تبصرہ کتب


الواقعۃ شمارہ: 113 – 118، شوال المکرم 1442ھ تا ربیع الاول 1442ھ

مبصر : محمد تنزیل الصدیقی الحسینی

فتاویٰ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ
کا اردو ترجمہ

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تاریخ اسلام کی ان غیر معمولی شخصیات میں سے ایک اور نمایاں ترین مقام رکھتے ہیں جن کی ذات پر علم و عمل کو ناز ہے اور جو محض تاریخی نہیں بلکہ تاریخ ساز شخصیت تھے۔ کو پڑھنا جاری رکھیں

تبصرہ کتب: نوائے ضمیرؔ


الواقعۃ شمارہ: 101 – 103، شوال المکرم تا ذی الحجہ 1441ھ

نوائے ضمیرؔ

مجموعہ کلام حکیم محمود احمد ضمیرؔ برکاتی
مرتب: ڈاکٹر سہیل برکاتی
سن طباعت: 2019ء، صفحات: 122
ناشر: برکات اکیڈمی، سی 19، بلاک اے – 3، گلستانِ جوہر کراچی
رابطہ نمبر: 03323456259

حکیم محمود احمد برکاتی عالم، حکیم، فلسفی، طبیب اور کئی کتابوں کے مصنف تھے۔ قدیم و جدید پر ان کی یکساں نظر تھی۔ علوم عقلیہ کی ایک مخصوص علمی و فکری دبستان کے نمائندہ عالم تھے۔ لیکن بہت کم لوگ ہوں گے جو یہ جانتے ہوں کہ حکیم صاحب با قاعدہ شاعر بھی تھے۔ ان کی شاعری ان کے افکار و خیالات کی طرح پاکیزہ اور با مقصد تھی۔ ان کا یہ مجموعہ کلام "نوائے ضمیرؔ” ان کی وفات کے چھے برس بعد پہلی مرتبہ منصہ شہود پر آیا ہے۔ حکیم صاحب کا کلام منتشر و متفرق تھا اس کے مرتب ان کے صاحب زادے ڈاکٹر سہیل برکاتی ہیں۔ جنھوں نے بڑی محبت کے ساتھ اپنے والد کے کلام کو یکجا کیا اور عمدہ انداز میں اس کی طباعت کی۔

کتاب کے آغاز میں حکیم صاحب کا مختصر سوانحی خاکہ تحریر کرنا چاہیے تھا جس کی کمی محسوس ہوتی ہے۔

حکیم محمود احمد برکاتی 21 اکتوبر 1924ء کو ریاست ٹونک (راجستھان، انڈیا) میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم ٹونک میں مدرسۂ خلیلیہ نظامیہ میں حاصل کی۔ اس کے بعد مدرسۂ معینیہ عثمانیہ (اجمیر) میں درسِ نظامی کی تکمیل کی۔ اُن کے اساتذہ میں مولانا معین الدین اجمیری، مولانا محمد شریف اعظم گڑھی، مولانا عبد الرحمن چشتی وغیرہم شامل ہیں۔ اس کے بعد الٰہ آباد سے فاضلِ ادب اور طبیہ کالج (دہلی) سے فاضل الطب والجراحت کی اسناد حاصل کیں۔

عملی زندگی کا آغاز ٹونک میں اپنے مطب سے کیا۔ 1954ء میں کراچی تشریف لے آئے اور اس کو اپنا مستقل مسکن بنایا۔ کراچی میں اپنا مطب برکاتی دواخانہ قائم کیا اور طب اور علم و ادب کی خدمت میں مصروف ہو گئے۔ طب کے میدان میں اُن کی غیر معمولی تحقیقی خدمات کے اعتراف میں ہمدرد یونی ورسٹی (کراچی) نے اُنھیں 1997ء میں ’’سندِ امتیازِ طب‘‘ اور 2001ء میں ’’ڈاکٹر آف سائنس‘‘ کی اعزازی سند عطا کی۔ تاریخ، سوانح اور طب ان کے پسندیدہ موضوعات تھے جن پر حکیم صاحب نے دو درجن سے زائد کتابیں لکھیں۔ 9 جنوری 2013ء کو فیڈرل بی ایریا کراچی میں  واقع ان کے مطب میں دہشت گردوں نے فائرنگ کر کے انھیں شہید کر دیا۔ اللہ رب العزت ان کے درجات بلند کرے۔

۔”نوائے ضمیرؔ” مختصر سا مجموعہ کلام ہے۔ تاہم اس میں افکار کی مختلف جہتیں اور شاعری کے کئی اسالیب نظر آتے ہیں۔ کہیں تشبیہ و استعارات ہیں تو کہیں  واشگاف طور پر اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہیں اور کہیں گزشتہ شاعروں کے زمین کی پیروی اپنے اسلوب میں کرنے کی کوشش کی ہے۔

۔”حرم نامہ” کے زیرِ عنوان لکھتے ہیں:-۔

اک خطا کار و سیہ کار ہو مہمانِ حرم
اللہ اللہ رے ! یہ وسعتِ دامانِ حرم
لرزشِ دل کے سوا، اشکِ مسلسل کے سوا
کوئی ہدیہ نظر آتا نہیں شایانِ حرم

۔13 اگست 1996ء کو عمرہ کی سعادت کے موقع پر جو نظم انھوں نے لکھی اس میں امت کی پریشانیوں کا نوحہ بھی ہے اور عجز کا اعتراف بھی۔ اس کی ابتدا اس طرح کرتے ہیں:-۔

محمود خطا کار ہے اے رب محمد ﷺ
اب حاضر دربار ہے اے رب محمد ﷺ

اور اختتام اس طرح:-۔

چاہے تو ہمیں پھر سے مسلمان بنا دے
تو قادر و مختار ہے اے رب محمد ﷺ

۔نشید توحید” کے زیر عنوان ایک موحدانہ نظم کے اشعار ملاحظہ کیجیے:-۔

صنم کدے میں ترے جذبہ پرستش کو
نہ مل سکے گا سکوں، لا الہ الا اللہ
جیوں تو صرف خدا کے لیے ہو زیست مری
مروں تو کہہ کے مروں، لا الہ الا اللہ
ضمیرؔ بر سرِ اوراق عالم اسباب
نوشتہ ایم زخوں، لا الہ الا اللہ

موسم حج کے موقع پر جب شاعر زیارت سے محروم تھے تو بے اختیارانہ کہہ اٹھتے ہیں:-۔

موسم گل آ گیا زنداں میں بیٹھے کیا کریں
خون کے چھینٹوں سے کچھ پھولوں کے خاکے ہی سہی

حکیم صاحب ماہر منطق و فلسفہ بھی تھے، اُس کے اثرات بھی ان کی شاعری میں کہیں کہیں نمایاں ہیں۔ کلام ضمیرؔ میں عام قاری کے لیے عموماً یہ مقام قدرے مشکل ہے۔ ایک آسان سا فلسفیانہ شعر ملاحظہ ہو:-۔

اعتراف عدم علم، بایں لا علمی
دعویٰ علم عدم کے لیے ہے اک تقریب

کلام ضمیرؔ کے چند متفرق اشعار ملاحظہ فرمایئے:-۔

دل دیا، جاں سونپ دی اور نذر ایماں کر دیا
میں نے جو کچھ پاس تھا وہ نذرِ جاناں کر دیا
اللہ اللہ آپ کے رنگیں تصور کی بہار
قلبِ ویراں کو مرے، رشکِ گلستاں کر دیا
غم انسان کی فطرت میں داخل ہے شاید
خوشی میں بھی رونے کو جی چاہتا ہے
انکشافِ حادثات شام ہجراں کیا کریں
ہم پریشان ہیں تو ہوں ان کو پریشاں کیا کریں
دل بھی ان کا، دیں بھی ان کا، جاں بھی ان کی، اے ضمیرؔ
سوچنا یہ ہے کہ آخر ان پہ قرباں کیا کریں
اے قصر نشینِ روح و جاں اٹھ دل سے نکل کر باہر آ!
وہ قرب مجھے مطلوب نہیں، کر دے جو نظر سے پوشیدہ
جو وسوسے کہ دل میں اٹھائے ہوئے تھے سر
ساغر اٹھا لیا تو وہ موہوم ہو گئے
حاصل در نبی کی زیارت سے کیا ہوا
آیا جو انقلاب نہ اپنے مذاق میں
کافر کو اپنی جاں بھی نہیں اس قدر عزیز
مومن کو جس قدر کہ شہادت عزیز ہے

حکیم صاحب کے کلام کا یہ انتہائی مختصر سا مجموعہ ہے۔ بیشتر کلام یا تو ضایع ہو چکا ہے یا پھر ہنوزِ منتظر طباعت ہے۔

جو لوگ با مقصد شاعری پڑھنا پسند کرتے ہیں ان کے لیے نوائے ضمیرؔ ایک لائقِ مطالعہ مجموعہ ہے۔ اسی طرح جو لوگ شعر و ادب کی تاریخ قلمبند کرتے یا اس سے دل چسپی رکھتے ہیں انھیں چاہیے کو کلامِ ضمیرؔ کو بھی اس کا جائز ادبی مقام دیں۔

مبصر: محمد تنزیل الصدیقی الحسینی

تبصرہ کتب: یادگارِ سلف، الاربعین فی مناقب الخلفاء الراشدین


الواقعۃ شمارہ : 92 – 93، محرم الحرام و صفر المظفر 1441ھ

یادگارِ سلف

(استاذ الاساتذہ حافظ عبد اللہ محدث غازی پوری رحمۃ اللہ علیہ کی سوانح حیات)
مولف: حافظ شاہد رفیق
طبع اول: جولائی 2019ء
صفحات: 588     قیمت: 1000 روپے
ناشر: دار ابی الطیب، گل روڈ، حمید کالونی، گلی نمبر 5، گوجرانوالہ برائے رابطہ: 0553823990

گزشتہ صدی کے جن کو پڑھنا جاری رکھیں

تبصرہ کتب : پاکستان میں غزل کے نعت گو شعراء


الواقعۃ شمارہ : 80 – 81، محرم الحرام و صفر المظفر 1440ھ

پاکستان میں غزل کے نعت گو شعراء

مؤلف: سیّد محمد قاسم
صفحات : 560
طبع اوّل: 2018ء
ناشر: رنگِ ادب پبلی کیشنز، آفس نمبر ۵، کتاب مارکیٹ، اردو بازار، کراچی0345-2610434

جناب سیّد محمد قاسم عصر حاضر کے معروف تذکرہ نگار ہیں۔ ان کی تذکرہ نگاری کا دائزہ ماضی قریب سے لے کر زمانہ حال کی شخصیات پر محتوی ہے۔ وہ تذکرہ نگاری کے فنی لوازمات سے واقف ہیں اور اپنی کتابیں بڑے سلیقے اور ذمہ داری کے ساتھ تحریر کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اپنے کو پڑھنا جاری رکھیں

تبصرہ کتب : تصوف و احسان، زبان خامہ کی خامیاں


الواقعۃ شمارہ : 66 – 67، ذیقعد و ذی الحجہ 1438ھ

تصوف و احسان، علمائے اہلِ حدیث کی نظر میں

مؤلف : ابن محمد جی قریشی
صفحات : ١٥٧
طبع اوّل : دسمبر ٢٠١٦ء
ناشر : پورب اکادمی، اسلام آباد
کتاب ایک مقدمہ اور چھ ابواب میں منقسم ہے، ابواب کے عناوین حسبِ ذیل ہیں، جن سے کتاب کے مباحث کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے: کو پڑھنا جاری رکھیں

تبصرہ کتب


10 tabsara kutub تیتلع

کو پڑھنا جاری رکھیں

تبصرہ کتب:اہل علم کے خطوط


جریدہ "الواقۃ” کراچی، شمارہ 12-13، جمادی
الاول، جمادی الثانی 1434ھ/ مارچ، اپریل 2013

تبصرہ کتب:اہل علم کے خطوط

مرتب : محمد یوسف نعیم
طبع اوّل : دسمبر ٢٠٠٧ئ-١٢٨صفحات-غیرمجلد
قیمت : ٨٠ رُپےناشر:عبد الرحمان دارالکتاب کراچی

اہلِ علم کے خطوط کی ترتیب و تدوین اربابِ ذوق کا پسندیدہ موضوع رہا ہے ۔ بسا اوقات ان میں ایسے عمدہ علمی نکات اور مختلف اہل علم کی اپنے مخصوص افکار و نظریات سے متعلق اہم تصریحات مل جاتی ہیں جو ضخیم کتابوں کی ورق گردانی سے بھی حاصل نہیں ہوتی ہیں ۔ زیرِ تبصرہ تالیف بھی اسی نوعیت کی ایک کاوش ہے جس کے فاضل مرتب جناب
محمد یوسف نعیم نے اپنے نام آنے والے مختلف اہلِ علم کے مکاتیب کو جمع کیا ہے ۔
کتاب ٣ حصوں پر منقسم ہے پہلے حصے میں ان اہلِ علم کے خطوط ہیں جنہوں نے مرتب کے نام اپنے مکاتیب روانہ کیے ۔ جن میں مولانا حافظ عبدالمنان نور پوری ،مولانا محمد رفیق اثری ، مولانا محمد اسحاق بھٹی ، ڈاکٹر معین الدین عقیل ، مولانا
عمر فاروق سعیدی ، مولانا محمد ادریس ہاشمی ، مولانا محمد یٰسین شاد ، محمد رمضان یوسف سلفی وغیرہم شامل ہیں ۔
دوسرے حصے میں وہ خطوط درج ہیں جو فاضل مرتب نے مختلف اہلِ علم کے نام روانہ کیے تھے تاہم انہیں ان کے جوابات موصول نہیں ہوئے ۔ ان اہلِ علم میں جاوید احمد غامدی ، مفتی منیب الرحمان ، ڈاکٹر حامد حسن بلگرامی ، حافظ ابتسام الٰہی ظہیر وغیرہم شامل ہیں ۔
تیسرے حصے میں جن اہلِ علم کے مکاتیب شاملِ کتاب کیے گئے ہیں ان کے حالات درج ہیں ۔ فاضل مرتب نے کتاب کی ترتیب و تالیف میں خاصی جلد بازی کا مظاہرہ کیا ہے ۔ جس طرح ہر شخص کی سوانح نہیں لکھی جاتی اسی طرح ہر مکتوب بھی لائقِ اشاعت نہیں ہوتا ۔ متعدد خطوط میں ایک ہی مضمون مختلف پیرایوں میں آیا ہے وہ یہ کہ ” خیرالقرون
قرنی ” حدیث کی کسی کتاب میں روایت نہیں کیا گیا ۔ اسی طرح بعض مکاتیب مرتب کی کسی کتاب کی وصولی اطلاع کے طور پر لکھے گئے ہیں ۔ بیشتر مکاتیب مختصر اور ہلکے پھلکے خیالات پر مبنی ہیں ۔ تاہم مولانا محمد اسحاق بھٹی اور رانا محمد شفیق خاں پسروری کے مکاتیب لائقِ مطالعہ اور دلچسپ ہیں ۔
مرتب کی کاوش علمی اعتبار سے گو بہت وزنی اور جاندار نہیں تاہم ان کا جذبہ بلاشبہ لائقِ ستائش ہے ۔
(محمد تنزیل الصدیقی الحسینی )

تبصرہ کتب:مولانا عبد التواب محدث ملتانی


جریدہ "الواقۃ” کراچی، شمارہ 12-13، جمادی الاول، جمادی الثانی 1434ھ/ مارچ، اپریل 2013

تبصرہ کتب:مولانا عبد التواب محدث ملتانی

مولف :حافظ ریاض عاقب

طباعت : جنوری ٢٠١٠ئ

-٢٩٣ صفحات-

مجلدقیمت : ٤٠٠رُپے

ناشر:مرکز ابن القاسم الاسلامی یونی ورسٹی روڈ ملتان

مولانا عبد التواب محدث ملتانی کا شمار ماضیِ قریب کے معروفعلماء ومحدثین میں ہوتا ہے ۔ ان کی خدمتِ حدیث کے نقوش آج بھی نمایاں ہیں ۔ وہ سیّد نذیر حسین محدث دہلوی کے تلمیذِ رشید تھے ۔ خودنے انہوں اپنی زندگی کا مقصد علمِ حدیث اور دیگر علوم اسلامیہ کی نشر و اشاعت کو قرار دیا تھا ۔ اسلاف کرام کی متعدد دینی کتب کی اوّلین طباعت ان کے حسناتِ علمیہ میں سے ہے ۔ مگر انتہائی افسوسناک امر ہے کہ کتبِ تذکرہ میں ان کا ذکر نہیں ملتا ۔ کسی معاصر تذکرہ نویس نے ان پر خامہ فرسائی کا فریضہ انجام نہیں دیا ۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ ان کی خدمات سے طلاب علم کو آگاہ کیا جاتا تاکہ ان میں بھی خدمتِ حدیث کا داعیہ پیدا ہوسکے ۔ زیرِ تبصرہ کتاب مولانا موصوف کی زندگی کی مختلف جہات کا احاطہ کرتی ہے ۔ یہ دراصل بی ایڈ کا مقالہ ہے جو ٢٠٠٦ء میں ایجوکیشن یونیورسٹی ملتان میں پیش کیا گیا ۔ بعد ازاں اب یہ مقالہ کتابی شکل میں مرتب کرکے پیش کیا گیاہے ۔ کو پڑھنا جاری رکھیں

تبصرہ کتب: ایران کی چند اہم فارسی تفسیریں(جلد سوم)


جریدہ "الواقۃ” کراچی، شمارہ 12-13، جمادی الاول، جمادی الثانی 1434ھ/ مارچ، اپریل 2013

تبصرہ کتب:

ایران کی چند اہم فارسی تفسیریں(جلد سوم)

مولف  :  ڈاکٹر کبیر احمد جائسی
طبع : ستمبر ٢٠١٠ئ-٢٤٤ ، صفحات-مجلد ،
قیمت :٢٠٠ رُپےناشر:قرطاس ، آفس نمبر ٢ ، عثمان پلازہ ، بلاک 13-B، گلشن اقبال ، کراچی

 
ادارئہ علوم اسلامیہ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی ( علی گڑھ ، یوپی ، انڈیا ) کے سابق ڈائرکٹر ڈاکٹر کبیر احمد جائسی کی کتاب ” ایران کی چند اہم فارسی تفسیریں” اہم مفسرینِ ایران اور ان کی تفاسیر کے مطالعات پر مبنی ہے ۔ جسے ادارئہ قرطاس چار جلدوں میں پیش کر رہا ہے ۔ اس سلسلے کی ابتداء محمد بن جریر طبری ( م ٣١٠ھ ) کی مشہور زمانہ تفسیر ”جامع البیان ” کے فارسی ترجمہ سے ہوئی ہے اور اس کا اختتام چودہویں صدی ہجری تک کے اہم ایرانی مفسرین پر مبنی ہوگا ۔
زیرِ تبصرہ کتاب اس سلسلے کی تیسری جلد ہے ۔ اس جلد میں جن فارسی تفاسیر سے متعلق اپنے حاصلِ مطالعہ کو مصنف نے پیش کیا ہے ، وہ حسبِ ذیل ہے: کو پڑھنا جاری رکھیں

سوانح شیخ الحدیث مو لانا محمد علی جانباز


جریدہ “الواقۃ” کراچی، شمارہ8 ، 9  محرم، صفر 1433ھ/  نومبر ، دسمبر 2012
تبصرہ کتب 8،9

سوانح شیخ الحدیث مو لانا محمد علی جانباز

از: قاری عبدالرحمن صاحب مہتم جامعہ رحمانیہ
مرتبین : مو لانا عبدالحنان جانباز،  ملک عبدالرشید عراقی اور عبدالعزیز سوہدروی

مبصر: محمد یاسین شاد عفی عنہ

 
محترم قاری عبدالرحمن صاحب مہتم جامعہ رحمانیہ ناصر روڈ سیالکوٹ ہمارے شکریے کے مستحق ہیں کہ انہوں نے ٩١٢ صفحات پر مشتمل ضخیم سوانح شیخ الحدیث مو لانا محمد علی جانباز  متوفی ١٤ذالحجہ ١٤٢٩ھ بمطابق ١٣دسمبر ٢٠٠٨ء شائع کی اس کے مرتبین مو لانا عبدالحنان جانباز ملک عبدالرشید عراقی اور عبدالعزیز سوہدروی ہیں ۔
 
قاری صاحب ناشر سوانح اس سال ١٤٣٣ھ  ١٢٠١٢ کو فریضہ حج کی ادائیگی کی سعادت حاصل کر چکے ہیں قرآن مجید میں ہے :

( یَرْفَعِ اللّٰھُ ا  لَّذِیْنَ آمَنُوا مِنکُمْ وَ الَّذِیْنَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ )(المجادلة:١١)

ترجمہ :” اللہ تعالیٰ تم میں سے ان لوگوں کے جو ایمان لائے ہیں اور جو علم دیے گئے ہیں درجے بلند کر دے گا ۔”

اسماء الحسنیٰ اور قرآنی سورات و آیات کے فضائل


تبصرہ کتب 7

اسماء الحسنیٰ اور قرآنی سورات و آیات کے فضائل

مؤلف :محمد صدیق صدیقی

قیمت : مؤلف اور اس کے متعلقین و مرحومین کے لیے دعائے مغفرت
تاریخ طباعت:رمضان المبارک ١٤٣٣ھ
مطبع: قریشی آرٹ پریس، ناطم آباد نمبر 2

مبصر: ابو عمار سلیم

اسماء الحسنیٰ اور قرانی سورات اور آیات کے فضائل یا عرف عام میں ” اسمائے حسنیٰ ”  جو کہ کتاب کے سرورق پر درج ہے ، جناب محمد صدیق صدیقی صاحب کی تیسری کاوش ہے جو منظر عام پر آئی ہے۔ اس سے قبل آپ کی پہلی کتاب  ” آئیے نمازادا کریں ” اور پھردوسری کوشش ” آئیے قیامت کے احوال سے عبرت حاصل کریں ” منظر عام پر آچکی ہیں۔ جناب صدیقی صاحب کی پیش نظر کتاب پر کچھ کہنے سے پہلے یہ بتانا انتہائی ضروری ہے کہ آپ کسی مذہبی درسگاہ کے فارغ التحصیل نہیں ہیں بلکہ پیشے کے لحاظ سے ایک انجینئر ہیں اور پاکستان اور غیر ممالک میں کئی بیش قیمت اور قابل قدر پراجیکٹ پر کام کر چکے ہیں۔

گو کہ آپ کو ہمیشہ سے مطالعہ  اور تصنیف و تالیف سے شغف رہا ہے مگر نوکری سے فراغت کے بعد آپ نے اپنے آپ کو دین کی خدمت کی طرف بڑی شدومد سے راغب کرلیاہے۔ آپ کے دل میں امت محمدی علیٰ صاحب سلام و تسلیم کی بھلائی کا جذبہ موجزن ہے ۔ امت مرحومہ کی بھلائی اور مسلمانوں کے اعمال کی درستگی اور آخرت کی تیاری کے سلسلہ میں کافی تشویش میں مبتلا رہتے ہیں اور خلوص دل سے چاہتے ہیں کہ عام مسلمان اپنے اعمال درست کرلیں اور اپنے عقائد اور عبادات کے اہم اور ناگزیر گوشوں سے اچھی طرح واقفیت حاصل کریں تاکہ اس کی محنت قابل قبول ہو اور وہ اللہ کی نظروں میں مخلص و موحد اور اطاعت گزار بن جائے اور اس کی عاقبت سنور جائے۔ اس سلسلہ میں آپ کافی تحقیق کرتے ہیں اور پھر اپنی کاوشوں کو اپنی جمع پونجی لگا کر طبع کرواتے ہیں اور فی سبیل اللہ تقسیم کرتے ہیں۔ان کی یہ سوچ اور ان کی تمام محنت یقینا قابل ستائش ہے اور ہماری دعا ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ ان کی ان کوششوں کو نہ صرف یہ کہ قبول کریں بلکہ ان کتابوں کو پڑھنے والوں کے لیے سود مند کردیں بلکہ خودان کے لیے توشئہ آخرت بنا دیں ۔ آمین ثم آمین۔

 

 

 

 

اسمائے رب ذوالجلال و الاکرام کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ پوری اسلامی تاریخ میں کئی ایک احباب علم و فضل نے ان کی طرف خصوصی توجہ کی ہے اور ان اسمائے مبارک کے فیوض و برکات سے عامۃ المسلمین کو آگاہ کیا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ  ایک عام مسلمان کے لیے اللہ جل جلالہ کے ننانوے نام اور ان کی صفات سے متعلق کوئی اشتباہ ہے اور نہ ہی کوئی اشکال۔ کسی کو اللہ کے تمام کے تمام بابرکت اسماء یاد ہونگے اور کسی کو چند ایک کے علاوہ زیادہ سے واقفیت نہیں ہوگی مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ ہر مسلمان قرآنی حکم کے مطابق اللہ باری تعالیٰ کے حضور میں اپنی تمام التجائیں ان ہی مبارک اور با برکت اسماء کے ذریعہ سے ہی درخواست گذار ہوتا ہے۔ ان مبارک ناموں کی فضیلت اور ان کے برکات ہی ہیں کہ اللہ نے اعلان کیا کہ تمام اچھے نام اسی کے ہیں اور اللہ کو اس کے ناموں کے ساتھ پکارو۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنے ناموں کا تذکرہ قرآن مجید میں بھی کیا ہے اور پھر ان کی تعلیم سید المرسلین خاتم النبین علیٰ صاحب سلام و التسلیم نے بھی فرمائی ہے۔ بزرگوں نے ان تمام ناموں کو اکٹھا بھی کیا ہے اور ان مختلف فضائل اور ان کے ورد کی مختلف شکلیں اور ان کے فیوض و برکات بھی درج کر دی ہیں۔اللہ رب العزت کے ان صفاتی ناموںکو بزرگوں نے یکجا بھی کیا ہے اور ان پر مختلف انداز سے بحث بھی کی ہے۔ مگر زیر نظر کتاب آج کے دور کی کتاب ہے جس کا اسلوب تحریر تحقیق اور ریسرچ پر منحصر ہے۔ اللہ جل شانہ کے اسماء پر صرف طائرانہ نظر نہیں ڈالی گئی ہے بلکہ کمال خلوص اور انتہائی لگن کے ساتھ ان اسماء کی مختلف شکلوں کو بھی  کھنگالا گیا ہے۔ قرآن مجید میں کون سے اسماء کس انداز میں اللہ نے بیان کیے ہیں۔ کون سا بابرکت نام کن سورتوں میں اور کن آیات میں کتنی بار آیا ہے۔ ہر ایک اسم باری تعالیٰ کو الگ الگ بیان کیا گیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ان کے معانی ، ان کی خصوصیات کے ساتھ ان کے ورد کرنے کے روحانی اور جسمانی فوائد بھی درج کر دئیے گئے ہیں ۔ اور ان تمام اوراد و وظائف کے حوالے بھی لکھ دئیے گئے ہیں تاکہ کسی اشکال کی صورت میں ان کی طرف رجوع کیا جاسکے۔  میرے نزدیک یہ عمل ہی مولف کی نیک نیتی کی ضمانت ہے کیونکہ وہ خود اس میدان کے آدمی نہیں ہیں اور ان کے علم کی کل اساس مطالعہ پر مبنی ہے۔یہ کام صدیق صدیقی صاحب نے بڑی عرق ریزی سے کیا ہے اور یقینی طور پر ان کا یہ کام نہ صرف یہ کہ عام قاری کو پسند آئے گا بلکہ خصوصی طور پر ریسرچ اور تحقیق کرنے والوں کے لے بھی ایک اچھا مآ خذ بن جائے گا۔

 

دورِ فتن


تبصرہ  کتب 4
دورِ فتن
مؤلف :عبد اللہ اسلام
 
تعداد صفحات : ٩٦
قیمت : (غیر مجلد )٥٠ رُپے
شائع کردہ : محمد جاوید اقبال۔ ڈی ۔١٠ ، کریم پلازہ ،  گلشن اقبال کراچی۔ ٧٥٣٠٠
محل فروخت : فضلی بک اردو بازار کراچی ، مکتبہ دار الاحسن یٰسین آباد کراچی ، اکیڈمی بک سینٹر فیڈرل بی ایریا کراچی۔
 
جناب اسرار عالم صاحب ہندوستان کے ایک مفکر اور عالم ہیں۔ آپ نے امت مسلمہ کو دجال کے دجل اور فریب سے متعارف کرنے کے لیے بڑی تگ و دو کی ہے۔ یہود کی ریشہ دوانیوں کو سمجھنے اور ان کے ذ ہنی اور فکری دھارے کا براہ راست علم حاصل کرنے کے لیے عبرانی زبان میں بھی نہ صرف یہ کہ مہارت حاصل کی بلکہ ان کے بے شمارمضامین کتابیں اور علمی مآخذ تک رسائی حاصل کر کے انہیں سمجھا اور ان کا تجزیہ کیا۔

ان کی ان علمی کاوشوں کا نتیجہ دجال کے موضوع پر مختلف النوع کتابوں اور مضامین کی صورت میں آج ہمارے پاس موجود ہے۔ ان کتابوں کے مطالعہ سے ہمیں آج کے دور میں ظاہر ہونے والے فتنوں کو سمجھنے اور ان سے متعلق منسوب احادیث مبارک کو ان کے صحیح تناظر میں جانچنے کی صلاحیت ملتی ہے اور ان سے بچائو کے لیے مناسب طرز عمل اختیار کرنے کی راہ بھی دکھائی دیتی ہے۔یہود کے فتنے کو اس طرح طشت از بام آج سے پہلے کبھی بھی نہیں کیا جاسکا ہے اور امت محمدی علیٰ صاحب السلام و التسلیم کے پاس صہیونی فتنوں کے سد باب اوراس سے نمٹنے کے لیے اب سے قبل ایسا واضح پروگرام نہیں تھا۔ اب یہ امت کا کام ہے کہ وہ ہمت سے کام لے اور ان سازشوں کے خلاف ڈٹ جائے تاکہ آخرت میں سرخرو ہونے کا شرف حاصل ہوجائے۔
 
معرکہ دجال اکبر ( تکفیر ، تدبیر اور تعمیل) جناب اسرار عالم صاحب کی ایک اہم کتاب ہے جو امت محمدی کو خواب غفلت سے بیدار کرنے کے لیے لکھی گئی ہے۔ یہ کتاب بذات خود ایک ضخیم کتاب ہے اور اسرار عالم صاحب کے ذہنی سطح کی ترجمانی کرتی ہے اس لیے ایک عام قاری کے لیے جس کے پاس نہ تو اتنا وقت ہے اور نہ ہی اس کی علمی قابلیت اتنی زیادہ ہے کہ وہ ان دقیق معاملات کو پڑھ کر اس کا درست اندازہ کرسکے۔ اس کتاب کو عام فہم انداز میں بیان کرنے اور اس کی قرات کے وقت کو کم کرنے کی خاطر اس کی تلخیص انتہائی ضروری تھی۔ اسی مقصد کو مد نظر رکھ کر جناب عبداللہ اسلام صاحب نے اس مشکل کام میں اپنا ہاتھ ڈالا اور اس ضخیم کتاب کی تلخیص کی۔ اس کو مزید فعال اور اس کی دلیلوں کو مضبوط کرنے کی خاطر ان تمام احادیث کو ڈھونڈھ کر اس میں شامل کرتے گئے جس سے نہ صرف یہ کہ اس کی افادیت میں اضافہ ہوگیا بلکہ اس پورے کام میں گویاچار چاند لگا دئے۔ اس چھوٹے سے کتابچہ کو پڑھنے کے لیے بہت زیادہ وقت کی ضرورت ہے اور نہ اس کو سمجھنے کے لیے بڑی حکمت اور دانائی درکار ہے۔ سیدھی سچی بات انتہائی دلچسپ پیرایہ میں صاف ستھرے انداز میں لکھ دی ہے جس کے لیے جناب عبد اللہ اسلام صاحب مدح اور ستائش کے لائق ہیں۔ اللہ کی عطا کی ہوئی توفیق کو انہوں نے انتہائی چابک دستی سے استعمال کرتے ہوئے سوئی ہوئی امت مرحومہ کو خواب غفلت سے نکالنے کی کوشش کی ہے۔ اللہ اسرار صاحب کو صہیونی سازشوں کو سمجھنے اور اس کا پردہ چاک کردینے کی کوششوں پر انہیں جزائے خیر عطا کریں اور اس کے ساتھ ہی اس کتابچہ کے مؤلف پر بھی اپنی نعمتوں اور رحمتوں کی بارش کردیں اور آخرت میں ان کی عزت اور سر بلندی کا ذریعہ بنائیں ۔ آمین ثم آمین
 
ابو عمار سلیم

جنگوں کے سوداگر


تبصرہ کتب ٢ 

جنگوں کے سوداگر

از: مسعود انور

معراج ایڈورٹائزرز ، 107-k ، بلاک ٢ ، سنگم شاہراہِ قائدین و خالد بن ولید روڈ ، پی ای سی ایچ ایس ، کراچی 021-34555764

مسعود انور پیشے کے اعتبار سے صحافی ہیں ۔ زیر تبصرہ کتاب ان کی پہلی کتاب ہے ۔ جسے صحافت اور تحقیق کا امتزاج قرار دیا جاسکتا ہے ۔ انہوں نے تحقیق کا فریضہ ذمہ داری سے انجام دیا ہے اور صحافتی ذمہ داری انجام دیتے ہوئے مختصر لیکن کام کی بات ذکر کی ہے ۔ تاریخ کا گہرا مطالع کرکے انہوں نے اس بحرِ ذخّار سے گہر آبدار نکالا ہے ۔

ہمارے یہاں تاریخ سے سبق لینے کی روایت نہیں رہی ۔ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اپنی غلطیوں کو دہراتے چلے جا رہے ہیں جنہیں ہم صدیوں پہلے انجام دے چکے ہیں ۔ مولف نے تاریخ کو سرسری انداز میں پیش نہیں کیا ہے بلکہ وسیع مطالعے کے بعد اس کے گمشدہ پہلوئوں کو بے نقاب کیا ہے اور اس سے نتائج اخذ کیے ہیں ۔ خوشی کی بات ہے کہ مولف نے حقیقت نگاری کی ہے ۔ تاریخ کے اہم ترین انقلابات کے پس پردہ حقائق کو جیسا دریافت کیا ویسا ہی بیان بھی کردیا ۔ انقلاب برطانیہ ، انقلاب فرانس ، امریکی انقلاب ، روسی انقلاب ، سلطنتِ عثمانیہکا خاتمہ اور ہسپانوی انقلاب کی اصل حقیقت بیان کی ہے ۔ مولف نے بیان حقیقت کے لیے کسی مصلحت پسندی کو عذر نہیں بنایا ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی بہت سی باتیں انکشافات محسوس ہوں گی ۔ مثال کے طور پر
جمال الدین افغانی سے متعلق جو ناقابلِ تردید حقائق اب منظرِ شہود پر آ رہے ہیں ان سے مولف کی تائید ہوتی ہے ۔

مولف نے عالمی جنگوں اور ان کے اسباب پر بھی روشنی ڈالی ہے اور انہیں تیسری عالمی جنگ کے خطرے کا بھی پورا ادراک ہے ۔ دنیا میں جو اس وقت مالیاتی سازش اپنے عروج پر ہے کتاب میں اس پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے ۔

تمام تر خوبیوں کے باوصف کتاب میں حوالوں کی عدم موجودگی نے کتاب کے استنادی معیار کو سخت مجروح کیا ہے ۔ صحافت اور تحقیق کے تقاضے مختلف ہیں ۔ یہ کتاب ایک انتہائی اہم اور سنجیدہ موضوع پر لکھی گئی ہے ، اس میں حوالوں کا خصوصی اہتمام ہونا چاہیئے تھا ۔ گو یہ درست ہے کہ مولف نے جو نکات پیش کیے ہیں ان کی تائید دیگر تحریری حوالوں سے ہوجاتی ہے لیکن حوالوں کا اہتمام کتاب کو مزید اعتبار عطا کرتا ۔
کتاب ایک انتہائی اہم موضوع پر قابلِ قدر کاوش ہے ۔ اس کا مطالعہ ہر اعتبار سے مفید رہے گا اور چشم کشا ثابت ہوگا ۔
ابو محمد معتصم باللہ