دورِ فتن


تبصرہ  کتب 4
دورِ فتن
مؤلف :عبد اللہ اسلام
 
تعداد صفحات : ٩٦
قیمت : (غیر مجلد )٥٠ رُپے
شائع کردہ : محمد جاوید اقبال۔ ڈی ۔١٠ ، کریم پلازہ ،  گلشن اقبال کراچی۔ ٧٥٣٠٠
محل فروخت : فضلی بک اردو بازار کراچی ، مکتبہ دار الاحسن یٰسین آباد کراچی ، اکیڈمی بک سینٹر فیڈرل بی ایریا کراچی۔
 
جناب اسرار عالم صاحب ہندوستان کے ایک مفکر اور عالم ہیں۔ آپ نے امت مسلمہ کو دجال کے دجل اور فریب سے متعارف کرنے کے لیے بڑی تگ و دو کی ہے۔ یہود کی ریشہ دوانیوں کو سمجھنے اور ان کے ذ ہنی اور فکری دھارے کا براہ راست علم حاصل کرنے کے لیے عبرانی زبان میں بھی نہ صرف یہ کہ مہارت حاصل کی بلکہ ان کے بے شمارمضامین کتابیں اور علمی مآخذ تک رسائی حاصل کر کے انہیں سمجھا اور ان کا تجزیہ کیا۔

ان کی ان علمی کاوشوں کا نتیجہ دجال کے موضوع پر مختلف النوع کتابوں اور مضامین کی صورت میں آج ہمارے پاس موجود ہے۔ ان کتابوں کے مطالعہ سے ہمیں آج کے دور میں ظاہر ہونے والے فتنوں کو سمجھنے اور ان سے متعلق منسوب احادیث مبارک کو ان کے صحیح تناظر میں جانچنے کی صلاحیت ملتی ہے اور ان سے بچائو کے لیے مناسب طرز عمل اختیار کرنے کی راہ بھی دکھائی دیتی ہے۔یہود کے فتنے کو اس طرح طشت از بام آج سے پہلے کبھی بھی نہیں کیا جاسکا ہے اور امت محمدی علیٰ صاحب السلام و التسلیم کے پاس صہیونی فتنوں کے سد باب اوراس سے نمٹنے کے لیے اب سے قبل ایسا واضح پروگرام نہیں تھا۔ اب یہ امت کا کام ہے کہ وہ ہمت سے کام لے اور ان سازشوں کے خلاف ڈٹ جائے تاکہ آخرت میں سرخرو ہونے کا شرف حاصل ہوجائے۔
 
معرکہ دجال اکبر ( تکفیر ، تدبیر اور تعمیل) جناب اسرار عالم صاحب کی ایک اہم کتاب ہے جو امت محمدی کو خواب غفلت سے بیدار کرنے کے لیے لکھی گئی ہے۔ یہ کتاب بذات خود ایک ضخیم کتاب ہے اور اسرار عالم صاحب کے ذہنی سطح کی ترجمانی کرتی ہے اس لیے ایک عام قاری کے لیے جس کے پاس نہ تو اتنا وقت ہے اور نہ ہی اس کی علمی قابلیت اتنی زیادہ ہے کہ وہ ان دقیق معاملات کو پڑھ کر اس کا درست اندازہ کرسکے۔ اس کتاب کو عام فہم انداز میں بیان کرنے اور اس کی قرات کے وقت کو کم کرنے کی خاطر اس کی تلخیص انتہائی ضروری تھی۔ اسی مقصد کو مد نظر رکھ کر جناب عبداللہ اسلام صاحب نے اس مشکل کام میں اپنا ہاتھ ڈالا اور اس ضخیم کتاب کی تلخیص کی۔ اس کو مزید فعال اور اس کی دلیلوں کو مضبوط کرنے کی خاطر ان تمام احادیث کو ڈھونڈھ کر اس میں شامل کرتے گئے جس سے نہ صرف یہ کہ اس کی افادیت میں اضافہ ہوگیا بلکہ اس پورے کام میں گویاچار چاند لگا دئے۔ اس چھوٹے سے کتابچہ کو پڑھنے کے لیے بہت زیادہ وقت کی ضرورت ہے اور نہ اس کو سمجھنے کے لیے بڑی حکمت اور دانائی درکار ہے۔ سیدھی سچی بات انتہائی دلچسپ پیرایہ میں صاف ستھرے انداز میں لکھ دی ہے جس کے لیے جناب عبد اللہ اسلام صاحب مدح اور ستائش کے لائق ہیں۔ اللہ کی عطا کی ہوئی توفیق کو انہوں نے انتہائی چابک دستی سے استعمال کرتے ہوئے سوئی ہوئی امت مرحومہ کو خواب غفلت سے نکالنے کی کوشش کی ہے۔ اللہ اسرار صاحب کو صہیونی سازشوں کو سمجھنے اور اس کا پردہ چاک کردینے کی کوششوں پر انہیں جزائے خیر عطا کریں اور اس کے ساتھ ہی اس کتابچہ کے مؤلف پر بھی اپنی نعمتوں اور رحمتوں کی بارش کردیں اور آخرت میں ان کی عزت اور سر بلندی کا ذریعہ بنائیں ۔ آمین ثم آمین
 
ابو عمار سلیم

اللہ سے ہمارے تعلق کی بنیادیں


اللہ سے ہمارے تعلق کی بنیادیں
محمد تنزیل الصدیقی الحسینی
(اداریہ )
جریدہ "الواقۃ” کراچی، شمارہ  (٤ )  رمضان المبارک 1433ھ/ جولائی ، اگست 2012

 

درحقیقت آج اللہ ہمارے لیے محض ایک نسخۂ شفا کی حیثیت رکھتا ہے ۔ ایک ایسا نسخہ شفا کہ جب ہر راہ سے ناکامی ہوئی ۔ ہر مسیحا نے جواب دے دیا تو اللہ کو بھی بغرض آزمائش آزمایا کہ شاید کامیابی ہو اور جب اللہ کی طرف سے کامیابی مل جاتی ہے تو ہم اسے ایسے ہی بھول جاتے ہیں جیسے مریض صحتیابی کے بعد اسپتال کی راہ بھول جاتا ہے ۔ آہ، پامالیِ حسرت اور خوننابۂ کشی مدام یقین و وفا۔ ہم نے اللہ کی قدر ہی نہ جانی 
 
( وَ مَا قَدَرُوا اللّٰھَ حَقَّ قَدْرِہِ )

 
جب اللہ سے تعلق محض رسم بن جائے ، جب اللہ کی ہستی محض ایک احساس قرار پائے ، جب اللہ کی محبت صرف دعوے کی حد تک رہ جائے اور جب اللہ کا تقاضائے عبودیت نبھانے سے انسان قاصر ہوجائے ۔ تب –ہاں– تب ، اسے چاہئیے کہ وہ اللہ ربّ العزت کے عذاب کا انتظار کرے ۔ عذاب محض یہ نہیں ہے کہ انسانی جسم تکلیف میں آجائے اور اس کی روح اضطراب محسوس کرے ۔ بلکہ عذابِ الٰہی کی ایک بھیانک شکل یہ بھی کہ اللہ ہمارے دلوں پر غفلت کی مہر لگادے ۔ آج بدقسمتی سے ہم بحیثیت اجتماعی اسی عذاب میں مبتلا ہیںمگر احساس نہیں رکھتے ۔
” رمضان المبارک ” الٰہی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے مگر ہماری عیاری و مکاری نے اس ماہِ مقدس کو بھی ایک تہوار اور اس فریضۂ عبادت کو ایک رسم بنا ڈالا ۔ ہم روزے بھی رکھتے ہیں ، فطرے بھی دیتے ہیں اور اپنی زکٰوة بھی نکالتے ہیں ، مگر محض ایک رسم و رواج کے طور پر ۔اس ماہِ مقدس کی آمد بار بارآمد ہماری زندگیوں میں اس لیے ہوتی ہے کہ شاید ہم تقویٰ شعار بن جائیں مگر کتنے ہی رمضان گزر گئے ہمارے پُر از غفلت قلوب پر کوئی اثر نہ پڑا ۔
پھر اس ماہِ مقدس کے سب سے مقدس عشرے میں ہماری سرکشی ربّ تعالیٰ کی رحمتوں کو للکارتی ہے ۔ بازاروں میں سب سے زیادہ بے حیائی اسی عشرے میں ہوتی ہے ۔ وہ عشرہ کہ جس کی پانچ مقدس راتوں میں الٰہی مغفرت تلاش کرنے کا حکم دیا گیا ۔ ان راتوں میں مرد اپنے عورتوں کو سامانِ عید کی تلاش لیے بازاروں کی رونق بڑھاتے ہیں ۔ بقول شاہ سلیمان پھلواروی :
” عوام الناس عید کے ظاہر سے انبساط و احتشام و اکل و شرب کے مشاغل میں ایسے مصروف ہوجاتے ہیں کہ گویا یہ ماہِ مبارک ایک بلا تھی جو ٹل گئی ۔”
آہ، ہماری غفلت ہمارے زندگیوںمیں اس درجہ داخل ہوچکی ہے کہ اب بیداری کی صورت نظر نہیں آتی ، جب بھی غیرتِ حق نے کروٹ لینی چاہی جذبہ سفلی کی شہوت انگیزیوں سے اسے تھپکی دے دے کر سلادیا ۔ اب تو یہ قوم کسی معجزے کی منتظر ہے ۔
آج ہمیں اپنے اعمالِ بد کی سزا مل رہی ہے ۔ گناہ اجتماعی ہے اسی لیے سزا بھی اجتماعی ہے ۔ ہم اللہ سے اپنے رشتے توڑ چکے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ اس نے بھی ہم سے اپنا رشتہ توڑ لیا ہے ۔ ہم اللہ کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں مگر نہیں جانتے کہ یہ فریب ہم خود اپنے آپ کو دے رہے ہیں ۔
اے غفلت کیش مسلماں! کب تک تمہاری آنکھوں پر یہ خوابیدہ بوجھ گراں پڑا رہے گا؟ کب تک تمہاری شہوات و لذات دنیاوی تمہیں غفلت و سرکشی پر اکساتی رہیں گی ؟ کب تک دنیا کی محبت تمہیں حق و باطل کی تمیز سے محروم رکھے گی ؟ کب تک تمہاری پامالیِ حسرت کی داستانِ خونچکاں سے سطح ارضی کا سینہ آہ کے نشتر سے گھر کیے رہے گا ؟ کیا تم اس کے منتظر ہو کہ تم پر مہلت و قیام کی حجت ہی تمام کردی جائے ؟
 

 

( ھَلْ یَنْظُرُونَ اِلاَّ أَنْ یَأْتِیَھُمُ اللّٰھُ فِیْ ظُلَلٍ مِّنَ الْغَمَامِ وَالْمَلآئِکَةُ وَ قُضِیَ 
 
اِلأَمْرُ وَ اِلَی اللّٰھِ تُرْجَعُ الأمُورُ )(البقرة:٢١٠)
 
”کیا انہیں اس بات کا انتظار ہے کہ خود اللہ ان کے پاس ابر کے سائبانوں میں آجائے اور فرشتے بھی اور امور اپنی انتہا کو پہنچ جائیں ۔”
سنّت الٰہیہ اٹل ہے یہ وقت آزمائش عمل کا وقت ہے محض زبانی جمع خرچ سے کام نہیں چلے گا ، درِ توبہ و انابت پر دستک دیئے بغیر رجوع الی اللہ تعالیٰ کی ہر ہر سعی ناکام رہے گی ۔ ہماری ناکامیوں کا سبب ہمارے گناہ ہیں ، دامنِ اعمال کے یہ بدنما داغ جنہیں خود ہماری روسیاہیوں نے جِلا دی ہے ، دھل سکتے ہیں مگر اس کے لیے چشم ندامت کو فیاض ہونا پڑے گا ، دل کو اصنام دنیوی سے منزہ کرنا پڑے گا اور ذہن و فکر پر صرف اسی ایک الٰہ واحد کی بادشاہت کو تسلیم کرنا پڑے گا ۔
جب ہم یہ سب کرلیں گے تو دنیا بھی ہمارے قدموں میں ڈھیر ہوجائے گی ۔ ہم پہاڑوں کی بلندیوں کو بھی سَر کرلیں گے اور سمندر کی گہرائیوں کو بھی چیر لیں گے ۔ بڑے سے بڑے طاغوت میں بھی یہ جرأت نہ ہوگی کہ وہ ہمارے جذبۂ ایمانی کے سامنے ٹھہر سکے۔

غیر مسلم ممالک میں سکونت ایک تحقیقی و تنقیدی جائزہ 3


جریدہ "الواقۃ” کراچی، شمارہ (٤ ) رمضان المبارک 1433ھ/ جولائی ، اگست 2012

غیر مسلم ممالک میں سکونت ۔ایک  تحقیقی  و  تنقیدی  جائزہ

ابو موحد عبید الرحمن


قسط  نمبر 1 قسط  نمبر 2 قسط  نمبر 3 قسط  نمبر 4

احادیث نبوی سے استدلال

  قرآنی نصوص سے جو ہم نے گزشتہ قرطاس میں استدلال کیا ہے ، اس سے مسئلہ کی قانونی و اصولی وضاحت ہوجاتی ہے ۔ تاہم بطور اتمام حجت رسالتمآبؐ  سے منقول بعض واضح احادیث اس موضوعِ بحث کے حوالے سے پیشِ خدمت ہیں :

١) لا تساکنوا المشرکین و لا تجامعوھم فمن ساکنھم و اجامعھم فھو مثلھم ، و فی روایة : فلیس منا ۔ (سنن ترمذی : ٤ /١٣٣)

” تم مشرکین کے ساتھ سکونت اختیار نہ کرو اور نہ ان کے ساتھ مل کر رہو ، پس جو شخص ان کے ساتھ سکونت اختیار کرتا ہے یا ان کے ساتھ مل کر رہتا ہے تو وہ انہی کی مثل ہے اور ایک روایت میں ہے وہ ہم میں سے نہیں ۔ ”

٢) یُبایعک علی ان تعبد اللھ و تقیم الصلاة و توتی الزکاة و تفارق المشرکین ۔ (مسند أحمد : ٤ /٣٦٥)

” میں تم سے بیعت لیتا ہوں اس بات پر کہ تم اللہ کی عبادت کروگے ، نماز قائم کروگے ، زکوةٰ ادا کروگے اور مشرکین سے جدائی اختیار کرو گے ۔ ”

٣ )  آنحضرتؐ نے فرمایا : ” اپنی اولاد کو مشرکین کے درمیان نہ چھوڑنا ۔ " (تہذیب السنن لابن القیم: ٣ /٤٣٧)

٤) من کثر سواد قوم حشر معھم (مسند الفردوس : ٥٦٢١)

” جو کسی قوم کی تعداد کا سبب بنا تو روزِ حشر وہ انہی کے ساتھ اٹھایا جائے گا ۔ ”

٥) انا بری من کل مسلم یقیم بین اظھر المشرکین ۔ قالوا یا رسول اللّٰھ لم ؟ قال لا ترائٰی نارا بھا ۔(سنن ابی داود: ٢٦٤٥)

” میں ہر اس مسلمان سے بری ہوں جو مشرکین کے بیچ میں قیام کیے ہوئے ہو ۔ صحابہ نے استفسار کیا ایسا کیوں ؟ آپؐ نے فرمایا ( ان سے اس قدر دور رہو کہ ) تم ان کی جلائی آگ بھی نہ دیکھ سکو ۔ ”

٦) من کثر سواد قوم فھو منھم و من رضی عمل قوم کان شریک من عمل بھ ۔ (نصب الرایہ : ٤ /٣٤٦)

” جو شخص کسی قوم کی تعداد بڑھائے وہ انہی میں سے ہے اور جو کسی قوم کے عمل پر راضی رہے وہ ان کے عمل میں شریک ہے ۔ ”

٧) من جامع المشرک و سکن معہ فانہ مثلہ ۔ (سنن أبی داود : ٢٧٨٧)

” جو مشرکین کے ساتھ گھل مل کر رہا اور انہی کے ساتھ سکونت اختیار کی تو وہ بھی انہی کی طرح ہے ۔ ”

٨) عن جریر بن عبداللّٰھ البجلی رضی اللّٰھ عنھ ، ان رسول اللّٰھ  قال : من اقام مع المشرکین فقد برئت منھ الذمة ۔ (الطبرانی و البیہقی )

” حضرت جریر بن عبداللہ البجلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہؐ  نے فرمایا : جس نے مشرکین کے ساتھ رہائش اختیار کی وہ ذمہ سے بری ہے۔”

علماء عرب و عجم کے فتاویٰ :

١)   علّامہ نواب صدیق حسن خاں رقمطراز ہیں :

 ” جو شخص کسی ایسے شہر منتقل ہونا چاہے ، جس میں اہلِ کفر کا تسلط ہو تو وہ شخص فاسق اور گناہِ کبیرہ کا مرتکب ہے۔” (العبرة بماء جاء فی الغزو و الشھادة : ٢٤٥)

٢)   علّامہ رشید احمد گنگوہی رقمطراز ہیں :

 ” یہ بھی ظاہر کردینا ضروری ہے کہ اگر مسلمانوں کا داخلہ اور احکام اسلامیہ کا اجراء اس ملک میں غلبہ کے ساتھ نہ ہوتو اس ملک کے دارالحرب ہونے میں کوئی فرق نہ ہوگا ورنہ جرمن اور روس اور فرانس اور چین وغیرہ سب کے سب دارا لاسلام کہلانے کے مستحق ہوجائیں گے ۔ ” (تالیفات رشیدیہ : ٦٥٩)

٣ )   مفتی اعظم سعودی عرب سماحة الشیخ عبد العزیز بن باز فرماتے ہیں :

 ”ہر مسلمان پر واجب ہے کہ وہ اہلِ شرک کے ملکوں میں سفر سے اجتناب کرے الا یہ کہ انتہائی شدید ضرورت ہو ۔ (فتاویٰ اسلامیہ: ١/١٧٥)

٤)  علامہ شمس الحق عظیم آبادی ” من جامع المشرک و سکن معھ فانھ مثلھ”  کی شرح میں فرماتے ہیں :

أی مِن بعض الوجوہ لان الاقبال علی عدوّ اللّٰھ و موالاتھ توجِب ِاعراضھ عن اللّٰھ ، ومن أعرض عنھ تولاہ الشیطان ونقلھ ِالی الکفر۔” (عون المعبود)

” ایسا شخص بعض وجوہ کی بنا پر کافروں جیسا ہے ۔ کیونکہ اللہ کے دشمن کی جانب متوجہ ہونا اور اس کو دوست بنانا لازمی طور پر اس مسلمان کو اللہ تعالی سے دور کردیگا اور جو اللہ تعالی سے دور ہو جائے اسے شیطان دوست بنالیتا ہے اور اس کو کفر کی جانب لے جاتا ہے۔”

٥)  علامہ زمخشری نے فرماتے ہیں :

” و ھذا أمر معقول ، فِان موالاة الولِی وموالاة العدوّ متنافِیانِ ، وفِیھ ابرام و اِلزام بِالقلبِ فِی مجانبة أعداء اللّٰھ ومباعدتھم والتحرّز عن مخالطتھم ومعاشرتھم ۔” (عون المعبود )

”یہ بات سمجھ میں آنے والی ہے کیونکہ دوست کی دوستی اور دشمن کی دوستی دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں ، اس حدیث میں دل کو ان اللہ کے دشمنوں کے ساتھ ہونے سے روکا گیا ہے اور ان کے ساتھ اختلاط اور معاشرت اختیار کرنے سے روکا ہے۔”

٦)  شیخ عبد المحسن العباد اپنی ” شرح سنن أبی دادود ” میں لکھتے ہیں :

"لیس للانسان ان یقیم فی ارض المشرکین وان یساکنھم وان یکون معھم، لئلا یحصل منھم تاثیر علیھ۔”

”ا نسان کے لیے مناسب نہیں کہ وہ مشرکین کی سرزمین میں اقامت اختیار کرے ، ان کے ساتھ سکونت کرے اور ان کے ساتھ رہے ۔شاید اس طرح وہ اپنے اوپر ان ( غیر مسلموں ) اثرات مرتب کرے ۔ ”

٧)  علامہ محمد بن علی الشوکانی ” من جامع المشرک و سکن معھ فانھ مثلھ”  کی شرح میں فرماتے ہیں :

"فیھ دلیل عل تحریم مساکنة الکفار ووجوب مفارقتھم ۔” (نیل الاوطار:٨/١٢٥)

” اس حدیث میں کفار کے ساتھ سکونت اختیار کرنے کی حرمت اور ان سے جدائی اختیار کرنے کے وجوب کی دلیل ہے ۔ ”

٨)  شیخ علی بن نایف الشحود لکھتے ہیں :

"وقد استدل عدد من العلماء بھذہ الاحادیث علی کفر أو فسق من یقیم بین المشرکین ۔” (موسوعة الرد علی المذاہب الفکریة المعاصرة )

” بلاشبہ ان احادیث سے متعدد علماء نے استدلال کیا ہے اس شخص کے کفر یا فسق پر جو مشرکین کے درمیان اقامت اختیار کرے ۔ ”

٩)  عصر حاضر کے مشہور مفسر قرآن حافظ صلاح الدین یوسف آیت مبارکہ 

( وَمَن یُہَاجِرْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰھِ یَجِدْ فِیْ الأَرْضِ مُرَاغَماً کَثِیْراً وَسَعَةً )  (النساء : ١٠٠) 
 ” جو کوئی اللہ کی راہ میں وطن کو چھوڑے گا ، وہ زمین میں بہت سی قیام کی جگہیں بھی پائے گا اور کشادگی بھی ۔”کی تفسیر میں لکھتے ہیں :

” اس میں ہجرت کی ترغیب اور مشرکین سے مفارقت اختیار کرنے کی تلقین ہے ۔”

نکسنیات سے دجالیات تک; پاکستان کس رُخ پر ؟


جریدہ "الواقۃ” کراچی، شمارہ (٤ ) رمضان المبارک 1433ھ/ جولائی ، اگست 2012

نکسنیات سے دجالیات تک۔ پاکستان کس رُخ پر ؟

محمد احمد

قسط نمبر 2 قسط نمبر 1
١- پاکستان کی پوری تاریخ گواہ ہے کہ امریکا کے صدر ٹرومین سے بارک حسین اوباما تک یہ ملک کبھی بھی اپنے معاملات مکمل آزادی سے نہ چلا سکا ۔ اس کی اوّلین وجہ ملک کا اسلامی تشخص ، ملک کے پہلے سربراہ کے خصوصی حکم برائے اسلامی غیر سودی معاشی نظام کی نفی اور اللہ سبحانہ تعالیٰ کےسورہ بقرہ کے اختتمامی رکوعات میں وضاحت کردہ معاشی خدوخال کو قابلِ غور نہ سمجھنا رہا ہے ۔ چونکہ اسٹیٹ بنک آف پاکستان کے افرادِ کار بوقتِ تخلیقِ پاکستان برٹش انڈیا کی روایت (Legacy)کے اسیر ہوتے ہوئے اپنے آپ کو تبدیل نہ کر پائے ۔ اسی لیے وہ پاکستان کی موجودہ معاشی بے بسی ، تباہ حالی اور بربادی کی ذمہ دارہ سے بچ نہیں سکتے ۔


٢- عالمگیر جنگوں کے اختتام پر سرد جنگ (Cold War)کا آغاز ہوگیا ۔ یہ سرد جنگ سرمایہ دارانہ نظام کے سربراہ امریکا اور اشتراکیت کے علمبردار روس (USSR) کے درمیان اپنے گلوبل مفادات کے لیے رہی ۔ پاکستان امریکا کے دام رنگ میں آگیا ۔پوری وضاحت لیکن اختصار کی خاطر صدر نکسن کے کارناموں اور ان کے تباہ کن اثرات کا احاطہ کرنے کی کوشش کی جائے گی ۔ شائد کہ دل میں اتر جائے مری بات ۔

٣- چند روز قبل ایک انگریزی اخبار میں امریکا کے ایک وکیل جناب رچرڈ وائنسٹے کا ایک مضمون ” کیا فورڈ نے نکسن کو درست معافی دی ” شائع ہوا۔فورڈ کا بعمر ٩٢ سال حال میں انتقال ہوا ۔ یہ نکسن کے نائب صدر تھے ۔ ٧٠ء کی دہائی میں نکسن اپنے دوسرے دورِ صدارت میں مشہور زمانہ واٹر گیٹ اسکینڈل کی وجہ سے بہت بدنام ہوئے ۔ پارلیمانی عدالتی کارروائی ( IMPEACHMENT ) سے بچنے کی خاطر انہوں نے اپنا استعفیٰ فورڈ کو پیش کردیا اور امریکن آئین کے مطابق فورڈ صدر بن گئے ۔ حالانکہ نکسن نے ان سے کوئی معافی طلب نہ کی مگر فورڈ نے ( سیاسی بنیاد پر ) انہیں معاف کردیا ۔ اس لیے یہ ” قانونی ” (Judicial) معافی تو نہ ہوئی مگر نکسن مؤاخذہ سے بچ گئے ۔ ان کی امریکی شہریت کو کوئی گزند نہ پہنچی اور وہ سابق صدر کے ٹائٹل سے محروم ہوگئے ۔ قانون کا سامنا نہ کرنا اور امریکا کی صدارت سے استعفیٰ اپنے نائب کو پیش کرنے کا بزدلانہ عمل دنیا کے طاقتور ترین ملک کے سب سے بڑے سپہ سالار کے قطعاً شایانِ شان نہ تھا ۔ ان کی سر شت اور لاشعور میں تیزی سے پروان چڑھنے والا منفی اندازِ فکر پنہاں تھا۔

٤-پہلی مدت صدارت کے دوران موصوف نے پُر پُرزے نکالنے شروع کردیئے تھے مگر وہ اپنی ” چالاکیوں ” سے دوسری بار منتخب ہوگئے اور جب ان کی ” چالاکیوں ” کے راز طشت از بام ہوئے تو وہ ایک ناپسندیدہ امریکی شہری کی سطح پر آگئے ۔نکسن کے پہلے زمانۂ صدارت ( ١٩٧١ء ) میں سابقہ مشرقی پاکستان میں فوجی و سیاسی تلاطم برپا تھا اور ادھر امریکا میں جناب صدر طلباء کے قصرِ سفید (White House)کے محاصرے میں ” پریشا ن ” ہوکر بطور حفظِ ما تقدم 13400طلباء کو اندیشۂ نقصِ امن اور دیگر الزامات میں حوالۂ زنداں کر بیٹھے ۔ بالفاظِ دیگر امریکا میں حالات دگرگوں تھے اور پاکستان اس وقت نکسن کے دستِ راست ہنری کسنجر کے لیے چین کے خفیہ دورے کاسفارتی بندوبست کر رہا تھا یعنی بیک وقت نکسن اپنا ( ویتنامی خلجان سے گلو خلاصی والی خارجہ حکمت عملی کا ) الّو سیدھا کر رہا تھا اور ساتھ ساتھ پاکستان کو اپنا طاقتور بحری بیڑہ بھیجنے کا ”مژدئہ جانفزا ” بھی سنا رہا تھا کہ وہ ہندوستان کے طیارہ بردار جہاز اور ساحلِ سمندر پر اتارنے والی فوج کے بحری بیڑہ کا قلع قمع کرتے ہوئے سقوطِ ڈھاکہ سے بچانے کا کردار ادا کرے گا ۔ اے بسا آرزو کہ خاک شدہ ۔ کیا خوب نکسن نے پاکستان کے ( امریکا کے لیے چینی دروازہ کھلوانے کے ) احسان کا بدلہ چکانے میں دیر نہیں لگائی اور سقوطِ ڈھاکہ کا زہر آلود خنجر ہمارے وطن کی پشت میں پورا اتار دیا ۔ اس طرح بنیے کی ” بغل میں چُھری اور منہ میں رام رام ” والی لَے میں اپنی لَے ملادی ۔

٥- انہی دنوں امریکن فضائیہ مغربی پاکستان صوبہ سرحد ( موجودہ خیبر پختونخواہ ) میں واقع بڈابیر کی ائر بیس سے اپنے جاسوسی مشن کے U-2نامی ہوائی جہاز USSRکی فضائی حدود میں وقتاً فوقتاً اڑایا کرتی تھی ۔ ایک U-2روس نے اپنی سرحدوں کے اندر مار گرایا ۔ روسی حکومت نے پاکستان کو سخت وارننگ دی کہ اگر آئندہ ایسا ہوا تو بدابیر کو ایٹمی حملہ سے تباہ کردیا جائے گا ۔ ان حالات میں پاکستان کے سیاستدانوں کے لیے امریکی صدور کے ” جذبۂ پُشت پناہی ” کے شر سے بچنے کے لیے صمیمِ قلب سے توبہ کرنے کا نہایت مناسب موقعہ تھا ۔ افسوس یہ موقع بھی ہم گنوابیٹھے !

٦ -بہر حال قدرت نے ہمارا کسی حد تک انتقام لیتے ہوئے امریکا پر واٹر گیٹ کی ” لاٹھی ” بَرسادی ۔ پوری امریکی قوم تڑپ اٹھی اور نکسن کو اوجِ ثریّا سے اوندھے منہ زمین پر پٹخا دیا گیا ۔ حیرت ہے نکسن بڑی خود اعتمادی ( بلکہ ڈھٹائی ) سے کپڑے جھاڑ کر اٹھا اور دنیا کے طوفانی دورے پر چل پڑا ۔ اس کا یہ عمل ایک متوازی خارجہ پالیسی کے مماثل تھا اور ایک امریکی شہری یو ایس لوگان ایکٹ (US Lugan Act) کے زیر اثر ایسے عمل کے ذریعہ بآسانی قابلِ مؤاخذہ ہوسکتا تھا ۔ یہ صدر جمی کارٹر کا دور تھا ۔ وہ چاہتے تو ایکشن لیا جا سکتا تھا ۔ مگر ان کا کہنا تھا کہ ایسا کرنے سے بحیثیت مجموعی تمام امریکی صدور پر انگلیاں اٹھتی ۔ اس لیے وہ چاہنے کے باوجود بھی ایسا قدم نہ اٹھا سکے ۔ کاش وہ یہ قدم اٹھالیتے تو ان کا امریکی قوم پر احسان ہوتا اور آج وہ اس نہ ختم ہونے والی وار اون ٹیرر (War on Terror)کے حصار میں نہ ہوتی ! نکسن نے اپنے سامنے دو مقاصد رکھے پہلا : امریکی قوم کی اس سے شدید نفرت کا انتقام اور دوسرا : پہلے مقصد کی تکمیل کے لیے اپنے آپ کو ایک عالمی مدبر (World Statesman) کی حیثیت دلوانا ۔

٧ -سوویت یونین نے اپنی حدود میں رہتے ہوئے سوویت ریاستوں پر وقتاً فوقتاً فوجی یلغار جاری رکھی مگر اپنے فولادی پردوں (Iron Curtain)سے تجاوز نہ کیا ۔ جونہی اس نے اپنے فوجیوں سے لدے ہوئے طیارے کابل کے ہوائی اڈے پر اتارے اور اپنی فولادی پردوں میں چھپے رہنے کی پرانی روش سے تجاوز کیا اور ایک آزاد مسلم مملکت کی بیحرمتی کی ۔ جواباً کابل یونیورسٹی کے چند پُرجوش طلباء نے عالمی اسلامی جہاد کی بسم اللہ کی ۔ سوویت یونین کے خلاف اس غیر معمولی جہاد کے لڑنے والے پرانے زمانہ کی تھری ناٹ تھری بندوق سے مسلح ہوکر اٹھ کھڑے ہوئے اور مجاہدین ( اب امریکا بطورِ استہزاء انہیں ” جہادی ” کہنے لگا ہے ) کہلائے ۔ یہ کمیونسٹوں کے پُر زور مخالف صدر ریگن کا دور تھا ۔ سوویت یونین کے مخالفین اور معاندین امریکا کے محبوبین تھے مثلاً عبد اللہ عزام ، اسامہ اور زرقاوی وغیرہم ۔

٨ -اس جاری و ساری عظیم الشان جہاد کو رچرڈ نکسن نے اپنی شیطانی منفی سوچ و فکر کا محور اور مطمح نظر بنا لیا ۔ عام فہم الفاظ میں ہائی جیک (Hi-Jack)کرلیا ۔ رچرڈ نکسن مجاہدین سے ملنے پاکستان آئے ۔ انہوں نے اس کو خوش دللی سے خوش آمدید کہا اور پُرتپاک استقبالیہ دیا ۔ نکسن نے مجاہدوں کے جوش و جذبہ کو سراہا ، ان کے مشن کی تعریف کی اور چلے گئے ۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ وہ صدر ریگن کے اتباع میں مجاہدین کے محسنین میں شامل ہوجاتے مگر ان کے دماغ میں ایک عجیب طغیانی (BRAIN WAVE)آئی اور انہوں نے اپنے مذکورہ بالا ( پیرا نمبر ٦ ) تباہ کن مقاصد کے لیے پلان بنانا شروع کردیا ۔ اعلیٰ درجہ کے فارن پالیسی جرائد (Prestigious foreign policy journal) میں زہریلے مضامین لکھنے شروع کردئیے۔ پہلے وہ اپنی پوزیشن عالمی حلقۂ دانشوران میں بنانے پر تُل گئے ۔ جب انہیں کچھ کامیابی نظر آنے لگی تو ” فتنہ انگیزی ” پر اتر آئے ۔ ٩٠ء کی دہائی میں امریکا نے اپنی ویتنامی ہزیمت (Vaetnamese Fiasco)سے کسی طور بچنے کا راستہ نکالتے ہوئے چین کو راضی کیا اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا مستقل ممبر بمعہ ویٹو پاور بنوادیا ۔ امریکا نے کولڈ وار (Cold War)کی باقیات بین الاقوامی فوجی معاہدات   (SEATO & CENTO) جو ایشیائی خطہ سے متعلق تھے تحلیل کردئیے ۔ گو نکسن نے اس پروسیجر (Procedure) میں اپنی صدارت اوّل کے دوران کچھ حصہ ضرور ڈالا تھا مگر اسے علم نہ تھا کہ قدرت نے عظیم ملک چین کو پاکستان کا قابلِ اعتماد دوست بنا ڈالا ۔

٩-اپنے مضمون کی طرف واپس پلٹتے ہوئے یہ بتانا پڑے گا کہ نکسن قلمی محاذ پر اپنی منفی اندازِ فکر کو پروان چڑھاتے ہوئے سرمایہ داری کے مفکرین اور سوشلزم و کمیونزم کے پرچارک لکھاریوں کو یکجا کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ حالانکہ وقت کا دھارا یہ بتارہا تھا کہ صرف سوویت یونین کی طاقت کے سورج کو غروب ہونا تھا جس کے نتیجہ میں سرد جنگ کا مکمل خاتمہ ، معاہدئہ شمالی اوقیانوس ( کی ضرورت ختم ہونے پر اس ) کی تحلیل اور سلامتی کونسل کے مستقل ممبر کی کرسی سے کالعدم سوویت یونین کی ( وہ شاخ ہی نہ رہی جس پہ آشیانہ تھا ۔!) محرومی وقوع پذیر ہوچکے ہوتے اور دنیا میں امن و امان کا دور دورہ ہوتا ۔ نہ کوئی 9/11اور نہ( کسنجر کا ) نیو ورلڈ آرڈر۔ مگر نکسن کی انانیت کا جادو کیسے سر چڑھ کر بولتا !

١٠-نکسن اپنے عالمی سفر کے دوران برطانیہ ، روس اور امریکا کے ارباب حل و عقد کو بآور کرانے لگتے ہیں کہ وہ سرد جنگ کے زخموں اور آپس کی رنجشوں کو قطعاً بھلادین اور اپنے لیے صرف ایک ہدف اور ایک دشمن :” عالم اسلام ” مقرر کرلیں ۔بظاہر نکسن نہ اسلام دشمن تھا اور نہ کسی اسلامی ملک سے کوئی پُرخاش رکھتا تھا مگر بباطن اس کے عزائم اپنی قوم ( امریکن ) کے خلاف تھے کہ انہوں نے اسے اوجِ ثریا سے دھکّا دیا تھا ۔ اس لیے وہ انہیں ” مزہ ” چکھانا چاہتا تھا ۔ دیگر ممالک کے بالمقابل یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ عالم اسلام سیاسی ، دفاعی اور معاشی میدان میں ان کے لیے کبھی خطرہ (THREAT) کا موجب نہ تھا مگر نکسن نے بڑی عیاری سے پروگرام بنایا کہ وہ افغان جہاد کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اپنی امریکن قوم و سپاہ اور سیاسی لیڈران کو ایک اسلامی ہوّے (ISLAMOPHOBIA)سے ڈرائے تو نہ صرف وہ اس کے جھانسے میں آجائیں گے بلکہ وہ اپنے مذموم مقاصد میں بھی کامیاب ہوجائے گا ۔ چین نے نکسن کی منفی حکمتِ عملی (Negative Strategy)سمجھنے میں دیر نہ لگائی اور اس کا توڑ نکالنے میں کامیاب ہوگیا ۔ چینی مسلمان مائوزے تنگ کے دور میں مصائب کا شکار رہے تو اب وہ اپنے دینی تقاضوں کے نبھانے کے قابل ہوگئے ۔ موجودہ حالات میں چین عالم اسلام کا قابلِ بھروسہ پارٹنر بننے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے اور ہر قسم کی منافقت سے احتراز کرتا ہے ۔

١١- روس سے خیر کی تمنّا رکھنا عبث ہے ۔زارِ روس کے زمانہ سے مسلمانوں پر ظلم و ستم ٹوٹتے رہے ۔دوسری جنگِ عظیم میں ہٹلر کی افواج نے روس کی طرف پیش قدمی کی تو مارشل اسٹالن نے ، جو مسلمانوں کو بے پناہ مظالم سے قریباً موت سے ہم آغوش کردیتا تھا اور اپنی لال فوج (RED ARMY)سے ان مظلوموں کی کثیر آبادیوں کو تتّر بتّر کردیا کرتا تھا ، مسلم علماء و زعماء کے اجتماع سے جذباتی اپیل کی اور ان کے جذبۂ حبّ الوطنی کو خوب ابھارا کہ وہ اپنے لوگوں کے ساتھ کمیونسٹ افواج کے شانہ بشانہ ہٹلرکی افواج کے خلاف جنگ میں حصہ لیں ۔ مسلمانوں کی سادگی ، حمیت اور معصومیت کی بے ساختہ داد دینے کو دل چاہتا ہے کہ وہ بے چارے ان ظالموں کے جھانسے میں فوراً آگئے اور اپنی قیمتی جانوں کا اپنے رب کے حضور نذرانہ دیتے ہوئے (In the battele of leningrad) دشمن کو تاریخی شکس فاش دے گئے ۔ روسی ادب ان کی عظیم داستانوں سے بھرا ہوا ہے ۔ اسی لیے روسی اپنے بچوں کو تعلیم دیتے ہوئے بَرملا تلقین کرتے ہیں کہ جنگِ عظیم دوم درحقیقت ان کے لیے عظیم جذبۂ حبّ الوطنی کی جنگ تھی۔

(جاری ہے۔۔۔۔۔۔)

یہ مضمون جریدہ "الواقۃ” کراچی، شمارہ (٤ ) رمضان المبارک 1433ھ/ جولائی ، اگست 2012 سے ماخوذ ہے۔

خیر القرون کی اصطلاح کا مطلب کیا ہے؟


جریدہ "الواقۃ” کراچی، شمارہ (٤ ) رمضان المبارک 1433ھ/ جولائی ، اگست 2012

خیر القرون کی اصطلاح کا مطلب کیا ہے؟

سیّد خالد جامعی  ( کراچی یونی ورسٹی ،کراچی )

قسط  نمبر 1 قسط  نمبر 2
عہد حاضر کا خدا ا علیٰ معیارِ زندگی ہے جو سرمایہ سے حاصل ہوتا ہے امت اسی میں مبتلا ہے یہ بھول گئی ہے کہ انقلاب امامت کے لیے بھوکا رہنا پڑتا ہے اپنا معیار زندگی کم کرنا پڑتا ہے اور مسلسل کم کرنے پر راضی رہنا ہوتا ہے۔ بھوکا  رہنا،خالی پیٹ ہونا کوئی عیب نہیں یہ اللہ کے مقربین کی صفت ہے کم کھانے کم سونے، کم بولنے دنیا سے کم سے کم تمتع کرنے کے باعث اہل اللہ پر اسرار کھلنے اور ان کے درجات بلند ہوتے ہیں، کھاتے رہنے سے بھوک نہیں مٹتی بھوک کم کھانے اور کھانا ترک کرنے سے مٹتی ہے، مستقل کھاتے رہنے والا ہمیشہ بھوکا ہی رہتا ہے جو بھوک کو قبول کرے اس کی بھوک مٹ جاتی ہے نفس قانع ہوجاتا ہے اس لیے صحابہ و صلحائے امت کثرت سے روزے رکھتے تھے۔
انبیاء کی تہذیبوں میں روزے رکھنا عام بات ہے لوگ لذات دنیا سے کنارہ کش رہتے ہیں تب ہی ان پرحکمت کے چشمے القاء ہوتے ہیں، لذت و چٹخارے میں مبتلا قوم کے معدے ہمیشہ کچھ نہ کچھ طلب کرتے رہتے ہیں۔ حضرت موسیٰ کی قوم اس کی مثال ہے جسے حالت جہاد میں بھی من و سلویٰ پسند نہ تھا اسے قسم قسم کے کھانے درکار تھے ۔ جب جمعہ کے خطبے میں ہم یہ سنتے ہیں کہ خیر القرون قرنی (١) تو اس کا مطلب یہی ہے کہ وہ دور جب آخرت ہر رویے پر غالب تھی جب دنیا سب سے حقیر شے تھی جب اللہ کی رضا اور معرفت ہی حاصل زندگی تھی دنیا سے تمتع کم سے کم تھا ۔ کوئی ترقی ، دنیا طلبی، لذات و آسائش کی تلاش میں سرگرداں نہیں تھا فقر کی خود اختیاری زندگی پر سب کو فخر تھا وہ کفار کی طرح دنیا سے تمتع کو درست نہیں سمجھتے تھے اور عیش و عشرت کی زندگی کے طالب اور حریص نہ تھے وہ صرف اور صرف حریص آخرت تھے اور اس میں ایک دوسرے سے آگے بڑھ جانے کی تگ و دو میں مصروف رہتے تھے ۔ اگر خیر القرون ہی اصل معیار ہے تو ہمارا موجودہ طرز زندگی اس کی نفی ہے۔ جدیدیت [ماڈرن ازم] اور خیرالقرون کی جستجو ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے دنیا اور دین برابر نہیں ہوسکتے

جو آخرت کو ترجیح دے گا وہ دنیا کا نقصان کرے گا جو دنیا کو ترجیح دے گا وہ لازماَ آخرت کا نقصان کرے گا یہ ارشاد رسالت مآبصلی اللہ علیہ وسلم ہے۔

صحابہ کرام کی محبت کا مرکز و محور رسالت مآب ۖکی ذات گرامی تھی، ان کا جینا اور مرنا، کھانا پینا صرف اور صرف اسلام کے لیے تھا ۔ اپنی ذات کو وہ اللہ اور رسول اللہۖکے لیے فنا کرچکے تھے۔ ان کا حال ام المومنین حضرت جویریہ کے الفاظ میں یہ تھا 

”اخترت اللّٰہ و رسولہ” میں نے اللہ اور اس کے رسولۖہی کو اختیار کرلیا ہے۔ [زرقانی ج ٢،ص٢٥٥]

یہ الفاظ آپ نے اپنے والد اور قبیلۂ بنی مصطلق کے سردار حارث بن ابی ضرار سے اس وقت کہے جب وہ آپ کو رہا کرانے کے لیے بہت سا مال و دولت بطور فدیہ لے کر آئے اور رسالت مآبۖسے حضرت جویریہ کی رہائی کا مطالبہ کیا۔ آپۖنے فرمایا جویریہ موجود ہیں جانا چاہیں تو لے جائو ۔ باپ نے کہا کہ رسالت مآب محمد ۖ نے تمہیں میرے ساتھ جانے کی اجازت دے دی ہے۔ ساتھ چلو مگر جواب انکار میں ملا۔ باپ نے اپنی عزت کا واسطہ دیا لیکن حضرت جویریہ نے خود کو دین اسلام کی محبت میں گرفتار کرلیا تھا۔ اس گرفتاری سے رہائی پر تیار نہ ہوئیں اور آپ کے ایمان و استقامت کے باعث نہ صرف آپ کے والد بھائی بلکہ پورا قبیلہ مسلمان ہوگیا۔ حضرت جویریہ کی سوکن ام المومنین حضرت عائشہ کا اعتراف محبت دیکھئے فرمایا :  

”ما اعلم امرأة اعظم برکة منھا علیٰ قومھا۔ "میرے علم میں کوئی عورت ایسی نہیں ہے جو جویریہ سے زیادہ اپنی قوم کے لیے باعث خیرو برکت ہو”۔

سوکن کا یہ اعتراف ایمان اور اسلام کی خیرو برکت کا نتیجہ ہے اور قرن اول کی روحانیت کا ثمر ہے۔ اسی روحانیت کا اثر یہ تھا کہ ام المومنین حضرت حبیبہ کے والد حضرت ابوسفیان صلح حدیبیہ کے بعد اہل مکہ کے نمائندے بن کر صلح سے متعلق بعض معاملات کے بارے میں گفتگو کے لیے مدینہ طیبہ حاضر ہوئے اور اپنی بیٹی ام حبیبہ کے گھر کاشانۂ رسالت میں ان سے ملنے گئے۔ جب گھر میں داخل ہوئے تو آپ نے رسول اللہۖکا بسترجو بچھا ہوا تھا لپیٹ دیا۔ حضرت ابو سفیان  نے پوچھا کہ یہ تم نے کیا کیا، آیا یہ بستر میرے لائق نہیں ہے یا میں بستر کے لائق نہیں ہوں تو آپ نے فرمایا ابا جان آپ مشرک ہیں اور یہ رسول اللہ کا بستر ہے اس لیے آپ اس بستر پر بیٹھنے کے لائق نہیں ہیں۔ [البدایہ والنھایہ ، ج٤، ص ١٤٣]

جامع ترمذی باب ماجاء فی عدة المتوفی عنھاز وجھامیں حضرت زینب بنت ام مسلمہ سے روایت ہے کہ حضرت زینب ،حضرت ام حبیبہ کے والد حضرت ابو سفیان  کی وفات پر ان کی خدمت میں حاضر ہوئیں [آپ کی وفات کو تین دن گزر چکے تھے] حضرت ام حبیبہ نے ایک خوشبوجو زعفران وغیرہ سے بنائی جاتی ہے جس میں سرخ و پیلا رنگ ہوتا ہے منگائی اور ایک بچی کے لگائی پھر اپنے رخساروں پر بھی لگائی اور فرمایا مجھے خوشبو استعمال کرنے کی ضرورت نہیں ہے لیکن میں نے رسالت مآب ۖکو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ:

کسی صاحب ایمان عورت کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ کسی بھی میت کا تین دن سے زیادہ سوگ منائے۔البتہ شوہر پر چار مہینہ دس دن سوگ منائے گی۔

 میں نے رسول اللہ ۖکے اس ارشاد پر عمل کرنے کے لیے اپنے رخساروں پر خوشبو لگالی ہے۔ کیا عصر حاضر میں یہ رویہ کسی دینی گھرانے میں اختیار کرنا ممکن ہے؟کتنی بدعات رسوم و رواج کے نام پر اختیار کرلی گئیں ہیں ۔ ظہر، مغرب،اور عشاء ، اور فجر کی بارہ سنت موکدہ نمازوں کے بارے میں رسالت مآب ۖکی تاکید سننے کے بعد حضرت ام حبیبہ کا ارشاد تھا

”فما برحت اصلیھن بعد” [مسند احمد] یعنی

”جب میں نے آپ کا یہ ارشاد سنا ہے کبھی ان رکعتوں کا ناغہ نہیں کیا۔”

ام المومنین حضرت صفیہ کے باپ حیی ابن اخطب قبیلہ بنی نضیر کے سردار تھے۔ ان کا سلسلہ نسب حضرت موسیٰ کے بھائی حضرت ہارون تک پہنچتا تھا۔ حضرت صفیہ کی والدہ قبیلہ بنی قریظہ کے سردار کی بیٹی تھیں [ زرقانی ، ج٣، ص٢٥٦امیر اعلام النبلاء ج٢،ص٢٣١] غزوۂ خیبر کے بعد حضرت صفیہ حضرت وحیہ کلبی کو رسا لت مآب ۖنے عطا کیں بعد میں بعض اصحاب کے مشورے پر انہیں آزاد کردیا کہ وہ اپنے وطن چلی جائیں یا مسلمان ہوکر آپ سے نکاح کرلیں ۔ حضرت صفیہ نے فرمایا:

"اختیار اللّٰہ  و رسولہ لقد کنت اتمنی ذٰلک فی الشرک”میں تو اللہ اور اس کے رسول کو اختیار کرتی ہوں تو الحمد اللہ اللہ نے ایمان کی دولت سے نواز دیا میری تو اسلام لانے سے پہلے بھی یہی خواہش تھی”[زرقانی ،ج٣، ص ٢٥٨ ]

اللہ کے لیے اللہ کے رسول کو اختیار کرنا یہی مطلوب ایمان ہے۔ عرب کے دو بڑے قبیلوں سے وابستہ ان خاتون کا نکاح خیبر سے واپسی پر راستے میں منعقد کیا گیا۔ دوسرے دن ولیمہ ہوا، صحابہ کرام نے اپنے اپنے سامان میں سے کھجور پنیر گھی وغیرہ لے آئے ایک دستر خوان پر رکھ کر کھالیا گیایہی ولیمہ ہوگیا [سیر اعلام النبلائ، ج٢،ص٢٣٢، صحیح بخاری جلد٢،ص ٦٠٦،باب غزونہ خیبر]
 کیا جمعہ کے خطبے میں خیر القرن قرونی (١) کی حدیث سننے والے دنیا میں آباد ایک ارب مسلمانوں میں سے کوئی ایک بھی عصر حاضر میں ولیمے کے لیے اس طرح کی دعوت کا تصور بھی کرسکتا ہے؟ اگر کسی سے کہہ بھی دیا جائے تو وہ ایسی دعوت کو اپنے پیغمبر کی اتباع میں بھی قبول نہیں کرے گا کیونکہ یہ سادگی عہد حاضر کے غالب پر تعیش تعقل سے ہم آہنگ نہیں ہے۔ ام المومنین حضرت صفیہ کے بارے میں ان کی باندی نے حضرت عمر سے شکایت کی کہ وہ یہود کی طرح اب تک یوم السبت کی تعظیم کرتی اور یہود کے ساتھ صلۂ رحمی کرتی ہیں ۔ حضرت عمر نے حقیقت معلوم کرنا چاہی تو فرمایا کہ جب سے اللہ نے یوم الجمعہ عطا فرمایا ہے میں یوم السبت کی تعظیم نہیں کرتی، یہودیوں سے میری قرابت داری ہے ان کے ساتھ صلۂ رحمی کرتی ہوںپھر انہوں نے اپنی باندی سے پوچھا کہ کہ تم نے یہ شکایت کیوں کی باندی نے کہا کہ مجھے شیطان نے بہکا دیا تھا۔ آپ نے باندی کو سزا نہیں دی بلکہ فرمایااچھا جائو تم آزاد ہو۔ [اصابہ، ج٧،ص٧٤١] عفوو درگزر، کرم، محبت، انتقام سے گریز، عطا، سخاوت کا یہ رویہ خیر القرن میں عام تھا ۔ اب مفقود ہے۔ ام المو منین حضرت میمونہ کثرت سے نماز پڑھتی تھیں، غلام آزاد کرنے کا بھی بہت شوق تھا ان کے خوف خدا اور صلۂ رحمی کا اعتراف میں آپ کی سوکن حضرت عائشہ فرماتی ہیں :

”افھما کانت من اتفانا اللّٰہ واوصلنا للرحیم””میمونہ ہم لوگوں میں خوف خدا اور صلہ رحمی میں ممتاز مقام رکھتی تھیں۔” [ اصابہ وزرقانی بحوالہ طبقات ابن سعد]

اتباع رسالت کا عالم یہ تھا کہ آپ حج یا عمرہ کے لیے مکہ آئیں تھیں طبیعت خراب ہوئی تو اپنے بھانجے سے کہا کہ مجھے مکہ سے لے چلوں کیونکہ مکہ میںمیرا انتقال نہیں ہوگا ۔ رسول اللہ نے مجھے پہلے ہی اطلاع دے دی ہے کہ تم کو مکہ میں موت نہیں آئے گی اور رسالت مآب ۖ کی اطلاع کے مطابق آپ کا انتقال مدینہ سے قریب مقام سرف میں ٥١ ہجری میں ہوا۔ یہ وہ مقام ہے جہاں آپ کا نکاح اور ولیمہ سات ہجری میں ہوا تھا.

عہد رسالت میں جہیز کا کوئی تصور نہ تھا لہٰذا احادیث کی کسی کتاب میں جہیز کا کوئی ثبوت نہیں ملتا ۔ حضرت علی نے مہرمیں اپنی درع یا اس کی قیمت دی تھی ان کے پاس مہر ادا کرنے کے لیے اس کے سوا کچھ نہ تھا ۔ رسالت مآب ۖنے حضرت فاطمہ   کو ایک چادر ، ایک مشکیزہ چمڑے کا ، ایک گدا جس میں اذخر نام کی گھاس بھری ہوئی تھی اور چند چیزیں دیں۔ کیا عہد حاضر میں کسی دین دار گھرانے میں اس سادگی سے نکاح ممکن ہے؟ ایسے نکاح کو نہایت ذلت و حقارت سے دیکھا جائے گا اور کنجوس ، لیئم کے طعنے دیئے جائیں گے اس رویے کے ساتھ مسلمان پوچھتے ہیں کہ اللہ کی نصرت کب آئے گی؟ اسلامی انقلاب کب آئے گا اور استخلاف فی الارض کب عطا ہوگا؟ حضرت حسن کے بارے میں رسالت مآب ۖنے فرمایا تھا 

ابنی ھذا سیدہ ولعل اللّٰہ ان یصلح بہ بین الفنتین عظیمتین من المسلمین” ”میرا یہ بیٹا سید]سردار[ ہے اور انشاء اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے اللہ مسلمانوں کے دو گروہوں میں صلح کرائے گا۔” [ صحیح بخاری مناقب الحسن والحسین والترمذی،ج٢،ص٢١٨،فی المناقب]

حضرت حسن نے اس حدیث کے مطابق عمل کرتے ہوئے اپنی خلافت کے چھ سات ماہ بعد حضرت معاویہ سے صلح کرلی اور آپ کے حق میں دست بردار ہوگئے۔ بعض لوگوں نے اعتراض کیا تو جواب دیا کہ اگر خلافت حضرت معاویہ کا حق تھی تو ان کو مل گئی اور اگر میرا حق تھی تو میں اپنے حق سے دست بردار ہوگیا۔ آپ کے اس اقدام کے نتیجے میں امت ایک بار پھر متحد ہوگئی اس سال کو امت کی تاریخ میں ”عام الجمع” کا سال کہا جاتا ہے۔ جب امت ایک بار پھر مجتمع ہوگئی تاریخ میں کوئی ایسی مثال دکھائی جاسکتی ہے کہ اللہ کے لیے کوئی فرد سلطنت حکومت سے دست بردار ہوجائے ۔ امت کو جوڑنے کے لیے ایثار و قربانی کا مظاہرہ کرے اس وقت تو امت کا ہر گروہ خلافت ، حکومت ، اقتدار کی تگ و دو میں شب و روز مصروف ہے۔ سیاسی اسلام ، اسلام کا نفاذ بذریعہ حکومت و قوت اس عہد کا مقبول ترین نعرہ ہے۔ مگر امت میں دور دور تک کوئی حسنی نہیں جو کسی دوسرے اسلامی گروہ، اسلامی جماعت ، اسلامی قیادت کے حق میں دستبردار ہوکرامت کو اکٹھا کردے…یہ پارہ پارہ امت کیا کبھی مجتمع بھی ہوسکے گی؟ اگر نہیں تو اسے استخلاف فی الارض کیسے مل سکے گا؟ حضرت حسن نہایت امیر ترین آدمی تھے لیکن مال راہ خدا میں خرچ کرتے تھے ۔ بعض اوقات ایسابھی ہوا کہ اپنے موزے بھی اللہ کے راستے میں خرچ کردیئے اور صرف جوتے روک لیے کیا عہد حاضر میں کوئی امیر دین دار اس طرز زندگی کو اختیار کرنے کا تصور بھی کرسکتا ہے جس امت پر دنیا کا غلبہ ہو اور اس قدر کہ قرنِ اول کے طرزِ زندگی کا عصر میں تصور کرنابھی محال ہوگیا ہو تو اس امت کو دنیاپر غلبہ کیسے عطاہوسکتا ہے جو دنیامیں گرفتار ہے اور دنیا ہی جس کا ہدف اور مقصود ہے اللہ نے اس امت کو ا ہل دنیا کے سپرد کردیا ہے۔

خیر القرن کا خاص وصف مصیبتوں پر صبر اور اللہ سے بہترین مستقبل کی امید تھی ۔ تمام صحابہ رسالت مآبۖکے اس ارشاد پر عمل کرتے تھے کہ

 ”ما من مسلم تصیہ مصیبة فیقول ما امرہ اللّٰہ بہ انا اللّٰہ وانا الیہ راجعون۔ اللّٰھم اجرنی فی مصیبتی واخلف لی خبرا منھا الا احلف اللّٰہ لہ خیراََ منھا۔”

”جس صاحبِ ایمان پر کوئی مصیبت آئے]اور کوئی چیز فوت ہوجائے [ اور وہ اس وقت تک اللہ تعالیٰ سے وہ عرض کرے جو عرض کرنے کا حکم ہے کہ ہم اللہ ہی کے ہیں اور اللہ ہی کی طرف ہم سب لوٹ کر جا نے والے ہیںاے اللہ مجھے میری اس مصیبت میں اجر عطا فرما]اور جو چیز مجھ سے لی گئی ہے[ اس کے بجائے اس سے بہتر مجھے عطا فرمائے تو اللہ تعالیٰ اس چیز کے بجائے اس سے بہتر ضرور عطا فرمائے گا۔”

ام المومنین حضرت سلمہ کو شوہر کے انتقال کے بعد عدت مکمل ہونے پر حضرت عمر اور ابوبکر نے رسالت مآب ۖکی جانب سے نکاح کا پیغام دیا تو آپ نے اسے قبول کرنے کے بجائے تین عذرات پیش کیے ۔ وقت کے پیغمبر اور حکم راں کی جانب سے نکاح کی پیشکش ہورہی ہے اس سے بڑی سعادت کیا ہوسکتی ہے لیکن اس لمحۂ مسرت میں بھی نفس کا کوئی تقاضہ ایمان کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنتا۔ ایمان کا تقاضہ یہ ہے کہ ذات رسالت مآبۖکے سامنے بھی اصل بات پیش کردی جائے کیونکہ اگر کوتاہی ہوئی تو ایمان باقی نہیں رہے گا یہ احساس ذمہ داری اس قرن کا خاص وصف تھا آج اس کی آرزو بھی نہیں ملتی۔ ان عذرات کے بیان کا مقصد رسالت مآب ۖکے سامنے اصل صورت حال پیش کرنا کہ آپ اگر فیصلہ تبدیل کرنا چاہیں تو کرلیں اور یہ خوف کہ رسالت مآبۖکی رفاقت حاصل ہو اور آپ کی خدمت میں کوتاہی ہو، حقوق کی ادائیگی نہ ہوسکے، عذر یہ تھا [١] میں بہت غیرت مند ہوں [٢] میرے کئی بچے ہیں [٣] میری عمر بہت زیادہ ہوگئی ہے[٤] میرا کوئی ولی مدینہ میں نہیں ہے۔ یہ دیانت داری ، صاف گوئی ، سچائی ہر اس مومن کے لیے دین کو مطلوب ہے جو اسلامی انقلاب کی آرزو رکھتا ہے اور دنیا بھر سے اس آرزو کی خاطر جہاد کے لیے تیار ہے لیکن اپنے نفس کے خلاف جہاد پر قطعاَ آمادہ نہیں اس لیے ہمارا خاندانی اور معاشرتی نظام مسلسل شکست و ریخت اور زوال کا شکار ہے۔
ام المومنین حضرت زینب نے رسالت مآبۖکے حکم پر ایک غلام حضرت زید بن حارثہ جو رسالت مآبۖکے منہ بولے بیٹے تھے اور علم و دین میں ممتاز ترین انہیں قبول فرمالیا اور جب نباہ نہ ہوسکا تو مکہ کے دو بڑے خاندانوں کی عورت ہونے کے باوجود اپنے شوہر سے طلاق بھی بخوشی قبول فرمالی۔ رسالت مآبۖنے ان کی دل جوئی کے لیے نکاح کا پیغام بھیجا اور یہ پیغام حضرت زید ہی لے کر گئے تو اللہ کی اس نیک بندی کاجواب یہ تھا 

” ما انا بصانعة شیئاَ حتیٰ او امر ربی فقامت الیٰ مسجدھا ”[صحیح مسلم جلد١،ص٤٦١]

”کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے میں اللہ سے استخارہ ضرور کروں گی یہ کہہ کر اپنے مصلے پر کھڑی ہوگئیں۔

یعنی نماز شروع کردی ، اللہ سے یہ تعلق تھاکہ سورة احزاب کی آیت نازل ہوئی اور آسمان پر آپ کا نکاح ہوا، اللہ رب العزت آپ کے ولی بن گئے۔ حضرت زینب  اس بات پر فخر کرتی تھیں کہ میرا نکاح میرے اللہ نے کیا جب کہ دیگر ازواج مطہرات کا نکاح ان کے اولیاء اور اہلِ خا ندان نے کیا ہے ۔ فقول زوجکن اھالیکن و زوجنی اللّٰہ من فوق سبع السموات۔”]صحیح بخاری ، جلد٢، ص١١٠٤[ حضرت زینب کا نکاح اللہ کے حکم سے آسمانوں پر ہوا تو سب سے شاندار ولیمہ بھی آپ کا کیا گیا۔ بخاری کی روایت ہے کہ اس شاندار ولیمے میں صرف بکری زبح کی گئی تھی [ج٢، ص٧٧٧، صحیح مسلم،ج ا،ص ٤٦١] کیا روئے ارض پر کوئی ایسا صا حب حیثیت مسلمان عصر حاضر میں موجود ہے جو متمول بھی ہو، حکمراں بھی ہو، اور اس کے ولیمے میں صرف ایک بکری پر دعوت ولیمہ منعقد ہوسکے یہ تصور کرنا بھی عصر حاضر کے دینی ذہن کے لیے ناقابل قبول ہے اگر اس بیان میں شک ہو تو اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر ہر دینی مزاج رکھنے والا مسلمان غور کرلے ! حضرت زینب  کے بارے میں ام المومنین ام سلمہ اور حضرت عائشہ کی گواہی ہے۔ بہت صالحہ، کثرت سے روزہ رکھنے والی اور شب بیدار تھیں [ زرقانی شرح مواھب] میں نے ان سے زیادہ دیندار، متقی و پرہیزگار، سچ بولنے والی، صلہ رحمی کرنے والی، صدقہ کرنے والی اور اپنی جان کو نیکی اور تقرب الی اللہ کے کاموں میں زیادہ کھپانے والی کوئی عورت نہیں دیکھی۔ [ صحیح مسلم باب فضائل عائشہ] کیا عہد حاضر کی کوئی دینی ساس، بہو اور سوکن ایک دوسرے کے بارے میں کبھی اس طرح کے کلمات دیانتداری سے ادا کرسکتے ہیں اس معاشرت کی عدم موجودگی میں اسلامی انقلاب کے کیا معانی ہیں؟ حضرت زینب کوتاہ قامت اور ان کے ہاتھ بھی اسی لحاظ سے چھوٹے تھے لیکن سخاوت ، انفاق، کارِ خیر میں ان کے ہاتھ لمبے تھے، حضرت عائشہ کا قول ہے کہ رسالت مآب ۖنے فرمایا:

 ” قال لنا امرعکن لحوقاََ اطوالکن باعاََ فبشرھا  لبسرعة لحوقھا بہ وھی زوجة فی الجنة” [سیر الاعلام النبلاء ، ج٢، ص٢١٥]

”رسول اللہ نے ان کے بارے میں یہ خوشخبری دی ازواج مطہرات میں میری وفات کے بعد سب سے پہلے میرے پاس آنے والی میری وہ بیوی ہوگی جو سب سے زیادہ لمبے ہاتھوں والی ہوگی ] یعنی کار خیر میں بہت خرچ کرنے والی[ اور وہ جنت میں بھی رسول اللہ کی بیوی ہیں۔”

رسالت مآبۖکے وصال کے بعد ازواج النبی ۖاپنے ہاتھ ناپا کرتی تھیں اور آپ کے فرمان اطوالکن باعاَ کا ظاہری مطلب ہی لیتی تھیں لیکن جب رسالت مآب ۖکی وفات کے بعد سب سے پہلے حضرت زینب کا انتقال ہوا تو ازواج مطہرات کو اطوالکن باعاَ کا مطلب سمجھ میں آیا سب سے زیادہ سخی اور فیاض۔ اور تمام ازواج مطہرات کی گواہی ہے کہ واقعی ام المومنین زینب ہم سب میں سب سے زیادہ سخی اور فیاض تھیں۔ حضرت زینب کی فیاضی کس درجے کی ہوگی اس کے لیے حضرت عائشہ اور حضرت ام المومنین سودہ بنت زمعہ کی فیاضی کے صرف دو واقعات پیش کیے جاتے ہیں۔ ایک دفعہ حضرت عمر نے درہموں سے بھری ہوئی ایک تھیلی ان کی خدمت میں بھیجی، تھیلی حضرت سودہ نے لی اور سب درہم ضرورت مندوں پر تقسیم فرمادئیے ۔

حضرت عروہ کی روایت ہے کہ میں نے ایک دفعہ دیکھا کہ حضرت عائشہ نے ستر ہزار درہم صدقہ کیے اور ان کے اپنے کرتے میں پیوند لگ رہا تھا یقیناَ یہ ازواج فیاضی میں حضرت زینب سے کم ہوں گی تو اندازہ کیجیے کہ حضرت زینب کی فیاضی کس درجے کی ہوگی کیا عہد حاضر کے دینی گھرانوں میں ایسی فیاض عورتیں موجود ہیں۔ عہد حاضر کی دینی مزاج عورتیں اتنی دنیا دار اور اس قدر حریص دنیا ہیں کہ اندازہ ہی نہیں کیا جاسکتا ۔ ان کا تمام وقت صرف کپڑے بنانے ، کھانے پینے اور گھومنے پھرنے کے لیے وقف ہے۔ ایسی مائو ں کی گود سے قرن اول کی نسل کیسے پیدا ہوسکتی ہے جب وہ مائیں ہی مفقود ہیں تو قرن اول کا معاشرہ روئے زمین پر کیسے ظہور کرسکتا ہے ! رسالت مآب ۖنے حضرت زینب کے بارے میں حضرت عمر سے کہا تھا کہ زینب کو کچھ نہ کہو اس لیے کہ وہ ادھہ ہیں کسی صحابی نے ادھہ  کا مطلب دریافت کیا تو فرمایا کہ اداھہ  کے معنی ہیں خشوع و خضوع کرنے والی اور آپ نے آیت کریمہ پڑھی :

( ان ابراھیم حلیم او منیب) ”برد بار اور خشوع و خضوع کرنے والے اور اللہ کی طرف توجہ کرنے والے۔” 

حضرت زینب کی وفات پر حضرت عائشہ نے کہا تھا: 

” ذھبت حمیدة سعیدة مقزع الیتامی ‘ والارامل” ”ایک ستودہ صفات نیک بخت اور یتیموں و بیوائوں کی سہارا عورت دنیا سے رخصت ہوگئی ۔”

ایسی نیک بخت عورتوں کی کثرت کے بغیر نہ اسلامی خاندان بن سکتا ہے نہ اسلامی معاشرت جنم لے سکتی ہے افسوس کہ کسی اسلامی تحریک کے نصاب ، نظام تعلیم و تربیت میں ایسی عورتوں کی تعمیر و تشکیل و تربیت کا کوئی تصور تک موجود نہیں ہے ۔ قرن اول میں گفتگو کا اندازہ کیا تھا حفظ مراتب کیسے ملحوظ رکھے جاتے تھے اس کا تصور بھی آج محال ہے ۔ رسالت مآبۖکے چچا حضرت عباس عمر میں آپۖسے دو سال بڑے تھے لیکن جب بھی کوئی آپ سے سوال کرتا کہ آپ بڑے ہیں یا رسول اللہ ۖتو وہ جواب میں کہتے کہ ”ھو اکبر وانا ولدت قبلہ ”]سیر اعلام النبلائ،ج٢،ص٨٠[یعنی ”بڑے تو رسول اللہ ۖہی ہیں ہاں پیدا پہلے میں ہوا تھا ۔حضرت عمر کے زمانے میں قحط پڑگیا تھا تو حضرت عمر  نے حضرت عباس سے بارش کی دعا کرنے کی درخواست کی ، انہوں نے درخواست قبول کی اور اللہ نے بارانِ رحمت نازل فرمایا ۔ [ صحیح بخاری باب سوال الناس الامام الاستسقاء اذا قحطورا]

 حضرت عبداللہ بن عباس حبر الامت انہی حضرت عباس کے صاحب زادے تھے وصال نبویۖکے وقت آپ کی عمر صرف تیرہ برس تھی ۔ رسالت مآب ۖنے حضرت عباس کی اولاد اور ان کے لیے دعا فرمائی تھی

اللّٰھم اغفر للعباس وولدہ مغفرة  ظاھرة وباطنة لاتفادر ذنبہ اللّٰھم احفظہ فی ولدہ” [جامع ترمذی باب مناقب عباس]

” اے اللہ! عباس اور ان کی اولاد کے تمام ظاہری و باطنی گناہ معاف فرمادیجیے او ر اے اللہ! ان لوگوں کی ایسی مغفرت فرمادیجیے کہ کوئی گناہ باقی نہ رہنے دے اے اللہ عباس کی حفاظت فرما ان کی اولاد کے بارے میں۔

اس دعا کا اثر یہ تھا کہ حضرت ابن عباس  علم و حکمت تفقہ فی الدین اور علم تفسیرالقرآن میں ممتاز تر تھے۔ رسالت مآبۖنے ایک بار آپ کے لیے دعا فرمائی:

"اللّٰھم فقہ فی الدین وعلمہ التاویل۔” "اے اللہ ان کو تفقہ فی الدین عطا فرما اورعلم تاویل۔” [مسلم ج٢،٢٨٩،باب فضائل عبد اللہ بن عباس، اصابہ ج٤،ص١٤٣]


حواشی
(١)          ” خیر القرون قرنی ” کے الفاظ کے ساتھ حدیث نبوی ۖثابت نہیں تاہم اس سے ملتے جلتے متعدد الفاظ سے یہ روایت ثابت ہے ۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو : ” خیر القرون قرنی -الفاظ حدیث کا تحقیقی جائزہ ” از محمد یوسف نعیم ۔

(جاری ہے۔۔۔۔۔۔)

یہ مضمون جریدہ "الواقۃ” کراچی، شمارہ (٤ ) رمضان المبارک 1433ھ/ جولائی ، اگست 2012 سے ماخوذ ہے۔

اسرائیل وجۂ تسمیہ اور تاریخ


جریدہ "الواقۃ” کراچی، شمارہ (٤ ) رمضان المبارک 1433ھ/ جولائی ، اگست 2012

 علّامہ ابو الجلال ندوی رحمہ اللہ

اسرائیل

وجۂ تسمیہ اور تاریخ

 قسط ١  قسط2
قرآنِ پاک کی یہ عجیب خصوصیت ہے کہ حضرت آدم اور حضرت اسرائیل  کے علاوہ کسی فرد کی نسل کو اُس کی طرف ”بنی” کا لفظ مضاف کر کے نہیں مخاطب کیا ہے۔ اسی طرح  ”آل”  کا لفظ حضرت داؤد  کے سوا کسی اَور کی طرف مضاف کر کے مخاطب نہیں کیا ہے   بنی آدم سے مراد تو دُنیا بھر کے اِنسان ہیں۔ اِسرائیل ،حضرت یعقوب کا نام تھا ‘ پورے قرآن میں یا بنی یعقوب نہیں۔

اِسرائیل  اور  یہود

جو شخص بھی بائیبل کا مطالعہ کرتا ہے’ اُس کو معلوم ہے کہ حضرت سلیمان  کے مرنے کے بعد بنی یعقوب دو گروہوں میں تقسیم ہوگئے۔ایک گروہ جس میں یعقوب کے ١٢ فرزندوں میں سے ١٠ فرزندوں کی اولاد داخل تھی،اُس نے ایک باغی یربعام کو اپنا بادشاہ مانا، جس نے دینِ سامری کو ازسرِنَو حیاتِ تازہ بخشی، اَور گئو سالہ پرستی کو رِوَاج دیا،اُس کے بعد کے جا نشینوں نے اور بھی کئی گم راہیوں کو رِوَاج دیا۔یربعام  اَور اُس کے متبعین کا نام سفرِ ملوک  اَو ر سفرِ ایّام میں اِسرائیل اَور بنی اِسرائیل ہے۔
اِن گم راہ بنی اِسرائیل کے مسلک والے عہدِ قرآن تک عرب میں موجود تھے،جن کی بابت سورہ ”نسائ” میں ہے کہ

يُؤْمِنُوْنَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوْتِ ] النسائ 51[

دوسرا گروہ جس نے حضرت سلیمان کے جانشینوں کی حکومت تسلیم کی اُن کا ذِکر سفرِ ملوک و ایّام میں ”یہودا” کے نام سے ملتا ہے اور جانشینانِ سلیمان کا ذِکر ”شاہانِ یہوداہ” کے نام سے ملتا ہے۔اِس گروہ کے لوگ بھی عرب میں تھے،اِن کا قرآنی نام ”یہود” (بقرة:١١٣ ،١٢٠ ، مائدہ:٢٠ ،٤٥، ٦٧ ، ٨٥،نور :٣١) اَور” الذین ہادوا(بقرة:٦٢،نسائ:٤٥،١٥٨،مائدہ:٢٤،٢٧،٤٢،انعام:١٢، نمل:١١،حج:٧) ہے۔سورہ سبا میں خدا نے ان کو ”آلِ داود” کہہ کر اور جمعہ :٦میں ( یا ایہا الذین ہادوا ) کہہ کر مخاطب کیا ہے۔

یا بنی اِسرائیل کا لفظ استعمال کرکے خدا نے قسمِ اوّل کے لوگوں کو(بقرة:٤٠،٤٧،١٢٢،مائدہ:٥ اور صف:٦٥ میں) مخاطب کیا ہے۔یہ تمام آیتیں مدنی ہیں۔ طہ:٨٠ مکّی ہے،اِس میں بھی یا بنی اِسرائیل ہے لیکن اِس آیت میں حضرت موسیٰ کا قول ہے،اُن کے زمانہ میں تمام بنو یعقوب کا یہی نام تھا۔اعراف، یونس، شعرائ، سجدہ میں قصّے کے اندر بنی اِسرائیل کا ذِکر ہے۔زخرف میں حضرت  موسیٰ  کی بابت مثلا لبنی اِسرائیل وارِد ہے۔ احقاف میں بنی اِسرائیل میں سے ایک شاہد کا ذِکر ہے جس نے مثل قرآن کی شہادت دی تھی۔اِن میں سے کسی آیت میں بنی اِسرائیل مخاطب نہیں ہیں۔بقرة،مائدہ اور صف میں یا بنی اِسرائیل کہہ کر خدا نے گم راہ بنی اِسرائیل کو مخاطب کیا ہے۔

آلِ داود تو مکّہ میں مخاطب ہوئے کیونکہ سبا  مکّی سورة ہے۔یا بنی اِسرائیل کہہ کر خد ا نے صرف مدنی سورتوں میں مخاطب کر کے ان سے کلام کیا ہے۔

بنی یعقوب میں ایک گروہ اَور تھا جو روح ،فرشتے اور جنّات کا قائل نہ تھا،اِس کو صدوقی کہا جا تاتھا۔ اِس عقیدہ والے بنی اِسرائیل عرب میں موجود تھے۔ مومنون: ٨٢ -٨٣ اور نمل:٦٧-٦٨ میں قیامت کے برخلاف جو اقوال منقول ہیں وہ انہیں کے ہیں۔

”وہ لوگ قیامت کی بابت یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہم سے اور ہمارے آبا سے اس کا وعدہ پہلے بھی کیا جا چکا ہے’ نہیں ہے یہ مگر اگلوں کے اساطیر” (مومنون:٨٣؛نمل:٦٨) ۔

 یہ اقوال اُن کے ہیں جن کی بابت خدا نے فرمایا کہ

”تو کیا انہوں نے اس بات پر غور نہیں کیا،ان کے پاس وہ بات آئی ہے جو اُن کے آبائے اوّلین کے پاس نہیں آئی تھی” (مومنون:٦٨) ۔

قرآن میں کچھ ایسی باتیں بھی ہیں جو متداول بائیبل میں نہیں ملتیں،مثلاً حضرت ابراہیم کا آگ میں ڈالا جانا،عہدِ موسیٰ میں ساحروں کا ایمان لانا ‘اور حضرت موسیٰ کا ایک عالم سے ملنے کے لیے مجمع البحرین تک سفر کرنا۔قرآن کی ایسی باتوں پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے اور شاید سورہ نمل کے زمانہ میں کیا گیا ،یہ تو بائیبل میں نہیں ہے،جس کی وجہ سے خدا نے سورہ نمل میں فرمایا کہ
”یہ قرآن بنی اِسرائیل کو اس چیز کااکثرحصہ سناتا ہے جس کے متعلق وہ باہم اختلاف رکھتے ہیں ”(نمل:٦٦)۔
 سورہ نملکے نزول کے بعد سے خدا نے بنی اِسرائیل کو قرآن میں مخاطب کرنا شروع کیا۔
سورہ نمل میں خدا نے فرمایا

 (  وَلَا تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ وَلَا تَكُنْ فِيْ ضَيْقٍ مِّمَّا يَمْكُرُوْنَ   )(نمل:٧٠)۔

لَا تَكُنْ کا نون حذف کر کے دیکھو۔ یہی بات نحل:١٢٧ میں  دُہرائی ہے۔نحل ایسے زمانہ میں اُتری جبکہ آنحضرت ۖ تو مکّہ میں تھے اور مسلمان مدینہ کی طرف ہجرت کر رہے تھے، چنانچہ نحل:٤١،١١٠ میں جو کہ مکّی آیتیں ہیں: ( الناس ہاجروا) کا ذِکر ہے۔نمل:٧٠،نحل:١٢٧ میں جس مکر کا ذِکر ہے اس کا مفصل تذکرہ انفال:٣٠ میں ہے۔ نمل اور نحل دونوں مکّی دَور کے آخر میں نازل ہوئیں۔اِن سورتوں میںبھی خدا نے بنی اِسرائیل کو مخاطب کر کے کوئی بات نہیں کہی ہے۔

سورہ اِسرائیلکی ٤ آیتوں میں بنی اِسرائیل کا لفظ وارِد ہے۔ اسرائیل٢،٤،١٠١،١٠٤۔ اِن آیتوں میں اگرچہ ”یا بنی اِسرائیل” نہیں ہے لیکن آیت:٨ میں صریحاً بنو اسرائیل مخاطب ہیں۔چونکہ باعتبار نزول پہلی سورہ ہے جس میں خدا نے بنی اِسرائیل کہہ کر مخاطب کیا ہے، اِ س لیے اِس کو سورہ بنی اِسرائیل کا نام دیا گیا۔ مومن:٧، زخرف:٤٣، رعد : ٤٠ ، یونس : ٤٦ کے بعد نمل : ٧٢ ، نحل: ١١٢ ، ١١٣ ، مومنون: ٧٥ تا ٧٧،٩٣تا٩٥ ، دخان:١٠  تا ١٦، فرقان :٧٧ کو غور سے پڑھو ۔ابتدائی ٤ سورتوں کی ترتیب نزول دوسرے دلائل سے ہم نے مقرر کی ہے، پانچ سورتیں جس ترتیب سے اُتریں وہ آپ کو خود یہ آیتیں بتا دیں گی۔سورہ فرقان : ٦٠ اور اِسرائیل : ١١٠ کا مقابلہ کرو تو دونوں آیتیں تقریباً ہم زمانہ اور ہم سبب معلوم ہوں گی،اِس طرح ایک حد تک ہم بالکل صحیح فیصلہ کر سکتے ہیں کہ سورہ اِسرائیل مکّہ کے آخری ایّام میں نازل ہوئی۔

اِسرائیل

مکّی اور مدنی کئی سورتوں میں بنو اِسرائیل کا ذِکر وارِد ہے لیکن سورہ بنی اسرائیل میں تاریخ ِ اِسرائیل کے دو نہایت درد انگیز حوادِث کی طرف اِشارہ ہے ،اِس لیے خصوصیت کے ساتھ اِس کو یہ نام دیا گیا: ”بنی اِسرائیل”۔قرآن میںجہاں جہاں بنو اِسرائیل کا ذِکر آیا، سب آیتوں کو جمع کرنے کے بعد ہم صرف اِتنا جان سکتے ہیں کہ یہ اُس قوم کا نام ہے جس کے اندر حضرت موسیٰ  اور حضرت عیسیٰ اور دیگر انبیا مبعوث ہوئے تھے۔اِس قوم کے کس مورث کا یہ نام تھا؟ اور اِس نام کا مطلب کیا ہے؟ اِن سوالوں کا جواب ہم کو قرآن پاک کسی آیت سے واضح طَور نہیں ملتا۔لفظ ”بنی” کے بغیر ”اِسرائیل” کا نام دو آیتوں میں آیا ہے۔اِن آیتوں پر غَور کیجیے، کچھ انداز مل جائے گا:

١۔ (  كُلُّ الطَّعَامِ كَانَ حِلًّا لِّبَنِىْٓ اِ سْرَاۗءِيْلَ اِلَّا مَا حَرَّمَ اِسْرَاۗءِيْلُ عَلٰي نَفْسِھٖ مِنْ قَبْلِ اَنْ تُنَزَّلَ التَّوْرٰىةُ  ) (آلِ عمران: 93)

”کھانے کے لایق ہر چیز فرزندانِ اِسرائیل کے لیے حلال تھی سِوائے اُس چیز کے جس کو توراة کے نزول سے پیشتر اِسرائیل نے خود پر حرام کر لیا تھا۔”

اِس آیت سے اِس کا اندازہ نہیں ہوتا کہ اِسرائیل کس مورِث کا نام یا لقب تھا۔ سورة  مریم میں خدا نے چند انبیا کے ذِکر کے بعد فرمایا کہ

٢۔ (اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ مِّنَ النَّبِيّٖنَ مِنْ ذُرِّيَّةِ اٰدَمَ ۤ وَمِمَّنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍ  ۡ وَّمِنْ ذُرِّيَّةِ اِبْرٰهِيْمَ وَاِسْرَاۗءِيْلَ ۡ وَمِمَّنْ هَدَيْنَا وَاجْتَبَيْنَا  ۭ) (مریم:٥٨)

”یہ ہیں وہ لوگ جن پر اﷲ نے انعام فرمایا ہے جیسے انبیا جو نسلِ آدم میں سے تھے اور اُن میں سے جن کو ہم نے نوح کے ساتھ سوار کیا تھا اور ابراہیم اور اسرائیل کی ذریت سے اور اُن میں جن کو ہم نے ہدایت فرمائی اور برگزیدہ فرمایا تھا۔”

اِس سے پہلے جتنے انبیا کا ذِکر ہے، ذریت آدم تو سب تھے۔ نوح کے ساتھ کشتی پر سوار کو حضرت ادریس  کے سوا کسی کو تطبیق نہیں دے سکتے۔حضرت موسیٰ  اور حضرت ہارون کی بابت معلوم ہے کہ بنی اِسرائیل میں سے تھے۔حضرت موسیٰ  کا نسب نامہ بتوسط حضرت یعقوب، حضرت اسحاق اور حضرت ابراہیم  تک منتہی ہوتا ہے۔قرآن کی آیتوں سے ہم اِس قدر جان سکتے ہیں کہ ذُریتِ ابراہیم میں سے ایک کا جس کی نسل سے حضرت موسیٰ تھے، اِسرائیل لقب تھا۔یہ بات ہم کو بائیبل سے معلوم ہوتی ہے کہ اِسرائیل ،حضرت یعقوب علیہ السلام کا لقب تھا، اِس لیے بنو اِسرائیل اور آلِ یعقوب ،دونوں مرادِف الفاظ ہیں۔

بنو اِسرائیل

لفظ اِسرائیل کا مطلب بیان کرنے سے پہلے حضرت یعقوب علیہ السلام کے ١٢ فرزندوں کے سنین ولادت کا تعین کرلینا مناسب ہے۔متداوِل بائیبل میں اُن کے سنین ولادت مذکور نہیں ہیں، لیکن ایک کتاب سفرِ ہٰیاشار ہے ‘جس کا حوالہ موجودہ بائیبل کے پانچویں صحیفہ سفر یوشع (٠:١٣) (١) اور٢ سمویل (١:١٨)(٢) میں آیا ہے۔ اِس کے باوجود یہ کتاب نصرانیوں کے متروکات میں داخل ہے۔اِس کتاب میں ہر ایک کی عمریں اور سنین وفات مذکور ہیں۔جن کی مدد سے ہم اُن کے سنین ولادت کا اندازہ کر سکتے ہیں۔

نام
سال ولادت قبل ورود مصر
سال وفات بعد از ورود مصر
عمر /سال
١۔ راوبن
٤٦
٧٩
١٢٥
٢۔ شمعون
٤٥
٧٥
١٢٠
٣۔ دان
٤٤
٨٠
١٢٤
٤۔ لاوی
 ٤٤ 
٩٣  
١٣٧  
٥۔ یہودا
 ٤٣
٨٦  ١٢٩ 
٦۔ نفتالی
 ٤٣ 
٨٩  
١٣٢  
٧۔ جاد
 ٤٢ 
 ٨٣ 
 ١٢٥ 
٨۔ آشر
 ٤١ 
٨٢  
 ١٢٣ 
٩۔ ایشاکر
 ٤١ 
 ٨١ 
 ١٢٢ 
١٠. زبولون
 ٤٠ 
 ٨٤ 
 ١١٤ 
١١. یوسف
 ٣٩ 
 ٧١ 
 ١١٠ 
١٢. بن یامین
 ٣٠ 
 ٨٥ 
 ١١٧ 
بنو اِسرائیل انہیں ١٢ بزرگوں کی نسل کا نام ہے۔اِن بزرگوں اور اِن کی نسل کی بیٹیوں کی اولاد بھی بنو اِسرائیل میں داخل تھی،اِن کے موالی بھی بنی اِسرائیل میں شمار کیے جاتے تھے۔ (٣)

مفہوم  اِسرائیل

٣٠ قبل ورود مصر میں جبکہ جناب بن یامین ابھی پیدا نہ ہوئے تھے،حضرت یعقوب علیہ السلام اپنی تمام اولاد اور موالی سمیت ایک مقام لوز میں کچھ عرصہ مقیم رہے،یہاں اُنہوں نے ایک جگہ کو خدا کی عبادت کے لیے مخصوص کیا اور اُس کا نا مبیت ِ ایل (خانہء خدا)  رکھا۔جن کی بنا پر یہ مقام بعد میں اِسی نام سے مشہور ہوگیا۔مقام لوز کیبیت ایل میں ایک روز آپ مشغول ِعبادت تھے کہ ربّانی تجلی نے آپ پر بارشِ انوار کی اور غیبی آواز نے آپ سے فرمایا:

”(آج سے) تیرا نام اِسرائیل ہوگا (٤)۔ میں ہوں خدائے قادر’تو بُرومند ہوگا اور بہت ہوجائے گا۔تجھ سے گروہ اور گروہ درگروہ پیدا ہوں گے اورتیری صلب سے بادشاہ جنم پائیں گے۔اور یہ زمین جو میں نے ابراہیم و اسحاق کو دی تھی تجھے اور تیرے بعد تیری نسل کو دوں گا۔” (تکوین: ٣٥: ١٠، ١١،١٢) (٥)

اِس بشارت کے بعد حضرت بن یامین پیدا ہوئے۔ اُن کا نام اُن کی ماں نے بن اونی (میرے دُکھ کا فرزند) رکھا تھا،کیونکہ وہ اُن کے مرضِ موت کی حالت میں پیدا ہوئے۔لیکن حضرت یعقوب نے اُن کا نام بن یامین یعنی ”فرزند میثاق” یا عہد کا فرزند رکھا تھا۔اِس بشارت کے بعد ساتویں برس ١٦ کی عمر میں حضرت یوسف علیہ السلام مصر میں غلام بن کر بکے۔ ٢٠ برس کی عمر میں خدا نے اُن کو مصر کے سیاہ و سپید کا مالک بنادیا۔اِس موقع پر حضرت یوسف  کے ایک تَوراتی لقب کا ذِکر مناسب ہے کیونکہ اِس سے لفظ اِسرائیل کے معنی کی تعین میں مدد ملے گی۔مصریات کے علما جانتے ہیں کہ مصر پر ایک زمانہ میں ایک ”ہکسوس” (حق شاشو چرواہا بادشاہ) حکومت کرتا تھا۔ مانیتھو (Manetho) نے اُس کا نام  Salatis (سلاطیس ) بتایا ہے۔اِس نام کے آخیر میں جو ”سین”ہے وہ شخصی ناموں کا یونانی لاحقہ ہے۔ اِس لاحقہ کو حذف کر نے کے بعد سفر تکوین میں پڑھو:
”یوسف ھوا ھشلیط عل ھارض ” (تکوین٤٢:٦) (٦)

”یوسف ہی اس سرزمین کا سلطان ہے۔”

اِس بیان کے ساتھ حضرت یوسف  کے ایک اور لقب کو دیکھو۔روعی ابن یشرئیل (چوبان ،اِسرائیل کی چٹان) (تکوین:٤٩:٢٤) (٧)۔سلاطیس کے فوری جانشین کا نام Bnoni (بن اونی)،حضرت بن یامین کے اُس نام سے ملتا جلتا ہے جو اُن کی ماں نے تجویز کیا تھا۔ حضرت موسیٰ  نے ایک موقع پر بنی اِسرائیل سے فرما یا تھا:

( يٰقَوْمِ اذْكُرُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ اِذْ جَعَلَ فِيْكُمْ اَنْۢبِيَاۗءَ وَجَعَلَكُمْ مُّلُوْكًا ڰ وَّاٰتٰىكُمْ مَّا لَمْ يُؤْتِ اَحَدًا مِّنَ الْعٰلَمِيْنَ  ) (المائدة:٢٠)

”اے میری قوم! اﷲ کے اِس احسان کو یاد رکھو جو اُس نے تم پر کیا ہے کہ تم میں انبیا مبعوث کیے اور تم کو ملوک بنایا اور تم کو وہ دیا جو دُنیا میں کسی اور کو نہیں دیا۔”

حضرت یعقوب کو اِسرائیل کا لقب دے کر خدا نے اُن کو بادشاہوں کے باپ ہونے کی بشارت دی اور یہ بشارت اُن کے ایّامِ حیات میں ہی پوری ہونے لگی۔ خدا نے حضرت یوسف کو مصر کی بادشاہی دی۔اُن کی اولاد نے کچھ دِنوں مصر میں اِس طرح گزارے کہ پوری قوم کا فرد فرد ایک بادشاہ تھا۔یہ کیسا نظامِ حکومت رہا ہوگا؟ اِس سوال کا جواب اپنے قیاس سے حاصل کر لیجیے کیوں کہ ذرائع معلومات نابود ہیں۔ اِن حالات کے پیشِ نظر لفظ اِسرائیل کا مطلب سمجھیے۔

اسرائیل کا مطلب

اِسرائیل کے نام کی عبرانی صورت یشرایل ہے۔یشرایل کا مطلب ہے نصرانی روایتوں اور ترجمے کے مطابق (خدا سے کشتی لڑنے والا) یا خدا کے پاس قوت پانے والا ہے لیکن یہ لفظ دو لفظوں کا مجموعہ ہے۔

(١) ایل سے خدا

(٢) یشر اگر مادہ”ی ش ر ”ہے ”تو راست جانا، راست بولا”۔ اور اگر مادہ ”ش ر ہ ” ہے اور یہ فعل مضارع ہے اور( بی شاریم یشرو) کے مطابق ترجمہ کیا جاسکتا ہے تو اس کا مطلب ہے ” حکومت فرماتا ہے۔” اس لیے اسرائیل کے دو(٢) معنی ہیں:

(١)یشر ایل =  صدق اللہ  =  اللہ صادق  =  خدا سچا ہے۔

(٢)یشرایل =  للہ الملک =  اللہ مالک ، اللہ حاکم  =  خدا ہی حاکم ہے۔
اس خاندان میں چھوٹے چھوٹے جملوں کو جو صحیح عقیدہ ظاہر کرتے ہوں، اشخاص کے نام بنانے کا عام دستور تھا۔جیسا کہ یشمع ایل (اسماعیل) کے نام سے ظاہر ہے۔اِس نام کا عربی ترجمہ ہے:

( اِنَّ رَبِّی لَسِمِیعُ الدُّعَاء )
”بے شک میرا رب دُعا سنتا ہے۔”

 بعینہ یشرایل کا بھی ایک کلمہ عقیدہ ہے۔چونکہ یشرایل کا خطاب اس وعدہ کے ساتھ دیا گیا کہ آئندہ تمہاری نسل سے بادشاہ پیدا ہوں گے۔ اس لیے دوسرے مفہوم کو ترجیح ہے۔یشرایلکے معنی ہیں” حاکم ہے تو خدا ہی” ( اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلّٰهِ  ) ( یوسف  : ٤٠،٦٨)
 یہ نام اس عقیدہ کو ظاہر کرتا ہے کہ ” حکومت کا حق صرف خدا کو ہے۔” خدا ہی کی حکومت ہونی چاہیے۔ بادشاہوں کو اپنی مرضی سے نہیں بلکہ خدا کے حکم کے مطابق حکومت کرنی چاہیے۔

بنو اِسرائیل مصر میں

حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانے میں مہذب دُنیا ، عرب کے قرب وجوار میں محدود تھی۔دِجلہ وفرات کے دوآبہ میں سومیریوں کا دَور ختم ہو کر سامیوں کا دَور شروع ہوگیا تھا۔مصر پر بنو حام حکومت کرتے تھے۔مصر و عراق کے درمیان ارضِ کنعان واقع تھی جو عراق اور مصری دونوں تمدنوں سے متاثر تھی۔ریگستانِ عرب کے جنوب میں اِن دونوں تمدنوں سے الگ تھلگ یمنی تمدن ترقی پارہا تھا۔ عراق، کنعان،مصر اور جنوبی عرب کے تمدنوں میں بڑا فرق تھا لیکن یہ تمام قومیں شرک و بت پرستی میں یکساں منہمک تھیں۔ حضرت ابراہیم  ،عراق کے ایک شہر میں پیدا ہوئے ،آپ نے اپنے وطن میں توحید کی تعلیم شروع کی لیکن قوم نے آپ کی تعلیم قبول نہ کی،آپ کو ہجرت کرنی پڑی’اور آپ کنعان میں آبسے۔آپ نے اور آپ کے بھتیجے حضرت لوط  نے اِس علاقہ میں توحید کی تعلیم شروع کی،لیکن صرف معدودے چند افراد آپ کو ملے۔

اﷲ نے آپ کو دو فرزند دیے ، اسماعیل اور اسحاق۔ حضرت اسماعیل کو آپ نے جنوب سے شمال کو جانے والے تجارتی قافلوں کے ایک اہم مرحلے کے پاس بسایا، جس کو اب ہم مکّہ کہہ سکتے ہیں۔حضرت اسماعیل  اور اُن کے فرزند ریگزارِ عرب اور جنوبی عرب کے لوگوں کی اِصلاح و ہدایت پر مامور رہے۔کنعان میں جو کہ عراق و مصر کے تمدنوں کا سنگم تھا،حضرت ابراہیم  ،حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب، تین  پُشتوں نے خدا کا پیغام سنایا۔٢١٥ برسوں کی جدوجہد کے باوجود اِس دیار میں کسی نے توحید کی تعلیم قبول نہ کی اور اِس لیے قبول نہ کی کہ یہ انبیا حاکمانہ اقتدار نہیں رکھتے تھے۔ جنوبی عرب کی طرف حضرت اسماعیل کی کوششیں کامیاب ہورہی تھیں۔عراق سے حضرت ابراہیم  مایوس ہو چکے ،کنعان میں دوسو برس رائیگاں گئے۔اِس لیے اب خدا نے اپنے پیغام کی تبلیغ کے لیے مصر کو چُنا اور ایسے اسباب پیدا کردیے کہ سارا خاندانِ یعقوب مصر میں جابسا اور وہاں ٤٣٠ برس مقیم رہا۔

عہدِ موسیٰ

ولادت موسیٰ علیہ السلام سے پیشتر مصر میں اِنقلاب ہوا۔ہکسوس کا خاتمہ ہوگیا۔نئی حکومت قائم ہوئی،اُس نے بنی اِسرائیل پر سخت مظالم کیے۔فرعون کی بد قسمتی کہیے کہ اُسے پیدائش سے پہلے ہی نسلوں کو مار ڈالنے کا وہ طریقہ نہیں معلوم ہوا تھا جسے یورپ اور امریکا کے غلامانِ بے دام اپنے پورے حاکمانہ اقتدار کے زورسے ہندوستان اور پاکستان میں رائج کرنا چاہتے ہیں تاکہ یہاں کے لوگ توانا اور عمدہ نسل کے پیدا کرنے کی طاقت سے محروم ہوجائیں اور یورپ اور امریکا کو پہلے کالے امریکیوں اور کالے آسٹریلیوں کی طرح ہم کو بھی نیست و نابود کر کے ہماری سرزمین پر اپنی نسل پھیلانے کے مواقع مل جائیں،چونکہ فرعون کو یہ طریقہ معلوم نہ تھا’ اِس لیے اُس نے بنی اِسرائیل کو پیدا ہوتے ہی قتل کردینے کی تجویز سوچی اور اُس پر عمل درآمد بھی کرنا شروع کیا لیکن خدا نے کمزوروں پر احسان کرنے اور مقبوضاتِ فرعون میں سے ایک بڑے حصّے پر اِن کمزوروں کو وارِث بنانے کا اِرادہ کیا (سورہ قصص ،آیت:٥) اَور اِس کام کی تکمیل کے لیے حضرت موسیٰ کو مبعوث فرمایا۔اُن دِنوں وہ سرزمین جس میں بعد میں بنو اِسرائیل آباد ہوئے فراعنہ مصر کے مقبوضات میں شامل تھی۔حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قصّہ سے قرآن پاک کا بڑا حصّہ بھرا ہوا ہے ،اُن کے زمانے کے جس قدر حالات ضروری ہیں اُن کو اختصار کے ساتھ نقل کیا جاتا ہے۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام کی عمر شریف ‘بعثت کے وقت ٤٠ برس کی تھی۔٨٠ برس کی عمر تک آپ نے مصر میں رہ کر بنو اِسرائیل کو 
منظم کیا اور فرعون اور قومِ فرعون کو راہِ راست پر لانے کی کوشش کی۔ فرعون جب راہِ راست پر نہ آیا تو آپ نے فرعون سے درخواست کی کہ ہم کو ملکِ مصر سے نکل جانے کی اجازت دی جائے۔ فرعون کو خوف تھا کہ یہ لوگ مصر سے جب باہر جائیں گے تو یقینا فرات و مصر کے درمیانی علاقہ پر قابض ہوجائیں گے،اِس لیے اُس نے بنی اِسرائیل کو ملک سے نکل جانے کی بھی اجازت نہ دی۔لیکن ا ﷲ نے اپنی قدرتِ کاملہ سے فرعون کی اسکیم کو ناکام کردیا اور فرعون اور اُس کا پورا لشکر جس میں زیادہ تر اسی علاقہ کے لوگ تھے جس میں بنو اِسرائیل بعد میں آباد ہوئے،سمندر میں غرقاب ہوگئے اور بنو اِسرائیل پار اُتر آئے۔

مولانا ابو الجلال ندوی کا یہ غیر مطبوعہ مضمون ہمیں ان کے نواسے جناب یحیٰ بن زکریا صدیقی نے دیا ہے جس کے لیے ادارہ ” الواقعة ” ان کا شکر گزار ہے ۔ اس میں بعض حواشی م.ص .ف.رفعت صاحب کے قلم سے ہیں ۔ جس کی نشاندہی اسی مقام پر کردی گئی ہے ۔ (ادارہ الواقعۃ)

حواشی
(1)         عہد نامہ قدیم کے عربی ترجمے میں یہ آیت (یَشُوع، ١٠:١٣) میں اِس طرح درج ہے: أَلَیْسَ ھٰذا مَکْتُوبَاً فِ سِفْرِ یَاشَرَ” ]رفعت[

(2)         عہد نامہ قدیم کے عربی ترجمے میں یہ آیت (سفر صموئیل الثانی ١:١٨ ) اِس طرح درج ہے: ”وَ قَالَ أن یَتَعَلَّمَ بَنُو یَہُوذَا نَشِیدَ أَلْقَوسِ ھُوَ ذَالِکَ مَکْتُوب فِی سِفْرِ یَاشَرَ ] رجوع کریں ص:٤٨٣، الکتاب المقدس ،طبع ”دار الکتب المقدس فی شرق الأوسط”۔سال اشاعت:١٩٩٢ء ] [رفعت[

(3)         ”سفر ہایاشار” کا انگریزی ترجمہ ١٨٨٧ء میں جے۔ایچ۔پیری اینڈ کمپنی نے سالٹ لیک سٹی، ریاست ہائے متحدہ امریکا سے شائع کیا تھامترجم کا نام درج نہیں ہے۔ حضرت یعقوب کا اولاد کا ذکر باب ٣٦میں صفحات ١٠٠۔١٠١ میں درج ہے۔اس سے قبل اِس صحیفہ کا عبرانی متن اور لاطینی میں ترجمہ لندن سے ولیم اینڈ نارگیٹ کی جانب سے١٨٥٧ء میں شائع کیا گیاتھا۔ مصحح اور مترجم کا نام ہے ‘یوہان ولیم ڈونالڈ سن۔]رفعت[

(4)         سفرِ تکوین کے جامع نے موحدوں اور مشرکوں کی متضاد روایتوں کو جمع کردیا ہے۔تکوین (باب:٣٥) کی روایت کے مطابق یہ لقب مقام لوز کے بیتِ ایل میں خدا نے حضرت یعقوب کو دیا۔لیکن باب:٣٢ کی روایت یہ ہے کہ ایک رات ایک مقام میں جسے بعد میں چل کر حنوایل (خدا کاسامنا) کہا گیا،ایک شخص رات بھرحضرت یعقوب  سے کشتی لڑتا رہا۔اُس نے دیکھا کہ وہ حضرت یعقوب  پر غالب نہیں آسکا تو اُس نے آپ کی عرق النسا مڑوڑ دی،جس کی وجہ سے آپ لنگڑے ہوگئے۔ یہ ہے وجہ اِس بات کی کہ بنی اسرائیل اُس نس کو جو ران کے اندر ہوتی ہے نہیں کھاتے کیونکہ اس نے یعقوب کی و ہ نس مڑوڑ دی تھی۔یہ شخص جب یعقوب کے مقابلہ سے عاجز آگیا تو اُن سے اجازت چاہی کہ مجھے جانے دو۔ حضرت یعقوب  نے کہا تجھ سے برکت لیے بغیر تو چھوڑوں گا نہیں، مجبوراً اُس نے برکت دی اور آپ کا لقب اِسرائیل تجویز کیااور وجہ بتائی کہ:”  شریت عم الوہیم و عم انوشیم و توکل ” (تکوین:٣٢:٢٨) ”تو نے خدا کے ساتھ اور انسانوں کے ساتھ زور مارا ،اور تو ہی غالب رہا۔”

(5)         عہد نامہ قدیم کے عربی ترجمے میں یہ آیات (سفر تکوین ٣٥:١٠۔١١) اِس طرح درج ہیں:”وَقَالَ لَہُ اﷲُ أسْمُکَ یَعْقُوبُ لَا یُدْعَی أسْمُکَ فِیمَا بَعْدُ یَعْقُوبَ بَلْ یَکُونُ أسْمُکَ اِسْرَائِیلَ فَدَعَا أسْمَہُ اِسْرَائِیلَ۔ وَقَالَ لَہُ اﷲُ أَنَا أﷲُ الْقَدِیرُ۔أَثْمِرْ وَ أکْثپرْ۔ؤُمَّة وَجَمَاعَةُؤُمَمٍ تَکُونُ مِنْکَ وَمُلُوک سَیَخْرُجُونَ مِنْ صُلُبِکَ۔”        ص:٥٨، الکتاب المقدس ،طبع ”دار الکتب المقدس فی شرق الأوسط” سال اشاعت:١٩٩٢ء  ]رفعت[

(6)         عہد نامہ قدیم کے عربی ترجمے میں یہ آیت (سفر تکوین ٤٢:٦)، اِس طرح درج ہے:”وَکَانَ یُوسُفُ ھُوَ الْمُسَلَّطُ عَلَی الْأَرْضِ”ص:٧١، الکتاب المقدس ،طبع ”دار الکتب المقدس فی شرق الأوسط”۔سال اشاعت:١٩٩٢ء  ]رفعت[

 (7)        عہد نامہ قدیم کے عربی ترجمے میں یہ آیت (سفر تکوین ٤٩:٢٤)، اِس طرح درج ہے:”۔۔۔ ھُنَاکَ مِنَ الَّاعِ صَخرِ اِسْرَائِیلَ”ص:٨٥، الکتاب المقدس ،طبع ”دار الکتب المقدس فی شرق الأوسط”۔سال اشاعت:١٩٩٢ء  ]رفعت[
(جاری ہے) 

یہ مضمون جریدہ "الواقۃ” کراچی، شمارہ (٤ ) رمضان المبارک 1433ھ/ جولائی ، اگست 2012 سے ماخوذ ہے۔

وحی متلو اور غیر متلو قرآنی تقسیم ہے 2


جریدہ "الواقۃ” کراچی، شمارہ (٤ ) رمضان المبارک 1433ھ/ جولائی ، اگست 2012

علّامہ تمنا عمادی مجیبی پھلواروی
قسط 2

بات یہ ہےکہ یہ سورة رعد کی پہلی آیت ہے اس سے پہلے قرآن مجید میں بارہ سورتیں گزر چکی ہیں جن میں سے چھ سورتوں کے شروع میں قرآن مجید کی کچھ نہ کچھ منقبت ضرور بیان فرمائی گئی ہے ۔ سورة بقرہ کے شروع میں ہے
ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَيْبَ     ٻ فِيْهِ   ڔ ھُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ    Ą۝
 یہ کتاب ( یعنی اب دنیا میں کتاب اللہ یہی اور صرف یہی ایک تنہا ہے ۔ دوسری کتابیں اور صحیفے یا تو مفقود ہوگئے یا محرف ہوکر ان کے صرف ترجمے ہی ہر جگہ نظر آتے ہیں اصل کتاب کا کہیں پتہ نہیں ۔ اس لیے کتاب اللہ اب بس یہی ایک کتاب ہے ) اس کے اندر کسی طرح کے ریب و شک کی گنجائش ہی نہیں ہے ۔ مگر اس سے وہی لوگ ہدایت کا فائدہ اٹھائیں گے جو اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والے ہیں ۔ ”
اس کے بعد آل عمران کے شروع میں ہے :
اللّٰهُ لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ ۙ الْـحَيُّ الْقَيُّوْمُ  Ą۝ۭنَزَّلَ عَلَيْكَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ
 ” اللہ جس کے سوا کوئی معبود نہیں ۔ زندگی کا مالک آپ اپنی ذات سے ہمیشہ قائم رہنے والا ہے اور دوسری ہر مخلوق کو قائم رکھنے والا اس نے اس کتاب کو مبنی بر حقیقت اتارا ہے ۔
سورئہ اعراف کے شروع میں ہے :
كِتٰبٌ اُنْزِلَ اِلَيْكَ فَلَا يَكُنْ فِيْ صَدْرِكَ حَرَجٌ مِّنْهُ لِتُنْذِرَ بِهٖ وَذِكْرٰي لِلْمُؤْمِنِيْنَ    Ą۝
بڑی عظمت (١) والی کتاب ہے ( دشمنوں کی مخالفت سے ) تم میں دل تنگی پیدا نہ ہونی چاہیے ( یہ کتاب ) اس لیے ہے کہ تم ( مخالفین کو مخالفت کے برے نتیجے سے ) ڈراتے رہو یہ ( کتاب ) ایمان والوں کے لیے بڑی نصیحت (٢) ہے ۔
سورئہ یونس کے شروع میں ہے :
تِلْكَ اٰيٰتُ الْكِتٰبِ الْحَكِيْمِ   Ǻ۝
 ” یہ ( جو یہاں سے آخر سورة تک آیتیں ہیں ) بڑی حکمت والی کتاب کی آیتیں ہیں ۔
یہاں بھی تلک کا اشارہ پوری سورة کی طرف ہے ۔
سورئہ ہود کے شروع میں ہے :
كِتٰبٌ اُحْكِمَتْ اٰيٰتُهٗ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَّدُنْ حَكِيْمٍ خَبِيْرٍ         Ǻ۝ۙ
بڑی عظمت والی یہ کتاب ہے جس کی آیتیں بہت استوار اس پر مفصل بڑے حکمت والے ہر ذرے ذرے سے باخبر کے پاس سے آئی ہوئی ہے ۔
سورئہ یوسف کے شروع میں ہے :
تِلْكَ اٰيٰتُ الْكِتٰبِ الْمُبِيْنِ        Ǻ۝ۣ
) یہاں سے آخر سورة تک جتنی آیتیں ہیں ) یہ ایسی کتاب کی آیتیں ہیں جو اپنے مفہوم کو وضاحت کے ساتھ بیان کردینے والی ہے ۔
یہاں بھی تلک کا اشارہ پورے سورہ کی آیتوں کی طرف ہے جس کی تفصیل سورة رعد کی آیت میں گزر چکی ۔ سورة رعد کے بھی ۔ سورئہ ابراہیم ، سورة حجر ، سورة کہف وغیرہ کی ابتدا میں قرآن مجید کی منقبت کے الفاظ آئے ہیں ۔ اور بیسیوں سورتوں کے درمیان بھی قرآن مجید کی عظمت و اہمیت مختلف عنوان سے بیان فرمائی گئی ہے ۔ مگر غیر قرآنی وحی بھی تو آتی رہی ہے اس کا بالکل ذکر نہ کرنا مناسب نہ تھا ۔ اگرچہ اکثر غیرقرآنی وحی خصوصاً جن کا تعلق احکام دین سے ہے پہلے ان پر عمل غیر قرآنی وحی کے مطابق ہوتا رہا بعض کو ایسی ہر غیر قرآنی وحی کا ذکر قرآن مجید میں کسی نہ کسی عنوان سے ضرور فرمادیا گیا ہے تاکہ وہ احکام دین کسی ناقص الفہم کی نظر میں غیر قرآنی قرار نہ پائیں یا یہ کہ قرآن مجید سے باہر نہ رہیں اور قرآن مجیدکی جامعیت پر حرف نہ آئے مگر ابتدا ان احکام پر عملدرآمد کی ضرور غیر قرآنی وحی ہی سے ہوئی۔ جیسے ادائے فریضہ الصلوٰة کا طریقہ وغیرہ جس کی تفصیل آگے آتی ہے ۔ غرض ضرورت تھی کہ غیر قرآنی وحی جس کو علماء وحی غیر متلو کہتے ہیں اس کی اہمیت بھی بیان فرمادی جائے اس لیے سورة رعد کی مذکورہ آیت کریمہ میں ایک عام جملہ بیان فرمایا کہ صرف قرآنی آیات ہی نہیں بلکہ ان کے علاوہ بھی جس قسم کی وحی بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول اللہ کی طرف نازل ہوئی ہے وہ سب برحق ہیں جو وحی آپ پر الہام و القاء فی القلب کے ذریعے فرمائی گئی یا عالم خواب میں فرمائی گئی یا فرشتے کے ذریعے قرآنی آیات کے ماسوا بطور پیغام فرمائی گئی یا کسی فرشتے کے ذریعے بطور تلقین و تعلیم جو وحی کی گئی ہو زبانی ہو یا عملی وہ سب برحق ہیں ۔اس آیت میں
( وَالَّذِیَ أُنزِلَ ِلَیْْکَ مِن رَّبِّکَ الْحَقُّ )
 ” اور جو کچھ تمہاری طرف تمہارے رب کی طرف سے نازل کیا گیا ہے وہ سب برحق ہیں
فرماکر ہر قسم کے نازل شدہ وحی کے برحق ہونے کا ذکر فرمایا گیا ہے تاکہ وحی غیرمتلو کو غیر قرآنی قرار دے کر کوئی اس کا انکار نہ کرے ۔
وحی متلو و غیر متلو
یہ تقسیم علماء سلف نے اپنی طرف سے نہیں کی خود قرآن مجید نے تقسیم بیان فرمادی ہے ۔ سورة الکہف کی آیت ٢٧ پڑھیے :
وَاتْلُ مَآ اُوْحِيَ اِلَيْكَ مِنْ كِتَابِ  رَبِّكَ 
اورتم تلاوت کرو اس وحی کیجو تمہارے رب کی کتاب سے تمہاری طرف کی گئی ہے ۔
 اس آیت کریمہ میں ( مِنْ کِتَابِ رَبِّکَ ) کی قید بتارہی ہے کہ تلاوت وحی کتاب ہی کی مامور بھا ہے اور اس قید نے یہ بتادیا کہ کتاب سے باہر بھی بعض وحی ہوئی ہے جس طرح اگلے انبیاء علیہم السلام کی طرف کتابی و غیرکتابی دونوں طرح کی وحی آتی ہے ۔ اس لیے رسول اللہنے کاتبین وحی سے صرف کتابی وحی لکھوائی تاکہ اس کی تلاوت ہو غیر کتابی وحی کی تلاوت کا حکم نہ تھا ۔ اس لیے قرآن کی طرح باضابطہ اس کو نہیں لکھوایا ۔ کتابی وحی میں الفاظ وحی ہوتے جن کا محفوظ رکھنا ضروری تھا غیر کتابی وحی میں مفہوم کی وحی ہوتی تھی اوراگر مفہوم فرشتے کو القاء ہوتا تھا تو الفاظ فرشتے کے ہوتے تھے جو وہ رسول تک پہونچاتا اور اگرمفہوم رسول پر بیداری میں یا خواب میںا لقاء ہوتا تھا تو رسول اپنے الفاظ میں بیان فرماتے تھے ۔مگر مفہوم ایسی احکامی وحیوں کے بعد کو کہیں نہ کہیں قرآن مجید میں کسی نہ کسی طرح ضرور بیان فرمادیئے جاتے تھے تاکہ وہ مفہوم محفوظ رہ جائے اسی لیے دیکھئے دوسری جگہ بھی یونہی فرمایا ہے :
اُتْلُ مَآ اُوْحِيَ اِلَيْكَ مِنَ الْكِتٰبِ وَاَقِـمِ الصَّلٰوةَ ۭاِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَاۗءِ وَالْمُنْكَرِ ۭ وَلَذِكْرُ اللّٰهِ اَكْبَرُ ۭ وَاللّٰهُ يَعْلَمُ مَا تَصْنَعُوْنَ   45؀
اس کتاب سے جو وحی تمہاری طرف کی گئی ہے اس کی تلاوت کیا کرو اورنماز قائم کرو بے شک نماز بے حیائی کی باتوں اورناپسندیدہ کاموں سے روک دیتی ہے اور اللہ کا ذکر بہت بڑی چیز ہے اور اللہ جانتا ہے جو کچھ تم لوگ کرو گے ۔” ( عنکبوت : ٤٥)
اس آیت کریمہ میں دو کاموں کا حکم دیا گیا ہے پہلا حکم  ( اُتْلُ مَآ اُوْحِیَ اِلَیْکَ مِنَ الْکِتٰبِ ) کا ہے یعنی حکم دیا جارہا ہے کہ اس کتاب سے جو وحی تمہاری طرف کی گئی ہے اس کی تلاوت کیا کرو ۔ جو شخص کچھ بھی آخرت کی باز پرس سے ڈرتا ہو اوریقین رکھتا ہو کہ اگر قرآنی آیات کے مفہوم صحیح کے اقرار و انکار میں ہٹ دھرمی سے کام لیں گے تو قیامت کے دن ہم سخت عذاب میں مبتلا ہوں گے ۔ میں ایسے مومن سے پوچھتا ہوں کہ ( مَآ اُوْحِیَ اِلَیْکَ مِنَ الْکِتٰبِ) میں جو قید (مِنَ الْکِتٰبِ ) کی ہے صاف بتارہی ہے یا نہیں کہ کتاب والی وحی کے علاوہ بھی وحی ضرور آتی تھی ورنہ من الکتاب کی قید محض فضول ٹھہرے گی اور قرآن مجید میں کوئی لفظ بھی بے سود نہیں لایا گیا ہے اور چونکہ صرف کتابی ہی وحی کی تلاوت کا حکم ہے اس لیے کتابی ہی وحی متلو ہوئی اور غیر کتابی وحی غیر متلو ہوئی قرآن مجید نے خود وحی کی دو قسم متلو و غیر متلو بتادی یا نہیں ؟ اور پھر متصلاً اس کے بعد ہی ( وَ اَقِمِ الصَّلٰوةَ ) کا دوسرا حکم یہ ظاہر کر رہا ہے کہ نماز میں بھی قرآن  مجید کی تلاوت ہونی چاہیئے اور ( اقم ) سے یہ اشارہ سمجھا گیا کہ تلاوت صرف قیام میں ہونی چاہیئے ۔ رکوع و سجود دونوں صورتیں سر نیاز خم کرنے کی ہیں اس لیے دونوں کا ایک ہی حکم ہونا چاہیئے سجدے کے متعلق حکم ہے ۔
 ( فَسَبِّحْ بَحَمْدِ رَبِّکَ وَ کُنْ مِّنَ السّٰجِدِیْنَ )
اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کرو اور سجدہ کرنے والوں میں شامل ہوجائو ۔
 اس لیے رکوع و سجود میں تلاوت آیات کی ممانعت ہے کہ حکم صرف تسبیح و تحمید کا ہے ۔ سبحان ربی الاعلیٰ و بحمدہ سجدے میں اورسبحان ربی العظیم و بحمدہ رکوع میں کہنا چاہیئے ۔ تلاوت مخالفت حکم بھی ہوگی اور مخالفت سبیل المومنین بھی ۔ مخالفت سنت تو اس فرقے کا خاص ” دینی فریضہ ” ہے اس لیے مخالفت سنت کا الزام ان پر نہیں عائد کرتا ہوں ۔ قرآنی حکم اور سبیل المومنین کا اتباع ان پر بہر حال فرض ہے مگر سبیل المومنین کی تو مطلق پرواہی یہ لوگ کبھی نہیں کرتے باوجودیکہ ازروئے قرآن مجید سبیل المومنین کے خلاف راہ اختیار کرنے والا قطعی جہنمی ہے ۔ ( نساء ١١٥)
اس آیت کریمہ میں تلاوت کا حکم صریح ہے اور اشارہ نماز کے قیام میں تلاوت کا حکم ہے اس لیے وحی کتابی کی خصوصیت ظاہر کردی مگر اتباع چونکہ ہر قسم کی وحی کا فرض ہے اس لیے جہاں اتباع کا حکم ہے وہاں عام وحی کے اتباع کا حکم یا ذکر ہے ان آیتوں میں ( من الکتاب ) کی قید نہیں لگائی گئی ۔ تو اب اتباعِ وحی کے ذکر یا حکم کی آیات کریمہ ایمان و دیانت کی نظر سے خدا ترسی کے جذبے کے ماتحت ملاحظہ فرمائیے۔
1) قُلْ لَّآ اَقُوْلُ لَكُمْ عِنْدِيْ خَزَاۗىِٕنُ اللّٰهِ وَلَآ اَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلَآ اَقُوْلُ لَكُمْ اِنِّىْ مَلَكٌ  ۚ اِنْ اَتَّبِعُ اِلَّا مَا يُوْحٰٓى اِلَيَّ  (انعام :٥٠
کہہ دو ( اے رسول ) کہ نہ میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میرے پاس اللہ تعالیٰ کے ( دیئے ہوئے ) خزانے ہیں اور نہ میں غیب ( کی باتیں ) جانتا ہوں اور نہ میں یہ دعویٰ کرتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں ۔ میں تو بس اسی کا اتباع کرتا ہوں جس ( بات ) کی وحی میری طرف کی جاتی ہے ۔
٢)  اِتَّبِعْ مَآ اُوْحِيَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ  ۚ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ  ۚ وَاَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِيْنَ  ١٠٦؁ (انعام : ١٠٧)
” (اے رسول ) تم اتباع کرو اس ( بات ) کا جس کی وحی تمہاری طرف تمہارے رب کی طرف سے کی گئی اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور مشرکین کی طرف سے منہ پھیر لو ( ان کی مخالفت کی کوئی پروا نہ کرو )۔
(٣) (ۭقُلْ اِنَّمَآ اَتَّبِعُ مَا يُوْحٰٓى اِلَيَّ مِنْ رَّبِّيْ  ) ( اعراف:٢٠٣)
کہہ دو ( اے رسول ) کہ میں اتباع صرف اسی کا کرتا ہوں جس کی وحی میری طرف میرے رب کی طرف سے کی جاتی ہے ۔
(٤)  (وَاتَّبِعْ مَا يُوْحٰٓى اِلَيْكَ وَاصْبِرْ حَتّٰى يَحْكُمَ اللّٰهُ     ښ      وَھُوَ خَيْرُ الْحٰكِمِيْنَ          ١٠٩؀ۧ
جو وحی ( اے رسول ) تمہاری طرف کی جائے تم اس کا اتباع کرو اور صبر سے کام لو یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ فیصلہ کردے اور وہ سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے ۔”  ( سورئہ یونس کی آخری آیت
(٥) وَّاتَّبِعْ مَا يُوْحٰٓى اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ ۭ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرًا   Ą۝ۙ
( اے رسول ) تمہارے رب کی طرف سے جو وحی کی جائے اس کا اتباع کرتے رہو تم لوگ جو کچھ کروگے اللہ تعالیٰ بیشک اس سے باخبر ہے ۔” (احزاب :٢
ان پانچ آیتوں میں اتباعِ وحی کا حکم ہے اور یہ حکم عام وحی سے متعلق ہے کہیں بھی کتاب کی قید نہیں ۔
اتباع ما انزل
سورة اعراف کی تیسری آیتِ کریمہ ہے :
اِتَّبِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَيْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِهٖٓ اَوْلِيَاۗءَ  ۭ قَلِيْلًا مَّا تَذَكَّرُوْنَ    Ǽ۝
تمہارے رب کی طرف سے جو کچھ تمہاری طرف اتارا گیا ہے اسی کا اتباع کرو اور اپنے رب کے سوا ( دوسروں کو ) اپنا ولی ( کارساز مالک ) بنا کر ان کا اتباع نہ کرو ۔ بہت کم تم لوگ نصیحت کرتے ہو ۔
اس آیتِ کریمہ میں ( مَا أُنزِلَ ِلَیْْکُم مِّن رَّبِّکُمْ ) سے صرف قرآن مجید مراد لینا صحیح (٣) مان بھی لیں تو یہاں من دونہ کی ضمیراسی ما انزل یعنی قرآن مجید کی طرف پھیرنا یا تو جہالت ہے یا جانتے بوجھتے ہٹ دھرمی ہے رسول اللہ کے قلبِ مبارک پر جو باتیں القاء ہوتی تھیں حضور کو جن باتوں کا الہام ہوتا تھا وہ بھی جب نزول وحی کی ایک صورت تھی جس کو میں قرآنی آیات سے ثابت کرچکا ہوں تو الہام نبوی کو ما انزل سے بالکل خارج کوئی مومن خدا ترس کس دلیل سے کرسکتا ہے ؟ اسی طرح خواب میں جو وحی حضور پر نازل کی گئی وہ بھی ما انزل میں ضرور داخل ہے اور جو زبانی پیغام یا ہدایت یا مژدہ فرشتہ لے کر نازل ہوا ( نزل بہ الروح الامین ) کی حیثیت سے اس کو ما انزل سے خارج کیوں سمجھا جائے گا ؟ جس طرح ما یوحیٰ اور ما اوحیٰ عام ہے بالکل اسی طرح ما انزل بھی عام ہے یقینا قرآن مجید ما اوحیٰ میں سے بہت زیادہ عظمت و اہمیت والی وحی ہے اس طرح ما انزل میں سے بھی وہ بہت زیادہ عظمت و اہمیت والا منزل من اللہ ہے مگر اس سے قرآن مجید کے سوا غیر متلو وحیوں کا انکار تو کسی طرح بھی ثابت نہیں ہوتا ہر ما انزل واجب الاتباع ہے مگر منزل یعنی ما انزل کے نازل کرنے والے کو اپنا ولی واحد مان کر اس کی اطاعت کے ماتحت اس کے نازل کردہ احکام کا اتباع واجب ہے اگر کسی نے احکام قرآنی کا اتباع کیا حکومتِ اسلامیہ کے حکام کی داروگیر سے ڈرکر۔ اللہ تعالیٰ کو اپنا ولی اور والی سمجھ کر نہیں تو اس نے بھی من دونہ اولیاء کا اتباع کیا ۔ اتباعِ احکام قرآنی میں نیت اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی ضروری ہے باقی رہی من دونہ کی ضمیر تو اس کو ما انزل کی طرف پھیرنا کھلی ہوئی جہالت یا کھلی ہوئی ہٹ دھرمی ہے ۔ ( لا تتبعوا من دونہ اولیاء ) میں لا تتبعوا کا مفعول اولیاء ہے یعنی جس کی طرف من دونہ کی ضمیر پھرتی ہے اسی کو اپنا ولی سمجھو اور اسی کے احکام کا اتباع کرو ، اسی کے بھیجے ہوئے رسول کا اتباع کرو اس کے سوا دوسروں کو اپنا ولی بنا کر ان کا اتباع نہ کرو ۔ قرآن کو ولی نہیں بنایا جاسکتا ۔ ولی وہی ہوگا جو علم و ارادہ اور قدرت و قوت والا ہو جو ولایت کا حق ادا کرسکے اور ظاہر ہے کہ قرآن مجید علم و ارادہ اور قدرت و قوت والا نہیں ہے ۔ جو ولایت کا حق ادا کرسکے اسی لیے قرآن مجید میں قرآن مجیدکے لیے ولی کا لفظ کہیں نہیں آیا جہاں آیا ہے اللہ کے لیے آیا ہے مومنین کا ولی اللہ ہے اور کفار کا شیطان ہے ۔
اَللّٰهُ وَلِيُّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا 
اللہ تعالیٰ مومنین کا ولی ہے ۔” ( بقرہ : ٢٥٧)
حضرت یوسف علیہ السلام نے دعا کرتے ہوئے فرمایا :
(اَنْتَ وَلِيّٖ فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ
تو میرا ولی ہے دنیا و آخرت میں ۔” ( یوسف : ١٠١)
( وَ اللّٰہُ وَلِیُّ الْمُؤْمِنِیْنَ )
مومنین کا ولی اللہ تعالیٰ ہے ۔” ( آل عمران : ٧٨ )
وَاللّٰهُ وَلِيُّ الْمُتَّقِيْنَ           19؀
تقویٰ والوں کا ولی اللہ تعالیٰ ہے ۔” ( جاثیہ :١٩)
اور بہت سی آیتیں ہیں ۔ غرض ولی کوئی صاحبِ عقل و علم و ارادہ و اختیار ہی ہوسکتا ہے ایک کتاب خواہ وہ کتاب اللہ ہی کیوں نہ ہو اس کو ولی قرار نہیں دے سکتے نہ کہہ سکتے ہیں اس لیے اس آیت کریمہ میں من دونہ کی ضمیر ربکم ہی کی طرف لوٹتی ہے جو شخص اس ضمیر کو ما انزل کی طرف پھیرے وہ جاہل ہے یا ہٹ دھرم یا معنوی تحریف کرنے والا ہے ۔
دوسری آیتِ کریمہ
وَاتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ مَعَهٗٓ  (اعراف : ١٥٧)
اور اتباع کرو اس نور کا جو ان کے ساتھ اتارا گیا ۔
یہاں النور سے عام طور پر قرآن مجید ہی مراد لیا جاتا ہے اگرچہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو وحی اور جس قسم کی وحی کسی نبی پر جب بھی نازل ہوئی تھی وہ نور ہی تھی ہر وحی ایک نورہے اس لیے اس آیتِ کریمہ سے بھی غیر قرآنی وحی کو خارج سمجھنا غلط ہے ۔ جب قرآنی آیتوں سے غیر قرآنی وحی کا وجود ثابت ہوچکا تو قرآنی و غیر قرآنی ہر قسم کی وحی اللہ تعالیٰ کا نازل کردہ نور ہے ۔ یہ بات دوسری ہے جب کسی اسم جنس کا ذکر ہوگا تو عموماً فرد اعظم و اہم کی طرف پہلے ذہن جائے گا کتاب اللہ ہر دوسری قسم کی وحی سے زیادہ اہم اور زیادہ واجب التمسک ہے اس لیے اس آیتِ کریمہ میں ( النور الذی انزل معہ ) سے قرآن مجید ہی کی طرف پہلے ذہن جائے تو حق بجانب ہے اس لیے کہ دوسری قسم کی ہر وحی کتاب اللہ کے تابع ہے ۔ اسی لیے تلاوت کا حکم صرف قرآن مجید وحی متلو ہی کا ہوا ۔ وحی غیر متلو کی تلاوت کا حکم نہیں ہوا وحی متلو کی حفاظت کا ذمہ اللہ تعالیٰ نے خود لے لیا اور اس کو ہر طرح محفوظ رکھا ۔ وحی غیر متلو کی حفاظت امت کے ذمے چھوڑ دی اورامت نے اس کی حفاظت کی ۔ اگلی امتوں کے ذمے کتاب اللہ وحی متلو اور سبیل المومنین سب کی حفاظت تھی چونکہ اگلی امتیں قومی امتیں تھیں ہر قوم میں نبی آتے تھے ان کا دین بھی قومی ان کی کتاب بھی قومی تھی ۔
جب پورے الناس کے لیے ایک نبی ، ایک کتاب اور ایک دین آگیا تو اب چونکہ نہ کوئی نبی آئے گا نہ کوئی نئی کتاب آئے گی اس لیے اس آخری کتاب کی حفاظت تو اللہ تعالیٰ نے خود اپنے ذمّہ رکھی اور نبی آخر الزماں پر جو وحی غیر متلو آئی تھی ان میں سے جو اہم دینی وحی تھی ان کو بھی قرآن مجید میں ذکر کرکے محفوظ کردیا گیا ہے باقی کل وحی غیر متلو اور سبیل المومنین کی حفاظت امت کے ذمے چھوڑ دی تاکہ یہ امت بھی اگلی امتوں کی طرح اپنی ذمہ داریوں کا خیال رکھے اور ذمہ داریوں سے بالکل آزاد نہ رہے اور اب چونکہ کوئی نبی نہیں آئے گا اس لیے جو کچھ وحی غیر متلو اور سبیل المومنین میں اختلافات اور کمی بیشی اور تبدیلی و تغیر پیدا ہوجائے اس کو کتاب اللہ کے ذریعے درست کرلیں اور دینی اختلافات کا فیصلہ کرلیں ۔
حواشی
(١)        کتاب میں تنوین وحدت تعظیمی ہے اس لیے ترجمہ میں عظمت کا اظہار کیا گیا ہر زبان میں وحدت تعظیمی ہوتی ہے ۔
(٢)         ذکریٰ چونکہ غیر منصرف ہے اس لیے اس پر تنوین نہیں آسکتی مگر تنکیر موجود ہے اور یہ تنکیر اس وحدت تعظیمی کی ہے ، جو کتاب میں تنوین کی صورت میں ہے اصل تو مفہوم تنکر و وحدت کا ہے ۔ تنوین تو تنکر و وحدت کی ظاہری علامت ہے ۔
(٣)       ما انزل الیکم من ربکم سے صرف قرآن مجید مراد لینا صحیح مان بھی لیں ، یہ اس لیے لکھا ہے کہ اگر نزل بہ الروح الامین اور نزلہ روح القدس کی حیثیت آپ جانتے ہیں تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ صرف وہی وحی معتبر ہو جس میں مفہوم اس کے الفاظ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جبریل لائے ہوں اور وہ وحی معتبر نہ ہو جس کا صرف مفہوم اللہ تعالیٰ کی طرف سے جبریل اپنے الفاظ میں لائے ہوں یا جس کے مفہوم کا القاء حضور کے قلبِ مبارک پر کیا ہو اور حضور علیہ السلام نے اپنے الفاظ طیبہ میں اس مفہوم کو ادا فرمایا ہو ۔ نزل بہ الروح الامین اور نزل روح القدس توتینوں قسم کی وحی ہوئی فانہ نزلہ علی قلبک باذن اللہ کی نوعیت تینوں قسم کی وحیوں میں موجود ہے اس لیے صرف قرآن مجید کے منزل من اللہ ماننے پر اصرار اور باقی دونوں وحیوں کے منزل من اللہ ہونے سے انکار تو جائز نہیں خصوصاً جب ان دو قسم کی وحیوں کا ثبوت بھی قرآن مجید سے مل رہا ہے ۔ یہ صحیح ہے کہ اصل وحی کتاب اللہ ہے اس کے علاوہ جتنی قسم کی وحی بھی ہوئی وہ کتاب اللہ کے تابع ہے اس لیے نزل بہ اور نزلہ کی ضمیر مجرور و مفعولی قرآن مجید ہی کی طرف پھرتی ہے اس لیے کہ ان آیات کریمہ کے مخاطب منکرین تھے ان سے اصل کتاب کو منزل من اللہ منوانا تھا جو کتاب پر ایمان لے آئے گا وہ ایسی ہی ہر چیز پر ایمان لے آئے گا جو کتاب سے ثابت ہو غیر کتابی وحی تو مومنین کے لیے ہے کہ نہ کہ منکرین کے لیے ۔جو لوگ مصلحةً صرف قرآن مجید کے الفاظ پر ایمان کا زبان سے اقرار کرتے ہیں مگر مفہوم ہر آیت میں اپنا ٹھونستے ہیں انکے نزدیک تو اللہ تعالیٰ نے صرف الفاظ بے مفہوم نازل کیے ہیں جو اپنا کوئی مفہوم ہی نہیں رکھتے تو جن کے نزدیک اللہ نے نازل ہی نہیں فرمایا وہ صرف مفہوم والی وحی کو منزل من اللہ کس طرح تسلیم کریں گے اس لیے وہ کوئی آیت بھی جب لکھتے ہیں تو ا سکا لفظی ترجمہ لکھ کر اگر مفہوم لکھیں تو ہر اردو داں ترجمہ اور مفہوم کو ملا کر سمجھ لے گا کہ یہ مفہوم جو بیان کیا گیا ہے واقعی اس آیت کریمہ کا صحیح مفہوم ہے یا نہیں ؟ اس لیے جب لکھیں گے تو بغیر لفظی ترجمہ کے آیت لکھ کر صرف مفہوم لکھیں گے مگر ان کو خوب یاد رکھنا چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ نے صاف صاف لفظوں میں فرمادیا ہے ۔:
( اِنَّ الَّذِیْنَ یُلْحِدُوْنَ فِیْ اٰیٰتِنَا لَا یَخْفَوْنَ عَلَیْنَا ) ۔
یہ مضمون جریدہ "الواقۃ” کراچی، شمارہ (٤ ) رمضان المبارک 1433ھ/ جولائی ، اگست 2012 سے ماخوذ ہے۔

المغراف فی تفسیر سورۂ ق 4


جریدہ "الواقۃ” کراچی شمارہ ٤، رمضان المبارک 1433ھ/ جولائی، اگست 2012

مولانا شاہ عین الحق پھلواروی رحمہ اللہ

تسہیل و حواشی :محمد تنزیل الصدیقی الحسینی

قسط نمبر ٤ 

اور رسول اللہۖنے فرمایا :

 ” ما شی اثقل من میزان المؤمن یوم القیٰمة من خلق حسن و انّ اللّٰہ لیبغض الفاحش البذی ۔”رواہ الترمذی (١) عن أبی الدرداء رفعاً ” یعنی

” مسلمان کے ترازو میں قیامت کے دن عمدہ اخلاق سے زیادہ بھاری کچھ نہ ہوگا اور اللہ تعالیٰ نفرت رکھتا ہے بدکار کج خلق سے ۔” اس کو ترمذی نے ابی درداء سے ]مرفوعاً[روایت کیا ہے ۔

( چہارم ) آفتاب بھی من جملہ ستاروں کے ایک ستارہ ہے ، مگر جس قدر روشنی ، حرارت ، منفعت اور تأ ثر آفتاب میں ہے دوسرے ستاروں میں ہر گز نہیں ، بلکہ سب کے سب اس کے آگے ہیچ اور کالعدم ہیں ، اور جو کچھ بھی رکھتے ہیں ، تو آفتاب ہی کی بدولت ۔ اسی طرح سے زمین میں ہزاروں انسان ہیں اور ہر انسان بجائے خود زمین کی زینت ہے مگر انبیاء اور خاص کر ان میں سے ہمارے پیغمبر ۖ مثلِ آفتاب کے ہیں ، اور انہیں کی ضیاء و نور سے سب روشنی حاصل کرتے ہیں ، اور سارے انسان اور ان کے کمالات آپ ۖ کے سامنے اور آپ ۖ کے کمالات کے سامنے منعدم] ناپید ، غیر موجود[اور نیست ]فنا و نابود[ ہیں ۔

( پنجم )آسمان میں دن کو ایک خاص رنگ و روپ ہوتا ہے ،جو شام کے آنے سے متغیر ہونے لگتا ہے ۔ یہاں تک کہ جب پوری شب ہوجاتی ہے ، دن کے سارے سامان درہم برہم ہوجاتے ہیں اور ایک نئے سامان اور خاص طور سے آسمان میں ایک مجلس ستاروں سے ترتیب دی جاتی ہے ۔ پھر یہ حالت صبح کے آنے سے بدلنے لگتی ہے ۔ یہاں تک کہ جب اچھی طرح سے دن ہوجاتا ہے ، کل کی سما بعینہ عود ]لوٹ[ کر آتی ہے ، جس میں گزشتہ دن سے سرمو فرق نہیں ہوتا پھر رفتہ رفتہ شب ہوتی ہے ، اور گزشتہ شب کی پوری حالت عود کر آتی ہے ۔ ان انقلابات روز مرہ اور اعادئہ معدومات ]گزر جانے والے امر کو لوٹانا[ کو جو اللہ بڑی آسانی کے ساتھ کرتا ہے ، وہ اعادئہ روح اور احیائے موتیٰ پر قادر ہے اور اس کے آگے

(ذٰلِکَ رَجْع بَعِیْد) (٢) ] سورہ ق: ٣

کہنا خود جائے تعجب اور بعید ہے ۔

( ششم ) شب کو آسمان میں ہزاروں ستارے نظر آتے ہیں ، اور ہر ستارہ اپنی اپنی جگہ پر آسمان کی رونق و زینت ہے اور نور و ضیا میں کامل ہونے کی وجہ سے گویا  انا المضیُّ انا النّور و انا زینة الافلاک (٣) کا دم بھرتا ہے ۔ ان کے اختلاف سمت و قد و قامت و لون ]رنگ[ و ہئیت گھنے اور بکھرے ہونے کو غور سے دیکھے تو عجیب دلکش نظارہ معلوم ہوتا ہے ۔ ارباب ہیئت آلات رصد کے ذریعہ سے عجائبات سماوی کو بچشم سر خود دیکھتے ہیں اور صنعت کردگار کی داد دیتے ہیں ، مگر صبح ہوتے ہی آفتاب نکلتا ہے اور سارے ستارے اپنی اپنی جگہ سے غائب ہوجاتے ہیں ، اور سارا بساطِ شب الٹ جاتا ہے ۔ تمام آسمان میں صرف ایک آفتاب ہی کی روشنی نظر آتی ہے اور شب کے مدعیانِ نور و ضیا سے گویا بہ زبانِ حال پوچھتا ہے  این القمر و ضیاؤہ ، این عطارد و این مریخ و این الشھب الثواقب لمن النّور الیوم غیری  (٤) مگر کوئی نہیں جو دم مارے ۔

علیٰ ہذا المثال بروزِ حشر جناب باری تعالیٰ زمین پر رونق افروز ہوگا ، اور ساری جمعیت اور ملک و ملک کا خاتمہ ہوجائے گا ، اور صرف ایک ذات پاک باری میں منحصر رہے گا ، اس وقت فرمائے گا :

 (  لِّمَنِ الْمُلْکُ الْیَوْمَ لِلّٰہِ الْوَاحِدِ الْقَہَّارِ ) (٥)  ] سورہ غافر: ١٦[

 أین الملوک الارض ۔(٦) غرض آسمان کی مجموعی حالت ذاتی و صفاتی یعنی وجود و ارتفاع و زینت و وسعت دیکھو تو خداوندِ تعالیٰ کے کمالِ قدرت و غایت صنّاعی و تدبیر و حکمت کی دلیل ہے اور ہر ایک کو علیحدہ علیحدہ غور کرو تو ہر ایک بالاستقلال دلیل ہے
( وَ الْأَرْضَ مَدَدْنَاہَا )  ” اور میں نے زمین کو پھیلایا ”
جس کی فراخی و وسعت کی وجہ سے اب تک اس کی انتہائی حدود کا ٹھیک اندازہ نہیں ملا ۔

حواشی
(١)        سنن الترمذی : کتاب البر و الصلة ، باب حسن الخلق ۔امام ترمذی نے اس حدیث کو حسن صحیح قرار دیا ہے ۔ شیخ البانی کے مطابق یہ حدیث صحیح ہے ۔
(٢)         ” پھر یہ دوبارہ واپسی ناممکن ہے ۔ ”کفار نے بعید کا لفظ اپنی دانست میں ناممکن کے معنوں میں استعمال کیا تھا ۔
(٣)         ہم چمکا دینے والے ہیں ، ہم روشنی ہیں اور ہم آسمان کی زینت ہیں ۔ ( مؤلف )
(٤)         کہاں ہے چاند اور اس کی روشنی ، کہاں ہے عطارد ، کہاں ہے مریخ اور کہاں ہیں شہاب ثاقب جن کے لیے روشنی ہے ، جو آج موجود نہیں ۔
(٥)         ” کس کے لیے ہے آج کے دن کی بادشاہی ، صرف اللہ غالب کے لیے ۔”
(٦)         کہاں ہیں زمین کے بادشاہ ۔

[جاري ہے۔۔۔۔۔]
یہ مضمون جریدہ "الواقۃ” کراچی کے شمارہ، رمضان المبارک 1433ھ/ جولائی، اگست 2012- سے ماخوذ ہے۔ 
یہ مضمون جریدہ "الواقۃ” کراچی کے پہلے شمارہ، – جمادی الثانی 1433ھ / اپریل، مئی 2012- سے قسط وار شائع ہو رہا ہے۔ 

تصوف میں غیر اسلامی ادیان کی آمیزش ٣


جریدہ "الواقۃ” کراچی شمارہ ٤، رمضان المبارک 1433ھ/ جولائی، اگست 2012  

 

محمد عالمگیر 

مترجم : ابو عمار محمد سلیم

اسلام کی تکمیل قطعی ہے

اوپر درج شدہ آخری جملہ حضور نبی کریم خاتم المرتبت ۖکے نبی آخر ہونے اور قرآن کے اس اعلان پر بڑی شدید ضرب پڑتی ہے:

” آج کافر لوگ تمہارے دین ( کے مغلوب ہونے) سے نا امید ہو گئے ہیں، لہٰذا ان سے مت ڈرو، اور میرا ڈر دل میں رکھو۔ آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا، تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے لیے اسلام کو دین کے طور پر (ہمیشہ کے لیے) پسند کر لیا ( لہذٰا اس دین کے احکامات کی پوری پابندی کرو) ۔” سورة مائدہ  (٣:٥)۔

اس حقانی دعوے کے بعد یہ بھی ایک عجیب بات ہوئی کہ لوگوں نے اللہ کے دئے ہوئے نام اسلام کو بھی تبدیل کرلیا۔ یہ بات کیسے قابل قبول ہو اگر یہ کہا جائے کہ جنہوں نے ایسا کیا انہوں نے کوئی ایسا غلط کام بھی نہیں کیا۔ اور یہ بھی صحیح ہے کہ ان کے عقائد اور اعمال کسی طور بھی اسلامی عقائد اورنظریات کے قریب بھی نہیں پھٹکتے۔ اللہ نے ان کا نام ہندو ، بدھ ، عیسائی اور یہودی نہیں رکھا ہے۔ بلکہ اللہ تو یہ کہتا ہے کہ:

” اُس نے پہلے بھی تمہارا نام مسلم رکھا تھا، اور اِس ( قرآن ) میں بھی، تاکہ یہ رسول تمہارے لیے گواہ بنیں، اور تم نوع انسان کے لیے گواہ بنو۔” سورة الحج ( ٧٨:٢٢ )۔

بے شک ہم اس بات کے گواہ ہیں کہ نوع انسان نے اسلام قبول کرنے سے ا نکار کیا، مگرجس کی عبادت وہ خود کرتے ہیں اسی کا دیا ہو ا دین کامل اختیار کرنے سے منکر ہیں۔ بلکہ وہ تو مسلم نام سے ہی چڑتے ہیں اور مسلمانوں کو برداشت ہی نہیں کر سکتے۔ اللہ باری تعالیٰ سیدنا حضرت ابراہیم علیہ اسلام کے بارے میں کہتا ہے:

 ” اور ابراہیم نہ یہودی تھے، نہ نصرانی، بلکہ وہ تو سیدھے سیدھے مسلمان تھے اور شرک کرنے والوں میں کبھی شامل نہیں ہوئے۔” سورة  آل عمران ( ٦٧:٣) ۔

اور دیگر تمام انبیاء و رسل بھی ایسے ہی تھے۔ انہوں نے بھی اسلام سکھا یا اور وہ خود بھی مسلم تھے ۔ مگر اسلام کے متعلق ان بزرگوں کے نظریہ کو بھی تبدیل کردیا گیا اور نام کو بھی۔  اس لیے اسلام کو وہ آخری پیغام ہی قابل قبول ہے جو بغیر تبدیلی و تحریف کے ہے اور جس کے لیے اللہ نے فرمایا:

” بے شک اللہ تعالیٰ کے نزدیک دین اسلام ہی ہے۔ اور اہل  کتاب نے اپنے  پاس علم آجانے کے بعد آپس کی سرکشی اور حسد کی بنا پر ہی اختلاف کیا ہے اور اللہ تعالیٰ کی آیتوں کے ساتھ جو بھی کفر کرے اللہ تعالیٰ اس کا جلد حساب لینے والا ہے۔” سورة آل عمران ( ١٩:٣)۔

چند عام تنقید

اوپر دئے گئے بیان کو پڑھ کر وہ لوگ جو ان صوفیا کے طریقوں کے حامی ہیں شائد کچھ کبیدہ خاطر ہوں اور یہ کہیں کہ لازمی نہیں ہے کہ یہ باتیں صحیح ہوں۔ ان کی یہ سوچ ان کو مابعدالطبیعیات کے دلدل میں کچھ اور اندر دھنسا دے گی۔  اور وہ یہ سمجھتے رہیں گے کہ صرف وہ لوگ ہی صحیح ہیں اور چیزوں کو درست طریقہ سے سمجھ رہے ہیں۔ ان کی یہ ناسمجھی ،  کم علمی اور کم فہمی کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے وہ یقیناً اپنے آپ کو راسخون فی العلم  اور  اولی الالباب   سمجھتے رہیں گے۔ اپنے آپ کو روحانی علوم کے بڑے ماہرین میں گردانیں گے گو یا کہ انہیںمتشابہات کا علم حاصل ہو گیا ہے۔  حقیقت تو یہ ہے کہ اس ضمن میں جو کچھ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے وہ انہوں نے سمجھا ہی نہیں:

 ”اب جن لوگوں کے دل میں ٹیڑھ ہے وہ ان متشابہ آیتوں کے پیچھے پڑے رہتے ہیں تاکہ فتنہ پیدا کریں اور ان آیات کی تاویلات  تلاش کریں۔” سورة آل عمران (٧:٣)۔ 

کچھ لوگ یہ الزام لگائیں گے کہ یہ بیان کچھ زیادہ ہی عقلیت پسندانہ ہے۔  بے شک یہ درست ہے، اس لیے کہ وحی کی روشنی میں جو عقلیت ہو وہ انتہائی پسندیدہ ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ حق اپنی نشانیوں سمیت جب نازل ہو جائے، تو پھر عقل اور سمجھ کے زور پر حقیقت کو حاصل کر لینا بعید نہیں ہے۔ قرآن مجید نے  تدبر اور سوچ و بچار کے الفاظ تو کئی مرتبہ استعمال کیے ہیں،  مثلاً:

 ” بھلا کیا یہ لوگ قرآن پر غور نہیں کر تے، یا ان کے دلوں پر تالے پڑے ہوئے ہیں ؟” سورة محمد (٢٤:٤٧)۔

 پھر  دیکھئے لفظ تفکّر کو:

” اسی طرح اللہ تمہارے لیے اپنی آیتیں کھول کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ تم غور کرو۔”سورة البقرہ  (٢٦٦:٢)۔

اور پھر لفظ عقل کو ٤٩ طریقے سے استعمال کیا گیا ہے، مثلاً:

” اور حقیقت یہ ہے کہ شیطان نے تم میں سے ایک بڑی خلقت کو گمراہ کر ڈالا۔ تو کیا تم سمجھتے نہیں؟ ” سورة یٰسین  (٦٢: ٣٦)۔

مختصراً یہ کہ وحی اور الہام کے دائرہ کے اندر رہتے ہوئے سو چ و بچار اور وضاحت کا عمل اللہ سبحانہ’ و تعالیٰ کی عطا کردہ ایک نعمت ہے، اور اسی کو استعمال کرتے ہوئے حق کو سمجھنا اور جاننا چاہئے۔ اور یہ سفر اوپر سے نیچے کی جانب ہوتا ہے جس میں سب سے اوپر وحی ہے اور اس کی ہدایت کی روشنی میں نیچے آتے ہوئے تمام جزئیات اپنی انتہائی تفصیل میں درست اور مکمل طور سے واضح ہو جاتی ہیں۔ اس کے بالمقابل clecticism, syncretismاور اس سے بھی آگے بڑھ کر شیخ عبدالواحد کاsynthetic unity کا نظریہ بھی اسی غور و خوض کا نتیجہ ہے، جو مابعدالطبیعیات کے دائرہ اثر کی پیداوار ہے اور اسی لیے کبھی بھی وحی کی سچایئوں تک نہیں پہنچتا ہے۔ مابعدالطبیعیات کے زیر اثر سوچ و بچار کا سفر نیچے سے اوپر کی جانب ہوتا ہے جو دشوار بھی ہے اور اس میں چوٹی ہمیشہ بادلوں سے ڈھکی رہتی ہے۔ اس لیے گم ہو جانے کا خطرہ ہوتاہے۔ اسی لیے اس راستہ کے تمام مسافر ایسی کوڑی لائے ہیں جو دوسروں سے سراسر ممیز ہوتی ہیں۔ما بعدالطبیعیات کے تمام پیرو کار اس بات کا اظہار کیے بغیر یہ یقین رکھتے ہیں کہ اللہ کے دل میں جو کچھ بھی ہے وہ انہیں معلوم ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے دل میں جو کچھ بھی ہے اس کا علم صرف اللہ ہی کو ہے۔ اور جب تک اللہ جل شانہ’  خود آشکارہ نہ کر دیں کہ ان کی مرضی کیا ہے اور وہ کیا چاہتے ہیں کسی کے بھی بس میں یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ جان لے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کیا سوچ رہے ہیں یا کیا چاہ رہے ہیں۔
 یہ خیال ذہن میں پیدا ہوتا ہے کہ آخر ان تمام صوفی مشائخ اور علماء نے syncretismکی راہ کیوں اختیار کی۔ کیا یہ ممکن ہے کہ ان لوگوں کا سفر چونکہ عیسائیت، بدھ ازم اور خاص طور پہ ویدک ہندو ازم وغیرہ سے ہو کر گزرا تو انہوں نے ان تمام مراحل سے گزرتے ہوئے جو مواد اکٹھا کیا وہ آخر میں آکر رد کر دینے کی بجائے اس سے پیچھا نہ چھڑاسکے،  اور اسے سمیٹ کر رکھ لیا۔ تو کیا قصہ یہی ہے یا جو نظر آرہا ہے اس کے آڑ میں کچھ اور ہے؟ اس لیے کہ ان لوگوں کی سوانح عمری کا جائزہ لیا جائے تو نظر آتا ہے کہ یہ لوگ ان خفیہ تنظیموں  مثلاً قاہرہ، لندن ، پیرس کے فری میسن لاج وغیرہ سے منسلک رہے ہیں، جو یقیناً باطل افکار سے بھری پڑی ہیں۔ اس بات کا حتمی فیصلہ تو نہیں ہوسکتا مگر ضروری ہے کہ محتاط رہا جائے اور اس ضمن میں مزید شواہد تلاش کیے جائیں۔ اور بالفرض یہ درست ثابت ہو بھی جائے تو ایک راسخ العقیدہ مسلمان پر اس کا کوئی اثر نہیں ہونا چاہئے۔ اور اگر ان لاجز کی طرف سے کوئی ایسی خفیہ تحریک ہورہی ہے جو مسلمان نوجوانوں کو ایک ایسی معاشرتی زندگی کی طرف لے جا رہی ہے جو اطاعت شعاری اور میل جول سے دور کر رہی ہے ، تو اللہ خالق کائنات کا یہ انتباہ یاد رکھنا چاہئے :

” یہ لوگ یہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنے منہ کی پھونکوں سے بجھا دیں، حالانکہ اللہ کو اپنے نور کی تکمیل کے علاوہ ہر بات نا منظور ہے، چاہے کافروں کو یہ بات کتنی ہی بری لگے۔”سورة توبہ ( ٣٢:٩) اور سورة صف  (٨:٦١)۔

مریمیہ طریقہ

مختلف دینی افکار کو یکجا کرنے والوں کا طریقہ کار ان کے اس امتیازی نشان  یا مریم علیک ِالسلام میں بھی ملتا ہے۔ یہ نعرہ مصر کے ایک قِبطی حمد سے ماخوذ ہے، اور ایک ایسے خوش نویسی (calligraphy) میں لکھا جاتا ہے جو پڑھنے میں بہت دشوار ہو۔ یہ نشان شیخ ابو بکر سراج الدین کے پیروکارفریم کرا کے دیواروں پر لٹکاتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سیدنا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ ماجدہ  حضرت مریم علیہا السلام کا تذکرہ قرآن مجید جس انتہائی احترام سے کرتا ہے اسی احترام سے وہ دیگر رسولوں اور پیغمبروں کا ذکر بھی کرتا ہے ۔ حالانکہ حضرت مریم علیہا السلام نہ تو پیغمبروں میں سے تھیں اور نہ ہی مبلغ یا استانی۔ اس میں بھی اشتباہ ہے کہ ماضی میں کوئی بھی سلسلہ طریقت کسی پیغمبر کے نام نامی سے منسوب ہوا ہو۔ عموما ًصوفیائے کرام نے سلسلوں کا نام ان مشائخ کے نام پر رکھا ہے جنہوں نے وہ سلسلہ شروع کیا اور ابتدا کی۔ شیخ عیسیٰ نور الدین احمد نے   ١٩٦٥ء میں یہ دعویٰ کیا کہ مراکش اور فرانس کے پورٹ وِنڈِرِس کے درمیان کشتی کے ایک سفر کے دوران رحمت الٰہی نے ان کے اوپر خصوصی طور پر ایک نسوانی شکل میں غلبہ کیا اور ان کو یہ ادراک حاصل ہوا کہ وہ نسوانی حیثیت حضرت مریم علیہا السلام کی تھی۔ بعد میں شیخ نے حضرت مریم کے اس طرح ظاہر ہونے سے یہ مطلب اخذ کیا کہ انہیں آسمانوں کے عالم بالا میں قبول کر لیا گیاہے۔ اور پھر انہوں نے لفظ مریمیہ اپنے طریقہ کے نام کے ساتھ شامل کرلیا تاکہ اس کو شمالی افریقہ کے عَلوی طریقت سے ممتاز کیا جا سکے۔
 
اس طریقت کے لوگوں کو یہ تعلیم دی جاتی ہے کہ حضرت مریم علیہا السلام ان کی Patron Saint یعنی مربی اور سرپرست ولیہ ہیں۔ عیسائیت میں  Patron Saint  ایک ایسی ہستی ہوتی ہے جس کی حفاظت میں کسی شخص، یا جگہ ،  یا معاشرہ، یا کوئی چرچ مختص کردیا جاتا ہے۔ ایسا کرتے ہوئے اس بات کو مد نظر رکھا جاتا ہے کہ اس شخص کے ساتھ کسی قسم کا تعلق ضروررہاہو۔ چوتھی صدی عیسوی تک ایسا ہو تا تھا کہ کسی ایک شہید کو کسی جگہ کا متولی یا Saintمقرر کر دیا جاتا تھا جو اس جگہ سے کسی قسم کا تعلق رکھتا تھا۔ تجارت اور پیشے میں بھی مربی اور سرپرست مقرر کیے جاتے تھے۔ اور ہر بیماری کے لیے بھی ایک خاص Saint  کو مدد کے لیے پکارا جاتا تھا، تاکہ وہ اس بیماری سے نجات دلا دے۔ مثلاً Saint Patrick  کو آئر لینڈ کا مربی مانا جاتا ہے اس لیے کہ اسی نے وہاں عیسائیت کی پرچار کی تھی۔ اس کے علاوہ اور بھی دیگر مشہور مربیوں میں اسکاٹ لینڈ کے سینٹ انڈرو، فرانس کے سینٹ ڈینس، انگلستان کے سینٹ جارج، روس کے سینٹ نکولس، ہنگری کے سینٹ اسٹیفین وغیرہ ہیں۔ اب کوئی بھی سمجھ سکتا ہے کہ حضرت مریم علیہا السلام کیوں اس طریقہ کی مربی یا سینٹ ہیں۔
 
اسSyncreticیا مخالف دینی معتقدات میں مصالحت پیدا کرنے والے لوگوں کی ذ  ہنی سوچ کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ سید حسین نصرنے جو کہ ایک شیعہ عالم ہیں، اور روایتی افکار کے پیروکار ہیں ، اور زندگی بھر شیخ عیسیٰ  نور الدین کی شاگردی میں رہے،  اپنی ایک کتاب کے انتساب کے صفحہ پر اس Logoیا امتیازی نشان کو ڈالا ہے۔ یہ حقیقت ایک اور جہت کی طرف اشارہ کر رہی ہے جو اسلام کے ساتھ مخالف دینی اعتقادات کے درمیان اتحاد پیدا کرنے کی کوشش ہے۔ یہاں یہ واضح ہو جاتا ہے ایسے لوگ  اُن تمام روایات کو چھوڑنے کو تیار نہیں جنہیں اسلام نے انتہائی واضح الفاظ میں رد کر دیا ہے۔ تو پھر وہ کون سی ایسی بات ہے جو ان تمام مختلف روایات کے حامیوں کو باہم جوڑتی ہے؟ وہ ہے، ان روایات کی مرکزی شخصیات کو معبود ٹہرانا۔  ہندئووں، عیسائیوں اور شیعہ مسلم نے اسی کو باہم اپنا لیا ہے۔  ان مذاہب میں کرشنا ، عیسیٰ اور علی ، تفاصیل میںصرف کچھ درجہ میں ایک دوسرے سے مختلف ہیں مگر اصل میں ایک ہی ہیں، یعنی ان ہستیئوں میں خدائی موجود ہے ۔ اور ایسا ہونے کی وجہ سے یہ مذاہب ایک دوسرے میں مدغم ہونے کے لیے تیار ہیں۔ پہلے باہم یکجا ہوکر، اور پھر اتصال سے ایک مرکب کیمیائی بن کر یک جان ہوجانا ان کا  مقصد اور ہدف ہے ۔
 
اسلام اسی دائمی کفر (perennial blasphemy)  کو ختم کرنے کے لیے آیا ہے۔ جو یہ سمجھے کہ یہ روایات پوری دنیا میں ایک قابل قبول حقیقت ہیں تو وہ یہ جان لے کہ اسلام کا اس میں کوئی حصہ نہیں ہے۔ایک انتہائی درجے کی خطرناکیت کے باوجود خود سیدنا حضرت علی کرم اللہ وجہ ‘ کی حیات مبارک میں ہی ان کو اللہ کا درجہ دینے کی کوشش اس لیے کی گئی کہ اسلام کو ایک روایتی مرتبہ دے دیا جائے۔  عبداللہ ابن سبا نامی ایک یہودی اس پھوٹ ڈالنے کی تحریک کا سربراہ تھا، جس نے ایک اور یہودیPaul  یا پولس کے نقش قدم پر چل کر یہ کام کیا اور بالکل اسی طرح کیا جس طرح چھ سو سال پہلے پال نے عیسائیت میں تثلیث کا عقیدہ ایجاد کیا تھا، اور یوں عیسائیوں میں ایک مستقل جھوٹ کی بنیاد رکھ  دی۔
 

کیا احتجاج کی وجہ تلخی ہے؟

 کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ یہ مصالحت پیدا کرنے والے صوفیا اپنے خلاف ہونے والے احتجاج کو تلخی اور درشتگی سے تعبیر کر تے ہیں۔ سید حسین نصر اپنی کتابThe Heart of Islam   میں احتجاجی سرگرمی کے بارے میں لکھتے ہیں:

” یہ ایک ایسی چیز ہے جس میں لوگوں کو نا انصافی کے زخموں کو کریدنے میں مزا آتا ہے ،کسی بھی با مقصد فیصلہ کی شکل بگاڑ دیتا ہے اور ہر چیز کو تلخی سے بھر دیتا ہے۔ اگر اس بیان کو ماہ محرم الحرام میں شیعہ حضرات کا سینہ کوبی کرنے اور اسی طرح کی دوسری چیزوں کے تناظر میں دیکھیں تو بالکل درست نظر آتا ہے۔ اگر کفر اور بدعت کی نشاندہی کرنے والی مخلصانہ کوششوں کو تلخی پیدا کرنے کے زمرے میں ڈال کر نظر انداز کردیا جائے تو یہ غلطی اور خطا کا احساس پیدا کرنے کی جانی بوجھی کوشش ہو گی۔”

 
Frithjof Schuon یعنی شیخ عیسیٰ نورالدین نے جب یہ کہا کہ:” تلخی جہنم میں لے جاتی ہے۔” تو یقیناً انہوں نے ایک بڑا سخت فیصلہ سنا دیا۔ کیا ایسی کوئی بات اتنے شد ومد سے کہی جا سکتی ہے؟ انہوں نے مزید کہا کہ:”آج کل مسلمان آزردگی اور تحقیر کے مسلک میں الجھ کر ایک دوسرے پر کیچڑ اچھال رہے ہیں۔ ”اس سے کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکلتا سوائے بدنامی، نامردی اور کمزوری کے۔ سوال یہ ہے کہ،  کیا یہ بیان نادانستگی میں دیا گیا ہے یا عادتاً؟ حقیقت یہ ہے کہ تلخی کی وجہ سے کمزوری اور نا مردی پیدا ہو یا نہ ہو مگر اس فرضی تلخی کے احساس کو سچ مان لینایقیناً کمزوری پیدا کر دے گا۔ ایسا الزام لگانے سے مورال (morale) یقیناً نیچے گرے گااور شائد ایسے بیان دینے کا مقصد بھی یہی ہے۔  ہم اگر شیخ صاحب کے الفاظ کے چنائو کو نظر انداز بھی کردیںتو صرف یہ کہا جا سکتا ہے کہ آج کل کے مسلمان جن حالات سے دوچار ہیں اس میں صرف کوئی کمزور اور نامرد ہی خاموش رہ سکتا ہے۔ اور اس میں کوئی احساس ہی پیدا نہیں ہوگا۔  کافی عرصہ سے مسلمان چاروں طرف سے ایک شدید شکنجہ میں جکڑتے چلے جارہے ہیں اور کسی طرف سے کوئی راہ فرار نہیں مل رہی ہے۔ اور اب ایسے صوفی شیخ کے گھس آنے کی بدولت مسلمانوں کے اندر ایک اندرونی شکست و ریخت کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔
 
ایک صحیح العقیدہ مسلمان اس حدیث مبارک سے روشنی حاصل کرے گا جس میں فرما یا گیا :

” تم میں سے جو کوئی بھی برائی کو دیکھے تو اس کو اپنے زور بازو سے ختم کرنے کی کوشش کرے، اور اگر ایسا نہ کرسکے تو اس کے خلاف آواز اٹھائے اور یہ بھی نہ کرسکے تو اپنے دل میں اس کو برا جانے اور یہ ایمان کا کم ترین حصہ ہے۔”(صحیح مسلم)۔

اس لیے جھوٹ اور ہر قسم کی نا انصافی  کے خلاف آواز اٹھانا ہی اصل سیاست ہے ، اور ان کو راستہ سے ہٹاکر ختم کردینا اس بات کی گواہی ہے کہ صحیح اور غلط، رحمانی اور شیطانی چیزوں کے درمیان حد فاضل قائم کر دی گئی ہے۔مگر ان جدید صوفی حضرات کے نزدیک یہ تمام اعمال رسمی ہیں کیونکہ ان کے نزدیک یہ عمل صرف کیچڑ اچھالنے کے برابر ہے۔ اس لیے اگر آپ استحصال کے خلاف کوئی کارروائی کریںتو آپ دہشت گرد  قرار دئے جاتے ہیں۔ اگر آپ ان کے خلاف آواز اٹھائیں گے تو آپ انقلابی گردانے جائیں گے، اور ایمان کے کم ترین حصہ کا اظہار کر کے اس کو برا سمجھیں گے تو آپ تلخی پیدا کر رہے ہیں۔ اگر آپ استحصال کے خلاف ہوں یا نہ ہوں ، ہر دو صورتوں میں تباہی اور بربادی آپ کا مقدر ہے۔ ان  Syncretic  صوفیوں کی تو یہی خواہش ہے کہ آپ اپنے دانت نکلوا کر، ناخن کھنچواکر ایک بے ضرر کیچوے کی طرح رینگنا شروع کردیں ۔ اور اس عیسائی تعلیم کے مطابق عمل کریں، جس کے تحت اگرکوئی ایک طمانچہ مارے تو اپنا دوسرا گال بھی آگے کردو ، جبکہ پچھلے دو ہزار برسوں کی تاریخ میں آج تک کسی عیسائی نے اس پر خود عمل نہیں کیا ہے۔
 
اس بحث سے قطع نظر ، دنیا کے تمام مذاہب کا احترام کرتے ہوئے اس بات کا اقرار کیا جا سکتا ہے کہ دنیا کے ہر ایک گوشہ میں نصیحت آموز اور اخلاقیات کا پرچار کرنے والی  مذہبی کتابیں مل جائیں گی۔ اگر کوئی مسلمان ان کو پڑھے تو اسے یقیناً روح کی بالیدگی کا احساس ہوگا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ان تمام تعلیمات کا مقصد انسان کے اپنی ذات کی ترقی اور ترویج سے بڑھ کر نہیں ہے۔ جبکہ اسلام معاشرہ کے پورے ڈھانچہ کی ترقی کو کبھی نظر انداز نہیں کرتا۔ اوپر درج کی گئی حدیث مبارک اس بیان کی تائید اور توثیق کرتی ہے۔  اسلام نے اخلاص نیت کو سب سے زیادہ اہم قرار دیا ہے۔  یہی اس کے اقدار کی برتری کی وجہ ہے۔ اور اس اخلاص کے بغیر عیسائیوں کی Charity (یعنی محبت اور درگذر) ،  ہندوئوں کی Humility (یعنی صبر، نرمی اور اہنسا) اور پھر یہودیت کی Obedience (یعنی تفصیل کی طرف مکمل توجہ)  سب کی سب اپنی جگہ بے مصرف ، لا یعنی اور لا حاصل ہیں۔  دیکھا جائے تو عفو و درگزر، صبر و برداشت ، کامل بندگی اور سپردگی کو قرآن کی تعلیمات نے بھی بہت اہمیت دی ہے۔  مگر ان سب کی روح رواں صرف اخلاص نیت ہے۔ اس سے یہ نتیجہ بھی نکلتا ہے کہ نور اور ہدایت جہاں بھی ملتی دکھائی دے ، وہ نور اور وہ ہدایت اپنی انتہائی پاکیزہ اور بہترین قابل عمل شکل میں قرآن مجید فرقان حمید میں لازماً موجود ہے۔  اور پھر یہ قرآن کا ہی منہاج ہے کہ وہ ایسے اقدام کے دروازے کھول دے جو اس نور اور ہدایت کو اس کے انتہائی محاسن تک پہنچادے۔
 
بہر صورت اخلاقیات کے حوالے سے جو باتیں ان مذاہب میں قابل قدر ہیں ، مرکزی اعتقادات کے سلسلے میں  ویسا نہیں ہے ۔ یعنی ان مذاہب کے اصل اصول سے اسلام کا کوئی میل نہیں ہے۔ اور خصوصی طور پر اللہ اور تخلیق اور وجود سے اس کا تعلق کے بارے میں ان مذاہب کے خیالات قابل نفرت اور قابل رد ہیں۔ ماضی میں اللہ نے لوگوں کو ان کی اخلاقی گراوٹ پر کبھی کبھی سزائیں بھی دی ہیں۔ مگر اس رب کائنات نے اپنی ذات اعلیٰ میں کسی قسم کے شرک اور آمیزش کی کوشش کو معاف نہیں کیاہے۔ اس لیے ایسی کوئی بات جو اس کی ذات کو اس کی تخلیق میں گڈ مڈ کردے ، ہرگز  قابل معافی نہیں ہے۔ اور افسوس کہ ان صوفیاء نے یہی غلطی بار بار دہرائی ہے۔
 

حضرت مجدد الف ثانی   کا جہاد

اس گفتگو کے اختتام پر یہ بات مناسب معلوم ہوتی ہے کہ تاریخ کے صفحات پر نظر ڈال لی جائے اور حضرت مجدد الف ثانی کے اس جہاد پر نگاہ ڈال لی جائے جو انہوں نے اپنے دور کے Syncretic  صوفیوں کے خلاف کیں۔
 
حضرت شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانی ٩٧١ھ میں مغل شہنشاہ اکبر کے دور میں تولد ہوئے۔ تقریباً چالیس سال کی عمر میں انہیں بطور مجدد کے تسلیم کیا گیا جبکہ اکبر کی بادشاہت ابھی قائم تھی اور آ یندہ چار سال تک بھی باقی رہی۔  ان کی جوانی کے دن اکبر کی شہنشاہیت کے عروج زرین سے متصل رہا۔ اکبر نے اپنے رتنوں کی مدد سے ایک نئے دین ،  دین الہٰی کی بنیاد ڈالی جو کہ اپنے دور کے متعدد ادیان اور عقائد کا ملغوبہ تھا ۔ جس میں اسلام کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی۔  اس کے دین کی مرکزیت اس نعرہ میں تھی کہ لا الہٰ الا اللہ۔ اکبر خلیفة اللہ۔ محمد ۖرسول اللہ کے الفاظ کو اس نے اس لیے نکال دیا کہ اس کی رائے میں وہ نام ہزار سال کے بعد اب متروک ہوگیا ہے۔ اس کے دین میں دن میں چار مرتبہ سورج کی پوجا ہوتی تھی۔ عقیدہ تناسخ یا آواگون مذہب کا ایک لازمی حصہ تھا، عورتوں کے حجاب کو ختم کردیا گیا ، داڑھی رکھنا ممنوع ہو گیا تھا ، شراب کو حلال کردیا گیا تھا ، اسی طرح سود اور جوا کو بھی حلال جگہ عطا کردی گئی تھی۔ طوائف کے پیشہ کو با عزت طور پر بحال کر دیا گیا۔ شیر ، بھالو ، کتے اور بلی کاگوشت بھی حلال قرار پایا ۔ مگر گائے، بکری، اونٹ اور بھینس کا گوشت حرام ہوگیا۔ مساجد کو شہید کر کے ان کی جگہ مندروں کی تعمیر کی گئی۔ عربی زبان ، قرآن و حدیث کی تعلیم ممنوع قرار دی گئی۔ جنہوں نے احتجاج کیا انہیں ملک بدر کر دیا گیا۔ رمضان کے روزوں کا مذاق اڑایا گیا یہاں تک کہ روزہ داروں کو قتل کر دینے کی دھمکیاں بھی دی گئیں۔ شہنشاہ کے آگے حاضر ہو کر زمین کو بوسہ دینا احترام شاہی کے طور پر لازمی قرار پایا۔ 
 
من حیث المجموعی حضرت مجدد کو کئی فتنوں سے بہ یک وقت سامنا کر نا پڑا جن میں اول شہنشاہ اکبر، دوئم دنیا کے پروردہ علمائ، سوئم رافضی یعنی شیعہ مسلم ، اور آخر اً ہندو ، جین ،  عیسائی، پارسی شامل تھے۔ تصوف حقیقی کی شکل ہر قسم کی ضلالت گمراہی اور بدعات سے بگاڑ دی گئی تھی۔ ان کو ان تمام چیزوں کے خلاف آواز اٹھانے اور جہاد کر نے کی پاداش میں پہلے اکبر نے اور پھر بعد میں اس کے بیٹے جہانگیر نے، جو ١٠١٤ ھ میں ٣٨ سال کی عمر میں بادشاہ بنا اور بائیس برس حکومت کی، طویل مدت تک انہیں قید میں رکھا۔ جہانگیر نے آخر میں آکر توبہ کر لی تھی اور حضرت مجدد کے پیرو کاروں میں شامل ہوگیا تھا۔
 
حضرت مجدد الف ثانی نے مندرجہ ذیل مسائل پر بڑا سخت موقف اختیار کیا:
 
١۔شیعہ مسلمانوں کا عقیدئہ امامت اسلام کی شریعت کا حصہ نہیں ہے۔
 
٢۔حضرت ابو بکر  ، حضرت عمر  ، حضرت عثمان  اور حضرت علی کرم اللہ وجہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی بزرگی ان کی خلافت کے تسلسل کے مطابق ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہ’  نے خود فرمایا:  جو یہ کہے میں ابوبکر و عمر سے افضل ہوں تو میں اسے کوڑے لگائوں گا ایسے جیسے کہ چوروں اور فریبیوں کو لگتے ہیں۔ اسی لیے جو یہ کہے کہ حضرت علی حضرت ابو بکر سے افضل ہیں وہ جماعت اہل سنت سے خارج ہے۔
 
٣۔اللہ کی ذات کے ساتھ حلول اور اتحاد انتہائی نا پسندیدہ اقوال ہیں اور بڑی ضلالت اور گمراہی ہے۔
 
٤۔وحدت الوجود اور ہمہ اوست کی جو تحریک ابن عربی نے پیش کی تھی وہ عام لوگوں کی فہم و دانش کی گرفت میں نہیں آئی۔ یہ الفاظ حالت سُکر یعنی مدہوشی میںکہے گئے تھے جس کو کم فہم لوگوں نے اتحاد اور حلول سے تعبیر کیا اور بہت سی ضلالت اور گمراہی میں گرفتار ہوکر اللہ تبارک و تعالیٰ کی تمام تخلیق زمین و آسمان درخت شجر پتھر سب کو خدا بنا دیا۔
 
٥۔پیغمبر یہ بتانے کے لیے بھیجے گئے تھے کہ اللہ کی تمام تخلیقات غیر اللہ ہے۔ اللہ ان تمام سے بلند و بالا ہے۔ وہ اکیلا ہے اس کا کوئی ثانی نہیں۔ جو یہ نہ مانے وہ زندیق ہے،  ملحد ہے۔ ممکن کو واجب جاننا، تخلیق کو خالق سمجھنا، ممکن کی صفات اور کار کردگی کو اور اللہ کی صفات کو اللہ کی ذات سے بدل دینا ، اللہ کی اپنی حقیقت کو نہ ماننے کے برابر ہے۔
 
٦۔یہ عقیدہ کہ مخلوق اللہ کا عین ہے یا اس کا اللہ کے ساتھ الحاق ہو جائے گا ، غلط اور باطل ہے۔ اس دنیا یا کائنات کی کوئی چیز اللہ سے مماثلت نہیں رکھتی۔ وہ ان تمام چیزوں سے ورا ء الوراء ہے۔
 
٧۔کسی بھی لغو باتیں کرنے والے صوفی کے سحر میں گرفتار مت ہو جائو۔ وحدت الوجود اور ہمہ اوست کہنے  والے مشائخ کے نعرہ کا مطلب تھا کہ مخلوق کے اندر اللہ کی قدرتِ کاملہ اور اس کی طاقت کا اظہار ہے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس کا وجود اصل وجود ہے باقی سب کا وجود ظلّی ہے،  ممکن ہے، عارضی ہے ۔ ہمہ اوست کا مطلب یہ ہے کہ اس خالق کے علاوہ کسی اور چیز کی کوئی اپنی حقیقت نہیں ہے۔  ہمہ اوست سے مقصد ہمہ از اوست یعنی سب اسی سے ہے  کہنے کا تھا۔
 
٨۔منصور حلا ج نے کہا : انا الحق یعنی میں حق ہوں۔  بایزید بسطامی نے نعرہ لگایا : سبحانی ما اعظم شأنی یعنی میری بڑائی ہو، کیسی عظیم شان ہے میری۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ:  لوائی أرفع من لوائِ محمد یعنی میرا جھنڈا محمد ۖ کے جھنڈے سے اونچا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جیسے شریعت میںاسلام اور کفر موجود ہے، اسی طرح طریقت میں بھی اسلام اور کفر ہے۔  دونوں صورتوں میں اسلام ارفع و اعلیٰ ہے اور کفر قابل  حقارت و زندقہ ہے۔ اللہ کے ساتھ جَمْعْ یا الحاق طریقت میں بھی کفر ہے۔ جَمْع کے مقام پر حق اور باطل محو ہو جاتے ہیں کیونکہ طالب کو صرف اپنے محبوب کی خوبصورتی ہی نظر آتی ہے، خواہ وہ اسے اچھائی کے آئینہ میں دیکھے یا برائی کے۔  اس کے لیے یہ سب توحید کے ہی روپ ہو جاتے ہیں۔ اور یوں وہ ہر ایک کے ساتھ یکساں برابری رکھتا ہے اور سمجھتا  ہے کہ سب ہی درست راستہ پر ہیں۔ کبھی کبھی وہ گمان کرتا ہے کہ ان سب کا وجود خد ا بطور الظاہر ہی کا اظہار ہے، اور پھر عبد اور معبود میں کوئی فرق روا نہیں رکھتا۔ یہ سب مقا مِ     جَمْعْ سے متعلق ہے۔ طریقت میں یہ کفر ہے اور یہ سُکر یا بدتمیزی کے برابر ہے۔ اس لیے ایسے موقعوں پر ان کے  شطحیات کا لفظی مطلب لینے کی بجائے وہ مطلب سمجھنا چاہئے  جو شریعت میں قابل قبول ہو۔ انا الحق کا مطلب پھر یہ ہو  جائے گا کہ میں موجود نہیں ہوں بلکہ صرف اللہ موجود ہے۔  اگر ایسی باتیں وہ  لوگ کرتے ہیں جو کہ حق کے لوگ ہیں تو یہ ان کے لیے آب حیات ہے ، اور اگر یہ الفاظ گمراہ حضرات استعمال کریں تو یہ ان کے لیے زہر ہلاہل ہے۔ با لکل ایسے ہی جیسے سمندر کے دو حصہ ہو جانا بنی اسرائیل کے لیے رحمت اور فرعونیوں کے لیے قیامت تھا۔ در حقیقت اصحاب حق سُکر کی حالت میں بھی شریعت کو ذرہ برابر بھی ہاتھ سے نہیں جانے دیتے ، مگر اصحاب باطل سُکر کا بہانہ کر کے لغویات بکتے رہتے ہیں۔
 
٩۔بعض صوفی نے وحدت الوجود اور ہمہ اوست کا درست مطلب سمجھے بغیر اس پر عمل کیا ، جس کے نتیجے میں  انہوں نے کفر کو پھیلایا۔
 
١٠۔اللہ کسی کے ساتھ الحاق نہیں کرتا۔ جب صوفی کہتا ہے کہ ایک کامل فقیر کو فنا حاصل ہوتی ہے تو وہ یہ کہتا ہے کہ  اس کے نز دیک اللہ کے ماسوا کچھ بھی نہیں ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ اللہ کے ساتھ یک جان ہو گیا ہے۔
 
١١۔اگر کوئی ظاہر کو چھوڑ دے اور اپنے باطن کو مزین کرنے کی بات کرے تو وہ ملحد ہے۔ اگر اس کو کچھ کامیابی مل جائے تو وہ استدراج (دھوکہ) ہوگا۔ باطنی حالت اسی وقت بہتر ہو سکتی ہے جب وہ ظاہری حالت کو سنوار لے گا۔
 
١٢۔صرف علمائِ اہل سنت والجماعت کا اجتہاد درست ہے، بقیہ سب غلط اور سُکر ہے۔ وہ صوفیا جو اللہ سے الحاق کے لیے پورا زور صرف کرتے ہیں اور شریعت کو پامال کرتے ہیں، بے حقیقت ہیں۔ یونانی اور ہندو فلاسفہ نے ایسا کرنے کی کوشش کی اور وہ دھوکہ میں جا گرے۔
 
 ١٣۔سماع اور آلاتِ موسیقی اور رقص دل بستگی کا سامان ہیں اور کسی بھی فقیہ نے انہیں جائز نہیں کہا۔ صوفیوں کا جائز یا ناجائز عمل کوئی معنی نہیں رکھتا۔
 
١٤۔شریعتِ محمدی ۖہی طریقت ہے۔ وہ معرفت جو اس راہ میں ملے وہ قابل قبول ہے، اور اس کے علاوہ سب ناجائز اور نقصان دہ ہے۔
 

اختتامیہ

اس تجزیاتی مضمون کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ کسی صوفی یا ان کے پیروکاروں کی توہین ہو۔ ہاں اس مضمون میں یہ بات  یقیناً پوشیدہ ہے کہ کسی بھی نظریہ اور تعلیم کی درستگی اسی وقت قابل قبول ہے جب وہ قرآن سے مطابقت رکھتی ہو۔ اس بات کا ہمیشہ امکان رہتا ہے کہ کوئی بھی اسکالر قرآن کی کسی آیت کے ایک حصہ کو پکڑ کر اس کے اوپر ایک خیالی محل کھڑا کر لے جو اسلام کے بنیادی عقائد سے ذرا بھی میل نہ کھاتا ہو ۔  محتاط بیان دیتے ہوئے ایسے کسی بھی نتیجہ کو سُکر یا مدہوشی کے زمرے میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ اور اگر ایسا ہو تو نہ صرف یہ  صوفی حضرات بلکہ ہر مسلمان کا فرض بنتا ہے کہ اس پر غور کرے اور قرآن مجید سے کوئی اور آیت اور ہدایت ڈھونڈھ لائے جو اس باطل فکر کو غلط ثابت کردے اور کسی بھی لمبے چوڑے تحقیقی مقالے سے گریز کیا جائے جو اسلام کو اور معاشرے کی روحانی صحت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا نے کا باعث بنے۔
 
بطور ایک مسلمان کے ہمارے لیے لمحہ شکر ہے کہ قرآن مجید میں مشرق و مغرب کے دشمنان اسلام کی ریشہ دوانیوں کے باوجود کسی قسم کی تحریف نہیں ہوئی ہے۔ اکثر ایسا ہوا ہے کہ معمولی اختلافات نے جنم لیا ہے ، چھوٹے موٹے فرقے بھی بن گئے، اور مسلمان کافی عرصہ تک بلکہ بعض اوقات صدیوں تک افراتفری میں مبتلا رہے، مگر آخر کار قرآن کی طرف سے صحیح راہ نمائی حاصل کرکے امت مسلمہ کو سکون ہوا۔
 
بڑے دکه  سے یہ بیان کیا جارہا ہے کہ ان Syncreticصوفیوں نے ادھر ادھر سے ڈھیروں مواد  اکٹھا کر لیا مگر قرآن سے  بہت کم  لیا۔ اسلام سے باہر کے مذاہب اور عقائد پر ان کو جتنا عبور تھا وہ اگر ان عقائد کو دلائل سے باطل ثابت کرتے تو اسلام اور انسانیت دونوں کی خدمت کرتے۔ مگر صد حیف کہ وہ اپنے خیالات کے ساتھ بڑی مضبوطی سے جڑے رہے، اور اپنے ساتھ اپنے پیروکاروں کا بھی نقصان کیا کہ اس بات کا اعادہ کیا کہ وہ ہی اب قرآن اور اسلام کی صحیح تعلیمات سے آگاہ کریں گے۔
 
یہ مضمون اس بات کا اعادہ کرتا ہے کہ قرآن ہی وہ واحد ذریعہ ہے جو مسلمانوں اور غیر مسلموں کے لیے راہ نجات ہے۔ میڈم ہیلینا بلاواٹسکی نے لوگوں کو اپنے نفسیاتی سحر سے مسحور کردیا ، سائیں بابا  اپنے شعبدہ بازی سے عوام میں مقبول ہوئے ۔ یہ لوگ صرف عوام کو خوش کرنے والے ہیں۔  اور پھر وہ لوگ ہیں جو عقلی بنیادوں پر کام کرتے ہیں، اور ان کی باریک بینی کو سمجھنا ایک عام انسان کا کام نہیں ہے ۔ وہ لوگ جنہوں نے معاشرتی برائیوں کے خلاف جہاد کو چھوڑ دیا ہے اور وہ رہبانیت کے قریب چلے گئے ہیں ، ان ہی گمراہیوں کے حملہ کی زد میں ہیں۔ ایک مسلمان جس نے قرآن کا ساتھ رکھا ہو وہ ان دھوکہ دہی کی وارداتوں سے محفوظ رہے گا۔ جس کے ہاتھوں میں قرآن کی ہدایت ہوگی وہ کبھی غلط راہ پر نہیں چلے گا اور انشاء اللہ ایمان اور ایقان کے اعلیٰ مراتب حاصل کرے گا۔
 

” اللہ ایمان والوں کا رکھوالا ہے، وہ انہیں اندھیروں سے نکال کر روشنی میں لاتا ہے۔ اور جن لوگوں نے کفر اپنا لیا ہے، ان کے رکھوالے وہ شیطان ہیں جو انہیں روشنی سے نکال کر اندھیروں میں لے جاتے ہیں۔ وہ سب آگ کے باسی ہیں،وہ ہمیشہ اسی میں رہیں گے۔ سورة بقرة  (٢٥٧:٢)۔

قسط نمبر ١ کا مطالعہ کیجئے  قسط نمبر ٢  کا مطالعہ کیجئے 

 

یہ مضمون جریدہ "الواقۃ” کراچی کے شمارہ، رمضان المبارک 1433ھ/ جولائی، اگست 2012- سے ماخوذ ہے۔ 

سود سے نجات کیسے حاصل کریں؟


الواقعۃ شمارہ نمبر 4

 

ابو عمار محمد سلیم

قسط ٢ (آخری)

 

سود کو کیسے چھوڑیں

 گفتگو کو مزید طول دینے کی بجائے اب یہ دیکھتے ہیں کہ ہم سود سے کس طرح نجات حاصل کر سکتے ہیں۔ وہ کون سے اعمال اور کون سی ایسی چیزیں ہیں جن کے کرنے یا نہ کرنے سے ہم سود جیسی گندگی سے محفوظ رہ سکیں گے۔ ان کا جائزہ لیں مگر میں اس جائزے سے قبل یہ اعتراف کرنا چاہوںگا کہ میں اس مسئلہ پر نہ تو زیادہ علم رکھتا ہوں نہ کوئی اتھارٹی ہوں۔جو تھوڑا بہت میں نے اس سلسلہ میں پڑھا ہے اور جو کچھ میرا تجربہ ہے  اس کی بنیاد پر میں نے یہ رائے قائم کی ہے۔ یہ بالکل میری انفرادی رائے ہے اور اگر کسی قاری کو کوئی اختلاف ہو تو وہ اس علم کے ماہرین سے رابطہ کرلیں اور اپنی تسلی کرلیں۔

١۔ سود سے نجات حاصل کرنے کا مصمم ارادہ

کسی بھی کام کو تکمیل تک پہنچانے کے لیے اور اس کام کو احسن طریقہ سے انجام دینے کے لیے پکا ارادہ انتہائی ضروری ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے آپ کے دل میں یہ احساس پیدا ہوگیا ہے کہ سود ایک گندگی ہے ، بیماری ہے اور گناہ کا کام ہے اور اس سے نجات حاصل کرنی ہے تو آپ اس پر ڈٹ جائیں۔ اس سود نے ہماری انفرادی زندگی ، گھریلو ماحول ، ہمارے معاشرہ بلکہ کل نسل انسانی کو پریشانی ، بے چینی ، اقتصادی بد حالی ، مہنگائی اور بے راہ روی میں مبتلا کر رکھا ہے۔ یقین جانئے کہ اگر آپ ارادہ کر لیں گے اور اس پر ڈٹ جائیں گے تو آپ یقینی طور پر اپنی زندگی کو اس غلاظت سے پاک کر لیں گے۔ ہر نیک کام جو اللہ کے ڈر اور اس کی رضا کے لیے کیا جائے ، اس رب العالمین کی رحمتوں کو آواز دیتا ہے جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے اور کبھی مایوس نہیں کرتا۔ مگر یہ بھی جان لیجئے کہ جیسے ہی آپ سود کو اپنے مالی معاملات سے نکالنے کی کوشش کریں گے آپ بے انتہا مشکلات کا شکار ہو جائیں گے۔ پریشانیاں بھی آپ کو گھیر لیں گی اور نقصانات کا بھی احتمال ہوگا۔ مگر اس راستے پر چلنے کے لیے آپ مُصر رہیں۔ استقلال کو ہاتھ سے نہ جانے دیں۔ اپنے گزشتہ کیے اعمال پر نادم ہوں اور رب غفور الرحیم سے اس کی معافی مانگتے رہیں ، آئندہ کے لیے مدد کی بھیک مانگتے رہیں آپ ضرور بالضرور کامیاب ہونگے۔ تمام مخالفت کے باوجود قدم بڑھاتے رہئے اور فیصلہ رکھئے کہ دوبارہ اس گندگی میں کسی طور بھی ملوث نہیں ہونا ہے تو یقیناً اللہ سبحانہ و تعالیٰ آپ کی مدد کریں گے۔ ان شاء اللہ۔ آپ نے پچھلے دنوں اخبار میں پڑھا ہوگا ایک صاحب جو بینک میں قریب ساٹھ ہزار ماہانہ پر ملازم تھے اپنی بیٹی کی تبلیغ اور اصرار سے متاثر ہوکر بینک کی نوکری چھوڑ دی اور کاندھے پر تولیہ کا گٹھا اٹھا کر سڑکوں پر بیچ کر دو سو روپیہ روزانہ کما کر بے انتہا خوش ہیں اور اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس گندی آمدنی سے نجات مل گئی۔ بہت سے لوگ یہ کہیں گے کہ کیا ان کی اس حرکت سے معاشرہ سے سود ختم ہوگیا یا اس کے کاروبار میں کمی واقع ہوگئی۔ اس کا جواب نفی میں ہے۔ کتنے ہی لوگ ہیں جو اسی طرح سود کو برا سمجھ کر اس سے باہر چلے گئے مگر سودی نظام بدستور موجود ہے اور بینک پھل پھول رہے ہیں۔ تو ان لوگوں نے کیا کمال کیا؟۔ مادی ترقی کے خواہاں لوگ جو دجال کی آنکھ سے دنیا کو دیکھتے ہیں ان کے لیے تو ایسے تمام لوگ احمق ہیں اور نا سمجھ ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہی لوگ کامیاب اور با مراد ہیں جنہوں نے تکلیفیں اور مشکل برداشت کرکے اللہ کی رضا حاصل کر لی۔ ان کا انعام اللہ کے پاس ہے جو یہاں کی آسائشوں سے کہیں بڑھ کر ہمیشہ قائم رہنے والا ہے۔ 

٢۔ بینک پر انحصار کم سے کم کردیں

آج کے دور کی پوری معیشت اور کاروباری نظام بغیر بینک کی شمولیت کے نہیں چل سکتا۔ بینک کی حدود میں داخل ہوتے ہی آپ کے اوپر سود کاوہ غبار چھا جاتا ہے جس کی خبر حضور نبی کریم صادق و امین نے دے رکھی ہے۔ مگر یہ ہماری مجبوری ہے۔ جب تک اسلامی نظام معیشت قائم نہیں ہوتا ہم شائد بینک کے بغیر تجارتی معاملات آگے نہیں بڑھا سکیں گے۔ مگر ہم یہ کوشش ضرور کر سکتے ہیں کہ بینک کی وہ تمام سہولتیں جن میں سود کی شمولیت ہو اس سے دور رہیں اور ان کے قریب بھی نہ جائیں۔ بینک اکائونٹ کھولیں تو سیونگ اکائونٹ وغیرہ قسم کی چیز کھولنے کی طرف نہ جائیں جو منافع کے نام پر آپ کوسود میں گھسیٹ لیں۔ کرنٹ اکائونٹ کھولیں اور بینک میں صرف اتنی رقم رکھیں جو آپ کے ماہانہ لین دین کے لیے ضروری ہو اس لیے کہ آپ کی موٹی رقم کو بینک دوسروں کو سود پر دے گا اور آپ کا پیسہ سودی کاروبار میں لگ جائے گا۔
 
بینک کے دیگر Products جو وہ صارفین کے لیے خوبصورت بنا کر پیش کرتے ہیںان سے دور بھاگئے۔ آپ کو جو سہولت بینک سے حاصل کرنی ہے جیسے پیسوں کی ترسیل و رسید وغیرہ ان کے لیے بینک کے جوService Charges ہوتے ہیں وہ تو ادا کرنے ہی ہونگے ان کے علاوہ دوسرے تمام معاملات جن میں سود کا شائبہ بھی ہو اس سے بچیں۔ چیک کا لین دین ، ڈرافٹ وغیرہ کا بنوانا ، اکائونٹ میں پیسوں کا آنا ، بجلی ، گیس پانی اور دیگر ٹیکسوں کی ادائیگی جو بینک کے ذریعہ سے ہی ہوتی ہے وہ کریںکیونکہ اس میں سود کی شمولیت نہیں ہے۔ اگر کسی معاملہ میں مجبور ہو جائیں تو بہ اکراہ اس کو کریں مگر اس کا کوئی دوسرا راستہ ضرور تلاش کریں تاکہ دوبارہ نہ کرنا پڑے۔ اگر کسی معاملہ میں شک ہو جائے تو بینک کے افسروں سے رابطہ کریں اور تفصیل معلوم کریں اور اپنی عقل اور سمجھ سے فیصلہ کریںکہ سود سے کیسے جان چھوٹے۔

٣۔ ذاتی لین دین میں سود سے اجتناب

ہماری زندگیوں میں بہت سے مقام ایسے آتے ہیں جہاں ہماری اپنی مالی استطاعت کسی کام کے پورا کرنے کے لیے کم پڑ جاتی ہے۔ ذاتی ضرورتوں یا پھرکاروباری معاملات میںیا پھر کسی خرید و فروخت کے سلسلے میں مزید رقم کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ عموماً بینک اور سود خور دولت مند ہمیشہ آپ کی مدد کے لیے تیار ملیں گے۔ آپ کو ہزار کی ضرورت ہے تو وہ دس ہزار دیدیں گے۔مگر جب ہم نے سود سے بچنے کا ارادہ کر لیا ہے تو ہم تو اس طرف جائیں گے ہی نہیں۔ اب راستہ یہ رہ گیا ہے کہ ہم عزیز و اقارب اور دوست احباب سے رابطہ کریں اور قرض حسنہ کے طور پر رقم لینے کی کوشش کریں۔ مگر آپ کے اوپر یہ ذمہ داری عائد ہوگی کہ آپ وقت مقررہ پر رقم واپس ادا کر دیں۔ جب معاشرہ میں سدھار پیدا ہوگا تو یہ بھی ممکن ہے کہ قرآن کی ہدایت کے مطابق ایسے لوگ بھی پیدا ہوجائیں جو مل کر رقم کو Pool کرلیں اور ضرورت مند کی مدد کریں۔ یا پھر آپ خود اپنی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے اپنی کوئی پس انداز کی ہوئی قیمتی چیز کو فروخت کردیںاور اگر یہ سب کچھ ممکن نہ ہو تو اپنی ضرورت کا از سر نو جائزہ لیںاور صرف اتنا کام کریں یا وہ چیز لیں جو آپ کی استطاعت کے اندر ہو۔یہ بڑا مشکل مرحلہ ہوگا مگر یقین جانئے کہ دنیا کی یہ زندگی چند روزہ ہے اور اس کو بہتر بنانے کی خاطر آخرت کا عذاب مول لینا یقیناً صاحب عقل و دانش کے لیے کسی صورت میں قابل قبول نہیں ہوگا۔ فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔ یہاں کی زندگی بھی آپ کی اپنی ہے اور آخرت میں جو ہوگا وہ بھی آپ کا اپنا ہی ہوگا۔ یہاں ایک اور بات کی طرف اشارہ کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ جب آپ سے کوئی مدد کا طالب ہو اور آپ کے پاس اللہ کی عطا سے گنجائش بھی ہو تو مصیبت زدہ کی مدد ضرور کریں۔ اسی سے معاشرہ میں بھلائی پرورش پائے گی اور وقت کے ساتھ اس کی اچھی اورفائدہ مند شکلیں پیدا ہو جائیں گی جو سود سے پاک بھی ہوں گی اور اللہ کی رضا کا باعث بھی۔ان شا ء اللہ۔

٤۔ کاروباری معاملات میں سود سے دوری

جس طرح اوپر ذاتی لین دین کی بات ہوئی اسی طرح کارو باری ضروریات کے لیے بھی موجود رقم سے زیادہ کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ادائیگی کے لیے یا پھر مزید مال کی خرید کے لیے ، بزنس کو مزید پھیلانے کے لیے، فیکٹری لگانے کے لیے یا اسی طرح کی دیگر کسی بھی ضرورت کے تحت رقم کی حاجت ہو سکتی ہے۔آج کے معاشرے میں رواج یہ ہے کہ چھوٹے سے چھوٹے کاروبار ی حضرات سے لے کر بڑے سے بڑے صنعت کار تک اپنی ذاتی جیب سے ایک روپیہ بھی خرچ نہیں کرنا چاہتے ہیں۔رقم ادھار لے کر سود کے گناہ کا ارتکاب کرکے اپنے بزنس میں لگاتے ہیں اور اس کو محفوظ کرنے اور تقویت دینے کی خاطر انشورنس وغیرہ کے ذریعہ سے مزید سود میں الجھ جاتے ہیں۔تنظیم اسلامی کے بانی مرحوم ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کی ایک بات مجھے بہت پسند آتی تھی جب وہ کہتے تھے کہ ” اگر کاروبار کر نا ہے تو جتنی رقم تمہارے پاس ہے اس سے کرو۔ اگر گاڑی کا شو روم کھول سکتے ہو تو ضرور کھولو ، اگر رقم کم ہے تو موٹر سائیکلوں کا بزنس کرو اور اگر اس کی بھی طاقت نہیں ہے تو سائیکل کا کام شروع کردو ، سود میں کیوں جاتے ہو ۔” ان کی یہ بات سن کر محفل میں موجود لوگ مسکرا دیا کرتے تھے مگر حق تو یہ ہے کہ مرحوم کی یہ بات بڑی گہری اور سوچنے والی ہے۔بہترین کاروبار تو وہی ہے جو صاف ستھرا اور سود سے پاک ہو۔ بہت سے لوگ اس بات سے اتفاق نہیں کریں گے اور اپنی کاروباری عمارت کو گرنے نہیں دیں گے۔بلکہ اس کو سہارا دینے کے لیے اور مزید بڑھانے کے لیے سود پر سود لیں گے۔ مگر اپنی جیب کی استطاعت کے مطابق کاروبار نہیں کریں گے۔یقین جانئے یہ وہ لوگ ہیں جن کے لیے قران نے کہا ہے کہ ان کے دلوں پر مہر لگی ہے۔ نہ یہ سنتے ہیں ، نہ دیکھتے ہیں اور نہ ہی عقل رکھتے ہیں۔ دنیا کی زندگی نے انہیں اندھا کر رکھا ہے۔یہاں کی عیش و عشرت اور آرام دہ زندگی کی خاطر انہوں نے آخرت کے عذاب کا سودا کر لیا ہے۔ کیسا برا سودا ہے اور کیسی بری تجارت ہے۔ اے کاش کہ وہ لوگ کچھ عقل کرتے۔
 
اور پھر یہ کہ کاروباری ضرورتوں کے لیے سود پر روپیہ کی فراہمی کے لیے لوگ ایسے کاروبار میں ہاتھ ڈال دیتے ہیں جو حرام مال پیدا کرتا ہے۔ آخر پاکستان میں شراب بن بھی رہی ہے ، بیچی بھی جارہی ہے ، اس کا کاروبار بھی ہورہا ہے اور یہ سب کام ہم پاکستانی مسلمان کر رہے ہیں۔ کیا ہمیں معلوم نہیں کہ یہ کام حرام ہے اور اس کی آمدنی بھی حرام ہے۔اور یہ کہ اس میں جتنے لوگ ملوث ہیں وہ سب حدیث نبوی ۖ کی رو سے جہنمی ہیں۔ اسی طرح شراب کے علاوہ بھی اور بہت سے کاروبار ایسے ہیں جو شریعت کی رو سے حرام آمدنی کے ذرائع ہیں۔ ہم نے جب سود کو چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا ہے تو پھر پھر اب ہم یہ بھی دیکھیں گے کہ ہم کس کاروبار میں اپنا روپیہ لگا رہے ہیں۔ ایسا کاروبار کریں گے جو حلال روزی دے اور ہم اللہ کے غیض و غضب سے بچ جائیں۔ ان شاء اللہ۔

٥۔ کریڈٹ کارڈ کا خاتمہ

جیسا کہ میں نے پچھلے صفحات میں ذکر کیا ہے کہ کریڈ ٹ کا رڈ شیطان کا سب سے شاہکار ہتھیار ہے اور اب تو معاملہ کریڈٹ کارڈ سے بھی آگے بڑھ کر کہیں اور جا پہنچا ہے۔ ْکریڈٹ کارڈ کے اوپر کافی بحث ہو چکی ہے اور اس کے نقصانات کا جائزہ لیا جا چکا ہے۔ وہ لوگ جو کریڈٹ کارڈ پر جی رہے ہیں اور اپنی ماہانہ آمدنی سے کچھ رقم دے کر سمجھ رہے ہیں کہ کام چل رہا ہے اور سب ٹھیک ہے۔ یقین جانئے کہ وہ لوگ بالکل محفوظ نہیں ہیں۔ بینک کی جو رقم کی آپ کی طرف بڑھتی جارہی ہے وہ آپ کی گردن کے گرد لپٹی ہوئی رسی کا گھیرا تنگ سے تنگ کرتی چلی جارہی ہے۔ آپ نے ہندو بنئے کا ذکر تو سنا ہی ہوگا اور فلموں میں بھی دیکھا ہوگا کہ وہ بیاج پر دی ہوئی اپنی رقم کی وصولی کے لیے کیسے سفاک ہاتھ استعمال کرتا ہے۔ زمین جائداد سب ہتھیا لیتا ہے۔ یقین کیجئے کہ آج کے بینک کے پاس اس بنئے سے زیادہ طاقت ہے اور وہ اپنے نادہندگان کے ساتھ اس بنئے سے بھی زیادہ ظالمانہ قدم اٹھاتا ہے۔ خدا کے لیے باز آجایئے۔ اپنی ضرورتوں کو کنٹرول کریں اپنی آمدنی سے زیادہ خرچ مت کریں۔دقت تو ہوگی مشکل بھی پیش آئے گی مگر وقت گذرنے کے ساتھ آپ کے اندر قناعت پیدا ہوگی اور آپ اپنی چادر تک محدود رہیں گے اور خوش رہیں گے۔ آج ہی پہلا قدم اٹھائے اور اپنا کریڈٹ کارڈ ختم کردیجئے اور اس غلامی سے نجات حاصل کر لیجئے۔ اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو۔ آمین۔

٦۔ سیونگ سرٹیفیکیٹ وغیرہ سے دوری

آپ نے اپنی حلال آمدنی سے کمائے ہوئے مال سے اپنے مستقبل کی ضرورتوں کے لیے سیونگ سرٹیفیکیٹ خرید کر اپنے لیے ایک مستقل اور مسلسل آمدنی کا ذریعہ تو بنا لیا ہے مگر جان لیجئے کہ یہ سود ہے۔حلال آمدنی کی موٹی رقم کو سود کے چھوٹے چھوٹے پیکٹوں میں تبدیل کرکے حلال کو حرام کر لینا کہاں کی عقل مندی ہے۔ان سرٹیفیکیٹ کا اجرا کرنے والے  شائد آپ کے سامنے سیکڑوں ضمیر فروش عالموں کے بیان اور فتووں کا ڈھیر لگا دیں کہ یہ معاملہ حرام نہیں ہے ۔ مگر اللہ نے آپ کو بھی عقل اور سمجھ دی ہے۔ ہماری اور آپ کی غلطی یہ کہ ہم نے قران مجید کے احکامات کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی ہے۔کسی مولوی نے نہیں بتایا تو ہم نے بھی جاننے کی کوشش نہیں کی۔ سود کی سب سے بنیادی اور خراب صورت جو قرآن نے بتائی ہے وہ یہی ہے کہ روپیہ بغیر کسی محنت کے وقت گذرنے کے ساتھ اپنی قیمت خود بڑھا لے۔ یہ سب سے گھنائونا سود ہے اور اپنے ساتھ معاشرے کی تمام برائیوں کی حشر سامانیاں لیے ہوئے ہے۔ آپ نے جو سرٹیفیکیٹ خریدا ہے اس کا اصل زر جو آپ نے لگایا ہے وہ محفوظ ہے اور ویسے کا ویسا ہے۔ مگر یہ جو ہر ماہ آپ کو منافع کے نام پر مل رہا ہے یہ کیا ہے؟ ۔ کیا آپ کے پیسے نے خود ایک مقررہ مدت میں اپنی قیمت خود سے بڑھا نہیں لی؟ جناب یہی تو سود ہے۔ نہ کسی نے تجارت کی نہ کوئی نفع ہوا نہ نقصان نہ کوئی محنت لگی نہ پسینہ بہا۔ سود پر رقم دی گئی سود وصول کیا گیا اور اسی سے ایک معمولی رقم آپ کو ادا کر دی گئی اور آپ کا منہ بند کر دیا گیا۔ حلال دے کر آپ نے حرام سے پیٹ بھر لیا۔ اے اللہ ہمیں معاف کردیجئے ، ہم واقعی چیزوں کو بغیر سوچے سمجھے کیے چلے جارہے ہیں۔ اے اللہ ہمیں سیدھے راستے پر ڈال دیجئے ہماری غلطیاں معاف کر دیجئے۔ آمین۔

٧۔ قسطوں پر اشیاء کی خریداری ترک کردیں

جیسا کہ ہم پیچھے یہ بحث کر چکے ہیں کہ قسطوں کی خریداری میں بھی سود کا عمل دخل ہے اور علماء کی اکثریت نے اسے ناجائز قرار دیا ہے۔ بظاہر دیکھنے میں یہ ایک سہولت نظر آتی ہے کہ کسی کے پاس اتنی رقم نہ ہو کہ وہ اپنی ضرورت کی کوئی چیز خرید سکے تو قسطوں پر جا کر خریدنے کی سہولت تو ایک بہت بڑی سہولت ہوئی۔یہ سوچ ہی غلط ہے۔ دیکھنے کی بات یہ ہے کہ یہ کاروبار جس بڑے پیمانے پر آج ہورہا ہے ایسا آج سے کچھ عرصہ پہلے نہیں ہوتا تھا۔ہمارے بزرگوں کے دور میں جس چیز کی ضرورت ہوتی تھی اس کے لیے جتن کرکے پائی پائی جمع کی جاتی تھی اور پھر جب وہ چیز خریدی جاتی تھی تو نظروں میں اس کی قیمت بھی بہت بڑھ جاتی تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آج جتنی تیزی سے قیمتیں چڑھتی ہیں کہ پیسے جوڑتے جوڑتے وہ قیمت دوبارہ پہنچ سے دور ہوجاتی ہے۔ یہی تو شیطانی چکر ہے اور آپ کو پھنسانے اور غلام بنا نے کا ایک ذریعہ ہے۔ اشتہارات کے ذریعہ سے ہماری خواہشات کواتنا بھڑکا دیا جاتا ہے کہ ایک ایسی چیز جس کی ہمیں فوری ضرورت نہیں ہوتی ہے وہ بھی فوری بن جاتی ہے اور ہم اس کو حاصل کرنے کے لیے سرگرداں ہو جاتے ہیں اور پھر قسطوں پر جب مل رہی ہو اور پیسے بھی زیادہ جمع نہ کرنے پڑتے ہوں تو پھر دیر کاہے کی ہے ہم انتہائی تیزی سے سود کے بل میں داخل ہوجاتے ہیں۔ بجائے اس کے کہ ہم اپنی ضروریات اور خواہشات کو قابو میں کرتے ، قناعت اور توکل اختیار کرتے ہم ایک آسان راستہ دیکھ کر اس کو پکڑ لیتے ہیں اور دین ودنیا دونوں میں اللہ کے غیض و غضب کو آواز دیتے ہیں۔ اگر ہم ذرا تحمل سے کام لیںاور اپنی خواہشات کو لگام دے لیںتو اللہ شائد ہمارے لیے بہتری کا کوئی راستہ نکال دیں۔ وہ تو ہم سے محبت کرتے ہیں اور ہمیں مشکل میں اگر ڈالتے ہیں تو بھی ہماری ہی بھلائی کے لیے کہ اس کے ذریعہ سے آخرت کی سربلندی حاصل ہو جائے۔ اے کاش کہ ہم عقل سے کام لیں۔

٨۔ لاٹری اور قرعہ اندازی وغیرہ کو رد کر دیجئے

ہم ایسے دور میں زندہ ہیں جہاں ہماری اپنی حکومتیں ہماری دشمن بنی ہوئی ہیں۔ دنیا کے اکثر ممالک کی حکومتیں اپنے عوام سے پیسہ بٹورنے کی خاطر حکومتی سطح پر اور بعض اوقات پرائیویٹ سطح پر بھی لاٹری وغیرہ جیسی کسی اسکیم کا اجرا کرتی ہیں۔ انسان کی نفسانی خواہشات کو چھیڑا جاتا ہے اور اس کی لالچ کو ابھارا جاتا ہے اور بڑے بڑے انعامات اور کیش پرائز کا جھانسا دیا جاتا ہے۔ عوام آسانی سے دولت حاصل کرنے کی لالچ میں اس جھانسے میں آجاتے ہیں اور دھڑا دھڑ اس اسکیم میں اپنا پیسہ لگا دیتے ہیں۔ حکومت بھی ایک دو لوگوں کو بڑی بڑی رقم انعام میں دے دیتی ہے اور پھر اس کی خوب تشہیر ہوتی ہے۔ اخبارات میں اور ٹی وی پر ان کے انٹرویو نشر ہوتے ہیں اور عوام میں یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ آج اس کو ملا ہے کل مجھے ملے گا۔ یہی لالچ اس کو پھنسا تی چلی جاتی ہے  اور یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ پھر ایک دن یا تو اسکیم ختم ہوجاتی ہے اور اگر پرائیویٹ معاملہ ہو تو کمپنی غائب ہوجاتی ہے۔ لوگوں کو اپنے یہاں کا تاج کمپنی کا واقعہ یاد ہی ہوگا۔ یاد رکھئے یہ سب دھوکے کا کاروبار ہے اور دھوکہ سے حاصل کیا ہوا مال حرام ہے۔ قرعہ اندازی بھی ناجائز ہے اور یہ سب حضور مقبول رسالت مآب ۖ کے فرمان کے مطابق غرر میں آتا ہے جو حرام ہے۔ ایسی تمام چیزوں سے بچیں۔ آج کپڑے دھونے کے پائوڈر ، ڈبل روٹی ، موبائل کارڈ اور پتہ نہیں کتنی الم غلم چیزوں پر یہ اسکیم جاری کی گئی ہے۔ ان کا مال خریدیں، اس کے ڈبہ سمیت اپنے شناختی کارڈ کی کاپی لگائیں اور بذریعہ ڈاک بھیج دیں۔ قرعہ اندازی میں آپ کو انعام مل جائے گا۔ شائد ہی کبھی کسی خوش قسمت کا نام اخباروں میں آیا ہو۔ کوئی ان سے پوچھے ، کوئی ان کا آڈٹ کرے کہ اس کے ذریعہ سے کتنا مال کمایا اور کتنا بانٹا۔ مگر دھوکہ دہی کے کاروبار میں تو سب کچھ جائز ہے۔ کتنے ہی معصوم لوگوں کی جیبوں پر ڈاکے پڑ جاتے ہیں اور ان تمام چوروں کو حکومتی تحفظ حاصل ہے۔ نہ حکومت کی سطح پر رکاوٹ ہے اور نہ ہی ہمارے علماء کو آج تک یہ پتہ چل سکا ہے کہ یہ حرام کاروبار ہورہا ہے ۔ اگر اس کو روک نہیں سکتے تو عوام کو کم از کم اس کے حرام ہونے کا شعور ہی دے دیں۔ 

٩۔ پرائیویٹ فنانس کمپنیاں اورPyramid   اسکیمیں

دھوکہ دہی کے کاروبار کی یہ جدید ترین شکل ہے۔پہلے ایک فنانس کمپنی کی تشکیل ہوتی ہے اور یہ اعلان ہوتا ہے کہ یہ کمپنی اپنے کھاتے داروں کو بینکوں کے عام شرح سود سے زیادہ منافع دیتی ہے اور اس کی خوب خوب تشہیر ہوتی ہے۔ ایڈورٹائزمنٹ تو جادو کا کام کرتا ہے۔ لوگ جو نابلد ہیں ، کم علم ہیں یا لالچی ہیں ،جوق در جوق اس اسکیم سے فائدہ اٹھانے کے لیے اپنی حلال کی کمائی کے بنڈل لے کر آتے ہیں۔ اسی میں بسا اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ کمپنی کہتی ہے کہ اگر آپ اپنا اکائونٹ کھول کر کسی اور کو بھی اس اسکیم میں شامل کروادیں تو آپ کو ہر فرد کے بدلے فلاں انعام ملے گا یا کوئی اور سہولت مل جائے گی۔ لالچ کو مزیدبڑھا یا اور تیز کردیا گیا۔نتیجہ کے طور پر بہت لوگ اس میں شامل بھی ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی شامل کرا دیتے ہیں۔کمپنی دھڑا دھڑ پیسے بٹورتی ہے۔ کچھ لوگوں کو منافع بھی دیا جاتا ہے یا پھر زور وشور سے کسی فلاحی کام کو شروع کر کے اس کا ڈھنڈھورا پیٹا جاتا ہے۔اس طرح اپنی ساکھ بڑھائی جاتی ہے جو مزید لوگوں کو کھینچنے کا باعث ہو تی ہے اور پھر ایک دن یا تو یہ کمپنی چپکے سے غائب ہو جاتی ہے اور حکومت کی ساری مشینری اس کا پتہ معلوم کرنے میں ناکام ہو جاتی ہے یا پھر یہ کمپنی عدالت میں اپنے دیوالیہ ہو جانے کی درخواست دے دیتی ہے۔ دونوں صورتوں میں بیچاری عوام کا ہارٹ فیل ہوتا ہے۔ اپنی لالچ اور اپنی خواہشات کو اپنے قابو میں کرنا سیکھ لیاجائے تو بہت سے نقصانات سے بچت ہو سکتی ہے۔

کچھ اہم سوالات

اس مضمون کو پڑھتے ہوئے آپ کے ذہن میں کچھ سوالات بھی پیدا ہوئے ہونگے اور کچھ خدشات نے بھی جنم لیا ہوگا۔ یہ ایک انتہائی لازمی جزو ہے۔جب معاشرہ کے ایک بین اصول اور عام فہم روش سے ہٹ کر کوئی کام کیا جائے گا تو اس سے بہت سارے جاری معمولات میں خلل پڑنے اور اس میں بگاڑ کی کیفیت پیدا ہونے کا امکان نظر آتا ہے۔ ہماری معیشت جن اصولوں پر بنیاد کرتی ہے اور جن قواعد اور ضوابط کی پابند ہے اس میں اگر کوئی تبدیلی پیدا ہوجائے تو یقیناً امکان اس بات کا ہے کہ ساری کی ساری معیشت دھڑام سے زمین بوس ہوجائے۔ ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کر رہے مگر اس خوف کی وجہ سے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے احکامات سے روگر دانی کرنے کے لیے بھی تیار نہیں ہونگے۔ آئیں کچھ ایسے سوالات جن کا میرے ذہن نے احاطہ کیا ہے ان کو باری باری دیکھ لیتے ہیںاور ان کا جواب معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ان کے علاوہ بھی آپ کے ذہن میں اور سوالات بھی پیدا ہونگے جن کا جواب آپ ایسا تلاش کریں جو اللہ اور اس کے رسول ۖ کے بتائے ہوئے اصولوں سے میل کھاتے ہوں۔قران اور احادیث تک آپ کی رسائی نہ ہو تو ہر معاملہ کو اختیار کرنے سے قبل علماء سے اور ان معاملات کے ماہرین سے ضرور مشورہ کرلیں اس لیے کہ آپ خود اپنے معاملات کے ذمہ دار ہیں۔ اپنے کیے کا جواب آپ کو ہی دینا ہے۔

سوال نمبر:١

اگر ہم بینک میں صرف ضرورت بھر روپیہ رکھیں اور وہ بھی بغیر منافع والی اسکیم میں تو ہم اپنی اس موٹی رقم کو جو زائد از ضرورت ہو اور کسی مشکل گھڑی کے لیے رکھ چھوڑی ہے  اس کا کیا کریں ؟ کیا وہ ساری رقم اٹھا کر گھر میں رکھ لیں؟اسی طرح سیونگ سرٹیفیکیٹ وغیرہ میں جو رقم محفوظ ہے ان کا کیا کریں؟
 
جواب
اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ کاروباری لوگ موٹی رقم رکھتے ہی نہیں تاہم اگر ہو بھی تو واپس اسی کاروبار میں لگایا جاسکتا ہے اور بینک کے ادھار سے بچا جاسکتا ہے۔ مگرجو لوگ کاروباری نہیں وہ کیا کریں؟ اس کا جواب میری نظر میں یہ ہے کہ ایسے حضرات اپنی رقم کو کسی قابل اعتماد شخص کے جائز کاروبار میں لگائیں اور نفع و نقصان دونوں کے لیے تیار رہیں۔ یا نہیں تو پھر کوئی زمین، مکان، فلیٹ یا دوکان وغیرہ خرید لیں اور اپنی رقم محفوظ کر لیں اور اگر یہ دونوں چزیں ممکن نہ ہو ںتو پھر اپنے لیے خود کسی کاروبار کی داغ بیل ڈالیں جو آپ اپنے فارغ وقت میں کر سکتے ہوں۔اور میرا ایک جواب ایسا ہے جو بہت سے لوگوں کو ناگوار ہوگا اور وہ یہ ہے کہ ” اپنی رقم کو آخرت کے کاروبار میں لگادیںجہاں کا نفع کئی گنا ہے اور اللہ کی رضا کے حصول کا ذریعہ بھی ہے۔” اور پھر قرآن مجید فرقان حمید کا بھی یہ فرمان ہے کہ

 ”لوگ تم سے پوچھتے ہیں کہ کتنا خرچ کریں؟۔ کہدو کہ جو ضرورت سے زیادہ ہے سب خرچ کردو۔” (سورة البقرہ۔ آ یت۔٢١٩۔)

سوال نمبر:٢

اگر سود کے بغیر کاروبار نہیں ہوسکتا تو کیا ایسے تمام کاروبار بند کر دئے جائیں؟ 
 
جواب
اللہ اور اس کے رسول ۖ کے اوپر بھروسہ کرکے اور ان کی رضا کے لیے ایسا ہی کیا جائے تو سب سے بہتر ہے۔ تاہم اس کاروبار کا جائزہ لے کر اس کو حلال آمدنی کی حدود میں کرنا فی الوقت ممکن نہ ہو تو اپنے معاملات کوکم سے کم سودی الجھاوے میں ڈالیں اور جیسے ہی موقعہ ملے سود سے پاک ہو جائیں۔

سوال نمبر :٣

حکومت اگر بغیر سود کے کسی نظام کو رائج کرنے میں نا کام رہتی ہے تو ایسی صورت میں کیا کیا جائے؟
 
جواب
حکومت کی ناکامی ہمیں ہماری ذمہ داریوں سے عہدہ بر آ ہونے کا سرٹیفیکٹ نہیں عطا کردیتی ہے۔ سود سے بچنا ہمارا اپنا عمل ہے اور ہم یہ اللہ کی خوشنودی کے لیے کرتے ہیں تنگی و ترشی کے خوف سے بالا تر ہو کر۔ اللہ نے اپنا راستہ بتایاہوا ہے۔ اپنی آخرت کو بنانا یا بگاڑنا ہمارا اپنا کام ہے۔ تاہم اللہ اگر حکومت مملکت کو یہ سعادت عطاکرے کہ وہ اسلامی نظام کو رائج کرنے کی کوشش کرے تو ہر ایک کا یہ فرض بنتا ہے کہ حکومت کی بھر پور مدد کی جائے۔ اللہ کی مدد شامل حال ہوگی۔ ان شا ء اللہ۔

سوال نمبر :٤

آج سود کے نظام پر پوری معیشت کا ڈھانچہ کھڑا ہے۔ اس کے خاتمے سے تو معاشرے میں بڑی خرابی پیدا ہوگی؟
 
جواب
یقینا ایسا ہی ہوگا۔ اس کے سدھار کی تمام ذمہ داری حکومت مملکت کے ساتھ ساتھ علما ء وقت اور معیشت کے ماہرین کی ہے۔ کوئی سبیل ایسی نکالی جائے یا پھر ایسے اقدام اٹھائے جائیں جو تمام معاشی عمارت کو بھی نہ گرنے دے اور دھیرے دھیرے پورے نظام کو اسلامی بنیادوں پر استوار کر لیا جائے۔ اس میں وقت بھی لگے گا اور محنت بھی۔ مگر آخرت کی بہتری اور بھلائی کے لیے یہ قدم فوری نہ اٹھایاگیا تو یقینا حکومت وقت، ماہرین اور علماء کے ساتھ ساتھ ہم اور آپ بھی جواب دہ ہونگے۔

سوال نمبر:٥

جن لوگوں نے بینک سے یا ہائوس بلڈنگ یا ایسی ہی کسی اسکیم سے قرض لے کر گھر بنا یا ہوا ہے وہ کیا کریں؟
 
جواب
یہ معاملہ ہے تو بہت گمبھیر مگر آخرت کی بھلائی کے سامنے تو تمام مشکلیں ہیچ ہیں۔ اس کا عام فہم جواب تو یہ ہی ہے کہ مکان اگر قرض سے پاک ہو چکا ہے تو اس کو اپنے پاس رکھا جائے یا پھر جو علماء اس سلسلے میں رائے دیں اس کو اپنایا جائے اور اگر مکان کے اوپر ابھی بھی قرض ہے تو سیدھا سادا جواب یہ ہے کہ مکان کو بیچ کر قرض کی رقم اتار دی جائے اور بقیہ جو رقم بچ جائے اس سے کوئی جھونپڑا بھی مل جائے تو لے لیا جائے۔اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالی سے اپنے گناہوں کی معافی مانگی جائے کہ وہ بہت غفور الرحیم ہے۔ 

سوال نمبر:٦

جن لوگوں نے کار اجارہ وغیرہ قسم کی اسکیموں سے  گاڑیاں خریدی ہوئی ہیں وہ لوگ ایسی گاڑیوں کا کیا کریں یا پھر اپنی بقیہ ماندہ ادائیگی کے لیے کیا کریں؟
 
جواب
اس کا جواب بھی گزشتہ سوال جیسا ہی ہے۔

سوال نمبر:٧

دیکھا گیا ہے کہ بعض بیوائیں اور کم آمدنی والے لوگوں کو جب بیوہ ہوجانے پر مدد ملی یا ریٹائرمنٹ پرپراویڈنٹ فنڈ وغیرہ سے رقم ملی تو اس کو انہوں نے کسی اسکیم میں پس انداز کر دیا اور آج اسی کے اوپر حاصل ہونے والی آمدنی پر زندہ ہیں۔ یہ رقم نہ تو اتنی بڑی ہے کہ اس سے کوئی کاروبار ہوسکے اور نہ یہ غریب لوگ اس کو ضائع کر سکتے ہیں کہ اسی پر ان کی زندگی کا دارومدار ہے۔ اب یا تو یہ لوگ اس رقم سے ملنے والی حرام آمدنی کو چھوڑ دیں اور بھوکوں مر جائیں یا پھر قران مجید کی اس رعایت سے فائدہ اٹھاتے رہیں جس کی رو سے حرام چیزوں کا استعمال جائز ہوجاتا ہے۔ 
 
جواب
بے شک قران مجیدنے ہمیں بوقت ضرورت اپنی زندگی بچانے کے لیے اور اسے جاری و ساری رکھنے کے لیے کوئی اور راستہ موجود نہ ہو تو حرام کے استعمال کی اجازت دی ہے۔ مگر یہ یاد رہے کہ یہ اجازت صرف بہ اکراہ ہے نہ کہ رضا اور رغبت کے ساتھ ہے اور صرف اتنی ہی دیر کے لیے روا ہے جب تک کہ زندگی کو خطرہ ہو اور پھر یہ بھی یاد رہے کہ قرآن نے یہ رعایت دیتے ہوئے یہ بھی کہا ہے کہ

”……..اگر کوئی مجبور ہو جائے لیکن نہ تو طالب لذت ہو اور نہ حد سے نکل جائے۔” (سورةالبقرة:١٧٣، سورة مائدہ: ٤، سورةالانعام: ١٤٥)۔

 اس خصوصی صورت حال کے لیے میرا جواب یہی ہے کہ بے شک اپنی زندگی کو رواں دواں رکھنے کے لیے اس وقت تک اس سہولت سے فائدہ اٹھائیں جب تک کہ کوئی دوسرا جائزراستہ نہیں کھل جاتا۔ ہر شخص کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے لیے رزق تلاش کرے۔ ایسے لوگ جن کا گذر ایسی آمدنی پر ہے انہیں اپنے لیے کوئی کام تلاش کرنا چاہئے جو انہیں اس حرام سے نجات دے۔ وہ لوگ جو مجبور اور معذور ہیں اور کوئی کام نہیں کر سکتے ان کی ذمہ داری معاشرے کے سر بر آوردہ اور صاحب حیثیت لوگوں کے ذمہ ہے۔ یاد رہے کہ یہ دنیا  ہمارے لیے عمل کی جگہ ہے اور ہمارا عمل اللہ کے احکامات اور اس کے رسول ۖ کی سنت کے مطابق ہونا چاہئے تاکہ ہم آخرت میں سرخرو ہوں۔ اللہ نے اگر ہمیںرزق میں کشادگی عطا کی ہے تو یاد رہے کہ اللہ نے ہمارے اوپر معاشرے کے کم آمدنی والے اور لاچار لوگوں کا ذمہ بھی رکھا ہے اور ہماری آمدن میں ان کا بھی حصہ رکھا ہوا ہے جو ہم زکو ٰ ة ، صدقات اور دیگر  خیراتی کاموں کے ذریعہ سے ان کو ادا کرتے رہتے ہیں۔ ہم ایسے لوگوں کی خبر گیری نہیں کریں گے تو آخرت میں اللہ کو جواب دہ ہوں گے۔ اسی لیے تو ہمیں اپنے غریب رشتہ داروں اور کم آمدنی والے محلہ داروں کا خیال رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اگر ہمیں اللہ کے سامنے جواب دینے کا خوف دامن گیر ہے تو ہم ضرور ان کا خیال رکھیں گے وگرنہ کیا پتہ کہ سود کے اوپر زندگی کوئی غریب اور لاچار گزارے اور اس کی گرفت میں آجائیں ہم اور آپ۔ 

اختتامیہ

میں آپ کا شکر گذار ہوں کہ آپ نے میرا یہ مضمون پڑھا اور اس آخری حصہ تک پہنچ گئے۔جیسا کہ میں نے پہلے کہا ہے کہ یہ میرے اپنے خیالات ہیں اس لیے آپ کا اس سے متفق ہونا بالکل ضروری نہیں ہے۔ تاہم یہ بات تو بہر صورت درست ، صحیح اور حق ہے کہ سود یقینا ایک گندگی ہے اور اس حد تک پھیل گئی ہے کہ پوری نوع انسانی اس کے جال میں بری طرح الجھ کر رہ گئی ہے۔ مغرب کے معاشی ماہرین بھی آج کل سود کے مضمرات پر بڑی شد ومد سے سوچ بچار کر رہے ہیںاور ان کے خیال میں موجودہ گرانی اور معاشی بد حالی کے علاوہ معاشرہ میں پھیلی ہوئی بد عنوانی اور لوٹ مار سب کے پیچھے اسی خباثت کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔اسلام کے پندرہ سو سال پرانے سود کو چھوڑ دئیے جانے کے احکامات پر آج کے معاشی ماہرین کی نظر ہے اور وہ اس پر بحث و تمحیث میں لگے ہیں کہ اس کو کیسے اپنایا جا سکتا ہے۔ یہ ہماری بد قسمتی ہے کہ تقریباً ہر وہ اچھی چیز جو ہمیں ہمارے مذہب نے عطا کی ہے اس پر مغرب تحقیق کرکے اس کی اچھائیوں سے فائدہ اٹھا رہا ہے اور ہم جو اس کے وارث تھے مغرب کی ان ہی اپنائی ہوئی چیزوں کو اپنے یہاں رواج دینے کی کوشش کرتے ہیں۔اصل مآخذ تک جاکر اپنا راستہ خود نہیں ڈھونڈھتے۔
 
ہمیں چاہئے کہ ہم اپنی اصلاح خود کریں۔ ہمارے علماء مل کر بیٹھیں اور اپنے ساتھ معاشی اور اقتصادی ماہرین کو ملائیں اور دیکھیں کہ موجودہ سودی نظام سے چھٹکارے کی کیا صورت ہے۔ معاشی ترقی اور خوش حالی کے لیے سود کی غلامی سے بہتر کوئی اور صورت کیا ہو سکتی ہے۔ کاروباری معاملات میں مال وزر کی ضرورتوں سے کیسے عمدہ طریقہ سے عہدہ بر آ ہوا جا سکتا ہے تاکہ اللہ کی ناراضگی مول لیے بغیر دنیا کا کاروبار بھی چلتا رہے۔ شیطان ہر دور میں ایک نئی چال اور ایک نئے جال کے ساتھ ہمارا شکار کرنے چلا آتا ہے۔ امت کے علماء کا یہ فرض بنتا ہے کہ اس مردود کی چالوں کو سمجھیں ، معاشرے کی نبض پر ہاتھ رکھیں اور سدھار پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ اب بھی وقت نہیں گیا ہے ، بہتر مستقبل کی طرف قدم بڑھایا جاسکتا ہے اور اس کے لیے کوششیں کی جاسکتی ہیں۔ اللہ کی مدد یقینا شامل حال ہوگی ۔ ان شاء اللہ۔
 
مگر ہماری اور آپ کی فوری ذمہ داری یہ بنتی ہے کہ ہم اس بات کا احساس کریں کہ سود ی معاملات اللہ تعالیٰ کے غیض و غضب کو آواز دیتے ہیں۔ اللہ باری تعا لیٰ نے اس سے دور رہنے کی بہت واضح ہدایت دے رکھی ہے۔ اللہ کے احکامات سے رو گردانی نہ ہماری دنیا کی بھلائی کی ضامن ہے اور نہ ہی آخرت کی۔ بہت سے لوگ سودی معاملات کو زیادہ Serious نہیں لیتے۔ ان کے نزدیک یہ مولویوں کی بڑسے زیادہ اور کچھ نہیں۔ یا پھر اللہ کی رحمتوں اور اس کے غفور و رحیم ہونے کی صفت لامتناہی پر یقین رکھتے ہوئے سمجھتے ہیں کہ اللہ پاک معاف فرمادیں گے۔ اس میں کیا شک ہے کہ زمین و آسمان بھی اگر گناہوں سے بھرجائیں پھر بھی اس کی رحمت اور مغفرت سب پر حاوی ہے۔ یہ ہمارے ایمان کا جزو ہے۔ مگر ہم اُس کی اُس صفت کو کیوں بھول جاتے ہیں جو اُس کے غیض و غضب ، اُس کی گرفت اور اُس کی پکڑ کو ظاہر کرتی ہے۔ ہم کیوں بھول جاتے ہیں کہ ہمیں اُس کے غضب سے بچ کر اُس کی رحمتوں کی آس رکھنی چاہئے۔ یہ کیا کہ ایک طرف مکمل نافرمانی ہو اور دوسری طرف اُس سے بخشش کی بھی امید ہو۔ اللہ کے واسطے اپنی اصلاح کیجئے۔ اللہ سے ڈریے اس لیے کہ دنیا کی زندگی چند روزہ ہے اور آخرت کا عذاب بہت شدید۔ اللہ ہمارا بھی اور آپ کا بھی حامی و ناصر ہو۔ برائے مہربانی اس پیغام کو زیادہ سے زیادہ لوگوں میں پھیلائیں کہ شائد کسی کی اصلاح آپ کے لیے بھی بخشش اور مغفرت کا ذریعہ بن جائے ۔ آمین یا رب العالمین۔

یہ مضمون جریدہ "الواقۃ” کراچی کے شمارہ، رمضان المبارک 1433ھ/ جولائی  ، اگست 2012- سے ماخوذ ہے۔