کرسکتے ہیں کہ یہ سب روحانی بازی گری کا ایک ادنیٰ کرشمہ تھا جس پر اتنے بندگانِ خدا ایمان لائے اور گزر گئے ؟ اپنی حد تک تو میں ایسا قیاس نہیں قائم کرسکتا ، اسے ماننے سے پہلے میں بہت سی بعید از قیاس باتوں کوتسلیم کرلوں گا ، اگر اس دنیا میں مکر و فریب اس قدر فروغ پا سکتا ہے تو سمجھ میں نہیں آتا کہ ایسی دنیا کے متعلق کیا رائے قائم کی جائے ۔” (سیّد الانبیاء ﷺ( تھامس کارلائل کی کتاب ” ہیروز اینڈ ہیرو ورشپ ” کے دوسرے لیکچر کا اردو ترجمہ از قلم محمد اعظم خاں ) ص : ٢٣-٢٥، مطبوعہ کاروانِ ادب کراچی ١٩٥١ء)”
"what the Arabs were before Mohammed’s appearance and what they became after it.”
” محمد ( ﷺ)) سے پہلے عرب کیا تھے اور ان کے بعد کیا ہوگئے ۔”
"My choice of Mohammad to lead the list of the world’s most influential persons may surprise some readers and may be questioned by others, but he was the only man in history who was supremely successful on both the religious and secular levels……..Today, thirteen centuries after his death, his influence is still powerful and pervasive.” ( page:33 (
”دنیا کے انتہائی با ثر افراد کی فہرست کی قیادت کے لیے میرا انتخاب محمد ( ﷺ) ہیں ۔ممکن ہے میرا انتخاب بعض قارئین کو ورطۂ حیرت میں ڈال دے اور بعض سوال کرنے پر مجبور کردے ۔ لیکن یہ تاریخ کی واحد شخصیت ہیں جو دونوں سطحوں یعنی مذہبی اور سیکولر اعتبار سے انتہائی کامیاب رہے ۔ ……. آج جبکہ ان کی وفات کو ١٣ صدیاں بیت چکی ہیں ۔ ان کا اثر آج بھی طاقتور اور وسیع ہے ۔ ”
” جب حالات کے جبر کے تحت پیغمبر ﷺ) ایک حکمراں اور قانون ساز میں ڈھل گئے ، تو بھی یہ ایک نفسیاتی ضرورت تھی کہ وہ خود کو الہامی پیغامات کا منتخب ذریعہ سمجھتے رہیں ۔ ” (بحوالہ اسلام ، پیغمبر اسلام اور مستشرقینِ مغرب کا اندازِ فکر : ١٦٤)
اسرائیل. وجۂ تسمیہ اور تاریخ.
اسرائیل — وجۂ تسمیہ اور تاریخ (2)
عہد قضاة
عصرِ داؤد
عصرِ فساد
حضرت موسیٰ نے جس فساد کی پیش گوئی فرمائی تھی، اُس کا آغاز تو عہدِ قضاة ہی سے ہو گیا تھا۔حضرت داؤد کے زمانے تک میں بنو اِسرائیل کا ایک طبقہ ایسا تھا جس پر حضرت داؤد نے لعنت فرمائی تھی۔ لیکن یہ طبقہ اُن دِنوں دَبا ہوا تھا، لیکن حضرت سلیمان کے انتقال کے عین بعد دس قبائل مرتد ہوگئے اور انھوں نے عہدِ موسیٰ کے دین ِ سامری کو اپنایا اور حضرت سلیمان کے ایک باغی جس کا عرفی نام یرب عام (قوم سے لڑتا ہے) تھا اپنا بادشاہ بنایا ۔صرف دو قبائل بنو یہوداہ (خاندانِ داؤد ) اور بنو لاوی (خاندانِ موسیٰ ) نے آلِ سلیمان کی حکومت تسلیم کی۔ دورِ فساد کے بادشاہوں کی فہرست حسبِ ذیل ہے:
شمار
|
باغیان سلیمان
|
سنہ خروج
|
سنہ قبل مسیح
|
1
|
یربعام
|
٥١٧
|
٩٨٠
|
٢
|
ندب
|
٥٣٧
|
٩٦٠
|
٣
|
بعشا
|
٥٣٨
|
٩٥٩
|
٤
|
ایلاہ
|
٥٦١
|
٩٣٦
|
٥
|
عمری
|
٥٦٦
|
٩٣١
|
٦
|
اخی اب
|
٥٧٣
|
٩٢٤
|
٧
|
اخزیاہ
|
٥٩٢
|
٩٠٥
|
٨
|
یہورام
|
٥٩٣
|
٩٠٤
|
بنوسلیمان
|
سنہ خروج
|
سنہ قبل
|
رحبعام بن سلیمان
|
٥١٧
|
٩٨٠
|
ابیاہ
|
٥٣٤
|
٩٦٣
|
آسا
|
٥٣٦
|
٩٦١
|
یہو سفط
|
٥٧٦
|
٩٢١
|
یہورام بن یہوسفط
|
٥٩٧
|
٩٠٠
|
یربعام اور اُس کے تمام جانشین مشرک تھے۔یربعام نے سونے کے بچھوے کی مورتیں پوجوائی تھیں۔اخی اب نے اس پر بعل کی پرستش کا اِضافہ کیا۔اُس کے زمانہ میں حضرت الیاس مبعوث ہوئے تھے، جن کے خلیفہ حضرت الیسع تھے۔ یہ دونوں پیغمبر رجالِ قرآن میں سے ہیں ،اِن کا تذکرہ اِ س جگہ ضروری نہیں۔ حضرت سلیمان کے جانشین بھی گمراہی سے محفوظ نہ رہے۔رحبعام،آسا اور یہو سفط تو موحد تھے،لیکن ابیاہ مشرک تھا،کیونکہ جناب رحبعام نے ایک مشرکہ سے نکاح کیا تھا، جس کے بطن سے ابیاہ پیدا ہوا’اور وہ اپنی ماں کے دِین پر تھا (اول ملوک:،باب:١٥)۔ یہورام بن یہوسفط نے اخی اب کی بیٹی سے نکاح کیا، اِس لیے وہ اخی اب کے دِین پر تھا۔حضرت الیسع نے جیسا اُ ن کے تذکرہ میں بتایا جائے گا،اخی اب کے گھرانے کے خلاف بڑی سخت کارروائیاں کیں،ان کارروائیوں میں سے ایک یہ تھی، انھوں نے یاہو نام کے ایک شخص کو اِس گھرانے سے حکومت چھین لینے پر آمادہ کیا ،یاھو نے اخی اب کے گھرانے کو قتل کردیا اور خود حکومت حاصل کرلی۔ اِ س کے بعد حسبِ ذیل بادشاہوں نے بنو اِسرائیل پر حکومت کی:
شمار
|
باغیان سلیمان
|
سنہ خروج
|
سنہ قبل مسیح
|
9
|
یاھو
|
604
|
893
|
10
|
یہواخز
|
626
|
872
|
11
|
یہوابین
|
647
|
851
|
12
|
یربعام
|
663
|
835
|
13
|
زکریا
|
725
|
773
|
بنو سلیمان
|
سنہ خروج
|
سنہ قبل مسیح
|
اخزیاہ بن یہورام
|
604
|
893
|
یہواس بن اخزیاہ
|
610
|
887
|
امصیاہ بن یہواس
|
648
|
849
|
عزریاہ بن امصیاہ
|
688
|
809
|
ایام قہر
نمبر شمار
|
باغیان سلیمان
|
سنہ خروج
|
سنہ قبل مسیح
|
١٤
|
سلوم
|
٧٢٧
|
٧٧١
|
١٥
|
مناحم
|
٧٢٧
|
٧٧١
|
١٦
|
فقحیاہ
|
٧٣٨
|
٧٦٠
|
١٧
|
نیقح
|
٧٤٠
|
٧٥٨
|
١٨
|
ہوسیع
|
٧٦٧
|
٧٣١
|
بنو سلیمان
|
سنہ خروج
|
سنہ قبل مسیح
|
یوتام بن عزریاہ
|
٧٤٣
|
٧٥٥
|
آخز بن یوتام
|
٧٥٦
|
٧٤٢
|
بنو سلیمان
شمار
|
نام
|
سنہ خروج
|
سنہ قبل مسیح
|
١
|
حزقیاہ بن آخز
|
٧٧٣
|
٧٢٥
|
٢
|
منسی بن حزقیاہ
|
٨٠١
|
٦٩٧
|
٣
|
امون بن منسی
|
٨٥٦
|
٦٤٢
|
٤
|
یوشیاہ بن امون
|
٨٥٨
|
٦٤٠
|
٥
|
یہوآخز بن یوشیاہ
|
٨٨٩
|
٦٠٩
|
٦
|
یہو یقیم بن یوشیاہ
|
٨٨٩
|
٦٠٩
|
٧
|
نکوسیاہ بن یہو یقیم
|
٩٠٠
|
٥٩٨
|
٨
|
صدقیاہ بن یوشیاہ
|
٩٠٠ تا ٩١٠
|
٥٩٨تا٥٨٨
|
انجام اشور
حواشی و تعلیقات
خیر القرون کی اصطلاح کا مطلب کیا ہے؟
خیر القرون کی اصطلاح کا مطلب کیا ہے؟
سیّد خالد جامعی ( کراچی یونی ورسٹی ،کراچی )
قسط نمبر 1 | قسط نمبر 2 |
جامع ترمذی میں روایت ہے ابن عباس کہتے ہیں کہ آپ نے مجھے اپنے سینۂ مبارک سے چمٹالیااور دعا فرمائی ” اللّٰھم علمھ الحکمة ” ( جامع ترمذی،ج٢،ص٢٢٣و صحیح بخاری باب ذکر ابن عباس) ان کی کم عمری کے باوجود حضرت عباس کے تفقہ فی الدین کو تمام صحابہ کرام اہمیت دیتے۔ حفظ مراتب میں عمر نہیں علم اور عمل مراتب کا تعین کرتے ہیں۔
حضرت عمر فرماتے تھے” ذلک فتی الکھول نہ لسان سنول وقلب عقول” ( سیر اعلام النبلاء ،ج٣،ص٣٤٥) ”یہ ایسے نوجوان ہیں جنھیں پختہ عمر لوگوں کا فہم و بصیرت حاصل ہے۔ ان کی زبان علم کی جو یا اور قلب عقل کی محافظ ہے ۔” حضرت سعد بن ابی وقاص فرماتے ہیں کہ میں نے ان سے زیادہ حاضر دماغ ، عقل مند ، صاحب علم ، حلیم و بردبار شخص نہیں دیکھا۔ حضرت عمر مشکل مسائل کو حل کرنے کے لیے حضرت عباس کو بلاتے اور کہتے ایک مشکل مسئلہ پیش آچکا ہے پھر ان کے قول کے مطابق ہی عمل کرتے حالانکہ ان کی مجلس میں بدری صحابہ بھی موجود ہوتے تھے۔” فیقول قد جاء ت معضلة ثم لا یجاوز قولہ و ان حولہ لاھل بدر” ( سیر اعلام النبلاء ،ج٣،ص٣٤٧) لہٰذا حضرت عباس کو کم عمری کے باوجود حضرت عمر اکابر صحابہ ، بدری صحابہ کے ساتھ بٹھاتے تھے
یہ مقام ابن عباس کو دین کے لیے محنت سے ملا اور محنت کا طریقہ کیا تھا حضرت عباس کی زبان مبارک سے ان کے الفاظ میں سنیئے کہ:
"میں نے خود اکابر صحابہ کرام کے پاس جا جاکر رسول اللہ کی احادیث اور دین کا علم حاصل کرنا شروع کردیا کبھی ایسا بھی ہوا کہ مجھے معلوم ہوا کہ رسول اللہ کی ایک حدیث فلاں صحابی کے پاس ہے ان کے گھر پہنچا تو معلوم ہوا کہ وہ قیلولہ کررہے ہیں۔ یہ سن کر میں نے چادر بچھائی اور ان کے دروازے کی چوکھٹ پر سر رکھ کر لیٹ گیا ، ہواؤں نے میرے سر اور جسم پرگردو غبار لاکر ڈال دیا ، اتنے میں وہ صحابی نکل آئے اور مجھے اس حال میں دیکھ کر کہا آپ رسول اللہﷺ کے بھائی ہیں آپ مجھے بلالیتے میں حاضر ہوجاتا ۔ آپ نے کیوں زحمت فرمائی میں نے کہا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ کے پاس رسول اللہ ﷺ کی ایک حدیث ہے میں وہ حدیث آپ سے حاصل کرنے آیا ہوں اور اس کام کے لیے میرا آنا ہی زیادہ مناسب ہے”۔
غیر مسلم ممالک میں سکونت ۔ایک تحقیقی و تنقیدی جائزہ
غیر مسلم ممالک میں سکونت ۔ایک تحقیقی و تنقیدی جائزہ
ابو موحد عبید الرحمن
قسط نمبر 1 | قسط نمبر 2 | قسط نمبر 3 | قسط نمبر 4 |
نکسنیات سے دجالیات تک۔ پاکستان کس رُخ پر
قسط نمبر 2 | قسط نمبر 1 |
نو مسلموں کا اسلام سے واپس لوٹ جانا۔ ایک لمحہ فکریہ
نو مسلموں کا اسلام سے واپس لوٹ جانا۔ ایک لمحہ فکریہ
ابو عمار سلیم
اسلام کی حقانیت اور اس کے دل موہ لینے والے اصول و ضوابط بیشک انسان کو اپنی جانب کھینچتے ہیں اور جو کھلے دل کے ساتھ ا ن کو سمجھنا چاہے اس کے لیے اسلام کو قبول کرلینے کے علاوہ کوئی اور راہ باقی نہیں رہتی۔اعدادو شمار کے حوالے سے تو یوں محسوس ہو رہاتھا کہ بس اب کچھ ہی دنوں کی بات ہے کہ جلد ہی پوری انسانیت اسلام کے حلقہ میں داخل ہوجائے گی۔ مگر دراصل ان اعداد و شمار کی کوئی مستند اساس نہیں دی گئی۔ اسلام کا ہر بہی خواہ ان خبروں کو سن کر خوش ہوا اور بہت سے لوگوں کے ایمان میں اضافہ بھی ہوا ۔ مگر کسی مستند حوالہ کی غیر موجودگی میں بہت سے اذہان شک میں بھی مبتلا پائے گئے جو تاریخ سے واقف ہیں انہوں نے دور نبوت کے ان لوگوں کے اسلام کا حوالہ یادکیا جو اسلام کے غلبہ سے پریشان تھے اور دشمن اسلام تھے مگر اپنے بڑوں کے کہنے پر اسلام قبول کرنے کا اعلان کردیا۔ ان کا پلان یہ تھا کہ صبح کو ایمان لے ا ؤ اور شام کو اس سے پھر جاؤ تاکہ لوگوں کو یہ تاثر ملے کہ ان لوگوں کو اسلام میں کوئی خوبی نہیں ملی اس لیے یہ واپس پھر آئے۔اور پھر لوگوں کے ذہنوں میں خلافت راشدہ کے دور کا وہ یہودی منصوبہ بھی جاگ اٹھا جب ان سازشیوں نے اسلام کا لبادہ اوڑھ کر اپنے آپ کو اسلام کا بہی خواہ ہونے کا تاثر دیا مگر در پردہ سازشیں کرتے رہے۔ انکی ریشہ دوانیوں نے اسلام کو جس طرح دو لخت کیا ہے وہ کس کی نظروں سے پوشیدہ ہے ؟ انہوں نے اسلام کوتقسیم کرکے ایسا نقصان پہنچایا ہے کہ ملت اسلامی کا جگر آج بھی خون کے آنسو رو رہا ہے۔
” میرے علم میں نہیں کہ آپ میری کوئی مدد کرسکیں گی یا نہیں۔ میری زندگی فی الوقت ایک عذاب میں مبتلا ہے۔ مجھے اسلام قبول کیے ہوئے پانچ سال ہو چکے ہیں اور ہر رمضان کی آمد پر میرے ایمان میں اضافہ ہونے کی بجائے میں یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتی ہوں کہ کیا میں اپنے اسلام پر قائم رہوں یا واپس پرانا مذہب اپنا لوں۔ اسلام قبول کرنے کے بعدمیں جس تنہائی کا شکار ہوئی ہوں ایسی تنہائی میں نے اسلام میں داخل ہونے سے پہلے کبھی بھی محسوس نہیں کی تھی۔رمضان میں یہ احساس اور بھی شدید ہوجاتا ہے جب مجھے بے تحاشہ ای میل ملتی ہیں جس میں یہ طریقہ بتایا جاتا ہے کہ تیس دنوں میں قران کیسے ختم کیا جائے اور تقویٰ کیسے حاصل کیا جائے۔ مگر میں اپنی ناکام کوششوں کے بعد اور بھی نامراد ہو جا تی ہوں۔آج سے پانچ سال قبل جب میں نے کلمہ شہادت پڑھا تھا تو بے تحاشہ بہنوں نے مجھے گلے لگایااور مجھے اپنا فون نمبر بھی دیالیکن یہ سب شائد دکھلاوا تھا اس لیے کہ چند دنوں کے بعد وہ نہ تو میرے فون کرنے پر فون اٹھاتی ہیں اور نہ میرے ایس ایم ایس اور میل کا جواب دیتی ہیں۔انہوں نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ وہ مجھے نماز پڑھنا بھی سکھائیں گی ۔ مگر اتنے دن گزرنے کے بعد بھی مجھے آج نماز پڑھنی نہیں آتی ہے۔ میں بڑی اذیت میں گرفتار ہوں اور اپنی تنہائی سے پریشان بھی ہوں۔ میں نے کئی ایک کتابوں سے بھی مدد لی اور یو ٹیوب پر بھی سرگرداں رہی مگر ان میں سے کسی سے کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ میں نے اپنی مسجد میں بھی فون کیا۔ جب انہیں معلوم ہوا کہ مجھے اسلام میں داخل ہوئے پانچ سال گزر چکے ہیں اور مجھے ابھی تک نماز پڑھنی نہیں آتی تو میری مدد کرنے کی بجائے انہوں نے میرا مذاق اڑایا۔میری شدید خواہش ہے کہ میں قران مجید کی تلاوت کرسکوں ، دیگر مسلمانوں کی طرح تمام فرائض ادا کروں اورتراویح میں بھی شمولیت کروں۔میں روزہ کھولنے مسجد میں بھی گئی ، لوگوں نے مجھے کھانے پینے کی چیزیں ضرور پیش کیں مگرپھر نماز کے بعد کسی نے بھی مجھے لفٹ نہیں کرائی۔ لوگ اپنے اپنے گروپوں میں بیٹھ کر کھاتے پیتے رہے اور خوش گپیاں کرتے رہے مگر میرے لیے ان کے پاس سوائے دور سے پھینکی ہوئی ایک مسکراہٹ کے علاوہ کچھ نہ تھا۔”
پاکستان بلاؤں میں گرفتار ملک۔ تدارک کی تمنا
پاکستان بلاؤں میں گرفتار ملک۔ تدارک کی تمنا
محمد احمد
“ خشکی اور تری میں لوگوں کی بد اعمالیوں کے باعث فساد پھیل گیا۔ اس لیے کہ انہیں ان کے بعض کرتوتوں کا پھل اللہ چکھا دے۔ (بہت) ممکن ہے کہ وہ باز آجائیں۔”(سورة الروم: ٤١)
“ اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! اگر تم میں سے کوئی دین سے پھرتا ہے (تو پھر جائے)، اللہ اور بہت سے لوگ ایسے پیدا کر دے گا جو اللہ کو محبوب ہونگے اور اللہ ان کو محبوب ہوگا۔ جو مومنوں پر نرم اور کفار پر سخت ہونگے۔ جو اللہ کی راہ میں جدوجہد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے۔یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہے وہ اسے عطا کرتا ہے ۔ اللہ وسیع ذرائع کا مالک ہے اور سب کچھ جانتا ہے۔”(سورة المائدة:٥٤)
“ اے لوگو،جو ایمان لائے ہو! اللہ سے ڈرو اور جو سود کا بقایا ہے اس کو چھوڑ دو اگر تم ایمان والے ہو ، پس اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کے لیے تیار ہوجاؤ۔” (سورة البقرة:٢٧٩)
رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ:” سود اتنا بڑا گناہ ہے کہ اس کو اگر ستر اجزا ء میں تقسیم کیا جائے تو ہلکے سے ہلکا جزو اس گناہ کے برابر ہوگا کہ آدمی اپنی ماں کے ساتھ زنا کرے۔” (ابن ماجہ)
رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ: ” میں نے آج رات دو اشخاص کو دیکھا جو میرے پاس آئے اور مجھے بیت المقدس لے گئے ، پھر ہم آگے چلے تو ایک خون کی نہر دیکھی جس کے اندر ایک آدمی کھڑا ہے اور دوسرا آدمی اس کے کنارے پر کھڑا ہے۔ جب نہر کے اندر والا آدمی باہر آنا چاہتا ہے تو کنارے والا آدمی اس کے منہ پر پتھر مارتا ہے جس کی چوٹ سے بھاگ کر وہ پھر وہیں چلا جاتا ہے جہاں کھڑا تھا۔ وہ پھر نکلنے کا ارادہ کرتا ہے تو پھر کنارے والا آدمی وہی معاملہ کرتا ہے۔ آنحضرت فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے ان دو ساتھیوں سے پوچھا یہ کیا ماجرا ہے جو میں دیکھ رہا ہوں؟ انہوں نے بتلایا کہ خون کی نہر میں قید کیا ہوا آدمی سود کھانے والا ہے (اپنے عمل کی سزا کھا رہا ہے)۔” (صحیح البخاری، کتاب البیوع)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :”جب کسی قوم میں سود کا لین دین رواج پا جاتا ہے تو اللہ تعالی ان پر ضروریات زندگی کی گرانی مسلط کردیتا ہے اور جب کسی قوم میں رشوت عام ہو جائے تو دشمنوں کا رعب اور غلبہ ان پر ہوجاتا ہے۔”(مسند احمد)
رسول اللہﷺ ان خوفناک بلاؤں کے شکار لوگوں کی روحانی اور اُخروی زندگی کا ڈھب کیا ہوگا ، بتاتے ہیں :“ جب ہم ساتویں آ سمان پر پہنچے تو میں نے اپنے اوپر رعد و برق کو دیکھااس کے بعد ہم ایسی قوم پر سے گزرے جن کے پیٹ رہائشی مکانات کی طرح پھیلے اور پھولے ہوئے ہیںاور جن میں سانپ بھرے ہوئے ہیں جو باہر سے نظر آ رہے ہیں۔ میں نے جبرائیل امین سے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں ؟ انہوں نے فرمایا : یہ سود خور ہیں۔”(مسنداحمد)
اب ان لا حاصل خواہشات کے بندوں کے بارے میں ہمارے حضور رسالت مآ ب ﷺکیا ارشاد فرما گئے ہیں مطالعہ کیجئے:“ پس قسم اللہ کی میں فقر و افلاس سے تمہارے لیے نہیں ڈرتا بلکہ اس بات سے ڈرتا ہوں کہ دنیا تم پر پھیلائی جائے گی جس طرح تم سے پہلوں پر پھیلائی گئی اور جس طرح انہوں نے باہم رشک و تنافس کیا ، اسی طرح کہیں تم بھی نہ کرو اور تم بھی غافل نہ ہو جاؤ جس طرح وہ ہوگئے۔” (بخاری)
“ اشرفیوں اور روپوں والے جھالر دار لباس والے سیاہ عبا والے سب گرے اور ہلاک ہوئے۔” (بخاری)
“ اگر آدم کے بیٹے کے پاس مال کی دو وادیاں ہوں تو وہ تیسری کی تلاش میں مصروف ہوگا۔ اور آدم کے بچے کا پیٹ (یا آنکھ) مٹی کے سوائے کوئی چیز نہیں بھر سکتی۔”(بخاری)
ایسی دولت کی بے بضاعتی کا اظہار مالک الملک اس طرح کرتے ہیں :“ یقین رکھو جن لوگوں نے کفر اختیار کیا اور کفر کی ہی حالت میں جان دی ان میں سے کوئی اگر اپنے آپ کوسزا سے بچانے کے لیے روئے زمین بھر کر بھی سونا فدیہ میں تو اسے قبول نہیں کیا جائے گا۔ ایسے لوگوں کے لیے دردناک سزا تیار ہے اور وہ اپنا کوئی مددگار نہ پائیں گے۔”( آل عمران :٩١)
معلوم ہونا چاہئے کہ خدائی افواج کی طاقت کیا ہے:“ اور تیرے رب کے لشکروں کو خود اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ “ (سورة المدثر : ٣١)
“ اور یہ جو تمہاری زبانیں جھوٹے احکام لگایا کرتی ہیں کہ یہ حلال ہے اور وہ حرام ، تو اس طرح کے حکم لگا کر اللہ پر جھوٹ نہ باندھا کرو۔ جو لوگ اللہ پر جھوٹے افتر ا باندھتے ہیں وہ ہر گز فلاح نہیں پاتے۔ دنیا کا عیش چند روزہ ہے۔ آخر کار ان کے لیے درد ناک سزا ہے۔”( سورة النحل:١١٦- ١١٧)
امام محمد تاج فقیہ۔ بہار کے پہلے مسلم فاتح
امام محمد تاج فقیہ۔ بہار کے پہلے مسلم فاتح
“حضرت مولانا محمد تاج فقیہ قدس سرہ بوجہ تبحر در علم فقہ بمرتبۂ کمال امام محمد تاج الفقہا ملقب بودند آنحضرت و امام محمد غزالی رحمة اللہ علیہما بحکم مرشد خود برائے اجرائے اسلام از مدینہ منورہ و ہم از محلہ قدس خلیل من محلات بیت المقدس تشریف میداشتند ( از آنجا امام غزالی بطرف ملک مغرب و از آنجا بطرف طوس تشریف بردند ) حضرت مولانا محمد تاج فقیہ بطرف ہندوستان صوبہ بہار تشریف ارزانی فرمودند ۔ ” (الدر المنثور فی تراجم اہل الصادقفور : ١١)
“آج سے آٹھ نو سوسال پہلے اللہ کے بندے ، اس کے محبوب کی امت خاندان ہاشم کے جلیل القدر فرزند حضرت سیدنا امام محمد تاج فقیہ ہاشمی قدس خلیلی رحمة اللہ علیہ حسبِ بشارت حضرت رسالتمآب ﷺہندوستان سے ہزاروں میل دور بیت المقدس سے صوبہ بہار کے مرکز عظیم یعنی سر زمین منیر شریف میں تشریف لائے اور پرچم اسلام نصب کرکے اس تیرہ و تار خطہ کو اپنی ضیائے ایمانی سے منور فرمایا ۔ ٢٧ رجب روز جمعہ ٥٧٦ ہجری کی وہ مبارک ساعت تھی جب آپ کے ہاتھ سے یہاں اسلام کا سنگِ بنیاد رکھا گیا ۔ “ (آثار منیر : ٨ -٩)
“حضرت مخدوم الملک (شیخ احمد منیری)کے پردادا حضرت امام محمد تاج فقیہ بقصدِ جہاد ٥٧٦ھ میں بیت المقدس کے محلہ قدس خلیل سے ہندوستان تشریف لائے تھے اور صوبہ بہار ضلع پٹنہ کے ایک قصبہ منیر شریف میں اقامت گزیں ہوئے ۔ منیر کا راجہ بہت ظالم اور سرکش تھا ۔ مسلمانوں پر طرح طرح کے مظالم توڑتا تھا ۔ یہ دیکھ کر حضرت امام محمد تاج فقیہ نے اپنے آنے کے چھٹے سال اس سے جہاد کیا اور منیر فتح کرلیا ۔ “ (تاریخ سلسلہ فردوسیہ:١٣٩)
“مولانا محمد تاج فقیہ کی ذات سے منیر اور اس کے مضافات میں اسلام کی بہت اشاعت ہوئی ، کچھ عرصہ آپ نے منیر میں قیام کرکے وطن مراجعت فرمائی اور زندگی کا بقیہ حصہ خلیل ہی میں بسر کیا ۔ “(تاریخ دعوت و عزیمت : ٣ /١٧٨)
“صوبہ بہار میں قصبہ منیر شریف قدیم اسلامی مرکز ہے حضرت امام محمد تاج فقیہ رحمة اللہ علیہ نے اس دیار میں سب سے پہلے منیر کو اپنا اسلامی مرکز بنایا ۔ آپ کی مجاہدانہ کوششوں سے اس دور دراز خطہ میں اسلام کی اشاعت ہوئی اور کافی اشخاص نے راہ ہدایت اختیار کی ۔ “ (آثار منیر :٥)
"میرے والد الحاج سیّدمحمد رشید مرحوم کے دادا سیّد صمصام الدین کی ایک سندی انگشتری میرے پاس محفوظ ہے ۔ سیّد صمصام الدین مرحوم کی پوتی ، رقیہ محمود شمسی کاکوی ( دختر فخر الدین منیری ) کے پاس جو خاندانی فاتحہ نامہ زیرِ مصرف رہا اسی کا عکسی نقل آپ کو بھیج رہا ہوں ، شاید آپ کے کام آئے ۔ فاتحہ نامہ میں امام محمد تاج فقیہ کا سالِ وفات ٥٦٣ھ تحریر ہے ، جس کی شہادت تاریخِ کملاء سے بھی مل جاتی ہے ۔”
گستاخانہ فلم ۔ عالم اسلام کے خلاف نئی سازش کا نکتۂ آغاز
گستاخانہ فلم ۔ عالم اسلام کے خلاف نئی سازش کا نکتۂ آغاز
ابو محمّد معتصم باللّٰہ
نبی کریم ﷺ کی شانِ اقدس میں گزشتہ کئی برسوں سے ہونیوالی رذیلانہ حرکتوں کے خلاف مسلم امہ سراپا احتجاج ہے ۔ لیکن انہیں احتجاج پر مجبور کرنے والے بغیر کسی مقصد کے ایسا نہیں کرسکتے ۔ نیز یہ سلسلہ رکتا ہوا نظر نہیں آتا ۔ اسی طرح ان ذمہ دار ممالک کے ارباب اقتدار بھی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کر رہے ۔ اس لیے یہ کہنا بجا ہوگا کہ گستاخانہ فلم محض ایک سازش نہیں بلکہ مسلمانوں کے خلاف بپا عالمی سازش کا ایک اہم ترین موڑ ہے ۔
المغراف فی تفسیر سورہ ق
جریدہ "الواقۃ” کراچی، شمارہ (5 / 6 ) شوال، ذیقعد 1433ھ/ اگست ، ستمبر 2012
المغراف فی تفسیر سورہ ق
قسط نمبر 4
|
||
جائے۔” اور فرمایا
"جس دن زمین اور آسمان کی موجودہ حالت بدل دی جائے گی اور سب لوگ
اللہ کے حضور میں حاضر ہوں گے ۔”
وَالشُّهَدَاۗءِ وَقُضِيَ بَيْنَهُمْ بِالْحَــقِّ وَهُمْ لَا يُظْلَمُوْنَ 69) )الزمر:٦٩(
“زمین اپنے پروردگار کے نور سے چمک اٹھے گی اور کتاب رکھ دی جائے گی اور انبیاء اور گواہ حاضر کیے جائیں گے اور لوگوں کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کیا جائے گا اور ان پر ظلم نہ کیا جائے گا ۔”
قاضی محمد سلیمان سلمان منصور پوری اور ان کی کتب سیرت
قاضی محمد سلیمان سلمان منصور پوری اور ان کی کتب سیرت
محمد ساجد صدیقی
١) سید البشر٢) اسوہ حسنہ٣) مہر نبوت٤) رحمتہ اللعالمین٥) اصحاب بدر
قاضی محمد سلیمان منصور پوری کی کتب سیرت کا جائزہ
رحمتہ اللعالمین ﷺ:
”مرحوم نے رحمتہ للعالمین لکھی، رب العالمین نے اس دنیا میں اس کو قبول کے شرف سے ممتاز کیا۔امید ہے کہ اس کی رب العالمینی اور اس کے رسول کی رحمتہ للعالمینی دوسری دنیا میں بھی اُس کی چارہ نوازی کریگی۔” (مقدمہ ”رحمتہ اللعالمین” جلد سوم)
”اگر چہ اُردو میں سیرت النبی کے موضوع پر بے شمار کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔تاہم اِن کتب میں سے چند ہی ایسی ہیں جن کے اندر واقعات کی صحت بیان کا لحاظ رکھا گیا ہے اور ان چند کتب میں قاضی صاحب کی ”رحمت للعالمین”سر فہرست ہے۔”
”خدمت سیرت کے سلسلے میں دوسرا اہم نام مولانا قاضی محمد سلیمان منصور پوری کا ہے۔قاضی صاحب ریاست پٹیالہ پنجاب کے جج تھے اور وسیع النظر عالم و محقق تھے۔ ان کی مشہور کتاب رحمتہ اللعالمین کی پہلی جلد ١٩١٢ء میں شائع ہوئی۔یہ کتاب سیرت رسول پر بحیثیت سیرت پہلی تفصیلی جامعیت کی کتاب تھی جو اردو زبان میں منظر عام پر آئی۔ یہ تحریک سیرت سے مقصود کے مطابق تھی اور قاضی صاحب کو اس مرکزسے خصوصی ربط تھا ۔حسن میاں نے تبصرہ و تنقید کے ساتھ قاضی صاحب کو لکھا کہ ”اس کتاب کے بعد مجھے یہ کام کرنے کی ضرورت باقی نہ رہی۔” ( پیغمبر انسانیت ﷺ ازشاہ محمد جعفر پھلواروی میں مولاناحسن مثنیٰ ندوی کے مضمون ”پاکستان و ہندوستان کے خادمانِ سیرت)
”عالم دنیوی میں حضور ﷺ نے ولادت سے لیکر وفات تک٢٢٣٣٠ دِن٦گھنٹے قیام فرمایا۔یہ چھ گھنٹے اکتیسویں دن کے تھے۔ مذکورہ بالا ایّام میں سے ٨١٥٦ دن تبلیغِ رسالت و نبوت کے ہیں۔ ” (اصحابِ بدر۔ از مولانا سلیمان سلمان منصور پوری ص ٦٣۔٦٤۔ناشر: مکتبہ نذیریہ، لاہور)