سود
پاکستان بلاؤں میں گرفتار ملک. تدارک کی تمنا2
محمد احمد
پاکستان بلاؤں میں گرفتار ملک. تدارک کی تمنا
اس پر فتن دور میں ہماری ریاست کے ستونوں( مثلا ً مقننہ ، عدلیہ ، اور منتظمہ ) کا استحکام شدید خطرات سے دوچار ہے۔ ایک اظہر من الشمس عدالت عظمیٰ کے احکامات نہ ماننا اور اس کی توہین اور بے توقیری پر ملک کے مقتدر طبقہ Elitesکا ڈٹ جاناہے۔ مندرجہ بالا قرانی آیات کا بالواسطہ اشارہ عدلیہ کے ضعف ایمان کی جانب ہے۔ پس مضبوطی ایمان کی دلیل ہے۔ ایک اور قرآنی تقاضہ ملاحظہ کیجئے:
"اے محمد ﷺ ! تمہارے رب کی قسم یہ کبھی مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ اپنے باہمی اختلافات میں یہ تم کو اپنا فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں، پھر جو کچھ فیصلہ تم کرو اس میں اپنے دلوں میں بھی کوئی تنگی محسوس نہ کریں بلکہ سر بسر تسلیم کرلیں۔” ( سورة النساء : ٦٥ )
” تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کی خواہش نفس اس طریقہ کی تابع نہ ہو جائے جسے میں لے کر آیا ہوں ۔ ”
” لوگو !ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمہاری قومیں برادریاں بنا دیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔ در حقیقت اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ پرہیز گار ہے ۔ یقینا اللہ سب کچھ جاننے والا اور با خبر ہے۔ ” ( سورة الحجرات: ١٣)
” جس کا تیل آپ ہی آپ بھڑک پڑتا ہو چاہے اس کو آگ لگے نہ لگے ( اس طرح) روشنی پر روشنی (بڑھنے کے تمام اسباب جمع ہو گئے ہوں)۔” (سورة النور:٣٥)
” اور تم لوگ آپس میں نہ تو ایک دوسرے کا مال ناروا طریقہ سے کھاؤ اور نہ حاکموں کے آگے اس کو اس غرض سے پیش کرو کہ تم کو دوسروں کے مال کا کوئی حصہ قصداً ظالمانہ طریقہ سے کھانے کا موقعہ مل جائے۔” (سورة البقرہ: ١٨٨)
” میں بہر حال ایک انسان ہی تو ہوں۔ ہوسکتا ہے کہ تم ایک مقدمہ میرے پاس لاؤ اور تم میں سے ایک فریق دوسرے کی نسبت زیادہ چرب زبان ہو اور اس کے دلائل سن کر میں اس کے حق میں فیصلہ کردوں ۔ مگر یہ سمجھ لو کہ اس طرح سے اپنے بھائی کی کوئی چیز میرے فیصلے کے تحت تم نے حا صل کرلی تو تم دراصل دوزخ کا ایک ٹکڑا حاصل کروگے۔”
” سات قسم کے لوگوں کو اللہ تعالیٰ اس دن اپنے (عرش کے) سایہ کے نیچے جگہ دے گاجس دن صرف اس کے عرش کا سایہ ہوگا (پہلا شخص) عدل کرنے والا حکمران۔” (صحیح بخاری)
” یہ ایک نصیحت ہے ۔ اب جس کا جی چاہے اپنے رب کی طرف جانے کا راستہ اختیار کرے۔”(سورة المزمل: ١٩)
"بے شک اللہ کے نزدیک بد ترین قسم کے جانور وہ بہرے گونگے لوگ ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے۔ " (٢٢ :٨)
” کاش تم دیکھو وہ وقت جب یہ مجرم سر جھکائے اپنے رب کے حضور کھڑے ہونگے ( اس وقت یہ کہہ رہے ہونگے) اے ہمارے رب! ہم نے خوب دیکھ لیا اور خوب سن لیا اب ہمیں واپس بھیج دیجئے تاکہ ہم نیک عمل کریں، ہمیں اب یقین آگیا ہے۔( جواب میں ارشاد ہوگا) اگر ہم چاہتے تو پہلے ہی ہر نفس کو ہدایت دے دیتے مگر میری وہ بات پوری ہوگئی جو میں نے کہی تھی کہ میں جہنم کو جنوں اور انسانوں سے بھر دوں گا۔ بس اب چکھو مزا اپنی اس حرکت کا کہ تم نے اس دن کی ملاقات کو فراموش کر دیا ہے۔ چکھو ہمیشگی کے لیے عذاب کا مزہ اپنے کرتوتوں کی پاداش میں۔” (سورة السجدہ: ١١٢ – ١١٤)
” اللہ مومنوں کو اس حالت میں ہرگز نہ رہنے دے گا جس میں تم اس وقت پائے جاتے ہو۔ وہ پاک لوگوں کو ناپاک لوگوں سے الگ کر کے رہے گا۔ مگر اللہ کا یہ طریقہ نہیں کہ وہ تم کو غیب پر مطلع کردے۔ غیب کی باتیں بتانے کے لیے تو وہ اپنے رسولوں میں سے جس کو چاہے منتخب کر لیتا ہے۔ لہٰذا (امور غیب کے بارے میں) اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان رکھو۔ اگر تم ایمان اور خدا ترسی کی روش پر چلوگے تو تم کو بڑا اجر ملے گا۔” (سورة آل عمران: ١٧٩)
١۔”اس فرمانبرداری (الاسلام) کے سوا جو شخص کوئی اور طریقہ اختیار کرنا چاہے اس کا وہ طریقہ ہرگز قبول نہ کیا جائے گا اور آخرت میں وہ ناکام اور نامراد رہے گا۔” (سورة آل عمران: ٨٥)
٢۔” اے ایمان والو ! تم پورے کے پورے اسلام میں آجاؤ اور شیطان کی پیروی نہ کرو کہ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ جو صاف صاف ہدایات تمہارے پاس آچکی ہیں ، اگر ان کو پا لینے کے باوجود پھر تم نے لغزش کھائی ، تو خوب جان رکھو اللہ سب پر غالب اورحکیم و دانا ہے۔(ان ساری نصیحتوں اور ہدایتوں کے بعد بھی لوگ سیدھے نہ ہوں تو) کیا اب وہ اس بات کے منتظر ہیں کہ اللہ بادلوں کا چتر لگائے فرشتوں کے پرے ساتھ لیے خود سامنے آموجود ہو اور فیصلہ ہی کر ڈالا جائے؟۔ ” (سورة البقرة: ٢٠٨- ٢١٠)
یہ گھڑی محشر کی ہے تو عرصہ محشر میں ہے
پیش کر غافل عمل کوئی اگر دفتر میں ہے
گر تو می خواہی مسلماں زیستن
نیست ممکن جز بہ قراں زیستن
”وہ منہ پر کہتے ہیں کہ ہم مطیع و فرمانبردار ہیں۔مگر جب تمہارے پاس سے نکلتے ہیں تو ان میں سے ایک گروہ راتوں کو جمع ہوکر تمہاری باتوں کے خلاف مشورہ کرتا ہے۔ اللہ ان کی یہ ساری سر گوشیاں لکھ رہا ہے۔ تم ان کی پرواہ نہ کرو اور اللہ پر بھروسہ رکھو وہی بھروسہ کے لیے کافی ہے۔ کیا یہ لوگ قرآن پر غور نہیں کرتے ؟ اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہت کچھ اختلاف بیانیاں پائی جاتیں۔”
”یہ لوگ جہاں کوئی اطمینان بخش یا خوفناک خبر سن پاتے ہیں اسے لے کر پھیلا دیتے ہیں حالانکہ یہ اگر اسے رسول اور اپنی جماعت کے ذمہ دار اصحاب تک پہنچائیں تو وہ ایسے لوگوں کے علم میں آجائے جو ان کے درمیان اس بات کی صلاحیت رکھتے ہیں کہ اس سے صحیح نتیجہ اخذ کر سکیں۔ تم لوگوں پر اللہ کی رحمت نہ ہوتی تو ( تمہاری کمزوریاں ایسی تھیں کہ) معدودے چند کے سوا تم سب شیطان کے پیچھے لگ گئے ہوتے۔” (سورة النساء :٨١ ، ٨٢ ، ٨٣)
نور خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
قوت عشق سے ہر پست کو بالا کردے
دہر میں اسم محمد سے اجالا کردے
”افسوس ان کے حال ، (ان کی زبان پر ہے)۔ اطاعت کا اقرار اور اچھی اچھی باتیں۔ مگر جب قطعی حکم دے دیا گیا اس وقت وہ اپنے عہد میں اللہ سے سچے نکلتے تو انہی کے لیے اچھا تھا۔اب تم لوگوں سے اس کے سوا کچھ اور توقع کی جاسکتی ہے کہ اگر تم الٹے منہ پھر گئے تو زمین میں پھر فساد برپا کروگے اور آپس میں ایک دوسرے کے گلے کاٹو گے۔ یہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی اور ان کو اندھا اور بہرا بنا دیا ۔ کیا ان لوگوں نے قرآن پر غور نہیں کیا ، یا ان کے دلوں پر قفل چڑھے ہوئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ ہدایت واضح ہو جانے کے بعد اس سے پھر گئے ان کے لیے شیطان نے ان کی روش کو سہل بنا دیا اور جھوٹی توقعات کا سلسلہ ان کے لیے دراز کررکھا ہے۔” (سورة محمد: ٢٠ – ٢٥)
” اس وقت جس کا نامہ اعمال سیدھے ہاتھ میں دیا جائے گا وہ کہے گا لو دیکھو پڑھو میرا نامہ اعمال ، میں سمجھتا تھا کہ مجھے میرا حساب ملنے والا ہے ۔ پس وہ دل پسند عیش میں ہوگا عالی مقام جنت میں جس کے پھلوں کے گچھے جھکے پڑے ہونگے (ایسے لوگوں سے کہا جائے گا) مزے سے کھاؤ پیو ان اعمال کے بدلے میں جو تم نے گزرے ہوئے دنوں میں کیے۔ ” (سورة الحاقہ: ١٩ -٢٤)
وگرنہ……..جب چڑیاںچگ گئیں کھیت تو جاٹ کھڑاپچھتائے
” اور جس کا نامہ اعمال اس کے بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا وہ کہے گا ‘ کاش میرا اعمال نامہ مجھے نہ دیا جاتااور میں نہ جانتا کہ میرا حساب کیا ہے۔ کاش میری وہی موت (جو دنیا میں آئی تھی) فیصلہ کن ہوتی۔آج میرا مال میرے کچھ کام نہ آیا۔ میرا سارا اقتدار ختم ہوگیا (حکم ہوگاکہ) پکڑو اسے جہنم میں جھونک دو اور اس کی گردن میں طوق ڈالدو اور اس کو ستر ہاتھ لمبی زنجیروں میں جکڑ دو۔ یہ نہ اللہ بزرگ و برتر پر ایمان لاتا تھا اور نہ مسکین کو کھانا کھلانے کی ترغیب دیتا تھا۔ لہٰذا آج یہاں اس کا کوئی یار ہے نہ غمخوار اور نہ ہی زخموں کے دھون کے سوا اس کے لیے کوئی کھانا جسے خطا کاروں کے سوا کوئی نہیں کھاتا۔” (سورة الحاقہ: ٢٥ -٣٧)
پاکستان بلاؤں میں گرفتار ملک۔ تدارک کی تمنا
پاکستان بلاؤں میں گرفتار ملک۔ تدارک کی تمنا
محمد احمد
“ خشکی اور تری میں لوگوں کی بد اعمالیوں کے باعث فساد پھیل گیا۔ اس لیے کہ انہیں ان کے بعض کرتوتوں کا پھل اللہ چکھا دے۔ (بہت) ممکن ہے کہ وہ باز آجائیں۔”(سورة الروم: ٤١)
“ اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! اگر تم میں سے کوئی دین سے پھرتا ہے (تو پھر جائے)، اللہ اور بہت سے لوگ ایسے پیدا کر دے گا جو اللہ کو محبوب ہونگے اور اللہ ان کو محبوب ہوگا۔ جو مومنوں پر نرم اور کفار پر سخت ہونگے۔ جو اللہ کی راہ میں جدوجہد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے۔یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہے وہ اسے عطا کرتا ہے ۔ اللہ وسیع ذرائع کا مالک ہے اور سب کچھ جانتا ہے۔”(سورة المائدة:٥٤)
“ اے لوگو،جو ایمان لائے ہو! اللہ سے ڈرو اور جو سود کا بقایا ہے اس کو چھوڑ دو اگر تم ایمان والے ہو ، پس اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کے لیے تیار ہوجاؤ۔” (سورة البقرة:٢٧٩)
رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ:” سود اتنا بڑا گناہ ہے کہ اس کو اگر ستر اجزا ء میں تقسیم کیا جائے تو ہلکے سے ہلکا جزو اس گناہ کے برابر ہوگا کہ آدمی اپنی ماں کے ساتھ زنا کرے۔” (ابن ماجہ)
رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ: ” میں نے آج رات دو اشخاص کو دیکھا جو میرے پاس آئے اور مجھے بیت المقدس لے گئے ، پھر ہم آگے چلے تو ایک خون کی نہر دیکھی جس کے اندر ایک آدمی کھڑا ہے اور دوسرا آدمی اس کے کنارے پر کھڑا ہے۔ جب نہر کے اندر والا آدمی باہر آنا چاہتا ہے تو کنارے والا آدمی اس کے منہ پر پتھر مارتا ہے جس کی چوٹ سے بھاگ کر وہ پھر وہیں چلا جاتا ہے جہاں کھڑا تھا۔ وہ پھر نکلنے کا ارادہ کرتا ہے تو پھر کنارے والا آدمی وہی معاملہ کرتا ہے۔ آنحضرت فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے ان دو ساتھیوں سے پوچھا یہ کیا ماجرا ہے جو میں دیکھ رہا ہوں؟ انہوں نے بتلایا کہ خون کی نہر میں قید کیا ہوا آدمی سود کھانے والا ہے (اپنے عمل کی سزا کھا رہا ہے)۔” (صحیح البخاری، کتاب البیوع)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :”جب کسی قوم میں سود کا لین دین رواج پا جاتا ہے تو اللہ تعالی ان پر ضروریات زندگی کی گرانی مسلط کردیتا ہے اور جب کسی قوم میں رشوت عام ہو جائے تو دشمنوں کا رعب اور غلبہ ان پر ہوجاتا ہے۔”(مسند احمد)
رسول اللہﷺ ان خوفناک بلاؤں کے شکار لوگوں کی روحانی اور اُخروی زندگی کا ڈھب کیا ہوگا ، بتاتے ہیں :“ جب ہم ساتویں آ سمان پر پہنچے تو میں نے اپنے اوپر رعد و برق کو دیکھااس کے بعد ہم ایسی قوم پر سے گزرے جن کے پیٹ رہائشی مکانات کی طرح پھیلے اور پھولے ہوئے ہیںاور جن میں سانپ بھرے ہوئے ہیں جو باہر سے نظر آ رہے ہیں۔ میں نے جبرائیل امین سے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں ؟ انہوں نے فرمایا : یہ سود خور ہیں۔”(مسنداحمد)
اب ان لا حاصل خواہشات کے بندوں کے بارے میں ہمارے حضور رسالت مآ ب ﷺکیا ارشاد فرما گئے ہیں مطالعہ کیجئے:“ پس قسم اللہ کی میں فقر و افلاس سے تمہارے لیے نہیں ڈرتا بلکہ اس بات سے ڈرتا ہوں کہ دنیا تم پر پھیلائی جائے گی جس طرح تم سے پہلوں پر پھیلائی گئی اور جس طرح انہوں نے باہم رشک و تنافس کیا ، اسی طرح کہیں تم بھی نہ کرو اور تم بھی غافل نہ ہو جاؤ جس طرح وہ ہوگئے۔” (بخاری)
“ اشرفیوں اور روپوں والے جھالر دار لباس والے سیاہ عبا والے سب گرے اور ہلاک ہوئے۔” (بخاری)
“ اگر آدم کے بیٹے کے پاس مال کی دو وادیاں ہوں تو وہ تیسری کی تلاش میں مصروف ہوگا۔ اور آدم کے بچے کا پیٹ (یا آنکھ) مٹی کے سوائے کوئی چیز نہیں بھر سکتی۔”(بخاری)
ایسی دولت کی بے بضاعتی کا اظہار مالک الملک اس طرح کرتے ہیں :“ یقین رکھو جن لوگوں نے کفر اختیار کیا اور کفر کی ہی حالت میں جان دی ان میں سے کوئی اگر اپنے آپ کوسزا سے بچانے کے لیے روئے زمین بھر کر بھی سونا فدیہ میں تو اسے قبول نہیں کیا جائے گا۔ ایسے لوگوں کے لیے دردناک سزا تیار ہے اور وہ اپنا کوئی مددگار نہ پائیں گے۔”( آل عمران :٩١)
معلوم ہونا چاہئے کہ خدائی افواج کی طاقت کیا ہے:“ اور تیرے رب کے لشکروں کو خود اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ “ (سورة المدثر : ٣١)
“ اور یہ جو تمہاری زبانیں جھوٹے احکام لگایا کرتی ہیں کہ یہ حلال ہے اور وہ حرام ، تو اس طرح کے حکم لگا کر اللہ پر جھوٹ نہ باندھا کرو۔ جو لوگ اللہ پر جھوٹے افتر ا باندھتے ہیں وہ ہر گز فلاح نہیں پاتے۔ دنیا کا عیش چند روزہ ہے۔ آخر کار ان کے لیے درد ناک سزا ہے۔”( سورة النحل:١١٦- ١١٧)