شمارہ4
اللہ سے ہمارے تعلق کی بنیادیں
غیر مسلم ممالک میں سکونت ایک تحقیقی و تنقیدی جائزہ 3
غیر مسلم ممالک میں سکونت ۔ایک تحقیقی و تنقیدی جائزہ
ابو موحد عبید الرحمن
قسط نمبر 1 | قسط نمبر 2 | قسط نمبر 3 | قسط نمبر 4 |
احادیث نبوی سے استدلال
١) لا تساکنوا المشرکین و لا تجامعوھم فمن ساکنھم و اجامعھم فھو مثلھم ، و فی روایة : فلیس منا ۔ (سنن ترمذی : ٤ /١٣٣)
” تم مشرکین کے ساتھ سکونت اختیار نہ کرو اور نہ ان کے ساتھ مل کر رہو ، پس جو شخص ان کے ساتھ سکونت اختیار کرتا ہے یا ان کے ساتھ مل کر رہتا ہے تو وہ انہی کی مثل ہے اور ایک روایت میں ہے وہ ہم میں سے نہیں ۔ ”
٢) یُبایعک علی ان تعبد اللھ و تقیم الصلاة و توتی الزکاة و تفارق المشرکین ۔ (مسند أحمد : ٤ /٣٦٥)
” میں تم سے بیعت لیتا ہوں اس بات پر کہ تم اللہ کی عبادت کروگے ، نماز قائم کروگے ، زکوةٰ ادا کروگے اور مشرکین سے جدائی اختیار کرو گے ۔ ”
٣ ) آنحضرتؐ نے فرمایا : ” اپنی اولاد کو مشرکین کے درمیان نہ چھوڑنا ۔ " (تہذیب السنن لابن القیم: ٣ /٤٣٧)
٤) من کثر سواد قوم حشر معھم (مسند الفردوس : ٥٦٢١)
” جو کسی قوم کی تعداد کا سبب بنا تو روزِ حشر وہ انہی کے ساتھ اٹھایا جائے گا ۔ ”
٥) انا بری من کل مسلم یقیم بین اظھر المشرکین ۔ قالوا یا رسول اللّٰھ لم ؟ قال لا ترائٰی نارا بھا ۔(سنن ابی داود: ٢٦٤٥)
” میں ہر اس مسلمان سے بری ہوں جو مشرکین کے بیچ میں قیام کیے ہوئے ہو ۔ صحابہ نے استفسار کیا ایسا کیوں ؟ آپؐ نے فرمایا ( ان سے اس قدر دور رہو کہ ) تم ان کی جلائی آگ بھی نہ دیکھ سکو ۔ ”
٦) من کثر سواد قوم فھو منھم و من رضی عمل قوم کان شریک من عمل بھ ۔ (نصب الرایہ : ٤ /٣٤٦)
” جو شخص کسی قوم کی تعداد بڑھائے وہ انہی میں سے ہے اور جو کسی قوم کے عمل پر راضی رہے وہ ان کے عمل میں شریک ہے ۔ ”
٧) من جامع المشرک و سکن معہ فانہ مثلہ ۔ (سنن أبی داود : ٢٧٨٧)
” جو مشرکین کے ساتھ گھل مل کر رہا اور انہی کے ساتھ سکونت اختیار کی تو وہ بھی انہی کی طرح ہے ۔ ”
٨) عن جریر بن عبداللّٰھ البجلی رضی اللّٰھ عنھ ، ان رسول اللّٰھ قال : من اقام مع المشرکین فقد برئت منھ الذمة ۔ (الطبرانی و البیہقی )
” حضرت جریر بن عبداللہ البجلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہؐ نے فرمایا : جس نے مشرکین کے ساتھ رہائش اختیار کی وہ ذمہ سے بری ہے۔”
علماء عرب و عجم کے فتاویٰ :
” جو شخص کسی ایسے شہر منتقل ہونا چاہے ، جس میں اہلِ کفر کا تسلط ہو تو وہ شخص فاسق اور گناہِ کبیرہ کا مرتکب ہے۔” (العبرة بماء جاء فی الغزو و الشھادة : ٢٤٥)
” یہ بھی ظاہر کردینا ضروری ہے کہ اگر مسلمانوں کا داخلہ اور احکام اسلامیہ کا اجراء اس ملک میں غلبہ کے ساتھ نہ ہوتو اس ملک کے دارالحرب ہونے میں کوئی فرق نہ ہوگا ورنہ جرمن اور روس اور فرانس اور چین وغیرہ سب کے سب دارا لاسلام کہلانے کے مستحق ہوجائیں گے ۔ ” (تالیفات رشیدیہ : ٦٥٩)
”ہر مسلمان پر واجب ہے کہ وہ اہلِ شرک کے ملکوں میں سفر سے اجتناب کرے الا یہ کہ انتہائی شدید ضرورت ہو ۔ (فتاویٰ اسلامیہ: ١/١٧٥)
” أی مِن بعض الوجوہ لان الاقبال علی عدوّ اللّٰھ و موالاتھ توجِب ِاعراضھ عن اللّٰھ ، ومن أعرض عنھ تولاہ الشیطان ونقلھ ِالی الکفر۔” (عون المعبود)
” ایسا شخص بعض وجوہ کی بنا پر کافروں جیسا ہے ۔ کیونکہ اللہ کے دشمن کی جانب متوجہ ہونا اور اس کو دوست بنانا لازمی طور پر اس مسلمان کو اللہ تعالی سے دور کردیگا اور جو اللہ تعالی سے دور ہو جائے اسے شیطان دوست بنالیتا ہے اور اس کو کفر کی جانب لے جاتا ہے۔”
” و ھذا أمر معقول ، فِان موالاة الولِی وموالاة العدوّ متنافِیانِ ، وفِیھ ابرام و اِلزام بِالقلبِ فِی مجانبة أعداء اللّٰھ ومباعدتھم والتحرّز عن مخالطتھم ومعاشرتھم ۔” (عون المعبود )
”یہ بات سمجھ میں آنے والی ہے کیونکہ دوست کی دوستی اور دشمن کی دوستی دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں ، اس حدیث میں دل کو ان اللہ کے دشمنوں کے ساتھ ہونے سے روکا گیا ہے اور ان کے ساتھ اختلاط اور معاشرت اختیار کرنے سے روکا ہے۔”
"لیس للانسان ان یقیم فی ارض المشرکین وان یساکنھم وان یکون معھم، لئلا یحصل منھم تاثیر علیھ۔”
”ا نسان کے لیے مناسب نہیں کہ وہ مشرکین کی سرزمین میں اقامت اختیار کرے ، ان کے ساتھ سکونت کرے اور ان کے ساتھ رہے ۔شاید اس طرح وہ اپنے اوپر ان ( غیر مسلموں ) اثرات مرتب کرے ۔ ”
"فیھ دلیل عل تحریم مساکنة الکفار ووجوب مفارقتھم ۔” (نیل الاوطار:٨/١٢٥)
” اس حدیث میں کفار کے ساتھ سکونت اختیار کرنے کی حرمت اور ان سے جدائی اختیار کرنے کے وجوب کی دلیل ہے ۔ ”
"وقد استدل عدد من العلماء بھذہ الاحادیث علی کفر أو فسق من یقیم بین المشرکین ۔” (موسوعة الرد علی المذاہب الفکریة المعاصرة )
” بلاشبہ ان احادیث سے متعدد علماء نے استدلال کیا ہے اس شخص کے کفر یا فسق پر جو مشرکین کے درمیان اقامت اختیار کرے ۔ ”
” اس میں ہجرت کی ترغیب اور مشرکین سے مفارقت اختیار کرنے کی تلقین ہے ۔”
نکسنیات سے دجالیات تک; پاکستان کس رُخ پر ؟
جریدہ "الواقۃ” کراچی، شمارہ (٤ ) رمضان المبارک 1433ھ/ جولائی ، اگست 2012
نکسنیات سے دجالیات تک۔ پاکستان کس رُخ پر ؟
محمد احمد
قسط نمبر 2 | قسط نمبر 1 |
خیر القرون کی اصطلاح کا مطلب کیا ہے؟
جریدہ "الواقۃ” کراچی، شمارہ (٤ ) رمضان المبارک 1433ھ/ جولائی ، اگست 2012
خیر القرون کی اصطلاح کا مطلب کیا ہے؟
سیّد خالد جامعی ( کراچی یونی ورسٹی ،کراچی )
قسط نمبر 1 | قسط نمبر 2 |
انبیاء کی تہذیبوں میں روزے رکھنا عام بات ہے لوگ لذات دنیا سے کنارہ کش رہتے ہیں تب ہی ان پرحکمت کے چشمے القاء ہوتے ہیں، لذت و چٹخارے میں مبتلا قوم کے معدے ہمیشہ کچھ نہ کچھ طلب کرتے رہتے ہیں۔ حضرت موسیٰ کی قوم اس کی مثال ہے جسے حالت جہاد میں بھی من و سلویٰ پسند نہ تھا اسے قسم قسم کے کھانے درکار تھے ۔ جب جمعہ کے خطبے میں ہم یہ سنتے ہیں کہ خیر القرون قرنی (١) تو اس کا مطلب یہی ہے کہ وہ دور جب آخرت ہر رویے پر غالب تھی جب دنیا سب سے حقیر شے تھی جب اللہ کی رضا اور معرفت ہی حاصل زندگی تھی دنیا سے تمتع کم سے کم تھا ۔ کوئی ترقی ، دنیا طلبی، لذات و آسائش کی تلاش میں سرگرداں نہیں تھا فقر کی خود اختیاری زندگی پر سب کو فخر تھا وہ کفار کی طرح دنیا سے تمتع کو درست نہیں سمجھتے تھے اور عیش و عشرت کی زندگی کے طالب اور حریص نہ تھے وہ صرف اور صرف حریص آخرت تھے اور اس میں ایک دوسرے سے آگے بڑھ جانے کی تگ و دو میں مصروف رہتے تھے ۔ اگر خیر القرون ہی اصل معیار ہے تو ہمارا موجودہ طرز زندگی اس کی نفی ہے۔ جدیدیت [ماڈرن ازم] اور خیرالقرون کی جستجو ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے دنیا اور دین برابر نہیں ہوسکتے
جو آخرت کو ترجیح دے گا وہ دنیا کا نقصان کرے گا جو دنیا کو ترجیح دے گا وہ لازماَ آخرت کا نقصان کرے گا یہ ارشاد رسالت مآبصلی اللہ علیہ وسلم ہے۔
صحابہ کرام کی محبت کا مرکز و محور رسالت مآب ۖکی ذات گرامی تھی، ان کا جینا اور مرنا، کھانا پینا صرف اور صرف اسلام کے لیے تھا ۔ اپنی ذات کو وہ اللہ اور رسول اللہۖکے لیے فنا کرچکے تھے۔ ان کا حال ام المومنین حضرت جویریہ کے الفاظ میں یہ تھا
”اخترت اللّٰہ و رسولہ” میں نے اللہ اور اس کے رسولۖہی کو اختیار کرلیا ہے۔ [زرقانی ج ٢،ص٢٥٥]
یہ الفاظ آپ نے اپنے والد اور قبیلۂ بنی مصطلق کے سردار حارث بن ابی ضرار سے اس وقت کہے جب وہ آپ کو رہا کرانے کے لیے بہت سا مال و دولت بطور فدیہ لے کر آئے اور رسالت مآبۖسے حضرت جویریہ کی رہائی کا مطالبہ کیا۔ آپۖنے فرمایا جویریہ موجود ہیں جانا چاہیں تو لے جائو ۔ باپ نے کہا کہ رسالت مآب محمد ۖ نے تمہیں میرے ساتھ جانے کی اجازت دے دی ہے۔ ساتھ چلو مگر جواب انکار میں ملا۔ باپ نے اپنی عزت کا واسطہ دیا لیکن حضرت جویریہ نے خود کو دین اسلام کی محبت میں گرفتار کرلیا تھا۔ اس گرفتاری سے رہائی پر تیار نہ ہوئیں اور آپ کے ایمان و استقامت کے باعث نہ صرف آپ کے والد بھائی بلکہ پورا قبیلہ مسلمان ہوگیا۔ حضرت جویریہ کی سوکن ام المومنین حضرت عائشہ کا اعتراف محبت دیکھئے فرمایا :
”ما اعلم امرأة اعظم برکة منھا علیٰ قومھا۔ "میرے علم میں کوئی عورت ایسی نہیں ہے جو جویریہ سے زیادہ اپنی قوم کے لیے باعث خیرو برکت ہو”۔
سوکن کا یہ اعتراف ایمان اور اسلام کی خیرو برکت کا نتیجہ ہے اور قرن اول کی روحانیت کا ثمر ہے۔ اسی روحانیت کا اثر یہ تھا کہ ام المومنین حضرت حبیبہ کے والد حضرت ابوسفیان صلح حدیبیہ کے بعد اہل مکہ کے نمائندے بن کر صلح سے متعلق بعض معاملات کے بارے میں گفتگو کے لیے مدینہ طیبہ حاضر ہوئے اور اپنی بیٹی ام حبیبہ کے گھر کاشانۂ رسالت میں ان سے ملنے گئے۔ جب گھر میں داخل ہوئے تو آپ نے رسول اللہۖکا بسترجو بچھا ہوا تھا لپیٹ دیا۔ حضرت ابو سفیان نے پوچھا کہ یہ تم نے کیا کیا، آیا یہ بستر میرے لائق نہیں ہے یا میں بستر کے لائق نہیں ہوں تو آپ نے فرمایا ابا جان آپ مشرک ہیں اور یہ رسول اللہ کا بستر ہے اس لیے آپ اس بستر پر بیٹھنے کے لائق نہیں ہیں۔ [البدایہ والنھایہ ، ج٤، ص ١٤٣]
کسی صاحب ایمان عورت کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ کسی بھی میت کا تین دن سے زیادہ سوگ منائے۔البتہ شوہر پر چار مہینہ دس دن سوگ منائے گی۔
میں نے رسول اللہ ۖکے اس ارشاد پر عمل کرنے کے لیے اپنے رخساروں پر خوشبو لگالی ہے۔ کیا عصر حاضر میں یہ رویہ کسی دینی گھرانے میں اختیار کرنا ممکن ہے؟کتنی بدعات رسوم و رواج کے نام پر اختیار کرلی گئیں ہیں ۔ ظہر، مغرب،اور عشاء ، اور فجر کی بارہ سنت موکدہ نمازوں کے بارے میں رسالت مآب ۖکی تاکید سننے کے بعد حضرت ام حبیبہ کا ارشاد تھا
”فما برحت اصلیھن بعد” [مسند احمد] یعنی
”جب میں نے آپ کا یہ ارشاد سنا ہے کبھی ان رکعتوں کا ناغہ نہیں کیا۔”
ام المومنین حضرت صفیہ کے باپ حیی ابن اخطب قبیلہ بنی نضیر کے سردار تھے۔ ان کا سلسلہ نسب حضرت موسیٰ کے بھائی حضرت ہارون تک پہنچتا تھا۔ حضرت صفیہ کی والدہ قبیلہ بنی قریظہ کے سردار کی بیٹی تھیں [ زرقانی ، ج٣، ص٢٥٦امیر اعلام النبلاء ج٢،ص٢٣١] غزوۂ خیبر کے بعد حضرت صفیہ حضرت وحیہ کلبی کو رسا لت مآب ۖنے عطا کیں بعد میں بعض اصحاب کے مشورے پر انہیں آزاد کردیا کہ وہ اپنے وطن چلی جائیں یا مسلمان ہوکر آپ سے نکاح کرلیں ۔ حضرت صفیہ نے فرمایا:
"اختیار اللّٰہ و رسولہ لقد کنت اتمنی ذٰلک فی الشرک ” ”میں تو اللہ اور اس کے رسول کو اختیار کرتی ہوں تو الحمد اللہ اللہ نے ایمان کی دولت سے نواز دیا میری تو اسلام لانے سے پہلے بھی یہی خواہش تھی”[زرقانی ،ج٣، ص ٢٥٨ ]
کیا جمعہ کے خطبے میں خیر القرن قرونی (١) کی حدیث سننے والے دنیا میں آباد ایک ارب مسلمانوں میں سے کوئی ایک بھی عصر حاضر میں ولیمے کے لیے اس طرح کی دعوت کا تصور بھی کرسکتا ہے؟ اگر کسی سے کہہ بھی دیا جائے تو وہ ایسی دعوت کو اپنے پیغمبر کی اتباع میں بھی قبول نہیں کرے گا کیونکہ یہ سادگی عہد حاضر کے غالب پر تعیش تعقل سے ہم آہنگ نہیں ہے۔ ام المومنین حضرت صفیہ کے بارے میں ان کی باندی نے حضرت عمر سے شکایت کی کہ وہ یہود کی طرح اب تک یوم السبت کی تعظیم کرتی اور یہود کے ساتھ صلۂ رحمی کرتی ہیں ۔ حضرت عمر نے حقیقت معلوم کرنا چاہی تو فرمایا کہ جب سے اللہ نے یوم الجمعہ عطا فرمایا ہے میں یوم السبت کی تعظیم نہیں کرتی، یہودیوں سے میری قرابت داری ہے ان کے ساتھ صلۂ رحمی کرتی ہوںپھر انہوں نے اپنی باندی سے پوچھا کہ کہ تم نے یہ شکایت کیوں کی باندی نے کہا کہ مجھے شیطان نے بہکا دیا تھا۔ آپ نے باندی کو سزا نہیں دی بلکہ فرمایااچھا جائو تم آزاد ہو۔ [اصابہ، ج٧،ص٧٤١] عفوو درگزر، کرم، محبت، انتقام سے گریز، عطا، سخاوت کا یہ رویہ خیر القرن میں عام تھا ۔ اب مفقود ہے۔ ام المو منین حضرت میمونہ کثرت سے نماز پڑھتی تھیں، غلام آزاد کرنے کا بھی بہت شوق تھا ان کے خوف خدا اور صلۂ رحمی کا اعتراف میں آپ کی سوکن حضرت عائشہ فرماتی ہیں :
”افھما کانت من اتفانا اللّٰہ واوصلنا للرحیم””میمونہ ہم لوگوں میں خوف خدا اور صلہ رحمی میں ممتاز مقام رکھتی تھیں۔” [ اصابہ وزرقانی بحوالہ طبقات ابن سعد]
اتباع رسالت کا عالم یہ تھا کہ آپ حج یا عمرہ کے لیے مکہ آئیں تھیں طبیعت خراب ہوئی تو اپنے بھانجے سے کہا کہ مجھے مکہ سے لے چلوں کیونکہ مکہ میںمیرا انتقال نہیں ہوگا ۔ رسول اللہ نے مجھے پہلے ہی اطلاع دے دی ہے کہ تم کو مکہ میں موت نہیں آئے گی اور رسالت مآب ۖ کی اطلاع کے مطابق آپ کا انتقال مدینہ سے قریب مقام سرف میں ٥١ ہجری میں ہوا۔ یہ وہ مقام ہے جہاں آپ کا نکاح اور ولیمہ سات ہجری میں ہوا تھا.
” ابنی ھذا سیدہ ولعل اللّٰہ ان یصلح بہ بین الفنتین عظیمتین من المسلمین” ”میرا یہ بیٹا سید]سردار[ ہے اور انشاء اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے اللہ مسلمانوں کے دو گروہوں میں صلح کرائے گا۔” [ صحیح بخاری مناقب الحسن والحسین والترمذی،ج٢،ص٢١٨،فی المناقب]
حضرت حسن نے اس حدیث کے مطابق عمل کرتے ہوئے اپنی خلافت کے چھ سات ماہ بعد حضرت معاویہ سے صلح کرلی اور آپ کے حق میں دست بردار ہوگئے۔ بعض لوگوں نے اعتراض کیا تو جواب دیا کہ اگر خلافت حضرت معاویہ کا حق تھی تو ان کو مل گئی اور اگر میرا حق تھی تو میں اپنے حق سے دست بردار ہوگیا۔ آپ کے اس اقدام کے نتیجے میں امت ایک بار پھر متحد ہوگئی اس سال کو امت کی تاریخ میں ”عام الجمع” کا سال کہا جاتا ہے۔ جب امت ایک بار پھر مجتمع ہوگئی تاریخ میں کوئی ایسی مثال دکھائی جاسکتی ہے کہ اللہ کے لیے کوئی فرد سلطنت حکومت سے دست بردار ہوجائے ۔ امت کو جوڑنے کے لیے ایثار و قربانی کا مظاہرہ کرے اس وقت تو امت کا ہر گروہ خلافت ، حکومت ، اقتدار کی تگ و دو میں شب و روز مصروف ہے۔ سیاسی اسلام ، اسلام کا نفاذ بذریعہ حکومت و قوت اس عہد کا مقبول ترین نعرہ ہے۔ مگر امت میں دور دور تک کوئی حسنی نہیں جو کسی دوسرے اسلامی گروہ، اسلامی جماعت ، اسلامی قیادت کے حق میں دستبردار ہوکرامت کو اکٹھا کردے…یہ پارہ پارہ امت کیا کبھی مجتمع بھی ہوسکے گی؟ اگر نہیں تو اسے استخلاف فی الارض کیسے مل سکے گا؟ حضرت حسن نہایت امیر ترین آدمی تھے لیکن مال راہ خدا میں خرچ کرتے تھے ۔ بعض اوقات ایسابھی ہوا کہ اپنے موزے بھی اللہ کے راستے میں خرچ کردیئے اور صرف جوتے روک لیے کیا عہد حاضر میں کوئی امیر دین دار اس طرز زندگی کو اختیار کرنے کا تصور بھی کرسکتا ہے جس امت پر دنیا کا غلبہ ہو اور اس قدر کہ قرنِ اول کے طرزِ زندگی کا عصر میں تصور کرنابھی محال ہوگیا ہو تو اس امت کو دنیاپر غلبہ کیسے عطاہوسکتا ہے جو دنیامیں گرفتار ہے اور دنیا ہی جس کا ہدف اور مقصود ہے اللہ نے اس امت کو ا ہل دنیا کے سپرد کردیا ہے۔
”ما من مسلم تصیہ مصیبة فیقول ما امرہ اللّٰہ بہ انا اللّٰہ وانا الیہ راجعون۔ اللّٰھم اجرنی فی مصیبتی واخلف لی خبرا منھا الا احلف اللّٰہ لہ خیراََ منھا۔”
”جس صاحبِ ایمان پر کوئی مصیبت آئے]اور کوئی چیز فوت ہوجائے [ اور وہ اس وقت تک اللہ تعالیٰ سے وہ عرض کرے جو عرض کرنے کا حکم ہے کہ ہم اللہ ہی کے ہیں اور اللہ ہی کی طرف ہم سب لوٹ کر جا نے والے ہیںاے اللہ مجھے میری اس مصیبت میں اجر عطا فرما]اور جو چیز مجھ سے لی گئی ہے[ اس کے بجائے اس سے بہتر مجھے عطا فرمائے تو اللہ تعالیٰ اس چیز کے بجائے اس سے بہتر ضرور عطا فرمائے گا۔”
” ما انا بصانعة شیئاَ حتیٰ او امر ربی فقامت الیٰ مسجدھا ”[صحیح مسلم جلد١،ص٤٦١]
”کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے میں اللہ سے استخارہ ضرور کروں گی یہ کہہ کر اپنے مصلے پر کھڑی ہوگئیں۔
یعنی نماز شروع کردی ، اللہ سے یہ تعلق تھاکہ سورة احزاب کی آیت نازل ہوئی اور آسمان پر آپ کا نکاح ہوا، اللہ رب العزت آپ کے ولی بن گئے۔ حضرت زینب اس بات پر فخر کرتی تھیں کہ میرا نکاح میرے اللہ نے کیا جب کہ دیگر ازواج مطہرات کا نکاح ان کے اولیاء اور اہلِ خا ندان نے کیا ہے ۔ ” فقول زوجکن اھالیکن و زوجنی اللّٰہ من فوق سبع السموات۔”]صحیح بخاری ، جلد٢، ص١١٠٤[ حضرت زینب کا نکاح اللہ کے حکم سے آسمانوں پر ہوا تو سب سے شاندار ولیمہ بھی آپ کا کیا گیا۔ بخاری کی روایت ہے کہ اس شاندار ولیمے میں صرف بکری زبح کی گئی تھی [ج٢، ص٧٧٧، صحیح مسلم،ج ا،ص ٤٦١] کیا روئے ارض پر کوئی ایسا صا حب حیثیت مسلمان عصر حاضر میں موجود ہے جو متمول بھی ہو، حکمراں بھی ہو، اور اس کے ولیمے میں صرف ایک بکری پر دعوت ولیمہ منعقد ہوسکے یہ تصور کرنا بھی عصر حاضر کے دینی ذہن کے لیے ناقابل قبول ہے اگر اس بیان میں شک ہو تو اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر ہر دینی مزاج رکھنے والا مسلمان غور کرلے ! حضرت زینب کے بارے میں ام المومنین ام سلمہ اور حضرت عائشہ کی گواہی ہے۔ بہت صالحہ، کثرت سے روزہ رکھنے والی اور شب بیدار تھیں [ زرقانی شرح مواھب] میں نے ان سے زیادہ دیندار، متقی و پرہیزگار، سچ بولنے والی، صلہ رحمی کرنے والی، صدقہ کرنے والی اور اپنی جان کو نیکی اور تقرب الی اللہ کے کاموں میں زیادہ کھپانے والی کوئی عورت نہیں دیکھی۔ [ صحیح مسلم باب فضائل عائشہ] کیا عہد حاضر کی کوئی دینی ساس، بہو اور سوکن ایک دوسرے کے بارے میں کبھی اس طرح کے کلمات دیانتداری سے ادا کرسکتے ہیں اس معاشرت کی عدم موجودگی میں اسلامی انقلاب کے کیا معانی ہیں؟ حضرت زینب کوتاہ قامت اور ان کے ہاتھ بھی اسی لحاظ سے چھوٹے تھے لیکن سخاوت ، انفاق، کارِ خیر میں ان کے ہاتھ لمبے تھے، حضرت عائشہ کا قول ہے کہ رسالت مآب ۖنے فرمایا:
” قال لنا امرعکن لحوقاََ اطوالکن باعاََ فبشرھا لبسرعة لحوقھا بہ وھی زوجة فی الجنة” [سیر الاعلام النبلاء ، ج٢، ص٢١٥]
”رسول اللہ نے ان کے بارے میں یہ خوشخبری دی ازواج مطہرات میں میری وفات کے بعد سب سے پہلے میرے پاس آنے والی میری وہ بیوی ہوگی جو سب سے زیادہ لمبے ہاتھوں والی ہوگی ] یعنی کار خیر میں بہت خرچ کرنے والی[ اور وہ جنت میں بھی رسول اللہ کی بیوی ہیں۔”
رسالت مآبۖکے وصال کے بعد ازواج النبی ۖاپنے ہاتھ ناپا کرتی تھیں اور آپ کے فرمان اطوالکن باعاَ کا ظاہری مطلب ہی لیتی تھیں لیکن جب رسالت مآب ۖکی وفات کے بعد سب سے پہلے حضرت زینب کا انتقال ہوا تو ازواج مطہرات کو اطوالکن باعاَ کا مطلب سمجھ میں آیا سب سے زیادہ سخی اور فیاض۔ اور تمام ازواج مطہرات کی گواہی ہے کہ واقعی ام المومنین زینب ہم سب میں سب سے زیادہ سخی اور فیاض تھیں۔ حضرت زینب کی فیاضی کس درجے کی ہوگی اس کے لیے حضرت عائشہ اور حضرت ام المومنین سودہ بنت زمعہ کی فیاضی کے صرف دو واقعات پیش کیے جاتے ہیں۔ ایک دفعہ حضرت عمر نے درہموں سے بھری ہوئی ایک تھیلی ان کی خدمت میں بھیجی، تھیلی حضرت سودہ نے لی اور سب درہم ضرورت مندوں پر تقسیم فرمادئیے ۔
( ان ابراھیم حلیم او منیب) ”برد بار اور خشوع و خضوع کرنے والے اور اللہ کی طرف توجہ کرنے والے۔”
حضرت زینب کی وفات پر حضرت عائشہ نے کہا تھا:
” ذھبت حمیدة سعیدة مقزع الیتامی ‘ والارامل” ”ایک ستودہ صفات نیک بخت اور یتیموں و بیوائوں کی سہارا عورت دنیا سے رخصت ہوگئی ۔”
ایسی نیک بخت عورتوں کی کثرت کے بغیر نہ اسلامی خاندان بن سکتا ہے نہ اسلامی معاشرت جنم لے سکتی ہے افسوس کہ کسی اسلامی تحریک کے نصاب ، نظام تعلیم و تربیت میں ایسی عورتوں کی تعمیر و تشکیل و تربیت کا کوئی تصور تک موجود نہیں ہے ۔ قرن اول میں گفتگو کا اندازہ کیا تھا حفظ مراتب کیسے ملحوظ رکھے جاتے تھے اس کا تصور بھی آج محال ہے ۔ رسالت مآبۖکے چچا حضرت عباس عمر میں آپۖسے دو سال بڑے تھے لیکن جب بھی کوئی آپ سے سوال کرتا کہ آپ بڑے ہیں یا رسول اللہ ۖتو وہ جواب میں کہتے کہ ”ھو اکبر وانا ولدت قبلہ ”]سیر اعلام النبلائ،ج٢،ص٨٠[یعنی ”بڑے تو رسول اللہ ۖہی ہیں ہاں پیدا پہلے میں ہوا تھا ۔”حضرت عمر کے زمانے میں قحط پڑگیا تھا تو حضرت عمر نے حضرت عباس سے بارش کی دعا کرنے کی درخواست کی ، انہوں نے درخواست قبول کی اور اللہ نے بارانِ رحمت نازل فرمایا ۔ [ صحیح بخاری باب سوال الناس الامام الاستسقاء اذا قحطورا]
حضرت عبداللہ بن عباس حبر الامت انہی حضرت عباس کے صاحب زادے تھے وصال نبویۖکے وقت آپ کی عمر صرف تیرہ برس تھی ۔ رسالت مآب ۖنے حضرت عباس کی اولاد اور ان کے لیے دعا فرمائی تھی
” اللّٰھم اغفر للعباس وولدہ مغفرة ظاھرة وباطنة لاتفادر ذنبہ اللّٰھم احفظہ فی ولدہ” [جامع ترمذی باب مناقب عباس]
” اے اللہ! عباس اور ان کی اولاد کے تمام ظاہری و باطنی گناہ معاف فرمادیجیے او ر اے اللہ! ان لوگوں کی ایسی مغفرت فرمادیجیے کہ کوئی گناہ باقی نہ رہنے دے اے اللہ عباس کی حفاظت فرما ان کی اولاد کے بارے میں۔”
اس دعا کا اثر یہ تھا کہ حضرت ابن عباس علم و حکمت تفقہ فی الدین اور علم تفسیرالقرآن میں ممتاز تر تھے۔ رسالت مآبۖنے ایک بار آپ کے لیے دعا فرمائی:
"اللّٰھم فقہ فی الدین وعلمہ التاویل۔” "اے اللہ ان کو تفقہ فی الدین عطا فرما اورعلم تاویل۔” [مسلم ج٢،٢٨٩،باب فضائل عبد اللہ بن عباس، اصابہ ج٤،ص١٤٣]
اسرائیل وجۂ تسمیہ اور تاریخ
جریدہ "الواقۃ” کراچی، شمارہ (٤ ) رمضان المبارک 1433ھ/ جولائی ، اگست 2012
علّامہ ابو الجلال ندوی رحمہ اللہ
اسرائیل
قرآنِ پاک کی یہ عجیب خصوصیت ہے کہ حضرت آدم اور حضرت اسرائیل کے علاوہ کسی فرد کی نسل کو اُس کی طرف ”بنی” کا لفظ مضاف کر کے نہیں مخاطب کیا ہے۔ اسی طرح ”آل” کا لفظ حضرت داؤد کے سوا کسی اَور کی طرف مضاف کر کے مخاطب نہیں کیا ہے بنی آدم سے مراد تو دُنیا بھر کے اِنسان ہیں۔ اِسرائیل ،حضرت یعقوب کا نام تھا ‘ پورے قرآن میں یا بنی یعقوب نہیں۔
اِسرائیل اور یہود
اِن گم راہ بنی اِسرائیل کے مسلک والے عہدِ قرآن تک عرب میں موجود تھے،جن کی بابت سورہ ”نسائ” میں ہے کہ
يُؤْمِنُوْنَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوْتِ ] النسائ 51[
”وہ لوگ قیامت کی بابت یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہم سے اور ہمارے آبا سے اس کا وعدہ پہلے بھی کیا جا چکا ہے’ نہیں ہے یہ مگر اگلوں کے اساطیر” (مومنون:٨٣؛نمل:٦٨) ۔
”تو کیا انہوں نے اس بات پر غور نہیں کیا،ان کے پاس وہ بات آئی ہے جو اُن کے آبائے اوّلین کے پاس نہیں آئی تھی” (مومنون:٦٨) ۔
( وَلَا تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ وَلَا تَكُنْ فِيْ ضَيْقٍ مِّمَّا يَمْكُرُوْنَ )(نمل:٧٠)۔
اِسرائیل
١۔ ( كُلُّ الطَّعَامِ كَانَ حِلًّا لِّبَنِىْٓ اِ سْرَاۗءِيْلَ اِلَّا مَا حَرَّمَ اِسْرَاۗءِيْلُ عَلٰي نَفْسِھٖ مِنْ قَبْلِ اَنْ تُنَزَّلَ التَّوْرٰىةُ ) (آلِ عمران: 93)
”کھانے کے لایق ہر چیز فرزندانِ اِسرائیل کے لیے حلال تھی سِوائے اُس چیز کے جس کو توراة کے نزول سے پیشتر اِسرائیل نے خود پر حرام کر لیا تھا۔”
٢۔ (اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ مِّنَ النَّبِيّٖنَ مِنْ ذُرِّيَّةِ اٰدَمَ ۤ وَمِمَّنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍ ۡ وَّمِنْ ذُرِّيَّةِ اِبْرٰهِيْمَ وَاِسْرَاۗءِيْلَ ۡ وَمِمَّنْ هَدَيْنَا وَاجْتَبَيْنَا ۭ) (مریم:٥٨)
”یہ ہیں وہ لوگ جن پر اﷲ نے انعام فرمایا ہے جیسے انبیا جو نسلِ آدم میں سے تھے اور اُن میں سے جن کو ہم نے نوح کے ساتھ سوار کیا تھا اور ابراہیم اور اسرائیل کی ذریت سے اور اُن میں جن کو ہم نے ہدایت فرمائی اور برگزیدہ فرمایا تھا۔”
بنو اِسرائیل
نام
|
سال ولادت قبل ورود مصر
|
سال وفات بعد از ورود مصر
|
عمر /سال
|
١۔ راوبن
|
٤٦
|
٧٩
|
١٢٥
|
٢۔ شمعون
|
٤٥
|
٧٥
|
١٢٠
|
٣۔ دان
|
٤٤
|
٨٠
|
١٢٤
|
٤۔ لاوی
|
٤٤
|
٩٣
|
١٣٧
|
٥۔ یہودا
|
٤٣
|
٨٦ | ١٢٩ |
٦۔ نفتالی
|
٤٣
|
٨٩
|
١٣٢
|
٧۔ جاد
|
٤٢
|
٨٣
|
١٢٥
|
٨۔ آشر
|
٤١
|
٨٢
|
١٢٣
|
٩۔ ایشاکر
|
٤١
|
٨١
|
١٢٢
|
١٠. زبولون
|
٤٠
|
٨٤
|
١١٤
|
١١. یوسف
|
٣٩
|
٧١
|
١١٠
|
١٢. بن یامین
|
٣٠
|
٨٥
|
١١٧
|
مفہوم اِسرائیل
”(آج سے) تیرا نام اِسرائیل ہوگا (٤)۔ میں ہوں خدائے قادر’تو بُرومند ہوگا اور بہت ہوجائے گا۔تجھ سے گروہ اور گروہ درگروہ پیدا ہوں گے اورتیری صلب سے بادشاہ جنم پائیں گے۔اور یہ زمین جو میں نے ابراہیم و اسحاق کو دی تھی تجھے اور تیرے بعد تیری نسل کو دوں گا۔” (تکوین: ٣٥: ١٠، ١١،١٢) (٥)
”یوسف ھوا ھشلیط عل ھارض ” (تکوین٤٢:٦) (٦)
”یوسف ہی اس سرزمین کا سلطان ہے۔”
( يٰقَوْمِ اذْكُرُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ اِذْ جَعَلَ فِيْكُمْ اَنْۢبِيَاۗءَ وَجَعَلَكُمْ مُّلُوْكًا ڰ وَّاٰتٰىكُمْ مَّا لَمْ يُؤْتِ اَحَدًا مِّنَ الْعٰلَمِيْنَ ) (المائدة:٢٠)
”اے میری قوم! اﷲ کے اِس احسان کو یاد رکھو جو اُس نے تم پر کیا ہے کہ تم میں انبیا مبعوث کیے اور تم کو ملوک بنایا اور تم کو وہ دیا جو دُنیا میں کسی اور کو نہیں دیا۔”
اسرائیل کا مطلب
بنو اِسرائیل مصر میں
عہدِ موسیٰ
مولانا ابو الجلال ندوی کا یہ غیر مطبوعہ مضمون ہمیں ان کے نواسے جناب یحیٰ بن زکریا صدیقی نے دیا ہے جس کے لیے ادارہ ” الواقعة ” ان کا شکر گزار ہے ۔ اس میں بعض حواشی م.ص .ف.رفعت صاحب کے قلم سے ہیں ۔ جس کی نشاندہی اسی مقام پر کردی گئی ہے ۔ (ادارہ الواقعۃ)
وحی متلو اور غیر متلو قرآنی تقسیم ہے 2
جریدہ "الواقۃ” کراچی، شمارہ (٤ ) رمضان المبارک 1433ھ/ جولائی ، اگست 2012
المغراف فی تفسیر سورۂ ق 4
جریدہ "الواقۃ” کراچی شمارہ ٤، رمضان المبارک 1433ھ/ جولائی، اگست 2012
تسہیل و حواشی :محمد تنزیل الصدیقی الحسینی
” ما شی اثقل من میزان المؤمن یوم القیٰمة من خلق حسن و انّ اللّٰہ لیبغض الفاحش البذی ۔”رواہ الترمذی (١) عن أبی الدرداء رفعاً ” یعنی
” مسلمان کے ترازو میں قیامت کے دن عمدہ اخلاق سے زیادہ بھاری کچھ نہ ہوگا اور اللہ تعالیٰ نفرت رکھتا ہے بدکار کج خلق سے ۔” اس کو ترمذی نے ابی درداء سے ]مرفوعاً[روایت کیا ہے ۔
(ذٰلِکَ رَجْع بَعِیْد) (٢) ] سورہ ق: ٣[
( لِّمَنِ الْمُلْکُ الْیَوْمَ لِلّٰہِ الْوَاحِدِ الْقَہَّارِ ) (٥) ] سورہ غافر: ١٦[
تصوف میں غیر اسلامی ادیان کی آمیزش ٣
محمد عالمگیر
مترجم : ابو عمار محمد سلیم
قسط نمبر 1 کا مطالعہ کیجئے قسط نمبر ٢ کامطالعہ کیجئے
قسط ٣ (آخری)
اسلام کی تکمیل قطعی ہے
” آج کافر لوگ تمہارے دین ( کے مغلوب ہونے) سے نا امید ہو گئے ہیں، لہٰذا ان سے مت ڈرو، اور میرا ڈر دل میں رکھو۔ آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا، تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے لیے اسلام کو دین کے طور پر (ہمیشہ کے لیے) پسند کر لیا ( لہذٰا اس دین کے احکامات کی پوری پابندی کرو) ۔” سورة مائدہ (٣:٥)۔
” اُس نے پہلے بھی تمہارا نام مسلم رکھا تھا، اور اِس ( قرآن ) میں بھی، تاکہ یہ رسول تمہارے لیے گواہ بنیں، اور تم نوع انسان کے لیے گواہ بنو۔” سورة الحج ( ٧٨:٢٢ )۔
” اور ابراہیم نہ یہودی تھے، نہ نصرانی، بلکہ وہ تو سیدھے سیدھے مسلمان تھے اور شرک کرنے والوں میں کبھی شامل نہیں ہوئے۔” سورة آل عمران ( ٦٧:٣) ۔
” بے شک اللہ تعالیٰ کے نزدیک دین اسلام ہی ہے۔ اور اہل کتاب نے اپنے پاس علم آجانے کے بعد آپس کی سرکشی اور حسد کی بنا پر ہی اختلاف کیا ہے اور اللہ تعالیٰ کی آیتوں کے ساتھ جو بھی کفر کرے اللہ تعالیٰ اس کا جلد حساب لینے والا ہے۔” سورة آل عمران ( ١٩:٣)۔
چند عام تنقید
”اب جن لوگوں کے دل میں ٹیڑھ ہے وہ ان متشابہ آیتوں کے پیچھے پڑے رہتے ہیں تاکہ فتنہ پیدا کریں اور ان آیات کی تاویلات تلاش کریں۔” سورة آل عمران (٧:٣)۔
” بھلا کیا یہ لوگ قرآن پر غور نہیں کر تے، یا ان کے دلوں پر تالے پڑے ہوئے ہیں ؟” سورة محمد (٢٤:٤٧)۔
” اسی طرح اللہ تمہارے لیے اپنی آیتیں کھول کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ تم غور کرو۔”سورة البقرہ (٢٦٦:٢)۔
” اور حقیقت یہ ہے کہ شیطان نے تم میں سے ایک بڑی خلقت کو گمراہ کر ڈالا۔ تو کیا تم سمجھتے نہیں؟ ” سورة یٰسین (٦٢: ٣٦)۔
” یہ لوگ یہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنے منہ کی پھونکوں سے بجھا دیں، حالانکہ اللہ کو اپنے نور کی تکمیل کے علاوہ ہر بات نا منظور ہے، چاہے کافروں کو یہ بات کتنی ہی بری لگے۔”سورة توبہ ( ٣٢:٩) اور سورة صف (٨:٦١)۔
مریمیہ طریقہ
کیا احتجاج کی وجہ تلخی ہے؟
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ یہ مصالحت پیدا کرنے والے صوفیا اپنے خلاف ہونے والے احتجاج کو تلخی اور درشتگی سے تعبیر کر تے ہیں۔ سید حسین نصر اپنی کتابThe Heart of Islam میں احتجاجی سرگرمی کے بارے میں لکھتے ہیں:
” یہ ایک ایسی چیز ہے جس میں لوگوں کو نا انصافی کے زخموں کو کریدنے میں مزا آتا ہے ،کسی بھی با مقصد فیصلہ کی شکل بگاڑ دیتا ہے اور ہر چیز کو تلخی سے بھر دیتا ہے۔ اگر اس بیان کو ماہ محرم الحرام میں شیعہ حضرات کا سینہ کوبی کرنے اور اسی طرح کی دوسری چیزوں کے تناظر میں دیکھیں تو بالکل درست نظر آتا ہے۔ اگر کفر اور بدعت کی نشاندہی کرنے والی مخلصانہ کوششوں کو تلخی پیدا کرنے کے زمرے میں ڈال کر نظر انداز کردیا جائے تو یہ غلطی اور خطا کا احساس پیدا کرنے کی جانی بوجھی کوشش ہو گی۔”
” تم میں سے جو کوئی بھی برائی کو دیکھے تو اس کو اپنے زور بازو سے ختم کرنے کی کوشش کرے، اور اگر ایسا نہ کرسکے تو اس کے خلاف آواز اٹھائے اور یہ بھی نہ کرسکے تو اپنے دل میں اس کو برا جانے اور یہ ایمان کا کم ترین حصہ ہے۔”(صحیح مسلم)۔
حضرت مجدد الف ثانی کا جہاد
اختتامیہ
” اللہ ایمان والوں کا رکھوالا ہے، وہ انہیں اندھیروں سے نکال کر روشنی میں لاتا ہے۔ اور جن لوگوں نے کفر اپنا لیا ہے، ان کے رکھوالے وہ شیطان ہیں جو انہیں روشنی سے نکال کر اندھیروں میں لے جاتے ہیں۔ وہ سب آگ کے باسی ہیں،وہ ہمیشہ اسی میں رہیں گے۔ سورة بقرة (٢٥٧:٢)۔
قسط نمبر ١ کا مطالعہ کیجئے قسط نمبر ٢ کا مطالعہ کیجئے
سود سے نجات کیسے حاصل کریں؟
ابو عمار محمد سلیم
سود کو کیسے چھوڑیں
١۔ سود سے نجات حاصل کرنے کا مصمم ارادہ
٢۔ بینک پر انحصار کم سے کم کردیں
٣۔ ذاتی لین دین میں سود سے اجتناب
٤۔ کاروباری معاملات میں سود سے دوری
٥۔ کریڈٹ کارڈ کا خاتمہ
٦۔ سیونگ سرٹیفیکیٹ وغیرہ سے دوری
٧۔ قسطوں پر اشیاء کی خریداری ترک کردیں
٨۔ لاٹری اور قرعہ اندازی وغیرہ کو رد کر دیجئے
٩۔ پرائیویٹ فنانس کمپنیاں اورPyramid اسکیمیں
کچھ اہم سوالات
سوال نمبر:١
”لوگ تم سے پوچھتے ہیں کہ کتنا خرچ کریں؟۔ کہدو کہ جو ضرورت سے زیادہ ہے سب خرچ کردو۔” (سورة البقرہ۔ آ یت۔٢١٩۔)
سوال نمبر:٢
سوال نمبر :٣
سوال نمبر :٤
سوال نمبر:٥
سوال نمبر:٦
سوال نمبر:٧
”……..اگر کوئی مجبور ہو جائے لیکن نہ تو طالب لذت ہو اور نہ حد سے نکل جائے۔” (سورةالبقرة:١٧٣، سورة مائدہ: ٤، سورةالانعام: ١٤٥)۔
اختتامیہ
یہ مضمون جریدہ "الواقۃ” کراچی کے شمارہ، رمضان المبارک 1433ھ/ جولائی ، اگست 2012- سے ماخوذ ہے۔