(ولا تقربوا الزنا)


رمضان المبارک 1434ھ/ جولائ، اگست 2013، شمارہ   16

(ولا تقربوا الزنا)

And Do Dot Come Near Adultery

محمد عالمگیر ( سڈنی ، آسٹریلیا )

ترجمہ : ابو عمار سلیم

 آزادیٔ نسواں کی جو عالمگیر تحریک آج ہمیں بڑی شد ومد سے ساری دنیا پر چھائی ہوئی نظر آتی ہے، وہ صرف صدیوں پر محیط مردوں کی برتری کےرد عمل کا نتیجہ نہیں ہے۔اس بات میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ یہ دنیا کے تقریباًتمام معاشروں میں ہزاروں برسوں سے جاری و ساری ناروا ظلم اور زیادتیوں کے احتجاج کا ایک عملی مظاہرہ بھی ہے جو ہر دور کے تہذیبی ادوار میں مختلف اقسام کی نا انصافیوں سے مزین رہا ہے ۔ حقوق آزادیٔ نسواں کی تحاریک جو آج عرف عام میں عورتوں کی آزادی کے نعرے میں تبدیل ہوچکی ہے بڑی حد تک اسی ظلم و ناانصافی کی ہی پیدا وار ہے جسے آج آواز مل گئی ہے اور اسی رویہ کی ایک منطقی توجیہ ہے جو آج کے معاشرہ  کے زندگی گزارنے کے آداب کے اصولوں کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ کو پڑھنا جاری رکھیں

زنا بالرضا اور زنا بالجبر کا فرق


جریدہ “الواقۃ” کراچی، شمارہ 15،شعبان المعظم 1434ھ/ جون، جولائ2013

زنا بالرضا اور زنا بالجبر کا فرق

محمد تنزیل الصدیقی الحسینی

زنا بالرضا اور زنا بالجبر باعتبارِ کیفیت و نتائج دو مختلف جرم ہیں۔لہٰذا لازم ہے کہ قانون ان دونوں جرائم میں فرق کرے۔شواہد و دلائل کے اعتبا ر سے بھی اور زجر وتوبیخ کے اعتبار سے بھی ۔
 
زنا بالرضا میں دونوں فریق مستحق سزا ہونگے ۔اگر زانی شادی شدہ(محصن/محصنہ) ہے تو وہ سنگسار کیا جائے گا اور اگر غیر محصن ہے تو سورۂ نور کی آیت نمبر ٢ کے تحت سو کوڑوں کا مستحق قرار پائے گا۔ کو پڑھنا جاری رکھیں

پاکستان بلاؤں میں گرفتار ملک. تدارک کی تمنا2


جریدہ "الواقۃ” کراچی، شمارہ  7  ذوالحجہ 1433ھ/ اکتوبر ، نومبر 2012

محمد احمد

پاکستان بلاؤں میں گرفتار ملک.  تدارک کی تمنا

قسط نمبر 2۔۔۔ قسط نمبر 1 پڑھئے
اس پر فتن دور میں ہماری ریاست کے ستونوں( مثلا ً  مقننہ ، عدلیہ ، اور منتظمہ ) کا استحکام شدید خطرات سے دوچار ہے۔ ایک اظہر من الشمس عدالت عظمیٰ کے احکامات نہ ماننا اور اس کی توہین اور بے توقیری پر ملک کے مقتدر طبقہ Elitesکا ڈٹ جاناہے۔ مندرجہ بالا قرانی آیات کا بالواسطہ اشارہ عدلیہ کے ضعف ایمان کی جانب ہے۔ پس مضبوطی ایمان کی دلیل ہے۔ ایک اور قرآنی تقاضہ ملاحظہ کیجئے:

"اے محمد ﷺ ! تمہارے رب کی قسم یہ کبھی مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ اپنے باہمی اختلافات میں یہ تم کو اپنا فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں، پھر جو کچھ فیصلہ تم کرو اس میں اپنے دلوں میں بھی کوئی تنگی محسوس نہ کریں بلکہ سر بسر تسلیم کرلیں۔”                                                ( سورة النساء : ٦٥ )

اس آیت کا حکم صرف حضور ﷺ کی زندگی تک محدود نہیں ہے بلکہ قیامت تک کے لیے ہے۔جو کچھ اللہ کی طرف سے نبی ﷺ لائے ہیں اور جس طریقہ پر اللہ تعالیٰ کی ہدایت اور رہنمائی کے تحت آپ ﷺ نے عمل کیا ہے وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مسلمانوں کے درمیان سند ہے اور سند کو ماننے یا نہ ماننے ہی پر آدمی کے مومن ہونے یا نہ ہونے کافیصلہ ہے۔  ایک حدیث میں اسی بات کو نبی کریم ﷺ نے ان الفاظ میں ارشاد فرمایاہے:

” تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کی خواہش نفس اس طریقہ کی تابع نہ ہو جائے جسے میں لے کر آیا ہوں ۔ ”

 معاشرہ میں چلن کچھ ایساچل پڑاہے کہ جو فرعون وقت ہو ، یا جس کو قارون کی طرح اپنی دولت پر گھمنڈ ہو یا ہامان کی طرحEstablishment  پر بھرپور اختیار ہونے کے ساتھ ساتھ مرد و زن کے بڑے بڑے مخلوط اجتماعات کراتے ہوئے Modernity کی بے قابو سونامی پیدا کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہو تو ” جسد جمہوریت ” میں جان پڑ جاتی ہے۔ اب ان بلائوں کے سد باب کے لیے ” صحیح اور مدبر لیڈر شپ کہاں سے دستیاب ہو ؟” کے جواب میں سب چپ سادھ لیتے ہیں۔ آیئے قران کی روشنی میں اس کا حل تلاش کیا جائے۔

” لوگو !ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمہاری قومیں برادریاں بنا دیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔ در حقیقت اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ پرہیز گار ہے ۔ یقینا اللہ سب کچھ جاننے والا اور با خبر ہے۔ ” ( سورة الحجرات: ١٣)

اس آیت میں پوری نوع انسانی کو خطاب کرکے اصلاح کی گئی ہے جو دنیا میں ہمیشہ عالمی فساد کا موجب رہی ہے۔ یعنی رنگ ، نسل ، زبان ، وطن اور قومیت کاتعصب۔  قدیم ترین زمانے سے آج تک ہر دور میں انسان بالعموم انسانیت کو نظر انداز کرکے اپنے گرد مختلف قسم کے منفی دائرے کھینچتا رہا ہے اور ان ہی محرکات نے نفرت ، عداوت ، تحقیر و  تذلیل اور ظلم و ستم کی بدترین دائرة السوء ( Vicious Circles) برپا کرتے ہوئے سوسائٹی کو اور کرپٹ کر دیا ہے۔ ان دگر گوں حالات میں اپنا رہبر اور رہنما وہی بن سکتا ہے جو دوسروں سے بڑھ کر اللہ سے ڈرنے والا ، برائیوں سے بچنے والا اور نیکی اور پاکیزگی کی راہ پر چلنے والا ہو۔
 
امن و امان کی فضا میں پروردہ ایک ریاست کے لیے انتہائی ضروری ہے کہ ادنیٰ سے ادنیٰ فرد سے لے کر اعلیٰ سے اعلیٰ ریاستی منصب دار تک ہر شخص کے دل کا بحیثیت ایک ادارہ اور انصاف کرنے والے منصفین کا فردا ً فردا ً ادب و احترام دل میں بس جانا چاہئے تاکہ وہ صرف لبوں تک  (Lip Service) محدود نہ ہوجائے۔ اب اولین درجہ پر جج حضرات پر واجب ہے کہ وہ اپنے نفوس میں سورة حجرات کی تقویٰ سے متعلق ہدایات جانگزیں فرماتے ہوئے انصاف کا ترازو سنبھالیں۔ یاد رہے کہ ایسے مبارک افراد جو ذہین ترین بھی ہوتے ہیں بلا تخصیص مذہب ،بنی نوع انسانی میں ہر دور میں پائے گئے ہیں۔ چراغ کے تیل سے تمثیلاً استنباط کرتے ہوئے رب کائنات کا منشا ء مندرجہ ذیل ارشاد ربانی سے پوری طرح واضح ہوجاتاہے :

”   جس کا تیل آپ ہی آپ بھڑک پڑتا ہو چاہے اس کو آگ لگے نہ لگے ( اس طرح) روشنی پر روشنی (بڑھنے کے تمام اسباب جمع ہو گئے ہوں)۔” (سورة النور:٣٥)

کرپشن ایک لعنت کی طرح معاشرہ پر مسلط ہے اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ اس سے جنگی بنیاد پر ( On War Footing) نمٹا جائے اور اس ضمن میں قران کریم کا یہ حکم ہے کہ

” اور تم لوگ آپس میں نہ تو ایک دوسرے کا مال ناروا طریقہ سے کھاؤ اور نہ حاکموں کے آگے اس کو اس غرض سے پیش کرو کہ تم کو دوسروں کے مال کا کوئی حصہ قصداً ظالمانہ طریقہ سے کھانے کا موقعہ مل جائے۔” (سورة البقرہ: ١٨٨)

اس آیت کا ایک مفہوم تویہ ہے کہ حاکموں کو رشوت دے کر ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش نہ کرو ۔ اور دوسرا یہ کہ جب تم خود جانتے ہو کہ مال دوسرے شخص کا ہے ، تو محض اس لیے کہ اس کے پاس ملکیت کا کوئی ثبوت نہیں ہے یا اس بنا پر کہ کسی اینچ  پینچ سے تم اس کو کھا سکتے ہو ، اس کا مقدمہ عدالت میں مت لے جاؤ۔ ہو سکتا ہے کہ حاکم عدالت مقدمہ کی روداد کے مطابق وہ مال تمہیں دلوادے۔حاکم کا یہ فیصلہ غلط بنائی ہوئی روداد سے دھوکہ کھا جانے کی سبب سے ہوگا۔ اس لیے عدالت سے اس کی ملکیت کا حق حاصل کرنے کے باوجود حقیقت میں تم اس کے جائز مالک نہیں ہوگے بلکہ عنداللہ وہ تمہارے لیے حرام ہی رہے گا۔ ( یہاں ہدایت الٰہی کا اطلاق  بعینہ بار کے ارکان پر اتنا ہی ہوگا جتنا کہ بنچ کے جج حضرات مکلف ہونگے۔)مزید وضاحت کے لیے حضور ﷺ فرماتے ہیں:

” میں بہر حال ایک انسان ہی تو ہوں۔ ہوسکتا ہے کہ تم ایک مقدمہ میرے پاس لاؤ اور تم میں سے ایک فریق دوسرے کی نسبت زیادہ چرب زبان ہو اور اس کے دلائل سن کر میں اس کے حق میں فیصلہ کردوں ۔ مگر یہ سمجھ لو کہ اس طرح سے اپنے بھائی کی کوئی چیز میرے فیصلے کے تحت تم نے حا صل کرلی تو تم دراصل دوزخ کا ایک ٹکڑا حاصل کروگے۔”

ایک اور حدیث مبارک کا ایک حصہ ملاحظہ کریں،حضور  ﷺ نے ارشاد فرمایا:

” سات قسم کے لوگوں کو اللہ تعالیٰ اس دن اپنے (عرش کے) سایہ کے نیچے جگہ دے گاجس دن صرف اس کے عرش کا سایہ ہوگا (پہلا شخص) عدل کرنے والا حکمران۔” (صحیح بخاری)

اللہ رب العزت کے نزدیک ادنیٰ عادل جج یا مجسٹریٹ ، اور عادل سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کے جج کے درمیان ان کے دنیاوی مراتب کی کوئی اہمیت و تخصیص نہیں کہ یہ ان کے لیے عرش کے سایہ کے فیصلہ کی بنیاد بن سکے۔ اس لیے ہر انصاف کی ترازو پکڑنے والے مسلمان کو اپنی کم تر حیثیت نظر انداز کرتے ہوئے اپنے پالنے والے کے اس بیان کردہ نعمت عظمیٰ کو اپنی زندگی کا اولین مقصد بنانے اور عملی میدان میں آگے سے آگے بڑھنے کی انتھک اور جاںگسل جدوجہد میں اپنا حصہ (وقت ضائع کیے بغیر)  ڈال دینا چاہئے۔چونکہ بنچ اور بار انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے اصولی بنیادوں پرایک دوسرے کی معاونت کے پابند ہیں اس لیے عدالت میں تعاون کرنے والے وکلا اپنی حسن نیت کی برکت اپنے اللہ سے عرش بریں کے سایے تلے عادل و فاضل ججوں کے درمیان جگہ ان شا ء اللہ پالیں گے۔
 
ہم نہیں جانتے کہ ہماری صفوں میں ان مذکورہ بالا صفات کی شخصیات ہیں بھی کہ نہیں۔ اگر وہ ہیں تو اغلبا ً وہ کم تعداد میں ہوں یا نہ ہونے کے برابر ہوں اور غلبہ حاصل کرنے کی پوزیشن میں اب تک نہ آئے ہوں ۔ دراصل ہمارے وطن میں غلبۂ اشرار کم ہو ہی نہیں سکتا جب تک خدائی جنگ کی سیز فائر (Cease Fire) کروانے کے لیے اس ملک کے باسیوں کے قلوب رجوع الی اللہ کرتے ہوئے اپنے مقتدر طبقوں کو جنگ بندی اور اصلاح احوال پر پوری شدت سے اور پوری درد مندی سے مجبور نہ کر لیں۔ ان شا ء اللہ اس مضمون میں بیان کردہ آیات قرانی برہان قاطع ہیں۔ روز روشن کی مانند ہر خاص و عام کو نظر آرہا ہے کہ پاکستان فیصلہ خداوندی کے مطابق نرغہ اغیار میں ہے۔ حکمرانوں کو ایک طرف اپنے برگزیدہ کلام کے بارے میں خداوند تعالیٰ  فرماتے ہیں :

” یہ ایک نصیحت ہے ۔ اب جس کا جی چاہے اپنے رب کی طرف جانے کا راستہ اختیار کرے۔”(سورة المزمل: ١٩)

 تو دوسری جانب جھڑکتے ہوئے فرمایا :

"بے شک اللہ کے نزدیک بد ترین قسم کے جانور وہ بہرے گونگے لوگ ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے۔ " (٢٢ :٨)

لگتا ہے کہ حکمران اپنے لیے خود ساختہ مگر دائمی استثنا ء  کے حصول کا تہیہ کر چکے ہیں۔ اور بر افروختہ بلاؤں نے ان مقتدر طبقوں کا بشمولیت سودی گماشتوں کے سرعت رفتار سے تعاقب جاری رکھا ہوا ہے۔ ہرانسان کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔، مگر استثناء کے عشق میں مبتلا گروہ اپنے رب کے حضور قیامت والی پیشی کے دن اپنے معیوب سفاکانہ طرز عمل کا مظاہرہ کرنے سے باز نہیں آئے گا ۔ مالک الملک کا ہم پر احسان ہے کہ وہ دنیا میں یوم الحسرت کا مشاہدہ اپنے متلو (یعنی تلاوت کیے جانے والے ) الفاظ میں کرا رہے ہیں :

” کاش تم دیکھو وہ وقت جب یہ مجرم سر جھکائے اپنے رب کے حضور کھڑے ہونگے ( اس وقت یہ کہہ رہے ہونگے)  اے ہمارے رب! ہم نے خوب دیکھ لیا اور خوب سن لیا اب ہمیں واپس بھیج دیجئے تاکہ ہم نیک عمل کریں، ہمیں اب یقین آگیا ہے۔( جواب میں ارشاد ہوگا) اگر ہم چاہتے تو پہلے ہی ہر نفس کو ہدایت دے دیتے مگر میری وہ بات پوری ہوگئی جو میں نے کہی تھی کہ میں جہنم کو جنوں اور انسانوں سے بھر دوں گا۔ بس اب چکھو مزا اپنی اس حرکت کا کہ تم نے اس دن کی ملاقات کو فراموش کر دیا ہے۔ چکھو ہمیشگی کے لیے عذاب کا مزہ اپنے کرتوتوں کی پاداش میں۔” (سورة  السجدہ: ١١٢ – ١١٤)

حکمرانوں کی دیرینہ خواہش بہر صورت الیکشن جیتنے کی ہوتی ہے۔ کامیابی کی صورت میں مناسب لیپا پوتی سے یہ لوگ اپنی غلطیوں پر پردہ ڈال دیتے ہیں۔ اور گاڑی پرانے طرز پر ہی چلتی رہتی ہے۔ آخرت سے لا پرواہی کا قبیح ترین انجام قران پاک میں بیان ہو چکا ہے۔ حالا ت میں تبدیلی ناگزیر ہے ۔ اس لیے مسلمانوں کے روڈ میپ  (Road Map)  اگر مغربی ماہرین کے توسط سے بنیں گے تو اسلامی معاشرہ مذکورہ بالا بلاؤں کے تعاقب و مزاہمت کو نہ روک پائے گا۔ پہلی تبدیلی کا ایک خوش آئند حوالہ کلام پاک کے بابرکت الفاظ میں ملاحظہ کیجئے:

” اللہ مومنوں کو اس حالت میں ہرگز نہ رہنے دے گا جس میں تم اس وقت پائے جاتے ہو۔ وہ پاک لوگوں کو ناپاک لوگوں سے الگ کر کے رہے گا۔ مگر اللہ کا یہ طریقہ نہیں کہ وہ تم کو غیب پر مطلع کردے۔ غیب کی باتیں بتانے کے لیے تو وہ اپنے رسولوں میں سے جس کو چاہے منتخب کر لیتا ہے۔ لہٰذا (امور غیب کے بارے میں)  اللہ اور اس کے رسول  ﷺ  پر ایمان رکھو۔ اگر تم ایمان اور خدا ترسی کی روش پر چلوگے تو تم کو بڑا اجر ملے گا۔” (سورة آل عمران: ١٧٩)

حزب اختلاف کے لیے خوش خبری ہے اگر وہ اپنے زمینی نقشہ جات کی مطابقت  (Alignment)   مکمل طور پر اسلام پر رکھیں اور بلا خوف و خطر عمل پیرا ہوجائیں۔ اس ضمن میں رب قدوس کے دو پالیسی احکام یہ ہیں:

١۔”اس فرمانبرداری (الاسلام) کے سوا جو شخص کوئی اور طریقہ اختیار کرنا چاہے اس کا وہ طریقہ ہرگز قبول نہ کیا جائے گا اور آخرت میں وہ ناکام اور نامراد رہے گا۔” (سورة آل عمران: ٨٥)

٢۔” اے ایمان والو ! تم پورے کے پورے اسلام میں آجاؤ اور شیطان کی پیروی نہ کرو کہ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ جو صاف صاف ہدایات تمہارے پاس آچکی ہیں ، اگر ان کو پا لینے کے باوجود پھر تم نے لغزش کھائی ، تو خوب جان رکھو اللہ سب پر غالب اورحکیم و دانا ہے۔(ان ساری نصیحتوں اور ہدایتوں کے بعد بھی لوگ سیدھے نہ ہوں تو) کیا اب وہ اس بات کے منتظر ہیں کہ اللہ بادلوں کا چتر لگائے فرشتوں کے پرے ساتھ لیے خود سامنے آموجود ہو اور فیصلہ ہی کر ڈالا جائے؟۔ ” (سورة البقرة: ٢٠٨- ٢١٠)

یہ الفاظ قابل غور ہیں۔ ان سے اس حقیقت پر روشنی پڑتی ہے کہ اس دنیا میں انسان کی ساری آزمائش اس بات پر ہے کہ وہ حقیقت کو بغیر دیکھے مانتا ہے کہ نہیں اور ماننے کے بعد اتنی اخلاقی طاقت رکھتا ہے یا نہیں کہ نافرمانی کا ااختیار رکھنے کے باوجود فرمانبرداری اختیا ر کرے۔چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء کی بعثت میں، کتابوں کی تنزیل میں ، حتیٰ کہ معجزات تک میں عقل کے امتحان اور اخلاقی قوت کی آزمائش کا ضرور لحاظ رکھا ہے اور کبھی حقیقت کو اس طرح بے پردہ نہیں کردیا ہے کہ آدمی کے لیے مانے بغیر چارہ نہ رہے۔ کیونکہ اس کے بعد تو آزمائش بالکل بے معنیٰ ہو جاتی ہے اور امتحان میں کابیابی اور ناکامی کا کوئی مفہوم باقی نہیں رہتا ہے۔ اسی بنا پر یہاں فرمایا جارہا ہے کہ اس وقت کا انتظار نہ کرو جب اللہ اور اس کی سلطنت کے کارکن فرشتے خود سامنے آجائیں کیونکہ پھر تو فیصلہ ہی کر دیا جائے گا۔ ایمان لانے اور اطاعت میں سر جھکانے کی ساری قدر و قیمت اس وقت تک ہے جب حقیقت تمہارے حواس سے پوشیدہ ہو اور تم اسے صرف دلیل سے تسلیم کرکے اپنی دانش مندی کا اور محض فہمائش سے اس کی پیروی اور اطاعت اختیار کرکے اپنی اخلاقی طاقت کا ثبوت  دو۔ ورنہ جب حقیقت بے نقاب سامنے آجائے اور تم بچشم سر دیکھ لو کہ اللہ اپنے جلال کے ساتھ تخت پر متمکن ہے اور اس ساری کائنات کی سلطنت اس کے فرمان پر چل رہی ہے اور یہ فرشتے زمین و آسمان کے انتظام میں لگے ہوئے ہیں اور تمہاری یہ ہستی اس کے قبضہ قدرت میں پوری بے بسی کے ساتھ جکڑی ہوئی ہے، اس وقت تم ایمان لائے اور اطاعت پر آمادہ ہوئے تو اس ایمان اور اطاعت کی قیمت ہی کیا ہے؟۔ اس وقت تو کوئی کٹے سے کٹا کافر اور بد سے بدتر مجرم بھی انکار اور نافرمانی کی جراء ت نہیں کر سکتا۔ ایمان لانے اور اطاعت قبول کرنے کی مہلت صرف اس وقت تک ہے جب تک پردہ کشائی کی وہ ساعت سامنے نہیں آتی۔ اور جب وہ ساعت آگئی تو پھر نہ مہلت ہے نہ آزمائش۔بلکہ وہ تو فیصلہ کا وقت ہے۔

 یہ گھڑی محشر کی ہے تو عرصہ محشر میں ہے

پیش کر غافل عمل کوئی اگر دفتر میں ہے

پاکستان ، مدینہ منورہ کی بنی ہوئی اسلامی مملکت کے بعد پہلی نیشن اسٹیٹ (Nation State) ہے۔ جس کی بیخ کنی پر شیطانی قوتیں متحد و متفق ہیں ۔ ہم نے اپنے اس مقالے میں متعدد قرآنی حوالے پیش کرتے ہوئے آگاہ کیا ہے اللہ کے پاک کلام کو حرز جاں بنائے بغیر اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی ہمارے خلاف برپا جنگ سے چھٹکارا عبث ہے۔ مفکر پاکستان نے مختصرا ً بتا دیا

گر تو می خواہی مسلماں زیستن

نیست ممکن جز بہ قراں زیستن

یعنی قران کو حرز جاں آپ اسی وقت بنا سکتے ہیں جب اسے لے کر اٹھیں اور دعوت الی اللہ کا کام شروع کردیں اور جس طرح یہ کتاب ہدایت دیتی جائے اس طرح قدم اٹھاتے چلے جائیں تب و ہ سارے تجربات آپ کو پیش آئیں گے جو  نزول قرآن کے وقت پیش آئے تھے۔مکہ ، حبش اور طائف کی منزلیں بھی آپ کو دیکھنی پڑیں گی اور بدر و احد سے لے کر حنین اور تبوک تک کے مراحل بھی آپ کے سامنے آئیں گے۔ ابو جہل اور ابو لہب سے بھی آپ کو معاملہ ہوگا اور یہود و منافقین بھی آپ کو ملیں گے۔ اور مئولفة القلوب سے لے کر سابق الاولون تک سبھی قسم کے انسانی نمونے آپ دیکھ لیں گے اور برت بھی لیں گے۔ اس کی جس جس منزل سے آپ گزرتے جائیں گے قرآن کی کچھ سورتیں اور آیات بھی آپ کے سامنے آکر آپ کو بتاتی چلی جائیں گی کہ وہ اس منزل پر اتری تھیں اور یہ ہدایت لے کر آئیں تھیں۔پھر اسی کلیہ کے مطابق قرآن کے احکام اس کے معاشی و تمدنی ہدایات اور زندگی کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں اس کے بتائے ہوئے اصو ل و قوانین انسانی سمجھ میں آ ہی نہیں سکتے جب تک کہ وہ ان کو برت نہ لے۔ نہ وہ شخص اس کتاب کو سمجھ سکتا ہے جس نے اپنی انفرادی زندگی کو اس کی پیروی سے آزاد رکھا ہو اور نہ وہ قوم اس سے آشنا ہو سکتی ہے جس کے سارے اجتماعی ادارے اس کی بتائی ہوئی روش کے خلاف چل رہے ہوں۔
 
سودی مسائل کے ضمن میں اللہ کے نیک بندے خوش گمان ہیں کہ ہمارے عادل ججز فیصلہ کن اقدامات کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔ اس لیے بہتر ہوگا کہ مزید تجزیہ کرلیا جائے ۔ اولاً عدالت عظمیٰ ملک کے توہین عدالت کے تمام قوانین ، رولز اور پروسیجرز کا تفصیلی جائزہ لے کہ یہ بنیادی قسم کے قوانین ہر لحظہ بے اثر ہوتے جارہے ہیں تو کیوں۔اگر آئینی چپقلش حل ہونے میں نہ آرہی ہوں تو توہین عدالت کی لاٹھی برسا کر کام نکالا جاسکتا تھا مگر اہانت عدالت اعلیٰ حکومتی عہدیداروں سے لے کر صف اول کے ممتاز بار کے ارکان کا طرہ امتیاز بنتا جارہا ہے ۔ غرضیکہ آئین بازیچئہ اطفال بن چکا ہے ۔ پارلیمانی روایات کا خاصہ آئین و قوانین کا تقدس اور سر بلندی برقرار رکھنا ایسا ہے جیسا مملکت کے سبز ہلالی کو اونچے سے اونچا رکھنا مگر عمل کی دنیا میں منفی سوچ بروئے کار ہے اور فروغ پارہی ہے۔ قرآنی اشارہ ” بات یہ ہے کہ صرف آنکھیں ہی اندھی نہیں ہوتی ہیں بلکہ دل اندھے ہو جاتے ہیں جو سینوں میں ہیں۔” (سورة الحج:٤٦) فعل تعقل کا انتساب دل سے کیا گیا ہے جس سے استدلال کیا گیا ہے کہ عقل کا محل قلب ہے۔ اور بعض کہتے ہیں کہ محل عقل دماغ ہے۔بعض کہتے ہیں کہ فہم و ادراک کے حصول میں دل و دماغ دونوں کا آپس میں بڑا گہرا تعلق ہے۔
 
ہم مزید آیات قرآنی کا مطالعہ ایک گہرے غور و فکر کی خاطر کرتے ہیں کہ ججز کو اپنے لیے روشن لائحہ عمل مرتب کرنا دشوار نہ ہو۔ رب کائنات کا ارشاد ہے :

”وہ منہ پر کہتے ہیں کہ ہم مطیع و فرمانبردار ہیں۔مگر جب تمہارے پاس سے نکلتے ہیں تو ان میں سے ایک گروہ راتوں کو جمع ہوکر تمہاری باتوں کے خلاف مشورہ کرتا ہے۔ اللہ ان کی یہ ساری سر گوشیاں لکھ رہا ہے۔ تم ان کی پرواہ نہ کرو اور اللہ پر بھروسہ رکھو وہی بھروسہ کے لیے کافی ہے۔ کیا یہ لوگ قرآن پر غور نہیں کرتے ؟ اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہت کچھ اختلاف بیانیاں پائی جاتیں۔”  

”یہ لوگ جہاں کوئی اطمینان بخش یا خوفناک خبر سن پاتے ہیں اسے لے کر پھیلا دیتے ہیں حالانکہ یہ اگر اسے رسول اور اپنی جماعت کے ذمہ دار اصحاب تک پہنچائیں تو وہ ایسے لوگوں کے علم میں آجائے جو ان کے درمیان اس بات کی صلاحیت رکھتے ہیں کہ اس سے صحیح نتیجہ اخذ کر سکیں۔ تم لوگوں پر اللہ کی رحمت نہ ہوتی تو ( تمہاری کمزوریاں ایسی تھیں کہ)  معدودے چند کے سوا تم سب شیطان کے پیچھے لگ گئے ہوتے۔” (سورة النساء :٨١ ، ٨٢ ، ٨٣)

رب کریم ججز کو کیا خوب آگاہ فرما رہے ہیں کہ ہم واقف ہیں کہ کون سے سازشی کردار تمہاری عزت و حیثیت کو معاشرہ میں مجروح (Character Assasination)   کرنے کے درپے ہیں۔ تم ان سے خوف نہ رکھو اور نہ ہی پرواہ کرو۔ تمہارا بھروسہ صرف اور صرف باری تعالیٰ پر بلا شک و تشکیک ہونا چاہئے۔ رہے سازشی ، اللہ سبحانہ و تعالیٰ خود ان شک و شبہ والے نفوس سے نمٹ لیں گے۔ تم اللہ کی رسی کو مظبوطی سے تھامے رکھو۔ کتمان حق سے بچو اور اعلاء کلمة الحق دل و جان سے بلا کسی خوف و تردد کے کرتے رہو۔یہ لوگ میرے احکام سے غور و خوض سے اعراض برتتے  ہیں اور جھوٹی افواہ سازی کا ایک طوفان بپا کیے ہوئے ہیں ۔ یہ کام اپنی بے حد و حساب سودی رقومات سے مختلف النوع ذرائع ابلاغ  (Multimedia) استعمال کرتے ہوئے انجام دیتے ہیں۔ اگر ان میں امن و اصلاح ، اخلاق اور ایمان کی رمق ہوتی تو وہ یہ افواہ گڑھنے کی بجائے ایسی اطلاعات اللہ کے رسول اور اپنی جماعت کے ذمہ دار افراد کے علم میں لاتے تاکہ وہ اپنی مثبت صلاحیتوں سے احسن نتائج اخذ فرماتے۔ مگر ہو رہا ہے اس کے برعکس۔ یہ مالک کی رحمت و مہربانی کا تقاضا ہے کہ تمہیں شیطان کے چنگل سے نکالتا رہاہے۔ وُقعت و سرفرازی منبر و محراب مصطفیٰﷺ کو ہی زیبا ہے۔

نور خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن

پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا

 اس لیے لازم ہے کہ ججز کرسئی عدالت کو بمع توہین عدالت کے ،ایک نوجوان مجسٹریٹ کے Summary Trial   سے زیادہ اہمیت نہ دیں راہ نجات اپنے آپ کو دین متین کی خدمت میں وقف کردینے میں ہے۔ پھر شعور حاصل ہوگا توتوہین عدالت تو دراصل توہین رسالت ہی ہے۔ پھر مفکر ملت کا یہ سمجھانا کیسا عقل و فہم کو ” سراجا ً منیرا ً ” کرے گا۔ 

قوت عشق سے ہر پست کو بالا کردے

دہر میں اسم محمد سے اجالا کردے

اس مقالہ کا مرکزی موضوع سودی طرز معیشت سے مکمل علیحدگی اور خدائی جنگ سے مکمل امن و امان کی طرف مراجعت ہے۔ اس لیے کہ سازشی کرداروں کے کرتوتوں کے متعلق رب العالمین ارشاد فرماتے ہیں :

”افسوس ان کے حال ، (ان کی زبان پر ہے)۔ اطاعت کا اقرار اور اچھی اچھی باتیں۔ مگر جب قطعی حکم دے دیا گیا اس وقت وہ اپنے عہد میں اللہ سے سچے نکلتے تو انہی کے لیے اچھا تھا۔اب تم لوگوں سے اس کے سوا کچھ اور توقع     کی جاسکتی ہے کہ اگر تم الٹے منہ پھر گئے تو زمین میں پھر فساد برپا کروگے اور آپس میں ایک دوسرے کے گلے کاٹو گے۔     یہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی اور ان کو اندھا اور بہرا بنا دیا ۔ کیا ان لوگوں نے قرآن پر غور نہیں کیا ، یا ان کے دلوں پر قفل چڑھے ہوئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ ہدایت واضح ہو جانے کے بعد اس سے پھر گئے ان کے لیے شیطان نے ان کی روش کو سہل بنا دیا اور جھوٹی توقعات کا سلسلہ ان کے لیے دراز کررکھا ہے۔” (سورة محمد: ٢٠ – ٢٥)

ملکی زبوں حالی کا بھر پور اندازہ ہر خاص و عام کو ہو چکا ہوگا۔ قرآن دو راستے تجویز کرتا ہے ۔ اگر ملت کے قدم مضبوطی سے سیدھے راستے پر گامزن ہوگئے تو تا دم آخر نقشہ بروز قیامت یہ ہوگا:

 ” اس وقت جس کا نامہ اعمال سیدھے ہاتھ میں دیا جائے گا وہ کہے گا لو دیکھو پڑھو میرا نامہ اعمال ، میں سمجھتا تھا      کہ مجھے میرا حساب ملنے والا ہے ۔ پس وہ دل پسند عیش میں ہوگا عالی مقام جنت میں جس کے پھلوں کے گچھے جھکے      پڑے ہونگے (ایسے لوگوں سے کہا جائے گا) مزے سے کھاؤ پیو ان اعمال کے بدلے میں جو تم نے گزرے ہوئے دنوں میں کیے۔ ” (سورة الحاقہ: ١٩ -٢٤)

وگرنہ……..جب چڑیاںچگ گئیں کھیت تو جاٹ کھڑاپچھتائے

” اور جس کا نامہ اعمال اس کے بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا وہ کہے گا ‘ کاش میرا اعمال نامہ مجھے نہ دیا جاتااور میں نہ جانتا کہ میرا حساب کیا ہے۔ کاش میری وہی موت (جو دنیا میں آئی تھی) فیصلہ کن ہوتی۔آج میرا مال میرے کچھ کام نہ آیا۔ میرا سارا اقتدار ختم ہوگیا (حکم ہوگاکہ) پکڑو اسے جہنم میں جھونک دو اور اس کی گردن میں طوق ڈالدو اور اس کو ستر ہاتھ لمبی زنجیروں میں جکڑ دو۔ یہ نہ اللہ بزرگ و برتر پر ایمان لاتا تھا اور نہ مسکین کو کھانا کھلانے کی ترغیب دیتا تھا۔ لہٰذا آج     یہاں اس کا کوئی یار ہے نہ غمخوار اور نہ ہی زخموں کے دھون کے سوا اس کے لیے کوئی کھانا جسے خطا کاروں کے سوا کوئی نہیں کھاتا۔” (سورة الحاقہ: ٢٥ -٣٧)

اے اللہ ! ہم کمزور ہیں ، بس اپنی رضا جوئی میں ہمارا ضعف اپنی قوت سے دور کردے اور کشاں کشاں ہمیں خیر کی طرف لے جا اور الاسلام کو ہماری پسند کا منتہا بنا دے۔ ہم ذلیل ہیں تو ہمیں عزت دے اور ہم محتاج ہیں تو ہمیں رزق دے۔ اے اللہ ! ہمارے دل ، ہماری مہار اور ہمارے اعضا تیری مٹھی میں ہیں اور تو نے ہمیں ان میں سے کسی کا مالک نہیں بنایا۔ پس جب تو نے ہمارے ساتھ یہ معاملہ کیا ہے تو ، تو ہی بس ہمارا ولی بن جا اور ہمیں سیدھے رستے پر لے جا۔ آمین یا رب العالمین

پاکستان بلاؤں میں گرفتار ملک۔ تدارک کی تمنا


جریدہ "الواقۃ” کراچی، شمارہ  (5 / 6 )  شوال، ذیقعد  1433ھ/   ستمبر، اکتوبر 2012

پاکستان بلاؤں میں گرفتار ملک۔ تدارک کی تمنا

محمد احمد

اپنا عزیز از جان وطن بے شمار مسائل کی زد میں ہے۔ ان کی نوعیت اتنی حیران کن ہے بلکہ تباہ کن ہے کہ بے اختیار ان مسائل کو بلاؤں کا خطاب دئیے بغیر بات بنتی نظر نہیں آتی !  فی زمانہ ابلاغ عامہ کے ذرائع کی وسعت پذیری نے کرہ ارض کو ایک ہمہ جہتی بحر و بر پر محیط گاؤں Global Village کا درجہ عطا کردیا ہے ۔ اسی گاؤں کی مناسبت سے ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ دنیا میں چین و سکون اور امن و امان کا دور دورہ ہوتا مگر حالات تیزی سے دوسرا رخ اختیار کر گئے اور فساد فی الارض سے امن امان تہ و بالا ہوگیا۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ اپنی نازل کردہ آخری آسمانی کتاب میں چودہ سو سال قبل اس گاؤں والوں کو متنبہ فرماتے ہیں : 
“ خشکی اور تری میں لوگوں کی بد اعمالیوں کے باعث فساد پھیل گیا۔ اس لیے کہ انہیں ان کے بعض کرتوتوں کا پھل اللہ چکھا دے۔ (بہت) ممکن ہے کہ وہ باز آجائیں۔”(سورة الروم: ٤١)

ہر وہ مہیب جنگ جو ایک مملکتوں کا گروہ دوسرے ممالک سے لڑتا ہے ، اس سے جو کثیر جانی ، مالی اور معاشرتی نقصانات وقوع پذیر ہوتے ہیں ان کا اندازہ اور تخمینہ لگا نا کوئی مشکل امر نہیں ہے۔ مندرجہ بالا قرآنی اصول کا اطلاق ان اقسام کی جنگوں پر بالعموم اور گزشتہ ادوار کی دو جنگ عظیموں پر بالخصوص ہوتا ہے۔ اس ضمن میں دنیا بھر کی لائبریریاں گواہ ہیں ۔ ( یہ صرف ہوش اڑانے والے نقصانات بتانے پر اکتفا کرتی ہیں ۔ کتبِ سماوی کے جاری و ساری اصولوں سے انہیں غرض نہیں)  علاوہ ازیں یہ اصول پروردگار عالم کا تمام لوگوں ،تمام مذاہب کے ماننے والوں ، دہریوں اور مشرکوں پر پوری طرح لاگو ہے۔
من حیث الجماعة امت مسلمہ کا حال زار ذرا پتلا ہے اور دیگر مذاہب کے بالمقابل دگرگوں ہوتا چلا جا رہا ہے۔ایسا لگتا ہے کہ امت میں عقائد ، علم اور اعمال کا بگاڑ بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ دانشوران قوم دن رات بے شمار تجاویز اور حل ابلاغ عامہ کے ذرائع سے پیش کرتے رہتے ہیں مگر بہت کم خدائی احکامات سے رجوع فرمانے کی تگ و دو کرتے ہیں۔ ایک آیت کریمہ مسلمانوں کو توجہ دلاتی ہے : 
“ اے لوگو جو ایمان لائے ہو !  اگر تم میں سے کوئی دین سے پھرتا ہے (تو پھر جائے)، اللہ اور بہت سے لوگ ایسے پیدا کر دے گا جو اللہ کو محبوب ہونگے اور اللہ ان کو محبوب ہوگا۔ جو مومنوں پر نرم اور کفار پر سخت ہونگے۔ جو اللہ کی راہ میں جدوجہد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے۔یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہے وہ اسے عطا کرتا ہے ۔ اللہ وسیع ذرائع کا مالک ہے اور سب کچھ جانتا ہے۔”(سورة المائدة:٥٤)
پتہ چلتا ہے کہ اسلام کی نظر میں اس دور زبوں حالی میں بہترین لوگ ، اولوالعزم اور راسخ العقیدہ اور سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند افراد کار ( ؎  ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی) صدق دل سے اجتماعی توبہ و استغفار کرتے صراط مستقیم کی جانب رواں دواں ہوسکتے ہیں۔ بشرط یہ کہ امت مسلمہ کے ذہین ترین ، بر سر آوردہ اشرافیہ ، سب اقسام کی جنگوں سے زیادہ مہلک ترین جنگ جو ان کے سروں پر مسلط ہے اس کا مدلل اور محقق ادراک فرماتے ہوئے لائحہ عمل تجویز کریں اور اپنا تن من دھن اس جنگ سے نکالنے کے لیے قربان کردیں، تو بات بنے!
مالک الملک غضبناک لہجہ میں الٹی میٹم دے رہے ہیں :
“ اے لوگو،جو ایمان لائے ہو! اللہ سے ڈرو اور جو سود کا بقایا ہے اس کو چھوڑ دو اگر تم ایمان والے ہو ، پس اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کے لیے تیار ہوجاؤ۔” (سورة البقرة:٢٧٩)
ماضی میں جنگ کے اشتہار سے جو مقصود مرادلیا جاتا تھا آج کی حربی اصطلاح میں اسے الٹی میٹم سے ہی تعبیر کریں گے۔اگر کوئی “ مخلوق” ملک یا سلامتی کونسل الٹی میٹم کے نام سے یا یک طرفہ پابندیوں کی شکل میں دھمکیاں دے تو ملک کی انتظامیہ کانپ جاتی ہے اور اس ناگہانی آفت سے نجات حاصل کرنے کے لیے ہر قسم کی دوڑ دھوپ سے جلد مضمحل ہو جاتی ہے۔ کسی صورت چین نصیب ہوتا نظر نہیں آتاہے۔ مگر رب العزت کے مندرجہ بالا احکام سے پہلو تہی پورے ملک کو کس پستی اور ذلت سے متعارف کرا رہی ہے اس کا مکمل اور محقق ادراک ہو نہیں پاتا۔ اس نہ ہونے والے ادراک کا تعلق ( مروجہ قانون کی زبان میں Nexus ) احکم الحاکمین کے حکم کے اس جملے : ”اگر تم ایمان والے ہو” سے ہے۔ مگر اس بات کا کیا کیا جائے بہ حیثیت مجموعی ایمانی حالت ڈانواں ڈول ہے اور اس خدائی جنگ کا خمیازہ پورا ملک بھگت رہا ہے۔

ہمارے اوپر ان بلاؤں کے پے درپے نزول کی واحد  وجہ ہے کہ ہم سود سے ناتہ نہیں توڑ سکے۔ اپنی کمزوری ، کم ہمتی  اور کم علمی کا بھر پور اعتراف کرتے ہوئے ہم اپنے رب علیم و  قدیر سے مدد طلب کرتے ہوئے سود جیسے گناہ کی سنگین نوعیت کا جائزہ قران و سنت کی روشنی میں اپنے آئندہ کے لائحہ عمل کی تشکیل کے لیے لیں گے۔ یاد رہے کہ نہ صرف اسلامی جمہوریہ پاکستان سودی شکنجوں میں جکڑا ہے بلکہ خدائی جنگ کی شدت فزوں تر ہے اور اس جنگ سے پیدا شدہ نقصانات کا تخمینہ ہر اندازے سے کروڑوں گنا زیادہ ہے۔  

کیا ایسا نہیں ہے کہ علی الا علان ملک کی معیشت پر قابض حکمران اپنی دنیا کو خوب سے خوب تر بنانے کی خاطر ، اس ملک کو اس جنگ میں جھونک چکے ہیں؟ کیا اب ہمارا ان بلاؤں سے چھٹکاراچند انتظامی اقدامات سے ہو سکتا ہے؟ کیا یہ ایک اچنبھے کی بات نہیں کہ جس ملک کو لاالہ الا اللہ کے انتہائی عظیم الشان “ با مقصد “ اور دلوں کو نیا جوش اور ولولہ عطا کرنے والے نعرہ لگا لگا کر حاصل کیا گیا تھا ، ہم اپنی لا حاصل اور بے جا خواہشات کی نظر کر دیں گے؟ اللہ اور اس کے رسول  کے بالمقابل حالت جنگ میں ہوتے ہوئے پاکستان مختلف بلاؤں کے نرغہ میں آچکا ہے۔ چشم تصور میں اگر تمام حقائق اجاگر ہوجائیں  Complete Realization    تو ہر پاکستانی کا دن کا چین اور رات کا آرام حرام ہوجائے گا۔

ان بلاؤں میں سے چند کا ذکر کرتے ہیں۔

جنسی جرائم جو ان خطوں میں سننے کو نہیں آتے تھے اب روزانہ کی خبروں کا حصہ ہوتے ہیں۔اطلاعات کی شاہراہ (Information Super Higjhway)  پر جنس و جرائم کی ریڈیائی لہریں ہمارے ہم وطنوں کے اعصاب پر پوری شدت سے حملہ آور ہو رہی ہیں۔گاؤں ہو یا شہر ، میدان ہو یا پہاڑ سب جنسی جرائم کی آماج گاہ بنتی جارہی ہیں۔ پہلے کوئی شخص گینگ ریپ (Gang Rape)  کے فعل بد سے آشنا نہیں تھا۔ اب یہ لفظ میڈیا میں بلا جھجھک استعمال ہوتا ہے۔ شائد پہلے کبھی ان واقعات کے علم میں آنے کے بعد خون کے آنسو بہانا آسان تھا ، فی الوقت حس اور حیرانگی بھی جواب دے گئی ہے۔ہادیِ برحق کے مندرجہ ذیل برحق ارشادات کی روشنی میں “ ایسا کیوں ہورہا ہے “ کے سوال کا جواب دانشوران قوم کو تلاش کرنا پڑے گا۔

 رسول اللہ نے فرمایا کہ:” سود اتنا بڑا گناہ ہے کہ اس کو اگر ستر اجزا ء میں تقسیم کیا جائے تو ہلکے سے ہلکا جزو اس گناہ کے برابر ہوگا کہ آدمی اپنی ماں کے ساتھ زنا کرے۔” (ابن ماجہ)
کیا اس شہوانیت کی سونامی کی وجہ سود کی لعنت و وحشت میں علی وجہ بصیرت نظر نہیں آرہی ؟ کیا کوئی ہوش مند پاکستانی یہ ماننے میں تامل کرسکتا ہے کہ اس فعل بد کا عمل دخل ملک کی معیشت سے فی الفور خارج ہو جانا چاہئے؟ کیا اس قبیح فعل کے نقصانات واضح ہونے کے باوجود حضوراکرم کے ارشاد گرامی کی حقانیت اظہر من الشمس نہیں ہوگئی ؟ قرآن پاک کی آیتِ مبارکہ اور حدیث پاک کی روشنی میں خطرات اور محرکات دونوں پوری طرح آشکار ہو چکے ہیں۔طلب مغفرت اور رجوع الی اللہ دائمی امن وامان کے حصول کا ضامن ہو سکتا ہے صرف چشم بصیرت وا کرنے کی دیر ہے۔
اس ایک بلائے بے درمان یعنی فحاشی کی سونامی کے تعین کے بعدایک اور حدیث پاک کے مطالعہ کے ذریعہ اپنے ارد گرد نظر دوڑاتے ہیں کہ کہیں مزید بلاؤں نے ہمارا محاصرہ کرنے کا تہیہ تو نہیں کر رکھا ہے:
 رسول اللہ نے فرمایا کہ: ” میں نے آج رات دو اشخاص کو دیکھا جو میرے پاس آئے اور مجھے بیت المقدس لے گئے ، پھر ہم آگے چلے تو ایک خون کی نہر دیکھی جس کے اندر ایک آدمی کھڑا ہے اور دوسرا آدمی اس کے کنارے پر کھڑا ہے۔ جب نہر کے اندر والا آدمی باہر آنا چاہتا ہے تو کنارے والا آدمی اس کے منہ پر پتھر مارتا ہے جس کی چوٹ سے بھاگ کر وہ پھر وہیں چلا جاتا ہے جہاں کھڑا تھا۔ وہ پھر نکلنے کا ارادہ کرتا ہے تو پھر کنارے والا آدمی وہی معاملہ کرتا ہے۔ آنحضرت فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے ان دو ساتھیوں سے پوچھا یہ کیا ماجرا ہے جو میں دیکھ رہا ہوں؟ انہوں نے بتلایا کہ خون کی نہر میں قید کیا ہوا آدمی سود کھانے والا ہے (اپنے عمل کی سزا کھا رہا ہے)۔” (صحیح البخاری، کتاب البیوع)
ہمارے ملک میں بڑھتی ہوئی تخریب کاری جس کو روکنے کا اہتمام اب تک ہم نہ کر پائے ایک ایسی بلا ثابت ہوچکی جس نے جگہ جگہ خون کی نہریں بہا دی ہیں۔ یہ خونریزی اگر دو ممالک کی آپس میں دست و گریباں ہونے کی وجہ سے ہو تو کسی کی سمجھ سے بالا تر نہیں ہوسکتی ۔ یہاں البتہ صورت حال عجیب ہے کہ کسی ملک نے ہم پر حملہ بھی نہیں کیا۔ جس ملک سے ہم ماضی میں مسلسل بر سر پیکار رہے وہ ہماری ہنسی اڑاتا ہے کہ ہم نے اس کا کام آسان کردیا ہے۔ کیا یہ خون کی نہر ہم خود نہیں کھود رہے؟ اس نہر کو پاٹنے کی کوشش میں ہم سودی قرضوں سے امن و امان (Law and Order) قائم کرنے میں مدد دینے والے آلات اور گاڑیاں در آمد کرتے ہیں اور ہوتا یہ ہے کہ ہم اپنے اس سودی عمل سے خونی نہر کو اور گہرا کرتے جارہے ہیں۔اور اس طرح اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرنے کے کڑوے ثمرات سے اپنے دامن کو آلودہ کرتے جارہے ہیں۔کبھی نہر کا قیدی (حکومت پاکستان) نہر کے باہر والے پہریدار سے قید سے آزادی کی التجا کرتا ہے جو رد ہو جاتی ہے اور سودی قرضوں کا ایک مہیب پتھر (ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے توسط سے) نہر کے قیدی (حکومت وقت) کے منہ پر مار دیا جاتا ہے۔ قیدی نہر میں مزید غرق ہوجاتاہے۔ اس طرح قومی قرضوں سے نجات حاصل کرنے کے امکانات معدوم سے معدوم ہوتے جارہے ہیں۔

ہمارے وطن میں ایسے سیاسی گروہوں کی بھر مار ہوتی جارہی ہے جن میں اکثر فاشسٹ لبرل ہیں اور انہیں خفیہ (Clandestine)  ذرائع سے ہر قسم کے مہلک ہتھیار مہیا ہو جاتے ہیں۔ یہ لوگ ملک میں نہ صرف خو ف وہراس پھیلانے کا باعث بنتے ہیں بلکہ ملک کے مقتدر اور معزز رہنماؤں کو بے دردی سے قتل بھی کرتے ہیں اور عدلیہ سے اپنی بے گناہی کا پروانہ حاصل کرنے میں دیر بھی نہیں کرتے۔اس طرح ان دو بلاؤں (فحاشی اور تخریب کاری) نے ہمارے ملک کا محاصرہ کیا ہوا ہے اور مکمل حل کی طرف نہ کسی سیاستدان کی رسائی ہے اور نہ ہی کسی دانشور قوم کی کیونکہ اپنی دانست میں وہ سود کو معیشت کا ایک ضروری حصہ سمجھے ہوئے ہیں۔ بد نصیبی کے دھکے ہیں جو پاکستان کے مظلوم عوام کھاتے چلے جارہے ہیں۔

مزید بلائیں جو در پیش ہیں وہ مہنگائی اور کرپشن ہیں۔ اس موضوع پر ذخیرہ احادیث میں سے ایک حدیث مندرجہ ذیل ہے۔:
 رسول اللہ نے فرمایا :”جب کسی قوم میں سود کا لین دین رواج پا جاتا ہے تو اللہ تعالی ان پر ضروریات زندگی کی گرانی مسلط کردیتا ہے اور جب کسی قوم میں رشوت عام ہو جائے تو دشمنوں کا رعب اور غلبہ ان پر ہوجاتا ہے۔”(مسند احمد)
مندرجہ بالا حدیث مبارک میں رشوت اور سود کا تعلق چودہ سو سال قبل بتایا گیا جس کا اسلام نے قلع قمع کردیا تھا۔ البتہ موجودہ دور ببانگ دُہل ان دونوں بلاؤں کا اثبات کر رہا ہے بلکہ ان کا چولی دامن کا ساتھ اظہر من ا لشمس پوری وضاحت کے ساتھ کرہ ارض پر بسیرا کرنے والوںکو اظہار ابلاغ کے تمام ذرائع سے کراتا چلا جارہا ہے۔

فا عتبروا یا اولی الابصار۔
 اب ہم چند مثالوں سے مزید وضاحت کرنا چاہیں گے۔

رشوت خور حکومتی کارکن حکومت سے اپنی کارگزاری (خواہ کیسی ہی ہو)  کا صلہ حکومت سے پوری تنخواہ اور الاؤنس (اصل زر) کی شکل میں حاصل کرتا ہے۔ مگر وہ اپنی ہوس زر کی خاطر عوام الناس سے طلب رشوت (سود کی ایک شکل) کی شدید خواہش بھی رکھتا ہے۔ مثلاً ایک سرکاری وکیل قتل کے ایک ملزم ( مضبوط شواہد کی بنیاد پر بادی النظر (Prima Facie ) میں مجرم ) کی جرح عدالت کے روبرو کرنے کے لیے سرکار سے ایک ہزار روپیہ لیتا ہے۔ چونکہ مؤکل کا مفاد “ہاتھ ہولا رکھنے’ ‘ پر منحصر ہوتا ہے اس لیے وکیل دس ہزار رشوت (بمعنی سود ) سے اپنی ناتواں معیشت کی درستگی پر جٹ جاتا ہے۔ ایسے ہزاروں وکلا اپنے باس کی خوشنودی کی تمنا میں اور ان کے ہم عصر (دیگر محکمات)  کروڑوں اربوں روپے کی ہیر پھیر (Kick Backs and Horse Trading etc) میں ملوث ہوتے ہیں۔ یہ بین ثبوت ہے صادق و مصدوق کے اس قول کا کہ “ اللہ تعالی ان پر ضروریات کی گرانی مسلط کر دیتا ہے “ جو قوم کی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی و شافی ہو جاتا ہے۔

مندرجہ بالا بلا اپنے وطن پر اس طرح مسلط ہوگئی ہے کہ بعض حلقوں میں کہا جاتا ہے کہ پاکستان کرپشن (Corruption) میں دنیا بھر کے ممالک میں اولین درجے پر فائز ہے۔ حدیث پاک کا بقیہ حصہ “ اور جب کسی قوم میں رشوت عام ہوجائے تو دشمن کا رعب و غلبہ ان پر ہوجاتا ہے” پوری طرح اور روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتا ہے۔  جتنا دفاعی سازوسامان سودی قرضوں کے ذریعہ سے لے کر اپنی فوجوں کے حوالہ کیا جائے گا اسی تناسب سے وہ اغیار کے رعب و دبدبہ کا شکار ہوتی رہیں گی۔نہ سودی قرضوں سے نجات ملے گی اور نہ ہی دشمنوں کے چنگل سے۔یہ کیسی دفاعی تیاری ہے ؟ کیا یہ عقلمندی کا فقدان نہیں ہے۔ کیا حکمران قوم کے حالات از خود خسارہ کے سالانہ بجٹ کے ذریعہ گرانی کے سپرد نہیں کررہے؟ سود کی بلا از خود اپنی گردنوں پر سوار کرنے والے سو ائے گرانی کے عذاب ( معیشتاً ضنکاً ) (القرآن) کے سوا اور کس چیز کے مستحق ہو سکتے ہیں ۔ یہ ایک (دائرة السوء )(التوبة) یعنی Vicious Circleہے۔ مکروہ دولت کی گردش ان حکمرانوں ، مرکزی بینک کے عہدہ داروں ، صنعت کاروں ، سیاست دانوں اور جاگیر داروں کے نعرہ “ھل من مزید” کی تکرار ختم ہونے کا نام نہیں لیتی۔ عوام “ کالا نعام “ انتہائی عسرت ( Abject Poverty)  کی زندگی گزارنے پر مجبور کر دئے گئے ہیں۔

کرہ ارض پر رہنے والے نسل در نسل دو واضح طبقات میں بٹ گئے۔ اول الذکر افراد اپنے معیار زندگی ( اقوام متحدہ کے منظور شدہ الفاظ Quality Of Life )  بلند سے بلند کرنے کی دوڑ دھوپ میں مصروف ہوگئے اور اپنے لیے  Havesکا لقب پا گئے۔ عسرت زدہ موخرالذکر Have Nots کی صفت سے مزین ہوئے اور حشرات الارض  کے لیول کے زمرہ میں شمولیت پر مجبور کر دئیے گئے۔ یا حسرةََ  علی العباد۔۔۔

ہائے افسوس متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتارہا

Haves کا طبقہ فساد فی البر و البحر کے فتنہ کی آگ شب و روز بھڑکا رہا ہے ۔ اس کے نتیجہ میں Have Nots  کا طبقہ تعداد میں روز بروز بڑھ رہا ہے اور ساتھ ساتھ ان کی زندگی کی ڈور کا سرا ان کے ہاتھوں سے چھوٹ بھی رہا ہے۔
ایک عقلمند آفاقی دنیا کی مشاہدات سے اور اللہ اور اس کے رسول کی تمثیلات سے اپنی روحانی و اُخروی زندگی کا ڈھب پوری طرح نہ صرف سمجھ سکتا ہے بلکہ اپنے آپ کو اور دیگر برادران اسلام کوان بلاؤں سے تحفظ دلانے کی تدبیر بھی کر سکتا ہے۔
 رسول اللہ ان خوفناک بلاؤں کے شکار لوگوں کی روحانی اور اُخروی زندگی کا ڈھب کیا ہوگا ، بتاتے ہیں :“ جب ہم ساتویں آ سمان پر پہنچے تو میں نے اپنے اوپر رعد و برق کو دیکھااس کے بعد ہم ایسی قوم پر سے گزرے جن کے پیٹ رہائشی مکانات کی طرح پھیلے اور پھولے ہوئے  ہیںاور جن میں سانپ بھرے ہوئے ہیں جو باہر سے نظر آ رہے ہیں۔ میں نے جبرائیل امین سے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں ؟ انہوں نے فرمایا : یہ سود خور ہیں۔”(مسنداحمد)
حسرت زدہ مسلم کے سَلَم (Slum) علاقوں سے الگ تھلگ پوش (Posh)  ماحول میں تعمیر شدہ وسیع و عریض مکانات سودی قرضوں کے طفیل وجود میں آتے ہیں۔ بعد ازاں انکی رجسٹریاں (Sale Deed) رہن رکھ کر Mortgage  بنکوں سے مزید سودی قرضے لیتے ہوئے دکانوں اور مکانوں کی تعمیر کا ایک طویل سلسلہ چل نکلتا ہے۔ پھر کیا تعجب کہ ایسی تعمیر میں مضمر خرابی ایسی ہو جیسی صادق و مصدوق ہمیں بتا گئے ہیں اور قیامت میں سود خوروں کے حرص و آز کے مسکن پیٹ ان دنیاوی ماڈل ( Global Village) کی اسکائی اسکریپر Sky Scraperکے مطابق مگر اُخروی تناسب سے بہت بڑے بنا دئیے جائیں گے۔ اگر سود خور آ سمان چھیلنے کا بے ہودہ نام اپنی تعمیرات کو دیتے ہیں تو آسمان والا جہنم میں یقینا انہیں ابد الاباد دہکتے ہوئے لوہے کے کنگھوں سے چھیلنے کے عذاب سے بھی نوازے گا اور کیا خوب کہ ان محلات پر نصب سیٹیلائٹ رسیورز اور ڈش ائنٹینے ان دوزخی سانپوں کے مشابہ ہوں جس کا تذکرہ حدیث بالا میں آیا ہے۔ یا یہ سانپ ان اینٹیناکے جوڑ ‘ تیزی سے بدلتے ہوئے جدید اور مختلف انواع کے Multimedia   آلات ابلاغ ‘ سے کرتے ہوئے کروڑوں ناظرین و سامعین کے سمع و بصر کے نظام کو زہر آلود کر رہے ہوں۔ اس زہر کے تریاق کی تلاش مفقود ہونے کے سبب گھناؤنے جنسی جرائم پر کمر بستہ شر پسند افراد کی لاٹری نکل آئی اور ملک میں انہوں نے فحاشی اور عریانی کے بے شمار اڈے کھول دئیے اور اندھا دھند غرق دریا ہوگئے۔

 اب ان لا حاصل خواہشات کے بندوں کے بارے  میں ہمارے حضور رسالت مآ ب کیا ارشاد فرما گئے ہیں مطالعہ کیجئے:“ پس قسم اللہ کی میں فقر و افلاس سے تمہارے لیے نہیں ڈرتا بلکہ اس بات سے ڈرتا ہوں کہ دنیا تم پر پھیلائی جائے گی جس طرح  تم سے پہلوں پر پھیلائی گئی اور جس طرح انہوں نے باہم رشک و تنافس کیا ، اسی طرح کہیں تم بھی نہ کرو اور تم بھی غافل نہ ہو جاؤ جس طرح وہ ہوگئے۔” (بخاری)
ایک اور جگہ ارشاد فرمایا :
“ اشرفیوں اور روپوں والے جھالر دار لباس والے سیاہ عبا والے سب گرے اور ہلاک ہوئے۔” (بخاری)
ایک اور جگہ ارشاد فرمایا :
“ اگر آدم کے بیٹے کے پاس مال کی دو وادیاں ہوں تو وہ تیسری کی تلاش میں مصروف ہوگا۔ اور آدم کے بچے کا پیٹ (یا آنکھ)  مٹی کے سوائے کوئی چیز نہیں بھر سکتی۔”(بخاری)
پاک سر زمیں پر غلاظت اور گندگی کے ڈھیر پر انتہائی غریب عوام کے بچوں ، بوڑھوں اور نوجوانوں کے موت کا انتظار کرتے ہوئے لاشے نظر آنے لگے ہیں۔یہ قومی ہیومن ریسورس (Human Resource) کی دولت ہیروئین اور دیگر منشیات کی نذر ہوگئی۔ ان کے بدلے میں ڈرگ مافیہ معاشرہ کی سیاست اور معیشت پر چھا گیا اور وطن کو پنجہ اغیار پھنسا گیا۔
وطن کے ایک پہاڑی درے آدم خیل میں ہتھیار جہاد  فی سبیل اللہ کے لیے ذوق و جذبہ سے بنا کرتے تھے۔ اب قوم کی بد قسمتی ہے کہ شیطان نے اس پاکیزہ صنعت کا رخ تخریب کاری اور ڈکیتی کی طرف موڑدیا۔اب اس سے ایک اور مافیا وجود میں آگیا ہے یعنی ایک بلا دوسری بلا کو جنم دے رہی ہے۔ ان تمام مافیاؤں کی حرام رقومات سودی دلدل کو ہولناک انداز میں گہرا کرتی چلی جارہی ہیں اور اللہ اور اس کے رسول اللہ سے پاکستان کی جنگ نہ صرف شدت اختیار کرتی جارہی ہے بلکہ اس کے ختم ہونے کے آثار معدوم ہوتے جارہے ہیں۔
 ایسی دولت کی بے بضاعتی کا اظہار مالک الملک اس طرح کرتے ہیں :“ یقین رکھو جن لوگوں نے کفر اختیار کیا اور کفر کی ہی حالت میں جان دی ان میں سے کوئی اگر اپنے آپ کوسزا سے بچانے کے لیے روئے زمین بھر کر بھی سونا فدیہ میں تو اسے قبول نہیں کیا جائے گا۔ ایسے لوگوں کے لیے دردناک سزا تیار ہے اور وہ اپنا کوئی مددگار نہ پائیں گے۔”( آل عمران :٩١)
کثیر تعداد میں پیدا ہونے والی بلاؤں کے غول کے غول پوری قوم پر اپنی سودی دولت سے خدائی جنگ کی شدت بڑھانے کی وجہ سے بے شمار مصائب کے بادل چھا گئے اور سود کے عظیم گناہ سے بچنے کا جو داعیہ لوگوں کے دلوں میں وقتاًفوقتاً ان کے ایمان کے تقاضوں کی بنیاد پر پیدا ہوتا رہا ، وائے افسوس ختم ہو چکا ہے۔ ١٩٨٠ کے عشرہ میں ایماندار طبقے نے اربوں روپے اکل حلال کمانے کے ذرائع میں اپنی معیشت کو ترویج دینے کے لیے لگائے۔مگر ملک کے سودی گماشتے گدھوں کی طرح ان پر ٹوٹ پڑے ۔ اب مہذب اور ترقی یافتہ اکیسویں صدی کا دور دورہ ہے۔ بے شمار بوڑھوں ، یتیموں اور بیواؤں کی دنیا اجڑ گئی بلکہ ان اجڑے ہوئے افراد میں سے بیشتر اللہ کو پیارے ہوگئے اور ایک نسل جوان ہوگئی۔ حکمران بشمول عدل و انصاف مہیا کرنے والے ادارے منقار زیر پر رہے۔   ؎            ناطقہ بر سر گریبان ، اسے کیا کہئے

عالمی پیمانے پر سودی گماشتوں کا آپس میں مضبوط گٹھ جوڑ ہوگیا۔ ملکی سطح پر ( جبکہ قدرت خداوندی ٤٠ سال قبل ملک کو بطور سزا دو لخت کر چکی تھی) حرام مال بغیر کسی لیت و لعل کے حلال کردیا گیا۔بالفاظ دگر کالا دھن سفید کرنا۔  ( Money Laundering )۔ اس طرح حرام کاری سے کمایا ہوا روپیہ حلال آمدنی پر غالب آگیا ، بڑھ گیا اور کافی بڑی مقدار میں ملک سے باہر فرار ہوگیا اور ہوتا چلا جارہا ہے۔ غیر ملکیوں کو کھلی آزادی ہے کہ وہ اس سرمایہ کو ملک کے اسٹاک ایکسچینج  سے ایک مرکھنے بیل (Bullish)  کی طرح یا برفانی ریچھ ( Bearish) کی مانند انتظار کرو اور ہڑپ کر جاؤ والی چالوں کے ذریعہ نکالے ہوئے سرمایہ کو ملک سے باہر تحفظ دینے والے جزائر میں ان کا انبار لگا دیں ۔ کیا یہ اپنے ہاتھوں اپنی جڑیں کھودنے کے مترادف نہیں۔ محاورةً کہا جاسکتا ہے کہ   ؎   اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے۔

 برطانوی اصول قانون کی متابعت کرتے ہوئے پاکستانی عدالت عُلیہ و عُظمیٰ نے نہ صرف سودی معاملات کو حلال کر رکھا ہے بلکہ متعلقہ مقدمات کا رخ فوجداری قوانین سے نتھی کرنے کی بجائے دیوانی طریقہ کار کی طرف موڑ دیا۔ شائد عدلیہ حالت تردد میں ہو کہ رب کائنات بہمراہ رسول اللہ نے (بحوالہ آیت ٢٧٩ سورة بقرہ ) صرف الٹی میٹم پر اکتفا کیا ہو اور جنگ نہ چھیڑی ہو۔
 معلوم ہونا چاہئے کہ خدائی افواج کی طاقت کیا ہے:“ اور تیرے رب کے لشکروں کو خود اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ “ (سورة المدثر : ٣١)
یعنی اللہ تعالیٰ نے اس کائنات میں کیسی کیسی مخلوقات پیدا کر رکھیں ہیں اور ان کو کیا کیا طاقتیں بخشی ہیں اور ان سے وہ کیا کیا کام لے رہا ہے ، ان تمام باتوں کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ ایک چھوٹے سے کرہ زمین پر رہنے والا انسان اپنی محدود نظر سے اپنے گرد و پیش کی چھوٹی سی دنیا کو دیکھ کر اگر اس غلط فہمی میں مبتلا ہو جائے کہ خدا کی خدائی میں بس وہی کچھ ہے جو اسے اپنے حواس یا اپنے آلات سے محسوس ہوتا ہے ، تو یہ اس کی اپنی ہی نادانی ہے۔ وگرنہ تو اس خدائی کا کارخانہ تو اتنا وسیع اور عظیم ہے کہ اس کی کسی ایک چیز کا بھی پورا علم حاصل کرلینا انسان کے بس میں نہیں ہے کجا یہ کہ اس کی ساری وسعتوں کا تصور بھی اس کے چھوٹے سے دماغ میں سما سکے۔

آج سے ٣٩ سال قبل پاکستان کے متفقہ آئین میں نہ صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو مقتدر اعلیٰ تسلیم کیا گیا ہو بلکہ ریاست کا دین بھی اسلام کو متعین کیا گیا ہو ، پھر سود سے پیچھا چھڑانے کا جتن تک نہ کرنا اور مالک الملک کے غضب کو بھڑکانا اپنی پوری قوم اور ملک کو جلد از جلد تباہی کے مہیب غار میں دھکیلنے کا موجب نہیں ہے تو اور کیا ہے۔ سب سے پہلا قدم ایک حکمران کے لیے عموما ً اور ایک منصف اعلیٰ کے لیے خصوصاً یہ سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ حلال (قانونی Legal/Judicial ) اور حرام (Void/Abinitio) کے مُطلق اختیارات صرف باری تعالیٰ کے ہیں ۔ قرآنی فیصلہ حسب ذیل ہے:
“ اور یہ جو تمہاری زبانیں جھوٹے احکام لگایا کرتی ہیں کہ یہ حلال ہے اور وہ حرام ، تو اس طرح کے حکم لگا کر اللہ پر جھوٹ نہ باندھا کرو۔ جو لوگ اللہ پر جھوٹے افتر ا باندھتے ہیں وہ ہر گز فلاح نہیں پاتے۔ دنیا کا عیش چند روزہ ہے۔ آخر کار ان کے لیے درد ناک سزا ہے۔”( سورة النحل:١١٦- ١١٧)
مندرجہ بالا آیات صاف تصریح کرتی ہیں کہ اللہ کے سوائے کوئی تحلیل و تحریم کا حق نہیں رکھتا۔ یا بہ الفاظ دیگر ، قانون ساز صرف اللہ ہے۔ دوسرا کوئی بھی ادارہ جو جائز اور نا جائز کا فیصلہ کرے گا وہ اپنی حد سے تجاوز کرے گا الا یہ کہ وہ قانون الٰہی کو سند مان کر اسکے فرامین سے استنباط( Deduce)  کرتے ہوئے یہ کہے فلاں چیز اور فلاں فعل جائز ہے اور فلاں ناجائز۔ ایک خود مختارانہ تحلیل و تحریم کو اللہ پر جھوٹ اور افترا اس لیے فرمایا گیا کہ جو شخص اور ادارہ اس طرح کے احکامات لگاتا ہے اس کا یہ فعل دو حال سے خالی نہیں ہوسکتا۔ اولا ً وہ اس بات کا دعوی کرتا ہے کہ جسے وہ کتاب الٰہی کی سند سے بے نیاز ہو کر جائز یا ناجائز کہ رہا ہے اسے خود اللہ نے جائز اور ناجائز ٹھہرایا ہے۔ ثانیا ً یہ کہ اس کا دعویٰ ہے کہ اللہ نے تحلیل و تحریم کے اختیارا ت سے  ( نعوذ باللہ)  دست بردار ہوکر انسان کو خود اپنی زندگی کی شریعت بنانے کے لیے آزاد چھوڑ دیا ہے۔ان میں سے جو دعویٰ بھی کیا جائے وہ لا محالہ جھوٹ اور اللہ پرافترا ہے۔
((جاری ہے۔۔۔۔۔))

سود سے نجات کیسے حاصل کریں؟


الواقعۃ شمارہ نمبر 4

 

ابو عمار محمد سلیم

قسط ٢ (آخری)

 

سود کو کیسے چھوڑیں

 گفتگو کو مزید طول دینے کی بجائے اب یہ دیکھتے ہیں کہ ہم سود سے کس طرح نجات حاصل کر سکتے ہیں۔ وہ کون سے اعمال اور کون سی ایسی چیزیں ہیں جن کے کرنے یا نہ کرنے سے ہم سود جیسی گندگی سے محفوظ رہ سکیں گے۔ ان کا جائزہ لیں مگر میں اس جائزے سے قبل یہ اعتراف کرنا چاہوںگا کہ میں اس مسئلہ پر نہ تو زیادہ علم رکھتا ہوں نہ کوئی اتھارٹی ہوں۔جو تھوڑا بہت میں نے اس سلسلہ میں پڑھا ہے اور جو کچھ میرا تجربہ ہے  اس کی بنیاد پر میں نے یہ رائے قائم کی ہے۔ یہ بالکل میری انفرادی رائے ہے اور اگر کسی قاری کو کوئی اختلاف ہو تو وہ اس علم کے ماہرین سے رابطہ کرلیں اور اپنی تسلی کرلیں۔

١۔ سود سے نجات حاصل کرنے کا مصمم ارادہ

کسی بھی کام کو تکمیل تک پہنچانے کے لیے اور اس کام کو احسن طریقہ سے انجام دینے کے لیے پکا ارادہ انتہائی ضروری ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے آپ کے دل میں یہ احساس پیدا ہوگیا ہے کہ سود ایک گندگی ہے ، بیماری ہے اور گناہ کا کام ہے اور اس سے نجات حاصل کرنی ہے تو آپ اس پر ڈٹ جائیں۔ اس سود نے ہماری انفرادی زندگی ، گھریلو ماحول ، ہمارے معاشرہ بلکہ کل نسل انسانی کو پریشانی ، بے چینی ، اقتصادی بد حالی ، مہنگائی اور بے راہ روی میں مبتلا کر رکھا ہے۔ یقین جانئے کہ اگر آپ ارادہ کر لیں گے اور اس پر ڈٹ جائیں گے تو آپ یقینی طور پر اپنی زندگی کو اس غلاظت سے پاک کر لیں گے۔ ہر نیک کام جو اللہ کے ڈر اور اس کی رضا کے لیے کیا جائے ، اس رب العالمین کی رحمتوں کو آواز دیتا ہے جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے اور کبھی مایوس نہیں کرتا۔ مگر یہ بھی جان لیجئے کہ جیسے ہی آپ سود کو اپنے مالی معاملات سے نکالنے کی کوشش کریں گے آپ بے انتہا مشکلات کا شکار ہو جائیں گے۔ پریشانیاں بھی آپ کو گھیر لیں گی اور نقصانات کا بھی احتمال ہوگا۔ مگر اس راستے پر چلنے کے لیے آپ مُصر رہیں۔ استقلال کو ہاتھ سے نہ جانے دیں۔ اپنے گزشتہ کیے اعمال پر نادم ہوں اور رب غفور الرحیم سے اس کی معافی مانگتے رہیں ، آئندہ کے لیے مدد کی بھیک مانگتے رہیں آپ ضرور بالضرور کامیاب ہونگے۔ تمام مخالفت کے باوجود قدم بڑھاتے رہئے اور فیصلہ رکھئے کہ دوبارہ اس گندگی میں کسی طور بھی ملوث نہیں ہونا ہے تو یقیناً اللہ سبحانہ و تعالیٰ آپ کی مدد کریں گے۔ ان شاء اللہ۔ آپ نے پچھلے دنوں اخبار میں پڑھا ہوگا ایک صاحب جو بینک میں قریب ساٹھ ہزار ماہانہ پر ملازم تھے اپنی بیٹی کی تبلیغ اور اصرار سے متاثر ہوکر بینک کی نوکری چھوڑ دی اور کاندھے پر تولیہ کا گٹھا اٹھا کر سڑکوں پر بیچ کر دو سو روپیہ روزانہ کما کر بے انتہا خوش ہیں اور اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس گندی آمدنی سے نجات مل گئی۔ بہت سے لوگ یہ کہیں گے کہ کیا ان کی اس حرکت سے معاشرہ سے سود ختم ہوگیا یا اس کے کاروبار میں کمی واقع ہوگئی۔ اس کا جواب نفی میں ہے۔ کتنے ہی لوگ ہیں جو اسی طرح سود کو برا سمجھ کر اس سے باہر چلے گئے مگر سودی نظام بدستور موجود ہے اور بینک پھل پھول رہے ہیں۔ تو ان لوگوں نے کیا کمال کیا؟۔ مادی ترقی کے خواہاں لوگ جو دجال کی آنکھ سے دنیا کو دیکھتے ہیں ان کے لیے تو ایسے تمام لوگ احمق ہیں اور نا سمجھ ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہی لوگ کامیاب اور با مراد ہیں جنہوں نے تکلیفیں اور مشکل برداشت کرکے اللہ کی رضا حاصل کر لی۔ ان کا انعام اللہ کے پاس ہے جو یہاں کی آسائشوں سے کہیں بڑھ کر ہمیشہ قائم رہنے والا ہے۔ 

٢۔ بینک پر انحصار کم سے کم کردیں

آج کے دور کی پوری معیشت اور کاروباری نظام بغیر بینک کی شمولیت کے نہیں چل سکتا۔ بینک کی حدود میں داخل ہوتے ہی آپ کے اوپر سود کاوہ غبار چھا جاتا ہے جس کی خبر حضور نبی کریم صادق و امین نے دے رکھی ہے۔ مگر یہ ہماری مجبوری ہے۔ جب تک اسلامی نظام معیشت قائم نہیں ہوتا ہم شائد بینک کے بغیر تجارتی معاملات آگے نہیں بڑھا سکیں گے۔ مگر ہم یہ کوشش ضرور کر سکتے ہیں کہ بینک کی وہ تمام سہولتیں جن میں سود کی شمولیت ہو اس سے دور رہیں اور ان کے قریب بھی نہ جائیں۔ بینک اکائونٹ کھولیں تو سیونگ اکائونٹ وغیرہ قسم کی چیز کھولنے کی طرف نہ جائیں جو منافع کے نام پر آپ کوسود میں گھسیٹ لیں۔ کرنٹ اکائونٹ کھولیں اور بینک میں صرف اتنی رقم رکھیں جو آپ کے ماہانہ لین دین کے لیے ضروری ہو اس لیے کہ آپ کی موٹی رقم کو بینک دوسروں کو سود پر دے گا اور آپ کا پیسہ سودی کاروبار میں لگ جائے گا۔
 
بینک کے دیگر Products جو وہ صارفین کے لیے خوبصورت بنا کر پیش کرتے ہیںان سے دور بھاگئے۔ آپ کو جو سہولت بینک سے حاصل کرنی ہے جیسے پیسوں کی ترسیل و رسید وغیرہ ان کے لیے بینک کے جوService Charges ہوتے ہیں وہ تو ادا کرنے ہی ہونگے ان کے علاوہ دوسرے تمام معاملات جن میں سود کا شائبہ بھی ہو اس سے بچیں۔ چیک کا لین دین ، ڈرافٹ وغیرہ کا بنوانا ، اکائونٹ میں پیسوں کا آنا ، بجلی ، گیس پانی اور دیگر ٹیکسوں کی ادائیگی جو بینک کے ذریعہ سے ہی ہوتی ہے وہ کریںکیونکہ اس میں سود کی شمولیت نہیں ہے۔ اگر کسی معاملہ میں مجبور ہو جائیں تو بہ اکراہ اس کو کریں مگر اس کا کوئی دوسرا راستہ ضرور تلاش کریں تاکہ دوبارہ نہ کرنا پڑے۔ اگر کسی معاملہ میں شک ہو جائے تو بینک کے افسروں سے رابطہ کریں اور تفصیل معلوم کریں اور اپنی عقل اور سمجھ سے فیصلہ کریںکہ سود سے کیسے جان چھوٹے۔

٣۔ ذاتی لین دین میں سود سے اجتناب

ہماری زندگیوں میں بہت سے مقام ایسے آتے ہیں جہاں ہماری اپنی مالی استطاعت کسی کام کے پورا کرنے کے لیے کم پڑ جاتی ہے۔ ذاتی ضرورتوں یا پھرکاروباری معاملات میںیا پھر کسی خرید و فروخت کے سلسلے میں مزید رقم کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ عموماً بینک اور سود خور دولت مند ہمیشہ آپ کی مدد کے لیے تیار ملیں گے۔ آپ کو ہزار کی ضرورت ہے تو وہ دس ہزار دیدیں گے۔مگر جب ہم نے سود سے بچنے کا ارادہ کر لیا ہے تو ہم تو اس طرف جائیں گے ہی نہیں۔ اب راستہ یہ رہ گیا ہے کہ ہم عزیز و اقارب اور دوست احباب سے رابطہ کریں اور قرض حسنہ کے طور پر رقم لینے کی کوشش کریں۔ مگر آپ کے اوپر یہ ذمہ داری عائد ہوگی کہ آپ وقت مقررہ پر رقم واپس ادا کر دیں۔ جب معاشرہ میں سدھار پیدا ہوگا تو یہ بھی ممکن ہے کہ قرآن کی ہدایت کے مطابق ایسے لوگ بھی پیدا ہوجائیں جو مل کر رقم کو Pool کرلیں اور ضرورت مند کی مدد کریں۔ یا پھر آپ خود اپنی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے اپنی کوئی پس انداز کی ہوئی قیمتی چیز کو فروخت کردیںاور اگر یہ سب کچھ ممکن نہ ہو تو اپنی ضرورت کا از سر نو جائزہ لیںاور صرف اتنا کام کریں یا وہ چیز لیں جو آپ کی استطاعت کے اندر ہو۔یہ بڑا مشکل مرحلہ ہوگا مگر یقین جانئے کہ دنیا کی یہ زندگی چند روزہ ہے اور اس کو بہتر بنانے کی خاطر آخرت کا عذاب مول لینا یقیناً صاحب عقل و دانش کے لیے کسی صورت میں قابل قبول نہیں ہوگا۔ فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔ یہاں کی زندگی بھی آپ کی اپنی ہے اور آخرت میں جو ہوگا وہ بھی آپ کا اپنا ہی ہوگا۔ یہاں ایک اور بات کی طرف اشارہ کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ جب آپ سے کوئی مدد کا طالب ہو اور آپ کے پاس اللہ کی عطا سے گنجائش بھی ہو تو مصیبت زدہ کی مدد ضرور کریں۔ اسی سے معاشرہ میں بھلائی پرورش پائے گی اور وقت کے ساتھ اس کی اچھی اورفائدہ مند شکلیں پیدا ہو جائیں گی جو سود سے پاک بھی ہوں گی اور اللہ کی رضا کا باعث بھی۔ان شا ء اللہ۔

٤۔ کاروباری معاملات میں سود سے دوری

جس طرح اوپر ذاتی لین دین کی بات ہوئی اسی طرح کارو باری ضروریات کے لیے بھی موجود رقم سے زیادہ کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ادائیگی کے لیے یا پھر مزید مال کی خرید کے لیے ، بزنس کو مزید پھیلانے کے لیے، فیکٹری لگانے کے لیے یا اسی طرح کی دیگر کسی بھی ضرورت کے تحت رقم کی حاجت ہو سکتی ہے۔آج کے معاشرے میں رواج یہ ہے کہ چھوٹے سے چھوٹے کاروبار ی حضرات سے لے کر بڑے سے بڑے صنعت کار تک اپنی ذاتی جیب سے ایک روپیہ بھی خرچ نہیں کرنا چاہتے ہیں۔رقم ادھار لے کر سود کے گناہ کا ارتکاب کرکے اپنے بزنس میں لگاتے ہیں اور اس کو محفوظ کرنے اور تقویت دینے کی خاطر انشورنس وغیرہ کے ذریعہ سے مزید سود میں الجھ جاتے ہیں۔تنظیم اسلامی کے بانی مرحوم ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کی ایک بات مجھے بہت پسند آتی تھی جب وہ کہتے تھے کہ ” اگر کاروبار کر نا ہے تو جتنی رقم تمہارے پاس ہے اس سے کرو۔ اگر گاڑی کا شو روم کھول سکتے ہو تو ضرور کھولو ، اگر رقم کم ہے تو موٹر سائیکلوں کا بزنس کرو اور اگر اس کی بھی طاقت نہیں ہے تو سائیکل کا کام شروع کردو ، سود میں کیوں جاتے ہو ۔” ان کی یہ بات سن کر محفل میں موجود لوگ مسکرا دیا کرتے تھے مگر حق تو یہ ہے کہ مرحوم کی یہ بات بڑی گہری اور سوچنے والی ہے۔بہترین کاروبار تو وہی ہے جو صاف ستھرا اور سود سے پاک ہو۔ بہت سے لوگ اس بات سے اتفاق نہیں کریں گے اور اپنی کاروباری عمارت کو گرنے نہیں دیں گے۔بلکہ اس کو سہارا دینے کے لیے اور مزید بڑھانے کے لیے سود پر سود لیں گے۔ مگر اپنی جیب کی استطاعت کے مطابق کاروبار نہیں کریں گے۔یقین جانئے یہ وہ لوگ ہیں جن کے لیے قران نے کہا ہے کہ ان کے دلوں پر مہر لگی ہے۔ نہ یہ سنتے ہیں ، نہ دیکھتے ہیں اور نہ ہی عقل رکھتے ہیں۔ دنیا کی زندگی نے انہیں اندھا کر رکھا ہے۔یہاں کی عیش و عشرت اور آرام دہ زندگی کی خاطر انہوں نے آخرت کے عذاب کا سودا کر لیا ہے۔ کیسا برا سودا ہے اور کیسی بری تجارت ہے۔ اے کاش کہ وہ لوگ کچھ عقل کرتے۔
 
اور پھر یہ کہ کاروباری ضرورتوں کے لیے سود پر روپیہ کی فراہمی کے لیے لوگ ایسے کاروبار میں ہاتھ ڈال دیتے ہیں جو حرام مال پیدا کرتا ہے۔ آخر پاکستان میں شراب بن بھی رہی ہے ، بیچی بھی جارہی ہے ، اس کا کاروبار بھی ہورہا ہے اور یہ سب کام ہم پاکستانی مسلمان کر رہے ہیں۔ کیا ہمیں معلوم نہیں کہ یہ کام حرام ہے اور اس کی آمدنی بھی حرام ہے۔اور یہ کہ اس میں جتنے لوگ ملوث ہیں وہ سب حدیث نبوی ۖ کی رو سے جہنمی ہیں۔ اسی طرح شراب کے علاوہ بھی اور بہت سے کاروبار ایسے ہیں جو شریعت کی رو سے حرام آمدنی کے ذرائع ہیں۔ ہم نے جب سود کو چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا ہے تو پھر پھر اب ہم یہ بھی دیکھیں گے کہ ہم کس کاروبار میں اپنا روپیہ لگا رہے ہیں۔ ایسا کاروبار کریں گے جو حلال روزی دے اور ہم اللہ کے غیض و غضب سے بچ جائیں۔ ان شاء اللہ۔

٥۔ کریڈٹ کارڈ کا خاتمہ

جیسا کہ میں نے پچھلے صفحات میں ذکر کیا ہے کہ کریڈ ٹ کا رڈ شیطان کا سب سے شاہکار ہتھیار ہے اور اب تو معاملہ کریڈٹ کارڈ سے بھی آگے بڑھ کر کہیں اور جا پہنچا ہے۔ ْکریڈٹ کارڈ کے اوپر کافی بحث ہو چکی ہے اور اس کے نقصانات کا جائزہ لیا جا چکا ہے۔ وہ لوگ جو کریڈٹ کارڈ پر جی رہے ہیں اور اپنی ماہانہ آمدنی سے کچھ رقم دے کر سمجھ رہے ہیں کہ کام چل رہا ہے اور سب ٹھیک ہے۔ یقین جانئے کہ وہ لوگ بالکل محفوظ نہیں ہیں۔ بینک کی جو رقم کی آپ کی طرف بڑھتی جارہی ہے وہ آپ کی گردن کے گرد لپٹی ہوئی رسی کا گھیرا تنگ سے تنگ کرتی چلی جارہی ہے۔ آپ نے ہندو بنئے کا ذکر تو سنا ہی ہوگا اور فلموں میں بھی دیکھا ہوگا کہ وہ بیاج پر دی ہوئی اپنی رقم کی وصولی کے لیے کیسے سفاک ہاتھ استعمال کرتا ہے۔ زمین جائداد سب ہتھیا لیتا ہے۔ یقین کیجئے کہ آج کے بینک کے پاس اس بنئے سے زیادہ طاقت ہے اور وہ اپنے نادہندگان کے ساتھ اس بنئے سے بھی زیادہ ظالمانہ قدم اٹھاتا ہے۔ خدا کے لیے باز آجایئے۔ اپنی ضرورتوں کو کنٹرول کریں اپنی آمدنی سے زیادہ خرچ مت کریں۔دقت تو ہوگی مشکل بھی پیش آئے گی مگر وقت گذرنے کے ساتھ آپ کے اندر قناعت پیدا ہوگی اور آپ اپنی چادر تک محدود رہیں گے اور خوش رہیں گے۔ آج ہی پہلا قدم اٹھائے اور اپنا کریڈٹ کارڈ ختم کردیجئے اور اس غلامی سے نجات حاصل کر لیجئے۔ اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو۔ آمین۔

٦۔ سیونگ سرٹیفیکیٹ وغیرہ سے دوری

آپ نے اپنی حلال آمدنی سے کمائے ہوئے مال سے اپنے مستقبل کی ضرورتوں کے لیے سیونگ سرٹیفیکیٹ خرید کر اپنے لیے ایک مستقل اور مسلسل آمدنی کا ذریعہ تو بنا لیا ہے مگر جان لیجئے کہ یہ سود ہے۔حلال آمدنی کی موٹی رقم کو سود کے چھوٹے چھوٹے پیکٹوں میں تبدیل کرکے حلال کو حرام کر لینا کہاں کی عقل مندی ہے۔ان سرٹیفیکیٹ کا اجرا کرنے والے  شائد آپ کے سامنے سیکڑوں ضمیر فروش عالموں کے بیان اور فتووں کا ڈھیر لگا دیں کہ یہ معاملہ حرام نہیں ہے ۔ مگر اللہ نے آپ کو بھی عقل اور سمجھ دی ہے۔ ہماری اور آپ کی غلطی یہ کہ ہم نے قران مجید کے احکامات کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی ہے۔کسی مولوی نے نہیں بتایا تو ہم نے بھی جاننے کی کوشش نہیں کی۔ سود کی سب سے بنیادی اور خراب صورت جو قرآن نے بتائی ہے وہ یہی ہے کہ روپیہ بغیر کسی محنت کے وقت گذرنے کے ساتھ اپنی قیمت خود بڑھا لے۔ یہ سب سے گھنائونا سود ہے اور اپنے ساتھ معاشرے کی تمام برائیوں کی حشر سامانیاں لیے ہوئے ہے۔ آپ نے جو سرٹیفیکیٹ خریدا ہے اس کا اصل زر جو آپ نے لگایا ہے وہ محفوظ ہے اور ویسے کا ویسا ہے۔ مگر یہ جو ہر ماہ آپ کو منافع کے نام پر مل رہا ہے یہ کیا ہے؟ ۔ کیا آپ کے پیسے نے خود ایک مقررہ مدت میں اپنی قیمت خود سے بڑھا نہیں لی؟ جناب یہی تو سود ہے۔ نہ کسی نے تجارت کی نہ کوئی نفع ہوا نہ نقصان نہ کوئی محنت لگی نہ پسینہ بہا۔ سود پر رقم دی گئی سود وصول کیا گیا اور اسی سے ایک معمولی رقم آپ کو ادا کر دی گئی اور آپ کا منہ بند کر دیا گیا۔ حلال دے کر آپ نے حرام سے پیٹ بھر لیا۔ اے اللہ ہمیں معاف کردیجئے ، ہم واقعی چیزوں کو بغیر سوچے سمجھے کیے چلے جارہے ہیں۔ اے اللہ ہمیں سیدھے راستے پر ڈال دیجئے ہماری غلطیاں معاف کر دیجئے۔ آمین۔

٧۔ قسطوں پر اشیاء کی خریداری ترک کردیں

جیسا کہ ہم پیچھے یہ بحث کر چکے ہیں کہ قسطوں کی خریداری میں بھی سود کا عمل دخل ہے اور علماء کی اکثریت نے اسے ناجائز قرار دیا ہے۔ بظاہر دیکھنے میں یہ ایک سہولت نظر آتی ہے کہ کسی کے پاس اتنی رقم نہ ہو کہ وہ اپنی ضرورت کی کوئی چیز خرید سکے تو قسطوں پر جا کر خریدنے کی سہولت تو ایک بہت بڑی سہولت ہوئی۔یہ سوچ ہی غلط ہے۔ دیکھنے کی بات یہ ہے کہ یہ کاروبار جس بڑے پیمانے پر آج ہورہا ہے ایسا آج سے کچھ عرصہ پہلے نہیں ہوتا تھا۔ہمارے بزرگوں کے دور میں جس چیز کی ضرورت ہوتی تھی اس کے لیے جتن کرکے پائی پائی جمع کی جاتی تھی اور پھر جب وہ چیز خریدی جاتی تھی تو نظروں میں اس کی قیمت بھی بہت بڑھ جاتی تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آج جتنی تیزی سے قیمتیں چڑھتی ہیں کہ پیسے جوڑتے جوڑتے وہ قیمت دوبارہ پہنچ سے دور ہوجاتی ہے۔ یہی تو شیطانی چکر ہے اور آپ کو پھنسانے اور غلام بنا نے کا ایک ذریعہ ہے۔ اشتہارات کے ذریعہ سے ہماری خواہشات کواتنا بھڑکا دیا جاتا ہے کہ ایک ایسی چیز جس کی ہمیں فوری ضرورت نہیں ہوتی ہے وہ بھی فوری بن جاتی ہے اور ہم اس کو حاصل کرنے کے لیے سرگرداں ہو جاتے ہیں اور پھر قسطوں پر جب مل رہی ہو اور پیسے بھی زیادہ جمع نہ کرنے پڑتے ہوں تو پھر دیر کاہے کی ہے ہم انتہائی تیزی سے سود کے بل میں داخل ہوجاتے ہیں۔ بجائے اس کے کہ ہم اپنی ضروریات اور خواہشات کو قابو میں کرتے ، قناعت اور توکل اختیار کرتے ہم ایک آسان راستہ دیکھ کر اس کو پکڑ لیتے ہیں اور دین ودنیا دونوں میں اللہ کے غیض و غضب کو آواز دیتے ہیں۔ اگر ہم ذرا تحمل سے کام لیںاور اپنی خواہشات کو لگام دے لیںتو اللہ شائد ہمارے لیے بہتری کا کوئی راستہ نکال دیں۔ وہ تو ہم سے محبت کرتے ہیں اور ہمیں مشکل میں اگر ڈالتے ہیں تو بھی ہماری ہی بھلائی کے لیے کہ اس کے ذریعہ سے آخرت کی سربلندی حاصل ہو جائے۔ اے کاش کہ ہم عقل سے کام لیں۔

٨۔ لاٹری اور قرعہ اندازی وغیرہ کو رد کر دیجئے

ہم ایسے دور میں زندہ ہیں جہاں ہماری اپنی حکومتیں ہماری دشمن بنی ہوئی ہیں۔ دنیا کے اکثر ممالک کی حکومتیں اپنے عوام سے پیسہ بٹورنے کی خاطر حکومتی سطح پر اور بعض اوقات پرائیویٹ سطح پر بھی لاٹری وغیرہ جیسی کسی اسکیم کا اجرا کرتی ہیں۔ انسان کی نفسانی خواہشات کو چھیڑا جاتا ہے اور اس کی لالچ کو ابھارا جاتا ہے اور بڑے بڑے انعامات اور کیش پرائز کا جھانسا دیا جاتا ہے۔ عوام آسانی سے دولت حاصل کرنے کی لالچ میں اس جھانسے میں آجاتے ہیں اور دھڑا دھڑ اس اسکیم میں اپنا پیسہ لگا دیتے ہیں۔ حکومت بھی ایک دو لوگوں کو بڑی بڑی رقم انعام میں دے دیتی ہے اور پھر اس کی خوب تشہیر ہوتی ہے۔ اخبارات میں اور ٹی وی پر ان کے انٹرویو نشر ہوتے ہیں اور عوام میں یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ آج اس کو ملا ہے کل مجھے ملے گا۔ یہی لالچ اس کو پھنسا تی چلی جاتی ہے  اور یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ پھر ایک دن یا تو اسکیم ختم ہوجاتی ہے اور اگر پرائیویٹ معاملہ ہو تو کمپنی غائب ہوجاتی ہے۔ لوگوں کو اپنے یہاں کا تاج کمپنی کا واقعہ یاد ہی ہوگا۔ یاد رکھئے یہ سب دھوکے کا کاروبار ہے اور دھوکہ سے حاصل کیا ہوا مال حرام ہے۔ قرعہ اندازی بھی ناجائز ہے اور یہ سب حضور مقبول رسالت مآب ۖ کے فرمان کے مطابق غرر میں آتا ہے جو حرام ہے۔ ایسی تمام چیزوں سے بچیں۔ آج کپڑے دھونے کے پائوڈر ، ڈبل روٹی ، موبائل کارڈ اور پتہ نہیں کتنی الم غلم چیزوں پر یہ اسکیم جاری کی گئی ہے۔ ان کا مال خریدیں، اس کے ڈبہ سمیت اپنے شناختی کارڈ کی کاپی لگائیں اور بذریعہ ڈاک بھیج دیں۔ قرعہ اندازی میں آپ کو انعام مل جائے گا۔ شائد ہی کبھی کسی خوش قسمت کا نام اخباروں میں آیا ہو۔ کوئی ان سے پوچھے ، کوئی ان کا آڈٹ کرے کہ اس کے ذریعہ سے کتنا مال کمایا اور کتنا بانٹا۔ مگر دھوکہ دہی کے کاروبار میں تو سب کچھ جائز ہے۔ کتنے ہی معصوم لوگوں کی جیبوں پر ڈاکے پڑ جاتے ہیں اور ان تمام چوروں کو حکومتی تحفظ حاصل ہے۔ نہ حکومت کی سطح پر رکاوٹ ہے اور نہ ہی ہمارے علماء کو آج تک یہ پتہ چل سکا ہے کہ یہ حرام کاروبار ہورہا ہے ۔ اگر اس کو روک نہیں سکتے تو عوام کو کم از کم اس کے حرام ہونے کا شعور ہی دے دیں۔ 

٩۔ پرائیویٹ فنانس کمپنیاں اورPyramid   اسکیمیں

دھوکہ دہی کے کاروبار کی یہ جدید ترین شکل ہے۔پہلے ایک فنانس کمپنی کی تشکیل ہوتی ہے اور یہ اعلان ہوتا ہے کہ یہ کمپنی اپنے کھاتے داروں کو بینکوں کے عام شرح سود سے زیادہ منافع دیتی ہے اور اس کی خوب خوب تشہیر ہوتی ہے۔ ایڈورٹائزمنٹ تو جادو کا کام کرتا ہے۔ لوگ جو نابلد ہیں ، کم علم ہیں یا لالچی ہیں ،جوق در جوق اس اسکیم سے فائدہ اٹھانے کے لیے اپنی حلال کی کمائی کے بنڈل لے کر آتے ہیں۔ اسی میں بسا اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ کمپنی کہتی ہے کہ اگر آپ اپنا اکائونٹ کھول کر کسی اور کو بھی اس اسکیم میں شامل کروادیں تو آپ کو ہر فرد کے بدلے فلاں انعام ملے گا یا کوئی اور سہولت مل جائے گی۔ لالچ کو مزیدبڑھا یا اور تیز کردیا گیا۔نتیجہ کے طور پر بہت لوگ اس میں شامل بھی ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی شامل کرا دیتے ہیں۔کمپنی دھڑا دھڑ پیسے بٹورتی ہے۔ کچھ لوگوں کو منافع بھی دیا جاتا ہے یا پھر زور وشور سے کسی فلاحی کام کو شروع کر کے اس کا ڈھنڈھورا پیٹا جاتا ہے۔اس طرح اپنی ساکھ بڑھائی جاتی ہے جو مزید لوگوں کو کھینچنے کا باعث ہو تی ہے اور پھر ایک دن یا تو یہ کمپنی چپکے سے غائب ہو جاتی ہے اور حکومت کی ساری مشینری اس کا پتہ معلوم کرنے میں ناکام ہو جاتی ہے یا پھر یہ کمپنی عدالت میں اپنے دیوالیہ ہو جانے کی درخواست دے دیتی ہے۔ دونوں صورتوں میں بیچاری عوام کا ہارٹ فیل ہوتا ہے۔ اپنی لالچ اور اپنی خواہشات کو اپنے قابو میں کرنا سیکھ لیاجائے تو بہت سے نقصانات سے بچت ہو سکتی ہے۔

کچھ اہم سوالات

اس مضمون کو پڑھتے ہوئے آپ کے ذہن میں کچھ سوالات بھی پیدا ہوئے ہونگے اور کچھ خدشات نے بھی جنم لیا ہوگا۔ یہ ایک انتہائی لازمی جزو ہے۔جب معاشرہ کے ایک بین اصول اور عام فہم روش سے ہٹ کر کوئی کام کیا جائے گا تو اس سے بہت سارے جاری معمولات میں خلل پڑنے اور اس میں بگاڑ کی کیفیت پیدا ہونے کا امکان نظر آتا ہے۔ ہماری معیشت جن اصولوں پر بنیاد کرتی ہے اور جن قواعد اور ضوابط کی پابند ہے اس میں اگر کوئی تبدیلی پیدا ہوجائے تو یقیناً امکان اس بات کا ہے کہ ساری کی ساری معیشت دھڑام سے زمین بوس ہوجائے۔ ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کر رہے مگر اس خوف کی وجہ سے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے احکامات سے روگر دانی کرنے کے لیے بھی تیار نہیں ہونگے۔ آئیں کچھ ایسے سوالات جن کا میرے ذہن نے احاطہ کیا ہے ان کو باری باری دیکھ لیتے ہیںاور ان کا جواب معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ان کے علاوہ بھی آپ کے ذہن میں اور سوالات بھی پیدا ہونگے جن کا جواب آپ ایسا تلاش کریں جو اللہ اور اس کے رسول ۖ کے بتائے ہوئے اصولوں سے میل کھاتے ہوں۔قران اور احادیث تک آپ کی رسائی نہ ہو تو ہر معاملہ کو اختیار کرنے سے قبل علماء سے اور ان معاملات کے ماہرین سے ضرور مشورہ کرلیں اس لیے کہ آپ خود اپنے معاملات کے ذمہ دار ہیں۔ اپنے کیے کا جواب آپ کو ہی دینا ہے۔

سوال نمبر:١

اگر ہم بینک میں صرف ضرورت بھر روپیہ رکھیں اور وہ بھی بغیر منافع والی اسکیم میں تو ہم اپنی اس موٹی رقم کو جو زائد از ضرورت ہو اور کسی مشکل گھڑی کے لیے رکھ چھوڑی ہے  اس کا کیا کریں ؟ کیا وہ ساری رقم اٹھا کر گھر میں رکھ لیں؟اسی طرح سیونگ سرٹیفیکیٹ وغیرہ میں جو رقم محفوظ ہے ان کا کیا کریں؟
 
جواب
اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ کاروباری لوگ موٹی رقم رکھتے ہی نہیں تاہم اگر ہو بھی تو واپس اسی کاروبار میں لگایا جاسکتا ہے اور بینک کے ادھار سے بچا جاسکتا ہے۔ مگرجو لوگ کاروباری نہیں وہ کیا کریں؟ اس کا جواب میری نظر میں یہ ہے کہ ایسے حضرات اپنی رقم کو کسی قابل اعتماد شخص کے جائز کاروبار میں لگائیں اور نفع و نقصان دونوں کے لیے تیار رہیں۔ یا نہیں تو پھر کوئی زمین، مکان، فلیٹ یا دوکان وغیرہ خرید لیں اور اپنی رقم محفوظ کر لیں اور اگر یہ دونوں چزیں ممکن نہ ہو ںتو پھر اپنے لیے خود کسی کاروبار کی داغ بیل ڈالیں جو آپ اپنے فارغ وقت میں کر سکتے ہوں۔اور میرا ایک جواب ایسا ہے جو بہت سے لوگوں کو ناگوار ہوگا اور وہ یہ ہے کہ ” اپنی رقم کو آخرت کے کاروبار میں لگادیںجہاں کا نفع کئی گنا ہے اور اللہ کی رضا کے حصول کا ذریعہ بھی ہے۔” اور پھر قرآن مجید فرقان حمید کا بھی یہ فرمان ہے کہ

 ”لوگ تم سے پوچھتے ہیں کہ کتنا خرچ کریں؟۔ کہدو کہ جو ضرورت سے زیادہ ہے سب خرچ کردو۔” (سورة البقرہ۔ آ یت۔٢١٩۔)

سوال نمبر:٢

اگر سود کے بغیر کاروبار نہیں ہوسکتا تو کیا ایسے تمام کاروبار بند کر دئے جائیں؟ 
 
جواب
اللہ اور اس کے رسول ۖ کے اوپر بھروسہ کرکے اور ان کی رضا کے لیے ایسا ہی کیا جائے تو سب سے بہتر ہے۔ تاہم اس کاروبار کا جائزہ لے کر اس کو حلال آمدنی کی حدود میں کرنا فی الوقت ممکن نہ ہو تو اپنے معاملات کوکم سے کم سودی الجھاوے میں ڈالیں اور جیسے ہی موقعہ ملے سود سے پاک ہو جائیں۔

سوال نمبر :٣

حکومت اگر بغیر سود کے کسی نظام کو رائج کرنے میں نا کام رہتی ہے تو ایسی صورت میں کیا کیا جائے؟
 
جواب
حکومت کی ناکامی ہمیں ہماری ذمہ داریوں سے عہدہ بر آ ہونے کا سرٹیفیکٹ نہیں عطا کردیتی ہے۔ سود سے بچنا ہمارا اپنا عمل ہے اور ہم یہ اللہ کی خوشنودی کے لیے کرتے ہیں تنگی و ترشی کے خوف سے بالا تر ہو کر۔ اللہ نے اپنا راستہ بتایاہوا ہے۔ اپنی آخرت کو بنانا یا بگاڑنا ہمارا اپنا کام ہے۔ تاہم اللہ اگر حکومت مملکت کو یہ سعادت عطاکرے کہ وہ اسلامی نظام کو رائج کرنے کی کوشش کرے تو ہر ایک کا یہ فرض بنتا ہے کہ حکومت کی بھر پور مدد کی جائے۔ اللہ کی مدد شامل حال ہوگی۔ ان شا ء اللہ۔

سوال نمبر :٤

آج سود کے نظام پر پوری معیشت کا ڈھانچہ کھڑا ہے۔ اس کے خاتمے سے تو معاشرے میں بڑی خرابی پیدا ہوگی؟
 
جواب
یقینا ایسا ہی ہوگا۔ اس کے سدھار کی تمام ذمہ داری حکومت مملکت کے ساتھ ساتھ علما ء وقت اور معیشت کے ماہرین کی ہے۔ کوئی سبیل ایسی نکالی جائے یا پھر ایسے اقدام اٹھائے جائیں جو تمام معاشی عمارت کو بھی نہ گرنے دے اور دھیرے دھیرے پورے نظام کو اسلامی بنیادوں پر استوار کر لیا جائے۔ اس میں وقت بھی لگے گا اور محنت بھی۔ مگر آخرت کی بہتری اور بھلائی کے لیے یہ قدم فوری نہ اٹھایاگیا تو یقینا حکومت وقت، ماہرین اور علماء کے ساتھ ساتھ ہم اور آپ بھی جواب دہ ہونگے۔

سوال نمبر:٥

جن لوگوں نے بینک سے یا ہائوس بلڈنگ یا ایسی ہی کسی اسکیم سے قرض لے کر گھر بنا یا ہوا ہے وہ کیا کریں؟
 
جواب
یہ معاملہ ہے تو بہت گمبھیر مگر آخرت کی بھلائی کے سامنے تو تمام مشکلیں ہیچ ہیں۔ اس کا عام فہم جواب تو یہ ہی ہے کہ مکان اگر قرض سے پاک ہو چکا ہے تو اس کو اپنے پاس رکھا جائے یا پھر جو علماء اس سلسلے میں رائے دیں اس کو اپنایا جائے اور اگر مکان کے اوپر ابھی بھی قرض ہے تو سیدھا سادا جواب یہ ہے کہ مکان کو بیچ کر قرض کی رقم اتار دی جائے اور بقیہ جو رقم بچ جائے اس سے کوئی جھونپڑا بھی مل جائے تو لے لیا جائے۔اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالی سے اپنے گناہوں کی معافی مانگی جائے کہ وہ بہت غفور الرحیم ہے۔ 

سوال نمبر:٦

جن لوگوں نے کار اجارہ وغیرہ قسم کی اسکیموں سے  گاڑیاں خریدی ہوئی ہیں وہ لوگ ایسی گاڑیوں کا کیا کریں یا پھر اپنی بقیہ ماندہ ادائیگی کے لیے کیا کریں؟
 
جواب
اس کا جواب بھی گزشتہ سوال جیسا ہی ہے۔

سوال نمبر:٧

دیکھا گیا ہے کہ بعض بیوائیں اور کم آمدنی والے لوگوں کو جب بیوہ ہوجانے پر مدد ملی یا ریٹائرمنٹ پرپراویڈنٹ فنڈ وغیرہ سے رقم ملی تو اس کو انہوں نے کسی اسکیم میں پس انداز کر دیا اور آج اسی کے اوپر حاصل ہونے والی آمدنی پر زندہ ہیں۔ یہ رقم نہ تو اتنی بڑی ہے کہ اس سے کوئی کاروبار ہوسکے اور نہ یہ غریب لوگ اس کو ضائع کر سکتے ہیں کہ اسی پر ان کی زندگی کا دارومدار ہے۔ اب یا تو یہ لوگ اس رقم سے ملنے والی حرام آمدنی کو چھوڑ دیں اور بھوکوں مر جائیں یا پھر قران مجید کی اس رعایت سے فائدہ اٹھاتے رہیں جس کی رو سے حرام چیزوں کا استعمال جائز ہوجاتا ہے۔ 
 
جواب
بے شک قران مجیدنے ہمیں بوقت ضرورت اپنی زندگی بچانے کے لیے اور اسے جاری و ساری رکھنے کے لیے کوئی اور راستہ موجود نہ ہو تو حرام کے استعمال کی اجازت دی ہے۔ مگر یہ یاد رہے کہ یہ اجازت صرف بہ اکراہ ہے نہ کہ رضا اور رغبت کے ساتھ ہے اور صرف اتنی ہی دیر کے لیے روا ہے جب تک کہ زندگی کو خطرہ ہو اور پھر یہ بھی یاد رہے کہ قرآن نے یہ رعایت دیتے ہوئے یہ بھی کہا ہے کہ

”……..اگر کوئی مجبور ہو جائے لیکن نہ تو طالب لذت ہو اور نہ حد سے نکل جائے۔” (سورةالبقرة:١٧٣، سورة مائدہ: ٤، سورةالانعام: ١٤٥)۔

 اس خصوصی صورت حال کے لیے میرا جواب یہی ہے کہ بے شک اپنی زندگی کو رواں دواں رکھنے کے لیے اس وقت تک اس سہولت سے فائدہ اٹھائیں جب تک کہ کوئی دوسرا جائزراستہ نہیں کھل جاتا۔ ہر شخص کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے لیے رزق تلاش کرے۔ ایسے لوگ جن کا گذر ایسی آمدنی پر ہے انہیں اپنے لیے کوئی کام تلاش کرنا چاہئے جو انہیں اس حرام سے نجات دے۔ وہ لوگ جو مجبور اور معذور ہیں اور کوئی کام نہیں کر سکتے ان کی ذمہ داری معاشرے کے سر بر آوردہ اور صاحب حیثیت لوگوں کے ذمہ ہے۔ یاد رہے کہ یہ دنیا  ہمارے لیے عمل کی جگہ ہے اور ہمارا عمل اللہ کے احکامات اور اس کے رسول ۖ کی سنت کے مطابق ہونا چاہئے تاکہ ہم آخرت میں سرخرو ہوں۔ اللہ نے اگر ہمیںرزق میں کشادگی عطا کی ہے تو یاد رہے کہ اللہ نے ہمارے اوپر معاشرے کے کم آمدنی والے اور لاچار لوگوں کا ذمہ بھی رکھا ہے اور ہماری آمدن میں ان کا بھی حصہ رکھا ہوا ہے جو ہم زکو ٰ ة ، صدقات اور دیگر  خیراتی کاموں کے ذریعہ سے ان کو ادا کرتے رہتے ہیں۔ ہم ایسے لوگوں کی خبر گیری نہیں کریں گے تو آخرت میں اللہ کو جواب دہ ہوں گے۔ اسی لیے تو ہمیں اپنے غریب رشتہ داروں اور کم آمدنی والے محلہ داروں کا خیال رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اگر ہمیں اللہ کے سامنے جواب دینے کا خوف دامن گیر ہے تو ہم ضرور ان کا خیال رکھیں گے وگرنہ کیا پتہ کہ سود کے اوپر زندگی کوئی غریب اور لاچار گزارے اور اس کی گرفت میں آجائیں ہم اور آپ۔ 

اختتامیہ

میں آپ کا شکر گذار ہوں کہ آپ نے میرا یہ مضمون پڑھا اور اس آخری حصہ تک پہنچ گئے۔جیسا کہ میں نے پہلے کہا ہے کہ یہ میرے اپنے خیالات ہیں اس لیے آپ کا اس سے متفق ہونا بالکل ضروری نہیں ہے۔ تاہم یہ بات تو بہر صورت درست ، صحیح اور حق ہے کہ سود یقینا ایک گندگی ہے اور اس حد تک پھیل گئی ہے کہ پوری نوع انسانی اس کے جال میں بری طرح الجھ کر رہ گئی ہے۔ مغرب کے معاشی ماہرین بھی آج کل سود کے مضمرات پر بڑی شد ومد سے سوچ بچار کر رہے ہیںاور ان کے خیال میں موجودہ گرانی اور معاشی بد حالی کے علاوہ معاشرہ میں پھیلی ہوئی بد عنوانی اور لوٹ مار سب کے پیچھے اسی خباثت کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔اسلام کے پندرہ سو سال پرانے سود کو چھوڑ دئیے جانے کے احکامات پر آج کے معاشی ماہرین کی نظر ہے اور وہ اس پر بحث و تمحیث میں لگے ہیں کہ اس کو کیسے اپنایا جا سکتا ہے۔ یہ ہماری بد قسمتی ہے کہ تقریباً ہر وہ اچھی چیز جو ہمیں ہمارے مذہب نے عطا کی ہے اس پر مغرب تحقیق کرکے اس کی اچھائیوں سے فائدہ اٹھا رہا ہے اور ہم جو اس کے وارث تھے مغرب کی ان ہی اپنائی ہوئی چیزوں کو اپنے یہاں رواج دینے کی کوشش کرتے ہیں۔اصل مآخذ تک جاکر اپنا راستہ خود نہیں ڈھونڈھتے۔
 
ہمیں چاہئے کہ ہم اپنی اصلاح خود کریں۔ ہمارے علماء مل کر بیٹھیں اور اپنے ساتھ معاشی اور اقتصادی ماہرین کو ملائیں اور دیکھیں کہ موجودہ سودی نظام سے چھٹکارے کی کیا صورت ہے۔ معاشی ترقی اور خوش حالی کے لیے سود کی غلامی سے بہتر کوئی اور صورت کیا ہو سکتی ہے۔ کاروباری معاملات میں مال وزر کی ضرورتوں سے کیسے عمدہ طریقہ سے عہدہ بر آ ہوا جا سکتا ہے تاکہ اللہ کی ناراضگی مول لیے بغیر دنیا کا کاروبار بھی چلتا رہے۔ شیطان ہر دور میں ایک نئی چال اور ایک نئے جال کے ساتھ ہمارا شکار کرنے چلا آتا ہے۔ امت کے علماء کا یہ فرض بنتا ہے کہ اس مردود کی چالوں کو سمجھیں ، معاشرے کی نبض پر ہاتھ رکھیں اور سدھار پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ اب بھی وقت نہیں گیا ہے ، بہتر مستقبل کی طرف قدم بڑھایا جاسکتا ہے اور اس کے لیے کوششیں کی جاسکتی ہیں۔ اللہ کی مدد یقینا شامل حال ہوگی ۔ ان شاء اللہ۔
 
مگر ہماری اور آپ کی فوری ذمہ داری یہ بنتی ہے کہ ہم اس بات کا احساس کریں کہ سود ی معاملات اللہ تعالیٰ کے غیض و غضب کو آواز دیتے ہیں۔ اللہ باری تعا لیٰ نے اس سے دور رہنے کی بہت واضح ہدایت دے رکھی ہے۔ اللہ کے احکامات سے رو گردانی نہ ہماری دنیا کی بھلائی کی ضامن ہے اور نہ ہی آخرت کی۔ بہت سے لوگ سودی معاملات کو زیادہ Serious نہیں لیتے۔ ان کے نزدیک یہ مولویوں کی بڑسے زیادہ اور کچھ نہیں۔ یا پھر اللہ کی رحمتوں اور اس کے غفور و رحیم ہونے کی صفت لامتناہی پر یقین رکھتے ہوئے سمجھتے ہیں کہ اللہ پاک معاف فرمادیں گے۔ اس میں کیا شک ہے کہ زمین و آسمان بھی اگر گناہوں سے بھرجائیں پھر بھی اس کی رحمت اور مغفرت سب پر حاوی ہے۔ یہ ہمارے ایمان کا جزو ہے۔ مگر ہم اُس کی اُس صفت کو کیوں بھول جاتے ہیں جو اُس کے غیض و غضب ، اُس کی گرفت اور اُس کی پکڑ کو ظاہر کرتی ہے۔ ہم کیوں بھول جاتے ہیں کہ ہمیں اُس کے غضب سے بچ کر اُس کی رحمتوں کی آس رکھنی چاہئے۔ یہ کیا کہ ایک طرف مکمل نافرمانی ہو اور دوسری طرف اُس سے بخشش کی بھی امید ہو۔ اللہ کے واسطے اپنی اصلاح کیجئے۔ اللہ سے ڈریے اس لیے کہ دنیا کی زندگی چند روزہ ہے اور آخرت کا عذاب بہت شدید۔ اللہ ہمارا بھی اور آپ کا بھی حامی و ناصر ہو۔ برائے مہربانی اس پیغام کو زیادہ سے زیادہ لوگوں میں پھیلائیں کہ شائد کسی کی اصلاح آپ کے لیے بھی بخشش اور مغفرت کا ذریعہ بن جائے ۔ آمین یا رب العالمین۔

یہ مضمون جریدہ "الواقۃ” کراچی کے شمارہ، رمضان المبارک 1433ھ/ جولائی  ، اگست 2012- سے ماخوذ ہے۔

سود سے نجات کیسے حاصل کریں؟


الواقعۃ شمارہ ٣ 

ابو عمار محمد سلیم

قسط ١ 

قران مجید اور احادیث مبارکہ میں سود کی ممانعت

١۔قران مجید میں سود کی ممانعت

قران مجید فرقان حمید جو رہتی دنیا تک تمام انسانوں کے لیے سر چشمہ ہدایت ہے انسان کو ان تمام کاموں کے کرنے کا حکم دیتا ہے جو اس کی دنیاوی زندگی کے لیے بہترین سامان فراہم کرتی ہے اور اس کی آخرت میں بھی بڑی نعمتوں کی فراہمی کا وعدہ کرتی ہے۔ اسی کے ساتھ قران پاک ہر اس چیز کو کرنے سے رکنے کا حکم دیتا ہے جو انسانی معاشرہ میں بگاڑ پیدا کرنیوالا ہو ، جس سے آپس میں ایک دوسرے کو نقصان پہنچنے کا امکان ہو یا پھر جس سے اخلاقی اور معاشرتی برائیاں جنم لیتی ہوں۔
قرآن ایسی تمام برائیوں سے انسان کو دور رہنے کا حکم دیتا ہے اور سرکشی اور بغاوت کی روش اختیار کرنے والوں کو آخرت کے عذاب سے ڈراتا ہے۔چغلی ، جھوٹ ، چوری ، دھوکہ دہی ، زنا اور قتل و غارت گری جیسے غلط کاموں کی نشاندہی کرتا ہے اور ان سے دور رہنے کا درس دیتا ہے۔ انسان کو ایسے تمام غلط کاموں سے رک جانے کے لیے قرآن نے بڑی خوبصورتی سے بڑی مثالیں دے کر تفصیل بتائی ہے تاکہ انسانیت راہ ہدایت پر رہے اور بھٹکنے سے محفوظ رہے۔ 
 
ان تمام برائیوں میں سود کا لین دین بھی ایک ایسا ہی برا کام ہے جس سے قرآن نے انسان کو بڑی شدومد سے روکا ہے۔اس لیے کہ سود بہت بڑا ظلم ہے جو ایک انسان دوسرے انسان پر کرتا ہے۔سود ایک دھوکہ ہے اور دوسرے انسان کا خون چوسنے کے مترادف ہے۔ قرآن سود کو حرام قرار دیتا ہے اور کہتا ہے کہ کہ جو لوگ سودی کاروبار میں ملوث ہیں وہ اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ حالت جنگ میں ہیں ( سورة البقرة آیات ٢٧٨ ، ٢٧٩)۔اسی کو مزید تفصیل میں جا کر یوں بیان کیا کہ

 : ”…….اور یہ جو تم سود دیتے ہو تاکہ وہ لوگوں کے مال میں شامل ہوکر بڑھ جائے تو وہ اللہ کے نزدیک بڑھتا نہیں ہے۔اور جو زکوٰة تم اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے ارادے سے دیتے ہو ، تو جو کوئی بھی ایسا کرتا ہے وہ اپنے مال کو کئی گنا بڑھا لیتا ہے۔” (سورة الروم : ٣٩)۔

 انسان ہر غلط کام کو کرنے کے لیے حیلے بہانے تراش کرکے اس کو جائز بنانے کی کوشش کرتا ہے اور یہ انسانی فطرت کا تقاضہ بھی ہے اور شیطان کی ترغیب بھی۔قرآن مجید نے انسان کی اس غلط فہمی کو اس طرح بیان کیا ہے

 ”………یہ اس لیے کہ یہ کہتے ہیں کہ تجارت بھی تو (نفع کے لحاظ سے) ایسا ہی ہے جیسے سود (لینا)۔ حالانکہ اللہ نے تجارت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام قرار دیا ہے۔’ ‘ (سورة البقرة: ٢٧٥) 

 
سود سے روکنے کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ نے دو ٹوک الفاظ میں یہ کہہ کر روکا اور حکم دیا کہ

 ” اے ایمان والو! بڑھا چڑھا کر سود نہ کھائو اور اللہ سے ڈرو تاکہ نجات حاصل کرو ۔ ” ( سورة آل عمران : ١٣٠)۔

 اور پھر مزید ہدایت اس طرح دی کہ

 ” اللہ سود کو نابود (بے برکت) کرتا ہے اور صدقہ (کی برکت) کو بڑھاتا ہے اور اللہ کسی ناشکرے گنہگار سے محبت نہیں کرتا ۔” (سورة البقرہ : ٢٧٦)۔

 اور پھر یہ ہدایت بھی عطا کی کہ

” مومنو! اللہ سے ڈرو اور اگر ایمان رکھتے ہو تو جتنا سود رہ گیا ہے اس کو چھوڑ دو۔ ”(سورة البقرة: ٢٧٨)

 سود سے باز نہ آنے والوں کو اللہ نے بڑی سخت وعید دی ہے اور فرمایا کہ

 ” جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ( قبروں سے) اس طرح اٹھیں گے جیسے کسی کو شیطان نے چھو کر دیوانہ بنا دیا ہو……….اور پھر جو (حرام کی طرف لوٹا) اور (سود) لینے لگا تو ایسے لوگ دوزخی ہیں کہ ہمیشہ اس میں (جلتے) رہیں گے۔”(سورة البقرة: ٢٧٥)۔

 اللہ نے انسانی تاریخ کے ہر دور میں اپنے تمام رسولوں اور پیغمبروںکے ذریعہ سے انسان کو حرام سے روکاہے۔ ہر شریعت میں سود کو حرام ٹھہرایا گیا اور لوگوں کو اس سے دور رہنے کا مشورہ دیا گیا۔مگر انسان نے بھی ہر دور میں سر کشی کی روش اختیار کی اور شیطان کے بہلاوے میں آکر اللہ کے احکام کو پس پشت ڈال دیا۔ قرآن اسی چیز کی طرف اشارہ کر کے پہلی امتوں کے لیے کہتا ہے 

”….اور اس کے سبب سے بھی کہ باوجود منع کئے جانے کے سود لیتے تھے اوراس سبب سے بھی کہ لوگوں کا مال ناحق کھاتے تھے….” (سورة النسائ: ١٦١)

 
قرآن مجید کی ان واضح ہدایات کے آ جانے کے بعد یہ صاف طور پر معلوم ہوجاتا ہے کہ سود ایک ایسا معاملہ ہے جس میں ” حرام اور باطل ذرایع سے دوسروں کے مال سے اپنے مال میں اضافہ کر لیا جائے۔” اور پھر یہ مزید واضح ہوتا ہے ” روپیہ اس شرط پر ادھار دیا جائے کہ پہلے سے مقرر شدہ اضافہ کے ساتھ رقم واپس کی جائے۔” قرآن کی اس تعریف کی رو سے سود وہ اضافہ ہے جو پہلے سے طے کر لیا جائے۔ اللہ اس اضافہ کو ناجائز قرار دیتا ہے اور اس سے روک رہا ہے۔ سود کا کاروبار تجارت نہیں ہے اس لیے کہ تجارت میں اگر نفع ہے تو نقصان کا اندیشہ بھی موجود رہتا ہے۔ تجارت محفوظ اور آزاد ماحول میں ہوتی ہے اور تجارت میں ملوث دونوں فریق کو برابری کے حقوق حاصل ہوتے ہیںجب کہ سود کے کاروبار میں رقم دینے والا ہر حالت میں اپنی رقم ایک مدت کے بعد اضافہ کے ساتھ واپس لینے کا معاہدہ کرتا ہے اور یہ رقم بھی اور اضافہ بھی رقم لینے والے کو لازماً واپس کرنی ہوتی ہے خواہ اس کو اپنی تجارت یا کاروبار میں نقصان ہوا ہو۔ اس طرح ادھار دینے والا ادھار لینے والے کا خون چوستا ہے۔ اس کو تو ہر طرح کا تحفظ حاصل ہے اور اس کا سرمایہ بغیر کسی جدوجہد اور محنت کے بڑھتا رہتا ہے اور دوسرا فریق نقصان پر نقصان برداشت کرتا چلا جاتا ہے۔اور یہ ہی وہ وجہ ہے جو اس لین دین کو اللہ کی نظروں میں حرام ٹھراتی ہے۔

٢۔ احادیث مبارکہ میں سود سے ممانعت

جب اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی شریعت نازل کرتا ہے اور انسان کو ہدایات دیتا ہے تو اس کے رسول ان تمام ہدایات پر عمل کرکے مثال قائم کرتے ہیں اور معاشرہ میں عدل و انصاف کا بول بالا کرتے ہیں۔ قرآن مجید نے جب اپنے ماننے والوں کو سود سے روکا تو پھر حضور نبی کریم رحمت اللعالمین ۖ نے سود کی بنیادی جزئیات ، اس کی کچھ قسموںاور تفاصیل سے لوگوں کو آگاہ کیا۔ اگر ہم حضور اکرم ۖ کی ان احادیث پر غور کریں جن میں سود کے اوپر استفسار ہے اور جو کہ ستر سے زائد ہیں۔ [مولانا مفتی محمد شفیع صاحب نے اپنی کتاب مسئلہ سود (مطبع ادارة المعارف ، کراچی) میں چالیس سے کچھ اوپر احادیث کو یکجا کردیا ہے۔ یہ کتاب بھی اس مسئلہ پر اچھی اور مدلل چیز ہے جس کا مطالعہ یقیناً نفع بخش ہوگا] تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ حضور ۖ نے فرمایا کہ ربا یعنی سود کی ستر قسمیں ہیں جس میں سود پر رقم کا لین دین صرف ایک قسم ہے۔ گو کہ نبی برحق ۖ نے ستر کا لفظ استعمال فرمایاہے مگر ان سب کا نام لے کر وضاحت نہیں فرمائی۔آپۖ نے ان میں سے صرف چند کی نشاندہی کی ہے۔ آج کی دنیا میں معیشت کے موجودہ جاری نظام میں بھانت بھانت قسم کے سود کا اجرا ہو چکا ہے اور دنیا سود کے ان بندھنوں میں بری طرح جکڑی جاچکی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ آج کے علماء سر جوڑ کر بیٹھیں اور ان پر تفصیلی غور کریں اور امت مسلمہ کو ان سے آگاہ کریں اور اس کا توڑ بھی بتائیں۔ آج جتنے قسم کے سود جاری ہیں یہاں پر ہم نہ ان کی تفصیل میں جاسکتے ہیں اور نہ اس پر بحث کر سکتے ہیں۔ تاہم اس سلسلہ میں مزید معلومات کے لیے جناب شیخ عمران نذر حسین صاحب کا ایک مفید اورمعلوماتی کتابچہ بر زبان انگریزی بہ عنوان "Importance of Prohibition of Riba in Islam” موجود ہے جسکا اردو ترجمہ راقم نے ہی ” اسلام میں ربا کے حکم امتناعی کی اہمیت ”کے نام سے کیا ہے اور مفت تقسیم کیا جارہا ہے۔ یہ کتابچہ یقیناً پڑھنے کے لائق ہے اور سود سے نجات حاصل کرنے کی طرف ترغیب دلانے کا باعث ہے۔ اللہ شیخ عمران صاحب کو اس کی جزا عطا کریں۔ آمین۔ 

مروجہ سود کی قسموں کا جائزہ

اس مختصر کتابچہ میں ہم صرف مروجہ سود کی چند ایک قسموں کا تذکرہ کریں گے اور قاری کو مشورہ دیں گے کہ مزید تفاصیل کے لیے اس علم کے علماء و معیشت کے ماہرین سے استفادہ کرے۔ تاہم چند ایک کی نشاندہی یوں ہے ، 
 
(الف) ادھار لین دین۔ حضور ۖ نے فرمایا کہ ” ادھار میں ربا ہے۔” اور یہ اس وقت ہے جب کہ ادائیگی تاخیر سے ہو اور اضافہ کے ساتھ رقم واپس ہو۔اگر لین دین میں ادائیگی ساتھ کے ساتھ ہو تو اس میں سود نہیں ہے۔اور اگر ادائیگی بعد میں بھی ہو مگر قیمت میں اضافہ نہ ہو تو یہ معاملہ بھی سود سے پاک ہے۔ 
 
( ب) ادھار سودا ہو تو اشیاء کی قیمت میں اضافہ کردیا جائے 
 
( ج) نیلام میں جھوٹی بولی لگانا تاکہ قیمت کہیں سے کہیں پہنچ جائے اور خریداردھوکہ میں آجائے۔
 
( د) لین دین میں دھوکہ دہی کرنا۔ حرام مال دینا ، نقص کو چھپانا ، یا پھر ناجائز منافع کمانا یہ سب اس میں شامل ہے۔
 
( ر) ذخیرہ اندوزی کرکے بازار میں مصنوعی قلت پیدا کرنا اور پھر زیادہ منافع کے ساتھ بیچ کر پیسے بٹورنا بھی اس میں شامل ہے۔
 
( ز) اجارہ داری کے ذریعہ سے بازار کا سارا مال خرید لینا اور پھر اپنی مرضی کی قیمت پر فروخت کرنا۔ اس طرح چونکہ آزاد تجارتی ماحول متاثر ہوتا ہے یہ کام منع ہے۔
 
( س) سٹے بازی کرنا یعنی جب معلوم ہو جائے کہ مال کی قیمت چڑھنے والی ہے تو اس کو خرید کر روک لینا اور جب قیمت بڑھ جائے تو زیادہ پیسوں پر فروخت کرنا۔
 
(ش) رشوت اور بدعنوانی کے ذریعہ سے عوام کی دولت کو لوٹ لینا۔
 
اوپر درج شدہ چیزیں نہ تو مکمل ہیں اور نہ حرف آخر۔ اس سے صرف یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے سود اور بدعنوانی نے مختلف شکلوں سے معیشت کو جکڑا ہوا ہے اور اپنے قابو میں کر لیا ہوا ہے۔ آج کا ایک عام انسان اپنی مجبوریوں کے تحت یا پھر انجانے میں اور یا پھر اللہ کے خوف سے نڈر ہو کر اس دھوکہ دہی کے کاروبار میں ملوث ہو گیا ہے اور آج صورت حال یہ ہے کہ نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن۔ حضور نبی اکرم صادق الوعد ۖ نے بڑے واشگاف الفاظ میں سود کے بارے میں یہ ارشاد فرمایا ہے جو حضرت ابو ہریرہ نے یوں روایت کیا ہے

 ” رسول اللہۖ نے فرمایا کہ ربا کے ستر حصے ہیں اور اس میں سب سے کمترین حصہ اس کے برابر ہے کہ انسان خود اپنی ماں کے ساتھ شادی کرے (یعنی ہم بستری کرے)۔” (سنن ابن ماجہ) ۔

 استغفرا للہ۔ 
 
اتنی شدید وعید اور اتنی بھیانک تعریف کے بعد بھی اگر کوئی سودی لین دین میں گرفتار ہے تو اس کے بے باک اور نڈر ہونے میں کیا شک رہ جاتا ہے؟ ۔ اس کی آخرت کیسی ہوگی اور کیا بھیانک انجام ہوگا یہ تو اللہ ہی بہتر جانتے ہیں۔ 

آج کے دور کا نظام معیشت

اوپر جو کچھ درج کیا گیا ہے وہ آج کے دور کے نظام معیشت کی ایک بالکل سرسری تعریف ہے۔ مگر دیکھا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ آج کی دنیا معاشی لحاظ سے دو بڑے بڑے گھنائونے کاروبار میں بری طرح ملوث ہے جس میں ایک ہے سود کا کاروبار اور دوسرا ہے قمار بازی یعنی جوا۔ گو کہ قمار بازی اس مضمون کا موضوع نہیں ہے مگر آج کے دور کی اس برائی کا سرسری تذکرہ کئے بغیر تشنگی باقی رہے گی اس لیے آخر میں اس مسئلہ پر بھی تھوڑا سا اظہار خیال ضروری ہوگا تاکہ اندازہ ہو کہ اللہ کی ایک اور ممنوعہ چیز کو شیطان ملعون نے کس طرح ہماری زندگیوں میں داخل کردیا ہے اور ہم کس قدر انجان ہیں کہ اس کو برا جاننا تو درکنار اس کو بڑی حد تک جائز سمجھتے ہیں۔ 
 
سود سے بچائو کے بارے میں گفتگو شروع کرنے سے قبل ہمیں ایک مختصر جائزہ اس بات کا لینا چاہئے جس سے یہ معلوم ہو جائے کہ ہماری زندگیوں اور ہمارے کاروباری لین دین میں سود کی کون سی قسمیں شامل ہیں جن سے بچنا اپنے آپ کو اللہ رب العزت کے قہر و غضب سے بچانا ہوگا۔آئے دیکھتے ہیں کہ ایسی کون سی چیزیں ہیں جو سود کے زمرے میں آتی ہیں جنہوں نے ہمیں بری طرح جکڑ رکھا ہے اور مزیدغلامی کی طرف ڈھکیلتے ہوئے لے جارہی ہیں۔ 

١۔ ذاتی اور کاروباری لین دین

انسان اپنی ذاتی ضروریات یا کاروباری حاجتوں کے لیے بعض اوقات دوسروں کی امداد لینے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ ایسے میں وہ یا تو عزیز و اقارب یا پھر دوستوں سے رجوع کرتا ہے تاکہ کچھ رقم قرض مل جائے۔ یہ رقم اکثر و بیشتر قرض حسنہ کے طور پر لیا جاتا ہے اور ایک مخصوص مدت کے اندر جو رقم لی ہو وہ واپس کر دی جاتی ہے۔ اس پر کوئی اضافہ نہ کیا جاتا ہے اور نہ ہی رقم دینے والے کا اس پر حق ہوتا ہے۔ یہ ایک انتہائی جائز معاملہ ہے۔ اس میں بعض اوقات ضمانت کے طور پر کوئی چیز رہن رکھ دی جاتی ہے جو رقم واپس کرنے پر مل جاتی ہے اور اگر رقم واپس کرنے والا رقم واپس نہ کرے تو ادھار دینے والا اس رہن رکھی ہوئی چیز سے اپنے رقم کی واپسی ممکن کرلیتا ہے۔ اس میں ادھار دی ہوئی رقم سے فالتو کچھ ادا نہیں کیا جاتا۔ ہمارے آقا و مولا صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ اگر کوئی تم میں سے کسی کو قرض دے تو پھر وہ شخص تمہیں کوئی ہدیہ دے تو مت قبول کرو کیوں کہ اس میں سود ہوجانے کا احتمال ہوگا۔ ہمارے اسلاف نے تو اس سلسلہ میں اس قدر احتیاط برتی کہ اگر قرض دیا ہو ہے تو مقروض کی دیوار کے سائے میں بیٹھنے سے بھی احتیاط کیا کہ کہیں سود کے زمرے میں نہ آجائے۔ اللہ اللہ کیا احتیاط ہے اور اللہ کے احکامات کو توڑنے سے بچنے کے لیے وہ لوگ کس حد تک چلے جاتے تھے۔آج اگر ہم ادھار دے بھی دیں تو اتنے نخرے اٹھواتے ہیں کہ بیچارے مقروض کو ناگوار ہونے لگتا ہے۔ بعض اوقات جب ادھار نہ ملے تو بہت سے سود خور لوگ ایسے مل جاتے ہیں جو سود کے اوپر رقم دینے کو تیار بیٹھے ہوتے ہیں۔ اس معاہدہ کے تحت آپ ہرماہ سود کی مقرر شدہ رقم ادا کرتے رہیں تو اصل زر اپنی جگہ برقرار رہتا ہے۔ جب سود کی ماہانہ ادائیگی نہیں کی تو پھر جرمانے کے طور پر یہ رقم بڑھ جاتی ہے اور انسان مزید جکڑا جاتا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ آج سے کچھ عرصہ قبل تک ہمارے معاشرے میں کتنے ہی خاندان ہندو بنئے کے اسی سودی حساب کتاب میں غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے۔ 

٢۔ بینک کاکاروباری نظام

آج کے دور کی معیشت کو شیطان مردود نے اپنی ایک عظیم الشان ایجادیعنی بینک کے ذریعہ سے اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔آج کا کاروبار تمام کا تمام بینک کے گرد گھومتا ہے۔ ہماری ذاتی لین دین ہو یا ہماری تجارتی ضرورت ، سب کو بینک کے گرداگرد لپیٹ دیا گیا ہے۔ ہماری ضرورتوں کو اشتہارات کے ذریعہ سے بڑھا دیا گیا ہے اور ان کے حصول کو بینک کے ساتھ مشروط کر دیا گیا ہے۔ ہماری تجارتی حاجتوںکو بھی اسی طرح بینک کے چکروں میں الجھا دیا گیا ہے۔ اور اب ہماری آپس کی لین دین اور درآمد و بر آمد سب بغیر بینک کی شمولیت کے ممکن ہی نہیں۔چھوٹا بڑا ہر قسم کا کاروباری لین دین بینک سے مشروط ہے۔ آپ مکان بنا نا چاہتے ہیں تو بینک جاتے ہیں ، گاڑی خریدنا چاہتے ہیں تو بینک سے رابطہ کرتے ہیں۔ کاروباری مقاصد کے لیے مدد درکار ہو تو بینک سے رجوع کرتے ہیں۔ پنشن کے ذریعہ یا اور کسی ذریعہ سے کوئی موٹی رقم ملے تو اس کو اٹھا کر بینک میں رکھ دیتے ہیں اور پھر ہر ماہ دھکے کھا کر اپنی پاکیزہ کمائی کے بدلے سود کی گندگی وصول کرتے ہیں اور پھر ان تمام چیزوں کے بعد کریڈٹ کارڈہے اور اس کے ذریعہ سے سود در سود کے ایک لامتناہی سلسلہ سے منسلک ہوجاتے ہیں۔ 
 
بینکوں کا سلسلہ کچھ یوں شروع ہوا کہ صلیبی جنگوں کے دوران عیسائی زائرین یورپ اور دیگر علاقوں سے اپنے مذہبی مقامات کی زیارت کے لیے آیا کرتے تو راستے میں چوری اور راہزنی کے واقعات کی وجہ سے اکثرلوگ لوٹ لیے جاتے تھے۔ اس سے بچائو کے لیے یہ سلسلہ شروع ہوا کہ اپنی نقدی اور دیگر قیمتی اشیاء لوگ کسی کمپنی یا گروپ کے پاس جمع کرا دیتے اور اس کے بدلے انہیں ایک رسید مل جاتی جسے دکھا کر مطلوبہ شہر میں انہیں ان کی چیزیں یا اس کے عوض رقم واپس مل جاتی تھیں۔رفتہ رفتہ یہ صورت بہت ترقی کر گئی اور اس کاروبار میں ملوث لوگوں نے عوام کے جمع شدہ پیسوں کو سود پر ادھار دینے کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا۔ ذاتی غرض کے لیے بھی اور کاروباری مقاصد کے لیے بھی لوگوں کو یہ رقم آسانی سے مل جاتی تھی اور آج یہ صورت حال ہے کہ یہ معاملہ ترقی کرکے یہاں تک آ پہنچا ہے جہاں دنیا بھر کی غریب عوام اپنی محنت سے کمائی ہوئی رقم ان بینکوں میں جمع کراتی ہے۔ بینک یہ رقم کسی بڑی کمپنی کو یا کسی سیٹھ کو ادھار دے دیتا ہے جو اس رقم سے کاروبار کرکے ڈھیروں منافع کماتا ہے اور ایک معمولی رقم بنک کو واپس کرتا ہے اور بینک اپنے کھاتے داروں کو اس رقم کا ایک معمولی حصہ منافع یا پرافٹ کے نام پر دے کر ان کا منہ بند کر دیتا ہے اور اگر ادھار لینے والا سیٹھ نقصان ظاہر کردے ، تو عوام کا روپیہ ڈوب جاتا ہے جب کہ بینک اور سیٹھ دونوں اپنی رقم انشورنس کے ذریعہ سے واپس لے لیتا ہے جب کہ انشورنس میں بھی غریب عوام کا ہی پیسہ لگا ہوا ہوتا ہے۔ یوں غریب ہر طرف سے پٹتا ہے۔یہ ایک ایسا گھنائونا چکر ہے جس کی تفصیل میں جاکر دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ بینک کس طرح دھوکہ دہی کرتے ہیں۔ ایک عام آدمی یہ سمجھتا ہے کہ بینک اس کے فائدے کے لیے کام کررہے ہیںمگر حقیقت اس سے کوسوں دور ہے۔
 
بینکوں نے عوام کے لیے مختلف اسکیمیں شروع کر رکھی ہیںجو سب کی سب سود سے ملوث ہیں اور عوام کو بے وقوف بنا کر ایسے دل لبھانے والے انداز میں ان کی تشہیر کی جاتی ہے کہ لوگ اس کی طرف دوڑے چلے آتے ہیں اور اس چیز کا احساس بھی نہیں ہوتا کہ وہ اللہ کے احکامات سے بغاوت کر رہے ہیں۔آئیے ان میں سے چند ایک چیزوں کا جائزہ لیتے ہیں۔ ہم صرف موٹی موٹی چیزوں کا مختصراً تذکرہ کریں گے۔ تفصیل جاننے کے لیے دیگر کتابوں اور رسائل سے استفادہ کیا جا سکتاہے۔ 
 
(الف) سیونگ اکائونٹ۔ اس مد میں آپ اپنا پیسہ جمع کروادیں اور ایک مقرر شدہ منافع مخصوص وقت میں حاصل کر لیں۔ یہ سود کی سب سے سیدھی سادھی شکل ہے۔ یعنی روپیہ نے وقت گذرنے کے ساتھ بغیر کسی محنت کے اپنی قیمت بڑھا لی۔ اسی کی مزید تبدیل شدہ شکل میں ماہانہ آمدنی اکائونٹ یا پھر پرافٹ لاس شیرنگ اکائونٹ وغیرہ کو بھی عوام میں مقبول کردیا گیا ہے۔اس اکائونٹ میں پرافٹ تو ہے اس کا کوئی تذکرہ نہیں ہے۔ بینک کو معلوم ہے کہ کسی نے اگر ایک ہزار روپیہ جمع کرایا ہے وہ اگر ایک سال کے بعد نو سو ہو جائے توکوئی اپنا روپیہ بینک میں نہیں رکھے گا۔اسی لیے تو ا صل رقم محفوظ اور منافع کی شرح پکی معین ہوتی ہے تاکہ لوگ آئیں اور سود میں گھس جائیں ۔ 
 
(ب) مکان یا گاڑی وغیرہ خریدنے کے لیے ادھار بھی اسی سود کے زمرے میں آتا ہے جسے بینک بڑی چالاکی سے اسلامی بینکنگ کا لبادہ اڑھا کر پیش کرتا ہے۔یہ تمام کا تمام سود میں ملوث ہونے کا کاروبار ہے اور اس سے بچنا انتہائی ضروری ہے۔
 
(ج) کاروباری ادھار۔ اس سودی کاروبار کو تو بعض بینک کھلم کھلا سود یعنیInterestکی بنیاد پر چلاتے ہیں اور بعض نے اس کو اسلامی رنگ میں ڈھال لیا ہے۔ مگر ہے یہ سب سود اور حرام۔
 
(د ) کریڈٹ کارڈ۔ میرے نزدیک آج کے دور کا سب سے گندا شیطانی دھندا۔ اس کے ذریعہ عوام کی قیمت خرید کو مصنوعی طریقہ سے بڑھا دیا گیاہے۔ آپ کی جیب میں خواہ کوئی پیسہ نہ ہو ، مگر آپ اپنی حیثیت اور استطاعت سے کہیں مہنگی چیزیں اسی کارڈ کے ذریعہ خرید لیتے ہیں اور ہر ماہ تھوڑی تھوڑی رقم بینک میں ادکرتے رہتے ہیں۔ لوگ سمجھتے نہیں ہیں مگر حقیقتاً جتنے کی چیز خریدی جاتی ہے اس سے کہیں زیادہ رقم ادا کی جاتی ہے اور اسی لیے یہ بھی سودی کاروبار ہے۔ حرام ہے۔ اس ضمن میں یہ بات قابل غور ہے کہ بینک کہتا ہے کہ اگر آپ تمام کی تمام رقم جو واجب الا دا ہوتی ہے مہینہ ختم ہونے سے قبل یکمشت ادا کردیں تو کوئی سود نہیں لگتا۔ یہ بات شائد درست ہو مگر یاد رکھیں کہ جب آپ نے ادائیگی میں تاخیر کی تو سود کے چکر میں گرفتار ہوگئے۔ اور اس کے بعد یہ بھی انتہائی اہم بات جو لوگ نظر انداز کردیتے ہیں کہ جب آپ کارڈ حاصل کرنے کے لیے بینک کے شرائط کافارم بھرتے ہیں تو اس میں آپ اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ اگر آپ نے رقم کی ادائیگی مقررہ وقت پر نہ کی تو بینک اس پر سودلگانے کا حقدار ہوگا۔ آپ نے اس پر دستخط کر دئے تو آپ نے حامی بھر لی اور پھر آپ اس حدیث مبارک کے مطابق جہنم کے حقدار ہو گئے جس میں رسول بر حق صادق و امین ۖ نے یہ خبردی کہ” جس نے سود دیا ، سود لیا ، سود کا معاہدہ لکھا اور سود کے معاہدہ کی گواہی دی ( دونوں گواہ) سب جہنمی ہیں۔”

٣۔ قومی سیونگ سرٹیفیکیٹ

ہماری حکومت نے سیونگ سرٹیفیکیٹ کے نام پر بہت سی اسکیموں کا اجرا کیا ہے۔ ان تمام قسموں میںیوں ہوتا ہے کہ آپ اپنی رقم ایک مخصوص مدت کے لیے لگا کر کوئی سرٹیفیکٹ خرید لیتے ہیں اور پھر آپ ماہانہ یا سالانہ پرافٹ کے حقدار ہو جاتے ہیں۔ یہ تمام اسکیمیں خالصتاً سود میں ملوث ہیں خواہ ان کا کتنا ہی خوبصورت نام رکھ دیا جائے اس لیے آپ کے اس پیسے سے سود کا حرام کاروبار ہوتا ہے اور اس کے منافع سے آپ کو آپ کا منافع ادا کیا جاتا ہے۔ اس کی تمام شکل ناجائز اور حرام ہے۔

٤۔ پرائز بانڈ

قومی اور ڈیفنس سیونگ سرٹیفیکیٹ کی طرح یہ اسکیم بھی حکومت کی طرف سے جاری کی گئی ہے۔ یہ ایک ایسی اسکیم ہے جو سود اور قمار دونوں کا ملغوبہ ہے۔ آپ اپنی رقم کے عوض ایک خاص مالیت کے پرائز بانڈ خرید لیتے ہیں۔ عوام کی یہ رقم سود کے کاروبار میں لگائی جاتی ہے اور پھر اس سے حاصل ہونے والی رقم کا ایک انتہائی معمولی حصہ قرعہ اندازی کے ذریعہ سے کچھ خوش قسمت لوگوں میں تقسیم ہو جاتا ہے۔ یہ سود بھی ہے اور جوا بھی اور دونوں حرام ہیں۔ مگر لوگوں کے پاس یہ باتیں سوچنے کا وقت بھی نہیں ہے اور شیطان اور اس کے گرگوں نے لوگوں کی عقلوں پر پردے بھی ڈال رکھے ہیں۔

٥۔ قسطوں پر خریداری

یہ بھی ایک ایسا ہی کاروبار ہے جس کی بنیاد بھی سود کی اسی قسم پر ہے جسے اسلام نے حرام قرار دیا ہے۔لوگ اپنی ضرورت کی کوئی چیز خریدنے کی طاقت نہیں رکھتے ہیں تو بینک سے یا اس کا کاروبار کرنے والے سے اپنی مطلوبہ شئے حاصل کرلیتے ہیں۔ کچھ معمولی رقم ابتدائی ادائیگی کے سلسلہ میں دے دیتے ہیں اور بقیہ رقم ماہانہ قسطوں پر ادا کرتے ہیں۔ اور یہ ادائیگی یقینا اس چیز کی اصل قیمت سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔بعض لوگ اس کو ایک معاہدے کا نام دے لیتے ہیں اور اس کے جائز ہونے کا جواز بنا لیتے ہیں۔ تفصیل سے دیکھا جائے تو یہ حرام نظر آتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک چیز لے لیجئے جس کی قیمت ایک ہزار روپیہ ہو اور اس رقم پر بازار میں عام طور پر دستیاب ہو۔ آپ اس چیز کو بازار میں پندرہ سو پر بیچنا چاہیں تو آپ کو اس کا خریدار نہیں ملے گا۔ ہاں اگر آپ اس چیزکو اس شرط پر بیچیں کہ اس رقم کی ادائیگی چھہ ماہ بعد کرنی ہے تو لوگ لے لیں گے۔ اب دیکھیں کہ ہوا کیا۔ یعنی روپیہ نے چھہ ماہ کی مدت کے عوض اپنی قیمت خود بڑھا لی۔ یہ اضافہ شریعت کی رو سے حرام ہے اور ربا کے زمرے میں آتا ہے۔ یہ کاروبار آج کل بہت عام ہے اور گلی کوچوں میں اس کا کاروبار کرنے والے بیٹھے ہیں۔ بینک وغیرہ نے اس کو مرابحہ یا معاہدہ اور اسی طرح کے دیگر اسلامی نام دے کر حلال بنا یا ہوا ہے اور عوام کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ کریڈٹ کارڈ پر خریدی گئی چیزوں کا اطلاق بھی اسی سود کے زمرے میں آتا ہے۔

٦۔ ہائوس بلڈنگ کا قرض

حکومت کی طرف سے قائم شدہ یہ ادارہ لوگوں کو مکان بنانے کے لیے قرض فراہم کرتا ہے۔بظاہر تو یہ ادارہ لوگوں کی سہولت کے لیے قائم کیا گیا ہے مگر اس کا پورا نظام سود کی بنیادوں پر رکھ کر اس کو عوام کا خون چوسنے کا ایک ذریعہ بنا دیا گیا ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ یہ ایک فلاحی ادھار ہوتا اور حکومت کے بیت المال سے عوام کو قرض کی سہولت ہوتی جو سود سے پاک ہوتی۔ مگر آج کتنے ہی لوگ اس کے چکر میں پھنس کر سود در سود میں الجھے ہوئے ہیں اور نہ اس سے گلو خلاصی ہو رہی ہے اور نہ اس قرض سے نجات مل رہی ہے۔ ایک اسلامی حکو مت کی زیر سر پرستی سود کا یہ کاروبار اپنے ہی عوام کا خون چوس رہا ہے اور ہم سب بے بس تماشائی بنے اس کو برداشت کئے جارہے ہیں۔جان لیجئے کہ یہ حرام ہے اور اس ادارے سے رقم حاصل کرکے آپ نے جو گھر بنا یا ہے وہ حرام کی بنیادوں پر کھڑا ہے اور یہاں تو شائد یہ مکان قائم رہے مگر آپ کی آخرت کے لیے جہنم کی عمیق ترین گہرائیوں میں اس کی جڑیں ہیں۔ اللہ ہم سب کو محفوظ رکھیں۔ آمین۔

٧۔ پوسٹ آفس کے سیونگ اکائونٹ اور سرٹیفیکیٹ

یہ بھی ہماری بدقسمتی ہے کہ پوسٹ آفس کے ادارے نے بھی حکومت کی سر پرستی میں سود کا نظام قائم کر رکھا ہے۔ پوسٹ آفس کا کام عوام تک خطوں ، ٹیلی گرام اور پارسلوں کی ترسیل کا تھا مگر عوام میں بچت کا شعور بیدار کرنے کے لیے اس میں سیونگ اور مختلف قسم کے سرٹیفیکیٹ کا اجرا کر دیا گیا اور مروجہ اصولوں کے مطابق بغیر سوچے سمجھے اس کو بھی سود کے نظام سے منسلک کرکے حرام میں شامل کر دیا گیا۔ پوسٹ آفس کی پہنچ ملک کے گوشے گوشے میں ہے اور دور دراز دیہاتوں تک ان کی شاخیں قائم ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پوسٹ آفس میں روپیوں کے لین دین کا کاروبار شائد بینکوں سے بھی زیادہ ہورہا ہے۔ نتیجہ کے طور پر اس سود کی لعنت کو ہمارے ملک کے انتہائی دور دراز دیہاتوں تک پہنچا دیا گیا ہے۔

٨۔ حرام آمدنی کے دیگر ذرائع

اوپر جن چیزوں اور اداروں کا تذکرہ کیا گیا ہے وہ سب سود کی بنیاد اور حرام کاروبار پر مبنی ہیں ۔ ان کے علاوہ اور بھی بہت سے کاروبار ایسے بھی پھل پھول رہے ہیں جس کے ڈانڈے بھی سود سے منسلک ہیں اور اسی لیے یہ بھی حرام ہیں۔ آج کے معاشرہ میں لوگوں نے یہ سوچنا چھوڑ دیا ہے کہ ان کے پیٹ میں حرام جا رہا ہے یا حلال۔ جب اس کی تخصیص نہیں رہ گئی تو پھر دیکھنے بھالنے اور احتیاط کے تقاضے بھی ختم ہوگئے۔ سود ، جوا اور قمار بازی مختلف شکلوں میں معاشرے میںسرائت کر گئی ہے۔آج ہم جو کھارہے ہیں اس سے جو خون بن رہا ہے حرام کے مال سے بن رہاہے اس لیے اس سے تیار شدہ گوشت اللہ کے رسول برحق ۖ کی وعید کے مطابق صرف جہنم میں جلنے کے قابل ہے۔ حرام کی اس ریل پیل سے معاشرہ میں دیگر حرام اور ناجائز کاموں کی بھر مار ہورہی ہے۔ جھوٹ ، رشوت ستانی ، چور بازاری ، لوٹ مار، جوا، زنا ،شراب نوشی ، قمار بازی ، دھوکہ دہی وغیرہ وغیرہ معاشرے کا ایک حصہ بن چکے ہیں اور ایک عام انسان یہ سمجھتا ہے کہ ان کا نہ سد باب ہوسکتا ہے اور نہ ان سے بچنے کی کوئی ترکیب ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ ایسی اور کون سی چیزیں ہیں جن سے بچنا چاہئے۔
 
(الف) شیرز کا کاروبار۔ جب آپ کسی کمپنی کے شئیرز خریدتے ہیں تو آپ اس کمپنی میں اور اس کے کاروبار کے حصے دار بن جاتے ہیں۔ خواہ کتنی ہی چھوٹی سطح پر کیوں نہ ہو آپ کا شمار کمپنی کے مالکوں میں ہوتا ہے۔ آج کے سود کے کاروباری لین دین میں کوئی بھی کمپنی اس حرام معاملے سے الگ نہیں ہے۔ سود کسی نہ کسی شکل میں ہر کاروبار کا حصہ ہے۔ اب اگر یہ کمپنی ایسے کسی طور سے حرام میں ملوث ہے تو آپ بطور مالک ہونے کے اس کے وبال کے ذمہ دار ہونگے۔ اگر کوئی کمپنی ایسی ہے جو حرام تجارت میں ملوث نہ ہو اور حرام ذرایع سے روپیہ حاصل نہ کرتی ہو اور سود سے کلی طور پر پاک ہو تو آپ یقیناً اس حلال کام میں سرمایہ کاری کریں اس کا منافع آپ کے لیے حلال ہوگا۔ بصورت دیگریہ کام درست نہیں ہے۔ علماء نے شیرز کے اوپر سیر حاصل بحث کی ہے اور ان کے خیال سے استفادہ اس موضوع پر موجود کتابوں سے کیا جا سکتا ہے۔ 
 
(ب) قمار اور جوا۔ ہمارے معاشرے میں جوا بھی بے دریغ داخل ہو چکا ہے۔مختلف انداز کی قرعہ اندازیاں صریح طور پر سورة المائدہ کی آیت نمبر ٩٠ کی رو سے(رِجس ِمن عمل الشیطان ) میں داخل ہے اور ممنوع ہے۔ شرط لگانا اوراس کے اوپر رقم یا کسی اور چیز کو شامل کر لینا بھی ممنوع ہے۔ جوا اور سٹے بازی تو اس قدر مقبول ہے کہ اس کا مظاہرہ کسی کرکٹ میچ کے دوران دیکھا جاسکتا ہے کروڑوں روپے کا سٹہ ایک ایک گیند پر لگا ہوا ہوتا ہے اور اس کو انتہائی معصومیت سے تفریح اور کھیل کے زمرے میں ڈال کر اس کو جائز قرار دے دیا گیا ہے۔
 
(ج) رشوت اور بد عنوانی۔ آج ہمارے معاشرہ میں رشوت کے بغیر کوئی کام ہوجانا انتہائی دشوار ہے۔ رشوت کے ذریعہ سے عوام کا مال ناجائز طریقہ سے ہتھیا لیا جاتا ہے۔ بے چارے مظلوم انسان کی مجبوری کو کیش کرایا جاتا ہے۔ جبکہ نبی کریم ۖنے رشوت لینے اور دینے والوں پر لعنت فرمائی ہے مگر ہم رسول اللہ کی لعنت سے بھی نہیں ڈرتے ۔ معاذ اللہ ثم معاذ اللہ۔ قرآن پاک کا حکم ہے کہ لوگوں کا مال ناحق مت کھائو اور اسی طرح قرآن کریم یہ بھی کہتا ہے کہ حکام کے ساتھ مل کر عوام کی دولت مت لوٹو۔ آپ کسی بھی سرکاری ، نیم سرکاری بلکہ اب تو غیر سرکاری دفتر میں بھی چلے جائیں تو آپ کو یہ دونوں برائیاں اپنی پوری حشر سامانیوں کے ساتھ ملیں گی۔

ہمارے اسلاف کا طرز عمل

گزشتہ صفحات میں ہم نے جن چیزوں کا تذکرہ کیا ہے اور انہیں سود اور حرام ہونے کے زمرے میں شامل کیا ہے وہ اس معاشرہ میں رواج پائی ہوئی حرام کاروبار میں سے صرف چند ایک ہیں۔ شیطان اور اس کے گرگے انسان کو اللہ کی راہ سے بھٹکانے کے لیے دن رات مصروف عمل ہیں۔ یہ ساری مروجہ چیزیں بظاہر بہت معصوم اور بے ضرر نظر آتی ہیں مگر یہ انسان کی دبی ہوئی خواہشات کو بھڑکاتی ہیںاور ان کے حصول کے لیے جدوجہد اور حلال ذرایع کو استعمال کرنے کی بجائے آسان اور شارٹ کٹ راستہ پیش کرتی ہیں۔ اور ان ہی راستوں کو اختیار کرنے کا مشورہ دیتی ہیں۔ یوں انسان نہ صرف یہ کہ اللہ کے احکامات کے خلاف چل پڑ تا ہے بلکہ سود در سود کے چکر میں گرفتار ہو کر اپنے آپ کوغلامی کی زنجیروں میں جکڑوانے کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔اور اس کی اس حرکت کا اثر اس کی آنے والی نسلوں پر بھی مختلف طریقوںسے اثر انداز ہوتا ہے اور دور تک چلا جاتا ہے۔اگر ہم اپنی خواہشات کو قابو کر لیں اور یہ تہیہ کر لیں کہ ہم اپنی چادر سے پائوں باہر نہیں نکالیں گے اور ہر قسم کے ادھار سے حتی الامکان پرہیز کریں گے تو بھی ہم غلط چیزوں کی طرف ہاتھ بڑھانے سے رک جائیں گے اور شائد ارادہ پکا ہو تو سود کے ذرائع کی طرف بھی قدم نہ بڑھے۔
 
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرمۖ نے فرمایا کہ

 ” لوگوں پر ایک ایسا زمانہ ضرور آئے گا جس میں ایسا کوئی شخص باقی نہیں رہے گا جس نے سود نہ کھایا ہو ، اور اگر کسی نے سود نہ کھایا ہو گا تو اس کا غبار اس تک ضرور پہنچے گا۔ ” (سنن ابو دائود اور ابن ماجہ)۔

حضور پاک نبی رحمت ۖکی یہ حدیث مبارک ہمارے آج کے دور پر صادق آتی ہے۔ انسان کو بھٹکانے کے لیے شیطان لعین نے جتنی چیزیں ایجاد کی ہیں ان میں سب سے بڑا شاہکار سود کا نظام ہے۔ سود کو ہر شریعت میں اللہ نے حرام قرار دیا۔ مگر آج کا انسان جس طرح اس حرام کاروبار میں ملوث ہے اس طرح پہلے کبھی نہ رہا ہوگا۔ اور اسی کی وجہ سے آج انسانیت جس طرح مغلوب ہے شاید ہی پہلے کبھی رہی ہو۔ اپنے گرد نظر ڈالیں تو ہر چیز میں سود دکھائی دیتا ہے۔ اسی الجھاوے کو دیکھ کر بعض لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ سود سے پاک رہ کر زندگی گزارنا اور کاروبار کر نا ممکن ہی نہیں ہے۔ اوپر بیان کی ہوئی حدیث مبارک کو پیش نظر رکھیں تو شاید لوگوں کا یہ بیان درست نظر آئے کہ سود کا غبار تو ضرور پہنچے گا تو وہ توپہنچ رہا ہے۔ مگر حضرت غبار کہاں یہ تو مکمل آلودگی ہے۔یہ انسان کی کمزوری ہے کہ اس نے شیطان مردود کو اس قدر چھوٹ دے رکھی ہے اور اس کے چکروں میں اس طرح الجھ گیا ہے کہ سود کے ذریعہ سے شیطان کے گرگوں کی غلامی میں جکڑا گیا ہے۔ ساری دنیا کی معیشت مشرق سے مغرب تک اور شمال سے لے کر جنوب تک سود کے ذریعہ سے ان چند لوگوں کے ہاتھوں میں مرکوز ہو گئی ہے جو شیطان کے لیے کام کرتے ہیں اس کو پوجتے ہیں اور اس کے غلام ہیں۔ ان لوگوں نے ساری دنیا کی دولت اپنے قبضہ میں کر لی ہے اور ان کی آئندہ کی پلاننگ اور منصوبے اس سے بھی زیادہ خطرناک ہیں جو وقت آنے پر ظاہر ہونگی۔
 
اس حدیث مبارک کے صحیح ہونے میں ہمیں کوئی شک نہیں ہے۔ اس لیے کہ ہمارے نبی برحق انتہائی صادق ہیں اور آپ ۖ نے جو بھی فرمایا یقیناً ویسا ہی ہوگا۔ مگر اس کا یہ مطلب تو نہیں ہے کہ ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں۔ مسلمان ہونے کے ناطے ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم ہر برائی کے خلاف آواز بلند کریں اور اس کو ختم کرنے کے لیے اقدام کریں ، اس کو روکنے کی کوشش کریں اور اس کو پھیلنے نہ دیں۔ ہم اپنی اس کوشش میں کامیاب ہوتے ہیں کہ نہیں یہ بالکل الگ معاملہ ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو ہمارے اعمال کی درستگی درکار ہے نتیجہ خواہ کچھ بھی ہو۔ اللہ کے نزدیک جزا اور انعام کا دارومدار نتیجہ پر نہیں ہے ۔ اگر ایسا ہوتا تو ذرا غور کیجئے کہ ایک مجاہد جو اللہ کے نام کی بلندگی اور اعلائے کلمة حق کے لیے نکلتا ہے اور جہاد اور قتال کر تا ہے۔ وہ مجاہد مقابلہ میں اگر اپنے مد مقابل سے کمزور پڑتا ہے اور قتل ہوجاتا ہے تو مادی دنیا کی نظروں میں وہ ناکام ہو گیا اس لیے کہ اس کا دشمن اس پر غالب آگیا اور وہ کافر جس سے وہ لڑ رہا تھا وہ کامیاب ہوگیا۔ نہیں ایسا نہیں ہے۔ اگر ایسا ہوتا کہ اللہ نتیجہ کو میعار بناتا تو اس مقتول کو شہید کا رتبہ دے کر اعلیٰ مرتبہ نہ دیتا۔بلکہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے نزدیک تو معاملہ نیت اور عمل کی درستگی کا ہوتا ہے۔ شہید اللہ کا نام بلند کرنے کے لیے قدم اٹھاتا ہے تکلیفیں جھیلتا ہے اور مار تا بھی ہے اور اپنی جان بھی لٹا دیتا ہے اپنا سر بھی کٹا دیتا ہے۔ اور یہی جذبہ اللہ تعالیٰ کو پسند آتا ہے اور وہ شہید اللہ کو محبوب ہوجاتا ہے۔
 
آج کے فتنوں کے اس دور میں ہمارے دائیں بائیں ، گھر کے اندر بھی اور باہر بھی ہر طرف فتنے اپنی انتہائی حشر سامانیوں کے ساتھ جلوہ گر ہیں۔ یہ فتنے جتنی شدت سے ظاہر ہو رہے ہیں ، ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کا سدباب بھی اسی شدومد اور جذبہ کے تحت کیا جائے۔شیطان کی چالوں کو سمجھنا اور پھر ان سے اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کرنا ہی ہماری زندگی کا مطمح نظر ہونا چاہیے۔ اسی میں ہماری کامیابی ہے اور اللہ کے نزدیک پسندیدہ ہے۔ اگر آج سود قدم قدم پر موجود ہے تو ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ہر قدم دیکھ بھال کر اٹھائیں۔ اپنی پوری کوشش کریں کہ سود میں ملوث نہ ہوں ۔ ہر وہ چیز جس میں سود نظر آئے اس کو چھوڑ دیں خواہ اس میں کتنی ہی مشکل کیوں نہ درپیش ہو۔ ہمارا کام کوشش کرنا ہے اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ چاہیں گے تو اپنی مصلحتوں اور اپنے حکم سے برائی کو ختم کردیں گے۔ یا پھر اس کو اسی طرح قائم رکھیں گے۔ مگر ہماری تمام کوششیں اور ہماری تمام قربانیاں اور وہ تمام اقدام جو ہم نے اس برائی کے خلاف اٹھائے وہ ضائع نہیں ہونگی۔ اللہ اس کا حساب رکھتے ہیں اور ہمارا ایمان ہے کہ اللہ یقیناً اس کا بہتریں صلہ عطا کریں گے اور ہماری بخشش اور مغفرت کا ذریعہ یہی کوشش بنے گی۔ ا ن شا ء اللہ۔ یہ ہی ہماری اور آپ کی کامیابی ہے۔ یہی اس مضمون کا مقصد ہے اور اسی بات کی ضرورت ہے کہ امت محمدیہ علیٰ صاحب سلام و تسلیم کو اس کی ذمہ داریاں یاد دلائی جائیںاور ہر شخص اپنی انفرادی سطح پر سود کے خلاف اپنا پہلا قدم اٹھائے۔ان شا ء اللہ معاشرے سے یہ برائی ضرور ختم ہوجائے گی۔
 
اگر اس بات کا احساس ہو جائے کہ معاشرہ کے ہر فرد کو انفرادی کوشش کرنی چاہئے اور ہر فرد اپنی جگہ پر خواہ کتنی ہی چھوٹی چیز سے آغاز کردے ، برائی کے منہ پر تھپڑ تو ضرور لگا دیگا۔ ہم نے حلال اور حرام کے درمیان امتیاز کے لیے احتیاط کا دامن چھوڑ دیا ہے اسی لیے اس حال تک پہنچ گئے ہیں۔ ذرا غور کیجئے اس روایت پر
 
” حضرت عمر بن خطاب فرماتے ہیں کہ

” حضور نبی اکرم ۖ پر جو آخری آیت نازل ہوئی وہ سود کے متعلق تھی اورحضور نے اس کی پوری تشریح بیان نہیں فرمائی تھی کہ آپ ۖ کا وصال ہوگیا۔ لہٰذا سود کو بھی چھوڑ دو اور ان چیزوں کو بھی چھوڑ دو جن میں سود کا شائبہ بھی ہو۔”

 
اسی طرح حضرت عمر کے احتیاط برتنے کا یہ واقعہ بھی احادیث میں مرقوم ہے 

” حضرت شعبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب نے فرمایااور کہا کہ ہم نے نوے فیصد حلال کو ربا کے خوف سے چھوڑ رکھا ہے۔”

ہمارے اسلاف میں یہ خوبی تھی کہ وہ ہر چیز میں اللہ کا حکم اور رسول اللہ کی سنت کو تلاش کرتے تھے اور جہاں ہلکا سا شبہ بھی ہوتا اچھی بھلی حلال چیزوں کو بھی چھوڑ دیا کرتے۔ یہی ان کی کامیابی کا راز تھا اور آج ہمیں بھی اسی چیز کو اپنانے کی ضرورت ہے۔مگر ہمارا رویہ ایسا ہے کہ ہم لوگ دنیاوی زندگی اس کی آسائشوں اور اس کے آرام کو مقدم رکھتے ہیں۔ اللہ کے احکامات ، حضور نبی اکرم ۖ کی سنت اور اپنے اسلاف اور بزرگوں کی روایات سب کو چھوڑ دیا ہے۔ ہمیں نہ تو یہ علم ہے کہ غلط کیا ہے اور نہ کوئی ایک عام انسان کو یہ سمجھا رہا ہے کہ زندگی گذارنے کا طریقہ کیا ہے۔قرآن مبارک ہم پڑھتے نہیں ہیں ، جو پڑھتے بھی ہیں تو سمجھتے نہیں ہیں اور جو تھوڑا بہت کسی وجہ سے سمجھتے ہیں تو اس پر عمل کرنے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں۔ یہ معلوم ہے کہ سود گندگی ہے ، اللہ نے اس سے روکا ہے۔ مگر یہ نہیں معلوم کہ سود کس چیز میں ہے۔ اور اگر پتہ بھی چل جائے تو اس کو چھوڑنے میں جو دشواری اور تکلیف ہے اس کو اٹھانے اور برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔اللہ نے کتنی شدت سے مزمت کی ہے اور آخرت میں سود خوروں کا کیاا نجام ہوگا لوگ اس سے بالکل نابلد ہیں اور جو جانتے ہیں وہ انتہائی بے باکی سے اس کا انکار کرتے ہیں۔ جو تھوڑا بہت ڈرتے ہیں وہ اللہ کی رحمت کے اوپر اس قدر انحصار رکھتے ہیں کہ ان کو یقین ہے کہ اللہ معاف کردے گا۔ذرا یہ تو سوچئے کہ معاف کرنے کی بات ہوتی تو اللہ اور اس کا رسول اتنے سخت اور شدید الفاظ استعمال کرکے سود خوروں کی آخرت کا احوال کیوں بیان کر رہے ہوتے۔اللہ کے واسطے اپنے پر رحم کیجئے اور اپنی آخرت کو سنوارنے کی کوشش کیجئے کہ یہی کامیابی ہے۔ 
جارى ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 
یہ مضمون جریدہ "الواقۃ” کراچی کے شمارہ، شعبان معظم 1433ھ/ جون، جولائی 2012- سے ماخوذ ہے۔