پروفیسر ہارون الرشید


الواقعۃ شمارہ: 119 – 122، ربیع الثانی تا رجب المرجب 1443ھ

از قلم : محمد تنزیل الصدیقی الحسینی

بالآخر ’’زندگی نامہ‘‘ کے مولف کی زندگی کا آخری باب اپنی تکمیل کو پہنچا۔ اردو زبان کے مشہور ادیب و نقاد پروفیسر ہارون الرشید 26 جنوری کو سفر آخرت پر روانہ ہو گئے۔ وہ دو ہجرتوں کے حامل دبستان مشرق کی نوا تھے؛ ان کی وفات سے دبستانِ مشرق کا ایک عہد اپنے اختتام کو پہنچا اور امید نہیں کہ کسی نئے عہد کا آغاز ہو سکے۔

پروفیسر ہارون الرشید لالہ بگان، مانک تلہ، کلکتہ میں 3 جولائی 1937ء کو پیدا ہوئے۔ ان کے دادا غازی پور (یوپی) سے اور پر نانا آرہ (بہار) سے کلکتہ آ بسے تھے۔ وہ بچپن ہی سے مذہب کی طرف شدید قلبی رجحان رکھتے تھے۔ سات برس کی عمر سے ہی مسجد میں پنج گانہ نمازیں ادا کرنے لگے تھے جب کہ اس کی نہ انھیں ہدایت کی گئی تھی اور نہ ہی تاکید۔ مذہب سے ان کا تعلق ہمیشہ برقرار اور مستحکم رہا گو وقت کے ساتھ ساتھ ان کے خیالات میں تبدیلی بھی آئی اور قلبِ ماہیت بھی ہوا۔

تقسیم ہند کے وقت ہندوستان کے مختلف خطوں میں مسلم کش فسادات ہوئے؛ لیکن کلکتہ محفوظ رہا۔ اس وقت ان کے خاندان نے فیصلہ کیا کہ وہ وہیں کلکتہ میں  رہیں گے؛ لیکن 1950ء میں کلکتہ میں ہونے والے مسلم کش خونی فسادات نے خاندان کے سربراہ کو اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنے پر مجبور کر دیا۔ چناں چہ اب کسی لیت و لعل کے بغیر ہجرت کا قطعی فیصلہ کر لیا گیا۔ مئی 1950ء کے آخری ہفتے میں پروفیسر صاحب نے اپنے خاندان کے ہمراہ کلکتہ کو الوداع کہا اور پہلے چاٹ گام اور پھر ڈھاکہ چلے آئے۔ چاٹ گام میں ابتدائی قیام کی مدت صرف ایک ماہ تھی۔

ڈھاکہ میں پروفیسر صاحب کی زندگی کا نیا دور شروع ہوا۔ یہیں تعلیم کی تکمیل بھی ہوئی، اور تدریس کا آغاز بھی۔ ادبی ذوق کو جِلا بھی ملی اور تصنیف و تالیف کے لیے قلم کی جنبش بھی ہوئی۔

ڈھاکہ یونی ورسٹی کے شعبہ اردو و فارسی سے انھوں نے اردو میں ایم اے کیا۔ ان کی خواہش تھی کہ وہ پی ایچ ڈی کر لیں۔ اس کے لیے انھوں نے اپنے تئیں پوری کوشش بھی کی مگر اساتذہ کی عدم توجہی کی وجہ سے ان کی پی ایچ ڈی باوجود سعی کے اپنے انجام کو نہ پہنچ سکی۔

ڈھاکہ آ کر زندگی ابھی سنبھلی ہی تھی کہ پھر مشرقی پاکستان سے بنگلہ دیش بننے کی تحریک شروع ہو گئی۔ مشرقی پاکستان میں رہنے والے غیر بنگالیوں کے لیے آہ و فغاں کی ایک نئی راہ منتظر تھی۔ پروفیسر صاحب باوجود یہ کہ کالج میں لیکچرار تھے مگر پھر بھی قید و بند کی صعوبتوں سے گزرے۔

۔1968ء میں پروفیسر صاحب کی پہلی تصنیف ’’اردو ادب اور اسلام‘‘ کی جلد اوّل منصہ شہود پر آئی۔ یہ کتاب اس لائق تھی کہ اس پر پی ایچ ڈی کی ڈگری مرحمت فرمائی جائے مگر پروفیسر صاحب کے نصیب میں یہ ڈگری نہیں تھی؛ اور پروفیسر صاحب کو اس کا ملال بھی نہیں رہا تھا۔ کتاب کی دوسری جلد 1970ء میں طبع ہوئی۔ حصہ نثر و نظم پرمنقسم؛ ان دونوں جلدوں سے پروفیسر صاحب کی ناقدانہ صلاحیتوں کا اظہار ہوتا ہے۔

پروفیسر صاحب کا قلمی سفر شروع ہو چکا تھا۔ ان کی تحریر کی بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ اپنی بات بڑے سلیقے سے پیش کرتے اور کتاب کے فنی لوازمات کا پورا اہتمام کرتے ہیں۔ ان کی تمام کتابیں تصنیفی اسلوب و تقاضوں کے مطابق لکھی گئی ہیں۔

طبیعتاً وہ ایک مذہبی آدمی تھے۔ ان کے اپنے مذہبی نظریات بھی تھے؛ لیکن اس سے کہیں بڑھ کر عافیت پسند تھے۔ مباحثات و مجادلات سے انھیں قطعاً دل چسپی نہیں تھی۔ وہ اپنے مذہبی خیالات کسی پر مسلط کرنے کے قائل نہیں تھے۔

ان کا اصل میدان ادب تھا؛ اور اسی میدان میں  ان کی طبیعت کا رجحان نمایاں ہوتا ہے۔ انھوں نے اپنی پوری زندگی اسلامی ادب کے فروغ کے لیے وقف کر دی؛ لیکن ادبی دنیا میں ان کی اسلام پسندی ہی ان کا سب سے بڑا جرم بن گئی۔ انھوں نے مسلسل تحقیقی و تنقیدی ادب میں کام کیا۔ مگر انھیں نظر انداز کیا جاتا رہا۔ چوں کہ مذہبی ذہن رکھتے تھے اور ادب کو اسی تناظر میں دیکھتے تھے اس لیے سیکولر مزاج، آزاد خیال بزرجمہروں کے نزدیک یہ ان کا نا قابل معافی جرم تھا۔ ان کے ادبی کام کی وہ قدر نہیں ہوئی جو ہونی چاہیے تھی۔ مذہبی طبقے نے بھی ان کے بعض خیالات سے اختلاف کی بنا پر انھیں لائقِ اعتنا نہیں سمجھا۔

پروفیسر صاحب کا ایک بڑا کارنامہ ’’دبستانِ مشرق‘‘ کی تاریخ کو جریدہ عالم پر ثبت کرنا ہے۔ تقسیم ہند کے بعد مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) میں  اردو زبان و ادب کے کئی اساطین ڈھاکہ، چٹا گانگ، سلہٹ وغیرہا میں آ بسے تھے۔ ان علم و ادب کے پروانوں نے اردو شعر و ادب کی خدمت انجام دی۔ ان میں کئی بڑے نام بھی ہیں۔ مگر افسوس بیشتر کے حالات اور کارناموں پر پردہ خفا کی دبیز چادر چڑھ گئی تھی پروفیسر صاحب نے اس گرد کو صاف کیا اور ان کی خدمات کو نمایاں۔ اس ضمن میں تین کتابیں لکھیں: ’’محفل جو اجڑ گئی‘‘ (2002ء)، ’’دو ہجرتوں کے اہل قلم‘‘ (2012ء) اور ’’نوائے مشرق‘‘ (2013ء)۔ یہ تینوں کتابیں علمی اعتبار سے سند کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ان کتابوں میں پروفیسر صاحب کی حیثیت ایک معاصر تذکرہ نگار کی ہے، جس سے ان کتابوں کی قدر و قیمت کافی بڑھ جاتی ہے۔

پروفیسر صاحب کی دیگر اہم علمی و ادبی کتابوں میں ’’سرگزشتِ آصف‘‘ (1983ء)، ’’نیازؔ فتح پوری کے مذہبی افکار‘‘ (2005ء)، ’’اردو کا دینی ادب‘‘ (2006ء)، ’’اردو کا جدید نثری ادب‘‘ (2009ء)، ’’جدید اردو شاعری‘‘ (2010ء)، ، ’’منقبت صحابہ کرام‘‘ (2010ء)، ’’اردو کا قدیم ادب‘‘ (2011ء)، ’’غلام احمد پرویز کے افکار‘‘ (2014ء)، ’’اسلامی ادب‘‘ (2017ء) وغیرہا شامل ہیں۔

پروفیسر صاحب نے اپنی خود نوشت، ’’زندگی نامہ‘‘ کے عنوان سے لکھی، جو 2015ء میں منظر شہود پر آئی۔ جس سچائی کے ساتھ پروفیسر صاحب نے اپنی داستانِ حیات بیان کی ہے وہ لائق ستائش بھی ہے اور حیرت انگیز بھی۔

بدو شعور کے آغاز ہی سے پروفیسر صاحب سے غائبانہ شناسائی ہو گئی تھی۔ والد صاحب کی تربیت نے بچپن ہی سے کتابوں سے رغبت پیدا کر دی تھی۔ نہایت کم عمری ہی سے کتابیں پڑھنے کا شوق دامن گیر رہا۔ والد مرحوم کی رہ نمائی نے نہ صرف پڑھنے کا شوق پروان چڑھایا بل کہ ذوق و معیار کی تعمیر میں بھی حصہ لیا۔ 12 / 13 برس کی عمر ہوگی کہ پروفیسر صاحب کی کتاب ’’اردو ادب اور اسلام‘‘ حاصل ہوئی۔ کتاب کا اسلوب تصنیف ایسا دل نشیں تھا کہ بڑے ذوق و شوق سے پڑھا۔ اس کتاب نے میرے ادبی ذوق کو نکھارا اور مجھ پر اسلامی ادب کی قدر و منزلت آشکار کی۔

پروفیسر صاحب سے غائبانہ تعلق جس قدر جلد استوار ہوا؛ براہ راست تعلق کی استواری میں اسی قدر تاخیر ہوئی۔ میرے اور ان کے مابین معنوی تعلق کی مدت تقریباً تین برس رہی ہوگی؛ گو تعلق کا دورانیہ طویل نہیں لیکن روابط کے عمق نے جلد ہی اس تاخیر کی تلافی کر دی۔

وہ پیرانہ سال تھے۔ ضعیفی نے ان کے چہرے اور جسم پر اپنے نقوش ثبت کر دیے تھے مگر عالی ہمت تھے۔ آخر وقت تک قلم و قرطاس سے ان کا تعلق برقرار رہا۔ وفات سے صرف تین دن قبل ہی ان سے ملاقات ہوئی۔ اس آخری ملاقات میں پروفیسر صاحب نے کمالِ شفقت کا اظہار فرماتے ہوئے مجھے اپنی تمام کتابوں کی طباعت کی اجازت بھی دے دی تھی۔ اس وقت وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ یہ آخری ملاقات ہوگی اور کتنی ہی باتیں اَن کہی رہ گئیں۔


وہ سالہا سال سے اپنے گھر پر اہل علم و فضل کی اتواری نشست کے میزبان تھے۔ اس میزبانی میں ان کے فرزند جناب زاہد رشید بھی ان کے شریک تھے۔ افسوس اہل علم کی جو بزم انھوں نے سجائی تھی وہ محفل بھی ان کی وفات کے بعد اجڑ گئی۔ دعا ہے کہ اللہ رب العزت انھیں شاخ طوبیٰ کی گھنی چھائوں عطا کرے اور اس دنیا کی محفل سے کہیں بہتر محفل انھیں نصیب ہو۔ آمین

جنھیں جُرمِ عشق پہ ناز تھا …………۔


ڈاکٹر عبد القدیر خان – ملت اسلامیہ کا عظیم محسن

الواقعۃ شمارہ: 119 – 122، ربیع الثانی تا رجب المرجب 1443ھ

از قلم : محمد تنزیل الصدیقی الحسینی

بالآخر 10 اکتوبر 2021ء کو یہ خبر وحشت اثر اہلِ پاکستان کے سامعہ خراش ہوئی کہ محسن پاکستان جناب ڈاکٹر عبد القدیر حقِ رحمت سے جا ملے۔

یکم اپریل 1936ء کو ہندوستان کے شہر بھوپال میں پیدا ہونے والے ڈاکٹر عبد القدیر موجودہ اسلامی دنیا کے عظیم ترین سائنس دان تھے؛ جنھوں نے اپنی فنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر مسلم امہ کو بالعموم اور مملکت پاکستان کے دفاع کو بالخصوص نا قابلِ تسخیر بناتے ہوئے ایٹم بم بنایا۔ ملت اسلامیہ کے اس عظیم محسن کا یہ قابل فخر کارنامہ خود ان کی زندگی کی سب سے بڑی آزمائش بن گیا وہ مغرب اور مغرب کے پروردہ لوگوں کی نظروں میں ہمیشہ خار بن کر کھٹکتے رہے۔

ان کی پوری زندگی پاکستان کے لیے تھی۔ انھوں نے اپنے ذاتی عیش و آرام کو تج کر خود کو پاکستان کے لیے وقف کر دیا تھا۔ ایک مخصوص و محدود طبقے کو ان کا اخلاص پسند نہیں مگر ہر محبِّ وطن پاکستانی انھیں اپنا محسن سمجھتا ہے۔

بتان شہر کو یہ اعتراف ہو کہ نہ ہو
زبان عشق کی سب گفتگو سمجھتے ہیں

پاکستان کے لیے ان کی عملی کاوشوں کا آغاز 31 مئی 1976ء سے ہوا جب اس وقت کے وزیر اعظم پاکستان ذو الفقار علی بھٹو نے انھیں "انجینئرنگ ریسرچ لیبارٹریز” کے پاکستانی ایٹمی پروگرام میں حصہ لینے کی دعوت دی۔ اسلام اور پاکستان کی خاطر ڈاکٹر خان اپنی پُر تعیش زندگی کو چھوڑ کر پاکستان چلے آئے اور پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے لیے اپنی زندگی وقف کر دی۔ ان کی خدمت کے اعتراف میں اس ادارے کا نام صدر پاکستان جنرل محمد ضیاء الحق نے یکم مئی 1981ء کو تبدیل کر کے ’ ڈاکٹر اے کیو خان ریسرچ لیبارٹریز‘ رکھ دیا۔ یہ ادارہ پاکستان میں یورینیم کی افزودگی میں نمایاں مقام رکھتا ہے۔

ڈاکٹر عبد القدیر خان کی کامیابیوں کے در کھلے تو ان کی دشمنوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا۔ ہالینڈ کی حکومت نے ان پر اہم ایٹمی راز چرانے کا الزام عائد کیا۔ ان پر مقدمہ چلایا گیا؛ ڈاکٹر خان با عزت بری ہوئے کیوں کہ جن معلومات کو چرانے کی بنا پر مقدمہ قائم کیا گیا تھا وہ عام کتابوں میں پہلے سے ہی موجود تھیں۔

ڈاکٹر خان نے محض آٹھ سال کے انتہائی قلیل عرصہ میں اللہ رب العزت کی مدد سے ایٹمی پلانٹ نصب کر کے دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔

۔28 مئی 1998ء کو بھارتی ایٹمی تجربوں کے بعد پاکستان نے ڈاکٹر خان کے تیار کردہ ایٹم بم کا چاغی کے مقام پر چھے کامیاب تجرباتی ایٹمی دھماکہ کیا۔ اس طرح نہ صرف بھارت بل کہ پاکستان کے تمام دشمن ممالک کو دفاعِ پاکستان کے مضبوط و محفوظ ہونے کا احساس دلایا۔

ڈاکٹر عبد القدیر خان کے ایٹمی دھماکے نے پاکستان کو مسلم امہ کا ہیرو بنا دیا۔ مغربی دنیا نے اپنے سازشی نظریے کے تحت پاکستانی ایٹم بم کو اسلامی بم کا نام دیا۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ رب العزت اسے قرار واقعی اسلامی بم بنائے جو سرکشوں اور نا ہنجاروں کی دنیا ویران کر دے۔

ڈاکٹر خان نے اسلام اور پاکستان کے لیے جو کچھ کیا وہ ایسا نہیں تھا کہ جسے عالم کفر و ضلالت نظر انداز کر سکتا۔ ان کے گرد گھیرا تنگ کیا جانے لگا۔ پرویز مشرف دور حکومت میں پاکستان پر لگنے والے ایٹمی مواد دوسرے ممالک کو فراہم کرنے کے الزام کو ڈاکٹر عبد القدیر نے ملک کی خاطر اپنے سر لیا اور اس کے بعد محسن پاکستان پابندی اور نظر بندی کی زندگی کا شکار رہے۔

ڈاکٹر عبد القدیر لکھنے پڑھنے کا بھی خاص ذوق رکھتے تھے۔ ادب سے بھی انھیں دل چسپی تھی۔ انھوں نے ایک سو پچاس سے زائد سائنسی تحقیقاتی مضامین بھی لکھے ہیں معاشرتی و سماجی مسائل پر کالم بھی۔ مجلہ "الواقعہ” کے بھی ڈاکٹر صاحب قاری رہے ہیں اور مجلہ ان کی خدمت میں گاہے گاہے پیش کیا جاتا تھا۔ افسوس ملک و ملت کے اس عظیم محسن سے میری براہ راست ملاقات نہ ہوسکی۔

ڈاکٹر عبد القدیر کو پاکستان کے کئی اہم سرکاری و غیر سرکاری اعزازات حاصل ہیں۔ تاہم ہماری نظر میں یہ تمام اعزازات ان کی خدمات کے سامنے بہت چھوٹے ہیں۔ دراصل یہ ان اعزاز کا اعزاز ہے کہ وہ ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں پیش کیے گئے۔ اللہ رب العزت کی رحمتِ بے پایاں سے ہمیں امیدِ قوی ہے کہ ان کا صحیح اعزاز اللہ کے دربار ہی میں ہوگا۔

ڈاکٹر صاحب کے سینے میں جو دل تھا وہ مدینہ والے کی محبت سے سرشار اور اس کی امت کا غم خوار تھا مگر افسوس ان کی زندگی کوفہ کے ستم ظریفوں کے ساتھ گزری۔ خود فرماتے ہیں:-۔

گُزر تو خیر گئی ہے تیری حیات قدیرؔ
ستم ظریف مگر کوفیوں میں گزری ہے

ڈاکٹر صاحب نے اپنے اوپر عائد پابندیوں کے خلاف عدالتِ عظمیٰ میں ایک درخواست پیش کی تھی۔ اب ان کی وفات کے بعد اس درخواست کی سماعت زیر غور ہے؛ جب کہ ڈاکٹر صاحب ہر قسم کی پابندیوں  سے آزاد ہو چکے ہیں اور اپنے رب کے حضور پیش ہو گئے ہیں جہاں دنیا کی کسی عدالت کا کوئی قانون ان پر لاگو نہیں ہو سکتا۔

قوم کے لیے اپنی پوری زندگی وقف کرنے اور اسلام و پاکستان کے دشمنوں کے دل میں خار بن کر کھٹکنے والا نہ رہا؛ بقول فیضؔ:-۔

نہ رہا جنون رخ وفا یہ رسن یہ دار کرو گے کیا
جنھیں جرم عشق پہ ناز تھا وہ گناہ گار چلے گئے