ملک میں جاری معاشی دہشت گردی


الواقعۃ شمارہ 48 – 49 جمادی الاول و جمادی الثانی 1437ھ

از قلم : ابو محمد معتصم باللہ

 پاکستان حالت جنگ میں ہے، دہشت گردی کے خلاف آپریشن ضرب عضب اپنے عروج پر ہے ، جس کے الحمد للہ مثبت نتائج بر آمد ہوئے ہیں۔ کراچی جہاں ٹارگٹ کلنگ اپنے عروج پر تھی اب انتہائی پُر امن حالات سے گزر رہا ہے۔ لوگ خوف و دہشت کی فضا سے باہر آ رہے ہیں۔ اس آپریشن کے نتیجے میں ایک غیر معمولی کامیابی بھارتی را ایجنٹ کی گرفتاری ہے ، اللہ کرے اس گرفتاری کے مملکت پاک پر مثبت دور رَس اثرات پڑیں۔ ہمیں اپنے دوستوں اور دشمنوں کو پہچاننے کی توفیق ملے اور بیرونی کے ساتھ ساتھ اندرونی دشمنوں کا بھی سختی سے مؤاخذہ و محاسبہ کیا جا سکے۔ کو پڑھنا جاری رکھیں

احکام قضاء سے متعلق حضرت عمر کا ایک مکتوب


الواقعۃ شمارہ 44 – 45 محرم و صفر 1437ھ

اشاعت خاص : سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ

از قلم : ابو محمد معتصم باللہ

مکتوب گرامی حسب ذیل ہے :احکام قضاء سے متعلق حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ایک بیش قیمت مکتوب گرامی ملتا ہے جو انہوں نے سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو لکھا تھا جب وہ بصرہ کے گورنر تھے۔ گو اس مکتوب کی اسناد ضعیف ہیں مگر اس روایت کے شواہد اور متابعات ملتے ہیں۔ احکام قضاء سے متعلق اس کے متن سے قضاۃ استفادہ کرتے ہیں مشہور مؤرخ و قاضی امام ابن خلدون نے بھی اپنے مقدمہ میں اسے درج کیا  ہے۔ امام دارقطنی نے اپنی سنن میں اور امام بیہقی نے ” معرفۃ السنن و الآثار ” میں اسے روایت کیا ہے۔

کو پڑھنا جاری رکھیں

تبصرہ کتب


10 tabsara kutub تیتلع

کو پڑھنا جاری رکھیں

جمہوریہ وسطی افریقہ میں مسلمانوں کی نسل کشی


ربیع الاول و ربیع الثانی 1435ھ جنوری، فروری 2014، شمارہ 22 اور 23

جمہوریہ وسطی افریقہ میں  مسلمانوں کی نسل کشی

کو پڑھنا جاری رکھیں

شام کی جنگ میں کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال


شوال 1434ھ/ اگست 2013، شمارہ  17شام کی جنگ میں کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال ابو محمد معتصم باللہ

کو پڑھنا جاری رکھیں

شام کی جنگ اپنے بدترین مرحلے میں


جریدہ “الواقۃ” کراچی، شمارہ 14، رجب المرجب 1434ھ/ مئی، جون 2013

شام کی جنگ اپنے بدترین مرحلے میں

ابو محمد معتصم باللّٰہ

شام کی جنگ جو اس وقت جاری ہے ، اگر وہی جنگ ہے جس کی اطلاع احادیث میں اخبارِ قیامت کے باب میں دی گئی ہے، تو پھر اس کا جلد اختتام پذیر ہونا ممکن نہیں بلکہ اس کا دائرہ اثر وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا جائے گا ۔
دنیا نے دیکھ لیا کہ اس جنگ میں اسرائیل ، لبنان ، ترکی اور ایران براہِ راست ملوث ہوچکے ہیں ۔ ان کی شرکت معمولی صحیح مگر اس کے اثرات یقینا غیر معمولی ہوں گے ۔ جنگ میں عالمی دنیا کی دلچسپی سے بھی صرف نظر نہیں کیا جا سکتا ۔
شامی باغیوں اور شامی حکومت دونوں ہی کا کردار افسوسناک رہا ہے ۔ اگر صحیح تجزیہ کیا جائے تو بات واضح ہوگی کہ اب وہاں کئی عناصر بیک وقت سرگرم عمل ہیں ۔ تاہم جو کچھ بھی فتنہ پردازی ہورہی ہے اس کی قیمت وہاں کے بے گناہ عوام کو برداشت کرنی پڑ رہی ہے۔ کو پڑھنا جاری رکھیں

ایم ایم عالم. پاکستانی قوم کا اصل ہیرو


جریدہ "الواقۃ” کراچی، شمارہ 12-13، جمادی الاول، جمادی الثانی 1434ھ/ مارچ، اپریل 2013

ابو محمد معتصم باللّٰہ

پاکستانی قوم کے اصل ہیرو تو ایئر کموڈور محمد محمود عالم  (Air Commodore Muhammad Mehmood Alam)تھے، جنہیں قوم نے کبھی اپنا ہیرو نہیں سمجھا، جسے کبھی میڈیا نے قوم کی شناخت نہیں بنایا ۔ ٹی وی پر وینا ملک کے پروگرام کرنے والے بے شرم اینکروں کو خیال تک نہ آیا کہ ایک پروگرام ایم ایم عالم پر بھی کر دیں ۔ ایم ایم عالم کی وفات بھی ہوگئی لیکن ایسا لگا کہ جیسے ہماری تاریخ کا ایک ورق ہوا اڑا کر لے گئی اور ہمیں خبر تک نہ ہوئی ۔ کاش گلوکاروں اور فنکاروں کو اپنا ہیرو سمجھنے والی قوم کبھی ایم ایم عالم کی عظمت کی بھی قدر کرتی ۔ کو پڑھنا جاری رکھیں

مریم جمیلہ مغرب کے لیے اسلام کی سفیر


جریدہ "الواقۃ” کراچی، شمارہ  7  ذوالحجہ 1433ھ/ اکتوبر ، نومبر 2012

ابو محمد معتصم بااللہ

مریم جمیلہ

 

مغرب کے لیے اسلام کی سفیر
 
مریم جمیلہ ( پیدائشی نام: مارگریٹ مارکس ) مغرب کے لیے اسلام کی سفیر تھیں ۔ ان کی زندگی اور ان کے رویے نے اہلِ مغرب کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ اسلام ایک واقعی غیر معمولی روحانی تاثیر کا حامل دین ہے ۔ وہ اپنی ذات میں اللہ تبارک و تعالیٰ کی نشانی تھیں ۔ ٢٣مئی ١٩٣٤ء کو نیو یارک کے ایک یہودی خانوادے میں پیدا ہوئیں ۔ ان کا خاندان جرمنی سے تعلق رکھتا تھا ۔
 
ان کی ابتدائی زندگی نیویارک میں گزری ۔ وہ زمانۂ طالب علمی میں اسلام اور عرب تہذیب سے متعارف ہوئیں جو بعد ازاں تعارف سے بڑھ کر تاثر میں تبدیل ہوگیا ۔
 
لڑکپن ہی سے جنوبی افریقہ کے شہر ڈربن سے شائع ہونے والے مسلم ڈائجسٹ کے لیے تحاریر بھی لکھتی رہی تھیں ۔ وہ علامہ محمد اسد ( سابق یہودی لیوپولڈوس ) اور محمد مارماڈیوک پکھتال کے قبول اسلام سے خاصی متاثر تھیں ۔ اوّل الذکر کی کتاب Road to Makkah ( اردو ترجمہ ” طوفان سے ساحل تک ” ) نے ان کے ذہن و قلب پر اچھے اثرات مرتب کیے تھے تاہم انہوں نے اپنے اشکالات مولانا ابو الاعلیٰ مودودی کی خدمت میں پیش کیے اس سلسلے میں ان کی مستقل خط و کتابت رہی . بالآخر انہوں نے ٢٤ مئی ١٩٦١ء کو اسلام قبول کر لیا۔
 
اسلام قبول کرنے کے بعد مولانا مودودی کی دعوت پر وہ ١٩٦٢ء میں وہ لاہور پہنچیں جہاں انہوں نے مولانا موددوی اور ان کے اہل خانہ سے ملاقات کی۔ بعد ازاں انہوں نے پاکستان میں مستقل سکونت اختیار کرلی اور یہاں محمد یوسف خان نامی شخص –جو جماعت اسلامی کے رکن ہیں –سے  شادی کی۔یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ محمد یوسف خاں پہلے سے شادی شدہ تھے اور مریم جمیلہ ان کی دوسری بیوی کی حیثیت سے ان کی زندگی میں شامل ہوئیں ۔
 
کہا جاتا ہے کہ ان کے اسلام قبول کرنے کی وجہ” مسلم ڈائجسٹ ” میں مولانا مودودی کا چھپنے والا مضمون "حیات بعد الموت ” تھا جس کے بعد انہوں نے ٥دسمبر ١٩٦٠ء کو مولانا مودودی سے بذریعہ خط پہلا رابطہ کیاتھا۔مولانا مودودی اور مریم جمیلہ کے درمیان خط و کتابت کا یہ سلسلہ ١٩٦٢ء تک جاری رہا۔ ان خطوط کا موضوع اسلام اور مغرب ہوا کرتا تھا۔ دونوں کے خطوط بعد ازاں ”مولانا مودودی اور مریم جمیلہ کی خط و کتابت ” کے عنوان سے کتابی شکل میں شائع ہوئے ۔
 
مریم جمیلہ نے اسلام قبول کرنے کے بعد اپنی تمام تر قلمی صلاحیتیں تبلیغِ اسلام کے لیے وقف کردی ۔ ان کی کتابوں میں حسبِ ذیل کتابیں شامل ہیں ::
 
 ISLAM VERSUS THE WEST
2. ISLAM AND MODERNISM
3. ISLAM IN THEORY AND PRACTICE
4. ISLAM VERSUS AHL AL KITAB PAST AND PRESENT
5. AHMAD KHALIL
6. ISLAM AND ORIENTALISM
7. WESTERN CIVILIZATION CONDEMNED BY ITSELF
8. CORRESPONDENCE BETWEEN MAULANA MAUDOODI AND MARYUM JAMEELAH
9. ISLAM AND WESTERN SOCIETY
10. A MANIFESTO OF THE ISLAMIC MOVEMENT
11. IS WESTERN CIVILIZATION UNIVERSAL
12 WHO IS MAUDOODI ?
13 WHY I EMBRACED ISLAM
14 ISLAM AND THE MUSLIM WOMAN TODAY
15 ISLAM AND SOCIAL HABITS
16 ISLAMIC CULTURE IN THEORY AND PRACTICE
17 THREE GREAT ISLAMIC MOVEMENTS IN THE ARAB WORLD OF THE RECENT PAST
18 SHAIKH HASAN AL BANNA AND IKHWAN AL MUSLIMUN
19 A GREAT ISLAMIC MOVEMENT IN TURKEY
20 TWO MUJAHIDIN OF THE RECENT PAST AND THEIR STRUGGLE FOR FREEDOM AGAINST FOREIGN RULE
21 THE GENERATION GAP ITS CAUSES AND CONSEQUENCES
22 WESTERNIZATION VERSUS MUSLIMS
23 WESTERNIZATION AND HUMAN WELFARE
24 MODERN TECHNOLOGY AND THE DEHUMANIZATION OF MAN
25 ISLAM AND MODERN MAN
 
وہ لاہور میں رہائش پذیر تھیں اور یہیں بروز بدھ ٣١ اکتوبر ٢٠١٢ء کو ان کا انتقال ہوا۔
 
Deborah Baker نے مریم جمیلہ کی سوانح The Convert: A Tale of Exile and Extremism کے عنوان سے لکھی ۔ یہ کتاب ٢٠١١ء میں طبع ہوئی ہے ۔
 
ایک افسوسناک امر
مریم جمیلہ ( غفر اللہ لہا ) نورِ ہدایت کی متلاشی ایک پاکیزہ روح تھی ۔ جس نے محض اسلام کی خاطر اپنا خاندان ، معاشرہ اور ملک چھوڑ کر اسلام کے آغوشِ رحمت میں پناہ لی۔ اپنی پوری زندگی اسلامی احکام پر عمل کرتے ہوئے لاہور میں گزاری ۔ وہ قبولِ اسلام کے بعد ایک انتہائی با پردہ خاتون ثابت ہوئیں۔ بدقسمتی سے ان کی خبر وفات کے ساتھ اخبارات میں ان کی پرانی تصاویر بھی شائع کی گئیں یہ روّیہ اسلامی اخبارات و جرائد کے صفحات پر ظاہر ہوا ۔ اس کارِ مذموم کی جس قدر مذمت کی جائے کم ہے ۔ ایک باپردہ اسلامی بہن کی تصویر کی اشاعت غیر مناسب و غیر اخلاقی تھا ۔ مریم جمیلہ کی تصویر کی اشاعت کرنے والوں نے اپنی ہمشیرہ دینی کی حق تلفی کا ارتکاب کیا ہے ۔ کاش ایسا نہ کیا جاتا۔مانا زرد صحافت کے اپنے تقاضے ہیں مگر غیرتِ اسلامی کی کچھ رمق تو باقی رہے ۔

گستاخانہ فلم ۔ عالم اسلام کے خلاف نئی سازش کا نکتۂ آغاز


جریدہ "الواقۃ” کراچی، شمارہ  (5 / 6 )  شوال، ذیقعد  1433ھ/   ستمبر، اکتوبر 2012

گستاخانہ فلم ۔ عالم اسلام کے خلاف نئی سازش کا نکتۂ آغاز

ابو محمّد معتصم باللّٰہ

واہیات فلم Innocence of Muslims مسلمانوں کے خلاف عالمی سازش کا تسلسل اور ایک نئے سازشی موڑ کا نکتۂ آغاز ہے ۔ اس سازش کے ظاہری کرداروں میں سب سے نمایاں نام ٹیری جونز کا ہے ۔یہ وہی خبطی ہے جس نے گزشتہ برس قرآن پاک کے مقدس اوراق کو جلانے کی مہم شروع کی تھی تاہم عالمی دباؤ کے باعث اسے پیچھے ہٹنا پڑا ۔ لیکن اس دوران اس کاتخریبی ذہن مسلسل مسلمانوں کے خلاف متحرک رہا ۔ جس کا نتیجہ گستاخانہ فلم کی صورت میں نکلا ہے ۔

خبر ہے فلم کے لیے ١٠٠امریکی یہودیوں سے پانچ ملین ڈالر بٹورے گئے۔  یہودی جو چند ٹکے دینے میں بھی لیت و لعل سے کام لیں انہوں نے یہ رقم بخوشی پیش کردی ۔ جائے تعجب ہے ۔ گستاخانہ فلم کا پروڈیوسر بھی اسرائیلی نکلاجو فلم کی تیاری کے بعد روپو ش ہوگیا ۔

٥٢ سالہ سام باسل نامی اس پروڈیوسر کا تعلق امریکی ریاست کیلیفورنیا سے ہے اور وہ وہیں روپوش ہے۔ سام باسل ایک اسرائیلی نژاد یہودی ہے۔

گستاخانہ فلم گزشتہ برس کے آخر میں مکمل کر لی گئی تھی اور اسے امریکا میں ہالی وڈ کے ایک تھیٹرمیں چند لوگوں کو دکھایا بھی گیا تھا۔ تاہم اسے منظر عام پر نہیںآنے دیا گیا۔ اس کی تیاری پر پانچ ملین ڈالرز کی لاگت آئی ہے اور یہ ساری رقم امریکا کے ١٠٠یہودیوں سے جمع کی گئی۔

 بعد ازاں فلم کی ١٣ منٹ کی فوٹیج ویڈیو سائٹ ”یو ٹیوب”پر نشر کی گئی ۔ یو ٹیوب کی انتظامیہ نے اس پر ردعمل آنے کے بعد انٹرنیٹ سے ہٹانے کا بھی اعلان کیا ہے۔تاہم عالمی سطح پر پُرزوراحتجاج کے باوجودابھی تک نہیں ہٹا یا ہے ۔

گستاخ رسول امریکی پادری ٹیری جونزبھی اس فلم کا ایک اہم کردار ہے۔ جس عرصے میں یہ فلم اپنی تیاری کے مراحل میں تھی۔ اس دوران یہ بد بخت ، قرآن کریم کے نسخے نذرآتش کرنے کی دھمکیاں دیتا رہا ہے۔ پچھلے سال نائن الیون کی دسویں برسی کے موقع پراس نے قرآن کریم کے نسخے جلانے کا اعلان کیا تھا اور اس سال اسی کے تعاون سے اسلام اور پیغمبر اسلام کی شان میں ایک نئی گستاخی کی گئی ہے۔

فلم کو انگریزی سے عربی میں ڈب بھی کیا گیا ہے ۔ جس کے لیے مصری افراد کی خدمات لی گئی ہیں ۔جن مصری افراد نے اس گھناؤنی حرکت میں حصہ لیا ان کے خلاف مصری حکومت نے سخت تادیبی کارروائی کا حکم دیا ۔تحقیقات کے بعد  ٹیری جونز اور نو مصری نژاد قبطیوں کو مورد الزام ٹھہرایا گیا ہے اوران کی گرفتاری کے لیے وارنٹ تیارکرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
امریکی نیٹ ورک سی این این نے بیہودہ فلم میں کام کرنے والے عملے کا بیان نشر کیا ہے جن کا کہنا ہے کہ وہ سب نہیں جانتے تھے کہ فلم پروڈیوسر سیم باسل کا کیا ارادہ ہے، وہ سب اس کے ہاتھوں استعمال ہوئے اور وہ کسی کو تکلیف دینا نہیں چاہتے تھے ۔ ان کو صحرائی جنگجو Desert Warrior نامی ایک فلم کے لیے اشتہار دے کر بھرتی کیا گیا اور بتایا گیا کہ یہ ایک تاریخی فلم ہو گی ۔

سی این ان نے ایک ایکٹریس کا انٹرویو نشر کیا ہے جس نے دنیا بھر کے مسلمانوں سے معذرت کی ہے اس کا کہنا ہے کہ وہ ساری صوتحال پر بہت خوفزدہ ہے ، اور فلم بنانے والے پر شدید غصے میں ہے ۔ اس کو بتایا گیا تھا کہ یہ ایک ایڈونچر فلم ہے اور اس کا کردار بہت مختصر تھا۔فلم کے کئی ڈائیلاگ بعد میں بدلے گئے جو ایک دھوکا ہے ۔ ایکٹریس نے بتایا کہ فلم بناتے وقت مکالموں میں حضرت محمدکا نام شامل نہیں تھا بلکہ اس کی جگہ جارج یا سر جارج کا نام تھا جسے بعد میں تبدیل کیا گیا ۔

امریکا اور اسرائیل دونوں ہی نے اس فلم سے اپنی برأت کا اظہار کیا ہے اور بظاہر مسلمانوں کے ساتھ اظہارِ ہمدردی بھی کی ہے ۔ لیکن مقام غور ہے کہ اب تک انہوں نے اس گھناؤنی ساش کے کرداروں پرکوئی گرفت نہیں کی ۔  نہ اس فلم پر کسی قسم کی پابندی ہی عائد کی ہے ۔

فلم کے ردّ عمل میں جو تشدد کا رجحان نظرآتا ہے اہلِ نظر بخوبی سمجھتے ہیں کہ یہ بھی کسی بیرونی و عالمی سازش ہی کا حصہ ہے ۔ شاید یہ ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے ۔ کیونکہ توہین آمیز فلم کے خلاف عالم اسلام میں احتجاج کی حدت ابھی کم بھی نہ ہونے پائی تھی کہ فرانس کے ایک  ہفت روزہ جریدے نے نبی اکرم کے گستاخانہ خاکے شائع کرنے کا اعلان کیا ہے۔

فرانس کے دارالحکومت پیرس سے فرانسیسی زبان میں چھپنے والے میگزین ”چارلی ایبڈو”کے ایڈیٹر انچیف چارب نے میڈیا کو بتایا کہ انہوں نے بدھ کے روز کے پرچے میں ایک صفحہ خاکوں کے لیے مختص کیا ہے۔ ان خاکوں میں مسلمانوں کے پیغمبر کی زندگی پر کارٹون شامل ہیں۔فرانسیسی ٹی وی”آئے ٹیلی”سے بات کرتے ہوئے جریدے کے ایڈیٹر نے کہا کہ جو لوگ ہمارے میگزین سے نفرت کرتے ہیں، اسے پڑھنے کی زحمت نہیں کرتے اور ہمارے ساتھ لڑائی پر اتر آتے ہیں، یہ خاکے ان کے لیے تیار کیے گئے ہیں۔ ہم لڑائی کرنے والوں کے ساتھ اسی طرح لڑ سکتے ہیں۔

خیال رہے کہ گستاخانہ خاکے شائع کرنے کے مذموم عزم کا اظہار کرنے والا جریدہ اسی طرح کی جسارت پچھلے سال بھی کر چکا ہے۔ گستاخانہ خاکوں کی اشاعت پر گزشتہ برس پیرس میں اس کے دفتر پر نامعلوم افراد نے پٹرول بموں سے حملہ کیا تھا جس کے نتیجے میں دفتر کا ایک حصہ نذر آتش ہو گیا تھا۔ میگزین نے اس سال پھر وہی جسارت کی ہے اور آزادی صحافت کی آڑ میں مسلمانوں کے جذبات کو مشتعل کیا ہے۔

ادھر پیرس میں وزیر اعظم سیکرٹریٹ کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ وزیر اعظم آزادی اظہار رائے پر یقین رکھتے ہیں لیکن وہ حدود سے تجاوز کو پسند نہیں کرتے۔ انہوں نے تمام اشاعتی اور نشریاتی اداروں اور عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ احساس ذمہ داری کا مظاہرہ کریں اورکسی نئی اشتعال انگیزکارروائی سے گریز کریں۔ وزیر اعظم آئرویلٹ کا کہنا ہے کہ فرانس ایک سیکولر ملک ہے جہاں تمام مذاہب کو یکساں احترام حاصل ہے۔ میثاق جمہوریت کا اصل اصول یہ ہے کہ تمام ادیان کا احترام بجا لایا جائے۔ادھر فرانسیسی وزیر خارجہ لوران فائیبوسنے اپنے قاہرہ کے دورے کے دوران کہاکہ وہ کسی اخبار یا جریدے کو کارٹون شائع کر کے نئی اشتعال انگیزی کی اجازت نہیں دیں گے۔ لیکن ساتھ ہی انہوں نے آزادی اظہار رائے کا راگ الاپتے ہوئے اپنی ہی کہی بات کی نفی کر دی کہ ان کے ملک میں کچھ بھی شائع کیا جا سکتا ہے کیونکہ ہر ایک کو اپنی رائے کے اظہار کی مکمل آزادی حاصل ہے۔

دوسری طرف خیال رہے کہ امریکا بہادر نے دنیا ، بالخصوص اسلامی دنیا کو خبردار کیا ہے کہ وہ اسلامی ممالک میں اپنے سفارت خانوں کی حفاظت کو ہر ممکن صورت یقینی بنائے گا ۔ اس کے لیے وہ اپنی فوجیں بھی مامور کرسکتا ہے ۔ چنانچہ سوڈان کے لیے امریکی فوجوں کی تعیناتی کا اعلان ہوچکا ہے ۔ اس اعلان کے ساتھ مسلم دنیا کے روشن ضمیر افراد پر اس سازش کے تمام اسرار منکشف ہوجاتے ہیں کہ اس سازش کے اصل کردا ر کون ہیں ؟ اور یہ کہ ان کے مقاصدکیا ہیں ؟

نبی کریم کی شانِ اقدس میں گزشتہ کئی برسوں سے ہونیوالی رذیلانہ حرکتوں کے خلاف مسلم امہ سراپا احتجاج ہے ۔ لیکن انہیں احتجاج پر مجبور کرنے والے بغیر کسی مقصد کے ایسا نہیں کرسکتے ۔ نیز یہ سلسلہ رکتا ہوا نظر نہیں آتا ۔ اسی طرح ان ذمہ دار ممالک کے ارباب اقتدار بھی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کر رہے ۔ اس لیے یہ کہنا بجا ہوگا کہ گستاخانہ فلم محض ایک سازش نہیں بلکہ مسلمانوں کے خلاف بپا عالمی سازش کا ایک اہم ترین موڑ ہے ۔